سیرِ ُگل...رشید بٹ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Thursday, 20 October 2016

سیرِ ُگل...رشید بٹ

0 comments

رشید بٹ کی کہانی.... رشید بٹ کی زبانی
یہ کہانی لگ بھگ 1900ءکے اوائل سے شروع ہوتی ہے۔ ہم 6 بھائی بہن تھے۔ 3 بھائی 3 بہنیں۔ مَیں ”رشید بٹ“ سب سے چھوٹا تھا۔ زندگی کے اتار چڑھاﺅ میں سب اپنے اپنے راستوں پر چلتے رہے۔ کبھی ایک دوسرے سے خوش اور کبھی خفا! نہیں ملتے تھے تو برسوں نہیں ملتے تھے۔ پاکستان بننے کے بعد کچھ نے دبئی میں ڈیرا جما لیا۔ کوئی برطانیہ چلا گیا اور کسی نے چین کی راہ لی۔ میں زیادہ عرصہ چین میں رہا۔ ہم سب کے بچے بھی بکھرتے رہے کوئی سیالکوٹ، کوئی لاہور اور کوئی راولپنڈی/اسلام آباد میں جا بسا۔ بھائی بہن ایک ایک کر کے دنیا سے ہی کنارہ کر تے گئے۔ ابھی چند روز پہلے ایک بھائی (منجھلے بھائی) نذیر جو برسوں قبل برطانیہ جا بسے تھے، وہیں انتقال کر گئے۔ مجھے اطلاع ملی۔ مَیں حساب کتاب میں کھو گیا اور جب اُس حساب کتاب کے کنوئیں سے سے نکلا تو یہ جانا کہ اُن 6 بھائی بہنوں میں سے صرف ”مَیں “ یعنی رشید ہی اکیلا رہ گیا ہوں۔ شاید اس لیے بھی کہ مَیں اُن سب میں سے ”چھوٹا“ تھا۔ اس قریباً سو برس کے عرصے میں ہمارے والدین بھی اللہ میاں کو پیارے ہو چکے تھے۔ تو کیا مَیں اب سمجھ لوں.... جان لوں .... کہ اُس بکھرے کنبے میں صرف ”مَیں“ ہی باقی رہ گیا ہوں! اور ”مَیں“ بھی اب زندگی کے اس پڑاﺅ پہ ہوں کہ ”جانے کب بھرکھا رُت کی کوئی ندیا بنوں اور بستی بستی بکھر جاﺅں!“اپنے ان بھائی نذیر صاحب کے بارے میں مَیں نے ایک مضمون” سیرِ گل “ میں شاید بہت کچھ لکھا ہے ۔ مَیں اُس مضمون کا بھی اس کے ساتھ Link دے رہا ہوں۔ اس میں بھارت کے ممتاز فلم ڈائریکٹر اور گیت نگار” گلزار “ کا تبصرہ بھی شامل ہے ۔ 27جنوری 2020ء

اجمال اور احوال کچھ یوں ہے کہ ایک بے تکان طائرِ ّمتجسس وسیع علاقے کے پہاڑوں، میدانوں، کھائیوں اور دریاﺅں کو اپنی انتھک پرواز تلے کھوجتا اور کھنگالتا ہوا بالآخر تلاش کے پروں کو ”دینہ“ کے آسمان پر سمیٹ لیتا ہے، یہ قریہ ¿ حیرت اثر فطرت کی رعنائیوں کا بے ساختہ پن ہے۔ متذکرہ سارے علاقے اور حوالے گلزار کی ذات سے بالواسطہ منسلک و مربوط ہیں۔ اگر اس سارے زمینی پھیلاﺅ کو فکری لحاظ سے ”اقلیمِگلزار“ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ جہاں جہاں گلزار نہیں بھی گئے وہاں وہاں اُن کی شباہت دبے پاﺅں چلی آئی ہے۔
رشید بٹ نے ایک چھوٹی سی بھری دنیا کی سرو سامانی سے بے سرو سامانی اور مکانی سے لا مکانی تک کی انسانی کتھا کو اپنا موضوع بنایا ہے، آج گھر کو کندھوں پر لیے پھرنے والے ہر شخص کی زبان پر ایک سوال ہے۔
اِس زمین پر رہنے والے کب تک اِسی زمین کی مکانیت بدلتے رہیں گے؟
کاش ہتھیاروں کے زور پر تاریخ بنانے والے یہ بات سمجھ سکتے کہ وہ ُکرہ ¿ ارض کا جغرافیہ نہیں بدل سکتے۔ کاش ہر چیز کو پیمانوں، مسافتوں اور فاصلوں سے ماپنے والے اِس چھوٹی سی بات کو سمجھ پائیں کہ یہ ساری دنیا وطن کے رقبے سے بڑی نہیں ہے، بسا اوقات تو دھرتی ماتا پر جہاں تک کوئی بے فکری سے اپنے پیر پسار لیتا ہے، وہی اس کی دنیاہوتی ہے۔
یہ رپورتاژ اپنے اندر کچھ ایسے سوال سمیٹے ہوئے ہے جس کا جواب ہردرد مند انسان مانگتا ہے۔
انسانوں کا انسانوں کو مار دینا خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
جو انسان لڑکپن میں دنیا کا نقشہ بڑی محنت ،مہارت اور لگن سے بناتے ہیں بڑے ہوکر وہی اُسے بگاڑنے کے درپے کیوں ہوجاتے ہیں؟ایسا کیوں ہے؟
 آج درس گاہوں میں دوسرے علوم کے ساتھ کا نصاب کیوں نہیں پڑھایا جاتا - ؟

بعض انسانوں کے اندر پورے پورے آدم خور قبیلے آباد ہیں جو کسی بھی بہانے معصوموں کی بستیوں میں در آتے ہیں اور پھر دیکھنے والی فضا تک کا سانس اُوپر کا اُوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ انسانوں کے درمیان رہنے والا ہر انسان غیر محفوظ کیوںہے؟



گلزار کا جسم ممبئی میں اقامت پزیر ہے اور روح ”دینہ“ میں رہتی ہے اور جب وہ جسم و جاں کے مابین حائل ان دُوریوں کو اُن کی تمام تر جزئیات کے ساتھ سمیٹتے ہیں تو رعنائیِ جمال و خیال کی ایک ایسی دنیا وجود پاتی ہے جو دلکشی سے تر بتر اور نغمگی سے شرابور ہے- اُن کے محسوسات کی وسعت لامکانیت میں ہے لیکن شخصی راجدھانی کی بود و باش والی حدیں پوٹھوہار اور اس سے متصل وہ علاقے ہیں جو دُور رہتے ہوئے بھی اُن کے پیشِ نظر رہتے ہیں۔
رشید بٹ کا تحریر کردہ رپورتاژ”سیرُِ گل“دینہ کا طواف کرتے ہوئے وسیع علاقے کی تہذیبی، جغرافیائی، تمدنی، معاشی اور سماجی کیفیتوں اور حیثیتوں کا احاطہ کرتا ہے بلکہ اُس سے جُڑے ہوئے اُن دور دراز علاقوں تک نفوذ کرگیا ہے جو اس موضوع سے بہر نوع علاقہ رکھتے ہیں۔

”سیرِگُل“زمان و مکاں کی قید میں رہ کر احوالِواقعی کی صورت ایک مخصوص عہد کا ترجمان ہے لیکن داستان گو کہیں کہیں شاہراہ کو چھو ڑکر پگڈنڈیوں پر چل پڑتا ہے اور اِتنی دُور نکل جاتا ہے کہ دوسری شاہراہ اُس کے قدم سمیٹ لیتی ہے۔ پھر کچھ دُور چل کر یہی شاہراہ دوبارہ پگڈنڈی بن جاتی ہے اوریوں کچےّپکےّ راستوں کا ادغام اُسے مزید چلتے رہنے پر کمر بستہ رکھتا ہے۔
اقبال نظر


رشید بٹ صاحب نے پورا جغرافیہ، پوُری تواریخ ، پوٹھوہار پنجاب کی ، زبان و تہذیب کے ساتھ سامنے رکھ دی۔ یہ تحقیق بھی تواریخی ہے۔ اسے کتابوں میں سنبھال لینا چاہیے۔ یہ کام روز روز نہیں ہوتے۔ بٹ صاحب، جو باقی ہے وہ بھی مکمل کردیجئے....آنے والی نسلیں آپ کو دعائیں دیں گی۔ (گلزار)

(1)
Image result for potohar region
داستان گو، یوں داستان سرا ہوتا ہے۔ 
گھنٹے بھر سے دریائے جہلم کے آہنی پُل کے اِس جانب کھڑا تھا جو سرائے عالمگیر کی طرف ُکھلتی ہے۔ دیر تلک تو اُس بزرگ، ہماتڑ اور گئی گزری بس کے اندر ہی سیٹ پر پہلو بدلتا رہا کہ ساون بھادوں میں جب بادل کھُلتے ہیں تو سورج کی تپش اوردھوپ کی شعائیں سُویاں سی بن کر جسم میں چبھتی ہیں اور پسینہ اُن کی جلن کے لیے نمک بن جاتا ہے۔ داستان سرابس سے نکل آیا۔ اور بسیں بھی اُن دنوں کی! اللہ معاف کرے ،چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں، اُن میں بھی سلاخیں جَڑی ہوئی۔ اصل بات یہ تھی کہ دوسری جنگِ عظیم کو ختم ہوئے زیادہ دن نہ بیتے تھے۔ اس زمانے کے گولہ بارود کھائے زخمی، ناکارہ، ٹرک متروک فوجی گوداموں سے نیلامیوں کے ”مراحل “ طے کرتے ہوئے کباڑیوں کے کباڑ خانوں کی زینت بن رہے تھے جنہیں ٹھوکا ٹھاکی کے بعد ”بلیک ہول“ بسوں کی شکل دے دی جاتی تھی۔ ایسی ہی ایک ”بلیک ہول“ سے نکل کے قریب ترین پیڑ کے سائے میں کھڑا سوچ رہا تھا اور جہلم کی طرف سے آنے والے ٹریفک کی ”آخری“ گاڑی کے انتظار میں تھا۔ آخری گاڑی کوئی گدھا گاڑی یا بیل گاڑی بھی ہوسکتی تھی۔ پچھلے دو ڈھائی برس میں اِس پُل کو چند بار پار کرچکا تھا لہٰذا ایک اندازہ بھی تھا اور ٹریفک کنٹرول کے طریقہ ¿ کار سے بھی کچھ کچھ واقف تھا۔ منظر نامہ یوں کہہ لیجئے کہ یہی انیسویں صدی کے اواخر میں انگریزوں نے جب دریائے جہلم پر یہ پُل تعمیر کیا تو ریلوے ٹریک کے ساتھ ہی پتلی سی ایک سڑک بھی بچھا دی، اتنی تنگ کہ ایک وقت میں اس پر ایک طرف کا ٹریفک ہی گزر سکتا تھا۔ اِس پُل کی تعمیر کا دَور شاید چھوٹی چھوٹی بیل گاڑیوں ،بہلیوں،تانگوں یا کبھی کبھار اِکّا دکّا فوجی جیپوں کا زمانہ تھا لہٰذا دو طرفہ ٹریفک بھی گزر لیتا ہوگا لیکن انہیں شاید اندازہ نہ تھا کہ اُن کی اپنی نو آبادیاتی پالیسی ”پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو (Divide and Rule)“ کے طفیل چالیس پچاس سال بعد ہی دوسری عالمی جنگ ہوگی، لاکھوں لوگ مارے جائیں گے، فوجی اور نیم فوجی بڑی گاڑیوں کی آمد و رفت میں اضافہ ہوگا،اُن کے زیرِ تسلط اِس خِطّے کابٹوارا ہوگا اور آبادیوں کی تاریخی اعتبار سے عظیم اُکھاڑپچھاڑ ہوگی۔ انگریزوں کی پیشانی پر اپنی اِس نو آبادی پر حکومت کے حوالے سے یوں تو بے شمار بد نما داغ ہیں لیکن دوسری جنگِ عظیم سے قبل امرتسر میں 1919ءکا ”جیلیانوالہ باغ قتلِ عام “کے داغ سے تو ابھی بھی خون رِسنا بند نہ ہوا تھا۔ اس سانحے میں شہید ہونے والے محکوموں بلکہ برطانوی راج کی ”رعایا“ میں گو کوئی تفریق نہ تھی لیکن کہا جاتا ہے کہ وطن کی آبرو پر قربان ہونے والوں میں سِکھ زیادہ تھے۔
لیکن ذرا رکیے، یہ اتنا چھوٹا یا معمولی واقعہ نہیں جس کا سرسری ذِکر کرتے گزر جائیں۔ برِصغیر بلکہ دنیا بھر میں برطانوی نوآبادیاتی راج کے تابوت میں جو بہت سی کیلیں ُٹھکیں، ”جیلیانوالہ باغ قتلِ عام“ اُن میں ایک بڑی کیل تھا-اتوار،13مارچ 1919ءامرتسر، بریگیڈیئر ڈائر-ذرا چند برس پیچھے چلے جائیے۔4اگست1914ءکو پہلی عالمی جنگ کا آغاز ہوتا ہے تو برِصغیر اپنے نوآبادیاتی انگریز حکمرانوں کو افرادی اور مادی وسائل میں سب سے بڑھ کر مدد دیتا ہے ۔ برطانیہ اس ”مدد“ کے لیے دو ذریعے کام میںلاتا ہے۔ ایک اُن نوابوں اور جاگیرداروں کے توّسط سے افرادی اور مادی وسائل کا حصول، جنہیں مختلف اوقات اور احوال میں برِصغیر میںبرطانوی استبداد مستحکم کرنے کے صلے میں جاگیریں عطا کی گئی تھیں اور محکوموں کو رعایا در رعایابنایا گیا تھا۔ دوسرے برطانوی پولیس اور فوج کی مدد سے جبری بھرتیاں اور وسائل کا حصول۔ اس موضوع پر یوں تو بے شمار تحقیقی اور روائتی تحریریں سو برس کے عرصے میں منظرِ عام پر آئیں لیکن یہ میری ذاتی رائے ہوسکتی ہے کہ فکشن کے انداز میں ممتاز ناول نگار عبداللہ حسین نے اس صورتِ حال پر بڑی گیرائی کے ساتھ نظر ڈالی ہے۔ اُن کی کتاب ”اُداس نسلیں“ سے چند پیرے کچھ اِس طرح ہیں۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ منظر پنجاب کے گاﺅں دیہات میں بسنے والے کسانوں سے متعلق ہے:
”پولیس کے سپاہی ہر طرف سے کسانوں کو گھیر کر لارہے تھے۔“
ایک انگریز سارجنٹ نے شُستہ اردو اور بھاری ، کرخت فوجی لہجے میں ہجوم کو مخاطب کیا: ” اپنے ملک، اپنی حکومت کی حفاظت کرنے کا فرض ہر فرد پر عاید ہوتا ہے۔ جنگ تمہارے ملک اور تمہاری حکومت کو تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔“
”جنگ جیتنے کے لیے ہمیں جوانوں کی ضرورت ہے۔ جس کے پاس زیادہ جوان ہوں گے، وہ حکومت جنگ جیتے گی۔ ہمارے ملک میں لاکھوں جوان ہیں۔ اُن کی مدد سے ہم ضرور فتح حاصل کریں گے۔ جوانوں کو چاندی کے سات شاہی سِکّے ماہوار دیے جائیں گے اور راشن وردی کی ذمّہ دار حکومت ہوگی۔جنگ ختم ہونے پر جوان واپس آجائیں گے۔“
”واپس آجائیں گے۔“ بڈھا رحمت طنز سے ہنسا۔ ” جنگ میں اب خون بہنا بند ہوگیا ہے۔ ہم تماشے پر جارہے ہیں؟“
”حکومتِ برطانیہ کو بچانے کے لیے آپ کی ضرورت ہے۔ جوان اپنے نام دیں۔“
”ہمیں تعلیم یافتہ لوگوں کی ضرورت نہیں، کسانوں کی ضرورت ہے۔“
دھوپ میں چمکتے ہوئے کھیت تھے اور گیہوں کے بھاری خوشے شرابیوں کی طرح ہوا میں جھوم رہے تھے۔ جگہ جگہ کٹی ہوئی فصل کے انبار بڑے بڑے مردہ کچھوﺅں کی طرح سنسان کھیتوں میں پڑے تھے اور ایک، اِکلوتی سیاہ گھوڑی اُن کے درمیان پھررہی تھی۔ آسمان پر چیلیں زبانیں نکالے چیخ رہی تھیں اور دوپہر کی گرم ہوا کھیتوں میں، کھلیانوں میں، فصلوں میں اور کسانوںکے پسینے کی منتظر خشک مٹیالی زمینوں میں سرسرارہی تھی۔
”ہم کٹائی پر جارہے ہیں۔ کٹائی ختم کرکے جائیں گے۔“مختلف جگہوں سے چند دبی دبی آوازیں آئیں۔”ہم کیا کھائیں گے۔ فصل کو گیدڑاٹھائیں گے۔ہیں؟ ہم نہیں جائیں گے۔ سارے برس ہم نے سو ¿روںکے لیے محنت کی؟“
سارجنٹ نے ایک نظر مڑ کر انگریز فوجیوں کو دیکھا اور پھر مضبوط آواز میں بولا، ” ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہمیں سارے ضلع میں جانا ہے۔ اپنے نام دو۔“
-ایک فوجی رُکی ہوئی گاڑی پر جا چڑھا- اور بازو پھیلا کر تیز لہجے میں بولا، ”اپنی فصلیں اب تم اِس سے کاٹو گے۔ اور میدانِ جنگ میں کاٹو گے۔“ یہ کہہ کر اُس نے سنگین ہوا میں لہرائی۔ چمکتے ہوئے فولاد پر سورج کا عکس پڑا اور بیلوں نے بِدک کر سینگ جھٹکے۔ پھر اُس نے ماہرِفن کی طرح سنگین گاڑی کے فرش پر پھینکی جو جاکر لکڑی میں گڑ گئی۔ سنگین لگی رائفلوں سے جوانوں کو ہانکا جانے لگا۔


اِس میں بھی کامیابی نہ ہوئی....

دوسرا منظر-جاگیردار کی آمد
اگلی صبح انگریز افسر جو راتوں رات گاڑی لے کر کہیں چلا گیا تھا، لوٹا۔اس کے ساتھ روشن آغا تھے۔ وہ فوجی گاڑی کی اگلی سیٹ سے اُتر کر حویلی تک آئے اور وہیں کھڑے کھڑے جوانوں کو اکٹھا کرنے کو آدمی دوڑادیے۔ اُن کی آواز پر دیکھتے دیکھتے گاﺅں کے تمام جوان، بوڑھے اور بچے حویلی کے میدان میں جمع ہوگئے۔( یہ سب مزارع تھے)- روشن آغا نے ایک اُکتائی ہوئی، سرپرستانہ نظراُن پر ڈالی اور کرسی پر چڑھ کر کھڑے ہوگئے۔ پھر ایک مختصر سی تقریر کے دوران انہوں نے ہندوستانی کسانوں کی بہادری، حکومتِ برطانیہ سے اُن کی وفاداری اور جنگ کی ہولناکیو ںوغیرہ کا تذکرہ کیا۔ اِس تمام دوران میں سارے فوجی افسر سینے پر ہاتھ باندھے بڑی متانت اور لاتعلقی سے کھڑے رہے۔ آخر میں روشن آغا نے جنگ پر جانے والوں کے خاندانوں کی دیکھ بھال کا ذاتی طور پر ذمّہ لیتے ہوئے سرسری لیکن فیصلہ کن لہجے میں بھرتی کے لیے پیش ہونے کا حکم دیا۔ اب کسی کو دَم مارنے کی مجال نہ تھی- تین گھنٹے کے اندر اندر گاﺅں کے زیادہ تر نوجوان جو تعداد میں چالیس تھے، بھرتی کرلیے گئے۔
-
ایک اندازے کے مطابق پہلی جنگ ِعظےم میں برطانوی ہند کی ”رعایا“ میں سے لگ بھگ بارہ لاکھ فوجی، مزدور اور کارکن بھرتی کیے گئے جنہیں یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں بھیجا گیا۔ اُن میں سے کتنے تو پوں کا چارہ بنے اور کتنے زندہ لوٹ کے آئے، اِس کا کوئی حساب کتاب منظر پہ نہیں آتا۔ اِس کے علاوہ برطانوی ہند کے رجواڑوں اور خود حکومت نے ، اپنے محکوموں کو بھوک، اشیائے خورونوش وصرف کی نایابی کا شکار رکھ کے خوراک، پیسے اور اسلحے کی صورت میں عالمی جنگ کے دوران قلمروئے برطانیہ کا ہاتھ بٹایا۔ تاہم تاریخ کے صفحات یہ بھی بتاتے ہیں کہ نوآبادیاتی جبر کے باوجود بنگال اور پنجاب نوآبادیّت مخالف سرگرمیوں کا مرکز رہے۔1914ءاور1917ءکے درمیان تشدّد آمیزانقلابی کارروائیوں اور اہم افراد کی گرفتاریوںکا ایک سبب شاید حکومتِ برطانوی ہند کی طرف سے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ1915ءکا نفاذ بھی تھا جس کے تحت شہری اور سیاسی آزادیوںکو محدود کردیا گیا تھا۔ اُس وقت پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈوائر، اِن پابندیوں کے سب سے بڑے حامی تھے، کیونکہ اُن کی نظر میں پنجاب میں غدر بپاہونے والا تھا۔اُدھر عالمی جنگ مالی اور افرادی قوت کی صورت میں بھاری قیمت وصول کررہی تھی۔ نتیجتاًروز افزوں افراطِ زر، بھاری ٹیکسوں کے نفاذ، تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ اور1918ءمیں فلوکی وباءنے عوام کی کمر توڑکے رکھ دی۔ اس ساری صورتِ حال کا ادراک کرتے ہوئے انڈین نیشنل کانگریس کے اعتدال پسند اور انتہا پسند دھڑے اپنے اختلافات سے قطع نظر نہ صرف یکجا ہوگئے بلکہ 1916ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے ساتھ ”میثاقِ لکھنو ¿“ بھی ہوگیا۔ یہ سب باتیں حکومتِ برطانوی ہند کی نظروں میں تھیں کہ اِسی عرصے میں اُسے مہندر پرتاب کے افغانستان مشن کی بھنک پڑ گئی جس کا ممکنہ تعلق روس کے نوزائیدہ بالشویک انقلاب سے تھا۔ حکومتِ برطانوی ہندنے1918ءمیں سڈنی رولٹ(Rowlatt)کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کردی جس کا کام ہندوستان، خصوصاًپنجاب اور بنگال کے حریّت پسندوں کے بالشویکی انقلاب اور جرمنی سے روابط کا خفیہ جائزہ لینا تھا۔ اس کمیٹی نے رولٹ ایکٹ1919ءکے تحت جو سفارشات پیش کیں وہ فی الواقع ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ1915ءہی کا سخت ترتسلسل تھا۔ اِس کے نفاذ کے نتیجے میں برِصغیر میں سیاسی بے چینی اور شورش دوچند ہوگئی۔ مہاتما گاندھی کی اپیل پر رولٹ ایکٹ کے خلاف عوامی سطح پر شدید احتجاج اور غم و غصّے کا اظہار کیا گیا۔ پنجاب میں ، خاص طور پر ریلوے، ٹیلی گراف اور دیگر مواصلاتی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں سارا لاہور سڑکوں پر آچکا تھا۔ ایک اندازے کے مطابق صرف انارکلی میں 20ہزار کے لگ بھگ اور امرتسر کے جیلیا نوالہ باغ میں 5ہزار سے زائد مظاہرین جمع ہوئے اور اگلے چند روز میں صورتِ حال بد سے بدتر ہوتی چلی گئی۔ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈوائر کے بقول انہیںمئی1919ءمیں ایک ”مربوط بغاوت کی بوُ “ آرہی تھی۔ ویسی ہی جیسی 1857ءمیں ہوئی تھی ! اور پنجاب انتظامیہ کی نظر میں اس قسم کی سازش کا تعلق غدرپارٹی سے ہوسکتا تھا اور اِس سازش کا توڑ ”امرتسر جیلیانوالہ باغ قتلِ عام“ تھا!
10اپریل1919ءکو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ پر احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ تحریکِ آزادی ¿ ہند کے دو رہنماﺅں ستیہ پال اور سیف الدین کِچلو کو رہا کیا جائے جنہیں حکومت نے گرفتار کرکے کسی نامعلوم مقام پر رکھا ہوا ہے۔ یہاں ایک بات کہتا چلوں کہ حکومت ، انتظامیہ، پولیس اور ایسے ہی دیگر اداروں کے لیے ’ ’نامعلوم مقام“کبھی بھی نئی بات نہیں رہی۔ نامعلوم مقام، نامعلوم افراد کا وجود ہمیشہ رہا ہے اور شاید رہے گا۔ 1979ءکی بات ہے۔ مَیں پیکنگ ( موجودہ پئی چنگ)میں تھا۔ چینی حکومت کا ملازم تھا۔ کسی کام کے لیے مجھے اپنے علاقے کے تھانے میں جانا پڑا۔ ایک اہل کار میرا پاسپورٹ لیے اپنی کارروائی کررہا تھا کہ ہال ہی میں ایک خاتون کے رونے اور شورمچانے کی آوازیں آنے لگیں۔ یہ شہر کا نیم مضافاتی علاقہ تھا اور خاتون کے پہناوے اورلہجے سے لگتا تھا کہ وہ قرب و جوار کے دیہی علاقے کی کسان عورت ہے۔ وہ کہہ رہی تھی،” کوئی تھانے والا میری بات نہیں سن رہا۔ میرے میاں کو تین دن پہلے پکڑ کر یہاں لائے تھے۔ اب مَیں روز یہاں آرہی ہوں۔ جس سے پوچھتی ہوں وہ ’مجھے نہیںمعلوم‘ کہہ کے آگے بڑھ جاتا ہے ۔پتا نہیں میرے میاں کو کہاں رکھا ہوا ہے؟“ یہ پینتیس چھتیس برس پہلے کی بات ہے۔ نامعلوم مقام اور نامعلوم افراد ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔
فوجیوں نے ہجوم پر فائر کھول دیا اور کئی مظاہرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ نتیجتاً اشتعال پھیل گیا۔ کئی بینکوں، سرکاری عمارتوں، ٹاﺅن ہال اور ریلوے اسٹیشن کو نذرِآتش کردیا گیا۔ پُرتشدّد واقعات میں کم و بیش5یورپی مارے گئے۔ ایک یورپی مشنری خاتون مرسیلا شروڈ(Marcella Sherwood) کو ہجوم نے ایک گلی میں ماراپیٹا۔ اس پر مقامی فوجی کمانڈر بریگیڈیئر ڈائرنے انکوائری کا حکم دے دیا۔
اس نے ہجوم کو فوجی گھیرے میں لے کر حکم دیا کہ وہ ہاتھ پاﺅں کے بَل رینگتے ہوئے اُس خاتون کے سامنے سے گلی پار کریں۔ بقول ڈائر ”مَیں انہیں بتانا چاہتا تھا کہ ایک برطانوی خاتون تقدّس میں(مندر میں بیٹھی یا کھڑی)کسی ہندو دیوی سے کم نہیں، لہٰذا وہ اُس کے سامنے سے رینگتے ہوئے گلی پار کریں۔“اگلے دو دن امرتسر میں خاموش گزرے اور یہ خاموشی ایک بڑے طوفان کا پیش خیمہ تھی۔ 13 اپریل 1919ءکو حکومت ِ برطانوی ہند نے پنجاب میں مارشل لا نافذ کردیا جس کے تحت ہر قسم کے اجتماع بلکہ چار سے زیادہ افراد کے کسی ایک جگہ اکٹھے ہونے پر پابندی لگادی گئی۔ دوسری جانب 12 اپریل کو امرتسر کے ہندو کالج، ڈب کھٹیکاں میں ہڑتالی رہنماﺅں نے ایک جلسے میں ڈاکٹر سیف الدین کِچلو کے ایک معاون ہنس راج نے 13 اپریل شام ساڑھے چار بجے جیلیانوالہ باغ میں احتجاجی جلسے کا اعلان کردیا۔ اِس جلسے کی صدارت ممتاز کانگریسی رہنما لال کنہیالال بھاٹیا کو کرنا تھی۔ اتفاق جانئے کہ 13 اپریل 1919ءکو نہ صرف اتوار کا دن بلکہ بیساکھی کا تیوہار بھی تھا۔ بیساکھی پنجاب میں کسانوں کے لیے فصل کی کٹائی کے آغاز کا تیوہار ہوتا ہے اور اس میں ہندو، سِکھ، مسلمان کی کوئی تخصیص نہیں ہوتی۔ بس سارے کسان ہوتے ہیں۔ بریگیڈیئر ڈائر نے صبح 9 بجے اعلیٰ حکام کے ہمراہ شہر کا دورہ کیا۔ جیلیانوالہ باغ میں کسی بھی قسم کے اجتماع کی روک تھام کے لیے شہر میں داخلے اور شہر سے نکلنے کے لیے پاس سسٹم اور 8 بجے رات سے کرفیو کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اعلانات انگریزی، اُردو، ہندی اور پنجابی میں کیے گئے لیکن کسی نے اُن پر توجہ نہ دی۔ دریں اثناءسی آئی ڈی اور مقامی لوگوں میں شامل سادہ لباس مخبروں نے جیلیانوالہ باغ میں اکٹھے ہونے والے مظاہرین کے بارے میں اطلاعات پہنچا دیں۔ بریگیڈیئر ڈائر کو 12 بج کر 40 منٹ پر یہ خبریں پہنچادی گئیں اور ڈائر آئندہ کا لائحہ ¿ عمل طے کرنے کے لیے ڈیڑھ بجے سہ پہر اپنے ہیڈ کوارٹرز پہنچ گیا اور اس کے بعد قتلِ عام کا وہ بدنامِ زمانہ سانحہ رونما ہوا جس کی بازگشت آج 96 برس بیت جانے کے بعد بھی سنائی دے جاتی ہے!
جیلیانوالہ باغ امرتسر کے ہر مندر صاحب کے قریب واقع تھا۔ اس کی لمبائی چوڑائی 200 گز سے زیادہ نہیں اور چاروں طرف کوئی 10 فٹ اونچی دیوار۔اس میں داخلے کے پانچ تنگ سے راستے تھے۔ یہی راستے باہر نکلنے کے لیے بھی استعمال ہوتے تھے۔ تاہم ، اُن میں سے بعض راستوں کے گیٹ اکثر مقفّل رہتے تھے۔آس پاس کی رہائشی عمارتوں کی بالکنیوں اور کھڑکیوں سے باغ کا اندرونی منظر دیکھا جاسکتا تھا۔ برسات میں لوگ باغ میں سبزیاں بو دیتے جب کہ سال کے باقی عرصے میں یہ چھوٹے موٹے جلسوں اور کھیل کود کے میدان کے طور پر استعمال میں رہتا تھا۔ باغ کے عین وسط میں ایک سمادھی تھی اور کنواں بھی۔
بیساکھی کے اُس خوشیوں بھرے لیکن بدقسمت دن -اتوار 13 اپریل 1919ء- سہ پہر تک جیلیانوالہ باغ میں ہزاروں سِکھ، مسلمان اور ہندو جمع ہوچکے تھے۔ کچھ سردار صاحبان ایسے بھی تھے جو گولڈن ٹمپل میں گرنتھ پاٹھ کرکے اِس راستے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ ایک اندازے کے مطابق جیلیانوالہ باغ میں تب تک بیس سے پچیس ہزار افراد اکٹھے ہوچکے تھے۔ بریگیڈیئر ڈائر نے باغ کی اندرونی صورتِ حال اور مجمع کا فضائی جائزہ لینے کے لیے پہلے ایک طیارہ بھیجا۔بریگیڈیئر ڈائر، ڈپٹی کمشنر اِرونگ (Irving) ، اور امرتسر کی سول انتظامیہ نے مجمع کو پُر امن طریقے سے منتشر کرنے کی کوشش نہ کی بلکہ ٹھیک ساڑھے چار بجے بریگیڈیئر ڈائر 90 گنر(Gunners) ساتھ لے کر جیلیانوالہ باغ پہنچ گیا۔ گنرز میں 65 گورکھا اور 25 بلوچ اور پٹھان تھے۔ اُن میں سے 50 رائفلوں سے لیس تھے اور 40 کے پاس کھکریاں تھیں۔ ڈائر بڑی چالاکی دکھاتے ہوئے ایسے گنر لایا تھا جو نسلی اعتبار سے پنجابی نہیں تھے اور اُن کی وفاداریاں برطانیہ کے ساتھ مشروط تھیں۔ اُس کے ساتھ دو بکتر بند گاڑیاں بھی تھیں، جنہیں باغ سے باہر ہی حملے اور فائرنگ کے لیے تیار رکھا گیا کیونکہ تنگ راستوں کی وجہ سے وہ باغ میں داخل نہیں ہوسکتی تھیں۔ ڈائر نے کوئی وارننگ دیئے بغیر، گنرز کو براہ ِ راست فائرنگ کا حکم دے دیا۔ فائرنگ تقریباً دس منٹ جاری رہی۔ فائرنگ اسکواڈ کو حکم تھا کہ اُدھر فائر کریں جدھر ہجوم زیادہ ہو۔ ڈائر نے بعد میں کُھلے بندوں کہا کہ اُس نے ”ہندوستانیوں کو نافرمانی کی سزا دی۔ مقصد انہیں منتشر کرنا نہیں تھا۔“
10 منٹ اور تقریباً 1650 راﺅنڈ -کہ اس کے بعد گولیاں ختم ہوگئی تھیں۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے ہجوم میں بھگدڑ مچ گئی۔ لوگ باہر نکلنے والے تنگ راستوں یا دروازوں کی طرف بھاگے۔ کچھ نے جان بچانے کی خاطر باغ کے کنوئیں میں چھلانگ لگادی۔ یہ قتل ِ عام تھا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق 379 افراد ہلاک اور 1000 سے زیادہ زخمی ہوئے، جب کہ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق کم و بیش 1000 افراد ہلاک اور 1500 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔ حکومت نے ابتداً اس قتل ِ عام کے واقعے کو دبانے کی کوشش کی لیکن یہ اُس کے بس میں نہ تھا۔ خبر ملک بھر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور پھر بیرونی دنیا اِس خوفناک اطلاع پر دہل کے رہ گئی۔ ردِ عمل بڑا شدید تھا۔ڈائر اب بھی اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔ اس نے اپنے اعلیٰ فوجی حکام کے سامنے بیان دیا کہ ”میرا سامنا ایک انقلابی فوج سے تھا۔“اس پر جنرل ولیم بینن (Beynon) نے جواب دیا،” تم نے بالکل صحیح قدم اُٹھایا۔“ لیفٹیننٹ گورنر پنجاب اوڈوائر نے بھی اِس پر صاد کیا۔ لیکن بہت سے اعلیٰ برطانوی حکام نے اِس کربناک قتلِ عام کی شدید مذمّت کی۔ لندن میں برطانیہ کے وزیرِ جنگ ونسٹن چرچل نے اس واقعے کو ”وحشیانہ اور انسانیت سوز“ قرار دیا جب کہ سابق برطانوی وزیراعظم ایسکوتھ نے کہا کہ ”یہ ہماری پوری تاریخ میں بدترین اور بہیمانہ واقعہ شمار ہوگا۔“ چرچل نے 8 جولائی 1920ءکو دارالعوام میں خطاب کرتے ہوئے کہا، ”ہجوم غیر مسلح اور نہتا تھا۔ وہ کسی پر حملہ آور نہیں تھا۔ وہ جگہ تو ٹریفالگر اسکوائر سے بھی چھوٹی اور چاروں طرف سے بند ہے۔ لوگ جان بچانے کے لیے دیوانہ وار بھاگ رہے تھے لیکن اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ ہورہی تھی۔ ایک ایک گولی، تین تین چار چار جانیں لے گئی۔“لیکن ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ برطانیہ کا دارالعوام اس واقعے کی مذمّت کررہا تھا تو دارالامراءڈائر کی حمایت میں کھڑا تھا۔ امراءکے مفادات برِ صغیر کی دولت سے زیادہ وابستہ تھے شاید۔ وائسرائے ہند لارڈ چیمسفورڈ ، برطانوی وزیر ِخارجہ ایڈون مونٹی گو اور دیگر لوگ اپنی اپنی بولیاں بولتے رہے۔ لارڈ ہنٹر کی سربراہی میں ایک انکوائری کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ لیکن سب سے اہم مذمّتی بیان اور فیصلہ شاید بنگال سے گورودیورا بندر ناتھ ٹیگور کا تھا۔ انہیں امرتسر کے اس قتلِ عام کی خبر مِلی تو انہوں نے کلکتہ میں ایک احتجاجی جلسہ کیا اور برطانوی حکومت کا دیا ہوا”سر“ کا خطاب احتجاجاًلوٹا دیاجو انہیں 1915ءمیں برطانیہ نے دیا تھا۔ انہوںنے30مئی 1919ءکو وائسرائے چیمسفورڈ کے نام ایک تاریخی خط میں کہا:
” مَیں اپنے اُن ہم وطنوں کے ساتھ کھڑا ہوں جنہیں بے مایہ سمجھ کر انسان کے درجے سے بھی گرادیا جاتا ہے۔ مجھے یہ خصوصی مراعات-کچھ بھی نہیں چاہیے-“
پنجاب کے لوگوں کے ساتھ برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے اِس غیر انسانی برتاﺅ کے خلاف ٹیگور کی طرف سے یہ اپنے ہم وطنوں کے ساتھ یکجہتی کا واضح اظہار تھا۔
امرتسر کے جیلیانوالہ باغ میں انگریز نوآبادیاتی حکومت کے ہاتھوں اِس بہیمانہ قتلِ عام کے خلاف صدائے بازگشت گو برسوں سنائی دیتی رہی لیکن اس واقعہ کے دو دن بعد ہی (15اپریل1919ئ) گوجرانوالہ میں ایک احتجاجی جلوس نکالا گیا جس پر پولیس اور ہوائی جہاز سے فائرنگ کے نتیجے میں12افراد ہلاک اور27زخمی ہوئے۔ برطانوی ائر فورس کے کمانڈنگ افسر بریگیڈیئر جنرل میک ایون(MacEwen) نے بڑہانکتے ہوئے کہا کہ برطانوی ائر فورس، خاص طور پر ، گوجرانوالہ میں شورش پسندوں کو کچلنے میں بڑی کامیاب رہی ہے۔“
برسوں بیت گئے ۔ مگر اِس کربناک قتلِ عام کی راکھ میں دبی چنگاریاں بُجھ کے نہ دیں۔ حریّت کی راہ میں بہنے والا خون رائیگاں نہیں جاتا۔ 1940ءمیں بظاہر ایک افسانوی کردار اودھم سنگھ سامنے آیا۔ وہ شاید راکھ میں دبی اُن ہیچنگاریوں میں سے ایک تھا۔ برِصغیر کی آزادی کا ایک متوالا تھا۔ اُس نے امرتسر قتلِ عام اپنی آنکھوں سے دیکھا اور زخمی ہوا تھا۔ اُس وقت کے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں، خصوصاً پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر مائیکل اوڈوائر کا کردار دیکھا تھا-اس واقعے کو21برس بیت چکے تھے۔ 13مارچ1940ءکو اودھم سنگھ نے لندن کے کیکسٹن ہال علاقے میں مائیکل اوڈوائر کو گولی مار کر ہلاک کردیا-بریگیڈئر ڈائر 1927ءہی میں خاک چاٹ چکا تھا۔اُسے جو بیماریاں لاحق ہوئیں، وہ شاید مکافاتِ عمل کا حصّہ تھیں۔ کچھ لوگوں نے اودھم سنگھ کے اِس اقدام کی مذمّت کی اور کچھ افراد اور اخبارات نے سراہا۔اخبار امرت بازار پتریکانے اودھم سنگھ کو” آزادی پر جان قربان کرنے والا“ قرار دیااور لکھا کہ” اوڈوائر نے پنجاب میں جو کچھ کیا، ہم اُسے کبھی بھُلا نہ پائیں گے۔“کانپور کے ایک جلسے میں کہا گیا کہ ” آخر کار، کسی نے تو قومی بے عزتی اور اہانت کا بدلہ لیا!“نیو اسٹیٹس مین نے لکھا کہ ” کیا مستقبل کا موّرخ یہ نہ لکھے گا کہ برٹش ایمپائر کو کسی اور نے نہیں، خود برطانوی حکمران طبقے نے تباہ و برباد کیا؟“ اودھم سنگھ نے اپنے اقبالی بیان میں کہا کہ ” مَیں نے اوڈوائر سے جوسلوک کیا وہ اُس کا سزاوار تھا۔ وہ ایک مجرم تھا۔ انتقام لینے کے لیے مَیں نے پورے 21برس انتظارکیا۔ میری جان جائے گی تو اپنے مادرِ وطن کے لیے جائے گی۔ مَیں نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانی تلے اپنے ہم وطنوں کو بھوک سے بِلکتے دیکھا ہے۔ موت سے زیادہ بڑا اعزاز میرے لیے اور کوئی نہیں۔“ اودھم سنگھ کو لگ بھگ ساڑھے چار ماہ کی عدالتی کارروائی کے بعد تختہ ¿ دار پر لٹکادیا گیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھی نے اودھم سنگھ کے اقدام کو بے محل لیکن جرا ¿ت مندانہ قرار دیا۔ 1952ءمیں نہرو نے جب وہ بھارت کے وزیرِ اعظم تھے، ایک بیان میں جو روزنامہ پرتاب میں شائع ہوا، کہا ” مَیں شہیدِ اعظم اودھم سنگھ کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے ہماری آزادی کی خاطر پھانسی کے پھندے کو چوم لیا۔“

جیلیا نوالہ باغ کی دیواروں اور آس پاس کی عمارتوں پر آج بھی گولیوں کے نشان ملتے ہیں۔ اُس کنوئیں کو بھی محفوظ رکھا گیا ہے جس میں لوگ جان بچانے کے لیے کودے تھے۔ ملکہ ¿ برطانیہ الزبتھ دوم1961ئ،1988ءاور 1997ءمیں بھارت کے سرکاری دورے پر آئیں۔ اکثر و بیشتر یہ آواز بلند ہوتی رہی کہ برطانیہ اُس قتلِ عام پر باضابطہ معافی مانگے لیکن یہ بات ہمیشہ آئیں بائیں شائیں کی نذر ہوگئی۔ برسوں بیت گئے، وقت کا دھارا بہتا چلا گیا لیکن صدائے بازگشت نہ رک پائی۔بلراج تہَ نے 1977ءمیں اودھم سنگھ کے حوالے سے جیلیانوالہ باغ پر ایک فلم بھی بنائی جس کا اسکرین پلے اور مکالمے گلزار نے لکھے اور سنیل کا کردار بھی ادا کیا۔میوزک آرڈی برمن نے دیا ۔اس فلم کی تیاری کے حوالے سے کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ 1970ءکی دہائی کے اوائل میں بلراج تہَ نے ” اودھم سنگھ“ کے نام سے فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اِس کے پروڈیوسر، ڈائریکٹر بھی وہ خود ہی تھے۔ انہوں نے دوستوں وغیرہ سے قرضے لے کر فلم کا ڈَول ڈالا۔ غالباً 1972ءکے اواخر میں لندن میں اِس کی کچھ شوٹنگ بھی ہوئی جس میں بلراج ساہنی، وہ اہم کردار ادا کررہے تھے جن کے گھر میں اودھم سنگھ رہتا تھا۔ اور جو اُسے آزادی کی جنگ میں شامِل کرنا چاہتے تھے۔ فلم کی بقیہ شوٹنگ کے لیے پوری ٹیم واپس ہندوستان آئی تو شو مئی قسمت، 13اپریل1973ءکو بلراج ساہنی کا انتقال ہوگیا۔ ہیروہی نہ رہا تو بلراج تہَ کو فلم کے ”لالے“ پڑ گئے۔ فلم کا معاملہ کھٹائی میں جاتا دیکھ کر قرض خواہوں نے پیسوں کی واپسی کا تقاضا شروع کردیا۔ بلراج تہَ نے مالی مدد کے لیے دوسرے دروازے دیکھنے شروع کیے لیکن وہ جو دروازہ بھی کھٹکھٹاتے ، وہاں سے بھارت کے اولمپیئن ہاکی پلیئر اودھم سنگھ کے نام پر تو لوگ فلم میں پیسے لگانے پر فوراً تیار ہوجاتے لیکن جونہی انہیں اصل اودھم سنگھ کا حوالہ دیا جاتا، دوڑ لگاجاتے کہ تب تک جیلیانوالہ باغ قتلِ عام والا اودھم سنگھ ایک گمنام کرداربن چکا تھا۔ اِن حالات میں شبانہ اعظمی، ونودکھنّہ، رام موہن، سدھیر ٹھاکر،دِپتی نوول اور بلراج ساہنی کا بیٹا پریکشت ساہنی مدد کو آئے لیکن سوائے ونود کھنّہ اور دِپتی نوول کے، باقی سب اس بھاری پتھر کو چوم کر الگ ہوگئے۔ ونود اور دِپتی نے فلم کی تکمیل تک ہاتھ بٹایا۔ ایک اور معاملہ بھی کھٹائی میں پڑا۔ ابتدا میں، مشہور بنگالی اداکار اور رائٹر اُپل دَت نے فلم کی کہانی، اسکرین پلے وغیرہ لکھنے کا بِیڑا اُٹھایا تھا لیکن انہوں نے بھی صورتِ احوال دیکھ کر یا کسی لاپروائی کے سبب یہ کام نہ کیا۔ اب ممتاز نغمہ نگاراور مکالمہ نگار گلزار آگے بڑھے اور انہوں نے نہ صرف یہ سارا کام انجام کو پہنچایا بلکہ ضرورت کے تحت سنیل کا کردار بھی ادا کیا، وہ بھی یوں کہ اس کردار کے لیے عام فہم ہندی جاننا اور بول لینا ضروری تھا۔دوسرے یہ کہ اوورکوٹ ایک ہی تھا اور اِسی کردار یعنی ”سنیل“کو پہننا تھا۔ ایک اور اہم ترین کھنڈت یہ آپڑی کہ اودھم سنگھ کے مرکزی کردار کے لیے ایسا اداکار چاہیے تھا جس کا چہرہ مُہرہ اورجُثّہ بلراج ساہنی سے مِلتا جُلتا ہوکیونکہ اودھم سنگھ کو لندن میں پناہ دینے والے کا ابتدائی کردار انہوں نے ہی ادا کیا تھا۔ بڑی ڈُھنڈیا رکے بعد اداکار اوم شِوپوری اِس پہ پورے اُترے اور انہوں نے اودھم سنگھ کے سرپرست کا بقیہ کردار ادا کیاجوبلراج ساہنی نامکمل چھوڑ گئے تھے۔ اور ہاں، صرف ”اودھم سنگھ “نام سے فلم کے مرکزی خیال کا دھارا چوں کہ کسی اور رُخ مُڑجاتا تھا، اِس میں ”جیلیانوالہ باغ “ کے الفاظ کا بھی اضافہ کردیا گیا۔ یوں فلم 1977ءمیں مکمل اور ریلیز ہوئی۔
اِس عرصے میں برِصغیر آزاد اور تقسیم ہوا۔ بھارت اور پاکستان وجود میں آئے۔ برطانوی نوآبادیاتی حکمران بوریا بستر سمیٹ کر اپنے چھوٹے سے جزیرے برطانیہ میں جا بیٹھے۔ وہاں عام برطانوی باشندوں کی اب تک تین یا چار پیڑھیاں وقت بِتا چکی ہیں۔ انہوں نے اپنی تاریخ کے جھروکوں سے جھانکا۔ نئی نسل کو یہ کربناک واقعہ مِلا تو اُن میں سے کچھ لکھاریوں نے اُسے اپنے ضمیرکی آواز قرار دیا- 2011ء-کیرولین جین ایک ادیب، فلم ساز اور آرٹسٹ ہیں۔ انہوں نے اِس موضوع پر تحقیق کی ۔ پھر برطانوی حکومت کو لکھا کہ وہ اِس بیتے سانحے پر باضابطہ معافی مانگے ۔انہیں جواب دیا گیا کہ اگر اُن کی اپیل پر ایک لاکھ برطانوی شہری دستخط کردیں تو معاملہ برطانوی پارلیمنٹ میں اُٹھایا اور زیرِ بحث لایا جاسکتا ہے۔ کیا ایک لاکھ دستخط ہوگئے؟ پتا نہیں! کیرولین جین ایک جگہ مارٹن لوتھر کنگ کا حوالہ بھی دیتی ہیں، جنہوں نے کہا تھا، ” جوبُرائی یابدی کو بُرائی یابدی قرار دینے میں سست روی سے کام لیتا ہے، وہ بھی اُس بُرائی یا بدی میں شامِل ہوتا ہے۔ جو اُس بُرائی یا بدی پر احتجاج نہیں کرتا ، وہ اُس بُرائی یا بدی کا حصّہ ہوتا ہے۔ “
مستقبل اور مستقبل کا موّرخ کیا کہتا ہے -کوئی نہیں جانتا!

(2)


اِن ہی سوچوں میں داستان گو کا رُخ جانے کب اُس راہ کی طرف مُڑ چکا تھا، جدھر سے وہ آرہا تھا! تھوڑے ہی فاصلے پہ سرائے عالمگیر کا قصبہ ،ساتھ ہی نہر اَپر جہلم اور اُس کا پانی سے ٹکراتا ریلوے پل، قریب سے گزرتی سڑک، کھاریاں، لالہ موسیٰ، گجرات اور پھر وزیر آباد سے ذرا پہلے ٹھاٹھیں مارتا سیلابی پانی ہے۔ اُس برس (1952ئ) برسات اِس قدر ٹوٹ کے برسی تھی کہ یہاں ریلوے لائن کے نیچے بچھی ٹنوں مٹی، پتھروں اور روڑی کو بہالے گئی تھی اور ریل کی آہنی پٹریوں نے بنیاد نہ پاکر بے چارگی کے عالم میں تُڑھ مُڑھ، کُنڈلیاں بناتے ہوئے آسمان کی جانب رُخ کرلیا تھا ۔سڑک تو بالکل ہی بہہ گئی تھی۔ یہاں دریائے چناب اور نالا پلکھو کے چڑھتے پانیوں نے کچھ بھی تو نہ چھوڑا تھا! دریائے چناب میں داستان گو کے شہر ”جموّں“ سے آنے والے دریائے توی کا اُمڈتا پانی بھی شامِل تھا۔ یہ دریا اپنا پانی دونوں ملکوں کے درمیان تازہ تازہ ”بچھی“ غیر مرئی سرحد کے قریب دریائے چناب کے پانیوں میں اچھال دیتا اور یوں اپنا وجود گم کردیتا تھا- آبِ گم بن جاتا تھا۔
یہاں فوجیوں نے آمد و رفت کے لیے کشتیوں کے عارضی پُل بنادیئے تھے۔ کنارے پہ جو بسیں، ٹرک وغیرہ کھڑے ہوتے اُن میں سے کُچھ کا رخ پانی کی طرف اوربہت سوں کا گجرات کی جانب ہوتا۔ مطلب یہ کہ بسیں وغیرہ یہاں آکے رک جاتیں۔ ”سیلِ نوح“اور اُس کی تباہ کاریاں وزیر آباد شہر تک پھیلی ہوئی تھیں جہاں بسوں کے عارضی اڈے بن گئے تھے۔ یہیں سے بسیں لاہور یا سیالکوٹ کا رخ کرتیں۔ داستان گو اِسی طرح آیا تھا ۔وزیر آباد آکر بس سے اُتر گیا۔تھوڑا پیدل چل کے کشتیوں کا پُل پار کیا۔ پُل آتے جاتے لوگوں، مسافروں اور اُن کے سامان، گٹھڑیوں اور پوٹلیوںکے وزن سے ڈول رہا تھا اور دل میں ہول سما رہا تھا کہ گِر نہ جائے۔ دونوں طرف سیلابی پانی اب بھی لہریں مار رہا تھا اور وہ رسّے تھر تھرارہے تھے جنہوں نے کشتیوں کو باہم باندھ رکھا تھا۔ داستان گو کشتیوں کا پُل بالآخر پار کر آیا تھا- 
اچانک ایک بھونپو کی پوَں پوَں اُسے خیالوں بلکہ خوابوں کی دنیا سے کھینچ لائی۔ وہ دریائے جہلم کے آہنی پُل کے اِس پار ہی پیڑ کی چھاﺅں میں کھڑا تھا- پیڑ کا سایہ اب ذرا لمبا ہوگیا تھا -کچھ اور وقت بیت چکا تھا۔ دیکھا تو جہلم کی طرف سے آنے والا ٹریفک گزر چکا تھا اور جہلم کی جانب جانے والا ٹریفک پُل کی پتلی سڑک پہ رینگنے لگا۔ بس دیر تک کھڑی رہی تھی لہٰذا انجن ”ٹھنڈا“ پڑ چکا تھا۔ اُسے ”گرم“ کرنے کے لیے کلینر یا آج کل کی زبان میں کنڈکٹر تو لمبوترے بونیٹ (Bonnet)کے آگے اکڑوں حالت میں ہینڈل گھما رہا تھا اور ڈرائیور باہر کھڑی سواریوں کو متوّجہ کرنے کے لیے ”بھونپو“ بجارہا تھا۔یہ لگ بھگ ساٹھ برس پہلے کی باتیں ہیں۔ بہت سے قاری، عمر کے تفاوت کے سبب اور اُس زمانے کی گاڑیوں کے ”پرزہ جات اور لوازمات“ کا شاید تصوّر نہ کرسکیں۔ گاڑیوں میں جو ہارن لگائے جاتے تھے انہیں عام فہم زبان میں بھونپو کہتے تھے۔ ایک گول سا بَل کھایا ہوا ”باجا“۔ اُس کی پھنکنی پر موٹے ربر کا بڑا سا غبارے ایسا گیندوا جسے دبانے پر باجے سے پاں، پوَں یا بھَوں کی کریہہ سی آواز نکلتی تھی۔ آپ نے شادی بیاہ میں بینڈ بجانے والوں کے عین درمیان میں ایک بڑا سا گول باجا ضرور دیکھا ہوگا ۔ بجانے والا گردن کی رگیں پھُلا کر اُس میں زور سے پھونک مارتا ہے تو ایک خاص قسم کی آواز ”بھَوں “نکلتی ہے جس میں کوئی سُر نہیں ہوتا۔ یا وہ بھی کوئی سُرہوگا !اُسے ”شامِل باجا“ کہا جاتا ہے اور بینڈ کی ”شوبھا“ بڑھانے کے لیے رکھا جاتا ہے(کبھی کبھار ہم ایسے عام لوگوں کو بھی ”شامِل باجا“ ہی سمجھا جاتا ہے۔) اس باجے کے ذِکر پر مجھے جموّں کا ایک بینڈ باجے والا یاد آگیا۔ اُس کی کہانی منجھلے بھائی سنایا کرتے تھے لیکن ایسے وقت جب ابّاموجود نہ ہوتے کیونکہ باجے والے سے گفتگو میں ابّا جی اوردو ماموں شامل تھے۔ جموّں میں شاید وہ ایک ہی بینڈ والا تھا۔ مسلمان تھا، نام تھا خدا بخش ۔ اُس نے اپنے سارے ”اراکینِ بینڈ“ کو بس دو گانے سِکھا رکھے تھے ۔اگر ہندوﺅں کے مردے کو شمشان گھاٹ لے جانا ہوتا تو آگے آگے یہ بینڈ 
چل چل رے نوجوان
کی دُھن بجاتا چلتا۔ شامت ِ اعمال کسی مسلمان کی شادی ہوتی تو دولہا گھوڑے یا گھوڑی پر سوار بارات لیے دلہن کے ہاںجاتا، اُسے ڈولی میں بٹھا کے واپس لاتا تو آگے آگے خدا بخش کا بینڈ دُھن بجاتا چلا جاتا :
آندھیاں غم کی یوں چلیں، باغ اُجڑ کے رہ گیا
گلی کے ُنکڑ پر چھوٹے ماموں لطیف کی کریانے کی دکان تھی۔ ایک دن بڑ ے ماموں شفیع اور داستان گو کے ابّاوہاں بیٹھے گپ لڑارہے تھے (گاہک جانے آرہے تھے یا نہیں)۔اِتنے میں خدا بخش بینڈ ماسٹر بھی آگئے اور گپ بازی میں کُچھ اور جان پڑ گئی۔ منجھلے بھائی پَرلے درجے کے شریر، پنجابی محاورے میں کِلیوں پرانڈے دینے والے۔ مبالغے کی حد تک سہی، سارے جموّں کے لڑکے بالے شرارتوں میں اُن کے آگے پانی بھرتے تھے۔ گھومتے گھامتے، جانے کہاں سے وہ بھی دکان پہ آگئے اور خلافِ معمول (شاید ابّا کو دیکھ کے ) خاموشی سے ایک طرف بیٹھ گئے۔ اچانک بڑے ماموں نے خدا بخش بینڈ والے سے پوچھ لیا، ”خدا بخش، آج کل شادی بیاہ میں یا شمشان گھاٹ بینڈ لے جانے کا کیا لے رہے ہو؟ خدا بخش نے جواب دیا، ”شفیع صاحب،میرے بینڈ والے اگر پتلونیں پہن کے آئیں تو پانچ روپے فی بندہ اور نیکروں میں ہوں تو تین روپے ۔“ ابھی اُن کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ اچانک آواز آئی، ”اور خدا بخش چاچا اگر ننگے آئیں تو ؟“ اتنا کہہ کے بھائی وہاں سے یوں بھاگے جیسے چھلاوا۔ بھاگنے کا سبب صاف تھا کہ ابّا یا ماموں کے ہاتھوں پٹائی نہ ہوجائے۔
یہ بھونپو، ڈرائیور کی سیٹ کے دائیں ہاتھ والی کھڑکی کے ساتھ پیچوں سے کَس کے لگایا جاتا تھا تاکہ بجانے میں آسانی رہے اور وہ ڈھیلا کھڑنک ہو کے گِر نہ پڑے۔
داستان گو بھی کہاں سے کِدھر نکل گیا۔ کلینر ہینڈل چَلاچَلا کے بے حال ہورہا تھا اور گاڑی تھی کہ روٹھی بہو کی طرح مان کے نہ دے رہی تھی۔ آپ نے جانے اُس زمانے کا گاڑی کاہینڈل دیکھا ہے یا نہیں۔ضرور دیکھا ہوگا۔ آج بھی مضافاتی اور دیہی روٹوںپر جو پرانی بزرگ اور ازکار رفتہ، اللہ نبی وارث قسم کی بسیں چلتی ہیں یا ”چلائی“ جاتی ہیں، اُن میں یہ ہینڈل استعمال ہوتا ہے۔ بلکہ وافر استعمال ہوتا ہے۔یہ لوہے کی لمبی موٹی سی سلاخ ہوتی تھی۔ اِس کے ایک طرف سوراخ کرکے چھوٹی سی پتلی سلاخ ویلڈنگ سے جوڑ دی جاتی تھی جو انجن کے پنکھے میں جاکر پھنس جاتی تھی۔ دوسرے سرے پر اُسے تقریباً نو نو انچ پر یوں موڑ دیا جاتا تھا کہ شکل بیک وقت انگریزی کے اُلٹے اور سیدھے ایل ( )جیسی بن جاتی تھی۔ گاڑی کا انجن جب بھی تھکن اور بڑھاپے کے سبب سیلف (Self) سے اسٹارٹ ہونے کے بجائے کھانستا چلا جاتا تو کلینر اُسےمذکورہ ہینڈل کے سپرد کردیتا۔ بجنگ آمد، ڈرائیور نے کہیں سے ،شاید ٹول باکس Tool Boxسے ایک ہتھوڑا نما آلہ ¿ کشاورزی نکالا اور لمبوترے بانیٹ کا ایک طرف کا ڈھکنا اُٹھا کر کچھ ٹھوکا پیٹی کی۔ اُدھر کلینر نے ایک دو بار زور لگاکے ہینڈل گھمایا تو بس خر خرا کر بالآخر اسٹارٹ ہوگئی۔ یہ بڑی ہی کوئی شبھ گھڑی تھی کہ آخری گاڑیاں، بیل گاڑیاں اور دوسری سواریاں پُل پر چڑھ چکی تھیں۔ بس بھی پیچھے پیچھے چل دی۔ پچھلی بار کسی نے کہاتھا، دریا میں کچھ پیسے پھینک دینا۔ یہی روایت ہے۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اکنّی تھی۔ دریا بُرد کردی۔
جہلم کا پُل پار کیا۔ بس تھوڑی دیر ”مقررہ اور باضابطہ اسٹاپ پر رُکنے کے بعد اب جو آگے بڑھی تو منظر یکلخت بدلنے لگا۔ مقررہ اور باضابطہ اسٹاپ اِس لیے لکھا کہ گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ بس ڈرائیوروں یا کمپنی مالکان کے مَن پسند ہوٹل ہی اُن کے اسٹاپ بنتے چلے گئے۔ یہاں سے انہیں کمیشن مِلتا تھا جو ظاہر ہے مسافروں کی جیبوں ہی سے نکلتا تھا۔ پُل کے اُدھر زمین جو مسطح تھی، بلند، اوبڑ کھابڑ ،نیم پہاڑی اور ارتفاعی ہونے لگی۔ کہیں اچانک چڑھائی آجاتی تو بس کا انجن ذبح ہوتے ہوئے جانور کی طرح ”کُرلانے“لگتا ۔اور سڑک بھی کیا تھی؟ کہنے کو تو یہ جرنیلی سڑک تھی۔ پشاور سے کلکتہ تک شیر شاہ سوری کی بنوائی ہوئی - انگریز اپنے نو آبادیاتی دورِ حکمرانی میں اِس کی مرمت کرواتے رہے ہوں گے، اِسے چالو حالت میں رکھتے ہوں گے لیکن تقسیمِ ہند اور دو ملک پاکستان اور بھارت وجود میں آنے کے بعد دونوں جانب کی حکومتیں اپنے اپنے حصوں میں اِس پتلی سی سڑک کو رواں رکھنے کے لیے کیا کررہی تھیں، سڑک کی حالت دیکھ کے اِس کا اندازہ ہورہا تھا۔ سڑک کے دونوں کنارے سخت شکست و ریخت کی زد میں تھے۔ چوڑائی اِتنی کہ سامنے سے کوئی گاڑی آتی تو دونوں گاڑیاں ایک دوسری کو راستہ دینے کے لیے کناروں سے اُترنے پر مجبور ہوجاتیں۔ اتنا ضرور ہوتا کہ ڈرائیوروں کی مہارت، روز روز کا تجربہ اور اسٹیئرنگ پر گرفت گاڑیوں کو الٹنے سے بچالیتے۔ کہیں کہیں اندھے موڑ پر ٹریفک کے اشاروں والے بورڈ ضرور نظر آجاتے جن پر عموماً اُسی ”بھونپو“ کی تصویر بنی ہوئی تھی جس کا تذکرہ پہلے آچکا۔ جہلم سے دینہ تک علاقہ بے حد اُجاڑ، بیابان، خشک اور بھوری سنگلاخ پہاڑی تھا۔ کہیں کوئی درخت دکھائی دے بھی جاتا تو بس ٹھنٹھ، ٹیڑے میڑھے، سوکھے ہوئے۔ پھر اچانک مختصر سا میدانی حصّہ اور لب ِ سڑک ہی دینہ کا بس اسٹاپ۔ بائیں ہاتھ ایک سڑک پھوٹتی تھی۔ تِیر کے نشان کے ساتھ ہی اُن شہروں، قصبوں اور مقامات کے نام لکھے تھے، جدھر یہ سڑک جاتی تھی۔ اب تو برسوں بیت چکے۔ شاید اُن میں پنڈ دادن خان، ٹِلّہ (ٹیلا)جوگیاں، روہتاس وغیرہ شامل تھے۔ بس یا گاڑی، جو بھی کہہ لیں، چند منٹ رُک کے آگے بڑھی ہے تو دفعتاً منظر پھر بدلنے لگا ۔ ایک پہاڑی برساتی نالا۔ اُس کے پُل کی سیدھ میں اب ریلوے لائن بھی آگئی تھی۔ ندیا کا پُل پار کرتے ہی ڈرائیور نے اسٹیئرنگ تیزی سے بائیں ہاتھ گھمادیا۔ یہ نیم دائرے میں تنگ موڑ تھا اور ساتھ چڑھائی بھی۔ اب دائیں جانب بھوری بنجر کھائی اور بائیں طرف گھنا، گہرا سبزہ، درخت پودے اور بلند پہاڑ۔ اِس سبزے کو دیکھ کے تب تو کچھ احساس نہ ہوا لیکن برسوں بعد، جب اقبال کو کچھ پڑھ چکا تھا، اُدھر سے گزر ہوا تو یاد آیا:
باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر


بعد کی زندگی میں آدھی دنیا گھوم چکا تھا۔ ایسے کئی باغ ِ بہشت دیکھے۔ لیکن ابھی تو اُس جگہ کا ذِکر ہے جسے ”ترّکی موڑیا جوڑ“ کہتے ہیں۔ ”ترّکی موڑ یا جوڑ“ کا ذِکر آگیا تو امریکی فلم ”بھوانی جنکشن“ کی بات کہے بغیر بات نہیں بنتی۔ 1952ءمیں امریکا میں ”بھوانی جنکشن“ کے عنوان سے ایک ناول لکھا گیا جو برِ صغیرمیں برطانوی نو آبادیاتی دَور کی نسلی اکائی ”اینگلو انڈین اور برِ صغیر سے برطانوی نو آبادیاتی حکومت کے جلد از جلد خاتمے کے لیے تشدّد پسندانہ کارروائیوں کے پس منظر میں تھا۔ اس ناول کا بڑا شہرہ ہوا اور 1956ءمیں MGM نے اُس پر فلم بنانے کا اعلان کردیا۔ فلم کی لوکیشن انڈین تھی۔ بھارت نے بہت زیادہ اخراجات بتادیے تو MGM نے پاکستان سے رابطہ کیا۔ پاکستان نے اسے عالمی سطح پر پبلسٹی کا موقع گردانا اور کم پیسوں پر اجازت دے دی۔ فلم میں اُس دور کی مشہور اداکارہ ایوا گارڈنر اور اداکار اسٹوارٹ گرینجر مرکزی کردار ادا کررہے تھے۔ فلم کی زیادہ تر شوٹنگ لاہور ریلوے اسٹیشن پر ہوئی لیکن ریلوے سرنگ میں ٹرین حادثے کے لیے ”ترّکی موڑ یا جوڑ“ والی ریلوے سرنگ میں شوٹنگ کی گئی۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شوٹنگ یہاں نہیں، کہیں اور ہوئی تھی۔ ایڈیٹنگ وغیرہ لندن کے فلم اسٹوڈیو میں ہوئی۔ لاہور میں اس اداکار فلمی جوڑے کا قیام ”فلیٹیز“ ہوٹل میں رہا جو وہاں نو آبادیاتی دَور کی تمام سہولتیں لیے ہوئے تھا۔ ”فلیٹیز“ والے ایک عرصے تک ”ایواگارڈنر سوئٹ“ کے حوالے سے اپنی پبلسٹی کرتے رہے۔ ریلوے لائن بھی چڑھائیاں چڑھ کے ساتھ آچکی تھی۔ اور سڑک کے ساتھ ساتھ پہاڑ میں اُس کی سرنگ نظر آنے لگی تھی۔ بس نے اس باغ ِ بہشت سے موڑ کاٹا تو آگے تھوڑی دُور پھر وہی کیفیت تھی۔ کہیں بنجر، سنگلاخ پہاڑ، کہیں برساتی خشک ہوتی ہوئی یا پہلے سے سوکھی ندیّاں، بَل کھاتی سڑک کبھی چڑھائی پہ آتی تو کبھی ڈھلان کا دامن تھام لیتی۔ سوکھی برساتی پہاڑی ندّیوں میں کہیں بھوری مٹی تو کہیں لاکھوں برس پہلے کے پتھروں کے گھساﺅ، رگڑاﺅ سے بنی چمکیلی ریت، ایسی ہی ایک سوکھی ندی کا طویل پُل پار کرکے ایک چڑھائی آئی اور بس سوہاوہ کے اسٹاپ پر جارُکی۔ اتنے سفر کے بعدبس ”ہانپنے“ لگی تھی۔ کنڈکٹر یا کلینر نے اُتر کے انجن کے دونوں طرف کے پَٹ کھول دیے۔ ریڈی ایٹر کا پانی خاصا گرم ہوکے بھاپ چھوڑ رہا تھا۔ کہیں سے وہ پانی کی بالٹی لے آیا اور ریڈی ایٹر میں ٹھنڈا پانی انڈیلنے لگا کہ بس آگے کا سفر ”بخیرو عافیت“ طے کرلے۔ مسافر بھی تھکے ہارے لگ رہے تھے۔ ٹانگیں سیدھی کرنے کو باہر نکل آئے، کچھ سامنے والے ڈھابے پر بیٹھ کے چائے پینے لگے۔ ڈھابے والا بھی شاید ایسی کیفیات کا عادی تھا۔ پرانی بسیں، چڑھائیاں، اُترائیاں، سوہاوہ پہنچ کر بسوں کا ہانپنا، مسافروں کا اُترنا، چائے پینا، ڈرائیور،کلینر کا مِل کر انجن کو ”ٹھنڈا“ کرنا۔ ڈھابے والے کا چہرہ خاصا سپاٹ سا لگا۔داستان گو بھی صبح دَم سیالکوٹ سے نکلا تھا۔ سیلابی علاقے سے ہوتا ہوا یہاں پہنچا تو سہ پہر ہورہی تھی۔ چلتے ہوئے خالہ نے دو روٹیاں باندھ دی تھیں، وہ یہیں چائے کے ساتھ کھا لیں۔ اب آگے کا سفر گوجر خان، مندرہ، روات سے ہوتے ہوئے راولپنڈی- ڈیڑھ دو گھنٹے کا سفر اور تھا۔ بُری طرح تھک چکا تھا لیکن راولپنڈی- گھر تو پہنچنا تھا۔اور آخرِ کار شام ڈھلے گھر پہنچ گیا۔

(3)
Image result for potohar region

یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن گُتھی یہ آن پڑی کہ داستان گو خود کون ہے ؟ ہاں سوال اچھا ہے ۔چند برس پہلے جو سرزمین چھوڑ کے آیا یا چھوڑنے پہ مجبور ہوا،داستان گو کا وطن تو وہی تھا۔ وہاں نال گڑی ہے۔ وہ وطن تھا، جہاں سے دیس نکالامِلا، تو یہ داستان گوکا ملک ہے جہاں پناہ مِلی۔ پناہ کی بات بھی کہہ دوں۔ ماموں نے کندھے پہ بٹھا رکھا تھا۔داستان گو کوئی چاربرس کا رہا ہو گا۔ یہ قافلہ وطن چھوڑکے چلا تھا۔ اُس سے پہلے کئی قافلے چلے تھے جو راہ میں ہی کہیں کھوگئے۔ کچھ کی لاشیںمِلیں، بہت سے انجانی راہوں کے مسافر ہوئے۔ اُن کے انجام کی خبریں وطن پہنچی تھیںتو دہشت پھیلا گئی تھیں۔ وہ وطن جموّں تھا۔
وہ شہر یادوں کے دھند لکوں میں بسا ہوا تھا۔ پہاڑوں پر آباد۔ یوں لگتا تھا مکان بناکے، پھر ہُک لگاکے انہیں پہاڑوں پر ٹانک دیا گیا ہو۔ گلیاں،سڑکیں، چڑھائیاں، ڈھلانیں، تنگ لیکن پتھروں سے پکّی کی ہوئی۔ ایک چوک، دائیں ہاتھ پختہ پتلی سی گلی جو تھوڑی آگے بڑھ کے بائیں جانب مُڑجاتی۔ کونے پر دو دھ دہی کی دکان ۔ وہاں سے گلی پھر دائیں مُڑجاتی۔ اُسی گلی میں گھر تھا۔ نیانکور! ابّاخودراج مستری کاکام کرتے تھے، لہٰذا خود ہی بنایا تھا۔ یہ آبائی پیشہ تھا۔ دروازے کے بالکل سامنے ”ماں بُڈھی“، اُن کے بیٹے اور داستان گو کے منہ بولے ماموں کا گھر۔ داستان گو اُن ہی کی گود میں کھیلا۔ گھر میں صرف بڑے بھائی نے شاید دوچار جماعتیں پڑھی تھیں۔ پھر اسکول سے بھاگ کے ابّا کے ساتھ راج مستری کاکام شروع کردیا۔منجھلے بھائی ایک دو جماعتوں تک اسکول گئے ہوں گے۔منہ بولے ماموں بھی چِٹّے اَن پڑھ لیکن نام اُن کا عِلم دین تھا۔ اِس پرُطرہ یہ کہ بہرے تھے۔ خاصا اونچا سنتے تھے۔ یہ گھر گویا داستان گو کے ننھیال ہی کا حصّہ تھا۔ اپنے گھر میں بھی سب سے چھوٹا تھا ۔ بقول ا مّاں جنہیں اپنے پرائے سب”بے جی“ کہتے، ”پیٹ کروڑی“ کا تھا۔ چاول جو دیگ کے پیندے میں لگ جاتے ہیں ، انہیں کُھر چن کہتے ہیں۔ پہاڑی،پنجابی اور پھر ملک جہاں پناہ لی، کی ہی ایک بولی، پوٹھوہاری میں اِسے ” کروڑی“ کہا جاتا ہے۔ ہندی میں اِسے ” پیٹ کی پونچھن“ بھی کہتے ہیں۔ اپنے گھر والوں کا لاڈلاہونے کے ساتھ ساتھ ”ماں بُڈھی“ کے گھر میں بھی ہتھیلی کا پھپھولا تھا۔ جموّں سے سیالکوٹ تک جو پُل صراط پار کیا، اُس میں اِن ہی ماموں عِلم دین کے کندھے پہ تھا۔ موجِ خیال لے کے پھر کہیںاور نکل گئی! گھر سے گلی تھوڑی سی اور آگے بڑھتی تو ایک نالے کی پُلیا آجاتی۔ اِس سے آگے پختہ میدان سا پار کرکے پھر گلی شروع ہوجاتی جہاں بائیں ہاتھ بھی چند گلیاں پھوٹتیں۔ لیکن یہاں مکان دو تین منزلہ اور گلیاں پتلی ہونے کے سبب دھندلکا کچھ بڑھ جاتا۔ روشنی مدھم پڑجاتی۔ اورپھِردائیں ہاتھ ایک بلند مگر آخری مکان آجاتا۔ یہاں بھی کچھ عزیز رہتے تھے۔ گلی کے بالکل سامنے ایک مچان نما پہاڑی پر بنے ہوئے مکان میں منجھلے ماموں رہتے تھے جبکہ کونے والے بلند مکان کے ساتھ ہی کشادہ سیڑھیاں اُترتی چلی جاتیں اور تلیٹی میں بہتے دریائے توی کے پانیوں کو چُھولیتی تھیں۔ یہ بچپن کے خواب نما دھندلکوں کی یادیں تھیں۔ یہ جموّں کے محلہ پیرمِٹھا، مست گڑھ کا منظر تھا۔ اور جموّں خود کیا ہے؟ اُس کی تاریخ بھی کئی ہزار برس پیچھے لے جاتی ہے جس میں دیو مالائی اساطیری روایات، حکایات ہیں تو ساتھ تاریخ حقائق بھی بیان کرتی ہے۔ 
کم و بیش 3500 برس پر پھیلی یہ روایات وجہ ¿ تسمیہ کے حوالے سے کئی اور ماخذ بھی سامنے لاتی ہیں لیکن اِن میں مبالغے کا عنصر حد سے خاصا زیادہ مِلتا ہے۔ اِسی لیے وجہ ¿ تسمیہ لانے والے، پیش بندی کے طور پر، اسے معمّا قرار دے دیتے ہیں یا اُس پر پُراسراریّت کی چادر چڑھادیتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ بھی کہیں سے سُن کر ہی روایت کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شہر کا اصل نام ”جمبودیپ“ ( جزیرہ ¿ جمبو) تھا۔ سروالٹرہملٹن اپنی کتاب ہندوستان کی کہانی (Description of Hindustan) میں دُور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ” ممکن ہے کسی یُگ میں سمندر کا پانی اِن پہاڑوں کے دامن تک آگیا ہو جس میں یہ ارتفاعی زمین جزیرے کی صورت نمودار ہوگئی ہو۔ اور یوں اِس کا نام ”جمبودیپ“ یا” جزیرہ ¿ جمبو“ پڑگیا ہو۔“ ظاہر ہے والٹر ہملٹن نے بھی یہاں آکر مقامی لوگوں سے ہی یہ روایت سُنی ہوگی۔ سمندر کے پانی کی بات کی جائے تو اُس کے یہاں تک آنے یا یہاں ہونے کا عرصہ کروڑوں برس پہلے کا ہوسکتا ہے۔ ہاں اِس حد تک ذہن بمشکل قبول کرسکتا ہے کہ کوہستانِ شوالک کی جھیل سرن سار یا جھیل مان سر کاپانی یہاں تک آگیا ہو۔ ساتویںصدی عیسوی کا چینی سیّاح شوان زانگ جسے ہمارے ہاں ہیون سانگ بھی کہاجاتا ہے، وادی ¿ پامیر( دنیا کی چھت) کو ”مرکزِ جمبودیپ“ قرار دیتا ہے۔ اُس نے یہ سارا خطّہ گھوڑے پر یا پیدل کھنگالا۔ اس کی بات یا تحریر میں جان ہوسکتی ہے۔ کچھ راوی اِسے رامائن کا رکھشا راجہ، ”جم ونتھ“ یا ”جم ونت“ بھی کہتے ہیں جس نے جموّں شہر کی بنیادرکھی۔ کہتے ہیں کہ رکھشا راجہ نے دریائے توی کے کنارے پیر کھو(گپھا) میںتپسیا کی تھی۔ یہ بھی روایت ہے کہ راجہ جمبو لوچن ہی کی نسل سے ایک راجہ شکتی کَرن نے پہلی بار لگ بھگ 1200 قبل مسیح میں ڈوگری رسم الخط رائج کیا۔
نام کے حوالے سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ 14ویں صدی قبل مسیح میں یعنی کوئی3500 برس پہلے راجہ جمبولوچن شکار کا پیچھا کرتے ہوئے دریائے توی کے کنارے پہنچا تو خوش نمائی دیکھ کر پڑاﺅ ڈال دیا۔ اچانک ایک منظر دیکھ کر دنگ رہ گیا- شیر اور بکری باہم شِیر و شکر ایک گھاٹ پانی پی رہے تھے۔ راجہ نے شکار کا خیال دل سے نکال دیا اوریہاں اِس نیّت سے ایک نیا شہر بسانے کا فیصلہ کیا کہ ”طاقتور اور کمزور پُر امن طور پر ،سکون اور رواداری سے رہیں گے۔“ راجہ نے شہر کا نام اپنے نام پر ” جمبونگر“ ، یا جموال رکھا جو وقت کے ساتھ بگڑتے بگڑتے ”جموّں“بن گیا۔ بیتے تقریباً ساڑھے تین ہزار برسوں کے دوران میں اِس شہر کو موریا،کشان، گُپت، ہُن، منگول، مغل اور دیگر حملہ آوروں کا سامنا رہا۔ ہزاروں برس کے اُس دور میں امن، سکون اور رواداری رہی یا نہیں۔1947ءمیں بہر حال، بھَور سمان واقعات میں یہ خوبیاں دکھائی نہ دیں۔
جموّں کے علاقے پر ڈوگرا راج کا آغاز18ویں صدی کے تیسرے چوتھے عشرے میں ہوتا ہے۔ پہلا راجہ رنجیت دیو (1728-1780ئ) تھا۔ اُس نے اپنے دورِ حکومت میں کئی سماجی اور معاشرتی اصلاحات کیں ۔ مثلاً ستّی کی رسم پر پابندی لگائی۔ بعدازاں1808ءمیں یہ رجواڑا، مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سِکھ قلمروئے پنجاب کا حصہ بن گیا اور مہاراجہ نے جموّں کی جاگیر اور اِس کی گورنری اپنے جرنیل گلاب سنگھ جموال کو سونپ دی۔ اُس کا تعلق جموال راجپوت قبیلے سے تھا جو پہلے ہی جموّں کا حکمران تھا۔ اُس نے جنرل زور آور سنگھ کی مدد سے جموّں کی سرحدوں کو مغربی تبّت تک وسعت دے دی۔ اِس قبیلے کی روایت کے مطابق اُن کا سلسلہ ¿ نسب اُن سورج ونشیوں تک جاتا ہے، جن میں رام پیدا ہوئے تھے۔مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اپنی قلمرو کی سرحدیں وادی ¿ کشمیر میں بودھ مملکت لدّاخ تک پھیلادیں۔ جس میں ہنزہ، گلگت اور نگر شامل تھے۔ 1846ءمیں پہلی (اینگلو۔ سِکھ جنگ کے بعد برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں نے سرہنری لارنس کوبرٹش ریزیڈنٹ مقرر کیا۔اور مارچ1846ءمیں کشمیر گلاب سنگھ کے ہاتھ75لاکھ نانک شاہی روپے میں بیچ کر اُسے مہاراجہ کا خطاب دے دیا- سبب- اُس نے مہاراجہ رنجیت سنگھ سے غداری کرکے انگریزوں کا ساتھ دیا تھا۔ اِس کے بعد ریاست کا پورا نام ” ریاست جموّں و کشمیر “ رکھ دیا گیا۔ اب پورا جموّں اور کشمیر ڈوگرا حکمرانی تلے آچکا تھا۔گلاب سنگھ کے بعد بالترتیب رنبیر سنگھ 1857ئ، پرتاب سنگھ1885ئ، اور ہری سنگھ نے 1925ءمیں راج گدّی سنبھالی۔
مہاراجہ پرتاب سنگھ کا زمانہ تھا۔ گلگت گرچہ ریاست جموّں وکشمیر کے زیر ِ اقتدار تھا لیکن برطانوی نو آبادیاتی حکومت نے وہاں اپنی پولیٹیکل ایجنسی قائم کررکھی تھی۔ پولیٹیکل ایجنٹ سر مالکم ہیلی تھے اور کام اُن کا روسی اور چینی سرحدوں پر نظر رکھنا تھا۔ تب روس، بالشویک انقلاب سے گزر چکا تھا۔ اُسی دور میں قدرت اللہ شہاب کے والد عبداللہ، مہاراجہ پرتاب سنگھ کی طرف سے گلگت کے گورنر تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ”ماں“ کے عنوان سے لازوال کہانی لکھی اور بعد میں، ممتاز ادیبوں اور نقّادوں کے اُس کہانی پر تبصروں کو اپنی آپ بیتی”شہاب نامہ“ کا حصّہ بنایا۔ اِس کہانی کا ایک اقتباس دیکھئے جو اُس زمانے کے سیاسی احوال پہ بھی روشنی ڈالتا ہے:
”منیلہ پہنچ کر نانا جی نے اپنا آبائی مکان درست کیا۔ عزیز واقارب کو تحائف دیئے۔ دعوتیں ہوئیں اور پھر ماں جی کے لیے بَر ڈھونڈنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اُس زمانے میں لائل پور کے مربعہ داروں کی بڑی دھوم تھی۔ اُن کا شمار خوش قسمت اور باعزت لوگوں میں ہوتا تھا، چناںچہ چاروں طرف سے ماں جی کے لیے پے در پے پیام آنے لگے۔ یوں بھی اُن دنوں ماں جی کے بڑے ٹھاٹھ باٹ تھے۔ برادری والوں پر رعب گاٹھنے کے لیے نانی جی اُنہیں ہر روز نئے کپڑے پہناتیں اور ہر وقت دلہنوں کی طرح سجا کر رکھتی تھیں۔
کبھی کبھار پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے ماں جی بڑے معصوم فخر سے کہا کرتی تھیں۔ اُن دنوں میرا تو گاو ¿ں میں نکلنا تک دوبھر ہوگیا تھا۔ مَیں جس طرف سے گزر جاتی لوگ ٹھٹھک کر کھڑے ہوجاتے اور کہا کرتے یہ خیال بخش مربعہ دار کی بیٹی جا رہی ہے۔دیکھئے کون سا خوش نصیب اِسے بیاہ کر لے جائے گا۔


”ماں جی ! آپ کی اپنی نظر میں کوئی ایسا خوش نصیب نہیں تھا ؟ “ہم لوگ چھیڑنے کی خاطر اُن سے پوچھا کرتے۔
”توبہ توبہ پُت ۔ “ماں جی کانوں پر ہاتھ لگاتیں ۔”میری نظر میں بھلا کوئی کیسے ہوسکتا تھا ۔ہاں میرے دل میں اتنی سی خواہش ضرور تھی کہ اگر مجھے ایسا آدمی مِلے جو دو حروف پڑھا لکھا ہو تو خدا کی بڑی مہربانی ہوگی۔“
ساری عمر میں غالباً یہی ایک خواہش تھی جو ماں جی کے دل میں خود اپنی ذات کے لیے پیدا ہوئی۔اُس کو خدا نے یوں پورا کر دیا کہ اُسی سال ماں جی کی شادی عبداللہ صاحب سے ہوگئی۔
 اُن دنوں سارے علاقے میں عبداللہ صاحب کا طوطی بول رہا تھا۔ وہ ایک امیر کبیر گھرانے کے چشم وچراغ تھے لیکن پانچ چھ برس کی عمر میں یتیم بھی ہوگئے اور بے حد مفلوک الحال بھی۔جب باپ کا سایہ سر سے اُٹھا تو یہ انکشاف ہوا کہ ساری آبائی جائیداد رہن پڑی ہے چناںچہ عبداللہ صاحب اپنی والدہ کے ساتھ ایک جھونپڑے میں اُٹھ آئے۔زر اور زمین کا یہ انجام دیکھ کر اُنہوں نے ایسی جائیداد بنانے کا عزم کر لیا جو مہاجنوں کے ہاتھ گروی نہ رکھی جا سکے۔ چناںچہ عبداللہ صاحب دل وجان سے تعلیم حاصل کرنے میں منہمک ہوگئے۔ وظیفے پر وظیفہ حاصل کر کے اور دو دو سال کے امتحان ایک سال میں پاس کرکے پنجاب یونیورسٹی کے میٹریکولیشن میں اوّل آئے۔ اُس زمانے میں غالباً یہ پہلا موقع تھا کہ کسی مسلمان طالب علم نے یونیورسٹی امتحان میں ریکارڈ قائم کیا ہو۔ 
اُڑتے اُڑتے یہ خبر سر سیّد کے کانوں میں پڑ گئی جو اُس وقت علی گڑھ مسلم کالج کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ اُنہوں نے اپنا خاص منشی گاو ¿ں میں بھیجا اور عبداللہ صاحب کو وظیفہ دے کر علی گڑھ بلا لیا۔ یہاں پر عبداللہ صاحب نے خوب بڑھ چڑھ کر اپنا رنگ نکالا اور بی۔اے کرنے کے بعد انیس برس کی عمر میں وہیں پر انگریزی، عربی، فلسفہ اور حساب کے لیکچرر ہوگئے۔
سرسیّد کو اِس بات کی دُھن تھی کہ مسلمان نوجوان زیادہ تعداد میں اعلیٰ ملازمتوں پر جائیں۔چناںچہ انہوں نے عبداللہ صاحب کو سرکاری وظیفہ دلوایا کہ وہ انگلستان جا کر آئی سی ایس کے امتحان میں شریک ہوں۔
پچھلی صدی کے بڑے بوڑھے سات سمندر پار کے سفر کو بلائے ناگہانی سمجھتے تھے۔ عبداللہ صاحب کی والدہ نے بیٹے کو ولایت جانے سے منع کر دیا۔ عبداللہ صاحب کی سعادت مندی آڑے آئی اور اُنہوں نے وظیفہ واپس کر دیا۔
اِس حرکت پر سرسیّد کو بے حد غصّہ بھی آیا اور دُکھ بھی ہوا۔اُنہوں نے لاکھ سمجھایا،بُجھایا،ڈرایا لیکن عبداللہ صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے۔
”کیا تم اپنی بوڑھی ماں کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہو؟“ سر سیّد نے کڑک کر پوچھا۔
”جی ہاں۔“عبداللہ صاحب نے جواب دیا۔
یہ ٹکا سا جواب سُن کر سرسیّد آپے سے باہر ہوگئے۔ کمرے کا دروازہ بند کرکے پہلے اُنہوں نے عبداللہ صاحب کو لاتوں، مکوں، تھپڑوں اور جوتوں سے خوب پیٹا اور کالج کی نوکری سے برخواست کرکے یہ کہہ کر علی گڑھ سے نکال دیا، ”اب تم ایسی جگہ جا کر مرو جہاں سے مَیں تمہارا نام بھی نہ سن سکوں۔“
عبداللہ صاحب جتنے سعادت مند بیٹے تھے، اتنے سعادت مند شاگرد بھی تھے ۔نقشے پر انہیں سب سے دُور افتادہ اور دشوار گزار مقام گلگت نظر آیا۔ چناںچہ وہ ناک کی سیدھ گلگت پہنچے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں گورنری کے عہدے پر فائز ہو گئے جن دنوں ماں جی کی منگنی کی فکر ہو رہی تھی ،انہی دنوں عبداللہ صاحب بھی چھٹی پر گاو ¿ں آئے ہوئے تھے۔ قسمت میں دونوں کا سنجوگ لکھا ہوا تھا۔ اُن کی منگنی ہوگئی اور ایک ماہ بعد شادی بھی ٹھہر گئی تاکہ عبداللہ صاحب دلہن کو اپنے ساتھ گلگت لے جا سکیں۔
منگنی کے بعد ایک روز ماں جی اپنی سہیلیوں کے ساتھ پاس والے گاو ¿ں میں میلہ دیکھنے گئی ہوئی تھیں۔ اتفاقاً یا شاید دانستہ عبداللہ صاحب بھی وہاں پہنچ گئے۔
ماں جی کی سہیلیوں نے اُنہیں گھیر لیا اور ہر ایک نے چھیڑ چھیڑ کراُن سے پانچ پانچ روپے وصول کرلیے۔ عبداللہ صاحب نے ماں جی کو بھی بہت سے روپئے پیش کیے لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔ بہت اصرار بڑھ گیا تو مجبوراً ماں جی نے گیارہ پیسے کی فرمائش کی۔
”اتنے بڑے میلے میں گیارہ پیسے لے کر کیا کرو گی؟“ عبداللہ صاحب نے پوچھا۔
”اگلی جمعرات کو آپ کے نام سے مسجد میں تیل ڈلوادوں گی۔“ماں جی نے جواب دیا۔
زندگی کے میلے میں بھی عبداللہ صاحب کے ساتھ ماں جی کا لین دین صرف جمعرات کے گیارہ پیسوں تک ہی محدود رہا۔اِس سے زیادہ رقم نہ کبھی انہوں نے مانگی نہ اپنے پاس رکھی۔
گلگت میں عبداللہ صاحب کی بڑی شان وشوکت تھی۔ خوبصورت بنگلہ،وسیع باغ،نوکر چاکر،دروازے پر سپاہیوں کا پہرہ۔ جب عبداللہ صاحب دَورے پر باہر جاتے تھے یا واپس آتے تھے تو سات توپوں کی سلامی دی جاتی تھی۔ یوں بھی گلگت کا گورنر خاص سیاسی، انتظامی اور سماجی اقتدار کا حامل تھا۔ لیکن ماں جی پر اِس سارے جاہ و جلال کا ذرہ بھی اثر نہ ہوا۔ کسی قسم کا چھوٹا بڑا ماحول اُن پر اثر انداز نہ ہوتا تھا بلکہ ماں جی کی اپنی سادگی اور خود اعتمادی ہر ماحول پر خاموشی سے چھا جاتی تھی۔
اُن دنوں سر مالکم ہیلی حکومت ِبرطانیہ کی طرف سے گلگت کی روسی اور چینی سرحدوں پر پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر مامور تھے۔ ایک روز لیڈی ہیلی اور اُن کی بیٹی ماں جی سے مِلنے آئیں۔ انہوں نے فراک پہنے ہوئے تھے اور پنڈلیاں ُکھلی تھیں، یہ بے حجابی ماں جی کو پسند نہ آئی۔ انہوں نے لیڈی ہیلی سے کہا، ”تمہاری عمر تو جیسے گزرنی تھی گزر ہی گئی ہے۔ اب اپنی بیٹی کی عاقبت تو خراب نہ کرو۔ “ یہ کہہ کر انہوں نے مِس ہیلی کو اپنے پاس رکھ لیا اور چند مہینوں میں اُسے کھانا پکانا، سینا پرونا، برتن مانجھنا، کپڑے دھونا سِکھا کر ماں باپ کے پاس واپس بھیج دیا۔
جب روس میں انقلاب برپا ہوا تو لارڈ کچنر سرحدوں کا معائنہ کرنے گلگت آئے۔اُن کے اعزاز میں گورنر کی طرف سے ضیافت کا انتظام ہوا۔ماں جی نے اپنے ہاتھ سے دس بارہ قسم کے کھانے پکائے ۔کھانے لذیذ تھے۔ لارڈ کچنر نے اپنی تقریر میں کہا۔”مسٹر گورنر، جس خانساماں نے یہ کھانے پکائے ہیں، براہِ مہربانی، میری طرف سے آپ اُن کے ہاتھ چوم لیں۔“
دعوت کے بعد عبداللہ صاحب فرحاں وشاداں گھر لوٹے تو دیکھا کہ ماں جی باورچی کھانے کے ایک گوشے میں چٹائی پر بیٹھی نمک اور مرچ کی چٹنی کے ساتھ مکئی کی روٹی کھا رہی ہیں۔
ایک اچھے گورنر کی طرح عبداللہ صاحب نے ماں جی کے ہاتھ چومے اور کہا۔”اگر لارڈ کچنر یہ فرمائش کرتا کہ وہ خود خانساماں کے ہاتھ چومنا چاہتا ہے تو پھر تم کیا کرتیں ؟“
”مَیں“،ماں جی تنک کر بولیں۔مَیں اُس کی مونچھیں پکڑ کر جڑ سے اُکھاڑ دیتی۔پھر آپ کیا کرتے ؟“
”مَیں، عبداللہ صاحب نے ڈرامہ کیا،مَیں اُن مونچھوں کو روئی میں لپیٹ کر وائسرائے کے پاس بھیج دیتا اور تمہیں ساتھ لے کر کہیں اور بھاگ جاتا جیسے سرسیّد کے ہاں سے بھاگا تھا۔“
ماں جی پر اِن مکالموں کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا لیکن ایک بارماں جی رشک وحسد کی اُس آگ میں جل بھُن کر کباب ہو گئیں جو ہر عورت کا ازلی ورثہ ہے۔


گلگت میں ہر قسم کے احکامات ”گورنری“ کے نام پر جاری ہوتے تھے۔ جب یہ چرچا ماں جی تک پہنچا تو انہوں نے عبداللہ صاحب سے گلہ کیا۔
”بھلا حکومت تو آپ کرتے ہیں لیکن گورنری گورنری کہہ کر مجھ غریب کا نام بیچ میں کیوں لایا جاتا ہے خوامخواہ!“
عبداللہ صاحب علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے۔ رگِ ظرافت پھڑک اُٹھی اور بے اعتنائی سے فرمایا، ”بھاگوان،یہ تمہارا نام تھوڑی ہے ۔گورنری تو دراصل تمہاری سوکن ہے جو رات دن میرا پیچھا کرتی ہے۔“
مذاق کی چوٹ تھی۔ عبداللہ صاحب نے سمجھا بات آئی گئی ہو گئی۔لیکن ماں جی کے دل میں غم بیٹھ گیا۔ اِس غم میں وہ اندر ہی اندر کڑھنے لگیں۔
 کچھ عرصے بعد کشمیر کا مہاراجہ پرتاب سنگھ اپنی مہارانی کے ساتھ گلگت کے دورے پر آیا۔ماں جی نے مہارانی کو اپنے دل کا حال سنایا۔ مہارانی بھی سادہ عورت تھی۔ جلال میں آ گئی۔”ہائے ہائے ہمارے راج میں ایسا ظلم ،مَیں آج ہی مہاراج سے کہوں گی کہ وہ عبداللہ صاحب کی خبر لیں۔
جب یہ مقدمہ مہاراج پرتاب سنگھ تک پہنچا تو اُنہوں نے عبداللہ صاحب کو بلا کر پوچھ گِچھ کی۔عبداللہ صاحب بھی حیران تھے کہ بیٹھے بٹھائے یہ کیا افتاد آن پڑی۔ لیکن جب معاملے کی تہہ تک پہنچے تودونوںخوب ہنسے۔ آدمی دونوں ہی وضعدار تھے۔ چناںچہ مہاراجہ نے حکم نکالا کہ آئندہ سے گلگت کی گورنری کو وزارت اور گورنر کو وزیرِ وزارت کے نام سے پکارا جائے۔1947ءکی جنگِ آزادی تک گلگت میں یہی سرکاری اصطلاحات رائج تھیں۔
یہ حکم نامہ سن کر مہارانی نے ماں جی کو بلا کر خوشخبری سنائی کہ مہاراج نے گورنری کو دیس نکالا دے دیا ہے۔”اب تم دودھوں نہاو ¿ ،پوتوں پھلو۔کبھی ہمارے لیے بھی دعا کرنا۔“
مہاراجہ اور مہارانی کے کوئی اولاد نہ تھی اس لیے وہ اکثر ماں جی سے دعا کی فرمائش کرتے تھے۔
 1949ءمیں ایک ” معاہدہ“ کے تحت جموّں کشمیر کا بھارت سے الحاق ہوگیا تو ہری سنگھ برائے نام مہاراجہ رہ گئے۔ کَرن سنگھ 1971ءتک برائے نام مہاراجہ رہے اور اُسی برس ”راج گدّی“ ختم کردی گئی۔ پیچھے کہیں کہیں جموّں میں مسلمانوں کی نسل ُکشی کا تذکرہ آیا ہے۔ یہ برِصغیر کی تقسیم کا زمانہ تھا اور مہاراجہ ہری سنگھ کا آخری دور۔ اُس نے موقع برمحل جانتے ہوئے ایک کام کردکھایا کہ جموّں جہاں مسلمان اکثریت میں تھے، انہیںEthnic Cleansing کے حوالے سے اقلیّت میں بدل دیا۔سورج ونش ہونے کے ناتے اِس ڈوگرا قبیلے کے برہمن، سرسوَت برہمن کہلاتے ہیں۔ ڈوگرا رجمنٹ نے پہلی اور دوسری عالمی جنگ میں برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوںکی خدمات انجام دیںاوروہ مشرقِ بعید سے یورپ اور شمالی افریقہ تک پھیلے محاذوں پر لڑے۔ آزادی کے بعد اِس رجمنٹ کو بھارتی فوج میں باقاعدہ قائم رکھا گیا۔
ڈوگرا قبیلے کے وجود میں آنے سے متعلق بھی کئی روایات اور تاریخی ماخذ سامنے آتے ہیں۔ اِس سے قبل ایک وضاحت کردی جائے۔ خالصہ کالج،امرتسر کے پروفیسر وریام سنگھ اور پروفیسر سنت سنگھ نے تاریخِ ہند-عہدِ عتیق سے عہدِ وسطیٰ تک (History of India-Ancient and Medieval) لکھی جو 1932ءمیں لاہور سے شائع ہوئی۔ اِس میں وہ برِصغیر میں آباد قوموں، قومیّتوں،قبیلوں اور برادریوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ اُن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اِسی دھرتی کی مٹی سے سانے گئے اور وہ بھی جو سرحدوں کے اُس پار سے حملہ آوروں یا قافلوں کی صورت وارد ہوئے۔ یہ اِس مٹی یا دھرتی کی خاصیت جانیے کہ جو کوئی بھی آیا، چند صدیوں کے اندر اندر معاشرتی، معاشی اور ثقافتی اعتبار سے اِس کا جزوِ لاینفک بن گیا - توُ توُ نہ رہا، مَیں مَیں نہ رہا۔ اس حوالے سے پروفیسر وریام سنگھ اور پروفیسر سنت سنگھ نے برِصغیر کو ” نسلی امتزاج اور مِلاپ کا عجائب گھر“ قرار دیا ہے۔ وہ کتاب کے صفحہ18 پر لکھتے ہیں :
”ہندو ستان میں، ہمیں نسلی اور ثقافتی امتزاج اور مِلاپ کا جو پھیلاﺅ ملتا ہے، دنیا بھر میں اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا۔ نامعلوم وقتوں سے اب تک غیر ملکیوں کے جتھے اورگروہ دنیا کے گوشے گوشے سے ہندوستان میں داخل ہوتے رہے ہیں۔ اِن میں سے بیشتر شمال مشرق اور شمال مغرب کے کوہستانی درّوں کے راستے داخل ہوئے۔ اُن میں آریا، منگول، یونانی، باختری، پارتھی، سکا، سیتھی، یوے چی، کشان، ہُن، مسلمان اور آخر میں انگریز شامل تھے۔ آج کا بھارتی، دیکھا جائے تو اُن ہی جتھوں اور گروہوں کے مِلاپ سے وجود میں آیا۔ اُسی دور میں مبلغّین بھی آتے رہے۔اِس ساری کیفیت کو بیان کرنا یا اِس کی وضاحت کرنا شاید ممکن نہیں۔ اتنا کہا جاسکتا ہے کہ ہزاروں برس پہ محیط اُس دور میں بھارت ثقافتی امتزاج اور مِلاپ کی ایک عظےم تجربہ گاہ بنا رہا۔(خالص مقامی آبادیوں کو بھی شامل کیا جائے تو) بھارت کو ’ نسلی امتزاج اور مِلاپ کا عجائب گھر‘ کہا جاسکتا ہے۔“
ڈوگرا راجپوت قبیلہ اپنے آپ کو سورج ونشی، چندرونشی کہتا ہے اور اِس میں شامل برہمن خود کو کشمیر کے سرسوَت برہمن قرار دیتے ہیں۔ اُن کی اپنی زبان ہے -ڈوگری -جو سنسکرت، پنجابی، فارسی اور پہاڑی زبانوں کا ملغوبہ ہے۔ روایت ہے کہ ڈوگرا، سنسکرت کے لفظ دھیوارا کی بگڑی ہوئی شکل ہے اور اِس کا ذِکر ہمیں ہندو دیو مالائی داستان ” مہا بھارت“ میں بھی مِلتا ہے جس میں دھیور لوگوں کو ماہی گیروں یا مچھواروں کا قبیلہ بتایا گیا ہے۔ اِس میں گرچہ باورچی جِسے احتراماً ”مہاراج“کہاجاتا تھا، ماشکی، کہار(پالکی اٹھانے والے) سبھی شامل ہیں لیکن اصلاً یہ ایک جنگجو قبیلہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ اِس قبیلے کی اصل بھومی کوہستانِ شوا لک کی دو جھیلوں سرن سر اور مان سر کی درمیانی وادیاںہیں۔ اِس علاقے کو ”درِگ دیش“کہا جاتا تھا جو بگڑتے بگڑتے” دُگاردیش“بن گیا۔ یہ قبیلہ یہاں سے اُٹھا اور پورے جموّں اور پنجاب کے کچھ حصّے پر پھیل گیا۔ جہاں تک ذات پات کا تعلق ہے اِس میں برہمن، راجپوت، کھتری، ٹھاکر، جاٹ،بنئے، کراڑ (چھوٹے کریانہ فروش/ دکان دار) اپنا وجود رکھتے ہیں۔ 16ویں اور 17ویں صدی کے کے دوران کچھ ڈوگرے مسلمان بھی ہوگئے۔ مذہب سے قطع ِنظر موسیقی بھی اُن کا ایک من بھاتا پیشہ ہے۔ برِصغیر کا ایک یگانہ ادا کار اور گلوکار کندن لال سہگل، گلوکارہ مَلکہ پکھراج، اداکار اوم پرکاش، ڈوگری ادیبہ پدما سچدیو، طَبلہ نواز اللہ رکھا جنہوں نے برِصغیر کے ممتازویگانہ ستارنواز پنڈت روی شنکر کے ساتھ طبلہ نوازی کے جوہر دکھائے ،موسیقار ذاکر حسین، صحافی بلراج پوری، فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر وید راہی وغیرہ۔
 1846ءکے بعد ریاست جموّں کشمیر کے مہاراجہ اِسی قبیلے سے تھے۔
 تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کی نسل ُکشی ہوئی تھی۔ اکتوبر1947ءکے ٹائمز آف لندن کے صفحات اِن واقعات سے بھرے پڑے ہیں۔ بدایوں( بھارت) سے سہ ماہی جریدہ ”لمحے لمحے“ ( اردو) شائع ہوتا ہے۔ اِس کے 2007ءکے ایک شمارے، وسیم بریلوی نمبر،میں اشتہاردیکھا:
 ” منفرد لہجے کے شاعر عبدالغنی جاگل کی شعری کتاب۔ ُسلگتا صحرا۔ رابطہ: مکان نمبر349،وارڈ نمبر3، پیرکھو، ڈاک خانہ پیرمِٹھا، جموّں۔“ 
وہاں تومسلمانوں کی نسل کُشی ہوئی تھی۔ عبدالغنی جاگل، اوروہ بھی شاعر! جموّ ں میں کہاں سے آگئے؟ نہیں معلوم ! اور لوگ بھی ہوں گے۔ ممکن ہے آس پاس کے پہاڑی علاقوں سے آکے جموّں میں” پھر“ آباد ہوگئے ہوں!
وہاں تو شہر اور قرب وجوار میں بھی بہت سے رشتہ دار، برادری والے مارے جاچکے تھے۔ انتہائے فکر یہی تھی کہ کسی طرح یہاں سے زندہ سلامت نکل لیں۔ لیکن یہ مارکیوں رہے تھے؟ مارنے والے کون تھے؟ وہ پُرکھ جو صدیوں سے پڑوسی تھے، اچانک انجانے پن، بیگانے پن اور ناشنا سائی کے زہر میں کیسے بُجھ گئے تھے؟ داستان گوکے وطن سے ، ملک کا قریب ترین شہر سیالکوٹ تھا جہاں پناہ مِل سکتی تھی۔ درمیانی فاصلہ صرف 27میل۔ سڑک تھی ، ریلوے لائن بھی اور ریل گاڑیاں بھی۔ سڑک کے راستے جو پہلے قافلے ٹرکوں اور بسوں پر روانہ ہوئے اُن کا وہ حشر ہوا جس کا ذِکر ہوچکا۔ ریلوے ٹریک اُکھاڑے جاچکے تھے۔ بندوقوں، تلواروں، خنجروں کا خوف-یہ 27میل کا راستہ پُل صراط بن چکا تھا۔کہ نیچے خون اور آگ کا دریا تھا۔ راہ میں کئی عزیزوں کی لاشیں بصد حسرت ویاس، چھوڑ کر چُھپتے چُھپاتے کئی دنوں بعد غیر مرئی سرحدی خط پار کرکے سیالکوٹ پہنچ ہی گئے۔ جموّں اور سیالکوٹ، دونوں شہروں کے درمیان صدیوں سے کاروباری مراسم رہے تھے۔ کچھ لوگ تو رشتہ داریوںکے بندھن میں بھی بندھے ہوئے تھے۔ لیکن شہر میں داخل ہوتے ہی عجیب سی اجنبیّت کا احساس ہوا۔ آنے والے ” پناہ گیر“ تھے۔ چار برس کی عمر میں جو کچے پکے احساسات ہوسکتے تھے، دَم پکڑنے لگے تھے۔ داستان گو کے آٹھ دس رشتہ دار کنبوں کو ایک بڑی سی متروکہ حویلی مِل گئی۔ ہر کنبے کے حصّے میں ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو کمرے اِس طرح آئے کہ کسی کے حصّے میں غسل خانہ آگیا تو اُس کے دو تین دعوے دار بن گئے۔ کسی کو کمروں کے ساتھ لیٹرین بھی مِل گئی تو چار کنبے کھڑے ہوگئے کہ ہم بھی یہی استعمال کریں گے، ورنہ کہاں جائیں گے؟ رشتہ داریوں میں نفسانفسی پوری شدت سے در آئی تھی۔ جو کنبے ذرا کمزور تھے، اُن کے لیے فی الوقت نہ جائے ماندن تھا،نہ پائے رفتن ۔ حویلی کی حالت دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اُسے بھی اُس کے مالکان یقینا اُسی طرح چھوڑ کے نکلے ہوں گے جس طرح سب یہاں پہنچے تھے۔ تلوار کی دھار پہ چل کے، خون کا دریا پار کرکے! اُن آٹھ دس رشتہ دار کنبوں میں داستان گو کے کوئی پندرہ اٹھارہ چچیرے، خلیرے، پھپیرے، ممیرے بھائی بہن تھے۔ بعض ہم عمر اور کچھ بڑے۔ لیکن داستان گو کا کنبہ ذرا کمزور ”پارٹی“ تھارشتے میں۔ بزرگوں کی یہی کوشش رہتی کہ ہمیں جوڈیڑھ کمرہ مِلا تھا، اُس سے کسی طرح دستبردار ہوجائیں۔ منجھلے بھائی نذیر جو جموّں میں خدابخش بینڈ باجے والے اور ابّا کے ہاتھوں پٹائی سے بچنے کے لیے بھاگ نکلے تھے، ”انگریزوں کی دوسری عالمی جنگ“کے آخری دنوں میں فوج میں ڈرائیور بھرتی ہو کر برما کے محاذ پر چلے گئے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد،جب انگریزوں کی فوجی ضروریات پوری ہوچکی تھیں اور وہ برِصغیر کو آزادی کا جُل دے کر یہاں ہزاروں برس سے آباد مختلف قومیّتوں کو باہم دست و گریباں کرچکے تھے، راولپنڈی آگئے تھے اور انہیں شہر کی آخری گلیوں میں، جہاں سے آگے جنگل شروع ہوجاتے تھے، سواکمرے کا ایک پراناسا متروکہ مکان الاٹ ہوچکا تھا۔خون آخر کو خون ہوتا ہے۔ منجھلے بھائی کوراولپنڈی میں جموّں کے آس پاس مذہبی فسادات، بلووں، عورتوں کے اغوا اور شہر سے مسلمان آبادیوں کے جبری انخلا کی خبریں مِلیں۔ یہ آبادیاں ہجرت کرکے سیالکوٹ کی طرف آرہی تھیں۔ بھائی کے دل میں ہول سا اُٹھا۔ اُن کے گھر میں تین بہنیں اور ایک بھاوج تھیں۔ آگے کی سوچ تڑپانے کو کافی تھی۔ وہ سیالکوٹ کے بارڈر پر آکھڑے ہوئے۔ صبح سے شام تک کھڑے منتظر نظروں سے دیکھتے رہتے۔ لُٹے پُٹے ،زخمی قافلے سرحد پارکر کے سیالکوٹ کے علاقے میں داخل ہوتے۔ اُن قافلوں سے خبریں مِلتیں۔ فلاں رشتہ دار مارا گیا،فلاں اغوا ہوگئی ۔اُن کا دل ڈوب ڈوب کے اُبھرتا اور ایک روز آخرِ کار گھر کے سارے لوگ، بقیہ عزیز اُنہیں نظر آگئے۔ زندہ سلامت! سیالکوٹ والی متروکہ حویلی میںعزیز رشتے دار داستان گو کے کنبے کو ناپسندیدہ(Persona non-grata) جانتے ہوئے اکثر منافقانہ سے مشورے دیتے رہتے کہ بیٹے کے پاس راولپنڈی چلے جائیں۔ ” وہاں کا موسم اچھا ہے۔“ دوسال بعد ہم جب راولپنڈی چلے گئے تو، اللہ جھوٹ نہ بلوائے، منافقت ختم ہوگئی۔ بس رہ گئی۔ہمارے ڈیڑھ کمرے کا باہم بٹوارا ہوگیا۔ جس طرح سب کے دن پھِرے، اُسی طرح نئے قابضین کے بھی دن پھِر گئے۔
کنبوں میں اکثر و بیشتر کوئی نہ کوئی نام یا رشتہ”جگت نام یا رشتہ“بن جاتا ہے۔ ایسی کوئی تخصیص نہیں کہ اِس کی زد میں کوئی مرد آتا ہے یا خاتون۔ ابھی داستان گو کے کنبے والے اپنا وطن جموّں چھوڑ کر اپنے اِس ملک پاکستان میں نہیں آئے تھے کہ سب سے بڑے ماموں لطیف کی شادی ہوئی۔ ظاہر ہے سب دیور اور نندیں اُن کی بیوی کو بھابی کہنے لگیں۔ اُن کی دیکھا دیکھی، وہ کنبے میں باقی خالہ زاد، ماموں زاد، چچا زاد بھائی بہنوں کی بھی بھابی بن گئیں۔ یوں بھی وہ کنبے میں سے ہی بیاہ کے آئی تھیں، لہٰذا قریبی عزیز و اقارب کی بھی بھابی بنیں۔ اُن کے اپنے بچے ہوئے، پہلا بیٹا تھا، اُس نے جب سمجھنا اور بولنا شروع کیا تو دیکھا اُس کی امّاں کو سب بھابی کہتے ہیں۔ سو اُس نے بھی ماں کو پہلی بار بھابی کہہ کے پکارا۔ بچے ہوتے گئے، بڑھتے گئے اور وہ اپنے بچوں کی بھی بھابی ہوکے رہ گئیں۔ داستان گو کی وہ ممانی یا مامی تھیں لیکن اُس نے بھی انہیں ہمیشہ بھابی کہا کہ امّاں یعنی ”بے جی“ بھی اُنہیں بھابی کہتی تھیں۔ اُن کی تو وہ خیر بھابی ہی تھیں۔ محلے والے بھی انہیں بھابی کہتے تھے۔ وہ مرتے دم تک”جگت بھابی“ہی رہیں۔ امّاں بھی تو ”جگت بے جی“ تھیں۔ عمر بھر اتنی احتیاط ضرور کی گئی کہ ماموں لطیف نے اپنے بیوی کو”بھابی“ یا ابّا نے”بے جی“ کو ”بے جی“نہ کہا۔ ہاں دوسروں کو مخاطب کرکے کہتے تھے ،”اپنی بھابی“ یا”اپنی بے جی“ سے پوچھ لو۔ ایسے رشتے دنیا میں شاید کبھی کم نہ ہوں گے!


جتنے دن سیالکوٹ میں رہے، رشتے کے بھائی بہنوں سے تعلقات ، بڑوں کے مابین تعلقات کے برعکس، اچھے رہے۔ اور وہ زمانہ بھی کیا زمانہ تھا۔ مقامی سیالکوٹی آنے والوں کو” پناہ گیر“ کہہ کے پکارتے۔اُن دنوں گھر گھر نلکے تو تھے نہیں۔ گلی میں میونسپلٹی کا ایک نَل لگا ہوتا تھا اور محلّے بھر کے لوگ خصوصاً خواتین وہاں سے پانی بھرتی تھیں۔یہ نَل بھی خوب ہوتا تھا۔ لال اینٹوں سے چھوٹی سی چار دیواری کھڑی کرکے بیچ میں پختہ گھڑونچی سی یوں بنادیتے کہ نَل سے پانی سیدھا گھڑونچی پہ رکھے برتن میں گِرے۔ اِدھر اُدھر گِر کے ضائع نہ ہو۔ برتنوں، گھڑوں اور بالٹیوں کی قطار لگتی۔ جو کوئی قطار توڑنے یا جھانسا دے کر پہلے پانی بھرنے کی کوشش کرتا، وہ خاص طور پر”پنیاںبھرن“ کو آنے خواتین کے شور شرابے اور بسا اوقات دَھول دھپّے کا شکار ہوجاتا۔ برسوں بعد، آج جب کبھی وہ منظر،نظروں کے سامنے ہلورے لیتے ہیں تو غالب کا ایک مصرع بھی ساتھ ہی ماضی میں لوٹالے جاتا ہے۔
ع دَھول دَھپّااُس سراپا ناز کا شیوا نہ تھا 
ایک دن گلی سے گزررہا تھا کہ سامنے سے جنازہ آتا دکھائی دیا۔نَل پہ کھڑی خواتین نے بھی جنازہ دیکھا تو ایک خاتون ، دوسری سے پوچھنے لگی،” کِس کا جنازہ ہے؟“دوسری خاتون نے محلّے کے کسی بندے کا نام لیا تو پہلے والی خاتون نے ناک چڑھا کے کہا،” اچھا؟ اُن کا جنازہ ہے۔ مَیں سمجھی کوئی ’پناہ گیر‘ مرگیا ۔“چھوٹی سی عمر کے اُس حصّے میں بھی یہ جواب دہلاگیا۔ برسوں کَن کھجورے کی طرح ذہن سے چپکارہا۔اُن ہی دنوں میں عید آگئی۔ سب لُٹے پُٹے آئے تھے۔ امّاﺅں نے بچوں کو وہی کپڑے دھودُھلا کے پہنادیے۔ لیکن ایک خالہ نے کمال کردکھایا۔ اپنے بیٹے کو لٹھے کا نیا جوڑا پہنادیا۔ ہمارے ہاں نام بگاڑنے کی بڑی عادت ہے۔ اُس خالہ زاد کا نام غلام عباس تھا لیکن اُسے”باسَو“ کہتے تھے۔ اب وہ نیا جوڑا پہن کے اہلے گہلے پھرنا شروع ہوا تو کسی نے توجّہ نہ دی۔ خالہ نے پتا نہیں وہ کپڑا کیسے حاصل کیا تھا۔ خیال یہی تھا کہ جموّں سے چلتے ہوئے انہوں نے کپڑے کا وہ ٹکڑا پوٹلی میں باندھ لیا تھا۔ سب کو جان کے لالے پڑے ہوئے تھے،پرَبیٹے کی شاید ہر شے پر غالب آگئی تھی۔ خالہ کپڑے کا وہ ٹکڑا بچالانے میں کامیاب ہوگئی تھیں۔ ” باسَو“ نے جب دیکھا کہ کوئی اُس کے نئے کپڑوں پر توجہ ہی نہیں دے رہا تو گلی میں نکل گیا۔ کچھ دیر بعد دو چار بھائی بہن بھی باہر نکلے تو ” باسَو“ گلی میں بندھی ایک بکری کے سامنے کپڑے لہرا لہرا کے کہہ رہا تھا ، ” بکری اے ،بکری اے، میرے نوَیں پکڑے ویکھ“( بکری بکری، میرے نئے کپڑے دیکھ)۔ وہ بچپن تھا۔بچپن جو لوٹ کے نہیں آتا۔ یہ فقرہ اُس کی گویا چِڑ بن گیا جو جانے کب تک بنا رہا ۔ آج وہ باتیں یاد آتی ہیں تو داستان گو سوچ میں پڑجاتا ہے کہ نئے کپڑے بن جاتے تو وہ بھی شاید یہی کرتا۔ اور نئے کپڑے بننے کی بات تو اُن دنوں اِک خواب تھا۔ راشن ، راشن کارڈ پر ملتا تھا۔موٹی سخت پتھریلی سی مکئی جو پتا نہیں کِس ملک نے مہاجرین ( پناہ گیروں) کی امداد کے طور پر بھیجی تھی۔ اُس کا آٹا پیسنے والے چکّی مالکان نے بھی پِسائی کے دام بڑھادیے تھے کہ ایسی مکئی آسانی سے نہیں پیسی جاتی۔ اُس کی جب روٹی پک جاتی تو تازہ پانی کا گلاس لے کے، منڈیر پر بیٹھ ، پانی سے” تَر نوالہ کھانے بلکہ حلق سے اُتارنے“ کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔مکئی کی روٹی کو ڈوگری اور پہاڑی زبانوں میں ”توڈا“ کہتے ہیں۔ پوٹھوہار میں آکر آباد ہوئے تو پتا چلا کہ پشتو میں روٹی کو ”ڈوڈا“ کہا جاتا ہے۔ پوٹھوہار میں مکئی کی روٹی ہو یا کوئی اور ”توڈا“ کہو تو سمجھنے والے سمجھ جاتے ہیں۔ جب تک سیالکوٹ میں رہے، مزہ کیا کیے۔ کہ اُس مزے کا اگلا پڑاﺅ راولپنڈی میں تھا۔
سیالکوٹ، برس ہابرس بعد پھر یاد آیا۔ کلدیپ نائر کے ذِکر پر!خالد حسن کوداستان گو، کے ایچ خورشید (خورشیدالحسن خورشید) کے حوالے سے جان پایا۔ خالد حسن سے براہِ راست تو ربط نہ ہوپایا کہ اپنے اپنے مقام پر کبھی وہ نہ تھے، کبھی ہم نہ رہے۔ لیکن کے ایچ خورشید صاحب کے ساتھ باتوں میں اُن کا ذِکرآجاتا۔ کے ایچ خورشید داستان گو کے بزرگ ، استاد اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دوست تھے۔ اُن سے پہلا ربط 1965ءمیں تب ہوا جب وہ آزاد کشمیر کی صدارت سے الگ اور ایوب خان کے ہاتھوں دو سال کی قید ُبھگت کے کراچی آئے اور یہاں وکالت شروع کی۔ کے ایچ خورشید کی اپنی زندگی بڑی بھرپور تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے سیکریٹری رہے، اُن ہی کی ہدایت پر لندن جاکر بیرسٹری کا امتحان پاس کیا۔ بڑے سیاسی اُتار چڑھاﺅ سے گزرے۔ اہم عہدوں پر فائزرہے۔ کبھی سوچ بھٹکتی ہے، انہوں نے مال وال کیوں نہ بنایا؟ جس روز گوجرانوالہ میں اُن کا انتقال ہوا، وہ مظفر آباد سے ایک عام مسافر ویگن میں سوار لاہور آرہے تھے۔سابق صدر، لنکنز اِن کے لا گریجویٹ، سیاست دان- انتقال عام مسافر ویگن میں! ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں!داستا ن گو نے اپنے رسالے ماہنامہ”شوٹائم“ میں، اُن کے بارے میں مبسوط تحریریں چھاپیں۔ لیکن انہیں کیا؟ وہ تو اِس دنیا سے ہی جاچکے تھے۔پیچھے کچھ نہ چھوڑا تھا سوائے اچھی یادوں کے !
خالد حسن اُن کے برادرِ نسبتی،پاکستان کے ایک ممتاز صحافی اور ادیب تھے۔ کشمیری ہونے اور جموّں میں رہنے کے ناتے انہیں جموّں سے بہت لگاﺅ تھا۔انہوں نے زیادہ تر انگریزی میں لکھا اور بہت سی اہم اردو پنجابی تحریروں(شاعری اور نثر) کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ ایک انٹر ویو نمامضمون اُن کا کلدیپ نائر کے بارے میں نظر سے گزرا۔ کلدیپ نائر 1947ءمیں سیالکوٹ سے ہجرت کرکے ( بلکہ شرنار تھی بن کے) بھارت گئے تھے۔ نائر گوت کے اعتبار سے کھتری یا کھشتری ہیں۔ اِس گوت کا خمیر پنجاب کے علاقے کنجاہ سے اُٹھا۔ روایت بھی ہے کہ نائر دراصل عربی لفظ ”نجاّر“کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ یہ لوگ پیشے کے اعتبار سے بڑھئی/ ترکھان ہوتے ہیں۔پنجاب کے کئی شہروں مثلاً جالندھر میں اُن کے اپنے محلّے”محلّہ نجاّراں“ کے نام سے آباد ہیں۔ واللہ اَعلم۔ ایک بات طے ہے کہ یہ کیرالہ کے نائروں سے بالکل جدا گوت ہے۔ ممتاز موسیقار اوپی نائرجنہیں نیّربھی کہا جاتا ہے، غالباً اِسی گوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ کلدیپ نائر بہر حال، پُرکھوںسے سیالکوٹ میں آباد تھے۔14اگست1923ءکو سیالکوٹ ہی میں گوربخش سنگھ کے ہاں پیدا ہوئے۔ گنڈا سنگھ ہائی اسکول ( جہاں اب خواتین کا کالج ہے) اور مرے کالج،سیالکوٹ میں تعلیم پائی۔لاہور سے قانون کی ڈگری لی، برطانیہ سے صحافت میں پوسٹ گریجویشن اور فلسفے میں ڈاکٹریٹ کے باوجود طبعی رجحان صحافت کی طرف رہا۔ دِلّی کے چاندنی چوک میں مولانا حسرت موہانی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔اپنا تعارف اردو صحافی کے طور پر کرایا تو مولانا حسرت موہانی نے انگریزی صحافت اپنانے کا مشورہ دیا، اس بنیاد پر کہ اردو زبان بھارت میں بے اعتنائی اور عدم توجہی کا شکار تھی۔ برطانیہ میں وہ بھارتی ہائی کمشنر رہے۔ قیامِ امن کی تحریک کے ایک فعال رکن کی حیثیت سے کام کیا۔اندرا گاندھی نے بھارت میں ایمرجینسی نافذ کی تو انہوں نے مخالفت کی جس کی پاداش میں سپردِ جیل کردیے گئے اور کچھ عرصہ قید کاٹی۔ کلدیپ نائر نے بڑے بڑے کام کیے۔ آج بھی اُن کا ایک بڑا کام ”سینڈیکیٹڈ کالم“ کے حوالے سے چل رہا ہے کہ ادائیگی کرکے آپ اُن کے کالم باقاعدگی سے اپنے اخبار یا جریدے میں چھاپ سکتے ہیں۔ پاکستان سے وہ 1947ءمیں نکلے تو 1972ءمیں پاکستان کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا انٹرویو کرنے آئے۔انٹرویوکی کوئی بات نہیں کرتے۔ خالد حسن نے کلدیپ نائر کی جنم بھومی سیالکوٹ کے حوالے سے اُن کی جویادیںکریدیں ہیں، صرف اُن کا ذِکر ہوگا۔خالد حسن، بھٹو صاحب کے بہت قریب تھے۔ وہ کہتے ہیں:
 کلدیپ نے سیالکوٹ جانے کی خواہش کا اظہار کیا اور مَیں نے اجازت دلوادی۔ وہاںبچپن میں کلدیپ کا جگری دوست خواجہ شفقت علی تھا۔ دونوں اکٹھے امام صاحب (سیالکوٹ کے ایک مسلمان بزرگ کا مزار) جایا کرتے اورعلامہ اقبال کو بس دُور سے دیکھ لیتے جو کھٹیا پہ بیٹھے ہوتے تھے۔ کلدیپ نے لاہور سے جس سال ایل ایل بی کیا، اُسی سال برِصغیر تقسیم ہوگیا۔ دو ملک بن گئے۔ سرحدیں وجود میں آگئیں۔کلدیپ سیالکوٹ چھوڑ کے جانا نہیں چاہتے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے، ” یہ میرا گھر ہے۔ مَےں یہاں پیدا ہوا اور یہیں پرورش پائی ۔ مَےں، ایک ہندو، اِس اسلامی ملک، پاکستان میں کیوں نہیں رہ سکتا جب کہ اُدھربھارت میں لاکھوں مسلمان اب بھی رہتے ہیں؟“ وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ ایک ایسی جگہ وہ اچانک اجنبی کیوں کر بن گئے جہاں اُن کے پُرکھ اور پُرکھوں کے پُرکھ بسیرا کرتے چلے آئے تھے۔ کلدیپ کے والد ڈاکٹر اور اُن کے زیادہ تر مریض مسلمان تھے۔ اُن کے گھر کے پیچھے ایک پیر جی کا مزار تھا جنہوں نے بڑے آڑے آڑے وقتوں میں اُن کے کنبے کو مصیبتوں سے بچایا یا چھٹکارا دلایا تھا۔ امّاں کو جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی یا ابّا سے اُن کا جھگڑا ہوجاتا ،وہ پیر جی کے مزار پر جاکے بیٹھ جاتیں۔ہم تین بھائی اور ایک بہن، ہر جمعرات کو پیر جی کے مزار پہ حاضری دیتے، سرجھکاتے اور دِیا جلاتے۔ پیر جی کے مزار کو ہم کیسے چھوڑ دیتے؟ وہ تو ہماری پناہ گاہ تھی۔ ہمارا مندر تھا!“ اب اِسے ستم ظریفی نہیں تو کیا کہئے کہ جس ” پناہ گیر“ کنبے کو کلدیپ نائر کا مکان الاٹ ہوا، اُس نے مکان کے پچھواڑے کا رقبہ بڑھانے کی خاطر پیر جی کا مزار ہی برابر کردیا۔ کلدیپ پیر جی کے مزار پر چڑھانے کے لیے دِلّی سے سبز چادر لائے تھے۔ وہ اپنے ” سابقہ گھر“کے پچھواڑے پہنچے تو مزار کا نشان تک غائب ہوچکا تھا! مذہب، مسلک سے قطعِ نظر ایک صوفی، ایک مرید ہارگیا تھا۔ زمین، جائیداد جیت گئی تھی! کلدیپ بولے جارہے تھے، ” سیالکوٹ میں ہندو، سِکھ، مسلمان محلے الگ الگ توتھے،مگرمِلی جُلی آبادیاں بھی کثرت سے تھیں۔ شہر کی30فیصد آبادی غیر مسلموں پر مشتمل تھی لیکن کبھی مذہبی تعصّب غالب نہ آیا تھا۔ ہندو، سِکھ، مسلمان ایک جیسی پنجابی بولتے چلے آئے تھے۔ کوئی فرق نہ تھا۔ برِصغیر کے دو عظیم شاعر علامّہ اقبال اور فیض احمد فیضسیالکوٹ کے باسی تھے اور عام لوگوںایسی پنجابی ہی بولتے تھے۔ شہر کے عین وسط میں جین محلّے والے خوف کے مارے کئی راتیں سو نہ سکے تو پاس پڑوس کے محلّے والوں نے انہیں تحفظ کی ضمانت دی، تب کہیں اُن کا خوف دُور ہوا۔ حالات اُس روز خراب ہوئے جب وزیر آباد سے جو سیالکوٹ سے کوئی 40 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، ہندوﺅں اورسِکھوں کی لاشوں سے بھری ٹرین سیالکوٹ پہنچی۔ یہ گاڑی جموّں جارہی تھی جو سیالکوٹ سے صرف18 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔“ کلدیپ اپنی یادوں کے دِیے جلائے بیٹھے تھے، ”ہمارے کنبے نے جانے یا نہ جانے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا۔اگست1947ءمیں ایک روز، جب ابھی تقسیم کا اعلان نہیں ہوا تھا، میرے والدین اور ہم تینوں بھائی (ہماری بہن پہلے ہی بھارت جاچکی تھی) کھانے کی میز پر بیٹھے مستقبل کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ قائد اعظم کی تقریر بھی سامنے تھی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نئی مملکت، پاکستان میں سب شہری برابر ہوں گے۔ مذہب، ریاست کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ ہم نے اپنے آبائی شہر ہی میں رہنے کا فیصلہ کرلیا ۔ ایک دفعہ قائد اعظم نے لاہور کے لا کالج میں جہاں مَیں پڑھ رہا تھا،میرے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب برِصغیر کے بٹوارے کے بعد دو ملک وجود میں آجائیں گے تو دونوں بہترین دوستوں کی طرح رہیں گے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا۔“سیالکوٹ میں کلدیپ اور شفقت نے جو امن کمیٹی بنائی تھی، وہ لپیٹ دی گئی کیوں کہ لوگوں کی سوچ بدل چکی تھی۔ سیالکوٹ میں مذہبی جتھے بندی کا زہر پھیل چکا تھا۔ ٹرنک بازار میں کلدیپ کے گھر کے باہر ایک ہندو سادھو پر حملہ کردیا گیا۔ منافرت، وحشیانہ پن اور سفّاکی کے سارے بند توڑ دیے گئے تھے اور سب کچھ بے قابو ہوچکا تھا۔ کلدیپ نے بھی شاید سکوت کی ساری گرہیں کھول دی تھیں،”ایک دن سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ جیل آفیسر ارجن داس ہمارے ہاں آئے اور کہنے لگے کہ آپ لوگ اب یہاں نہےں رہ سکتے۔ یہ جگہ محفوظ نہیں رہی۔ مَیں آپ سب کو اپنے گھر لے جانے آیا ہوں۔ کسی نے اُس سے کوئی سوال جواب نہ کیا۔ ہم کھانا وانا میز پر ہی چھوڑ،اُن کے پیچھے پیچھے چل دیے۔ امّاں نے جلدی میں ایک سوٹ کیس میں ضرورت کی چیزیں رکھ لی تھیں۔ ارجن داس کی گاڑی چھوٹی سی تھی۔ بہر حال ،ہم سب پھنس پھنسا کے اُس میں سوار ہوگئے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر اتنی بڑی تعداد میں آبادیوں کے انخلا کی نوبت نہ آتی۔ یہ مہاجرت اور شر نارتھ نہ ہوتی تو دونوں ملک دوستوں کی طرح رہتے۔ چند سال بعد اُسی ارجن داس نے مہاتما گاندھی کے قاتل نتھورام گوڈ سے کو پھانسی پر لٹکایا۔“ کلدیپ نے بات ختم کی تو خالد حسن نے گویا خود کلامی کے انداز میں کہا ، ” مَیں اپنے کنبے کی بات کروں تو ہم کشمیر ہی میں رہ رہے ہوتے۔ گرمیوں میں سری نگر اور سردیوں میں جموّں۔ “ کیا ہی اچھا ہوتا۔ کلدیپ نے کیا کہا؟ خالد حسن ( مرحوم) کی خواہش کیا تھی؟ سب بیتے دنوں کی باتیں ہیں۔ آنے والے دنوں کی زنبیل میں کیاہے؟ کون جانے ؟

(4)
Image result for potohar region



منجھلے بھائی کی برطانوی فوج میں بھرتی سے یہ داستان گو اپنے آباءکی سرگزشت بھی کہہ ہی ڈالے تو اچھا ہے۔ یہ سرگزشت نہیں اسکول گزشت ہے، تعلیم گزشت ہے،عِلم گزشت ہے۔ داستان گو کے پُرکھوں کے پُرکھوں کے بارے میں حکایات، دیومالائی، اساطیری روایات اور تحقیقی حقائق اِس رخ پہ جاتے ہیں کہ کشمیری بھاٹ، بھٹ یا بٹ کشمیر کے اس برہمن قبیلے سے ہیں جو تعلیم اور عِلمیّت میں افضل تر سمجھاجاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برہمنوںکا یہ قبیلہ ہمالہ کے اندرونی خطوں اغلباً نیپال کی ترائی میں بہنے والی اُس دیو مالائی،اساطیری سرسوَتی ندی کے کنارے آباد تھا جو لگ بھگ تین ہزار برس قبل مسیح تک بہتی رہی ، پھر ہمالیائی چٹانی پرتیں ٹوٹنے اور جگہ بدلنے کے سبب پانی کے بہاﺅ میں رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ پانی شاید زیرِ زمین چلا گیا اور زمین پرسرسوَتی ندی سوکھ گئی۔آبِ گُم اِسی کو کہتے ہیں۔ ایک آبِ ُگم بلوچستان میں ہے۔ سوات چلے جائیں تو شوریدہ سر، چنگھاڑتا دریائے سوات بھی مٹل تان کے عظیم گلیشئر کی گہرائیوں میں گُم جاتا ہے۔ پھر یہ کہاں سر اُٹھاتا ہے، جدید سائنسی تحقیق کے باوجود اِس کا پتا نہیں چل سکا۔ چین کے صحرائے تاکلامکان اور صحرائے گوبی کے کناروں پر برف پوش پہاڑوں سے دریا نکلتے ہیں لیکن اُنہیں سمندروں یا جھیلوںتک پہنچنا نصیب نہیں ہوتا۔ صحراﺅں میں ہی گُم ہوجاتے ہیں۔ یہ سب آبِ گُم ہیں۔ سرسوَتی یا سرسوَتی ندی ہندو دیومالا میں عِلم کی دیوی بھی ہے۔ اِس کے کنارے آباد بھاٹ یا بھٹ برہمن قبیلہ چونکہ عِلمی اعتبار سے فضیلت رکھتا تھا، اس لیے پروہت بھی تھا۔ اُدھر سرسوَتی ندی پورے برِصغیر میں تقدّس و تبّرک کی علامت ہے۔ الہ آباد کے نزدیک گنگا، جمنا کے سنگم پر دراصل تیسرے دریا سرسوَتی کا بھی ملاپ ہوتا ہے لیکن یہ ندی نظر نہیں آتی۔ موجودہ الہ آباد کے اُس قدیم مقام کو ”تروینی“ یا” تربینی “کا نام دیا گیا تھا کہ جہاں تین مقدّس دریاﺅں کا مِلاپ ہوتا تھا۔ اب تک جو ارضیاتی تحقیق ہوئی ، اُس میں کہا گیا ہے کہ اِس دیومالائی ندی کا زیرِ زمین پانی ہمالہ سے کوہستانِ شوالک کی جھیل مان سرورسے ہوتا ہوا ہریانہ تک اور وہاں سے تھر اور راجستھان تک جاتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دریائے گھَگھَر میں سرسوَتی ندی کا پانی بھی شامل ہے۔ راجستھان اور تھر کے صحرا ہزاروں برس پہلے سرسوتی ندی کے پانی کے سبب سرسبزو شاداب تھے۔ عِلم کی دیوی سرسوَتی کے لیے کلکتہ میں ہر سال میلہ سجتا ہے اور میلے کے بعد سرسوَتی دیوی کی ہزاروں مورتیاں اور شبیہیں،دریائے ہگلی میں بہادی جاتی ہیں تاکہ وہ ہمیشہ پانی یا دریا میں رہیں۔ بھارتی سائنس دان، ماہرین ِارضیات اور محقّقین، خاص طور پر ہریانہ کے علاقے میں زیرِ زمین بہتے پانی کی تلاش میں ہیں اور اِس کے لیے جدید ترین سٹیلائٹ اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالوجی سے کام لیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہاجاتا ہے کہ ہڑپہ تہذیب کے دور کی اِس ندی کا سراغ سرائے کھولہ، ٹیکسلامیں بھی ملا ہے۔ گو یا سرسوَتی ندی ٹیکسلا میں بھی سرنکالتی ہے۔
داستان گو، پھر کسی دوسری اور نکل گیا ۔کچھ غلط بھی نہیں کہا جاتا کہ شروع شروع میں فکر و خیال قلم کو لے کے چلتے ہیں ۔پھر ایک مرحلہ آتا ہے کہ قلم حاوی ہوجاتا ہے۔ عربی زبان میں قلم کاایک مطلب فرمانروائی بھی ہے۔ اور یہ واقعتاً فرمانروائی کرتا ہے۔ بات ہورہی تھی سرسوَت برہمنوں کے خمیر سے اُٹھنے والے کشمیری بھاٹوں، بھٹوں یا بٹوں کی۔ اُن کی کہانی بھی روایتوں سے ہوتی ہوئی تاریخی حقائق تک پہنچتی ہے۔ یہ بھاٹ یا بھٹ، سرسوَتی ندی سوکھنے کے بعد اپنے آبائی خِطّے سے ترکِ وطن کرکے کشمیر کے علاقے میں آبسے۔ مقصد ”تلاشِ حق“ تھا۔بھاٹوں کا اوّلین تذکرہ قلمرو ئے چندر گپت موریا کے دَور کے بارے میں کتاب” مُدرا رکھشا“ میں مِلتا ہے۔ یہ دراصل ایک ڈرامہ ہے جس کی تحریر کا زمانہ چوتھی صدی سے آٹھویں صدی عیسوی کے درمیان بتایا جاتا ہے۔ چندر گپت موریا کی فوج میں ”بھٹ بالا“ نام سے پورا ایک ڈویژن تھا۔ یہ لوگ جب جموّںاور پنجاب کے بعض حصوّں میں آکر آباد ہوئے تو بھاٹ، بھٹ، کے بجائے بٹ کہلانے لگے۔ یہ شاید علاقے کی زبان یعنی پہاڑی اور پنجابی کا اثر تھا۔ کشمیر سے اُن لوگوں کا خروج جموّں اور پنجاب تک ہی محدود نہ رہا بلکہ برِ صغیر کے ہر خطے میں پہنچے۔اُن میں دکن، گوا، اوڑیسہ، بنگال، مدراس، اُتر پردیش، مہاراشٹر، گجرات،سابقہ اُترانچل، موجودہ صوبہ اُتر کھنڈ(اس علاقے کو عموماً ”دیوبھومی“]دیوتاﺅں کی سرزمین[ کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں ہندوﺅں کے بے شمار مندر اور تیرتھ استھان ہیں جہاں وہ یاترا کے لیے جاتے ہیں۔ آگے یہ علاقہ نیپال کی ترائی سے جا مِلتا ہے۔ گڑھوال،کماﺅں، ڈیرہ دون اور نینی تال مشہور مقامات ہیں۔)اور نیپال وغیرہ تک کے علاقے شامل تھے۔ 13ویں صدی عیسوی کے اختتام اور 14ویں صدی عیسوی کے اوائل میں دکن کی کھشتری ریاست وارنگل کے راجہ پرتاب رودر نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا۔ یہ رجواڑا جلد ہی انجام کو پہنچا اور تیلگو زبان بولنے والی متعدد چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آگئیں۔ کشمیری بھاٹوں کو اور کوئی راہ نہ مِلی تو وہ ویلام اور ریڈی ایسے متعدد تیلگو رجواڑوں کے درباری بھاٹ، شاعر، گویّے، مسخرے، بھانڈ، نقّال اور کھیل تماشا دکھانے والے بن گئے۔ روٹی تو کسی طور کمائے مچھندر! انہیں یہاں ”بھٹ راجو“ کا نام مِلا۔ کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں یہی بھاٹ یا بھٹ کہلاتے ہیں۔ گوا میں انہوں نے کونکنی عیسائی مذہب اپنالیا۔ وہ اپنا حسب نسب گوا کے گاﺅد سرسوَت برہمنوں سے مِلاتے ہیں۔ بھاٹ جو بنگال گئے انہیں اچاریہ یا بھٹا چاریہ (عالم) کا لقب یا خطاب دیا گیا۔ نیپال میں وہ بھدرا کالی کے پجاری بنے۔ مہاراشٹر اور گجرات میں وہ سب بھاٹ یا بھٹ ہیں۔ ہندوستان کے وسطی علاقوں میں انہیں پروہت کا درجہ دیا گیا۔ اُتر پردیش کے علاقے میں بھاٹ غالباً 1878ءکے قحط ِ کشمیر کے زمانے میں اُس وقت پہنچے جب اُن کے ایک حصےّ نے جموّںاور پنجاب کا رخ کیا تھا۔ اُتر پردیش خصوصاً لکھنو ¿کے قرب و جوار میں اُن کی آبادی کشمیری بھانڈوں کی آبادی کہلاتی ہے ، کیوں کہ یہاں بھی انہوں نے بھانڈوں کا پیشہ اختیار کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کشمیر کے بعض سرسوَت برہمن بھاٹوں نے مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دَور میں اسلام قبول کیا جن کی نسل بعد ازاں پھیلتی چلی گئی۔ 14 ویں سے 16 ویں صدی عیسوی کے دوران مذہبی جبر کی لہر یا رَو کے نتیجے میں بہت سے بھاٹ خانہ بدوشی پر مجبور رہے اور گرچہ اِس سارے دور میں وہ پروہت، مذہبی پیشوا، فنکار، معلّم، تحریر و تصنیف (لکھت پڑھت) کے آبائی یا خاندانی پیشوں سے دُور رہے، تاہم اِس مسافرت میں بھی حسب ِ موقع اپنے علمی خزینے سے تحریر و تصنیف، شجرہ نویسی، شاعری اور علم ِ نجوم کو فروغ دیتے رہے۔ 15 ویں صدی عیسوی میں سِکھ مت وجود میں آیا تو پنجاب اور شمال کے بعض علاقوں میں بسنے والے سرسوَت برہمن اور متعدد ہندو راجپوت قبیلے اُدھر متوجہ ہوئے اور راج کمار چنگا کی تبلیغی سرگرمیوں کی بدولت سِکھ مت قبول کرلیا۔ یہ سِکھوں کی بھٹ یا سنگت کہلائی۔ راج کمار کو ”بھٹ رائے“ کا خطاب ملا۔ راج کمار چنگا ہندو راجہ شِونابھ کا پوتا تھا۔ راجہ شِو نابھ کی 16 ویں صدی عیسوی کے اوائل میں گرونانک سے ملاقات ہوئی تھی اور اُس نے سِکھ مت قبول کرلیا تھا۔ یوں ،بھٹہ سنگت کے لوگ گرو نانک کے اوّلین پیروکاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ سِکھ مت گرچہ ذات پات کی تلقین نہیں کرتا، تاہم یا بھٹہ لوگوں نے اپنے آبائی پیشوں، تبلیغ، تحریر و تصنیف، شجرہ نویسی، شاعری، علم ِ نجوم اور سفری خوردہ فروشی کو جاری رکھا۔
داستان گو ذرا صراحت کردے کہ جموں و کشمیر کے ہندو برہمنوں اور اُن میں سے ہی مسلمان ہوجانے والوں کی بہت سی ذاتیں اور برادریاں ہیں۔ مثلاً جموال، ڈوگرا،راوت، جسوال، گوجر، پونچھی، بخشی، شیخ،میاں، آہنگر،کول، دھر، نہرو، پنڈت، سپرو وغیرہ ۔ روایت ہی کہیے کہ کشمیری برہمنوں میں، جب تک وہ ہندو مذہب پہ قائم رہتے ہیں، ایک ذات ”دھر“ ہے۔ یہی لوگ جب اسلام قبول کرلیتے ہیں تو ”ڈار“کہلانے لگتے ہیں۔ دھروں اور کولوں نے تقسیمِ ہند کے بعد بھارت میں نوکر شاہی یا انتظامی سطح پر اہم کردار ادا کیا۔ بعض سیاست میں گئے مثلاً تیج بہادر سپرو۔ ٹی این (ترلوکی ناتھ) کول، ریاست جموّں و کشمیر سے انڈین سول سروس کا امتحان پاس کرنے والے اوّلین کشمیری تھے۔ اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب ہوئے۔ ترلو کی ناتھ کول نے بھارت اور قدرت اللہ شہاب نے پاکستان میں اہم انتظامی عہدوں پر کام کیا۔ درگا پرشا ددھر، مسز اندرا گاندھی کے خاص ایلچی تھے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور مسز اندرا گاندھی کے درمیان ”شملہ معاہدے“ کی تکمیل میں بھرپور کردار ادا کیا۔کشمیری سرسوَتی برہمن بھاٹوں یا بٹوں کا کشمیر سے بڑا انخلا بہر حال، 1878ءمیں قحط ِکشمیر کا شاخسانہ تھا۔ یہ لوگ کشمیر سے نکل کر پنجاب ،خصوصاً امرتسر اور جالندھر میں آباد ہوگئے تھے۔اِن میں میاں ذات کے کشمیری برہمن بھی شامل تھے۔ انہوں نے لوہاروں کا پیشہ اپنایا۔ اِس ذات یا برادری کے لوگ گوجرانوالہ اور لاہور میں بھی آباد ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب میں آباد یہ کشمیری بھی خاصی تعداد میں پاکستان خصوصاً لاہور آگئے۔ انہوں نے اپنے کاروبار میں خاصا پیسہ بنایا اور پھر کچھ بیساکھیوں کے سہارے سیاست میں بھی قدم جمالیے۔ ایسی سیاست جس میں صرف اقتدار کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے۔ 25 مارچ 2007ءکو اخبار”دی ٹریبیون“ لکھتا ہے کہ ”لدھیانہ میں ہوزری کی صنعت کشمیریوں کی مرہونِ منت ہے۔ لدھیانہ ڈسٹرکٹ گزٹیئر کے مطابق 19 ویں صدی عیسوی میں کشمیر میں تباہ کن قحط پڑا تو بہت سے کشمیری وہاں سے نکل کر لدھیانہ میں آباد ہوگئے۔ کشمیری اپنی دست کاریوں کے حوالے سے دنیا بھر میں شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے یہاں اونی پارچہ بافی شروع کردی اور تھوڑے ہی عرصے میں لدھیانہ، ہوزری کے حوالے سے شہرت پا گیا۔ مسلمان ہوں یا ہندو، یہ لوگ بھٹ، بٹ یا پنڈت کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔
کشمیر کے سرسوَتی برہمن بھاٹوں سے اتنے گہرے سمبندھ کے باوجود داستان گو کو اپنے پُرکھوں میں کوئی علم کا متلاشی نظر نہیں آیا۔ امّاںابّاچٹّے اَن پڑھ تھے۔ اپنی پیڑھی میں، جیسا کہ پہلے کہہ چکا ، جبراً دو چار جماعتیں پڑھ کر اسکول سے بھاگنے کی روایت عام تھی۔ بہر حال 1951 ءمیں ایک دن، جب سیالکوٹ سے راولپنڈی منتقل ہوچکے تھے، بڑے بھائی جو خود بچپن میں اسکول سے بھاگے تھے، داستان گو کو راولپنڈی کے ایک پرائمری اسکول میں داخل کروا آئے۔ اُن کے ذہن کے کسی گوشے میں شاید یہی خیال ہوگا کہ یہ بھی تھوڑے دنوں میں اسکول سے بھاگ نکلے گا۔ اب کچھ نہیں کہہ سکتا کہ گرد و پیش کے بدلتے منظر نامے کا اثر تھا یا خود ذہن میں حصولِ علم کا کوئی کیڑا کلبلا رہا تھا کہ اسکول سے بھاگنے کا خیال دل و دماغ میں نہ آیا۔ اب اپنی پیڑھی سے پہلے کی پیڑھیوں کے بارے میں کچھ رائے دینے کے بجائے مولانا محمد حسین آزاد کی دوامی تحریرسے ایک فقرہ بہ قدرے تصرّف کہہ دوں جو انہوں نے مغلِ اعظم جلال الدّین اکبر کے بارے میں لکھا ہے:
”علوم نے اُن کی آنکھوں پر عینک نہ لگائی تھی اور فنون نے دماغ پر دستکاری خرچ نہ کی تھی۔“
پرائمری اسکول ، گھر سے خاصا دُور تھا۔ نام تھا ایم بی پرائمری اسکول، تالاب پختہ، راولپنڈی۔سوچنے کی بات ہے۔ تب نیا ملک بن گیا تھا لیکن کم از کم میونسپل کمیٹی کے زیرِ انتظام پرائمری اسکولوں کے نام وہی تھے، تقسیم ِہند سے پہلے والے۔ ممکن ہے مڈل اور ہائی اسکولوں کے نام بھی نہ بدلے ہوں کیوں کہ پرائمری پاس کرکے جس اسکول میں گیا،وہ پرائیویٹ تھا۔ میونسپل کمیٹی کی انتظامیہ ضرور تبدیل ہوئی ہوگی کہ تب شہر میں کوئی ہندو یا سِکھ نہیں بچا تھا۔ سب ”مسلمان “تھے۔ ایم بی (میونسپل بورڈ) پرائمری اسکول شہر کی سرکلر روڈ پر تھا۔ مین سرکلر روڈ کے بائیں جانب تو اسلامیہ ہائی اسکول نمبر 2 ،اور اس کے ساتھ ہی مِلی چھوٹی سی سڑک پر اندر جاکے پرائمری اسکول تھا۔یہی سڑک ذرا آگے بڑھ کے اُس وقت کے مری روڈ سے مِل جاتی تھی۔اب شاید یہ کشمیر روڈ کہلاتی ہے۔ تالاب پختہ، اصل میں بَن یا بنی مائی ویرو کا نام تھا، جو اسکول سے لگ بھگ آدھ میل پہلے آتاتھا۔ اسکول جب بھی قائم ہوا ہوگا، اُس کا کوئی ڈاک کا پتا یا ”ڈاک خانہ خاص“ بتانے کو اُسے بَن مائی ویرو کے قریب رکھا گیا ہوگا۔ یہ معاملات تو وہی لوگ جانیں جنہوں نے یہ سب کیا ہوگا۔ ہاں اُس زمانے کے اسکولوں میں استاد اچھے ہوتے تھے۔ اپنے شاگردوں کے لیے علم کی شمع جلائے رکھتے تھے۔ اِس اسکول میں کچھ ماسٹر صاحبان سرحد کے اُس پار سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ بعض لہجے سے پنجابی اور اردو بولنے والے لگتے تھے۔ تب اتنی جرا ¿ت نہ تھی کہ اُن کا حدود اربعہ پوچھنے بیٹھ جاتے۔ داخلے مارچ میں ہوتے تھے اور راولپنڈی میں یہ جاتی سردیوں کے دن ہوتے تھے۔ لیکن جاتی سردیاں بھی ایسی کہ چھکّے چھڑا دیتیں۔ وجہ شاید یہ بھی ہو کہ اِتنے گرم کپڑے ہوتے ہی نہیں تھے کہ سردی دبا سکیں۔پاﺅں میں چپل یا بہت ہوا تو تسمے والے بوٹ اورجرابیں اور اُن میں بھی پاﺅں کی انگلیاں برف کی ڈلیاں لگتی تھیں۔ہاتھ تاپنے کے لیے ٹین کے چھوٹے سے پرانے ڈبے میں منہ کے پاس دو چھید کرکے پتلے تار کا ہار سا ”پہنا“ دیا جاتا۔ ڈبے میں تھوڑے سے انگارے ڈال لیتے جن کی تپش سے ہاتھ تاپے جاتے اور یہ احساس کرکے خوش اور مطمئن ہوجاتے کہ ہاتھ تو گرم ہورہے ہیں ناں۔ یہ انگیٹھی نما ڈبہ جُھلاتے ہوئے اسکول بھی لے جاتے۔ اور کبھی کبھی تو کوئی نہ کوئی ماسٹر صاحب بھی ہاتھ تاپ لیتے۔ وہ بھی انسان تھے۔ انہیں بھی سردی لگتی ہوگی! اسکول میں ایسی کئی انگیٹھیاں دکھائی دے جاتیں، لڑکوں کے ہاتھوں میں! آج سوچیں بھٹکتی ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ شاید سب ہی گھروں میں معاملات، مالی حالات، گرم کپڑوں کی عدم دستیابی اور روٹی کی اہمیت، ایک سے تھے۔ روٹی پہ یاد آیا کہ راشن یہاں راولپنڈی میں بھی کارڈ پہ مِلتا تھا۔ عام دکانوں سے قدرے سستا، بڑا راشن ڈپو ڈی اے وی کالج میں تھا۔ 
یادیں پھر تھم سی گئیں۔ اِس شہر ہی میں نہیں، برِ صغیر کے بہت سے شہروں میں غیر مسلموں نے جا بجا تعلیمی اور فلاحی ادارے قائم کررکھے تھے۔ ڈی اے وی یادیانند اینگلو۔ویدک ، یہ ادارہ 1886ءسے تعلیم کے شعبے میں کام کررہا تھا۔ اُسے اور اُس دَور کے ایسے ہی اداروں کو اُس زمانے کی این جی اوز کہا جاسکتا ہے۔ لیکن براہِ کرم اُن فلاحی تعلیمی اداروں کو آج کی این جی اوز سے نہ مِلایا جائے، جن میں سے بیشتر کا مقصدِ قیام بس پیسہ جمع کرنا ہے۔ اُن دنوں ، احوال اور ضروریاتِ وقت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کچھ تعلیمی ادارے، تعلیم کے لیے بند کرکے، انہیں دیگر کاموں کے لیے تصرّف میں لایا جارہا تھا۔ اُس اسکول میں تب ”مہاجرین“ کے لیے راشن ڈپو قائم تھا۔ہفتے کے ہفتے کئی میل کا راستہ طے کرکے وہاں جاتے، لمبی قطار میں گھنٹوں لگ جاتے اور راشن کی گٹھڑی سر پہ لاد کے گھر آتے۔ اُس روز اسکول سے چھٹی کرنی پڑتی۔ اگلے دن اتوار کی چھٹی اور اُس سے اگلے دن پیر کو ہفتے والے دن غیر حاضری پر مار کھانا پڑتی۔
 اسکول کے کمرے بڑے بڑے تھے۔ درمیان میں وسیع صحن۔ سورج دوپہر میں سیدھا ہوتا تو سارا صحن دھوپ سے بھر جاتا۔ اساتذہ اپنی اپنی جماعتوں کے بچے اور بلیک بورڈ لے کے دھوپ میں آجاتے اور اُن پر چاک سے الف ب پ یا ایک دو تین لکھنا اور شاگردوں کے مغز میں بٹھانا شروع کردیتے۔ اب اسے اتفاق جانئے کہ اُس زمانے کے اساتذہ اپنے شاگردوں میں علم کی جوَت دِھیرے دِھیرے جگاتے تھے۔ یک دم نہیں انڈیلتے تھے ۔ کہیں ضرورت پڑتی تو دو انگلیوں کے درمیان سرکنڈے کا قلم توڑ کے کسر پوری کردیتے ۔ ایک بار جو مغز میں بٹھا دیا پھر اُسے نکلنے کے لائق نہ چھوڑا۔ اُس دَور سے بعد کے تعلیمی ادوار میں بھی ایسے ہی اساتذہ مِلے اور علم کی چاشنی سے یوں شناسا کیا کہ بس اُسی کے ہوکے رہ گئے۔ انہوں نے ذہنوں میں یہی سمویا کہ علم وادب کی شمع ہمیشہ ہتھیلی پہ روشن رکھو، اِس طرح کہ دوسرے بھی اُس روشنی سے فائدہ اٹھائیں۔ اور وہ بھی کیا زمانہ تھا، کچی پکی بلکہ پہلی دوسری جماعت ہوتی تھی۔ پانچویں جماعت تک پرائمری اسکول، چھٹی جماعت سے مڈل اور نویں سے ہائی اسکول شروع ہوجاتا۔ آج کی طرح نہیں کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی، اُس کے کان میں اذان بعد میں دیں، پہلے کوئی اسکول ڈھونڈیں جہاں اُس کے داخلے کے لیے اندراج ہوجائے۔ بستہ، پورے گدھے کا بوجھ بن جائے۔ اُن دنوں تختی اور سلیٹ لازمی ہوتی تھیں اور ایک قاعدہ جس میں اب پ کے حروف، پھر الفاظ اور گنتی ہوتی۔ اللہ اللہ خیرسَلا ۔ جوں جوں کلاس بڑھتی جاتی، کتابوں کی تعداد میں ایک ایک دو دو کا اضافہ ہوتا جاتا۔ رات ہی کو تختی دھو کے ملتانی مٹی (گاچنی)سے پوَت دی جاتی ۔تختی کا ذِکر آگیا تو اسکول کی یادوں کا دھواں یک دم اُڑ گیا۔ روشنی پھیل گئی۔ تختی لِکھنے کے لیے نرسل یا سر کنڈے کا قلم ہوتا تھا۔ تراشنے کے بعد عین بیچ میں قَط لگایا جاتا۔نرسل یا سرکنڈے کو پنجابی میں کانا اور قَلم کو کانی بھی کہتے ہیں۔ بعد کے برسوں میں ذرا گہرائی میں جانا پڑا تو پنجابی کے اِن الفاظ کا تعلق نہ صرف قدیم سنسکرت سے مِلابلکہ تین ہزار برس پہلے کی مردہ یا متروک زبان عبرانی میں بھی نظر آیا۔ پوٹھو ہاری لہجے میں بھی یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ یوں اِس زبان اور پوٹھوہاری لہجے کی قدامت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ دوات میںسیاہی چوُس ایسا کپڑے کا ٹکڑا ڈال کے روشنائی بنائی جاتی۔ اُس زمانے میں لالہ موسیٰ کی ”چراغ روشنائی“ کے نام سے بڑی عمدہ روشنائی کی منہ بند پڑُیا ہر جگہ مِلتی تھی۔ قیمت اب یاد نہیں۔ شاید ایک یا دو پیسے ہوتی تھی۔ روشنائی تو غالباً و ہ کسی بیرونی ملک سے منگواتے تھے۔ ہاں پڑُیا لالہ موسیٰ میں بناتے تھے۔ اِس میں قلم ڈبو کے تختی پر اب پ لکھا جاتا۔ ایک ایک حرف خاصا وقت لے جاتا۔
 لکھائی کو تختی پر خوش خط بنانے کے لیے بڑی محنت کی جاتی تھی۔ ب پ، ک گ کی صحیح کشید یا ج، ی وغیرہ کی گولائیاں بنانے میں بڑی توّجہ اور محنت سے کام لینا پڑتا تھا۔ پھر بھی تختی لکھانے اور دیکھنے والے ماسٹر صاحب کوئی نہ کوئی خامی یا غلطی ڈھونڈ نکالتے۔ تب ہتھیلی یا انگلیوں پہ جو بید پڑتے، یا کان اینٹھے جاتے، وہ کانوں سے دھواں نکال دیتے۔ اور اگلی تختی لکھتے وقت اُن ساری غلطیوں یا خامیوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا کہ دہرانہ دی جائیں۔ تختی لکھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ بھلے اِس میں وقت لگتا لیکن حروف اور پھر الفاظ میں صفائی آتی چلی جاتی تھی۔ اپنی ”خوش خطی“ کا احساس ہونے لگتا تھا۔ ماسٹر صاحب بھی قدرے مطمئن ہوجاتے تھے۔ بید پڑنے یا کان اینٹھے جانے کا معاملہ گرمیوں میں تو زیادہ دیر تکلیف نہ دیتا لیکن سردیوں میں-اور وہ بھی راولپنڈی کی سردیوں میں-راولپنڈی کی سردیوں میں ُکہرا جمتا تھا۔ نالیوں یا چھوٹے گڑھوں میں پانی پر صبح شیشے ایسی چادر بن جاتی، بالکل کھڑکیوں میں لگا دھندلا شیشہ جس کے دوسری طرف کچھ نظر نہیں آتا۔ چلتے چلتے اُس پر پتھر مارتے، ُکہرا ٹوٹ جاتا تواُس کا کوئی ٹکڑا اٹھا لیتے، ہاتھ برفانی سردی سے جمنے لگتے تو یوں پھینکتے کہ اُس کی کِرچیاں بِکھر جاتیں۔ کِرچیاں بِکھرنے کی آواز کانوں کو بڑی بھلی لگتی۔بازار میں جوقلم مِلتے وہ خریدنے کی مالی استطاعت نہ ہوتی۔ چھٹی والے دن نالہ لئی کے کنارے چلے جاتے اور وہاں اُگے سرکنڈے یا کانے توڑ لاتے ،چاقو سے اُس کے قلم بناتے، قَط لگاتے۔ اوریہ قلم بنانا اِس طرح سیکھا کہ بعد میں اپنی چھوٹی موٹی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے قلم بنا کے بیچ بھی دیتے۔ تختی قریب قریب پانچویں بلکہ چھٹی جماعت تک چلی۔ ہمارے ایک ماسٹر جی تھے، شاید چھٹی جماعت میں۔ اُس زمانے میں اساتذہ کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہوں گی۔ وہ اپنی آمدنی میں کچھ ”اضافے“ کے لیے سرکنڈے کے قلم بناکے شاگردوں کے ہاتھ بیچتے تھے۔ لیکن ظاہر ہے آواز لگا کے تو بیچتے نہیں تھے۔ حساب پڑھاتے تھے۔ آتے ہی حکم لگاتے کہ کل کا کام دکھاﺅ۔ بیشتر لڑکوں نے کام نہ کیا ہوتا تھا۔ ایسے میں، پہلے سے طے شدہ منصوبے یا ”سازش“ کے تحت، مانیٹر اُٹھ کے ُکھسر ُپھسرکے انداز میں اُن کے کان میں کہتا کہ لڑکے قلم خریدنا چاہتے ہیں۔ وہ قلموں والا تھیلا مانیٹر کے حوالے کرتے اور خود کرسی میں دھنس جاتے۔ دو چار قلم بِکتے لیکن اتنے وقت میں کہ پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بج جاتی۔ نام اُن کا طفیل تھا اور قلموں والا ”تھیلا“ ہر وقت ساتھ رکھتے تھے۔ 


ہاں یاد آیا ۔ دوسری تیسری جماعت میں جب درسی کتابیں دو یا تین ہوگئیں تو خرچہ بھی بڑھ گیا۔ ایک دن ”بے جی “ سے پیسے مانگے تو انہوں نے خاموشی اختیار کرلی ۔شام کو ابّا جی کام سے لوٹے۔ اُن سے کہا، وہ بھی چپ رہے۔ ”بے جی“ دیکھ رہی تھیں۔ مجھے روہانسا دیکھ کر خفگی سے بولیں:
”پُت، اِک دو جماعتاں ہور اَگے ودھ۔ سکول دَا خرچ ودھے گا تے تیہنوں لگ پتا جاوے گا کِنے ویہاں دا سو ہوندا ایہہ۔“
(بیٹا، ایک دو جماعتیں اور آگے بڑھو۔ اسکول کا خرچ بڑھے گا تو تمہیں پتا لگے گا کہ کتنی بیسی کا سو ہوتا ہے۔“
”کتنے بیسی کا سو“ ،یہ پنجابی، پہاڑی اور پوٹھوہاری زبانوں میں مستعمل محاورہ تھا اور ہے۔ مطلب یہ کہ ”آٹے دال کا بھاﺅ معلوم ہوجائے گا“۔ ”بے جی“ اور اُن جیسی بہت سی خواتین کو بیس سے زیادہ گنتی نہیں آتی تھی، لہٰذا وہ سو تک پہنچنے کے لیے بیس(20) کو ایک دو تین چار سے ”ضرب“ دے کر سو ”پورا“ کرلیتی تھیں۔ اِن ہی مالی کیفیات میں اسکول کا خرچہ ”پورا“ کرنے کے لیے داستان گو نے بُھٹے بھُون کر بیچنے کا آغاز کیا تھا۔
سلیٹ پہ گیلا ُپچارا پھیرا جاتا۔ اسکول جاتے وقت سلیٹی اور سلیٹ بار بار صاف کرنے کے لیے چھوٹا سا ُپچارا ضرور بستے میں رکھا جاتا تھا۔ بستہ عام طور پر موٹے کپڑے کا ہوتا تاکہ پھٹے نہیں۔ یاد ہے، چوتھی یا پانچویں جماعت میں آیا توکتابوں کاپیوں کے بوجھ سے بستہ جلدی جلدی پھٹنے لگا۔ ”بے جی“ یا بڑی بہنیں ہر دوسرے چوتھے روز سُوئی تاگا لے کے بیٹھ جاتیں۔ منجھلے بھائی مظفر آباد سے میر پور تک کبھی بار برداری والا ٹرک چلانے لگتے تو کبھی مسافر بس۔ دونوں صورتوں میں، راستے کے حساب سے راولپنڈی ضرور رُکتے تھے۔ سابق فوجی تھے۔ ایک دن جانے کہاں سے ایک بستہ لے آئے۔ یہ بستہ نہیں خاکی رنگ کا موٹا فوجی تھا۔ چھوٹا سا۔ اُس میں کتابیں کاپیاں آسانی سے سماجاتی تھیں اور پھٹتا بھی نہیں تھا۔ اُس بستے نے ہائی اسکول تک ساتھ دیا۔
مِڈل میں آکے تختی ُچھٹی تو رف کاپی کی ضرورت ساتھ ہولی۔ مہنگی کاپی کہاں سے آئے؟ اتنے پیسے تو ہوتے نہیں تھے۔ بھُٹے بھون کر بھی نہیں۔داستان گو نے گلی محلّے کے کریانہ فروشوں کے لیے اخباری کاغذ کے چھوٹے لفافے بنانے شروع کردیے۔پرانے اخبار وہ دے دیتے اور داستان گو انہیں کاٹ کر لئی یا آٹے کی لُگدی سے چھوٹے بڑے سائز کے لفافوں کی شکل میں جوڑ دیتا۔ کچھ آمدنی تو ہوجاتی لیکن ضرورتیں زیادہ ہوتیں۔ کتابوں کی جِلد بندی کا کام بھی سیکھا اور باندھنے لگا۔ ابّا اور بڑے بھائی راج مستری کا کام کرتے تھے۔ ایک بارتجرے کے طور پر وہ سیمنٹ کے چند خالی کاغذی بورے لے آئے اورداستان گو نے اِنہیں کاپی کے سائز میں کاٹ کےُ سنبھی سے سوراخ کر، موٹا تاگا ڈال، کاپی کی شکل دے دی۔ لیکن اِس دوران میں بورے میں بچے کھُچے سیمنٹ نے دُھول کی طرح بِکھر کے منہ اور کپڑوں کو ”بھوت بنگلہ“ بنادیا تھا۔ بہر حال، اِس طرح تو ہوتا ہے، اِس طرح کے کاموں میں! محلے کے جس کریانہ فروش کے لیے زیادہ لفافے بناتا تھا، اُس کا نام بھی رشید تھا۔ جالندھر یا لدھیانہ کی طرف سے ہجرت کرکے آیا تھا۔ اُدھر بھی کریانے کی دکان ہوگی۔ یہاں بھی کریانے کی دکان مِل گئی جو کوئی ہندو یا سِکھ چھوڑ کے گیا تھا! برسوں بعد چین سے ُچھٹی پہ گھر آیا تو اُس سے بھی مِلنے گیا۔ پتا چلا کہ ترقی کرتے کرتے بڑا آڑھتی بن چکا ہے اور گنج منڈی میں ہوتا ہے۔ وہاں پہنچا تو اُس نے چند لمحے گھور کے دیکھا اور پھر پہچان کے گلے لگالیا۔ بیٹھنے کو اپنی کرسی دی۔ اُس کی داڑھی لہسنیا ہوچلی تھی۔ ڈھلتی عمر خاصی نمایاں تھی۔ داستان گو نے کہا، ”رشید صاحب، اپنی کرسی پیش کرکے آپ مجھے بڑی عزت دے رہے ہیں۔ آپ کے لیے تولفافے بنایا کرتا تھا۔“ اِس پہ انہوں نے جواب دیا، ”رشید صاحب ، وہ آپ کی محنت تھی۔ آپ نے پڑھ لکھ کے ہماری بھی عزت بڑھائی۔ ہمیں فخر ہے کہ آپ ایک بڑے ملک میں جا کے وہاں کی حکومت کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ وہ سب اب ماضی ہے!“
یہ کوئی تعلّی نہیں، اِظہارِ نعمت ہے۔ پڑھنے لکھنے میں ٹھیک تھا لیکن پاﺅں میں شاید بِلیاں بندھی تھیں۔ ساٹھ ستر برس کے اِس سفر در سفر میں لگتا ہے بِلیاں کچھ زیادہ ہی تھیں۔ ماموں کے کندھے پہ بیٹھ کے پُل صراط پار کرنے سے جو سفر شروع ہوا وہ پھر رُکا نہیں۔ اللہ میاں نے دنیا میں بھیجنے سے پہلے لوحِ محفوظ پرشاید لکھ دیا تھا کہ کارِ جہاں کا زیادہ حصّہ یہی بندہ پورا کرے گا۔اورکارِجہاںدراز ہوتا چلا گیا۔ پیدل، بسوںمیں، میں، تانگوں پہ،بحری جہاز پر، ہوائی جہاز میں- اِس میں اُردو والے سفر کے ساتھ انگریزی والا سفر، سب شامِل تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاملے میں ابّا اور بڑے بھائیوں کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ منجھلے بھائی آزاد کشمیر میں، براستہ راولپنڈی اورجہلم، میرپور، کوٹلی بلکہ کنٹرول لائن تک بس چلاتے تھے تو ابّا اور بڑے بھائی راج مستری ہونے کے ناتے راولپنڈی سے باہر دوسرے قصبوں اور شہروں میں بھی جاکے کام کرتے تھے۔سیالکوٹ میں ساری ننھیال تھی۔ اتوار کی چھٹی ہوتی تو صبح سے شام تک کسی قریبی قصبے میں چلا جاتا کہ یہاں تو ہر طرف تاریخ بکھری پڑی تھی۔ بعد میں جب ذرا پڑھنے لکھنے کے لائق ہوا تو یہاں کے رنگ ہی دِگر نظر آئے۔ خود راولپنڈی اور قرب و جوار کا علاقہ ہی تاریخ کا گلدستہ تھا۔ پہلے کہیں داستان گو کہہ چکا کہ منجھلے بھائی کوراولپنڈی شہر کے آخری حصےّ میں مکان الاٹ ہوا تھا جو نہ جانے کون، کوئی ہندو، کوئی سِکھ کنبہ، چھوڑ کے نِکلا تھا۔ مکان بالکل خالی تھا۔ شاید جانے والے بھی خالی ہاتھ تھے! یااُن کے نکلتے ہی سب کچھ لُٹ گیا تھا! شہر کے آخری حصّے والی بات کچھ ایسی بھی نہ تھی۔ آگے آبادی چھدری ہوتی چلی گئی تھی اور پھر خوبصورت شاداب جنگل آجاتا تھا۔ لیکن ساتھ ہی مِلی شہر کی مختلف آبادیاں خاصی گنجان تھیں۔ اپنی گلی سے نکلتے ہی سامنے عید گاہ- ذرا بائیں ہاتھ دسہرہ گراﺅنڈ اور کچھ مزید آگے بڑھنے پہ باغ سرداراں کی نہ ختم ہونے والی اونچی دیوار اور کلس نظر آنے لگتے۔ یہ شاید راولپنڈی میں سِکھوںکی سب سے بڑی عمارت یا حویلی تھی -تقسیمِ ہند کو چند برس بیت چکے تھے مگر راولپنڈی میں اب بھی ایسے آثار دکھائی دے جاتے تھے جو داستان گو جموّں میں -اور جموّں سے سیالکوٹ تک کے پُل صراط پہ دیکھتا اور چھوڑتا چلا آیا تھا۔ آگ سے جُھلسے مکان، شکستہ و بریدہ دیواریں، چھوٹے چھوٹے مندر جن کی دیواروں پر اب گوبر کے اُپلے تھپے ہوئے تھے۔ اندر مورتیاں غائب ۔گوردوارہ، باغ سرداراں کے اندر تھا۔چند برس بعد باغ سرداراں کے اندر گھومنے کا موقع مِلا تو اُس کی کشادگی، فراخی، چھتنار درخت اور شادابی نے مبہوت کردیا۔ لیکن ایک بات دُکھی کرگئی کہ سارا باغ اُجاڑ پڑا تھا۔ کئی حصّے ”Out of Bound“ تھے۔بظاہر اُس پر پیرا ملٹری اور اسپیشل پولیس کے ساتھ ساتھ عام پولیس کا بھی تصرّف تھا۔ ختم نہ ہونے والی بلند دیوار میں ایک جگہ گیٹ نکال کر ”تھانہ“ بنادیا گیا تھا۔ درخت تا درخت بندھی رسیوں پہ کپڑے سوکھ رہے تھے۔ یعنی پولیس والوں کی رہائش کا بھی اندر ہی انتظام تھا- فَاع ±تَبِرُو ±ا ٰٓیاُولِی ال ±اَب ±صَار- زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے!
 باغ سرداراں کے سامنے بڑے بڑے فراخ اور بلند دروازوں والے گودام۔ یہ تقسیم سے پہلے بہت بڑی منڈی تھی اور اِس سے پیچھے نالالئی - سب کچھ اِس قدر اداسیوں ،اجاڑ پن اور یبوست سے کیوں ڈھکا ہوا تھا؟ یہاں کوئی تِلک لگائے ہندو، کوئی پگڑی پوش داڑھی مونچھوں والا سِکھ نظر کیوں نہیں آرہا ؟ وہ سب کہاں گئے؟ کہیں داستان گو اپنے گزرے وطن کا دوسرا کربناک منظر ہی تو نہیں دیکھ رہا تھا؟ کیا یہاں بھی وہی کچھ ہوا جو وہاں دیکھا تھا؟ کوئی جواب، سوائے اِک سنّاٹے کے ، نہ مِلتا۔ اِس سڑک کا نام نہرو روڈ تھاجو برسوں بعد دیکھا تو ”جناح روڈ“ بن چکا تھا۔ ُنکڑ پہ پرانے بند، اُپلوں والے مندر کے ساتھ جو سڑک پھوٹتی تھی، وہ محلہ شاہ چن چراغ کی طرف جاتی تھی۔ مندر کے ساتھ ہی چھوٹے سے گھاس کے میدان میں اونچی ٹینکی تھی۔ یہاں سے اِس علاقے کے باسیوں کو پانی سپلائی کیا جاتا ہوگا۔ پہلے یہ پانی ہندو، سِکھ، مسلمان سبھی پیتے ہوں گے۔ اب صرف مسلمان پیتے تھے۔ یہاں کیا ہوا تھا کوئی جواب نہ دیتا۔ ٹینکی کے ساتھ ہی گلیاں اور مکانوں کی قطاریں تھیں۔ مکان قدرے نئے بنے ہوئے لگتے ۔ اب اُن میں سب مہاجرین یا کچھ ”مقامی مہاجرین“ آباد تھے۔

(5)
Image result for potohar region

ذہن و خیال اُلجھتے چلے جاتے۔ کیا یہاں بھی نسل کُشی کا کھیل کھیلا گیا تھا؟ اِک کَن کھجورا تھا کہ رگِ فکر و خیال کو چھوڑتا ہی نہ تھا۔ برسوں بعد ایک تحریر نظر سے گزری اور داستان گو اُن ہی جگہوں کی جانب لوٹ گیا جہاں سے بٹوارے کے وقت نکلا تھا۔ مسئلہ وہی نسل کُشی کا تھا۔ جموّں میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کا ! نومبر 1947ءمیں ہندوﺅں کا ایک وفد حکومتِ جموں و کشمیر کے نئے وزیرِاعظم مہر چند مہاجن سے مِلنے آیا تو مہاجن نے انہیں کہا کہ جب بھی انتقالِ اقتدار کا وقت آئے، وہ برابری کی بنیادوں پر انتقالِ اقتدار کا مطالبہ کریں۔ وفد میں سے کسی نے اُن سے پوچھا کہ برابری کی بنیادوں پر انتقالِ اقتدار کیسے ممکن ہے جب کہ مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اِس پر مہر چند مہاجن نے نیچے رام نگر کے جنگل میں بِکھری مسلمانوں کی لاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا، ”آبادی کا تناسب اِس طرح بھی بدلا جاسکتا ہے۔“
وقت کے بہتے دھارے کے ساتھ ساتھ فسادات، قتل و غارت اور گھیراﺅ جلاﺅ کے حوالے سے بہت سی تحریریں نظر سے گزرتی رہیں۔ گور بچن سنگھ طالب نے پنجاب خصوصاً پوٹھو ہار کے علاقے میں سِکھوں کے قتلِ عام اور انخلا کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ دوسری جانب مسلمانوں، خصوصاً خالد حسن، سرور حسین، خالد علی گوجر، سرمد محمود وغیرہ نے جموّں اور کشمیر میں قتلِ عام پر خیالات کا اظہار کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ نہ صرف 1947ءمیں لکھا گیا بلکہ اب تک لکھا جارہا ہے۔ 1997ءمیں رادھا کمار نے اس حوالے سے آبادیوں کے انخلا پر تجزیاتی انداز میں لکھا اور اپنی تحریر میں آئر لینڈ، فلسطین اور قبرص کا تقابلی جائزہ بھی لیا۔ 1980ءمیں جوئل ڈمسی ڈیل نے نازیوں کے ہاتھوں یہودیوں کی نسل کُشی، 1995ءمیں نارمن سیگار نے بوسنیا میں نسل کُشی اور ڈیوڈ ریف نے بھی اس موضوع پر قلم اٹھایا اور اس حوالے سے مغربی ممالک کی ناکامی پر بھی رائے دی۔2000ءمیں مائیکل ڈوبکوسکی نے دورِ حاضر اور نسل ُکشی کو اپنی تحریر کا موضوع بنایا۔ 2003ءمیں پال براس، 2002ءمیں اینڈرسن ہنیسن اور2006ءمیں ایان ٹالبوٹ نے 1946-47ءکے دوران میں پنجاب، خاص طور پر لاہوراور امرتسر میں فسادات اور قتلِ عام ،1947ءمیں مشرقی پنجاب کے فسادات اور قتل و غارت گری پر ایان کوپ لینڈ کی 2002ءمیں تحریر،1996ءمیں ”کشمیری مہاجرین کی چھُپی کہانی کے عنوان سے سارڈیندو مکرجی کی تحریر،2006ءمیں سک شام بکس انٹر نیشنل کی شائع کردہ، سیما شیخاوت کی کتاب ”جموّں وکشمیر کا تنازعہ اور انخلا“۔ کورنیل یونیورسٹی ، امریکا میں روبنسن گیبری نے Refugees Political Subjectivity and the Morality of Violence: 
From Hijrat to Jihad in Azad Kashmir 
کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا۔اِسی طرح سمنترابوس کی تحریر ”تنازعہ ¿ کشمیر کا اصل سبب (ہارورڈ یونیورسٹی 2003ئ)۔ پریم شنکر جھا کی تحریر کشمیر۔1947ئ، ”تنازعہ کے اسباب “(آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، نیو دہلی 2003ئ)۔ چترلیکھا زُتشی کی کتاب ،”علاقائی شناخت اور کشمیر کا قیام“ 2004۔ وکٹوریہ شوفیلڈ کی کتاب ”تنازعہ ¿ کشمیر “ (لندن 2000ئ)۔ الاسٹیئرلیمب کی کتاب ”نا مکمل تقسیم 1947-48ئ“ (1997ئ)۔ ایان ٹالبوٹ کی کتاب:
"Khizar Tiwana, The Punjab Unionist Party and the Partition of India"


 نظر سے گزریں۔ پھر مارچ 1947ءسے جنوری 1951ءتک کے اخبارات دی ٹائمز لندن ۔ انقلاب لاہور۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور۔ نوائے وقت لاہور۔ ڈیلی ٹیلی گراف لندن ۔ پاکستان ٹائمز لاہور کی رپورٹیں مِلیں۔ اسلام آباد کے ڈاکیومنٹ سینٹر میں مارچ 1947ءکے احوال کی کچھ رپورٹیں موجود ہیں۔ پینگوئن بَکس، نیو دہلی نے 2005ءمیں کرشنا مہتا کی کتاب ”Kashmir 1947: A Survivor`s Story“ شائع کی۔ اُن کے شوہر دھونی چند مہتا 1947ءمیں مظفر آباد کے ڈپٹی کمشنر تھے۔ اُن کا تعلق کشمیر سول سروس سے تھا۔ یہ آنکھوں دیکھا حال ہے۔ پنجاب پولیس کے شعبہ ¿ خفیہ کی اگست 1947ءاور ضلع سیالکوٹ کے تھانہ شکر گڑھ کی نومبر 1947ءکی رپورٹیں اِن سب پہ مستزاد ہیں۔ کرسٹوفر سینڈن، ایان کوپ لینڈ، گوربچن سنگھ طالب ، انورادھا بھاسین جموال، ،ایم ایچ کمیلی کی ”Census of India“ مطبوعہ سری نگر 1968ء۔ پال براس، غرض بے شمار افراد اور اخبارات نے پوٹھوہار سے (موجودہ) مشرقی پنجاب اور جموّں وکشمیر میں ”دوطرفہ“ نسل کُشی پر لکھا ہے۔ حمید اختر (مرحوم) پاکستان ہی نہیں، بلا مبالغہ، برِ صغیر کے ایک ممتاز ادیب اور صحافی تھے۔ انہوں نے مشرقی پنجاب میں نکودر کیمپ کا حال بتایا۔وہ چشم دید ہی نہیں بلکہ حمید اختر خود بھی اُس کا ایک حصّہ ، ایک کردار تھے۔ پاکستان کے ایک اور ”جنونی“ مورّخ اور صحافی احمد سلیم نے ، اپنی بیماری کے باوصف، حمید اختر کی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب ”حمید اختر- سوانح عمری “ مرتّب کی۔ تاہم ،پہلے ہم پنجاب آرکائیوز، لاہور کے ایک فائل K-21 سے اقتباس لیتے ہیں جو ضلع سیالکوٹ سے متعلق ہے:
”نو آبادیاتی دَور میں سیالکوٹ، برطانوی ہند اور رجواڑہ جموّں و کشمیر کے درمیان ایک پڑاﺅ کی حیثیت رکھتا تھا۔ یوں سیالکوٹ اور ریاست جموں و کشمیر کے درمیان روابط کی تاریخ خاصی دُور نکل جاتی ہے، جس کا تعلق آبادیوں کے سیاسی، معاشرتی اور دیگر احوال کی بنیادوں پر نقل مکانی یا ترکِ وطن سے ہے۔ کشمیر میں سخت سردی کا موسم ہوتا تو وہاں کے لوگ محنت مزدوری کے لیے سیالکوٹ کا رخ کرتے۔ (داستان گوکو یاد ہے ایسے کشمیری جو اُس دَور میں سیالکوٹ، وزیر آباد، لاہور اور قرب و جوار کے علاقوں میں بس گئے، ”ہاتو“ کہلاتے تھے۔ بعد میں یہ ”ہاتو“ راولپنڈی، جہلم اور آس پاس کے شہروں اور قصبوں کی تھوک منڈیوں میں بھی اناج کی بوریاں ڈھوتے نظر آئے۔ راولپنڈی کی منڈیاں تو خاص طور پر ، مہاراجہ جموّں و کشمیر کی ملکیت تھیں لہٰذا یہاں ”ہاتو“ کشمیریوں کا زیادہ ”حق“ تھا۔) 1878-79 ءمیں کشمیر میں شدید قحط پڑا تو جموّں اور کشمیر سے کثیر تعداد میں لوگ نقل مکانی کرکے سیالکوٹ آگئے۔ 1891ءکی مردم شماری کے مطابق ،اِس قحط کے دوران میں صرف کشمیر سے 20,653 افراد سیالکوٹ آئے۔“ 
دوسرا اقتباس حمید اختر اور نکودر کے حوالے سے احمد سلیم کی مرتّبہ کتاب ”حمید اختر - سوانح عمری“ سے طویل اقتباس کی صورت میں ہے جس میں خاصے معروضی انداز میں احوالِ واقعی بیان کیے گئے ہیں اور تجزیاتی انداز میں تینوں ہی نسلی اور مذہبی فریقوں یعنی مسلمانوں، ہندوﺅں اور سِکھوں کے احوال کی ترجمانی ہوتی ہے:


جلتے ہوئے شہر نے جانے والے سے کہا 
بتا؟
تیرے لوٹ آنے تک
مَیں جلتا رہوں یا بُجھ جاﺅں؟

برِ صغیر پاک و ہند میں بٹوارے کے نتیجے میں دنیا کی سب سے بڑی نقل مکانی عمل میں آئی۔ بٹوارے نے لاکھوں مردوں، عورتوں، بچوں، بوڑھوں حتیٰ کہ مریضوں اور پاگلوں تک کو نگل لیا۔ مرنے والے تو نجات پاگئے لیکن اُن کے لواحقین، انہیں رونے دھونے کی بجائے خود غریب الوطنی کے تکلیف دہ مرحلوں سے گزرنے پر مجبور ہوئے۔ اس غریب الوطنی کے بڑے بڑے عارضی مراکز وجود میں آئے جن میں ایک بڑا مرکز نکودر کیمپ تھا۔ یہی کیمپ حقیقت میں حمید اختر کے ہجرتی تجربے کی بنیاد بنا۔
نکودر کیمپ محض ایک کیمپ کا نام نہیں تھا۔یہ ایک روّیہ تھا، ایک کیفیت، ایک جبری طرزِ زندگی، ایک مجبور اندازِ نظر ۔ حمید اختر اِس کیفیت، اِس طرزِ زندگی سے تین دن میں نہیں گزرے، تین ماہ میں گزرے۔ 
اگست 1947ءکے اواخر میں، خاندان کے واحد مرد ہونے کے ناتے، وہ چالیس پچاس خواتین اور بچوں کے قافلے کو لے کر اپنے گاﺅں تہاڑہ سے نکلے تاکہ کسی طرح ستلج پارکر جائیں اور جب دریا کے کنارے پہنچ کر انہوں نے پلٹ کے دیکھا تو پورے گاﺅں سے آگ کے شعلے بلند ہوتے نظر آرہے تھے۔
”ہماری دنیا، ہماری آنکھوں کے سامنے جل رہی تھی۔“ یہ دنیا ابھی تک جل رہی ہے۔ آگ کے وہ شعلے زندگی بھر اُن کی آنکھوں میں جلتے رہے۔ گزشتہ د و دہائیوں سے ”تہاڑہ“ انہیں کچھ زیادہ ہی شدت سے بلارہا تھا اور شاید کہہ رہا تھا:
تیرے لوٹ آنے تک
مَیں جلتا رہوں
یا بُجھ جاﺅں؟

حمید اختر نے اُسے نوحہ نہیں بنایا، ایک رَجز بنادیا۔ امن کارَجز، انسان دوستی کا رَجز، پاکستان اور ہندوستان کے درمیان آشتی کا، کا رَجز۔ مَیں نے حمید اختر کو پڑھنے سے پہلے لدھیانہ کے حوالے سے کئی کتابیں پڑھ رکھی تھیں۔ خواجہ فیض محمد فیض کی ”لدھیانہ کی ڈائری“ ماسٹر تاج الدین انصاری کی ”خونی لکیر“ اور کئی دوسری کتابیں۔ اِن کتابوں میں نفرت ہی نفرت تھی-”آگ ہی آگ“-انتقام کی خونی لکیر لیکن یہ غصّہ”یہ آگ“ حمید اختر کے یہاں کہیں نہیں ہے۔کہیں کہیں اُن کے لفظ بھیگتے ہوئے بھی محسوس ہوتے ہیں اور یہ دیکھ کر اُن کے حوصلہ مند لیکن انسان دوست دل کی تکریم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ وہ کامریڈ پرکاش کا ذِکر کرتے ہیں، جس نے مسلمانوں کی زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی جان دے دی۔ اِسی طرح نکودر کیمپ کے درجنوں واقعات میں ایک ایسا واقعہ بھی ہے جس میں وہ پوری صورت ِحال کا مضحکہ اُڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔
کیا یہ سب اُس مار کسی تربیّت کی دین ہے جو 1946-47 ءکے دوران ممبئی میں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کے دوران ہوئی۔
9 اگست 1947ءکو جب وہ ممبئی سے لدھیانہ آرہے تھے تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ آگ اور خون کے دریا سے گزرنے والے ہیں۔ اِسی لیے وہ ممبئی سے سیدھے لدھیانہ آنے کی بجائے خراماں خراماں اپنے ”پینڈو“ دوست یعنی ابنِ انشاءکے پاس دہلی پہنچ گئے۔ کھیل شروع ہوچکا تھا۔ پوری بات خود اُن کی زبانی سنتے ہیں:
”مَیں 9 اگست کو بمبئی سے فرنٹیئر میل سے روانہ ہوا۔ دس کی شام کو دہلی پہنچا۔ یہ فسادات، ماردھاڑ، قتل و غارت گری کے عروج کا زمانہ تھا۔ دہلی اسٹیشن سے اُتر کر ٹانگے میں سامان رکھا اور سیدھا ہارڈنگ لائبریری پہنچا۔ چوکیدار سے معلوم ہوا ابن ِ انشاءانبالے چلے گئے ،وہاں سے پاکستان جائیں گے۔ انبالے والا مکان ابنِ انشاءنے نہ معلوم کس طرح اپنے پاس رکھا تھا بلکہ بہت سا سامان بھی وہیں تھا۔ وہ سامان لینے ہی اُسے انبالے جانا پڑا۔ مَیں نے وہیں سے واپسی اختیار کی اور کسی دوسری گاڑی میں گیارہ بجے کے قریب دہلی اسٹیشن سے انبالے کے لیے روانہ ہوا۔ گیارہ اگست کو صبح چار بجے انبالہ پہنچا۔ دستک دی۔ انشاءوہاں موجود تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اُس کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا، کہنے لگا۔”کیسے پہنچے؟ اِس خونریزی میں ٹرینوں کی ٹرینیں کٹ رہی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ تم یہاں کیسے آگئے؟ کیوں آئے ہو؟ اپنی جان بچاﺅ، تم نے دہلی سے ٹرین میں سفر کیا؟
مَیں بمبئی سے آرہا تھا۔ مجھے اُس وقت تک پنجاب کے حالات کا اندازہ نہیں تھا۔ مجھے کسی قسم کی پریشانی بھی نہیں تھی۔ لیکن انشاءکو غالباً صورتِ حال کا صحیح اندازہ تھا۔ وہ مجھے صبح گاڑی میں سوار کرگیا۔ پندو نصائح کے ساتھ، احتیاط اور ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے اُس نے مجھے لدھیانہ جانے والی گاڑی میں سوار کرادیا۔“
پھر 11 اگست کو وہ تہاڑہ پہنچے۔ جہاں ہندوﺅں کے ساٹھ ستر گھر تھے اور مسلمانوں کی آبادی پندرہ ہزار تھی۔ پورے قصبے میں صرف ایک سِکھ گھرانا آباد تھا۔ البتہ اِرد گرد کے دیہات میں سِکھوں کی اکثریت تھی۔ 11 اگست ایک تاریخ ساز دن ہے۔ اُس روز ہندی مسلمانوں کے رہنما اور بانی ¿ پاکستان محمد علی جناح نے کراچی میں، پاکستان کی دستور اسمبلی میں ایک یادگار تقریر کی تھی۔ اُس جنونی کیفیت میں، پاگل پن کے اُس دور میں جناح کہہ رہے تھے:
”آپ آزاد ہیں۔ آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں، اپنی مسجدوں میں یا مملکت ِ پاکستان میں اپنی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کے لیے۔ آپ کا کسی مذہب، ذات یا طبقے سے تعلق ہوسکتا ہے۔ اِس کا ریاست کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔آپ دیکھیں گے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندو، ہندو نہیں رہیں گے اور مسلمان، مسلمان نہیں رہیں گے۔ مذہبی معنوں میں نہیں کیونکہ عقیدہ ہر فرد کا ذاتی معاملہ ہے،بلکہ ریاست کے شہریوں کے طور پر سیاسی معنوں میں۔“
جب حمید اختر 11 اگست کو اپنے گاﺅں میں صورتِ حال کا جائزہ لے رہے تھے تو وہ کراچی میں ہونے والی اُن سرگرمیوں سے بالکل بے خبر تھے۔ اُن کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ تھا کہ وہ خاندان کی خواتین اور بچوں کو کیسے یہاں سے بحفاظت نکال لے جائیں کیونکہ اُس وقت ہندو صرف ہندو تھے اور مسلمان صرف مسلمان۔ اُن کے درمیان کہیں کہیں حمید اختر جیسے انسان بھی تھے جن کا ذِکر خال خال مِلتا ہے۔

Image result for partition india pakistan

”مَیں اپنے خاندان کا واحد مرد تھا جو اُس وقت وہاں موجود تھا، میرے تینوں بڑے بھائی سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے، میرے گیارہ اگست کو بمبئی سے لدھیانہ پہنچنے سے چار روز قبل ملازمت کے سلسلے میں لاہور جاچکے تھے۔ خواتین کو گاﺅں میں چھوڑ دیا گیا کہ یہ گاﺅں ہماری پیری مریدی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے لیے ایک قسم کا حفاظتی قلعہ تھا۔ چنانچہ جب آدھے سے زیادہ گاﺅں خالی ہوگیا اور باقی کے لوگ بھی رختِ سفر باندھتے نظر آئے تو میرے سامنے پندرہ بیس خواتین اور بچوں کو لے کر وہاں سے بھاگنے کا مسئلہ آیا۔ مشکل یہ تھی کہ ہمارے خاندان میں پردے کی سخت پابندی تھی اور میری دو بہنوں اور بھاوجوں کے سوا جو اپنے بھائیوں اور شوہروں کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے گاﺅں سے باہر کا سفر کرچکی تھیں، اکثریت کا تعلق ایسی خواتین سے تھا جنہوں نے گھر کی چار دیواری سے باہر کبھی قدم نہیں رکھا تھا۔ ہماری عورتوں کو اپنے خاندان کی دوسرے شاخ کے ہاں جن کے آٹھ دس گھر ہم سے ساٹھ ستر گز کے فاصلے پر ایک بڑے احاطے کی چار دیواری میں واقع تھے، اگر کبھی شادی یا مرگ کے موقع پر جانا ہوتا تو راستے میں واقع دکانیں بند کراکے چاروں طرف سے بند ڈولی وغیرہ کے ذریعے ہی جایا جاتا۔ ظاہر ہے ایسی خواتین کے قافلے کو گھر سے باہر لے جانے کی اور وہ بھی کسی منزل کے تعیّن کے بغیر ذمّہ داری قبول کرنا آسان نہیں تھا جبکہ اُن میں سے اکثریت کے لیے پیدل چلنا بھی ممکن نہ تھا۔ مَیں گھر چھوڑنے اور عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے کر گھر سے باہر نکلنے کو تیار نہ تھا اور اِسی شش و پنج میں مبتلا تھا کہ کیا کروں کیونکہ حملے کی صورت میں موت تو قبول کی جاسکتی ہے مگر اپنی عورتوں کی بے حرمتی کا خطرہ سوہانِ روح تھا۔ اِس دوران ہمارے گاﺅں کا ایک دوسرا پٹھان خاندان جس کی عورتیں بھی سخت پردے کی پابند تھیں، اِسی مخمصے میں گرفتار تھا جس کے ہم شکار تھے۔ یہ تئیس یا چوبیس اگست کی بات ہے کہ اِس خاندان کے دو تین معززین مجھ سے مِلنے ہمارے دیوان خانے پر آئے۔ اِس پس منظر میں جب آس پاس لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور عورتوں کی بے حرمتی کی داستانیں عام سننے میں آرہی تھیں، یہ پٹھان بزرگ جو تجویز لے کر میرے پاس آئے تھے، وہ اگرچہ خاصی پریشان کن تھی مگر خود میرے لیے بھی اُسے قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ اُن کا خیال تھا کہ پردے کی سختی کے ساتھ پابندی کرنے والی ہماری خواتین نہ تو گھر سے نکل کر اور پیدل چل کر لاہور یا کسی دوسرے محفوظ مقام تک کا سفر کرسکتی ہیں نہ ہی حملہ آوروں سے اُن کو بچانے کی کوئی ضمانت موجود ہے، اِس لیے انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو ایک کمرے میں بند کرکے اور اُن پرمٹی کا تیل چھڑک کر انہیں ختم کرڈالیں اور پھر حملہ آوروں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی جان بھی دے دیں۔ عورتوں کی عزت و آبرو کی حفاظت کی یہی صورت اُن کی سمجھ میں آرہی تھی۔ اپنی ذہنی پریشانی اور دوسرا راستہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے مَیں نے بھی اُن کی اِس تجویز سے اتفاق کیا اور فیصلہ کرلیا کہ عورتوں اور بچوں کی فکر سے نجات حاصل کرکے لڑنے مرنے کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اُن حضرات کے جانے کے بعد مَیں نے مٹی کے تیل کے دو پیپے منگوا کر دیوان خانے میں رکھ دیے اور صورتِ حال کا جائزہ لینے اور اپنی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کا راستہ ہموار کرنے کے خیال سے جب مَیں زنان خانے پہنچا تو- “
اگر حمید اختر جیسا نوجوان خواتین اور بچوں کو زندہ جلانے پرآمادہ ہوگیا تھا تو صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ واقعات مسلمانوں، ہندوﺅں اور سِکھوں میں بلا استثنا پیش آرہے تھے۔ جس بھی فرقے کی آبادی اقلیت میں ہوتی اور اکثریت کے ہاتھوں محصور ہوجاتی، اُس آبادی کی عورتیں اپنی عزت بچانے کے لیے یا تو کنووں میں کود جاتیں یا اُن کے مرد انہیں مٹی کا تیل چھڑک کر آگ لگادیتے تاکہ ”دشمن مذہب“ کے مردوں سے اُن کی عزت محفوظ رہ سکے۔ عزت کی حفاظت کا یہ نیا اور انوکھا انداز تھا جسے ہندوستان کے تینوں مذہبی فرقوں نے اپنالیا تھا۔ عورتیں زندہ جل کر عزت بچارہی تھیں اور تینوں مذاہب ایک طرح کی شانتی محسوس کررہے تھے۔ اور یہ بات قابلِ فہم تھی۔ اگر ترقی پسند حمید اختر اُس عمل کو کر گزرنے پر آمادہ ہوگئے تو پھر اور کون اُس پر آمادہ نہیں ہوا ہوگا؟ لیکن اچانک واقعات نے دوسری شکل اختیار کرلی۔ شاید روشنی میں کوئی کسی کی جان نہیں لے سکتا، اپنے جگر گوشوں کی تو ہر گز نہیں۔
”-تو مجھے پتا چلا کہ اِس ظالمانہ تجویز پر عمل کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔ میرے سامنے میری دو بہت پیاری بڑی بہنیں بیٹھی تھیں۔ ایک آٹھ دس سال کی بھتیجی تھی۔ ایک سات برس کا بھانجا تھا۔ میری بڑی بہن کی گود میں دس پندرہ دن کی ایک بچی تھی جس نے ابھی دو ہفتے قبل اِس دنیا میں قدم رکھا تھا۔ میرے تایا کی اکلوتی بیٹی فاطمہ اور اُس کا آٹھ برس کا اکلوتا بیٹا انور تھا۔ انہیں اپنے ہاتھوں سے مَیں کیسے ختم کرسکتا تھا؟ لیکن اِس فیصلے پر عمل نہ کرنے کی صورت میں جو کچھ ہوسکتا تھا اُس کے بارے میں سوچنا اور غور کرنا بھی خاصا رُوح فرسا تھا۔ صورت یہ تھی کہ خطرہ قریب سے قریب تر آرہا تھا۔ آس پاس کے گاﺅں جل رہے تھے۔ انسان انسانیت کے اُس درجے سے گرچکے تھے جس کا سبق ہم بچپن سے دہراتے آئے تھے۔ مَیں جب عورتوں اور بچوں کو جلانے کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے کا فیصلہ کرکے واپس دیوان خانے میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ گاﺅں تقریباً خالی ہوچکا ہے۔ لوگ بڑھتے ہوئے خطرے کو محسوس کرتے ہوئے ڈیڑھ میل کے فاصلے پر بہتے ہوئے دریائے ستلج کا رُخ کررہے ہیں۔ وہاں سے دریا پار کرکے وہ نکودر تحصیل کے علاقے میں داخل ہوسکتے ہیں جو مسلم آبادی کی غالب اکثریت کا علاقہ ہے۔ ویسے بھی تہاڑہ کی زیادہ آبادی آرائیں خاندانوں پر مشتمل تھی، جن کی دریا پار رشتہ داریاں بھی تھیں۔ اُن کی عورتوں کے لیے جو محنت کرنے اور جفا کشی میں اپنی مثال آپ تھیں دوچار یا چھ آٹھ میل کا سفر معمولی بات تھی۔ وہ گھروں اور کھیتوں میں روز و شب کام کرنے کی عادی تھیں مگر ہماری عورتیں چار دیواری سے باہر نکل کر جانے یا سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے کے قابل نہ تھیں۔ اِن ساری مشکلات کے باوجود فیصلے کی گھڑی آ پہنچی تھی اور گھر چھوڑنے کے سوااب کوئی اور راستہ نہ تھا۔ اس لیے کہ اب گاﺅں میں ہمارے آٹھ دس گھروں کے سوا اور کوئی نہ تھا۔سب دریا کی طرف جاچکے تھے۔
مَیں نے دیوان خانے سے واپس آکر ایک دفعہ پھر اُن بے بس اور مظلوم خواتین اور بچوں پر نظر ڈالی۔ میری دونوں بہنیں، میری تایا زاد بہن اور اُس کا بیٹا اور میری بھتیجی عذرا ۔مَیں نے اُسی وقت اور اُسی حالت میں بغیر کوئی ساز و سامان اٹھائے ،وہاں سے نکلنے کا اعلان کردیا۔
حمید اختر نے اگرچہ اپنی متعدد تحریروں میں اُن واقعات کو دہرایا ہے لیکن کئی مقامات سے وہ سرسری گزر گئے ہیں۔ ممبئی سے واپس گاﺅں پہنچ کر اُنہوں نے اِس سے کہیں زیادہ دیکھا ہوگا جس کا ذِکر انہوں نے کیا ہے۔ ممبئی سے گاﺅں پہنچنے تک اور پھر گاﺅں چھوڑنے کے فیصلے تک ”تہاڑہ“ میں جو کچھ ہورہا تھا، فرقہ وارانہ بنیاد پر رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ سے جڑُے ہوئے واقعات، نکودر کیمپ تک پہنچتے ہوئے گرد و پیش کے حالات، خاندان کے علاوہ دیگر مسلمان گھرانوں کے ساتھ پیش آنے والے حادثات اور سب سے بڑھ کر ساٹھ ستر ہندو گھرانوں کے صدیوں پرانے اپنے مسلمان پڑوسیوں کے بارے میں خصوصی روّیے، اُن سب کی تفصیل اگرحمید اختر بیان کرپاتے تو اُن کی اپنی روداد کے ساتھ ساتھ یہ اُس دور کی غیر جانبدارانہ تاریخ ہوتی۔
ہجرت اور ہجرت کرنے والے لوگوں کے اَن کہے دُکھ اور تکالیف عصری ادب میں ایک نمایاں موضوع رہے ہیں۔ اِن موضوعات پر دنیا میں بہت سے مطالعات کیے گئے۔ بہر حال تاریخی مطالعات میں لوگوں اور معاشرے پر تقسیم کے اثرات کی نسبت تقسیم کی وجوہات پر زیادہ توجہ دی گئی۔
ہندوستان کی تقسیم میں جغرافیائی طور پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم عمل میں آئی۔ دوسرے صوبوں میں ہجرت کا عمل اِن دو صوبوں کی نسبت سست رہا۔ خاص طور پر سندھ میں یہ عمل محدود اور رضاکارانہ رہا اور مہاجرین ایک نسل تک یہاںآتے رہے۔ جبکہ مغربی پنجاب میں یکا یک مذہبی گروہوں کے تعلقات بگڑ گئے اور اچانک بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد ہوئی۔
حمید اختر کی مذکورہ تحریر یادیگر معاصر یاد داشتوں سے جن عمومی رجحانات کا اظہار ہوتا ہے، وہ مختصراً یہاں درج کیے جاتے ہیں:
٭ لوگوں نے انفرادی طور پر اور گروہوں کی شکل میں مصائب کا سامنا کیا اور اپنی جان بچانے کی خاطر اپنی اَملاک چھوڑ کر ہجرت کی۔ زیادہ تر لوگوں کے ساتھ جو سامان تھا وہ چند کپڑوں اور کھانے پینے کی اشیاءمثلاً بھنے ہوئے چنوں اور چھوٹی موٹی چیزوں پر مشتمل تھا۔ حتیٰ کہ بعض لوگ تو ننگے پاﺅں تھے۔ چونکہ مذہبی فسادات کے پیچھے سب سے بڑا مقصد نسل کُشی تھا اِس لیے مسلح گروہوں نے مخالف نسلی گروہ کے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ فوری طور پر اپنا گھر بار چھوڑ کر نکل جائیں۔ اِس لیے مہاجرین راستے میں پیش آنے والی دشواریوں اور مصائب کا سامنا کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
٭ ایک مسئلہ جو مہاجرین کو پیش آیا وہ یہ تھا کہ مہاجر کیمپوں تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ موجود نہ تھی۔ زیادہ تر لوگ کیمپوں میں پیدل جاتے تھے۔ بہت کم لوگوں کے پاس بیل گاڑی تھی جس پر وہ اپنا سامان لے جاسکتے تھے۔ اِس سست رفتار نقل و حرکت کی وجہ سے اُن کے لیے حملہ آوروں کا خطرہ اور بھی زیادہ ہوگیا تھا۔ اِس کے علاوہ اُن کے پاس حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کوئی ساز و سامان نہیں تھا کیونکہ مقامی پولیس نے یا فوج نے اُن سے ہتھیار لے لیے تھے۔ صرف چند لوگ ایسے تھے جو کسی طرح اپنے ساتھ تلوار یا بندوق لے آئے تھے۔
٭ برطانوی فوج میں پنجاب کے لوگوں کی تعداد بہت تھی اور مغربی اور مشرقی پنجاب دونوں میں ہی تقریباً ہر خاندان میں سابق فوجی موجود تھے۔ اس وجہ سے حملے اور بھی زیادہ مہلک ثابت ہوئے۔ اِن میں زیادہ تر حملے بڑے منظّم تھے اور منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے تھے۔
٭ نقل و حمل کے ناقص ذرائع اور راستوں میں حائل دریاﺅں اور بند پُلوں کی وجہ سے لوگوں کے انخلاءمیں زیادہ وقت صَرف ہورہا تھا۔ جبکہ مہاجر کیمپوں میں زندگی کئی طرح کے مسائل مثلاً ناکافی اور مضرِ صحت خوراک، حملوں کے خطرے اور اسہال کی وبا پھیلنے کی وجہ سے ایک تلخ تجربہ تھی۔ عام طور پر مہاجروں کو انتہائی ضرورت کی صورت میں بھی کیمپوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ اس کی وجہ سے اشیائے صَرف کی قلت پیدا ہوگئی اور لوگوں کو سرکاری حکام کی طرف سے دیے جانے والے راشن پر یا پھیری والوں پر انحصار کرنا پڑتا تھا۔ اِس کے علاوہ مسلح حملہ آور مہاجر کیمپوں کے گرد گھومتے رہتے اور فوج کے سخت روّیے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے سرو سامان مہاجروں پر حملے کرتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ مقامی تحصیلدار اور سرکاری اہلکار مسلح گروہوں کو اُن کے نسل ُکشی کے کام میں مدد دیتے تھے۔ جنڈیالہ میں ایک واقعے میں سِکھ فوج نے تقریباً1500 مہاجروں کو گھیرے میں لے لیا اور جو کوئی بھی اُس سے بچ نکلنے کی کوشش کرتا اُسے مار ڈالا جاتا۔ یہاں تک کہ لوگوں پر دستی بم بھی پھینکے گئے۔
٭ بہت سے لوگوں کے رشتہ دار فسادات اور ہنگاموں میں ُگم ہوگئے۔ بعض لوگ اِس قدر بد دِل ہوگئے کہ انہوں نے خود کو بلوائیوں کے حوالے کردیا۔ جبکہ جو لوگ جان بچا کر یہاں پہنچے، اُن کے حوصلے پست تھے اور وہ پاکستان میں نئی زندگی شروع کرنے کے قابل نہیں تھے۔
٭ مذہبی فسادات اور قتلِ عام بڑے پیمانے پر ہوئے۔ پورے کے پورے گاﺅں جلا دیے گئے، ٹرکوں میں بھرے ہوئے مہاجروں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ ڈالا گیا، بسوں اور قافلوں پر بار بار حملے ہوئے، بچے ُگم ہوگئے اور لڑکیوں کو اغوا کرلیا گیا۔ تقسیم کے بعد کے چند ماہ میں تقریباً پانچ لاکھ افراد مارے گئے۔
٭ برسوں سے سِکھوں نے اپنے آپ کو باقی دو مذہبی گروہوں ہندوﺅں اور مسلمانوں سے علیحدہ ایک گروہ منوالیا تھا۔ انہوں نے 1942ءمیں ”آزاد پنجاب“ اور 1944ءمیں ”سِکھستان“ کا خیال پیش کیا۔ بعد میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ اگر ہندوستان کی تقسیم نہ کی گئی تو سِکھوں کے لیے آئینی ضمانتیں موجود ہونی چاہئیں اور اگر ہندوستان کی تقسیم عمل میں لائی جاتی ہے تو اُن کے لیے ایک آزاد ریاست قائم کی جائے۔ ہندوﺅں نے سِکھوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جس وجہ سے سِکھوں نے نسل ُکشی میں زیادہ حصّہ لیا۔ سِکھ جتھوں نے مشرقی پنجاب سے نکلنے والے مسلمانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
٭ 1946-47ءمیں مسلمان عورتوں کے اغوا اور اُن پر حملوں کے واقعات میں اضافے سے بلاشبہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ”دوسروں“ کی عزت اور پہچان کے سب سے تحفظ یافتہ پہلو کو نشانہ بنانے کی کوشش تھی۔ 
٭ تقسیمِ پنجاب کے بارے میں ریڈ کلف ایوارڈ جس کا اعلان تقسیمِ ہندوستان کے تین دن بعد کیا گیا، میں گورد اسپور، لدھیانہ اور امرتسر کے مسلم اکثریت والے علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے سے انکار کردیا گیا۔ اِس ایوارڈ کے پاکستان کی جغرافیائی صورت اور اُس کے مستقبل پر جو اثرات ہوئے سو ہوئے، اُس نے ہزار ہا لوگوں کو مذہبی فسادات کے خطرے سے بے خبر رہنے دیا۔
٭ بعض لوگوں نے مغربی پنجاب چھوڑ کر جانے سے بچنے کے لیے اسلام قبول کرلیا۔ انہیں مقامی لوگوں نے دیندار کا نام دیا اور اُن کی املاک اور جائیدادیں محفوظ رہیں۔
٭ شدید نسلی تناﺅ کی فضا میں بعض لوگوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر دوسرے گروہوں کے لوگوں کو بحفاظت ہجرت میں مدد کی۔
٭ مہاجرین کی اکثریت کا خیال تھا کہ تقسیم ایک عارضی مرحلہ ہے کیونکہ ہندو رہنما ایسی افواہیں پھیلارہے تھے اور پیشن گوئیاں کررہے تھے۔ اِس لیے لوگوں نے نیم دلی سے ہجرت کی یا اُس وقت ہجرت کی جب انہیں دوسرے گروہوں کے لوگوں نے اِس پر مجبور کردیا اور اُن کے ذہن میں یہ خیال تھا کہ وہ واپس اپنے علاقوں میں آجائیں گے۔انہیں اپنے آبائی دیہات سے لگاﺅ تھا اور انہیں وہ اپنی شناخت اور فخر کی بنیاد سمجھتے تھے۔
مذکورہ بالا رجحانات حمید اختر اور اُس دور کے حوالے سے لکھی جانے والی دیگر تحریروں سے صاف عیاں ہیں لیکن ہم یہاں اپنے آپ کو حمید اختر کے بیان تک محدود رکھنا چاہیں گے تاکہ اُن کے تجربے کی تفہیم واضح ہوسکے۔ اور اِس کے لیے ہم زیادہ سے زیادہ اُن کے اپنے لفظوں کا سہارا لیں گے۔ ہجرت اور کیمپ کے تجربے پر واپس آنے سے پہلے ہی لدھیانہ شہر سے جڑُے ہوئے اُن کے بیان کردہ ایک واقعہ کو دہرائیں گے جس میں ایک ہندو کامریڈ پرکاش نے مسلمانوں کی جانیں بچاتے ہوئے خود اپنی زندگی وار دی۔
پرکاش نے لدھیانہ کے ہزاروں ہوزری ورکروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسوسی ایشن بنائی ہوئی تھی اور وہ برسوں اُن محنت کشوں کے حقوق کی جنگ لڑتا رہا۔ اُس کے گھر میں ہمیشہ ہی فاقہ رہا۔ وہ ہمارے دوستوں کے اس گروپ میں شامل تھا جس میں ساحر مرحوم، چوہدری غلام مرتضیٰ مرحوم، فیض الحسن چوہدری، احمد ریاض مرحوم ساقیشامل تھے۔ ہم سب نے برسوں اُس کو بلامعاوضہ ہوزری ورکروں کے لیے جدوجہد کرتے دیکھا۔ اُس نے آج کے ٹریڈ یونین لیڈروں کی طرح نہ کبھی مزدوروں سے کوئی چندہ لیا اور نہ مالکوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ اُس کی جوان خوبصورت بیوی اور ایک بچہ تھا۔ جب اُس کے پاس کھانے کو کچھ باقی نہ بچتا تو وہ ہم لوگوں سے بیوی کو میکے بھیجنے کے لیے چار آنے کی مدد طلب کرتا۔
پرکاش کی بیوی کے گھر والے چھوٹے موٹے مگر غریب زمیندار تھے اور لدھیانہ سے آٹھ میل کے فاصلے پر بدووال کے ریلوے اسٹیشن کے قریب آباد تھے۔ پرکاش بیوی کو ٹکٹ خرید کر بدووال جانے والی گاڑی پربٹھا دیتا۔ وہ دو چار دن وہاں گزار کر واپس آتی تو اُس کے پاس تھیلوں میں آٹا، چاول، گڑ، گھی اور دیگر اجناس کا ذخیرہ ہوتا۔ یہ مال دس پندرہ یا بیس روز چلتا۔ گھر کا چولہا گرم رہتا۔ دال روٹی چلتی رہتی اور جب سب کچھ ختم ہوجاتا تو پرکاش پھر چوّنی کا قرض لینے کے لیے گھر سے نکل پڑتا۔ یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ ہم سب دوست اس کے گواہ ہیں کہ 1941-42ءسے لے کر 1947ءتک پرکاش کا کچن اُس انتظام کے تحت آباد رہا۔ ایک آدھ دفعہ اُس میں ایسی دلچسپ صورتِ حال بھی پیدا ہوئی جس کا ذِکر برسوں بعد تک ہم دوستوں کے تفننِ طبع کا باعث بنا۔ مثلاً ہم دو تین دوست اُسے بلانے کے لیے اُس کے گھر پہنچے۔ مجھے اب یاد نہیں کہ کس کام کے سلسلے میں اُس کی ضرورت آپڑی تھی۔ ہم نے اُس کو ساری بات سنائی تو وہ ہمارے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوگیا۔ اُس کی بیوی حسبِ معمول میکے گئی ہوئی تھی۔ ابھی وہ گھر کا دروازہ بندہی کررہا تھا(اُس نے گھر میں کبھی تالا لگایا ہی نہیں تھا بس دروازہ بند کرکے کنڈھی چڑھا دیتا۔ گھر بھی ایک کمرے اور ایک کچن اور غسل خانے پر مشتمل تھا) خیر ابھی وہ دروازہ بند ہی کررہا تھا کہ اُس کی بیوی بغل میں بچہ اُٹھائے سامنے آتی ہوئی نظر آئی۔ وہ خلافِ معمول خالی ہاتھ تھی۔ ہم سب نے اُسے حیرت سے دیکھا۔ آخر پرکاش نے اچانک آنے کی وجہ پوچھی ،”بچہ سخت بیمار ہے۔ گاﺅں میں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا اس لیے مَیں اِسے لے کر فوراً اِدھر آگئی ہوں۔ اِسے ڈاکٹر کے پاس یا ہسپتال لے چلو۔“ بیوی نے جواب دیا۔


”وہ تو ٹھیک ہے۔“ پرکاش نے وہاں کھڑے کھڑے جواب دیا۔ اِسے ابھی ہسپتال لے چلتے ہیں۔ دوائی بھی مِل جائے گی مگر یہ بتاﺅ کہ تم راشن کیوں لے کر نہیں آئیں؟ “بچے کی حالت واقعی خراب تھی۔ اُس کی بیوی پرکاش کی بات سن کر زار و قطار رونے لگی اور اُس نے کہا کہ اُسے بچے کی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے اچانک شہر کے لیے بھاگنا پڑا۔ اِتنا وقت نہیں تھا کہ وہ روایت کے مطابق آٹا، گھی، دال، چاول وغیرہ جمع کرکے اُٹھاتی۔ اِس لیے اِس ذِکر کو چھوڑو اور بچے کو ہسپتال لے چلو۔ یہ بات سن کر پرکاش نے بند دروازہ کھولا۔ ہم سب اندر جاکر چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ اُس نے بیوی کو بھی بیٹھنے کا اشارہ کیا، خود کھڑا رہا۔ جب سب بیٹھ گئے تو اس نے بیوی کو مخاطب کرتے ہوئے بالکل تقریر کرنے کے انداز میں کہنا شروع کیا،” دیکھو بی بی تم چونکہ خالی ہاتھ آئی ہو، ٹھیک ہے بچہ بیمار ہے۔ اِس کو ہسپتال سے ابھی دوائی بھی لے دیتے ہیں مگر میرے لیے اب اِس کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کہ آج شام تک بچے کی حالت سنبھلنے کے بعد شام کی گاڑی سے یا کل صبح کی ٹرین میں، مَیں تمہیں واپس بھیج دوں۔ مجھے افسوس ہے کہ مجھے یہی کرنا پڑے گا۔ تم خود سوچو اِس سے میری Reputation پر کتنا بُرا اثر پڑے گا۔“
اگست 1947ءمیں اعلانِ آزادی کے ساتھ ہی فسادات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور فرقہ پرست ہندوﺅں اور سِکھوں نے مسلمانوں کو مارنا اور اُن کے گھروں کو جلانا شروع کیا تو پرکاش دن رات مسلمان مردوں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کو اپنی حفاظت میں لے کر چھاﺅنی میں قائم کیمپوں میں پہنچاتا رہا۔
آخر اگست کے چوتھے ہفتے میں جب وہ اس کام سے باز رہنے کے لیے متعصّب ہندوﺅں، سِکھوں کی دھمکیوں کو بھی خاطر میں نہ لایا اور معصوم مسلمانوں کی جانیں بچانے میں لگا رہا تو اُن بدبخت ہندو، سِکھوں نے اُن کی زندگی کا چراغ ہی گُل کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اُسے شہید کا درجہ دے سکتے ہیں؟
ایسے واقعات سیکڑوں نہیں ہزاروںکی تعداد میں پیش آئے لیکن اِن واقعات کی طرف نسبتاً کم توجہ دی گئی ہے۔ اِس کے برعکس تشدد، قتل و غارت گری اور عزتیں لوٹنے کے واقعات لاکھوں کی تعداد میں اِس انداز میں دہرائے گئے جن میں ایک فرقہ ظالم اور دوسرا مظلوم دکھائی دیتا ہے لیکن جس کی اصل حقیقت کی طرف ساحر لدھیانوی نے اشارہ کیا ہے۔
”حد بندی کمیشن کے فیصلے کے فوراً بعد اور اُس سے پہلے پنجاب میں جو کچھ ہوا اور اب تک ہورہا ہے، اُس سے ایامِ جہالت اور دورِ بربریّت کی داستانیں بھی شرمندگی محسوس کرتی ہیں۔ یہ فسادات محض حادثاتی طور پر ظہور میں نہیں آئے۔ یہ ایک جوابی حملہ ہے، جو برطانوی سامراج نے ہماری قومی حکومتوں اور قومی تحریکوں پر کیا ہے۔“
حمید اختر نے اپنے گاﺅں تہاڑہ سے نکودر تک کے سفر میں بربادی کے جو مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے، وہ انہیںچین نہیں لینے دیتے تھے۔ وہ حدِ نظر تک پھیلے ہوئے اُن کھیتوں کو نہیں بھول سکتے جو نکودر کے سفر تک اُن کے ساتھ ساتھ چلے۔ گاﺅں کے گاﺅں ویران پڑے تھے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے ایسی بھینسوں کو تڑپتے ہوئے دیکھا جن کے تھَن دودھ کی فراوانی سے اکڑ چکے تھے مگر وہاں دودھ دوہنے والا کوئی نہےں تھا۔ اکثر مویشی بھوکے پیاسے تھان پربندھے بندھے ہی مرگئے۔ 
اب ہم واپس اصل کہانی کی طرف آتے ہیں جب حمید اختر، خاندان کی خواتین اور بچوں کے ساتھ گاﺅں سے نکلے:
” ہماری مدد کے لیے البتہ ہمارے خاندانی ملازم اور اُن کے افرادِ خانہ ضرور ہمارے ساتھ تھے جن کی خدمت اور مدد کے بغیر یہ سفر شاید طے ہی نہ ہوسکتا۔ اُن میں تین بھائی تھے جنہیں نوکر کہنے کی ہمیں بزرگوں نے کبھی اجازت نہ دی تھی۔ ویسے بھی وہ مجھے بھائیوں کی طرح عزیز تھے۔ البتہ ہماری خواتین اُن سے بھی پردہ کرتی تھیں جوہجرت کے اِس سفر میں ممکن نہ رہا۔ اُن بھائیوں کی والدہ اور بیویاں بھی ہمراہ تھیں جن کی موجودگی تقویّت کا باعث تھی۔ گھر سے نکلتے وقت ہمارے ساتھ ہمارے خاندان کی دوسری شاخ کی دو درجن کے قریب خواتین اور بچے بھی شامل ہوگئے۔ اُن کے مردوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنے مویشیوں، بھینسوں اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کے فرائض انجام دینے کے بعد رات کو دریا پار ہم سے آمِلیں گے۔ چنانچہ وہ گھر پر ہی رہے اور ہمارے گاﺅں چھوڑنے کے دو گھنٹے بعد حملے میں سبھی مارے گئے۔ قصّہ مختصر، جب ہم گاﺅں سے نکلے تو میرے ہمراہ آٹھ خاندانوں کی پچاس کے قریب خواتین اور بچے تھے۔ مَیں ہی خاندان کا واحد مرد تھا جو اُن کے درمیان بمبئی سے واپس آکر یوں پھنس گیا تھا کہ مجھے پنجاب کے حالات خصوصاً فسادات کی نوعیت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ مَیں تو پندرہ روز کی چھٹی لے کر گیارہ اگست کو بمبئی سے لدھیانہ پہنچا تھا اور وہاں یہ معلوم ہونے کے بعد کہ میرے تینوں بھائی پاکستان کے لیے ” آپٹ“ کرنے کی وجہ سے بسلسلہ ¿ ملازمت لاہور جاچکے ہیں، اُسی شام گاﺅں پہنچ گیا تھا۔ اگست1947ءکے چوتھے ہفتے میں جب ہم گھر سے نکلے تو کوئی منزل سامنے نہ تھی۔ کِسی ریلوے اسٹیشن تک رسائی کا سوال ہی نہ تھا۔ کھانے پینے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ہمارے گھر والوں کو عام دیہاتی آبادی کی طرح حوائج ضروری کے لیے کھیتوں میں جانے کا کوئی تجربہ نہ تھا مگر اب یہ ساری آسائشیں پیچھے رہ گئی تھیں۔ ابھی ہم دریا پر پہنچے ہی تھے کہ گاﺅں سے آگ کے شعلے بلند ہوتے نظر آنے لگے۔ ہماری دنیا ہماری آنکھوں کے سامنے جل رہی تھی۔ ہمارے بعد گاﺅں سے آنے والے اِکادُ کا لوگوں نے بتایا کہ ہمارے دو عزیز جو مال مویشی کی دیکھ بھال کے لیے رُک گئے تھے، اپنے دیوان خانے کے احاطے میں بیٹھے بیٹھے گولیوں کانشانہ بن گئے۔ دریا پر پہنچتے ہی البتہ ہمارے گاﺅں کے ملاحوں نے کشتی میں سوار ہوکر پار جانے والے سبھی مسافروں کو اُتار کر ہمیں کشتی میں بٹھا کر فوراً ہی دریا پار کرادیا۔ دوسرے کنارے پر پہنچنے کے بعد کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اب کیا کریں؟“
اب کیا کریں، کدھر کا رُخ کریں؟ یہ سوال، ہر قافلے کے مردوزن کے ہونٹوں پر تھا۔ حمید اختر کے کندھوں پر تو پچاس خواتین اور بچوں کا بوجھ تھا۔ نوخیز، ناتجربہ کار، خواب دیکھنے والا نوجوان اب کیا کرے؟ وہ خواتین کو، بچوں کو جلد پاکستان پہنچنے کی نوید سنارہا تھا لیکن اُس کا اپنا دل ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اُن حالات سے گزرتے ہوئے اُس نے کیا کچھ سوچا ہوگا۔ سامنے مکمل بربادی کا سامان تھا لیکن وہ سب کو تسلی دے رہا تھا۔ سب کے آنسو پونچھ رہا تھا حالانکہ اُس کے اپنے آنسو بہہ نکلنے کو بے چین تھے۔ وہ ضبط سے کام لیتا رہا لیکن اُس ملگجی شام کو ستلج کے بہتے پانیوں کے کنارے تنہا بیٹھے ہوئے، اُس کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔
”مَیں اپنے اُن گھر والوں، خواتین اور بچوں کو اور اپنے گاﺅں اور اُس علاقے کے دوسرے سیکڑوں بے خانماں افراد کو چھوڑ کر بھاگتا ہوا اُن سب لوگوں سے کافی فاصلے پر تنہا جاکر بیٹھ گیا اور اُس دریا کے کنارے پر بلند آواز سے دھاڑیں مار مار کررویا۔ دس پندرہ منٹ تک خوب اچھی طرح سے رولینے کے بعد دل کچھ ہلکا ہوا تو مَیں پھر اپنے قافلے میں آکر شامِل ہوا اور اُن سب لوگوں کو حالات ٹھیک ہونے پر منزل پر پہنچنے کی خبریں دینے لگا۔ انہیں تسلیاں تو مَیں ضرور دے رہا تھا مگر منزل کا خود مجھے بھی کوئی عِلم نہیں تھا۔“
کافی سوچ بچار کے بعد قافلہ ایک قریبی گاﺅں ’ گگاں“ پہنچا جہاں اُن کے کچھ مرید خاندان آباد تھے۔ تین دن اُن کی خوب تواضع ہوئی لیکن خطرے کے باعث یہاں سے بھی کوچ کرنا پڑا۔ بلکہ پورا گاﺅں اُٹھ کر اُن کے ساتھ ہی نکودر کی طرف چل پڑا۔ مریدوں کا ایک اور گاﺅں راستے میں پڑا۔ دو دن بعد یہ گاﺅں بھی اُن کے ساتھ ہی اُٹھ کر چل پڑا۔ یہاں سے سڑک اور ریل کا سفر غیر محفوظ تھا۔ یہیں کھیتوں میں رُک کر انتظار کرنے کا سوچا گیا۔ بقول حمید اختر ” کُھلے کھیتوں میں بیٹھنے والے لاکھوں افراد کی اس قیام گاہ کو نکودر کیمپ کا نام دیا گیا۔“ حمید اختر لکھتے ہیں:
”نکودر کیمپ یا کسی ایسے کیمپ کا جس میں لاکھوں انسان مقیم ہوں، عام طور سے ذِکر کیا جائے تو ذہن میں کسی ایسے مقام کی تصویر اُبھرتی ہے جہاں بنیادی انسانی ضرورتوں کا اہتمام ہو یا کم سے کم کسی قسم کے نظم و ضبط کے موجود ہونے کی توقع ہوتی ہو۔ نکودر کیمپ میں ایسی کوئی چیز موجود نہیں تھی۔ بیس پچیس لاکھ انسانوں کا ایک ہجوم تھا جو مہیت پور سے نکودر آنے والی سات میل لمبی سڑک کے دونوں طرف واقع کھیتوں میں مقیم تھا ۔ کسی کے پاس چار پائی یا قاعدے کا بستر موجود نہیں تھا۔ کیمپ کی حد بندی یا حفاظت کے لیے پولیس، فوج یا کسی نوع کا کوئی سرکاری اہل کار بھی موجود نہیں تھا۔ لوگ اپنے طور پر اور اپنے ہی اہتمام کے ذریعے کُھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے۔ اُن کی ذمّہ داری قبول کرنے والا کوئی نہ تھا۔ جو لوگ ہماری طرح جان بچا کر دریا کے اُدھر سے بھاگ کر اِس علاقے میں داخل ہوئے تھے۔ اُن کے پاس تن کے کپڑوں کے سواکچھ نہیں تھا۔ اُن میں ہم خود بھی شامِل تھے۔ 
یہ کیمپ، وطن کی آزادی پر ایک بلیغ تبصرہ تھا۔ یہاں تو داغ داغ ہی سہی، اجالا بھی نہیں تھا، اور شب گزیدہ ہی سہی، سحر بھی نہ تھی۔ یہ انسانوں کے اوّلین ایام جیسی کوئی دنیا تھی۔ تن ڈھانپنے کے لیے پتوں کی بجائے پھٹے پرانے ملبوسات تھے اور از قسمِ نانِ جویں۔ کیمپ کے گھر بھی فطرت کے اوّلین گھروں جیسے تھے۔ انسان آزادی کے جدید تصوّر سے آشنا ہو کر مادر پدر آزادی کی منزل تک آپہنچا تھا۔ اِس پر حمید اختر کی رجائیت قابلِ داد ہے:
”کیمپ کی زندگی کے ابتدائی دن آس، امید اور آزاد ملک کے سفر کی تمنا میں گزرے۔ ہر شخص اس خیال میں تھا کہ اِس عارضی قیام گاہ سے جلد ہی روانگی ہوگی۔ آس پاس کے دیہات سے یہاں پہنچنے والے لوگ، کپڑے، کھانے پینے کا سامان اور گھریلو ضرورت کی چیزیں ازقسم کونڈی، ڈنڈا، توا، پرات اور چمٹے وغیرہ ساتھ لے کر آئے تھے اس لیے لوگوں کو مِل جُل کر ضرورتیں پوری کرنے میں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آئی۔ میرے پاس بمبئی کی فلم کی کمائی ہوئی خاصی نقدر قم موجود تھی چنانچہ سب سے پہلے مَیں نے اُن لوگوں سے بنیادی ضرورت، آٹا، گیہوں اور ضروری برتن وغیرہ خرید لیے۔ چادریں بھی خریدنا پڑیں اس لیے کہ چادروں کے ذریعے ہی لوگ اپنے اپنے رہائشی علاقوں کی حد بندی کرتے تھے۔ درختوں کی شاخیں کاٹ کر زمین میں گاڑی جاتیں اور پھر اُن پر چادر یں لٹکا کر اپنی ملکیّت کا علاقہ مخصوص کرلیا جاتا۔ اِس طرح کُھلے آسمان کے نیچے بغیر چھت کے ہزاروں لاکھوں گھر سڑک کے دونوں طرف کھیتوں میں قائم ہوگئے۔ چولہے جل گئے۔ دال تو روزانہ نہیںمِلتی تھی، روٹی البتہ ضرور پکتی تھی۔ دال ہوتی بھی تو مصالحوں اور گھی کے بگھار کے بغیر اور یہی بہت غنیمت معلوم ہوتی کیونکہ اکثر خالی روٹی ہی کھانے کو مِلتی۔ جس روز نوجوان لڑکے محنت کرکے دُور کھیتوں سے ہری مرچیں توڑ کر لاتے اور اُن کی چٹنی بنتی، اُس روز گویا ہماری عید ہوجاتی۔ ہمارے ساتھ گھریلو ملازم خاندان کی عورتیں بھی تھیں جو روز کسی چکی والے خاندان کو تلاش کرکے گیہوں پیس لاتیں اور پھر آٹا گوندھ کر روٹی پکادیتیں۔ کسی روز کسی سے قیمتاً دال مِل جاتی تو پک جاتی ورنہ صرف سوکھی روٹی پر گزارہ تھا۔حقیقت یہی تھی کہ پندرہ بیس لاکھ افراد کُھلے آسمان تلے کھیتوں میں بیٹھے تھے اور پاکستان جانے کے منتظر تھے۔ کئی روز تک کے انتظار کے باوجود کہیں سے کوئی خبر نہیںمِل رہی تھی۔ بیرونی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں تھا۔ صرف اِس امید اور آس میں یہ اتنا بڑا ہجوم وقت گزار رہا تھا کہ اُن لوگوں کو یہاں سے لے جانے کا کچھ نہ کچھ انتظام تو ضرور ہوگا۔ حوائجِ ضروری کے لیے اتنا بڑا ہجوم کیمپ سے باہر دُور کھیتوں میں جاتا۔ ہماری خواتین کے لیے یہ اور بھی مشکل تھی۔ وہ دن میں باہر نہ جاسکتی تھیں۔ رات ہوتی، وہ ڈرتے ڈرتے باہر کھیتوں تک جاتیں۔ ویسے بھی ہم سب لوگ زمین پر سوتے تھے۔بھادوں کا مہینہ تھا۔ بارش ہوجاتی تو زمین پر لیٹ ہی نہ سکتے۔ رات رات بھر اکڑوں بیٹھے رہتے۔ ایک دفعہ36گھنٹے مسلسل بارش ہوتی رہی۔ ہم لوگ کھانے پینے کا سامان بالخصوص آٹے، گیہوں کوبچانے کے لیے برتنوں میں بند کرکے اُن برتنوں کو سروں پر رکھے بیٹھے رہے۔“


نکودر کیمپ اور اُس کی زندگی کے حوالے سے حمید اختر کا لکھا ہوا ایک ایک لفظ قابلِ توجہ ہے لیکن اُن کے اندازِ بیان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مندرجہ بالا عبارت کو پڑھتے ہوئے یہ چنداں احساس نہیں ہوتا کہ زندگی اور موت کے درمیان پَل بھرکے فاصلے کو اُس جیالے پن سے بھی طے کیا جاسکتا ہے بلکہ کہیں کہیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اس تمام صورتِ حال کو مضحکہ خیز سمجھ کر اُس کا تمسخر اُڑارہے ہیں۔ ایک اور مقام پر وہ اپنے ایک خالوکا ذِکر کرتے ہیں۔ بہت نیک ،پارسا، عبادت گزار اور پانچ کی بجائے سات نمازیں پڑھنے والے بزرگ۔ لیکن ساتھ ہی اہلِ خاندان کے لیے ایک سخت گیر دہشت گرد۔ موصوف مسجد کے حجرے میں قیام کرتے تھے، صرف کھانا کھانے گھر آتے تھے۔ اُن کی موجودگی میں اُن کی بیوی اور بچے اونچی آواز میں بات تو کیا سانس بھی نہیں لے سکتے تھے۔ سردیوں میں وہ اپنے لیے جو ” پجیریاں“ اور ”دابڑے“ وغیرہ تیار کراتے ، انہیں تالے میں بند کرکے رکھتے اور کھانا کھانے کے بعد خود ہی تالہ کھول کر اُس میں سے نکال کر نوشِ جان کرتے جس کے تالے کی چابی اُن کی جیب میں رہتی۔ اُس خزانے میں سے بیوی بچوں کو کبھی کچھ نہیں مِلا۔
”ہم نے اپنی زندگی میں اپنے اُس خالو کے علاوہ اور بھی بہت سے تہجد اور اشراق پڑھنے والے عبادت گزار دیکھے ہیں اور ہمارا خیال ہے کہ ایسے لوگ یا تو بہت منکسر المزاج اور عاجز بندوں کی شکل اختیار کرلیتے ہیں یا پھر انتہائی سنگدل اور خونخوار قسم کے لوگ بن جاتے ہیں۔ ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ ایسے لوگوں کا زیادہ تر تعلق موَخرالذّ ِکر قسم کے افراد سے ہوتا ہے۔ خیر ذِکر اُن خالو صاحب کا یوں آیا کہ قیامِ پاکستان کے وقت1947ءمیں جب ہم تین ماہ کے لیے نکودر کیمپ میں نئے ملک پاکستان آنے کے انتظار میں مجبوراً مقیم تھے، وہاں ہر چیز کی کمی تھی۔ ہم لوگ چونکہ گھروں سے بھاگ کر آئے تھے اِس لیے تن کے کپڑوں کے سوا کپڑے، بستر اور کوئی دوسرا سامان ہمارے پاس نہیں تھا۔ زمین پر سوتے تھے اور کسی نہ کسی طرح روکھی سوکھی روٹی کھاکر گزارہ کررہے تھے۔ جس دن ہری مرچیں مِل جاتیں اور اُن کی چٹنی میّسر آتی تو ہماری عید ہوجاتی مگر ایسا کبھی کبھار ہوتا۔ وہاں تو روٹی کے لالے پڑے رہتے تھے، اِس لیے آٹا اور روٹی بڑے حساب اور راشن کے طریقے سے تقسیم ہوتی۔ ہمارے یہ خالو دوپہر کے وقت کئی دن تک بڑے تواتر سے ایسے وقت میں ہمارے ہاں پہنچتے جب ہم لوگ کھانا کھارہے ہوتے۔ اِس میلوں میں پھیلے ہوئے کیمپ میں اُن کا قیام ہم سے کوئی دو میل کے فاصلے پر تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ ہم لوگوں کی خیر خیریت معلوم کرنے آتے ہیں مگر اُن کے فلک شگاف السّلام علیکم کے جواب میں جب ہم انہیں کھانے کی رسمی طور پر دعوت دیتے تو وہ بِلاتامّل شریکِ طعام ہوجاتے۔ کھانے کے بعد دعا مانگتے اور ہم سب کو مخاطب کرکے کہتے، ” دیکھو اللہ تعالیٰ نے دانے دانے پر مہر لگائی ہوئی ہے۔ مَیں اِدھر سے گزر رہا تھا۔ آپ لوگوں کو دیکھنے کا خیال آیا تو آگیا۔ اِس کھانے پر میری مہر لگی ہوئی تھی، اِس لیے اِدھر آنا ہوگیا۔ جب یہ سلسلہ چھ سات روز پر پھیل گیا تو ایک روز اُن کے روانہ ہونے کے بعد ہمارے خاندانی نوکر عنایت نے جو ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز تھا، بڑے غصے سے کہا ’ یہ خالو سردار علی شاہ مہر لگانے کے لیے خود روزانہ دو میل چل کر آتے ہیں اور کھانا کھاکر اُس کی ذمّہ داری اللہ تعالیٰ پر ڈال دیتے ہیں۔ یہ تو بڑی زیادتی کی بات ہے‘۔“
نکودر کیمپ میں تین ہفتوں کے قیام کے بعد پاکستان جانے کی سبیل پیدا ہوگئی۔ اِسی اثناءمیں کیمپ کی گندی فضاءاور ناقص خوراک کے باعث پیچش کی بیماری پھیل گئی۔ اکثر لوگ اِس موذی مرض کا شکار ہونے لگے جن میں اُن کی تایازاد بہن فاطمہ بھی تھی۔ ماں باپ کی اکلوتی بیٹی نازو نعم میں پلی ہوئی ، نماز روزے کی پابند، نیک دل اور صاف ستھری خاتون۔ بیوہ ہونے کے بعد اپنے بیٹے انور کا واحد سہارا۔ حمید اختر سے اپنی بہن کی حالت دیکھی نہ جاتی تھی۔ جان لیوا بیماری نے فاطمہ کو اِس پریشانی میں مبتلا کردیا تھا کہ اگر اُس کاانتقال ہوگیا تو کیمپ میں غسل کا انتظام کیسے ہوگا اور کہیں وہ ناپاک حالت میں ہی دفن نہ کردی جائے۔ وہ حمید اختر سے بار بار اپنی اِس پریشانی کا ذِکر کرتی اور اُن سے وعدہ لیتی کہ جو بھی حالات ہوں اُس کے انتقال کی صورت میں ، وہ اُسے باقاعدہ غسل دلاکر دفن کریں گے۔ اُس کی تسلی کے لیے حمید اختر وعدہ کرلیتے حالانکہ انہےں یقین نہیں تھا کہ ایسی صورت میں وہ وعدہ پورا بھی کرسکیں گے یا نہیں۔ حمید اختر سوچتے تھے کہ شاید وہ یہ نہ کرپائیں۔ اس لیے سب یہی دعا کرتے رہے کہ خدا اُسے صحت اور تندرستی دے تاکہ وہ پاکستان پہنچ کر نئے سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرسکے۔ اُس کی بیماری پریشان ُکن ضرور تھی لیکن یہ توقع بھی نہیں تھی کہ وہ اُسی وقت اپنی آخری سانس لے گی جب کیمپ سے قافلے کی پاکستان روانگی کا آغاز ہوگا۔
کیمپ میں آئے ہوئے حمید اختر اور اُن کے خاندان کو بیس بائیس روز گزرے ہوں گے جب پاکستان سے بسوں اور ٹرکوں کا ایک کانوائے فوجی جوانوں کی حفاظت میں یہاں پہنچا تاکہ جتنے لوگوں کو یہاں سے نکال کر پاکستان پہنچایا جاسکتا ہے، پہنچایا جائے۔ اِس کانوائے کے ساتھ حمید اختر کے بھائی اصغر علی مرحوم بھی تھے۔ انہوں نے حمید اختر اور خاندان کے دوسرے لوگوں کو ڈھونڈنکالا۔ وہ پاکستان میں یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ تمام خواتین ماری جاچکی ہیں۔ وہ چونکہ پہلے ہی پاکستان جاچکے تھے اس لیے انہیں حمید اختر کے گاﺅں پہنچنے کی اطلاع بھی نہیں تھی ۔ بہر حال ،وہ ایک موہوم امید کے ساتھ کانوائے کے ساتھ یہاں پہنچے تھے۔ خاندان کی عورتیں، بچے، حمید اختر اور اُن کے بھائی کسی طرح بس میں سوار ہوگئے۔
جن لوگوں کے پاس سامان تھا، وہ وہیں پھینک دیا کیونکہ کانوائے ” انسانوں کو لے جانے کے لیے آئے تھے، سامان لے جانے کے لیے نہیں۔“ ایسا لگتا تھا کہ حمید اختر، تمام بچے اور خواتین، اُن کی تایا زاد بہن سمیت اب پاکستان پہنچ ہی جائیں گے۔ فاطمہ کو بھی سب کے ساتھ بس میں بٹھایا جاچکا تھا کہ وہ المیہ رونما ہوگیا جس کے بارے میں حمید اختر سوچ رہے ہوں گے کہ ٹل گیا۔ شاید انہوں نے سوچا ہو کہ اب اُن کی بہن پاکستان جاکر اپنی نئی زندگی کا آغاز کرسکے گی۔ لیکن - 
”یہ قافلہ روانہ ہونے ہی والا تھا۔ بس اسٹارٹ بھی ہوچکی تھی کہ اچانک آواز آئی، یہ تو مرگئی ہے۔ اِسے اتارو، ہم مُردے پاکستان نہیں لے جاسکتے۔ یہ بس زندہ لوگوں کو وہاں سے لانے کے لیے بھیجی گئی ہے، مُردوں کے لیے نہیں۔ مَیں نے جلدی سے اُٹھ کر دیکھا۔ میری بیمار بہن فاطمہ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔نئے وطن کی طرف ہجرت کے ارادے سے بس میں سوارہونے تک اُس کی سانس کسی نہ کسی طرح چلتی رہی لیکن سفر شروع ہونے سے پہلے ہی اُس نے اپنی جان، جان آفریں کے سپرد کردی اور یوں اُس کے جسم نے اپنے پُرانے وطن سے علیحدگی اختیار کرنے سے انکار کردیا۔ اُسے پاکستان جانا نصیب نہ ہوسکا۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر نے اُس کے خاکی اور بے جان جسم کو اُٹھا کر بس کے دروازے کے سامنے زمین پر لٹادیا اور ہم نے ایک چادر سے اُس کا جسم ڈھانپ دیا۔ نازوں سے پلی ہوئی ایک نامور اور بڑے خاندان کی یہ اکلوتی اولاد فرشِ خاک پر پڑی ہوئی تھی اور اُس کے اپنے اہلِ خاندان کے ارکان کے سوا کسی کو اُس کی طرف نگاہ ڈالنے کی بھی فرصت نہ تھی۔ لوگ اُسی طرح بسوں اور ٹرکوں میں چڑھنے کے لیے دھکم پیل کررہے تھے، ڈرائیور اُسی طرح اُن کا سامان اُٹھا اُٹھا کر باہر پھینک رہے تھے۔ مَیں سرجھکائے اُس کی میّت کے پاس بیٹھا تھا کہ میرے بھائی نے مجھ سے کہا۔ بہتر ہے ہم اُسے اللہ کے حوالے کرکے یہاں سے روانہ ہوں۔ اب ہم اور کر ہی کیا سکتے ہیں۔ جب مَیں نے اُن سے اپنا وعدہ پورا کرنے کے لیے وہاں رکنے کی بات کی تو انہوں نے کہا تم بہت مصیبتیں اُٹھاچکے ہو، فاطمہ سے جو وعدہ تم نے کیاتھا وہ مَیں پورا کرنے کے لیے رک جاتا ہوں۔ تم اپنی بہنوں اور بچوں کے ساتھ لاہور جانے کے لیے بس میں بیٹھ جاﺅ مگر مَیں نے اُن کی سرکاری ملازمت کی وجہ سے اُن کی یہ پیشکش قبول نہ کی اور زبردستی انہیں بس میں بٹھا کر خود وہیں جمارہا۔ بسیں اب حرکت کررہی تھیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پورا قافلہ کھیتوں سے نکل کر مہیت پور، نکودر کی پختہ سڑک پر لاہور روانگی کے لیے تیار کھڑا نظر آیا۔
تھوڑی ہی دیر میں بسیں اور ٹرک فوجی جوانوں کی حفاظت میں وہاں سے روانہ ہو کر عازمِ پاکستان ہوگئے۔ کھُلے کھیت میں جہاں کچھ دیر پہلے بسیں اور ٹرک کھڑے تھے اور انسانوں کا ایک ہجوم اُن پر سوار ہونے کے لیے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھا، اب بے شمار ٹرنک، پیپے، پوٹلیاں اور کچھ دوسرا سامان بِکھرا ہوا پڑا تھا جس کے درمیان ایک بے بس خاتون کی لاش اور ایک بدنصیب بھائی بیٹھا تھا۔ جس کے لیے یہ گویا دنیا کی آخری حد آگئی تھی اور جس کی نگاہ میں زندگی بے معنی ہوچکی تھی۔ خلا میں گھورتے ہوئے مَیں سڑک پر جاتی بسیں اور اُن کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہوئے انسانوں کا ہجوم دیکھتا رہا۔ ایک اطمینان البتہ ضرور تھا کہ اب مجھ پر اُس بہن کی لاش کو کفنانے دفنا نے کے سوا اور کوئی ذمّہ داری نہیں ہے۔ مَیں جن خواتین اور بچوں کی زندگی اور حفاظت پر مامور تھا، اب اُن کی ذمّہ داری سے فارغ ہوں ۔صرف اپنی جان ہے جس کی حفاظت کی مجھے چنداں پروانہ نہیں تھی۔ یہ سوچتے سوچتے اور آخری بس نظروں سے اوجھل ہونے کے بعد جب مَیں نے اپنے آس پاس نظر دوڑائی تومکئی، گنے اور مرچوں کے کھیتوں میں جابجا نیلی پگڑیاں نظر آئیں۔ غور سے دیکھا تو بے شمار نہنگ سِکھ ہاتھوں میں تلواریں اور نیزے بھالے لیے ہوئے اُن کھیتوں میں چُھپے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ غالباً کانوائے کے ساتھ فوجی جوانوں کے نظروں سے اوجھل ہونے کا انتظار کررہے تھے، جس کے بعد اُس میدان میں پڑی ہوئی سامان کی ہزاروں پوٹلیاں اور ٹرنک اور کنستروں وغیرہ پر اُن کی نظر تھی۔ میرافوری ردِ عمل یہی تھا کہ اِس لوٹ مار میں ازراہِ تفنن ہی، اُن میں سے کوئی ایک میرے پیٹ میں خنجر گھونپنے سے گریز نہیں کرے گا۔ ایک لمحے کے لیے مَیں نے یہ ضرور سوچا کہ مجھے یہاں نہیں رکنا چاہیے تھا اور کانوائے کے ساتھ ہی چلا جانا چاہیے تھا مگر دوسرے ہی لمحے مَیں نے اِس خیال کو دل سے نکال دیا اور فیصلہ کرلیا کہ میری موت شاید اِسی طرح لکھی تھی۔ چنانچہ جب کھیتوں میں چُھپے ہوئے سِکھ صاحبان آہستہ آہستہ چاروں طرف سے اُس میدان کی طرف بڑھے، آنکھیں بند کرکے مَیں نے کلمہ پڑھا، اپنے گناہوں کی معافی مانگی اور اپنے اوپر ہونے والے حملے کا انتظار کرنے لگا۔“
حمید اختر کے کردار کا یہ پہلو اُس المیے میں سے نکل کر خود سامنے آیا ہے۔ جس مقام سے بسیں روانہ ہوئی تھیں، وہاں کیمپ سے باہر وہ تنہا رہ گئے تھے۔ ایک بے جان لاشے کے لیے ۔ اِس کمٹمنٹ پر قائم رہنا جس سے پیچھے ہٹنے کی صورت میں اُن کی بہن نے انہیں شرمندہ کرنے کے لیے دنیا میں واپس نہیں آنا تھا۔ وہاں انہیں اپنے وعدے پر قائم رکھنے کے لیے کوئی اور بھی موجود نہیں تھا۔ وہاں چاروں طرف موت کا سنّاٹا تھا۔ زندگی کا موت کے سامنے تن کر کھڑے ہونے کا یہ انداز، ایک دھج سے مقتل جانے جیسا تھا۔ کیا یہ فیض کی رفاقت کا فیضان تھا؟ یہ استقامت، یہ استقلال، یہ وجودی انتخاب،محض لفظوں کی دین نہیں تھا۔ یہ جرا ¿تِ کردار زندگی بھر اُن کی شخصیّت کا حصّہ رہی۔ یہاں، محض اپنی زندگی بچانے کے لیے انہوں نے اپنی بہن کو لاوارث چھوڑنا گوارہ نہیں کیا اور 1951ءمیں اپنی نظریاتی کمٹمنٹ نبھانے کے لیے وہ اپنی بیمار بہن کو بے سہارا چھوڑ کر پولیس کے ساتھ چل پڑے۔ نکودرکیمپ کی زمین کے اُس چھوٹے سے ٹکڑے پر حمید اختر نے زندگی سے اپنی کو چھپانے کی کوشش نہیں کی۔ اپنے پیاروں کے درمیان زندہ رہنے کی خواہش کو دبانا نہیں چاہا لیکن انہوں نے اپنے فیصلے پر کسی پشیمانی، کسی پچھتاوے کا اظہار بھی نہیں کیا۔ انہوں نے لکھا:
”مَیںکچھ دیر ،شاید دس پندرہ منٹ ایسے ہی آنکھیں بند کیے تلوار کی کاٹ یا بھالے کی نوک کے انتظار میں لاش کے سامنے بیٹھا رہا مگر یہ عرصہ صدیوں پر محیط محسوس ہوا۔ گھر سے اُجڑا ہوا ایک انسان جب موت کے سامنے تنہا بیٹھا ہو اور جب ایک عزیز کی لاش کو سنبھالنا اُس کا مقصدِ حیات ہو، اس وقت وہ کیا کچھ محسوس کرتا ہے، یہ وہی جانتا ہے جو ایسے حالات میں پھنسا ہو۔ اُن چند لمحات میں گزری ہوئی زندگی کی ہزاروں جھلکیاں آنکھوں کے سامنے گھوم گئیں۔ کتنے ہی حسین اور پیارے چہرے بجلی کی چمک کی طرح تصوّر میں لہرائے، کتنی ہی بیتی رُتوں اور کتنے ہی جسموں کے کمبخت دل آویز خطوط نظروں میں سمائے ہوئے محسوس ہوئے۔“
کڑی آزمائش کے لمحے گزرے۔ اب سُرخرو ہونے کا وقت تھا۔ اپنی مرحومہ بہن سے کیا ہوا وعدہ اِس طرح وفا ہوا کہ وہ سوچ بھی نہ سکتے تھے۔
” کچھ دیر تک میرے ارد گرد سامان سمیٹنے کا عمل جاری تھا۔ مجھے اُس کام میں مصروف سِکھوں کے جتھّوں کی آوازیں بھی آرہی تھیں۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ مَیں اپنے جسم پر جس حملے کا انتظار کررہا تھا، وہ نہ ہوا تو مَیں نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔ دیکھا تو میدان صاف تھا یعنی میرے اور فاطمہ کی میّت کے سوا وہاں کچھ نہیں تھا۔ سائیکل پر گزرتے ہوئے ایک نیک دل انسان کے ذریعے مَیں نے اپنے گاﺅں کے لوگوں تک یہ پیغام پہنچایا کہ حیدر علی شاہ کی بیٹی فاطمہ فوت ہوگئی ہے۔ اُس کے کفن دفن کے انتظام کے لیے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے۔ حیرت کی بات تھی مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک گھنٹے کے اندر اندر، ہمارے گاﺅں کے چار پانچ سو مردوزن کیمپ سے وہاں پہنچ گئے۔ اُن میں گاﺅں کے مولوی صاحب بھی تھے اور اُن کے گھر کی خواتین بھی جو مستورات کے غسل کا اہتمام کرتی تھیں۔ گاﺅں کے نوجوان لڑکوں نے سارا انتظام سنبھال لیا۔ معلوم نہیں کہاں سے وہ بالٹیاں اور تختے بھی ڈھونڈ کر اُٹھالائے۔ تین لوگوں نے کھدر کے کفن پیش کردیئے کہ یہ انہوں نے اپنے لیے سنبھال کررکھے تھے۔ قبر کھودی جاچکی تھی۔ مولوی صاحب کے گھر کی خواتین نے فاطمہ کو غسل دیا اور نمازِ جنازہ کے بعد ہم نے اُس لاش کو نکودر کی خاک کا رِزق بنانے کے لیے لحد میں اُتار دیا۔ میرے دل پر نامساعد حالات اور غیر یقینی مستقبل کا بوجھ ضرور موجود تھا مگر اپنا وعدہ پورا کرنے پر مَیں خوش بھی بہت تھا۔ مجھے اپنے اُس فیصلے پر نہ اُس وقت افسوس ہوا اور نہ بعد کے دو مہینوں کی کیمپ میں گزرنے والی اذیّت ناک تکلیفوں کا سامنا کرتے ہوئے کبھی مجھے پچھتاوا ہوا۔ خطرناک اور گمبھیر صورتِ حال کا مقابلہ کرتے ہوئے مَیں نے اُس کے بعد اپنے آپ کو آزاد اور ہلکا پھلکا محسوس کیا کہ اب مجھ پر اپنی جانِ ناتواں کے بوجھ کے سواکوئی اور بوجھ نہ تھا۔ 
اس کے بعد کوئی اذیّت، اذیّت نہ تھی، کوئی تلخی، تلخی نہ تھی۔ مزید دو ماہ کے رنج و آلام بے حقیقت ہو کر رہ گئے۔ اُس تمام عرصے میں حکومتِ پاکستان کو یاد نہیں آیا کہ مشرقی پنجاب میں کوئی نکودر کیمپ بھی ہے۔ حکومت اپنے شہریوں کو پاکستان لانے کی بجائے کشمیر کے معاملات دیکھنے میں مصروف تھی۔ وطن میں ’ بے وطنی‘ کی کیفیت کا دوسرا نام نکودر کیمپ تھا۔ یہ تو غریب الوطنی بھی نہیں تھی جس میں
 ع بیٹھ جاتا ہوں، جہاں چھاﺅں گھنی ہوتی ہے
کھُلے آسمان تلے موسم اور بیماریاں اپنا کھیل کھیل رہے تھے۔


مختلف قسم کی بیماریوں بلکہ وباﺅں نے لوگوں کواپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پیچش اور بخار کے بڑھتے ہوئے زور کے باوجود اُن بیماریوں کے تدارک کی کوئی صورت نہ تھی۔ کسی کے پاس نہ کوئی دوا تھی اور نہ دوا کے حصول کا کوئی ذریعہ موجود تھا۔ علاج معالجے کی کوئی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے لوگ روزانہ خاصی بڑی تعداد میں مرنے لگے۔ ہفتوں سے اپنے انخلا کا انتظار کرنے کے باوجود اِس مدت میں نہ تو کوئی کانوائے آیا اور نہ ہی نکودر اسٹیشن تک کوئی ریل گاڑی نکودر کیمپ کے پناہ گزینوں کو لینے آئی۔ معلوم یہی ہورہا تھا کہ باہر کی دنیا ہمےں بھول چکی ہے اور اب ہم سب کو یہیں ختم ہونا ہے۔ آس پاس اب زندہ لوگوں سے زیادہ بھری ہوئی قبریں نظر آرہی تھیں۔ اس لیے کہ وہاں کوئی باقاعدہ قبرستان تو تھا نہیں۔ مرنے والوں کو وہیں اپنے پاس ہی قبر کھود کر دفنا دیا جاتا۔ چار پانچ ہفتوں کے بعد قبروں کی بڑھتی ہوئی تعداد خاصا وحشت ناک منظر پیش کررہی تھی۔ “
نومبر ختم ہورہا تھا جب بسوں اور ٹرکوں کا ایک بھولا بھٹکا کانوائے نکودر پہنچا۔ حمیداختر راستے میں لاشیں عبور کرتے اگلے روز دوپہر تک لاہور پہنچ گئے جہاں اُن کی موت کی اطلاع اُن سے پہلے پہنچی ہوئی تھی۔ وہ سیدھے مکتبہ ¿ اُردو پہنچے۔ چوہدری نذیر احمد کے منہ سے آواز نہیں نکل رہی تھی۔ اُن کے پاس حمید اختر کی جوانمرگی پر رضیہ سجاد ظہیر اور کرشن چندر کے تعزیتی خط پہنچ چکے تھے۔ ہندوستان کے کسی اخبار میں اُن کے انتقال کی خبر شائع ہونے کے بعد ” اُردو کے جواں سال اُبھرتے ہوئے ترقی پسند افسانہ نگار کے فسادات میں مارے جانے“ پر دونوں ملکوں کی ترقی پسند تحریک میں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔ ایسے میں حمید اختر اچانک لاہور کے اُفق پر نمودار ہوئے۔ جوانمرگی اور جواں مردی میں بس اتنا ہی فاصلہ ہوتا ہے کہ مرنے والے نے اپنے بارے میں تعزیتی خطوط بہ نفسِ نفیس پڑھے۔ اگلے ماہ دسمبر1947ءمیں نکودر کیمپ کی کہانی بھی تمام ہوئی جب خود اپنے پیاروں کی قبروں کے درمیان پھنسے ہوئے لوگوں کو اسپیشل ٹرینوں کے ذریعے نکال لیا گیا۔ لیکن کیا کہانی سچ مچ تمام ہوگئی؟ نکودر کیمپ حمید اختر کی روح کے نہاں خانے میں ہی نہیں بلکہ اُن کی تحریروں میں بھی امر ہوچکا ہے۔

(6)

Image result for potohar region

اب ایک اقتباس گور بچن سنگھ طالب کی رپورٹ سے :
 گوربچن سنگھ طالب نے اپنی رپورٹ میں کوئی تقابلی جائزہ یا ،خصوصاً ،پوٹھوہار کے علاقے میں سِکھوں اور ہندوﺅں کے قتلِ عام ، مذہبی بنیادوں پر فسادات، بلوﺅں اور خاصی حد تک نسل ُکشی کے اسباب وعِلل پیش نہیں کیے۔ بس ہر قصبے، گاﺅں یا شہر میں مارے جانے ، وہاں سے جبراً نکالے جانے یا جان بچا کر نکلنے والوں کے اعداد و شمار دیے ہیں۔ ساتھ ہی اِس کی نشان دہی بھی کردی کہ فسادات یا قتلِ عام کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا۔ بلاشبہ وہ معاصر تاریخ کے ایک بڑے عالم تھے اور عمر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو 1947ءمیں وہ لگ بھگ 36 برس کے تھے۔ اُن کی پیدائش کا سال بھی 1911ءمِلتا ہے۔ ممکن ہے انہوں نے 1947ءکے، مذہبی بنیادوں پر، فسادات خود بھی دیکھے ہوں۔ انہیں فکر و نظر کے لحاظ سے تنگ نظر یا متعصّب بھی نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے بابا فرید شکر گنج پر کتاب لکھی۔ بابا فرید واحد مسلمان صوفی شاعر تھے جن کا کلام سِکھ مت کی مذہبی کتاب ”گوروگرنتھ صاحب“میں شامِل کیاگیا۔گودوسرے نمبر پر بھگت کبیر کا نام آتا ہے لیکن اُن کا مسلمان ہونا متنازع ہے۔ اُن کا زمانہ بابا گرو نانک سے لگ بھگ 70 برس پہلے کا ہے۔ اُن کا تذکرہ آگے آئے گا۔ سِکھوں کی اس مقدّس کتاب کو گیارہواں اور آخری (مطلق) گورو قرار دیا گیا۔ تاہم، گور بچن سنگھ طالب نے اپنی رپورٹ میں فسادات اور سِکھوں اور ہندوﺅں کے قتلِ عام ،آتش زنی اور عملاً نسل کُشی کی ساری ذمّہ داری نہ صرف مسلم لیگ پر ڈال دی بلکہ جذبات میں آکر امرتسر، جالندھر اور لدھیانہ ایسے شہروںمیں بھی نام نہاد مسلمانوں کے ہاتھوں نام نہاد سِکھوں اور ہندوﺅں کے قتل ِ عام کی کہانی بھی کہہ ڈالی جو ریڈ کلف باﺅنڈری کمیشن کے ایوارڈ کے تحت مشرقی پنجاب کا حصّہ بننے والے تھے۔ امرتسر، جیلیانوالہ باغ قتلِ عام کے حوالے سے مسلمانوں کو بھی اتنا ہی عزیز تھا،اور ہے، جتنا سِکھوں اور ہندوﺅں کو ۔پنجاب ہزاروں برس سے ایک خِطّہ چلا آرہا تھا، جسے انگریز نو آبادیاتی حکمران اپنی ”لڑاﺅ اور حکومت کرو“ کی بدنامِ زمانہ پالیسی کے تحت محض ایک ”لکیر“ کے ذریعے دو حصّوں میں بٹنے کی نہج پر لے آئے تھے۔ اُسی امرتسر میں سِکھوں کا مقدّس ہر مندر صاحب ،دربار صاحب یا”گولڈن ٹیمپل“ (طلائی گوردوارہ)ہے۔امرتسر کو یہ نام سِکھ مت کے پانچویں گورواَرجُن دیو نے لگ بھگ 1588ءمیں دیا۔ قبل ازیں اُس کا نام چوتھے گورو رام داس کے نام پر رام داس پور اور سے بھی پہلے یہ گاﺅں ”گورو دا چک“ یعنی ”گورو کا چک“کہلاتا تھا۔ امرتسر کا لفظی مطلب ہے ”شیریں (پوّتر) پانی“۔یہاں ایک اور بات خاصی دلچسپ ہے کہ دسویں سِکھ گورو، گورو گوبند سنگھ تک سِکھ مت میں عمومی نام ہندوانہ تھے۔ ذات کے اعتبار سے سِکھ مت کا وجود کھشتر یوں یا کھتریوں سے نکلا تھا۔ بابا گورو نانک خود ایک کھتری گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا نام وہی ہندوانہ چلتے رہے حالانکہ پانچویں گورو اَرجُن دیو کے زمانے ہی سے مذہبی اور سیاسی طور پر سِکھ مسلک، اُس کے گورو اور عام پیروکار، مغل حکمرانوں، خصوصاً جہانگیر کے دورِ حکمرانی سے عتاب کا شکار ہونے لگے تھے۔ گورو اَرجُن دیو نے امرتسر میں ”ہر مندر صاحب“ کی تعمیر کے ساتھ ساتھ مذہبی کتاب ”گورو گرنتھ صاحب“ کی تدوین کا کام بھی کیا جس میں بابا گورو نانک، پانچوں گورو صاحبان کے ساتھ ساتھ 15 بھگتوں، بھگت بینی، بھگت بکھان، بھگت دھنّا، بابا فرید شکر گنج، بھگت جے دیو، بھگت کبیر ، بھگت نام دیو، بھگت پر مانند، بھگت پیپا، بھگت رامانند، بھگت روی داس، بھگت سادھن، بھگت سائیں، بھگت سُورداس اور بھگت ترلوچن کے دوہے، شبد، بھجن، حمد اور مناجات شامل ہیں۔ بابا گورو نانک پندرہویں اور سولہویں صدی عیسوی میں اپنے افکار، وحدت الوجود یعنی خدائے مطلق و واحد سے لے کے چلے تھے، لہٰذا یہ فکری اور تصوّف پر مبنی سوچ ہی اِس مسلک کی بنیادبنی۔اور بابا گورو نانک کی اِسی وحدت الوجود یا خدائے مطلق والی سوچ کو سِکھ مت میں ”وہگُرو“ کا نام دیا گیا۔ یعنی گور مُکھی یا گورمت میں ”وہگُرو“ کا مطلب ہی خدائے مطلق یا وحدت الوجود ہے۔ بابا گورو نانک تو”نہ کوئی ہندو، نہ کوئی مسلمان“ کا سرمدی نعرہ لے کے چلے تھے۔ اُن کے پیروکار گورو صاحبان نے اِسی نظریے اور سوچ کو پیشِ نظر رکھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ صدیوں پر محیط اِس دور میں، بابا فرید شکر گنج، حضرت میاں میر، دِلّی کے سرمد شہید اُن کے رفیق رہے۔ اور سرمد شہید نے تو اُن ہی کی خاطر رسنِ دارکو چوما ۔بھگت کبیر کے بارے میں 6 سو برس گزرنے اور مسلسل عالمانہ تحقیق ہونے کے باوصف یہ طے نہیں ہوپایا کہ وہ مسلمان تھے یا ہندو؟ مختلف روایات ہیں لیکن ایک بات پہ بظاہر اتفاق دکھائی دیتا ہے کہ وہ بنارس میں پیدا تو کسی ہندو برہمن کنبے میں ہوئے تھے لیکن طفولیّت ہی سے پرورش ایک مسلمان نورباف(جولاہا) کنبے میں پائی۔ بہر حال، اُن کے شعری افکار میں صرف خدائے واحد کا تصوّر مِلتا ہے۔وہ ہندوانہ ذات پات، مسلمانوں کی رسوم و روایات کے یکسر مخالف نظر آتے ہیں۔ بھگت کبیر جب تک جئے، ہندو، خصوصاً برہمن اور مسلمان اُن کے افکار و خیالات پراُن کے لتےّ لیتے رہے لیکن جب وہ اِس دنیا سے پردہ کر گئے تو دونوں مذہبی گروہ اُن کے دعوے دار بن گئے۔ ہندو نے کہا، وہ ہندو تھے ،مسلمان بولے نہیں مسلمان تھے۔ ہندو کہتے تھے، ہم انہیں جلائیں گے اور مسلمان اُن کی تدفین پر مُصِّر تھے۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بنارس میں اُن کی آخری آرام گاہ کا منظر ایسا ہی ہے۔عجیب بات ہے ،یہی کیفیت اور روایّت ہمیں بابا گورونانک کی دنیا سے رخصتی پر دکھائی دیتی ہے۔انہوں نے دمِ واپسیں سِکھوں، مسلمانوں اور ہندوﺅں میں یہ تنازعہ پیدا ہوتے دیکھا تو وصیّت کی کہ میرے مرنے کے بعد آپ لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق میرا ”انتم سنسکار“ کریں۔ انہوں نے آخری سانس لی۔ اُن کے سِکھ، مسلمان، ہندو پیروکاروں نے چادر ہٹائی تو چارپائی پر صرف پھول پڑے تھے۔ لوگوں نے اپنے اپنے حصّے کے پھول اٹھائے اور اپنے اپنے عقیدے کے مطابق اُن کا ”انتم سنسکار“ کردیا۔ یہ جگہ گورداس پورکے قریب واقع گاﺅں کرتار پور میں ہے۔اِسے ڈیرہ بابا نانک بھی کہتے ہیں۔ اِس کے دو حصّے ہیں۔ ”ایک سِکھوں کی سمادھی اور دوسری مسلمانوں کے حوالے سے مزار۔ مسلمان ہوں یا بیرون جات، دوسرے ممالک سے آنے والے سِکھ، سب یہاں حاضری دیتے ہیں۔ بھگت کبیر کے حوالے سے صدیوں بعد کے ایک شاعر احمد ندیم قاسمی کا شعر یاد آرہا ہے۔

عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن 
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ

سِکھ مت کی تاریخ کے مطابق اُن کے کم و بیش 500 دوہے اور شبد گورو گرنتھ صاحب میں شامل ہیں۔ بات چلی تھی امرتسر میں ہر مندر صاحب کی تعمیر سے۔ پانچویں گورو اَرجُن دیو اور لاہور میں عظیم مسلمان صوفی بزرگ اور شاعر حضرت میاں میر میں بڑی دوستی تھی۔ اور اس دوستی کی بنیاد تصوّف اور اعلائے وحدت الوجود کا وہ ارفع پائیدان تھا جس پہ حضرت میاں میر کھڑے تھے۔ اس فکر و نظر میں مذہبی رواداری شامِل تھی۔ گورو اَرجُن دیو نے پہلے تو پوّترپانی کا تالاب تعمیر کرایا جس کے لیے پانی دریائے راوی سے آتا تھا۔ اور جب سِکھ مت کے مقدّس مقام ہر مندر صاحب کی تعمیر کا وقت آیا تو انہوں نے لاہورآکر حضرت میاں میر سے کہا کہ وہ اس گوردوارے کا سنگِ بنیاد رکھیں۔ حضرت میاں میر کو لاہور سے امرتسر لانے کے لیے انہوں نے پالکی اور اپنے 101 پیروکار لاہور بھیجے۔ لاہور کے مغل گورنر کا دیوان (وزیراعلیٰ؟) راجہ چندومَل، جو سِکھوں کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ اور مسلک کی بِنا پر، گورو اَرجُن دیو کا مخالف تھا، اور اُس نے اِس تصوّر کے ساتھ کہ ”رام رحیم“ ایک ہی ہیں اور حضرت میاں میر کے اس جواب پر اُن سے عناد رکھتا تھا کہ ”تم جس رام کا دھرم رکھتے ہو، وہ اللہ نہیں، محض ایک مجسّم انسان، راجہ دشرتھ کا بیٹا، مائی سیتا کا شوہر اور لَو اور ُکش کا باپ تھا۔ جب کہ اللہ، لا مکاں ولاوجود ہے۔ اُسے نہ کسی نے جَنا اور نہ کوئی اُس سے جَنا گیااور یہی گورو اَرجُن دیو کا اور اُن کے پیروکاروں کا ایمان ہے۔ وہ سچائی پرہیں لہٰذا، مَیں اُن کا ساتھ دوں گا۔“


حضرت میاں میر جب لاہور سے امرتسر جارہے تھے تو دیوان چندومَل کے بھیجے ہوئے شرپسندوں نے اُن کے قافلے پر حملہ کردیا جس میں حضرت میاں میر کے کئی ساتھی اور گورو اَرجُن دیو کے پیروکار زخمی ہوگئے۔ بہر حال، حضرت میاں میر امرتسر پہنچ گئے۔ اورپہنچے بھی یوں کہ پیوند لگی، کھردری اونی ُگدڑی پہنے تھے۔ سر پہ مخروطی ُکلاہ جس میں گلاب کا پھول ٹنکا تھا۔ مخروطی ُکلاہ تصوّف اور وحدت الوجود کی جانب رجوع کی علامت تھا۔اُن کا وہاں والہانہ استقبال کیا گیا۔ وہ تقریباً دو ہفتے امرتسر میں رہے اور13 جنوری 1588ءکو ”ہر مندر صاحب “کا سنگِ بنیاد رکھا۔بعض دستاویزات میں سنگِ بنیادرکھنے کی تاریخ 28 دسمبر 1588 ءہے۔ یوں یہ مقدّس دوار مسلمانوں کے لیے بھی ہمیشہ باعث ِ احترام رہا ہے۔ یہیں سِکھوں کا اکال تخت اور مقدّس و متبرک کتاب ”گورو گرنتھ صاحب “ بھی ہیں۔ ایمان کے اعتبار سے مسلمان اللہ تعالیٰ کی ذاتِ مطلق، وحدانیّت پر ایمان رکھتے ہیں تو بابا گرو نانک نے بھی سِکھ مت کی بنیاد ربّ کی ذاتِ مطلق، وحدانیّت، ”اکال، نرنکار“ پر رکھی ۔جیسا کہ پہلے کہا جاچکا، گور مکھی یا گور مت میں ”وہگُرو“ کا مطلب ”خدائے واحد“ ہے۔
سردار گوربچن سنگھ طالب لاہور کے سِکھ نیشنل کالج میں لیکچرر تھے۔ انہوں نے تاریخ پر اتنا کام کیا کہ انہیں بنارس ہندو یونیورسٹی میں پُر وقار گورو نانک چیئر کے لیے منتخب کیا گیا جو سِکھ مت اسٹڈیز کے لیے مخصوص ہے۔ 1985ءمیں انہیں بھارتی حکومت نے ”پدم بھوشن“ ایوارڈ سے نوازا۔ اُسی سال انہیں ”انڈین کونسل آف ہسٹاریکل ریسرچ، نیو دہلی“ میں نیشنل فیلو شپ دی گئی۔ اور اگلے سال یعنی 1986ءمیں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے بلا شبہ، تاریخ کے موضوع پر بہت کام کیا لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ 1947ءمیں تقسیمِ ہند کے وقت، مسلمانوں کے ہاتھوں سِکھوں اور ہندوﺅں کے قتل ِ عام کے حوالے سے اپنی تحقیقی تحریروں میں انہوں نے خاصے تعصّب سے کام لیا ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے حصّے میں آنے والے ”مغربی پنجاب“ خصوصاً اٹک سے جہلم تک پوٹھوہار کے علاقے میں سِکھوں اور ہندوﺅں کا قتلِ عام بلکہ نسل کُشی بھی ہوئی، تاہم، جیسا کہ ماضی اور حال کی تاریخ شواہد پیش کرتی ہے، ایسے فسادات، لوٹ مار، آتشزنی کے عمل اور واقعات میں ڈوریاں ہمیشہ ”نامعلوم“انگلیاں ہلاتی ہیں۔ اِن ”نامعلوم “انگلیوں میں سیاست ہوتی ہے، سیاست دان ہوتے ہیں، فرقہ پرست ہوتے ہیں، دہشت گرد ہوتے ہیں، جائیدادوں اور مال و دولت پر قبضہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ فسادیوں، بلوائیوں ،قاتلوں اور آتش زنوں کو ہتھیار فراہم کرتے ہیں، پیٹرول اور آتش گیر مادّے مہیا کرتے ہیں، پیسہ دیتے ہیں۔ ماردھاڑ کرنے والوں میں بہت سے بھاڑے کے ٹٹو یا کرائے کے قاتل ہوتے ہیں۔ پیسہ دو، کوئی بھی کام کروالو۔اور اکثر تو یہ ”نامعلوم“ کردار سامنے بھی آجاتے ہیں، جب انہیںعلم ہوجائے کہ پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
تاریخ ہمیں یہ یاد دہانی بھی کراتی رہتی ہے کہ حکمران ہمیشہ سے ہی تاریخ اپنے مطلب و مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لکھواتے رہے ہیں۔ درباری مورّخوں اور پرچہ نویسوں کا تذکرہ بھی اکثرمِلتا ہے۔ تاریخ کے بعض اوراق بھی ”با ادب با ملاحظہ“کا نمونہ نظر آتے ہیں۔ امیر تیمور، اپنے وحشی پُرکھوں کا خون رگوں میں لیے، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتا رہا۔ آبادیوں کو تاخت و تاراج کرتا رہا۔ ہمارے علاقوں میں آیا تو یہاں بھی کُشتوں کے پُشتے لگاکے فاتح بنا لیکن اُسے تاریخ میں مسجدوں اور میناروں کا معمارِ اعظم بتایا جاتا ہے، کہ اُس نے کچھ ایسے کام بھی کیے ۔ حالانکہ معروضی مورّخ اُسے کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرنے والا وحشی حملہ آورہی قرار دیتا ہے۔ مغل بھی برِ صغیر پر حملہ آور ہوئے اور یہاں اپنی عظیم الشّان سلطنت قائم کی۔ لیکن اِن شاہان ِ مغلیہ کا ذاتی کردار کیا رہا۔ حکمرانی کے لیے زمین اور خطّوں کی ہوس کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ ایک آدھ کو چھوڑ کے، باقی سارے ہی مغل شہنشا ہ بھائیوں اور قرابت داروں کا قتلِ عام کرکے ”سریر آرائے سلطنت“ ہوتے رہے۔ اِن ہی پہ بس نہیں، برِصغیر کے اصل باسی حکمرانوں، مہاراجوں، راجوں نے بھی، معلوم تاریخ میں ایسا ہی کیا۔ کالا ہان کی تصنیف ”راج ترنگنی“ یہی بتاتی ہے کہ ساتویں آٹھویں صدی عیسوی تک ہندوستان کی برہمن شاہی یا ہندوشاہی پوٹھو ہار کا خطہ پار کرکے کابل تک پھیلی ہوئی تھی۔ تاریخ تو یہ بھی کُھل کے بتاتی ہے کہ اِن برہمنوں نے شوقِ حکمرانی میں، تحصیل و ترویج ِ علم کو تیاگ کر شمشیر زنی کا پیشہ اپنالیا۔ کھشتری ذات اپنالی۔ تاریخ، اِس حد تک اندھیاروں میں، بہر حال بھٹک رہی ہے کہ یہ لوگ برِصغیر سے کابل تک پہنچے یا تبّت کے راستے وہاں آئے۔ اُن کے آس پاس، اِرد گرد ایرانی قلمرو تھی۔ اتنی وسیع اور قدیم کہ اُس کے سماجی، معاشرتی، جغرافیائی، لسانی اثرات جڑیں پکڑ گئے، اتنی گہرائی تک کہ اُس دور کے ہندو حکمران اپنی قلمرو کے لیے لفظ ”شاہی“ استعمال کرتے تھے۔ تب تک یہ خِطّہ افغانستان نہیں کہلایا تھا بلکہ کابلستان یا زابلستان کہلاتا تھا۔ لفظ ”شہر“ جو خالصتاً فارسی کا ہے، اِس کا ذِکر پوٹھوہار کے علاقے راولپنڈی میں مِلتا ہے ۔یہ تذکرہ آگے آئے گا۔
اِس طویل تقریظ کے بعد ہم سِکھ مت کے پانچویں گورو اَرجُن دیو اور سلطنتِ مغلیہ کے شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں آتے ہیں۔ جہانگیر اور حضرت میاں میر کی ایک ملاقات کا دلچسپ واقعہ نظر سے گزرا۔ اِس میں تاریخ کے ساتھ ساتھ کچھ روایت یا حکایت نے در اندازی کردی ہو تو معذرت:
حضرت میاں میر کا دورِ حیات 1550ءسے 1635ءتک ہے۔ سندھ کے علاقے سیوستان سے نقل مکانی کرکے لاہور میں آبسے تھے۔ وہ سلسلہ ¿ قادریہ کے عظیم مسلمان صوفی بزرگ تھے۔ وحدت الوجود، قادرِ مطلق سے لَو۔ کہا جاتا ہے کہ مغل شہنشاہ، شاہجہاں کا بڑا بیٹا داراشکوہ، تصوّف میںحضرت میاں میر کا مرید تھا۔ حضرت میاں میر، درویش صفت لوگوں کے دوست ، اور ایسے مطلبی، دنیا دار افراد، امیروں، نوابوں کو ناپسند کرتے تھے جو محض فقیروں،درویشوں کی دعائیں لینے کے لیے اُن کے آگے جھولیاں پھیلاتے ہیں۔ اِسی خاطر انہوں نے اپنے دروازے پر مرید دربان رکھ چھوڑے تھے۔
ایک بار مغل شہنشاہ جہانگیر پورے تام جھام اور لاﺅ لشکر کے ساتھ اُس عظیم درویش سے مِلنے اور اُن کی دعائیں لینے آگیا۔ حضرت میاں میر کے دربان نے شہنشاہ جہانگیر کو روکا اور کہا، عالی جاہ، ذرا رکیے، مَیں حضرت سے اجازت لے لوں- جہانگیر نے بڑی اہانت محسوس کی لیکن چپ رہا۔ یہ خیال بھی آیا کہ میری قلمرو، اور اُس میں مجھے ہی روکا جارہا ہے؟ ایسی جرا ¿ت تو کبھی کسی نے کی نہیں۔ وہ اپنے غصّے کو قابو میں رکھتے ہوئے دروازہ ُکھلنے اور اندر داخل ہونے کی اجازت کا انتظار کرتا رہا۔ کچھ دیر انتظار کے بعد دربان نے باہر آکر دروازہ کھولا اور اُسے اندر جانے کی اجازت دی۔ یہاں شہنشاہ جہانگیر اور حضرت میاں میر کے درمیان فارسی میں ایک دلچسپ مکالمہ مِلتا ہے۔ شہنشاہ جہانگیر نے حضرت میاں میر سے شکایتاً کہا:
”بادرِ درویش دربان نہ باید۔“ (کسی درویش کے دروازے پر دربان تو نہ ہونا چاہیے۔) 
حضرت میاں میر، شہنشاہ جہانگیر کے دل کی کثافت جان گئے، اِس کے باوصف بڑی بے نیازی سے جواب دیا:
 ”باید کہ سگِ دنیا نہ آید۔“ (دربان اِس لیے ہے کہ کوئی مطلبی، دنیا دار اندر نہ آجائے۔)
شہنشاہ جہانگیر نے قدرے شرمندگی کے ساتھ معافی مانگی اور اُن سے کہا،”مَیں دکن فتح کرنے کے لیے فوج بھیج رہا ہوں۔ دعا کریں کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہو۔“ اِسی اثنا میں ایک غریب مرید اندر آیا اور حضرت میاں میر کو سلام کرکے ایک سِکّے کا نذرانہ پیش کیا۔ صوفی ¿ بے بدل نے اُسے کہا کہ یہاں اتنے درویش بیٹھے ہیں، اِن میں جو سب سے غریب اور حاجت مند ہو، اُسے یہ سِکّہ دے دو۔ مرید ایک ایک درویش کے پاس گیا، مگر کسی کو سِکے کی حاجت نہ تھی۔ کسی نے سِکّہ نہ لیا۔ مرید، حضرت میاں میر کے پاس لوٹ کے آیا اور کہا، ”حضرت ، کسی نے سِکّہ نہیں لیا۔ اِن میں کوئی حاجت مند ہی نہیں۔“ حضرت میاں میر نے شہنشاہ جہانگیر کی طرف اشارہ کرکے مرید سے کہا،”اِس وقت یہاں جتنے لوگ موجود ہیں اُن مَیں سب سے زیادہ حاجت مند اور غریب وہ سامنے کھڑا ہے۔ اتنی بڑی سلطنت کا حکمران ہونے پر بھی اُس کا پیٹ نہیں بھرا او ردکن کی مملکت پر نظریں ہیں۔ اُس کی بھوک ، ہوس کی آگ بھڑکتی ہی چلی جارہی ہے۔ اِس بھڑکتی آگ کو بس لکڑیاں دِکھاتے جاﺅ۔ سلطنت کی حدیںبڑھانے کی بھوک نے اُسے لالچی بنادیا ہے۔ جاﺅ اور یہ ایک سِکّہ بھی اُسے دے دو۔“
جیسا کہ پہلے ذِکر آچکا، مغل حکمران سِکھ مت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو تشویش کی نظروں سے دیکھتے تھے۔ شہنشاہ جہانگیر کے بیٹے شہزادہ خسرو نے1606ءمیں باپ کے خلاف بغاوت کی تو جہانگیر نے گورواَرجُن دیوکو بھی ایک ملزم کے طور پر لپیٹ میں لے لیا اور اِنہیں لاہور کے قلعے میں قید کرکے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ممکن ہے کہ جہانگیر کے دل میں حضرت میاں میر کی باتیں ہنوز گھر کیے ہوئے ہوں۔ اُسے گورواَرجُن دیو اور حضرت میاں میر کے دوستانہ تعلقات کا عِلم بھی ہو، لہٰذا اُس نے بھڑاس نکالنے کے لیے موقع غنیمت جان کر گورواَرجُن دیو کو ملزم ٹھہرادیا ہو۔
سرِ راہے خیال آگیا۔ داستان گو تو یہی سوچا کیا کہ قلعے وغیرہ دورِ حاضرہ کے ”بادشاہ یا جرنیل حضرات“ ہی اپنے مخالفین یا ناپسندیدہ افراد کی قید و بند کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن ماضی میں جانا ہوا تو پتا چلا کہ نہیں، ہر زمانے کے بادشاہ ،شہنشاہ یا جرنیل یہی کیاکرتے تھے۔ اُن کے یا اُن کے پُرکھوں کے بنائے ہوئے قلعے حملہ آوروں کی روک تھام کے لیے کم اور مخالفین یا نا پسندیدہ افراد کے ”انسداد“ میں زیادہ کام آتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے بعد بھارت اور پاکستان کے تعلقات کتنے ہی خراب رہے ہوں، ابتداً ترقی پسندوں اور سیاسی لحاظ سے ناپسندیدہ افراد پر کڑی نظر رکھنے اور اُن کی پکڑ دھکڑ کے حوالے سے دونوں ملکوں کی پولیس میں بڑی ”ہم آہنگی“ تھی اور وہ اِس کام میں بڑی ”پھُرتی“ دِکھاتے تھے۔ سجّاد ظہیر، سبطِ حسن، حمید اختر، حسن عابدی وغیرہ بھارت سے پاکستان آئے تو پولیس اُن کی ”مہمانداری“ کے لیے چوکس تھی۔ اپریل 1950ءمیں حسن عابدی کو لاہور کے شاہی قلعے میں پابندِ سلاسل کرکے سجّاد ظہیر کا ٹھکانا معلوم کرنے کی غرض سے تشدّد کا نشانہ بنایا گیا تو وہ اُس اسیری اور تشدّدسے بھی ایک خوبصورت شعر کشید کر لائے جو پوری تاریخ سے جڑُا ہوا ہے۔

کُچھ عجب بوُئے نفَس آتی ہے دیواروں سے 
ہائے زِنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے



داستان گو پہلے کہیں کہہ چکا کہ تاریخ کے کچھ واقعات اور حوالے جنہیں وقت کا مورّخ یا پرچہ نویس، بوجوہ، قلم بند کرنے سے معذور ہوتا ہے، سینہ بہ سینہ سفر کرتے آئندہ نسلوں تک پہنچتے ہیں۔ حضرت میاں میر کی درگاہ کے سجّادہ نشین سیّد چن پیر قادری نے اکتوبر 2002ءمیں لندن میں ایک انٹرویو میں بتایا کہ خود اُن کے آباءمیں سے حضرت ابو سعید فتح اللہ معصوم جو حضرت میاں میر کے جانشین تھے، مغل شہنشاہ اورنگزیب کے دور میں ،”عتابِ شاہی“کا شکار ہوئے اور لاہور سے فرار ہوکر امرتسر پہنچے۔ گورونے انہیں ایک قریبی گاﺅں دھرم کوٹ میں پناہ دی۔ یہ گاﺅں آج بھی ”دھرم کوٹ رندھاوا“ کے نام سے موجود ہے۔ حضرت فتح اللہ معصوم نے زندگی کا بقیہ حصّہ اُسی گاﺅں میں بِتادیا اور وہیں دفن ہوئے۔داستان گو ،یہاں ایک اور عظیم مسلمان صوفی مجذوب بزرگ حضرت سرمد دہلوی کا تذکرہ کیے بِنا آگے نہیں بڑھ پاتا۔ شہنشاہ اورنگزیب کے بارے میں ایک روایت چلی آرہی ہے کہ ”اُس نے نہ کوئی نماز چھوڑی اور نہ کسی بھائی کو زندہ چھوڑا۔“داراشکوہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تصوّف میں حضرت میاں میر کا مقلّد و مرید تھا۔ اور اِسی حوالے سے دِلّی کے سرمد شہید سے اُس کی دوستی رہی تھی۔ دارا شکوہ کو مروانے کے بعد اورنگزیب کا کینہ برقرار تھا، سرمد کی ذات سے کہ انہوں نے نہ صرف دارا شکوہ کی مدد بلکہ اُس کے شہنشاہ بننے کی پیش گوئی بھی کی تھی۔اورنگزیب نے سرمد شہید کے خلاف ”علمائے دربار“ کا جرگہ بٹھایا کہ انہیں واجب القتل قرار دیا جائے۔ سرمد عالم ِ جذب میں ہمیشہ آدھا کلمہ پڑھتے اور پھر خاموشی اختیار کرلیتے تھے۔ ”علمائے دربار“ نے انہیں طلب کیا ۔سرمد پر پہلے اعتراض کیا گیا کہ تم نے دارا کی شہنشاہیت کی پیش گوئی کی تھی۔ انہوں نے جواب دیا، ”ہاں کی تھی اور وہ ابدی شہنشاہیت حاصل کرچکا ہے۔“ اس کے بعد انہیں کلمہ سنانے کو کہا تو سرمد نے کلمے کا ایک جزو پڑھ دیا۔ علما نے کہا ،”دوسرا حِصّہ بھی سناﺅ“۔ سرمد خاموش رہے۔ اِس پہ ”علمائے دربار“ نے کفر کا فتویٰ صادر کرتے ہوئے انہیں واجب القتل قرار دے دیا۔ جلاّد نے اُن کا سر تن سے جدا کیا تو آواز آئی،” کلمے کا دوسرا حصہ نہیں، ہی کا جزوِ لانیفک ہے۔“ مجذوب سرمد دہلوی کا ایک شعر مشہور ہے۔

عمر یست کہ آوازہ ¿ منصور کہن شد
مَن از ر نو جلوہ دہم دار و رسن را

(منصور کی آواز پرانی ہوئے مدت گزری۔مَیں نئے سرے سے دار و رسن پہ جلوہ افروز ہوتا ہوں)
کہتے ہیں یہ سرمد کا جذب تھا کہ شہنشاہ اورنگزیب نے 48 برس حکومت کی لیکن اُسے چین نصیب نہ ہوا اور وہ طویل عرصے تک دکن میں جنگیں لڑتا رہا۔
حضرت میاں میر کو گورو اَرجُن دیو کی گرفتاری اور اُن پر تشدّد کا علم ہوا تو وہ قید خانے میں گورو اَرجُن دیو سے ملنے گئے۔ انہوں نے دیکھا کہ گورو اَرجُن دیو بڑے سکون اور دھیرج سے بیٹھے ہیں۔ اُنہوں نے گویا سب کچھ ربّ کی رضا پر چھوڑ رکھا تھا۔ حضرت میاں میر نے رائے دی کہ وہ شہنشاہ جہانگیر سے بات کرسکتے ہیں۔ اِس پہ گورو اَرجُن دیو نے انہیں منع کرتے ہوئے جواب دیا، ’ ’ربّ کی رضا میں ہمیں دخل نہیں دینا چاہیے۔ اُس کی یہی مرضی ہے تو جو ہورہا ہے ، ہونے دیں۔“ہوا یہ تھا کہ شہنشاہ اکبر نے اپنے بیٹے جہانگیر کو شراب اور افیون میں ڈوبا دیکھ کر اپنے پوتے یعنی جہانگیر کے بیٹے شہزادہ خسرو کو ولی عہد مقررکردیا تھا۔ گورو اَرجُن دیو نے حضرت میاں میر سے صرف اتنا کہا کہ وہ اُن کے بیٹے ہرگوبند کو اپنی دعاﺅں میں یاد رکھیں۔ حضرت میاں میر کی مداخلت پر،بہر حال، تشدّد کا سلسلہ رُک گیا لیکن جو جسمانی نقصان پہنچنا تھا، وہ پہنچ چکا تھا۔ چند دن بعد گورو اَرجُن دیو وہگُرو کو پیارے ہوگئے۔ گورو اَرجُن دیو کے بعد اُن کے صاحبزادے ہر گوبند صاحب چھٹے گورو بنے لیکن انہیں بھی شہنشاہ جہانگیر نے گوالیار میں گرفتار کرلیا۔یہاں بھی حضرت میاں میر کی مداخلت کام آئی اور وہ انہیں رہا کروا کے لاہور لے آئے۔جہانگیر کے بعد حضرت میاں میر 11اگست1635ءکو 88برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ اُن کا مزار لاہور میں ہے۔جب اورنگزیب نے تخت و تاج سنبھالا تو سِکھ پنتھ کے خلاف سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوگیا اور بدیہی نتیجہ یہ نکلا کہ سِکھوں نے بھی عدم تشدّد کو ایک طرف رکھ ،تلواریں اُٹھانا شروع کردیں۔ مسلمان صوفیاءسے دوستانہ تعلقات کے حوالے سے عام مسلمانوں کے ساتھ تو اُن کا ربط ٹھیک رہا لیکن فوج پھر فوج ہوتی ہے۔ مغل حکمرانوں کے ساتھ سِکھوں کے تعلقات میں خرابی جہانگیر کے زمانے سے شروع ہوتی ہے۔روایت تو یہ ہے کہ اکبرِ اعظم تک معاملات خوشگوار تھے۔ 1567ءمیں شہنشاہ جلال الدّین اکبر نے پنجاب کے عام غریب غرباکے ساتھ بیٹھ کے سِکھ لنگر کھایا تھا۔ تاہم،1666ءمیں دسویں سِکھ گورو، گوروگوبند سِنگھ تک آتے آتے سِکھوں نے بھی فوجی اور لڑاکا تربیّت یافتہ گروہ بنالیا۔اِس سے قبل ، بابا گورو نانک کے وقت سے سِکھ پنتھ ایک مذہبی گروہ کی حیثیت سے پروان چڑھتا چلا آیا تھا لیکن پھر سیاست اور خصوصاً مغل فوج کَشی نے انہیں ہتھیاربند لڑاکا گروہ وجود میں لانے پر مجبور کردیا۔ گورو گوبند سِنگھ نے اُسے ”خالصہ“ کا نام دیا۔ اور سِکھ مت کے ساتھ ساتھ سِکھ مُملکت ( حکومت) کا بھی آغاز ہوگیا۔ ”خالصہ“ کا لفظی مطلب ہے خودمختار ۔ اِس کے ساتھ ہی انہوں نے سِکھ مت کے پیروکاروںسے کہا کہ مرد اپنے نام کے آخر میں ”سِنگھ“اور خواتین ”کور“لگانا شروع کریں۔ سِنگھ کا مطلب ”شیر“ اور کور کا ”شیرنی یا شہزادی“ ہے۔یوں سارے سردار شیر بن گئے۔
سدھواڑہ، ہماچل پردیش کے ایک اور بڑے مسلمان صوفی پِیر بُدھو شاہ نے، جن کا اصل نام سیّدبدر الدین تھا، بھنگانی کی لڑائی میں گورو گوبند سِنگھ کی مدد کی جس میں اُن کے دو بیٹے بھی شہید ہوئے۔ مغل شہنشاہ اورنگزیب کو جب اِس کی خبرمِلی تو اُس نے اپنے ایک افسر عثمان خان کے ذریعے 1704ءمیں پِیر بُدھو شاہ کو شہید کردیا۔سِکھ جنرل بندہ سِنگھ بہادر کو پِیربُدھو شاہ کی شہادت کی خبرمِلی تو اُس نے حملہ کرکے عثمان خان کو موت کے گھاٹ اُتاردیا۔ سِکھ، پِیربُدھو شاہ کا بڑا احترام کرتے تھے۔ 1947ءمیں پِیربُدھو شاہ کی اولاد پاکستان چلی آئی تو سِکھوں نے پِیر بُدھو شاہ کی تکریم میں اُن کے آبائی گھر کو گوردوارے کا درجہ دے دیا۔ سِکھ جنرل بابا بندہ سِنگھ بہادر، کمانڈر انچیف خالصہ، کی موت کے بعد ہوتے ہوتے،1799ءمیں مہاراجہ رنجیت سِنگھ کے دورِ حکومت کا آغاز ہوگیا جس کا دارالحکومت لاہور تھا۔ واضح رہے کہ جنرل بندہ سِنگھ کو مغل شہنشاہ فرّخ سِیئر نے اسلام قبول کرنے کو کہا اور انکار پر اُسے قتل کروادیا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور میں سِکھ مملکت کی حدود پوٹھو ہاراور درّہ خیبر سے چین کی سرحد تک اور دوسری جانب جموں، کشمیر سے ہوتی ہوئی لدّاخ ،ہنزہ ، نگراور گلگت تک پھیل چُکی تھیں۔ یہ برِصغیر میں19ویں صدی کی ایک بڑی مملکت بن کر اُبھری۔ پھر برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں سے اُس نے دو جنگیںلڑیں اور دوسری جنگ میں شکست کے بعد یہ سِکھ مملکت قصّہ ¿ پارینہ بن گئی۔ اصل بات بیچ میں ہی رہ گئی کہ مسلمان مغل شہنشا ہوں خصوصاً جہانگیر، اورنگزیب اور فرّخ سِیئر نے سِکھ مت پر جو مظالم ڈھائے ،وہ غالباً سِکھ مت کے پیروکاروں کے دلوں میں کانٹے بن کرچبھتے اور اذیّت دیتے رہے۔1947ءمیں برِصغیر کی تقسیم کے وقت موقع پرستوں اور مفاد پرستوں نے سِکھوں کے اُن زخموں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، انہیں استعمال کیا تو دوسری جانب مسلمان جتھّوں کو بھی، وقت کی سیاست اور سیاست دان اپنے مقاصد کے لیے کام میں لائے۔ایک عام سا آدمی، ہندو ہو، سِکھ یا مسلمان، ہتھیاروں یا آتش زنی کا سُن کر ہی حواس کھو بیٹھتا ہے۔عملاً اُس کے چھکّے چھوٹ جاتے ہیں۔ ہاتھ پاﺅں پھُول جاتے ہیں۔ آنکھوں دیکھا واقعہ ہے۔ راولپنڈی میںبسے کئی برس ہوچکے تھے۔ایک دن کسی کام سے اردو بازار کے ُنکڑ سے بائیں ہاتھ بھابھڑا بازار کی طرف مُڑا تو آگے ایک ہَلا مچا ہوا تھا۔ کئی لوگ اِدھر اُدھر دُبکے بیٹھے تھے اور سڑک پہ ایک شخص ہاتھ میں پستول لیے ہُلڑ مچارہا تھا۔ پستول بھی اُس زمانے کا۔ ظاہر ہے بہت ہی گیا گزرا ہوگا۔ لیکن پستول تھا۔ ہر کوئی ڈررہا تھا کہ وہ گولی نہ چلا دے۔ پتا نہیں پستول والا نشے میں تھا یا کوئی چھوٹا موٹا کَن ٹُٹا، گلی محلے کا غُنڈا تھا۔داستان گو بھی خوفزدہ سا ہو کے ایک جانب دُبک گیا۔ نظریں اُدھر ہی تھیں۔اچانک دیکھا کہ پستول والے کے عین سامنے سے ایک سائیکل سوار چلا آرہا ہے۔ اُس نے جو سڑک کے بیچوں بیچ ایک کَن ٹُٹے کو پستول لہراتے دیکھا تو اُس کی بھی ہوائیاں اُڑ گئیں۔سائیکل ایک جھٹکے سے ڈگمگائی لیکن سوار نے اُسے سنبھال لیا۔ اب منظر یہ کہ اُس نے بائیں ہاتھ سے سائیکل کا ہینڈل سنبھالا اور دائیں ہاتھ کی ایک اُنگلی دائیں کان میں ٹھونس لی۔ اِسے سائیکل والے کی گھبراہٹ کہیے یا بزعمِ خود”دانائی“۔ اُس نے سوچا کہ سائیکل کا ہینڈل ایک ہاتھ سے تھام کے چلا لے گااور اگرکَن ٹُٹے نے کسی پہ گولی چلادی تو اُس تک گولی کی ”آواز“ نہیں پہنچے گی کیونکہ اُس نے تو کان میں اُنگلی ٹھونس رکھی ہے۔ اتنے میں دو پولیس والے آپہنچے اورکَن ٹُٹے کو دبوچ کے لے گئے۔ داستان گو سمیت اِدھر اُدھردُبکے لوگ باہر نکل آئے اور سب نے ٹھنڈی سانس لی کہ چلو جان بچی۔ اتنے برس گزرنے کے بعد آج بھی وہ منظر فلم کی مانند سوچ کے پردے پہ چلتا ہے تو اپنے آپ پہ ہنسی آتی ہے۔ عام آدمی تو سیدھا سادا ہوتا ہے اور اِسی کو شاید ڈر پوک ہونا بھی کہتے ہیں۔

(7)
Image result for potohar region

اِس سارے پس منظر اور منظر نامے کے ساتھ داستان گو وہاں لَوٹتا ہے جہاں کَن کھجورا اِس سوال کے ساتھ ذہن سے چپکا تھا کہ آخر راولپنڈی -اور اٹک سے جہلم تک کے علاقے، پوٹھو ہار کے سِکھ اور ہندو یہاں سے کیوں نکلے؟ انہیں کیوں مارا گیا؟ قتلِ عام کیوں ہوا؟کِس نے کیا؟ اِن سارے سوالوںکا جواب متذکرہ بالا منظر نامے میں مِل چکا ہے۔داستان گو نے ”نامعلوم افراد“ کا ذِکر بھی کیا۔ خیالوں کی رو1987ءمیں لے گئی۔ پاکستان میں، 1950ءکی دہائی میںفلم ” جال“ کے خلاف تحریک کے نتیجے میں، بھارتی فلموں پر پابندی عائد ہے۔ لیکن جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی، پابندی محض رسمی ہوتی چلی گئی۔ وی سی آر اور وڈیو کیسٹ نے رنگ ہی بدل کے رکھ دیا۔ بھارتی فلم ساز اکثر و بیشتر یورپی اور امریکی فلموں کی کہانیوں پہ ہاتھ صاف کرتے ہیں لیکن کبھی ایسی فلمیں بھی مارکیٹ میں لے آتے ہیں جو عام حالات میں خاصی خطرناک صورتِ حال پیدا کرسکتی ہیں۔ شیر کے منہ میں ہاتھ دینے والی بات ہوجاتی ہے مگر وہ اپنی سی کر گزرتے ہیں۔ وڈیوپر ایک فلم کا شہرہ سُنا۔ نام تھا"New Delhi Times"۔فلم ”چھپر “میں حاصل کی اور وی سی آر پہ چلا کے دیکھی۔ ڈائریکشن تھی رمیش شرماکی اور لکھی تھی گلزار نے۔ ششی کپور اور شرمیلا ٹیگور مرکزی کرداروں میں۔فلم دیکھتے ہوئے بعض اوقات یوں محسوس ہوتا تھا ابھی اچانک دروازہ کھُلے گا اور ” نامعلوم افراد“ ، ِکسی انجانے چہرے کے کہنے پر، فائرنگ کرکے غائب ہوجائیں گے اور داستان گو کی ”لاش“ پڑی ہوگی! یہ فلم میدانِ سیاست اور میڈیا میں پھیلی بدعنوانیوں، رشوت ستانی، بلیک مَیلنگ اور اُن کے نتیجے میں برستی گولیوں کا بھرپوراور کھُلا اظہار تھا۔ لکھاری اور ہدایات دینے والے نے لگتا تھا، جان ہتھیلی پہ رکھ کے فلم بنائی۔ سیاست اور سیاست دان ِکس حد تک سفّاک اور بے رحم ہوسکتے ہیں؟پیسہ کیا کیا گُل کِھلاتا ہے؟ ڈوریاں کیسے ہلتی ہیں؟ کون کِس کے کہنے پہ ہِلاتاہے؟ ثبوت کیسے بنائے اور مٹائے جاتے ہیں؟فلم کا منظر نامہ اِس کا ہمہ پہلو اظہار تھا۔ گوربچن سنگھ طالب سے داستان گو، تب مِلا ہوتا تو اُنہیں یہ فلم دیکھنے کو کہتا۔ لیکن وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔
گوربچن سِنگھ طالب پوٹھو ہار کے متعددشہروں اور قصبوں میں سِکھوں اور ہندوﺅں کے قتل عام یا نسل ُکشی کی تصویر َکشی کرتے ہیں۔ اُن کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوںکے جتھّوں نے راولپنڈی کے علاقے لال کرتی میں سِکھوں اور ہندوﺅں کی آبادی پر حملہ کیا جس میں9افراد قتل ہوئے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ضلع راولپنڈی کے مجموعی طور پر 128 دیہات اور قصبوں میںسِکھوں، ہندوﺅں، اُن کی املاک اور مذہبی مقامات کو حملوں اور آتش زنی کا نشانہ بنایا گیا۔اِن میں گولڑہ، ترلائی، دوبیرن، چک لالہ، رتّہ امرال،بھاگپور، بیول، شمالی کھڑی، مغل، چواخالصہ، اڈیالہ، گورسیاں تحصیل گوجر خان، مندرہ، سکھو، یٹنچ، ہرنالی، ہڑیال ( ماسٹر تاراسِنگھ کاآبائی گاﺅں) بمالی، بانڈا، ماچھیاں، نرالی، مری، نارا تحصیل کہوٹہ، سرکال ضلع جہلم، داروال، نارنگ ، چک سیوک، بھگوال، اٹھوال، تہاڑ،سہوٹا، منگوال، چنل فتوحی، روپ وال، رانجھا، دھنوگی، گھگ، ڈھڈیال،چکوال ، کیمبل پور، راجڑ تحصیل فتح جنگ، پنڈ، ٹالی پنڈی،جہان، پڑیال، چکری، ڈھیری، چونترا، حضرو بازارسمیت بہت سے علاقے شامِل تھے۔ لیکن اپنی اِس رپورٹ یا کتاب میں وہ بالآخر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ حملہ آور، غنڈوں کے گروہ تھے۔ پولیس نے چکوال کے قریب ایک ریل گاڑی میں سوار سِکھ اور ہندو مسافروں کو حملہ آور غنڈوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچایا۔ اُن کی رپورٹ کے مطابق اِن حملوں کا آغاز 7مارچ 1947ءکو ٹیکسلا ریلوے اسٹیشن سے ہوا جب غنڈوں نے فرنٹیئر میل کو روک کر اُس کے سِکھ اور ہندو مسافروں کا قتلِ عام کیا۔ اس حملے میں 22مسافرمارے گئے۔ گوربچن سنگھ طالب یہ بھی لکھتے ہیںکہ واہ سے جہلم تک صرف دو بڑے ریفیوجی کیمپ تھے۔ ایک ”واہ“ میں اور دوسرا جہلم کے قریب گاﺅں ” کالا“ میں۔ اِن کے علاوہ کچھ چھوٹے ریفیوجی کیمپ بھی تھے۔ دونوںبڑے ریفیوجی کیمپوں میں لگ بھگ پچیس پچیس ہزار ریفیوجی تھے۔ ایک تجزیہ یہ بھی سامنے آتا ہے کہ یہ شرنار تھی جب سرحد پار پہنچے توردِ عمل کے طور پر وہاں مسلمانوں کے لیے رہنا اور جینا عذاب ہوا۔ اور اُدھر سے مسلمانوں کے قتلِ عام اور مہاجروں کی حیثیت سے پاکستان آمد کی ابتدا ہوئی۔ اس کا ایک رخ حمیداخترکے نکودر کیمپ کی صورت دکھایا جاچکا ہے۔
ایک وقت آیا کہ ممتاز ترقی پسند مار کسی ادیب، براڈ کا سٹر اور اداکار بلراج ساہنی کی سوانح ہاتھ لگ گئی۔ راولپنڈی اُن کی جنم بھومی تھا۔ اُن کے بارے میں تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا۔ تاہم تقسیمِ برِصغیر سے کچھ پہلے،وہ ممبئی میں تھے۔ اُن کا اپنا آبائی علاقہ خون میں نہلایا جارہا تھا۔ اُن ہی دنوں، محبوب بیوی دمنتی انہیں داغِ مفارقت دے گئی۔ وہ بہت دُکھی تھے۔ اپنے وطن میں لگی آگ کی تپش بھی جاں گُسل تھی۔ وہ راولپنڈی آگئے جہاں آگ اور خون نے اُن کا استقبال کیا۔ بلراج ساہنی کے اندر ایک ترقی پسند مارکسی اورکمیونسٹ پارٹی کارکن چھپا تھا۔ وہ راولپنڈی میں ہم خیال ، پارٹی ساتھیوں اوردوستوں سے مِلے جو پہلے ہی اَمن کمیٹی کی شکل میں مذہبی اور فرقہ پرست دھڑوں اور اُن کے سرخیلوں کو لڑائی مارکٹائی، قتل وغارت، آتشزنی چھوڑ کر اَمن اپنانے اور اَمن سے رہنے کی تلقین کررہے تھے۔اُن میں ہندو، سِکھ، مسلمان سبھی شامل تھے۔ بقول بلراج ساہنی یہ سب پرولتاری تھے اور پرولتاریوں کی مدد سے ہی کام کررہے تھے۔ اُن کے بھائی بھیشم ساہنی راولپنڈی ٹاﺅن کانگریس کمیٹی کے سیکریٹری کی حیثیت سے شہر اور گردونواح میں ہونے والے تشدّد کے بارے میں رپورٹ مرتّب کررہے تھے، لہٰذا انہیں ہر قسم کے خطرے کو پسِ پشت ڈال کر دُور افتادہ علاقوں میں بھی جانا پڑتا تھا۔ بلراج ساہنی لکھتے ہیں،” حالات اِس قدر خراب تھے کہ بظاہر زندگی بے وقعت ہو کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف غنڈوں کا راج تھا۔ اَمن کمیٹی کے ارکان سیاسی پارٹیوں کے لیڈروںکو اِس بات پر آمادہ کرنے کی سرتوڑ کوششوںمیں لگے ہوئے تھے کہ وہ باہمی اختلافات نظر انداز کرکے انگریز نوآبادیاتی حکمرانوں سے لڑیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ تب تک انگریز اپنی دائمی پالیسی’ لڑاﺅ اور حکومت کرو‘ کے تحت تقسیمِ ہند کی اِس تحریک کو پرُتشدّد کارروائیوں کا رنگ دینے میں کامیاب ہوچکے تھے۔ زہر اپنی تمام تر ہلاکت خیزیوں کے ساتھ پھیلتا چلا جارہا تھا۔ اَمن کمیٹی کے ارکان کی کوششیں، خطرات کے باوصف جاری تھیں۔“بلراج ساہنی اور اُن کے ساتھی سائیکلوں پہ سوار شہر کا چکر لگاتے، اَمن کے گیت گاتے، فسادیوں کو روکتے۔ اپنی اِن کوششوں میں وہ دن دیکھتے نہ رات، بھوک پیاس سے بے نیاز، بس کام سے کام رکھتے۔ ایک بار انہےں سائیکلوں پر ہی لگ بھگ بارہ میل دُور اٹک آئل کمپنی جانا پڑا۔ وہاں کارکنوں، پارٹی کارکنوں اوراُن کے ہم خیالوں کی ” بند کمرے میں“میٹنگ تھی۔ اَمن کمیٹی نے کام میں مدد دینے کے لیے بھگت سنگھ کے ایک پرانے ساتھی شری کامریڈ دھن ونتری کو بھی مدعو کرلیا ہوا تھا۔ راولپنڈی شہر اور قرب و جوار کے علاقوں میں بااثر افراد، مسلمانوں کو ہندوﺅں اور سِکھوں کے خلاف اُکسا رہے تھے۔ ( بات وہی آجاتی ہے۔ اُن کی جائیدادوں اور املاک پر قبضہ)۔ ایسے میں کوئی عام جلسہ منعقد کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاتھا۔بلراج ساہنی لکھتے ہیں،” میٹنگ ختم ہوئی تو اٹک آئل کمپنی کے بہت سے کارکن ہمیںاپنے حفاظتی حصار میں لے کر شہر تک چھوڑنے آئے۔ اور ہمارے یہ سب محافظ مسلمان تھے!اٹک آئل کمپنی راولپنڈی کے مضافاتی علاقے (مورگاہ)میں تھی۔


مَیں، اپنی متوسط طبقے والی غیرجانبدارانہ سوچ کے مطابق اُن کشیدہ اور فسادات کے حامِل حالات کو اپنے تناظرمیں لے رہا تھا۔ لیکن میرے والد کی سوچ مجھ سے مختلف تھی۔ اُن کا کہنا تھا کہ تقسیمِ ہند، اور پاکستان بن جانے کے بعد ہندوﺅں اور سِکھوں کایہاں رہنا ممکن نہیں رہے گا۔ ہم سب کو یہاں سے جانا ہی ہوگا۔ اور آخر کاروہ اپنی ساری جائیداد اور زمین چھوڑ کر وہاں سے خالی ہاتھ نکل آئے!“
جب فسادات ہورہے تھے تو مسلمان ” اللہ اکبر“، کا نعرہ لگاتے تھے۔ سِکھ ” وہگرو“ کا نعرہ بلند کرتے تھے۔دونوں میں فرق کیا تھا؟ بابا گورونانک کی تعلیمات کے مطابق تو ” وہگرو“ کا لفظ اللہ کے لیے تھا!
یہ سب، اب ،بیتی باتوں کی پرچھائیاں تھیں۔ داستان گوجانے کہاں کہاں سے ہوتا ہواپاکستان کو اپنا ملک اور راولپنڈی کو مَسکن بناچکا تھا۔ اپنے وطن، اپنی جنم بھومی کو پیچھے چھوڑ آیا تھا۔شاید ہمیشہ کے لیے! راولپنڈی، اپنی تمام تر تلخ یادوں، قتل و غارت گری کے جال سے باہر آچکا تھا۔ اُس کے دامن پہ لگے خون کے دھّبے دھیرے دھیرے رنگ کھو رہے تھے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ احوالِ زندگی معمول پہ آرہے تھے۔

(8)
Image result for river swan pakistan

لیکن پہلے ذرا اِک نظر خِطّہ ¿ پوٹھو ہار پر۔ اِس میں دریائے سواں بہتا ہے۔ کہا جاتا ہے، داستان گونہیں کہہ رہا بلکہ ، برِصغیر کے دو نامور ماہرینِ آثار ِقدیمہ ڈاکٹر ایف اے خاں اوراحمد حسن دانی کہتے ہیں۔ اِن میں سے احمد حسن دانی آثارِ قدیمہ کے ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ مایہ ¿ نازموّرخ بھی تھے۔(2009ءمیں اُن کا انتقال ہوگیا)۔ پوٹھوہار کے خِطّے سے لے کے وسط ایشیا کی سرزمین و ممالک تک کی تاریخ اُن کی انگلیوں کے پوروں پہ لکھی تھی۔ احمد حسن دانی کے پُرکھ جانے کب کشمیر سے ترکِ وطن کرکے یوپی کے علاقے بنارس میں آباد ہوگئے تھے۔ وہ غالباً1944ءمیں پہلے مسلمان طالب علم تھے جو بنارس ہندو یونیورسٹی میں پوسٹ گریجویشن میں اوّل آئے اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ انہیں اُسی یونیورسٹی میں لیکچررکے عہدے کی پیش کش ہوئی لیکن اُنہوں نے تاریخ اور آثارِ قدیمہ کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور وہ زندگی بھر اُن کارومانس رہے ۔ آثارِ قدیمہ سے مالا مال یہ خِطّہ گویا اُن کا گھر بن گیا!انہوں نے آثارِ قدیمہ میں ڈاکٹریٹ کے لیے شہرہ ¿ آفاق ماہر آثارِ قدیمہ سر مورٹی ویلر کی عِلمی نگرانی میں کام کیا اور یونیورسٹی کالج، لندن سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی۔
کہا جاتا ہے لگ بھگ 5لاکھ برس پہلے پوٹھوہار دنیا کے اُن اوّلین خِطّوں میں شامِل تھا جہاں تہذیب نے قُلقاری ماری۔ یہ تہذیبِ اِنسانی کا حَجری دَور تھا۔جغرافیائی اعتبار سے مغرب میں دریائے سندھ، مشرق میں دریائے جہلم اور دریائے پونچھ، شمال میں کوہستانِ پیر پنجال کا دامنِ کوہ اور جنوب میں کوہستان ِنمک۔ذرا اُس دَور کی خیالی تصویر بنایئے۔ مسطح زمین، گھنے درخت، پہاڑ اور پہاڑوں کے عقب سے اُبھرتے سورج کی نمود سے پہلے کرنوں کی جھالر! ہمالیائی گلیشیر ٹوٹتے ہیں، پگھلتے ہیں۔ اُن کے ساتھ سنگلاخ چٹانیں ریزہ ریزہ ہوتی ہیں۔پانی بپھرتا ہے اور یہ ارتفاعی خِطّہ وجود میں آجاتا ہے۔ اب کچھ آگے بڑھیے۔ بیتے ہزاروں برسوں کے دوران خِطّہ ¿ پوٹھوہار آریائی ، خامنشی (Achaemenid)، یونانی، شاکا، پارتھی، سیتھی، کشان اور پھر اسلامی تہذیبوں اور ثقافتوں کا سنگم اور گزرگاہ رہا۔ اُن میں ہر تہذیب اور ثقافت امتیازی نقوش کی حامِل تھی۔ لہٰذا، اُن سب کے مَلاپ سے جو تہذیب وثقافت اِس خِطّے میں اُبھری اور پروان چڑھی، وہ منفرد خصوصیات لیے تھی۔یوں پوٹھوہار تاریخ کی مصوّری کے لیے پردہ ¿ زر نگار کی حیثیت سے اُبھرتا ہے۔ٹیکسلا اُسی دَور کا ایک نشان ہے۔ تفصیل تب آئے گی جب داستان گو وہاں پہنچے گا۔ یہ شہر دو بار اپنی اصل جائے وقوع سے ہٹ کے بسایا گیا۔
پوٹھوہاربڑا عجیب خِطّہ ہے۔ عجائباتِ عالم میں سے ایک ! پہلے کہیں ذکر آچکا ، اِس کے ”اعضائے بدن کے نقوش“ کا۔ کہیں سنگلاح ہے، اُجاڑ ہے،ویرانہ ہے ۔درخت ہیں توپھل کھانے لائق نہیں،شیشم ( ٹاہلی)، کیکر کی قسم کا پیڑ پُھلاہی، کیکر، تھور، ببول، جنگلی زیتون۔پھُلاہی اور کیکر کی مسواکیں بنتی ہیں۔جنگلی زیتون (کہو)۔ کہو پہ یاد آیا۔ اِسی نام کا ایک پرانا گاﺅں، راولپنڈی کے قریب آبادہے۔ پورا نام ”بارہ کہو“ ۔ کہاجاتا ہے کہ اصل نام ” بڑا کہو“ تھا ۔ایک بار یہاں کے باسیوں نے شور مچادیا کہ کہو ( جنگلی زیتون) کے پیڑ پر بڑا جن رہتا ہے۔ بس گاﺅں کا نام ہی ”بڑا کہو“ پڑگیا جو وقت کے ساتھ ساتھ ، بگڑتے بگڑتے ” بارہ کہو“ کہلانے لگا۔ برساتی ندّیاں ہیں جو سُوکھ سُوکھ جاتی ہیں۔ بے گیاہ۔اکثر مقامات پر قدیم خشک دریائی گزر گاہیں مِلتی ہیں۔اورپھر پلک جھپکنے میں منظر بدل جاتا ہے۔ سرسبزو شاداب زمینیں، لہلہاتی فصلیں،پھل دار درخت، خُنک ہوائیں،زمرّدیں سبزے اور پتھروں سے سرٹکراتے جھرنوں اور چھوٹی چھوٹی ندّیوں، جنہیں پوٹھوہاری زبان میں کَس یا کَسی کہتے ہیں، کے پانی کی مہک۔ ” اور تم کِن کن نعمتوں کو جھٹلاﺅ گے؟“ کی سی کیفیت۔ اُودھے اُودھے پیراہنوں والے پھول۔ دامنِ کوہ میں بِکھرا حُسن یہاں،حُسن وہاں ! بہت سے جنگلی پھل پھول اور میوے بھی مِلتے ہیں۔ پیڑوں میں یہاں چیڑ، دھریک، برگد، پیپل وغیرہ بھی ہیں۔ دھریک عجیب سا پیڑ ہے۔ اِس میں نام نہادپھل لگتا ہے۔ دیکھنے میں انگور۔ اِسے پوٹھوہاری، پہاڑی یا مقامی زبانوں میں ”دھرکونا“یا”ترکونا“ کہتے ہیں۔ چکھیں تو سخت کڑوا۔لہٰذا ،اِسے پھل سمجھا ہی نہیں جاتا۔ ہاں پیڑ کی چھاﺅں گھنی ہوتی ہے۔ انار کا پیڑبھی ہوتا ہے۔کوتاہ قد ۔ اِس میں چھوٹے چھوٹے انار لگتے ہیں جنہیں انار کے بجائے ”دڑونی“ کہاجاتاہے۔توڑیں توچھوٹے چھوٹے دانوں سے بھرا ہوتا ہے۔اتنا بھرا ہوا کہ محاورے میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ”اُس کی دکان تو دڑونی کی طرح بھری ہوئی ہے۔“ کتنا بھی پک جائے، مٹھاس نہیں آپاتی۔ دانے تُرش اور کھٹّے رہتے ہیں۔ یہ ” انار دانہ“ کہلاتے ہیں۔ چٹنی بنائی جائے تو مزے سے کھائی جاسکتی ہے اور قدرت کی نعمتیں یاد آتی ہیں۔ہمالیائی خطوں میں یہ” ڈڑُو“ بھی کہلاتا ہے۔ عام فہم نام کے حوالے سے اِسے ”جنگلی انار“ کہہ سکتے ہیں۔ حکیم وغیرہ، اناردانے کو دوائیوں میں جڑی بوٹی کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ناشپاتی کا پیڑ بھی مِلتا ہے۔ یہ ناشپاتی بوَر سے ،پکنے تک اور پکنے کے بعد بھی بڑی سخت رہتی ہے۔ اسے ناشپاتی ،”ناخ“ یا ” پتھر ناخ“ کہتے ہیں۔ پتھر ناخ اس لیے کہ پتھر کی طرح سخت ہوتی ہے۔ یہ اس خِطّے کا پھل نہیںبلکہ لگ بھگ 2 ہزار سال پہلے چین سے لایا گیا تھا۔برِصغیر میں اِس کی اصل جائے کاشت امرتسر کا علاقہ ہے جہاں سے یہ قرب و جوار میں پھیلا۔ اِس کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ کنشک کو چینیوں کے ساتھ ایک جنگ میں فتح ہوئی تو اُس نے کچھ چینی شہزادوں کو یرغمال بناکے امرتسر کے علاقے میں رکھا۔یہ شہزادے اپنے ساتھ ”پتھر ناخ“ کے بیج لیتے آئے۔ یہاں یہ بیج بوئے تو انہوں نے جڑیں پکڑلیں۔ اور یوں ” پتھر ناخ“ کا پھل نہ صرف عام ہوا بلکہ آس پاس کے علاقوں میں بھی اِس کی کاشت ہوئی۔یہ پیڑ اتنا سخت جان ہوتا ہے کہ دیکھ بھال کے بغیر، جنگلوں تک میں جڑیں پکڑ لیتا ہے۔کچنار یاکچنال، مختلف اقسام اور جسامت کے بیر بھی مِلتے ہیں۔ ایک پیڑ ”گوندی“ یا ” گوندنی“ کا بھی ہوتا ہے۔ پھل گچھّوں کی شکل میں۔چھوٹے چھوٹے زرد پھل۔ قدرے لیس دار لیکن کھانے میں بڑے مزے دار۔ ایک پیڑیا جھاڑی ” اَملوک“ کی مِلتی ہے۔ ”اَملوک“ سُکھایا جاتا ہے اور عام طور پر سردیوں میں مزہ دیتا ہے۔ اور ریڑھیوں پہ سردیوں ہی میں مِلتا ہے۔ ٹھنڈک میں گرمائش پیدا کرتا ہے۔ وہ زمانہ تھا کہ پھل پھلاری ”خرید“ کے کھانے کی جانہ تھی، لہٰذا، دوچار سڑکیں پارکرکے قریبی گاﺅں دیہات میں نکل جاتے، پھر جنگل ساآجاتا جہاں گوندنی اور اِسی قسم کے پیڑمِلتے تھے۔ بہت سے توڑ کے لے آتے اور دھوکے خوب کھاتے۔ کہیں کہیں گھاٹیوں میں سرسبز و شاداب اور ساتھ ہی بے برگ و بار جھاڑیاںہوتی ہیں۔ ”سینتھا“ ایک خوبصورت گھّنی جھاڑی ہے اور لوگ گھروں کے باہر یا سامنے باڑکے لیے استعمال کرتے ہیں۔ دوسرے علاقوں میں بھی یہ جھاڑی ضرورمِلتی ہوگی! کہتے ہیں کہ بارشیں زیادہ ہوں،اُن کی وجہ سے باڑھ آجائے تو اُسے روکنے اور املاک کے نقصان کو کم سے کم کرنے میں یہ جھاڑیاں بڑی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔یہاں داستان گو ایک کہانی کہنے سے باز نہ آئے گا۔ کہانی کیا، واقعہ ہے۔ راولپنڈی میں لیاقت روڈ پر فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ سینتھے کی باڑ چلتی ہے۔ دو شاعر (داستان گو نام، بے نام رکھے گا)فٹ پاتھ پہ چلے جارہے تھے۔ایک شاعر کوئی دلچسپ واقعہ سنا رہے تھے۔ آواز کا زیرو بم کہے دیتا تھا کہ اُن کا بیانیہ کسی جذباتی موڑ پہ ہے۔ اِتنے میں سامنے سے ایک تانگا آتا دکھائی دیا جس میں کچھ” چاند چہرے“ تھے۔ گھوڑے کو بھی شاید ”اپنی سواریوں“ کا اندازہ تھا کہ ٹَپ ٹَپا ٹَپ دُلکی چال دکھارہا تھا۔”چاند چہرے“ دیکھ کے سامع شاعرکی توّجہ بٹ گئی اور وہ کہانی بھول بھال تانگے کی طرف ہمہ تن متوجہ ہوگئے۔ کہانی کہنے والے شاعر نے یہ کیفیت دیکھی۔ اُن کی نظروں کے ساتھ ساتھ چلا تو سمجھ گئے اور اپنی کہانی بھول، اُدھر ہی کے ہولیے۔ تانگا سامنے سے گزرا اور پھر آگے یوں بڑھا کہ دونوں کی نظریں بھی ساتھ ساتھ گھومتی چلی گئیں۔ تانگا دُور نکل گیا تو دونوں اپنی دنیا میں لوٹ آئے۔بس ”گاڑی نکل چکی تھی، پٹری چمک رہی تھی۔“جن شاعر صاحب کی توّجہ بٹی تھی، انہوں نے دوسرے شاعر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا، ”ہاں تے فیر اَگے کیہہ ہویا؟“ (ہاں ”تو پھر کیا ہوا؟“)۔اِس پہ دوسرے شاعر نے قدرے تَپ کے جواب دیا، ”فیر کیہہ ہوناں سی؟ بس اَگے ٹانگا آگیا۔“ (پھر کیا ہونا تھا؟ بس آگے تانگا آگیا)۔ یوں اُن کی جذباتی کہانی تانگے اور ”چاند چہروں“ کی نذر ہوگئی - 
اور آک کا پودہ- اُس پرلگے ڈوڈے- جب ڈوڈا پک کے پھٹتاہے، اُس میں سے نرم، روئیں دار، رَویاسے گالے ہوا کے دوش پہ اُڑتے ہیں تو عجب سَرخوشی کا احساس ہوتا ہے۔ اِن گالوں کو آک کی بُڑھیا بھی کہتے ہیں۔بڑی نرم سی گھاس مِلتی ہے ، بالکل پشمینے کی طرح! ایک پودا یا جھاڑی ”بھَیکڑ“ بھی ہے۔ اُس کے سفید پھولوں کی بوُ خاصی ناگوار ہوتی ہے لیکن موسم ِبہار میں شہد کی مکھیاں اُن پر ٹوٹ پڑتی ہیں۔جہاں تک پرندوں کا تعلق ہے، کوّا تو دنیا کے ہر گوشے میں پایا جاتا ہے۔برِصغیر میں اُس کے ساتھ رومانوی گیت وابستہ ہیں ۔پیارمیں ”کاگا“ بھی کہلاتا ہے۔ بابا فرید کہتے ہیں :

کاگا کرنگ ڈھنڈولیا سگلا کھایا ماس 
ایہہ دو نیناں مت چُھوہیو پر ویکھن کی آس

(کاگا سارے جسم کا گوشت کھا کے ،اسے ہڈیوں کا ڈھانچا بنا دے لیکن یہ دو نیناں مت چھُو نا کہ مجھے پیا(اللہ) کو دیکھنے کی آس ہے۔)
کاگا ہی بھگت کبیر سے یوں منسوب ہے:

کاگا سب تن کھائیو، چُن چُن کھائیو ماس
یہ دو نیناں مت کھائیو کہ پیا مِلن کی آس

(یہاں بھی پیاسے مراد وحدت الوجود ہے) 

کاگا پر ہیروئن کے حوالے سے فلمی گیت بھی مِلتے ہیں۔ اِس کی پیروڈی بھی ہوئی ہے۔

 میرے منڈیرے کاگا بولے
آجا بالم کپڑے دھو لے 
وغیرہ وغیرہ، 

کوّے کو برِصغیر کے سماج میں صدیوں سے ایک قبولیتِ عام حاصل ہے کہ اگر یہ کسی کے منڈیرے بولے تو یہی سمجھا جاتا ہے کہ گھر میں کوئی مہمان آئے گا۔ اور مہمان کی آمد خوشی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ بے وقوف یہ نہیں سوچتے کہ مہمانوں کے آنے سے خرچہ بڑھ جائے گا۔ مہینے کا بجٹ قابو سے نکل جائے گا۔ اور مہمان اگر ناپسندیدہ نکل آئے تو پھر ؟ خیر کاگا کی اِسی لیے بڑی آﺅ بھگت ہوتی ہے کہ وہ مہمان کے آنے کی نوید دیتا ہے۔حالانکہ دیکھنے میں بڑا ہی بد شکل ہوتا ہے۔ظاہر ہے یہاں پوٹھوہار میں بھی ہوتا ہے اور بہت ہوتا ہے۔
 دریائے سواں ،مری کی پہاڑیوں میں ایک گاﺅں بَن سے جنم لیتا ہے۔ اس کی وادی میں مُرغابیاں مِلتی ہیں۔ قلعہ پُھروالا کے قریب سواں ایک بلند پہاڑکو کاٹتا،آب درّا بناتا،لہتراڑ اور کہوٹہ کے قریب دریائے لینگ ،دریائے کورنگ اور اِس کے بعد نالہ لئی کا پانی سمیٹتا ہوا، کالا باغ کے قریب اپنا سارا آبی وجود دریائے سندھ کے سپرد کردیتا ہے۔ ہندوﺅں کی مقدّس کتاب رِگ وید میں دریائے سُوشوما کا ذِکر ہے اِس کے علاوہ ”بھارت دیش کے شمالی حصّے میں بہنے والے دریائے سُوشوما“کا تذکرہ ایک اور اہم مقدّس کتاب ”سری مد بھگواتم“ میں مِلتا ہے۔ ہوسکتا ہے دریائے سواں، وہی دریا ہو۔کوئل کے جُھنڈ کے جُھنڈ بہار اور خزاں میں یہاں اُترتے ہیں۔ چکور اور تیتر بھی پوٹھوہار میں پائے جاتے ہیں۔ نالہ لئی کا ذِکر آگیا تو وہ بھی ہوجائے۔ دیکھا جائے تو لئی راولپنڈی اور گرد و پیش کی شان ہے اور آن بھی چونکہ یہ پہاڑوں سے آتا ہے اس لیے کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ”یہ بہتا پانی اتنا صاف، شفاف اور معدنی ہوتا ہے کہ بے دھڑک پیا جاسکتا ہے۔“لیکن پھر کناروں پر آباد بستیوں کے باسیوں نے اُسے اتنا گدلا دیا اور آلودہ کردیا کہ پینے کا سوچ کے ہی دل دہل جاتا ہے۔ اس کے منبع کا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ممکن ہے وہاں یہ پانی شفاف اور صاف ہو۔ ویسے یہ کوئی ایک ندی یا نالہ نہیں جیسے کہ پوٹھوہاری زبان میں ایسے ندی نالے کو َکس یا َکسی کہا جاتا ہے، چھ ندیاں یا َکسیاں، سید پور َکسی ، کانتی والی َکسی، بدر والی َکسی، تینا والی َکسی،پیرودھائی َکسی اور ڈھوک رتّہ امرال نالہ،نکّی لئی، ڈھوک حسّو نالہ اور ڈھوک الٰہی بخش نالہ اِس میں شامِل ہوجاتے ہیں۔ علاوہ ازیں سارے شہر کا گندا پانی لے جانے والے چار مزید نالے اِس میں شامِل ہوتے ہیں تو گندگی عروج پہ پہنچ جاتی ہے۔ رہی سہی کسر برسات پوری کردیتی ہے۔لوگوں نے بھی بِنا سوچے سمجھے نالے کی گزر گاہوں میں تلیٹی تک جا کے مکانات بنا لیے ہوئے ہیں۔ حکام کی چشم پوشی ہی جانئے۔ برساتی باڑھ آتی ہے تو یہ املاک بہا لے جاتی ہے۔ پانی اُترتا ہے تو آخر میں ہر سُو کچرا بِکھرا نظر آتا ہے۔ چڑیاں کھیت چگ کے جاچکی ہوتی ہیں۔ ہر سال یہی ہوتا ہے اور شاید ہوتا رہے گا۔ یہ نالہ، گیارہ نالوں کا پانی لیے بالآخر دریائے سِواں میں ”کھو“ جاتا ہے۔ شہر کی حدود میں اِس پر کئی پُل بنائے گئے ہیں۔ مثلاً کٹاریاں پُل، پیر ودھائی پُل، گوالمنڈی پُل،مریڑ پُل وغیرہ۔
راولپنڈی کے ایک اور خوبصورت قابلِ دیدقدرتی جنگل کا تذکرہ رہا جاتا ہے۔ شہر سے دریائے سواں کی طرف جانے کے لیے سڑک پکڑیں تو دائیں ہاتھ ”ٹوپی رَکھ“ آتا ہے۔ پچاس کی دہائی کے اواخر تک اِس جگہ کا نام یہی تھا۔ اسے لوگ ”ٹوپی پہنے رہو“ بھی کہتے تھے۔ بعد میں سمجھ آیا کہ” ٹوپی“ تو اُس مقام کا نام ہے اور ”رَکھ“ ہندی میں جنگل کو کہتے ہیں۔ جنگل بھی وہ جہاں سے درخت وغیرہ کاٹنے کی اجازت نہ ہو۔غالباً 1960 ءمیں اِس جگہ کا نام ”ایوب پارک“ ہوگیا۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کے سامنے سڑک کے دوسری جانب ایک عمارت ہوتی تھی جس پہ UN Observers Group کا بورڈ لگا ہوتا تھا۔ (پتا نہیں، اب ہے یا نہیں)۔ اِس میں اقوامِ متحدہ کے وہ سویلین اور فوجی افسر رہتے تھے جن کا کام کشمیر کی جنگ بندی لائن پر نظر رکھنا ہوتا تھا کہ کوئی خلاف ورزی نہ ہو۔ لیکن خلاف ورزیاں ہوتی رہتی تھیں۔جنگ بندی ہوئی تو اس کا انگریزی نام Ceasefire Line تھا۔ اُردو میں اس کا نام خطِ متارکہ ¿ جنگ”رکھا“گیا جو بعد میں Line of Control یا جنگ بندی لائن ہوگیا۔ اقوامِ متحدہ کے افسر سال میں چھ مہینے سری نگر اور چھ مہینے راولپنڈی میں رہتے تھے۔ ایک مرتبہ، ایک افسر چھ مہینے سری نگر میں رہ کے پہلی بار راولپنڈی آیا تو پاکستانی افسروں نے اُس کے اعزاز میں دعوت کا اہتمام کیا۔ دعوت کے اختتام پر لطیفے بازی شروع ہوگئی۔ پاکستانی افسروں نے سِکھوں کے لطیفے سنائے تو اقوامِ متحدہ کے افسر کا ہنستے ہنستے بُرا حال ہوگیا۔ پاکستانی افسر سمجھے کہ اُسے لطیفے پسند آرہے ہیں۔ پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ سری نگر میں اُسے وہی لطیفے پاکستانیوں کے بارے میں کہہ کر سنائے جاتے رہے تھے۔


راولپنڈی میں ایک اور شے نمودار ہوئی جو کہیں اور نہ تھی۔ وہ تھی موریس مائنر ٹیکسی (Morris Minor Taxi Cab)۔ عجیب سی گاڑی لگتی تھی۔ دیکھنے میں فوکس ویگن کار۔ دونوں کی اگاڑی اور پچھاڑی لگ بھگ ایک سی ہیں۔ پتا نہیں یہ سواریاں کیسے ڈھو لیتی تھی؟ مری کے پہاڑوں تک چلی جاتی تھی۔ 1962ءیا 1963ءمیں کامیڈین جیری لوئیس کی ایک فلم آئی۔ Bellboy۔ ہوٹل میں ایک امیر کبیر آدمی ٹھہرنے کے لیے آتا ہے۔ جیری لوئیس، پورچ میں ہوتا ہے۔ امیر کبیر آدمی اپنی گاڑی کی چابی اُسے دیتے ہوئے کہتا ہے کہ سامان کمرے میں پہنچا دو۔ جیری دوسری گاڑیوں کی طرح اُس گاڑی کی ڈِگی کھولتا ہے تو وہاں سامان کی بجائے گاڑی کا انجن ہوتا ہے۔ وہ مرد کا بچہ بھی جانے کہاں سے اوزار وغیرہ لے کر پورا انجن ،جس میں سے موبل آئل بہہ رہا ہوتا ہے، کھول کے مسافر کے کمرے میں لے آتا ہے اور بھرپور ڈانٹ کھاتا ہے کہ اُس گاڑی میں سامان آگے رکھا جاتا ہے۔ وہ گاڑی فوکسی ہوتی ہے۔ موریس بھی شاید فوکسی کی بہن ہی تھی۔ فلم بہر حال، بڑی کامیاب رہی ، جو جیری لوئیس کی بطور ڈائریکٹر پہلی فلم تھی۔
اور تتلیاں - اُن کا تو کوئی مخصوص وطن ہی نہیں ۔ ہر جا رنگ بکھیرتی پھرتی ہیں۔ پوٹھوہار میں بھی بہت ہوتی ہیں خصوصاً جہاں پھول پتّے ہوں۔ اِن کے خوشنما اور دِل نشیں اُودھے اُودھے، نیلے نیلے، پیلے پیلے لہراتے رنگوں سے پھول اور سبزہ اور بھی حُسن افزا ہوجاتا ہے۔ اِن ہی علاقوں میں گھومتے اور تتلیاں پکڑتے، اُن سے سی ہوگئی اور جمع کرنے کو جی چاہنے لگا۔ ایک کاپی بھی بنالی۔ اُس میں تتلیوں کے رنگ برنگے پَرچپکاتا۔پھر یہ شوق ہَوا ہوا کہ تتلیاں اُڑتی، رنگ بکھیرتی ہی اچھی لگتی ہیں۔ اِس کے ساتھ ہی ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا بھی شوق چرَایا۔ پیسے ہوتے نہیں تھے، لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ ”شوق دا کوئی مُل نہیں ہوندا۔“ اردو بازارہی میں کچھ دکانیں تھیںوہاں مُلک مُلک کے پرانے ڈاک ٹکٹ بِکتے تھے۔ جب بھی جیب اجازت دیتی، دوچار ٹکٹ خرید لیتا۔ یہ شوق صحافت کا پیشہ اپنانے بلکہ بیرونِ ملک چلے جانے تک رہا۔ دھیرے دھیرے دیگر مصروفیات غالب آگئیں اور تین چار بڑے بڑے ٹکٹ البم جانے کب، کسی کودے دیے۔ اُسے بھی ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا۔
جانوروں میں یہاں خرگوش، اڑیال، چنکارا، خارپُشت، نیولا، پیلی گانی والا بِلّا نما جانور،گیدڑ، کبھی کبھار لومڑیاں اور سُوَر بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔مارگلہ کی پہاڑیوں میں، کہاجاتا ہے کہ شیر اور چیتے بھی ہوتے تھے۔ اللہ جانے۔ دیکھنے میں تو نہیں آئے کبھی!
مارگلہ اور اُس کا دامنِ کوہ بھی چیزے دیگری! مارگلہ خوبصورت پہاڑی علاقہ اور اِن پہاڑوں کے پیچھے گوردوارہ پنجہ صاحب، ٹیکسلا، حسن ابدال، لوسر باﺅلی اور افسانوی مغل شہزادی لالہ رخ کا مقبرہ ہے۔ داستان گو وہاں بھی لے چلے گا لیکن بات چل ہی نکلی ہے تو مارگلہ چلتے ہیں جہاں برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں کے ایک حسب ِ ضرورت فوجی اور ”بوقتِ ضرورت “انتظامی افسربریگیڈیئر جنرل نِکلسن کی یادگار سر اُٹھائے ہے۔نِکلسن نے ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانوی نو آبادیاتی حکمرانی کے لیے 1839ءسے 1857ءتک فوجی اور سول نو آبادیاتی خدمات انجام دیں۔ پہلی اینگلو افغان جنگ، دو اینگلو سِکھ جنگوں اور پھر آزادی ¿ ہند کے لیے بغاوت کو کچلنے کی جنگِ 1857ءمیں حصّہ لیا۔ اُس نے ورناکیولر اردو کا امتحان بھی پاس کیا۔ ڈیارڈ کپلینگ کی کتاب کِم (Kim) میں بھی اُس کا تذکرہ مِلتا ہے۔ نِکلسن نے آزادی ¿ ہند کے لیے لڑنے والوں کے خلاف بڑی سفّاکی دکھائی۔ مارگلہ میں نِکلسن کی یادگار کے علاوہ دہلی میں بھی اُس کا ایک مجسمہ نصب کیا گیا جو 1947ءمیں بھارت کی آزادی کے بعد ہٹادیا گیا۔ پاکستان میں مارگلہ کے مقام پر اُس کی یادگار بہر حال، ”آثارِ قدیمہ“ کے طور پر محفوظ رکھی گئی۔ سِکھوں کے خلاف جنگ میں واہ کے کرم خان نے، جو محمد حیات خان کا باپ تھا، انگریزوں کی بڑی مدد کی، جس کے عوض انگریزوں نے اس خاندان کو خوب نوازا اور پنجاب کا انتہائی مال دار اور بارسوخ خاندان بننے میں مدد دی۔ 
نام کے حوالے سے مارگلہ کے بارے میں دو بلکہ تین روایتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ ”مارگلہ“ یعنی گلا کاٹنے والے۔ کہا جاتا ہے کہ کسی زمانے میں اِن پہاڑیوں پر ڈکیتوں کا راج تھا جو مسافروں کو لوٹ کر اُن کے گلے کاٹ دیا کرتے تھے۔ یوں خوف اور دہشت کی وجہ سے اُنہیں ”مارگلہ پہاڑیاں“ کہا جانے لگا۔ دوسری روایت یہ کہ ٹیکسلا یا اس کے قدیم نام ”تاکشا شیلا“ کا فارسی تلفظ ”ماریکالا“ تھا جو اِمتدادِ زمانہ کے ہاتھوں ”مارگلہ“ ہوگیا۔ تیسری روایت یہ ہے کہ ایک دَور میں یہاں اُن لوگوں کی حکومت تھی جو ”ناگ دیوتا“ کی پوجا کرتے تھے۔ اِس پہاڑی علاقے میں سانپ بہت ہوتے تھے لہٰذا اِسے مار یعنی سانپ یا ناگ اور گلہ یعنی جُھنڈ کہا جانے لگا۔ مطلب ہوا ”سانپوںکا گڑھ“۔”ٹِلہ جوگیاں“ کی طرح ایک ٹِلہ اِن پہاڑیوں میں بھی ہے۔ تاہم، ٹِلہ جوگیاں کی طرح کوئی شہرت یا تاریخی اہمیت نہیں رکھتا۔
تاریخ دامن وا کرتی ہے تو کم و بیش 3ہزار برس قبل مسیح پوٹھوہار میں انسانی دیہی بستیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ تہذیب پیّاںپیّاں چلتی ہے۔ مشرق میں دریائے جہلم اور مغرب میں دریائے سندھ پانی اُچھال رہے ہیں۔ شمال میں کوہستانِ کالا چٹا اور مارگلہ کی پہاڑیاں ، اور جنوب میں کوہستانِ نمک دربانی کرتے ہیں۔ اور اُن کے بیچوں بیچ لہراتا، بل کھاتا، رنگ پہ رنگ بکھیرتا، سطح مرتفع پوٹھوہار ہے۔ یہاں اُچالی، جھلّار اور راول جھیلیں ہیں۔ رام سر،کلر کلہار اوروہاں کے رقصاں مور،یہیں وہ مقام بھی ہے جہاں البیرونی نے زمین کا قطر ناپا تھا، وادی ¿ دھن، چواسیدن شاہ، چکوال، اٹک، کوٹ سارنگ، ٹِلّا ( یاٹیلہ) جوگیاں،نندنا،روات ( یا رباط) ترّکی موڑیا جوڑ،دینہ، جہلم کے علاوہ خوشاب اور میانوالی کے بعض علاقے، سون سکیسر اوربہت سے خوبصورت تاریخی اورآثار ِ قدیمہ کی اہمیت رکھنے والے مقامات ہیں۔ داستان گو، اِن سب جگہوں کی سیر کرے اور کرائے گا۔بس ساتھ ساتھ رہیے۔
پوٹھوہار کی زراعت بارانی ہے۔ پیداوار میں گندم، مونگ پھلی، جو، جوار، چنا، مٹر، دالیں، پیاز، تربوز اور تمباکو شامِل ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ متعدد علاقوں میں چراگاہیں ہیں اور گڈریئے بھی نظر آتے ہیں۔ داستان گو کو یاد ہے کہ شہر سے ذَرا باہر بارانی زرعی ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ ہوا کرتا تھا۔ داستان گو بڑا ہوتا گیا اور یہ انسٹی ٹیوٹ بھی کالج بن گیا۔ اُس کے عملے اور طلبا کے لیے ایک بس ہوا کرتی تھی جس پر بارانی ٹریننگ کالج لکھا ہوتا تھا۔ ایک دِن کسی دِل جلے نے ” بارانی“ میں ایک نقطہ بڑھا کر اُسے ”باراتی“ بنادیا۔ اب یوں لکھا تھا، ”باراتی ٹریننگ کالج“۔
تمباکو کی پیداوار کا تذکرہ آگیا تو اُس کی کچھ بات بھی ہوجائے۔ شہر میں تمباکو کی بہت سی دکانیں تھیں۔ تمباکو فروش سوکھے تمباکو میںجو زرد رنگ کا اور چُٹیا کی مانند گُندھاہوتا ہے، پرانے گُڑ کا شیرہ یا قوّام ، شہد اور جانے کیاکیا مِلا کے دو آتشہ اور دو رَسا بنا کے حُقّے میں پینے لائق بناتے تھے۔ معمولی، درمیانہ، اچھا اور سب سے اچھا ۔ہرطرح کی کوالٹی ہوتی اور ویسے ہی دام! ابّا کو جامع مسجد والی دکان ،اور ٹرنک بازار کے ُنکڑ والی دکان کا تمباکو بہت پسند تھاجو لانے کے لیے تین چار میل پیدل جانا اور آنا پڑتا تھا۔ ابّا کے آنے سے پہلے َنیچے کا پانی بدلا جاتا۔ چِلم والی ، اور دوسری 60 درجے کا زاویہ بناتی اورپھر بَل کھاتی بانس کی نَے پانی سے صاف کی جاتی۔ چِلم اور اُس کے اندر رکھنے والی مٹی کی گولی صاف کی جاتی۔ کوئلے دہکائے جاتے۔ کوئلے نہ ہوتے تو چِلم کے لیے خاص طور پر بنے ”پُختہ “اُپلوں کو آگ دکھائی جاتی۔ ابّا کام سے تھکے ہارے لوٹتے تو حُقّہ تازہ اور تیار ہوتا۔ ہم حُقّہ بھرتے اور وہ اُسی طرح کش لگاتے، جس طرح ، بعد میں معلوم ہوا کہ رام پور والے حُقّے کے کش سے روزہ افطار کرتے تھے۔معذرت کے ساتھ رام پوری تمباکو کا بہت شُہرہ ہے۔ جانے اُس میں کیا کیا جڑی بوٹیاں اور خاص اجزاءمِلا کر دَم دار بنایا جاتا ہے کہ حقّے کے بڑے بڑے رَسیا پہلے کَش پہ ہی ڈھیر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن پوٹھوہاری چِلم باز ایسا حُقّہ نہیں پیتے تھے۔ وہاں کی چِلم کی بناوٹ الگ ہی ہوتی ہے۔ پانی والے لمبوترے سے، مٹی کے بنے َنیچے میں بانس کی دو نالیاں اِس طرح باندھی جاتی ہیں کہ ایک بالکل سیدھی اور دوسری تقریباً 90 درجے کا زاویہ بناتی ہے۔ سیدھی نالی پر چِلم رکھتے ہیں۔ یہ چِلم بھی مخصوص قسم کی ہوتی ہے۔ اُس میں سوکھا پیلا تمباکو ہتھیلی پہ گھِسا اور مِلا کر ڈالا جاتا ہے اور پھر ماچس جلا کر تِیلی تمباکو پہ رکھتے ہی دوسری یعنی ٹیڑھی نالی سے کش لیتے ہیں۔ ہوا چونکہ کھینچی جاتی ہے اور وہ َنیچے کے پانی سے ہوکر گزرتی ہے ،اِس لیے تِیلی کی لَو تمباکو کو چُھوتی اور جلاتی ہوئی بڑھتی ہے۔ چلِم پینے والا پانی سے گزرتے دھویں کو حلق کے اندر تک لے جاتا ہے، حَظ اُٹھاتا ہے اور اُسے سوکھے ”خالص“ تمباکو کا دھواں کانوں سے نکلتا محسوس ہوتا ہے۔ پوٹھوہاری میں اُسے حُقّہ پینا نہیں، ”چِلم چھِکنا“ کہتے ہیں۔ مثلاً ”راجہ جی، چِلم چھِک سَو؟“
جس طرح سگریٹ پینے والوں میں عادی سگریٹ سے سگریٹ جلانے اور پینے والے (Chain-Smoker) ہوتے ہیں اُسی طرح پوٹھوہار میں ”چِلم چھِکنے“ والے بھی مِلتے ہیں کہ اس کے بغیر ایک منٹ گزارہ نہیں ہوتا۔ ایسے چِلم چھِکنے والے کو دن بھر چِلم نہ مِلے تو اُس کے ساتھ کیا بیتتی ہے یا اُس کا کیا حشر ہوتا ہے، یہ منظر داستان گو نے بچپن میں ایک بار خود دیکھا۔ رمضان تھا، گھر کے سارے لوگ روزے رکھتے تھے لیکن محلّے کے ایک بزرگ محض چِلم کی عادت سے مجبور ہوکر روزہ نہیں رکھتے تھے۔ ایک بار محلّے کی مسجد کے مولانا صاحب نے روزے کی فضیلت پر جمعہ کا وعظ دیا تو اُس سے ”متاثر“ ہو کے انہوں نے اگلے دن روزہ رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔ سحری کھائی، کچھ دیر آرام کیا اور اُس کے بعد ”چِلم“ کی طلب زور پکڑنے لگی۔ دس بجے کے لگ بھگ چِلم تازہ کرکے تِیلی نکالی اور ماچس ہاتھ میں لے کر بیٹھ گئے۔ دس پندرہ منٹ اور گزرگئے تو جھِلّا کر بیٹے کو آواز دی اورخالص پوٹھوہاری لہجے میں پوچھا:
”اوا، ہَواشرف، کَیہہ وَخُت ہوئیا اے؟(”ابے اشرف، کیا وقت ہوا ہے؟“)
”لالہ دَہ وجے نَیں۔“(”لالہ، دس بج رہے ہیں۔“)بیٹے نے جواب دیا۔
چِلم اُسی طرح سامنے رکھی رہی ۔وہ ماچس اورتِیلی لیے اندر ہی اندر تر پڑیاں کھاتے اور اپنے آپ کو کوستے رہے کہ یہ کیا” جھَک“ مار دی۔ تین چار بجے اس قدر زِچ ہوئے کہ مسجد کے مولانا کو غائبانہ طور پر ایسی ملا حیاں سنانا شروع کردیں جنہیں ”ضبط ِتحریر“ میں لانا ممکن نہیں۔ آخر آخر خالص تمباکو کی طرح ”خالص“ گالیوں پر اُتر آئے جن کی براہ ِراست زَد میں اُن کا بیٹا ”اشرف“ بھی آنے لگا۔ خدا خدا کرکے افطاری کا وقت قریب آیا۔ طبیعت کا اضمحلال اور غصّہ دونوں عروج پر تھے۔ بیٹے کو جِسے صبح سے تِگنی کا ناچ نچارکھا تھا، عالم ِطیش میں پھر پکارا، ”اواہو اشرف۔ ہُن کَیہہ وَخُت ہوئیا اے؟“
بیٹے نے جواب دیا”لالہ ، روزہ کُھلنڑچ پنج چھے مِنُٹ رہ گئے نیں۔“ ایک آدھ منٹ اور گزرا تو ہمت بالکل ہی جواب دے گئی۔ تِیلی جلا کر ”رامپوری“ انداز میں چِلم چھِکتے ہوئے با آوازِ بلند خود سے مخاطب ہوئے، ”یَرا کِدھرے تے کھُلا ہوسی ناں“۔ (”یار، کہیں تو ُکھل گیا ہوگا۔“) اور یوں دن بھر کی محنت اکارت کردی۔ عادت بُری بلا ہے۔ داستان گو بھی سگریٹ نوشی کی اِسی بُری لَت میں مبتلا ہے۔ایک بار دِل کی بخیہ گری سے گزر چکا لیکن باز نہیں آتا۔ مشتاق احمد یوسفی کے ایک کردارسے کسی نے سگریٹ یا سگار کی تعریف (Definition) کا کہا تو اُس نے جواب دیا۔”ایک سِرے پر آگ اور دوسرے پر ایک احمق ہوتا ہے۔“



(9)
Image result for army pakistan 1947

خِطّہ پوٹھوہار کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ علاقہ جنگجوﺅں یا اہلِ حرب کا خِطّہ ہے۔ بلکہ مبالغے کی حد تک تو کہاوت بھی ہے کہ ”یہاںکا ہر دوسراباسی یاواسی فوجی( اور ہر تیسرا شاعر) ہے۔ “برطانوی نوآبادیاتی حکمران اپنی دیسی فوج کے لیے بھرتیاں زیادہ تر یہیں سے کرتے رہے۔ وہ دوسروں کی جنگ لڑنے بیرونِ ملک بھی جاتے تھے۔ کچھ توپوں کا چارہ بن جاتے، کچھ تمغے سجا کے لوٹ آتے۔ بہر حال، داستان گو نے جنگجوﺅں کے اس خِطّے سے کچھ ایسے چہرے بھی ڈھونڈ نکالے جن کا تعلق سیاست ، صحافت اور علم و ادب سے ٹھہرا۔ اور ایسے بھی جنہوں نے جنگجوئی کے ساتھ ساتھ علم و ادب یا دیگر فنونِ لطیفہ کا پھریرالہرایا۔اُن میں جو ”مسلمان“ نہیں تھے، وہ تقسیمِ ہند کے وقت ”شرنارتھیوں“کی صورت راوی پار کرگئے(اُدھر سے بھی ایسے ہی بہت سے لوگ”ہجرت“ کرکے اِدھر آبسے۔) بھارت جانے والوں میں اندر کمار گجرال پیدائش جہلم 1919ء۔ انہوں نے ڈی اے وی کالج ، ہیلی کالج آف کامرس لاہور میں تعلیم پائی۔ اُردو زبان کے شیدائی سمجھے جاتے تھے۔ تحریکِ آزادی میں حصّہ لیا۔ انگریزوں کے خلاف ”ہندوستان چھوڑدو“ تحریک کے دوران 1942ءمیں اسیر ہوئے۔ زمانہ ¿ طالب علمی ہی میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر بن گئے تھے۔ 1958ءمیں بھارتی سیاست میں داخل ہوئے۔ نیو دہلی میونسپل کمیٹی کے نائب صدر بنے، ترقی کرتے کرتے راجیہ سبھا کے ممبر ہوئے۔پھر وزیرِ اطلاعات، سفیر برائے سوویت یونین ،وزیرِ خزانہ، وزیر ِخارجہ کی راہوں سے ہوتے ہوئے 1997ءمیں بھارت کے وزیرِ اعظم کے عہدے تک رسائی حاصل کی۔ اُن کی اہلیہ شیلا گجرال، پائے کی شاعرہ تھیں۔ گجرال، مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے چانسلر بھی رہے۔
سردار من موہن سِنگھ جہلم کے قریب واقع قصبہ ”کاہی“ میں 1932 ءمیں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ءمیں شرنارتھی بن کے سرحد پار اُتر گئے۔ چندی گڑھ اور پھر برطانیہ میں تعلیمی مدارج طے کیے۔ اقتصادیات اُن کا خاص شعبہ رہا اور اُسی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ 1966ءسے 1969ءتک اقوام ِمتحدہ سے وابستہ رہے۔ بھارت میں سرکاری ملازمت کی۔ ترقی کرتے کرتے چیف اکنامک ایڈوائزر، گورنر ریزرو بینک اور پھر پلاننگ کمیشن کے سربراہ بنے۔ 1991ءمیں بھارت کو اقتصادی بحران کا سامنا ہوا تو وزیرِاعظم نرسمہا راﺅ نے انہیں وزارتِ خزانہ سونپ دی۔ 2004ءمیں سونیا گاندھی، سردار من موہن سِنگھ کے حق میں دستبردار ہوگئیں۔ یوں وہ اوّلین سِکھ تھے جو بھارت کی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے اور دس برس تک وزیرِاعظم رہے۔1991ءسے راجیہ سبھا میں صوبہ آسام کی نمائندگی کررہے ہیں۔
سردار جگجیت سِنگھ اروڑا 1916ءمیں ضلع جہلم کے قصبہ کالا گوجراں میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد انجینئر تھے۔ 1939ءمیں برطانوی ہند کی فوج میں کمیشن مِلا اور دوسری جنگ ِ عظیم میں برما کے محاذ پر لڑتے رہے۔ تقسیمِ ہند کے وقت انہوں نے بھارتی فوج میں جانے کا فیصلہ کیا۔
 ممتازبھارتی اداکار، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر سنیل دَت، 1929ءمیںجہلم کے ایک گاﺅں ”خورد“ میں پیدا ہوئے۔ اُن کا اصل نام بلراج دَت تھا۔ وہ سردار من موہن سنگھ کی وزارتِ عظمیٰ کے دوران میں نوجوانوں کے امور اور کھیلوں کے وزیر رہے۔ انہیں ممبئی سے پارلیمنٹ کا رکن منتخب کیا گیا۔ اُن کی عمر 18 برس تھی جب ہندو، سِکھ، مسلمان فسادات کا آغاز ہوا۔ اُن کے والد کے ایک مسلمان دوست یعقوب نے پورے کنبے کو بلوائیوں سے بچا کر سرحد پار پہنچایا تھا۔ سنیل دَت نے اپنے فنی کیریئر کا آغاز ریڈیو سے کیا۔ ایک زمانے میں وہ ریڈیو سیلون کی ہندی سروس کے مقبول ترین اناﺅنسر تھے۔ پھرممبئی سے فلمی زندگی کی ابتداءکی۔25 مئی 2005ءکو حرکتِ قلب بند ہونے سے ممبئی میں سورگ باشی ہوگئے۔
بلراج ساہنی یکم مئی 1913ءکو راولپنڈی میں پیدا ہوئے اور 13 اپریل 1973 ءکو ممبئی میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ داستان گو، اب تک فیصلہ نہیں کرپایا کہ انہیں کِس شمار میں لائے؟ بلراج ریڈیو براڈ کاسٹر تھے۔ ادیب تھے، کہانی کار تھے، ڈرامہ اور فلم آرٹسٹ تھے، ترقی پسند، مارکسی سیاسی کارکن تھے۔ اور نہ جانے کیا کیا تھے۔ انہیں ہر فن مولا کہا جاسکتا ہے۔بیتی داستان سرائی میں کئی موڑ ایسے آئے کہ داستان گو کے لیے انہیں نظر انداز کرکے آگے بڑھنا ممکن دکھائی نہ دیا۔ بلراج ساہنی کا تفصیلی تذکرہ آگے آئے گا کہ اِس کے بِنا چارہ نہیں۔ پھر چکوال کے قصبے کوٹ سارنگ کے ستیہ پال آنند کی تصویر اُبھرتی ہے۔ ستیہ پال آنند24 اپریل 1931ءکو پیدا ہوئے۔ 1947ءمیں راولپنڈی سے میٹرک کیا اور اس کے بعد وقت انہیں لدھیانہ میں دیکھتا ہے! پنجاب یونیورسٹی چندی گڑھ سے انگریزی میں ایم اے کیا-بڑے ادیب اور شاعر- برِصغیرکا بٹوارا ہوا تو ستیہ پال آنند بھی بٹ کے رہ گئے۔ اپنے پُرکھوں کی دھرتی، اپنا آنول نال چھوڑ سرحد پار کرنے پر مجبور ہوئے۔ قلم اوڑھنا بچھونا ہوا۔شاعری اُن کا خاص میدان ہے۔ اردو، انگریزی، ہندی اور پنجابی میں لکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ بھارت میں بِتایا اورخانہ بدوش ہو کے امریکا جا بسے۔ اب اُدھر ہی کے باسی ہیں۔ ٹرینٹی یونیورسٹی، ٹیکساس سے فلسفے میں ڈاکٹریٹ کیا۔ 
ماضی کے سردار سمپورن سنگھ بٹوارے کی خون آشام بھول بھلیّاں پھاندتے دینہ سے نکلے تو اُن کے ہاتھوں میں ایک بھمبیری اور ایک لاٹوُ تھا۔ دس گیارہ برس کی عمر میں انہوں نے جو بھمبیری اور لاٹوُ اٹھائے ، ستر پچھتر برس بیتنے کے بعد بھی ممبئی میں وہ گلزار بن کے شاید اُن ہی سے کھیل رہے ہیں۔ ماضی اکثر بڑا بے رحم ہوجاتا ہے لیکن اُس کی بے رحمی میں بھی اِک چاہت ہوتی ہے۔ انسان اُس بے رحم ماضی کے بغیر جی نہیں سکتا۔ جیتا ہے اور یہی اُس کا جیون ہے۔ داستان گو نے بھی سرحد کے اِس پار آکے بڑے لاٹوُ چلائے ۔ بھمبیریاں چلائیں۔ کنچے اور اخروٹ کھیلے ۔ آج بھی کسی بچے کے ہاتھ میں لاٹوُ یا کنچے دیکھ کے بچپن کی اور لوٹ جانے کو جی چاہتا ہے۔ خیر بڑھاپا بھی تو بچپن سے کم نہیں ہوتا۔ آﺅ کنچے کھیلیں!
باقی صدیقی پوٹھوہار کے ایک معروف شاعر۔ ٹیکسلا سے تعلق۔ اُن کا ایک خوبصورت اُردو شعر ملاحظہ کیجئے۔

زندگی کا یقین کیا
زندگی صبح کا ستارہ ہے
Image result for poet of potohar baqi siddiqi

اور پوٹھوہاری میں ایک شعر:

بچے جیا پھَل نہ ڈِٹھا
جِناں کچا، اَونا مِٹھا

خِطّہ پوٹھوہار کی سنگلاخ ، سرسبزو شاداب مرتفع دھرتی اہلِ قلم سے کبھی بھی خالی نہیں رہی۔ یہاں جنگجوئی کے ساتھ ساتھ علم و ادب کے گنگناتے جھرنے پھوٹتے رہے ہیں اور پھوٹتے رہیں گے۔ جانے کون کون سرحد کے اُس پار چلا گیا یا۔ اُدھر جا کے قلم اٹھایا۔ بہت سے اِدھر رہے یا بٹوارے کے بعد جنم لیا۔ یا اِس پار آکے قلم کو آلہ ¿ کشاورزی بنایا۔ شوقیہ یا وسیلہ ¿ روزگار کے طور پر ۔ لیکن یہاں قلم، پیٹ کی آگ تو نہیں بُجھاتا! پیٹ کی آگ بُجھانے کے لیے تو محنت کا پھاوڑا اُٹھانا پڑتا ہے۔ سو قلم اور پھاوڑا - ایک ہوئے ہے ناں!
ڈاکٹر انور سدید نے روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر کے حوالے سے واقعتا عمر بھر محنت کاپھاوڑا اُٹھائے رکھااور چلاتے رہے۔ محکمہ ¿ آبپاشی میں انجینئر تھے۔ کئی نہروں کی کھدائی کی۔ اُن میں پانی چھوڑا یا چُھڑوایا۔ لیکن علم و ادب کے ساتھ اُن کے رومانس کی شِدت کا اندازہ لگانا، شاید ممکن نہیں۔ ڈاکٹر انور سدید جغرافیائی اعتبار سے غالباً پنجاب اور پوٹھوہار کی سرحدی باڑ پہ بیٹھے ہیں۔ لیکن داستان گو انہیں پوٹھوہار کی اور کھینچ لایا ہے کہ وہ کسی بھی علاقے یا خِطّے میں ہوں، اُس کی شوبھا ہیں۔ داستان گو سے، جِسے عمر ”ِرائیگاں“ کے حوالے سے ”سٹھیائے“ ہوئے بھی دس بارہ برس بیت چکے ، کبھی یہ نہیں کہتے کہ مجھ سے سولہ سترہ برس چھوٹے ہو۔ ہمیشہ یہی کہیں گے، ” ابھی سولہ سترہ برس مزید کام کرسکتے ہو۔“ حوصلہ اور ہمت بڑھانے کا کیا خوبصورت انداز ہے! بیمار رہتے ہیں۔”دل“ میں سوچتا ہوں کہ وہ نہ ہوں گے تو بس اِک ادبی خلا ہوگا۔ زمین سے پلوٹو (Pluto) تک کون علم و ادب کا ”خانہ ¿ انوری“ سنبھالے گا؟
یہاں سیّد ضمیر جعفری کا نام اور فکاہیہ شاعری میں کام سر چڑھ کے بولا۔
افضل پرویز پوٹھوہاری کے معروف شاعر ہی نہیں موسیقار ،صحافی اورادبی محقّق بھی تھے۔ 1917ءمیں پیدا ہوئے۔ 2000ءمیں دارِ فانی سے کوچ کیا۔داستان گو نے 1962ءمیں روزنامہ جنگ راولپنڈی میں اُن کے ساتھ کام کرنے بلکہ کچھ سیکھنے کا اعزاز حاصل کیا۔ پوٹھو ہار کے لوک گیتوں اور لوک رقصوں پر اُن کی تحقیقی کتاب 1973ءمیں اور اُس سے پہلے 1971ءمیں شعری مجموعہ ”کِکراں دی چھاں“ شائع ہوئیں۔
ایک پوٹھوہاری شعر سنیے۔ 
ہوسی اوہ جو آپ کریسیں اَے دنیا دے چالے
کون کِسے دیاں کنداں لِمبے کیہڑا دِیوے بالے
استاد یوسف ظفر نے 1914ءمیںمری میں آغازِ حیات کیا۔ نامور شاعر۔ اساتذہ میں شمار ہوا۔ بقول اُن کے، بچپن، تعلیمی مدارج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے راولپنڈی میں قصّے کہانیوں کے رسالچے ،کتابچے اور غبارے بیچتے گزرا۔ وقت انہیں لیے لیے اُڑا۔ 1936 ءمیں بی اے کیا۔ دہلی پہنچے ، غم ِ روزگار نے دیواروں پہ پوسٹر چپکوائے، ہوٹل گائیڈ کا کام کیا۔ جوش ملیح آبادی تک رسائی ہوئی اور انہوں نے ”کلَِیم“ میں منیجر رکھ لیا۔ 1938ءمیں لوٹ آئے - لاہور - احسان دانش، میرا جی، عبدالمجید بھٹی، مخمور جالندھری، حمید نسیم، ظہیر کاشمیری، قیوم نظر ایسے شاعروں اور ادبی شخصیّات سے ربط رہا۔ پہلا مجموعہ ¿ کلام ”زِنداں“ اردو بک اسٹال، لاہور نے 24 جنوری 1944ءکو شائع کیا۔ مجموعے کا عنوان ”زِنداں“ شوکت تھانوی کا عطایا تھا-ایک دلچسپ کیفیت- 24 جنوری 1944ءکو اُن کے ”زِنداں“ کو رہائی مِلی اورداستان گو 12 اپریل 1944 ءکوجیون کے اِس ”زِنداں “ میں داخل ہوا۔ استاد یوسف ظفر کے صاحبزادے نوید ظفر سے کچھ یاد اللہ رہی۔ وہ راولپنڈی ٹیلی ویژن میں تھے۔استاد یوسف ظفر کے چند شعر:

کِسے کہوں کہ ابھی ناتمام ہے انساں

نہیں تو عقل و خرد کا فریب کھا سکتا ؟
دیکھ یہ میرے تجسّس کا بھیانک انجام
مَیں بھی ناکام- میرا ذوقِ سفر بھی ناکام
چاند کی صراحی سے 
رِس رہے ہیں کچھ قطرے

جس طرح یہاں سے لوگ سر بکف گئے، اُسی طرح وہاں سے اِدھر آئے۔ سیّد صفی حیدر دانش جون 1913ءمیں بریلی میں پیدا ہوئے تھے۔ 1947ءمیں بریلی سے ہجرت کی، راولپنڈی آئے،پوٹھوہاریوں کے ساتھ پوٹھوہاری ہوگئے اور باقی زندگی راولپنڈی کے گورڈن کالج میں اُردو پڑھاتے بِتادی۔ پائے کے شاعر تھے۔ کہتے ہیں؟

مَیں فہرستِ آلام خود لِکھ کے رکھ دوں
نہ جانے زمانہ کہاں چوُک کر جائے

شاعر، ادیب کہیں سے آئے ہوں، پوٹھوہار میں آبسے تو بس پوٹھوہاری ہوئے۔ اِس سے غرض نہیں کہ اُردو میں لکھا یا پوٹھوہاری میں۔ راولپنڈی سے کچھ ہی فاصلے پر مری میں برف گرتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقیوم ڈسکوی رہ نہ سکے۔ بول اُٹھے: 

برف سے گر ڈھکا ہوا مکاں ہو
یہ نہ سمجھو کہ اُس میںآگ نہیں

Related image

آفتاب اقبال شمیم کا تعلق جہلم سے ہے۔مشین محلے کے ہیں۔بلینک ورس یعنی آزاد نظم کے اچھے شاعر ہیں۔ گورڈن کالج راولپنڈی کے علاوہ پئی چنگ (پیکنگ) یونیورسٹی میں برسوں چینیوں کو پڑھایا۔اُن کا اہم ترین کام چیئر مین ماو ¿زے تونگ کی نظموں کا اردو ترجمہ رہا۔
جن لوگوں نے شمشیر کے ساتھ ساتھ قلم آزمائی بھی کی، اُن میں ایک اہم نام کرنل محمد خاں کا ہے۔ انہوں نے دوسری جنگِ عظیم میں، بقول مشتاق احمد یوسفی، ” ٹینکاں واسپاں“ والی لڑائی میں جو گُل کھلائے، انہیں فکاہیہ انداز میں ”بجنگ آمد“ کے عنوان سے یوں لکھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے بذلہ سنجی کی شہرت کا تاج سر پہ سج گیا۔ ایک فوجی کے اندر بَسا ادیب-ایک فکاہیہ نگار۔ بجنگ آمدکا پتا نہیں کون سا ایڈیشن تیاری کے مراحل میں تھا۔ اُن ہی دنوں پاکستان میں اُن کے ایک ہم نام ” محمد خاں“ ڈاکو نے اندھیر مچارکھا تھا۔ ڈاکو پکڑا گیا، اپنے انجام کو پہنچا، لیکن کرنل محمد خاں کو ایک اچھوتا خیال دے گیا۔ کسی خاتون قاری نے انہیں خط لکھا جو انہوں نے اپنی کتاب کا ایڈیشن پریس میں رکواکر، اُس میں شامِل کردیا۔ خط میں لکھا تھا کہ ڈاکو محمد خان کی مونچھیں اور آپ کی تصویر والی مونچھیں دیکھ کر ہمیں مایوسی ہوئی۔ ہم تو آپ ہی کو محمد خاںڈاکو سمجھے ہوئے تھے۔ وہ تو کوئی اور ”بڑی“ مونچھوں والا ڈاکو نکلا۔کاش آپ وہ والے ڈاکو محمد خاں ہوتے۔ کرنل محمد خاں چکوال کے گاﺅں بالکسر میں1910ءمیں پیدا ہوئے اور 1999ءمیں لاہور کو ابدی مستقربنایا۔ سیّد جعفر طاہر،سیّد ضمیر جعفری، صدیق سالک ایسے ممتاز شاعروں اور ادیبوں کا تعلق بھی ”شمشیر زنوں“ سے تھا۔
پوٹھوہار سے تعلق رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں میں کیا کیا نام گنواﺅں۔ نیرنگِ خیال والے حکیم یوسف حسن۔ داستان گو کی یادوں میں ہے کہ اُن کا دفتر جامع مسجد کی ،سڑک کے رخ ُکھلتی ایک دکان میں تھا۔ کڑا وقت کِس پر نہیں آتا؟ راولپنڈی اور قرب وجوار کے نو آموز اور نو وارد شاعر اکثر اپنا کلام لیے اُن کے درپہ کھڑے دکھائی دیتے۔ ایک دن حکیم یوسف حسن بیٹھے کچھ لکھ پڑھ رہے تھے کہ ایک نوجوان(شاعر) غالباً ٹیکسلا سے آگیا۔ حکیم صاحب کا شناسا تھا۔ اُس نے ایک کاغذ جس پہ دس روپے کا نوٹ بطور ”نذرانہ“ رکھا تھا، حکیم صاحب کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا، ” حکیم صاحب ، ہِس غزل کی اَیس طراں کردیوجے لَف ±ظ اختر شیرانی نیں ہووَن تے خیال غالب ناں ہووئے۔ “ حکیم صاحب نے مسکراکے کاغذ رکھ لیا۔ سلطان رشک نے حکیم صاحب کی زندگی میں ہی ”نیرنگِ خیال“ کی اشاعت کاکام سنبھال لیا تھا اور سُنا ہے اب تک اُسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ کتنے ہی ادبی جریدے ماضی کے مزار ہوگئے۔ کچھ زندہ ہیں تو بڑی بات ہے! علم و ادب میں یہاں بڑے بڑے نامور تھے اور ہیں۔ قیتل شفائی۔ منّو بھائی، منصور قیصر، محمد منشا یاد، شبنم شکیل، رشید امجد، آغا بابر، احمد شریف، اعجاز راہی،سمیع آہوجہ، نثار ناسک، مظہر الاسلام، جمیل ملک، عزیز ملک، فتح محمدملک، جمیل آذر، احمد داﺅد، مرزا احمد بیگ، مشتاق قمر، اختر امام رضوی، جمیل یوسف....

(10)
Image result for ‫ماہنامہ نیرنگ خیال لاہور‬‎

حکیم یوسف حسن کی دکان /دفتر کے مقابل یعنی سڑک کے اُس پار بھی دکانیں تھیں۔ یہ دکانیں ”پُرانا قلعہ“ کو جانے والی اونچی سڑک سے شروع ہوتیں اور خورشید سینما چوک تک چلی جاتی تھیں۔ پُرانے قلعے والی سڑک کے ساتھ لگی دکان پہ ایک دن جوبورڈ دکھائی دیا اس کی تحریر نے کچھ دیر کے لیے تو حیران کردیا اور پھر احمقانہ سی ہنسی آگئی۔ بورڈ پہ لکھا تھا”بیمار برتنوں کا ہسپتال“ سوچا، برتن کیسے بیمار ہوسکتے ہیں؟ بے وقوف بنانے والی بات ہے۔ لیکن وہاں لٹکے ہوئے برتن دیکھے تو دکان دار کی ہوشیاری اور کاری گری کی داد دینے کو جی چاہا۔
اب زمانہ دیکھئے۔ اُن دنوں کانچ یا چینی مٹی کے برتن روز روز خریدنا آسان نہ تھا۔ لوگوں کی جیب اجازت ہی نہ دیتی تھی اور چینی مٹی کے برتنوں، پِرچ پیالوں کو ٹوٹنے سے کون روک سکتا ہے؟ ابھی لکڑ جوڑ، پتھر جوڑ، ہاتھی جوڑ قسم کے کیمیکل غالباً ایجاد ہی نہیں ہوئے تھے۔ یا ہوئے بھی تھے تو پاکستان جیسے ملکوں میں دستیاب نہ تھے۔ ”پروپرائٹر ہسپتال ہذا“ اصلاً شاید بڑھئی تھے جو دستی خراد میں لگے انتہائی باریک برمے سے ٹوٹے ہوئے حصّوں میں سوراخ کرکے اتنا کَس کے تار پروتے کہ پانی، چائے وغیرہ کا باہر نکلنا ممکن نہ ہوتا۔ لیکن عام خیال یہی تھا کہ وہ کوئی دیسی نسخے سے بنا ”جوڑ بند“ استعمال کرتے تھے۔ خالی تار تو پانی وغیرہ کو نہیں روک سکتا۔ ہاں دو حصّوں کو مِلائے ضرور رکھتا ہے۔ بہر حال، اُن کے ”ہسپتال“ میں لٹکے برتنوں کی تعداد دیکھ کر کامیابی کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسے ایسے کیمیکل آگئے کہ اُس طرح کی جُگاڑوں کی صورت نہ رہی۔ ایک اور دکان تھی جس پر چراغ الہ دین کے جن کے سائز کا ایک بنیان لٹکا ہوتا تھا۔ اور اُس پر لکھا ہوتا تھا،”جس کو درست، اُس کو مفت“۔ بنیان اصلی تھالیکن یقینا ”بٹوارے“ سے پہلے کا۔ داستان گو جب تک راولپنڈی میں رہا، اُس بنیان کو لٹکے ہی دیکھا!

(11)




داستان گو، سابق خالصہ ہائی اسکول اور تقسیمِ ہند کے بعد مسلم ہائی اسکول کی کہانی بیچ ہی میں چھوڑ کے کہیں اور نکل گیا تھا۔ یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ اُس اسکول نے داستان گو کی لکھنے پڑھنے میں بنیاد رکھی۔ وہ اور اُس سے پہلے کا پرائمری اسکول واقعتا اُس دور کے ٹاٹ اسکول تھے، پَر طلبا کو دریائے علم کاشنا و ربنانے میں یکتا۔ ہر سال کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتا جس میں ضلع بھر کے اسکولوں کی ٹیمیں حصّہ لیتیں مگر اصل مقابلہ آخر میں مسلم ہائی اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول کی ٹیموں کے درمیان ہوتا۔ اسکول میں ایک لڑکا تھا مسلم سربلند۔ وہ بھی اسکول کے ایک ماسٹر صاحب ہی کا بیٹا تھا۔ پڑھائی لِکھائی میں لاپروا لیکن کھیلوں، خاص طور پر کرکٹ میں سب سے آگے۔ داستان گو، اِس اسکول میں داخل ہوا تو مسلم سربلند پہلے سے موجود تھا،داستان گو میٹرک کرکے نکل گیا۔ مسلم سربلند وہیں گُل محمد! ہاں، سربلند مسلم ہائی اسکول کی کرکٹ ٹیم کا کپتان بن چکا تھا۔ ہر سال جب لیاقت باغ گراﺅنڈ میں کرکٹ کا فائنل میچ ہو تا تو دونوں اسکولوں کے طلبا ٹوٹ پڑتے۔ میدان تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرجاتا۔ ہر کسی کو معلوم ہوتا تھا کہ میچ کے آخر میں ہاہا کار ضرور مچے گی۔اور ہوتا بھی یہی تھا۔ مسلم ہائی اسکول اور اسلامیہ ہائی اسکول میں سے جس کی ٹیم ہارجاتی، وہ دوسری ٹیم پر الزام لگادیتا کہ انہوں نے وکٹوں کے نیچے ” تعویذ“ دبائے ہوئے تھے۔ یوں ہارنے کا سارا الزام تعویذوں اور تعویذ دینے والے ”پیرصاحب“ کے سرمنڈھ دیا جاتا۔
یوں تو پڑھائی سخت محنت سے عبارت ہے لیکن اُن دنوں کچھ زیادہ ہی محنت مانگتی تھی۔ کوئی سفارش چلتی تھی نہ امتحان میں کم طلبا کا کھٹ راگ ہوتا تھا۔ مڈل (آٹھویں)، میٹرک، ایف اے کے امتحان صوبے کی سطح پر ہوتے تھے،بی اے کا امتحان بھی یونیورسٹی لیتی تھی۔ مڈل کو ورناکیولرفائنل کہا جاتا تھا۔ پورے پنجاب سے چالیس پچاس ہزار طلبا اور طالبات امتحان میں بیٹھتے تھے۔ کِس شہر کے پرچے کِس شہر کے ممتحِن صاحبان کے پاس جائیں گے؟ کوئی نہیں جانتا تھا۔ نقل کارواج ”معمول“ نہ بنا تھا۔ نتیجہ تین ماہ بعد آتا تھا۔ اس عرصے میں لڑکے اسکول کا امتحان پاس کرکے نویں جماعت میں چلے جاتے۔ ہمارے ایک ماسٹر صاحب تھے، ماسٹر حنیف،سرخ شیروانی کے ساتھ پُھندنے والی سرخ تُرکی ٹوپی پہنتے تھے۔ حساب پڑھاتے تھے۔ پڑھانے میں سخت مزاجی اور یادداشت میں کوئی اُن کا ثانی نہ تھا۔ ورنا کیولرفائنل کے امتحان میں رول نمبر39 ہزار سے اوپر تھا۔ امتحان دے کے نویں کلاس میں چلے گئے۔ تین ماہ بعد ایک دن پتا چلا کہ نتیجہ آگیا ہے۔گزٹ کے انچارج ماسٹر حنیف ہی تھے۔ نویں میں ایک پیریڈ خالی تھا۔ ڈرتے ڈرتے اُس کلاس روم کے دروازے پہ جاکھڑے ہوئے جہاں وہ پڑھارہے تھے۔ انہوں نے کوئی توجہ نہ دی۔ ہمت نہ تھی کہ پوچھ لیتے۔ دس بارہ منٹ گزرے ہوں گے کہ اچانک دروازے کی طرف رخ کرکے بولے، ” رشید تمہارا رول نمبر یہی ہے ناں۔ انہوں نے آخری ہندسے تک صحیح نمبر بتایا۔ اثبات میں سرہلانے پر بولے، ” تم فرسٹ ڈوےژن میں پاس ہوئے ہو۔ تمہارے اتنے نمبر ہیں۔ اب جاﺅ۔“ مزید چند ماہ بعد سرٹیفکیٹ مِلا تو اُتنے ہی نمبر تھے جتنے انہوں نے بتائے تھے۔ برسوں بعد- داستان گو ایک اور بڑے شہر میں نوکری کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن بس سے اُترکے اپنی گلی میں داخل ہوا توسامنے ماسٹر حنیف صاحب وہی پھندنے والی سرخ تُرکی ٹوپی پہنے سائیکل پہ آتے نظر آئے۔ دیکھا تو سائیکل سے اُتر آئے۔ ” رشید تم یہاں کیا کررہے ہو؟“ اِتنے برسوں بعد بھی اُن کی یادداشت یا حافظے میں کوئی کمی نہ آئی تھی۔ ”ماسٹر جی، مَیں بھی آپ سے یہی پوچھنا چاہتا ہوں“؟” بس بیٹا، اسکول سے ریٹائر ہو کے مَیں یہاں آگیا۔ میرے بچے یہیں رہتے ہیں“۔ ”اور ماسٹر جی مَیں یہاں اخبار میں کام کررہا ہوں اور یونیورسٹی میں پڑھتا بھی ہوں۔“ چہرے پر خوشی اور طمانیت کی ایک لہر سی اُبھری۔ پیٹھ تھپتھپائی اور آگے بڑھ گئے۔ کیا استاد تھے اُس زمانے کے اور کیا زمانہ تھا وہ بھی ! پھر داستان گو سیاسی بنیادوں پر یونیورسٹی سے نکالا گیا اور آخراً،یہ ملک ہی چھوڑ گیا۔ برسوں بعد لوٹا۔ ماسٹر حنیف جانے کہاں تھے- جہاں بھی رہے ہوں، اللہ کی رحمتیں یقینا اُن کے ساتھ رہی ہو ں گی۔
نویں اور دسویں جماعتوں کے کمرے کھیل کے بڑے میدان کی طرف کُھلتے تھے۔ نویں جماعت میں تھے۔ ماسٹر صاحب شاید انگریزی کا پیریڈ لے رہے تھے۔ سب بڑے انہماک سے سُن رہے تھے۔ نظر یں کتاب میں سبق پہ تھیں۔ اچانک آخری بنچ پہ کھُسرپھُسر ہوئی۔ آوازیں تو تھیں لیکن الفاظ سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ سب نے پیچھے مُڑ کے دیکھا تو دو لڑکے ایک دوسرے کو غصّے میں کچھ کہہ سُن رہے تھے۔ دونوں قریبی گاﺅں کے تھے۔ داستان گو، شاید پہلے کہیں کہہ چکا کہ مسلم ہائی اسکول،شہر کے آخری حصّے میں تھا۔آگے دیہی علاقہ شروع ہوجاتا تھا، لہٰذا پاس پڑوس کے گاﺅں کے لڑکے بھی اُسی اسکول میں داخل ہوجاتے تھے کہ قریب پڑتا تھا۔ ماسٹرصاحب نے دونوں کو کھڑے ہونے کا کہا اور جھگڑے کی وجہ پوچھی۔ اب حالت یہ کہ دونوں میں سے کوئی جواب نہیں دے رہا۔ بس ایک دوسرے کو تکے جارہے ہیں۔ ماسٹر صاحب نے ذرا دَبکا یا تو ایک لڑکا بول پڑا، خالص پوٹھوہاری زبان اور لہجے میں: ”ماسٹورجی،ہیہ مہربان خان ماڑھے کی چھیڑناں پیاا یہہ تَے آکھنا ایہہ جہہ اَج تو نہہ اَپ ڑَیں بھراﺅُ نیاں کھیڑیاں پاکے آیاں اینہہ، تہہ مانہہ ہِساں دَس ڑاں پیاں جے نئیں ایہہ ماڑیہاں آپڑیاں کھیڑیاں ہَن۔“(” ماسٹر جی یہ مہربان خان مجھے چھیڑ رہا ہے۔ کہتا ہے آج تم اپنے بھائی کی چپلیں پہن کے آئے ہو اور مَیں اِسے بار بار بتارہا ہوں کہ نہیں، یہ میری اپنی چپلیں ہیں۔“)ساری کلاس ہنس دی اور پیریڈ ختم ہوگیا۔ مہربان خان، چھٹی جماعت سے ہمارے ساتھ تھا۔ اُس زمانے میں انگریز ی کی تدریس چھٹی جماعت سے شروع ہوتی تھی۔ساتویں تک آتے آتے الفاظ اور چھوٹے چھوٹے فقرے بنانے آجاتے تھے۔ ہر ہفتے کلاس ہی میں ٹیسٹ لیا جاتا تھا، کاپی سائز کے پرچوں پر ۔ نام، کلاس وغیرہ انگریزی میں لکھنا ہوتے تھے تاکہ پرچے گڈ مڈ نہ ہوجائیں۔ ایک دن پرچہ ہوتا اور اگلے دن ماسٹر صاحب واپس کرتے۔ اُن میں غلطیوں کی نشان دہی ہوتی۔ اچھاپرچہ ہوتا تو شاباشی بھی مِلتی۔ ایک دن ماسٹر صاحب نام پکارپکار کے پرچے لوٹانے لگے تو سب سے پہلے انہوں نے پوچھا، ” یہ تم میں سے Muhammad Kindکون ہے۔ مجھے تو یاد پڑتا ہے کہ کلاس میں اس نام کا کوئی لڑکانہیں۔ اتنے میں مہربان کھڑا ہوگیا اور کسمساتے ہوئے بولا، ماسٹر جی، آپ نے بتایا تھا کہ انگریزی میں Kind کا مطلب ہوتا ہے مہربان۔ میرا نام مہربان ہے ۔مَیں نے انگریزی میں ترجمہ کرکے لکھ دیا۔ یادیں ہیں کہ اُمڈتی چلی آرہی ہیں لیکن....
 برِصغیر، بلکہ وسط ایشیا تک جو مسلمان اورغیر مسلم قبائل بستے ہیں، اُن سب کی نمائندگی پوٹھوہار میں مِلتی ہے۔ یہ الگ بات کہ بیشتر غیر مسلموں نے صدیوں پر محیط کبھی حملہ آوروں کی صورت آمد اور کبھی ”یوں ہی“ آر جار کے دوران اسلام تو قبول کرلیا لیکن اپنے قبیلے یاذات پات کا نشان بلند رکھا۔
ہوایوں کہ داستان گونے راولپنڈی کو دارالقرار بنالیا تو دھیرے دھیرے وہاں کے احوال بھی سامنے آنے لگے۔ وہاں ہر کوئی راجہ تھا۔جوتا گانٹھ رہا ہے تو وہ بھی راجہ ۔پتا چلا کہ یہ تو نام کا حصّہ ہے۔ راجہ فلاں، راجہ فلاں، غرض” راجہ راجہ کردی مَیں آپے راجہ ہوئی“ کی کیفیت نظر آئی۔ بس داستان سرا راجہ نہ بنا۔پوٹھوہار میں آباد قبیلوں اورذاتوں میں جہلم ڈسٹرکٹ گزٹیئر کے مطابق ”جنجوعے، گھکھڑ، گنگال، اعوان، بھٹی، مہرے، کنجال، بدھوتر، شیخ، چوہان، گجر، آہیر، کھوکھر، بگھیال بھکرال، بنگیال،ہون،بینس، منہاس، بدھال، چٹھے، چیمے، وٹو، چھینے، ڈھونڈ، دھمیال، چھِب، دھنیال، دُلال، گھیبے،ہتاریا خطّار، لنگڑیال، گوندل،کھتری (کالرے یا کالڑے) اروڑے، سیّال، سُدّھن، بھُٹے، یا بٹ، گجرال، تنولی شامِل ہیں اور کہاں تک گنوائے جائیں۔ اِن سے کہیں زیادہ قبیلوںاور ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں آباد ہیں۔چند ایک قبیلوں کے بارے میں دلچسپ معلومات مِلتی ہیں۔ خصوصاً گُجر یا گوجر۔ یہ نام سامنے آتے ہی ایک تصویر اُبھرتی ہے کہ گائے بھینسوں کا باڑا ہے یا ایک شخص دودھ کے جِستی بلٹو ہے (پنجابی۔ وہ بڑے برتن، گوالے جن مَیںدودھ لاتے لے جاتے ہیں۔) تاریخ اور اساطِیری روایات کو کھنگالا جائے تو پورے برِصغیر اور وسط ایشیا میں کوئی علاقہ ایسا نظر نہیں آتا جہاں ُگجر یا گوجر نہ رہے ہوں۔ جموّںقتلِ عام میں مار ے جانے والوں میں سب سے زیادہ گُجرتھے۔ وہ مسلمان تھے اور گرد و پیش سے لاتعلق ہوکے گھروں میں دُودھ فراہم کرتے تھے۔ ُکھلے میں پھرتے تھے اس لیے مارے بھی زیادہ گئے۔ اِس قبیلے کا اوّلین سراغ منگولوں کے اُن زخّار جتھّوں کے حوالے سے مِلتا ہے جو وحشت اور بربریّت جِلَو میں لیے منگول علاقے سے اُٹھے اور وسط ایشیا کے راستے برِصغیر پر حملہ آور ہوئے۔ بحوالہ، (History of India. Ancient and Mediaeval) تحریر: پروفیسر وریام سِنگھ اور پروفیسرسنت سِنگھ، خالصہ کالج، امرتسر،1932ء، اس قبیلے کا اصل نام گزرار تھا۔ یہ منگولوں ہی کے رشتہ دار تھے لیکن کام اُن کا منگولوں کے گھوڑوں اور مال مویشیوںکی دیکھ بھال اور رکھوالی کرنا تھا،لہٰذا، اُن کے ساتھ ساتھ ہی چلتے تھے۔ منگول جہاں پڑاﺅ ڈالتے، گزراروہیں عارضی باڑا بناکر مویشیوں کا دودھ دوہتے اور گھوڑوں کی رکھوالی کرتے۔ مختصر یہ کہ کام اُن کا تب بھی گوالوں کا تھا۔ اس کے بعد وہ برِصغیر میں ایسے آباد ہوئے، پھَلے پھُولے کہ مختلف علاقوں اور خطوں میں شہر بسائے، حکومت کی۔ لیکن آبائی پیشہ نہ چھوڑا۔ قبیلے کا نام بھی بگڑتے بگڑتے گزرارسے ُگجریا گوجر ہوگیا۔ اُن کے بسائے ہوئے شہر گوجر خان، کالا گوجراں،گجرات، گوجرانوالہ وغیرہ آج بھی موجود ہیں۔ بھارت کے صوبہ ُگجرات میں انہوں نے لگ بھگ دو سو برس حکومت کی۔ گورسی، سُدّھن، کھٹانے، چوہان وغیرہ اُن ہی کی ذیلی ذات برادریاں ہیں۔ ایک روایت کے مطابق ُگجر یا گوجراپنا تعلق روسی ریاستوں چیچنیا اور جارجیا سے مِلاتے ہیں۔ اُن کے کچھ محققّین کا کہنا ہے کہ جارجیا کا اصل نام ُگجرستان ہے۔ اسے جملہ ¿ مقرضہ سمجھ لیں۔ زیادہ ترقبائل کا اصل واسطہ راجپوتوں یاجاٹوں سے جامِلتا ہے۔ کچھ سِکھ ذاتیں مثلاً اروڑا اور کالرایا کالڑا وغیرہ دکانداری کرتے ہیں۔ یعنی کاروباری لوگ ہیں۔
راولپنڈی میں، داستان گو کا محلہ، محلہ عید گاہ کہلاتا تھا۔ اب بھی کہلاتا ہے۔ بہت سے لوگ روہتک، سہارن پور وغیرہ سے ہجرت کرکے راولپنڈی آگئے تھے۔یہ سب اُردو بولنے والے تھے۔ اُن کے بچوں سے، خاص طور پر ناظر قریشی سے دوستی ہوئی جو پرائمری اسکول، ہائی اسکول، کالج سے ہوتی ہوئی بڑھاپے میں بھی قائم ہے۔ناظر نے ساتویں آٹھویں جماعت سے ہی اسکول کو خیر باد کہہ کے آبائی پیشہ چوُڑی گری یا چوُڑی فروشی شروع کردی تھی۔ چند برس میں ہم سب پوٹھو ہاری معاشرت میں اِس حد تک رچ بس گئے کہ سب پوٹھوہاری ہوگئے۔ اکٹھے اسکول جاتے، ساتھ کھیلتے، فلمیں دیکھتے ( شروع شروع میں یا کہہ لیجیے کہ بچپن میں گھر والوں کے ڈرسے چھُپ چُھپا کے)۔وہ لوگ روہتک، سہارن پور وغیرہ سے آئے تھے۔ اُن کا علاقہ ”ڈھولی کھال “ کہلاتا تھا اوراردو بول چال ذرا مختلف تھی، اُس اردو سے مختلف جو ہمیں پڑھائی جاتی تھی۔ برسوں بعد علاقائی بُعَد کا اندازہ ہوا۔ یہ علاقہ اُتر پردیش اور پنجاب کی کچھ ایسی سرحد پہ واقع تھا کہ پنجاب والے انہیں اپنا نہیں مانتے تھے اور اُترپردیش والے اپنی طرف سے دھتّا بتا دیتے تھے۔ یوں انہوں نے صدیاں، دونوں علاقوں کی سرحد پہ بیٹھے گزار دیں۔ شاید اس لیے کہ آنے والے وقت میں انہیں پوٹھوہاری بننا اور کہلانا تھا!
قریب ترین سینما، خورشید سینما تھا- محلے سے کوئی پانچ میل دُور - شاید پانچویں چھٹی جماعت میں تھے۔ بھارتی فلمیں لگتی تھیں۔ پاکستانی فلمیں بھی اچھی ہوتی تھیں۔بھارتی فلموں پر اُس وقت پابندی لگی جب فلم ”جال“ ریلیز ہوئی۔ تب کالج میں جاچکے تھے۔”جال“، لیاقت روڈ پر نشاط سینما میں دکھائی جارہی تھی۔ لہٰذا دیکھ لی تھی۔پابندی اُس کے بعد لگائی گئی۔ پاکستانی فلم سازوں نے، دراصل، خاصا ”پھڈا“ ڈال دیا تھا کہ ہماری فلمیں پِٹ رہی ہیں، اِس لیے بھارتی فلموں کی درآمد بند کی جائے۔ اور ایسا ہی ہوا!
خورشید سینما تقسیمِ ہند سے پہلے بنا تھا۔ تب اُس کا نام کیا تھا، نہیں معلوم۔ایک بار شاید عید کے دن کوئی نئی فلم لگی۔ بڑا رش تھا۔ ٹکٹ مِلنا ناممکن نظر آتا تھا۔ کھڑکی توڑ کیفیت تھی۔ اتنے میں ایک محلّے دارمِل گئے۔ بڑے تپاک سے سلام دعا، عید مبارک، خیر مبارک کے مراحل سے گزرے۔ اُن کی محلّے میں درزی کی دکان تھی اور تکیہ کلام تھا۔ ”ہور کوئی خدمت ساڈھے لَیک“ ( ہمارے لائق کوئی اورخدمت)! وہ کہنے لگے۔ سینماکے مالکان میرے دوست ہیں۔ اُن سے مِلنے آیا تھا۔ ناظر نے اُن سے کہا کہ بہت رش ہے۔ کھڑکی تک ہم پہنچ نہیں سکتے۔ دوٹکٹ لے دیں۔ اِس پر تھوڑی دیر مراقبے میں رہے پھر بولے۔ ” اَیہہ تے مشکل اِیہہ۔ ہور کوئی خدمت ساڈھے لَیک“(یہ تو مشکل ہے۔ ہمارے لائق اور کوئی خدمت)!
 ذرا آگے بڑھیں تو راجہ بازار شروع ہوجاتا تھا۔ دائیں بائیں سڑکیں پھوٹتی تھیں۔ دائیںجہاں ڈنگی کھوئی، گنج منڈی، نرنکاری بازار اور بائیں ہاتھ چڑھائی چڑھتی کلاتھ مارکیٹ جو آگے صرافہ بازار سے مِل جاتی۔یہاں دو سڑکیں پھوٹتی تھیں۔ ایک کلاتھ مارکیٹ اور دوسری پُرانا قلعہ کی جانب۔ سڑکوں کے ”دو شاخے“ پر بڑی سی بزازی کی دکان”سیٹھی کلاتھ ہاﺅس تھی۔ پتا نہیں بھیرہ کا کوئی کھتری ہندو دکان دار چھوڑ کے نکلا تھا یا کسی آنے والے مسلمان مہاجر نے بسائی تھی۔ مالک کا بیٹا ہائی اسکول میں کلاس فیلو بنا۔ اس کی باتوں سے تو اندازہ ہوتا تھا کہ دکان متروکہ املاک کے محکمے نے انہیں الاٹ کی تھی۔ پھر کباڑی مارکیٹ۔ اس کے بعد اشیائے خور و نوش کی ایک بڑی تھوک مارکیٹ ۔ اور آخر میں راجہ بازار چوک جو بعد میں فوارہ چوک کہلایا۔ کباڑی مارکیٹ کے ساتھ ہی سرِ راہ تھوک کپڑے کا ایک بڑا ۔ اُن بازاروں اور منڈیوں کی دکانوں کو، کئی برس گزرنے کے بعد بھی، دیکھ کے یوں محسوس ہوتا تھا گویا مالکان ابھی ابھی اُٹھ کے ”بھاگے “ہیں اور اُن کی جگہ ”نئے مالکان“ نے لے لی ہے۔ کچھ دکان دار مہاجر تھے تو کچھ ”مقامی مہاجر“۔ ایسا ہوتا ہے!دائیں ہاتھ کی بڑی مارکیٹ اور ایسی کئی مارکیٹیں جموں و کشمیر کے مہاراجوںکی املاک تھیں۔ سامنے دکانیں اور پیچھے بڑے بڑے صحن، اور شاید،رہائشی مکان۔ اُس مارکیٹ میں ایک بڑی سی دکان تھی۔ اتنا ہی بڑا بورڈ لگا تھاجس پر ایک گُرزیا مگدر اُٹھائے پہلوان کی تصویر۔ اور بڑے بڑے الفاظ میں پتا نہیں کیا.... خالص دیسی گھی سٹور۔ ایک بار اُس دکان پہ چھاپہ پڑا اور سِیل(Seal) کردی گئی۔پتا چلا کہ پچھلے بڑے صحن میں ”دیسی گھی“ بنایا جارہا تھا۔آلوکی لگدی سے۔ اور یہ کام وہ لوگ کررہے تھے جنہیں آگ اور خون کی ندّیاں پار کرکے یہاں آئے زیادہ دن نہ بیتے تھے۔ شاید ہوس یا لالچ اِسی کا نام ہے !ویسے راجہ بازار کی اُن منڈیوں سے ، جانے کب سے، جموں اور کشمیر کے دُور افتادہ علاقوں تک، اور جہلم تک پورے پوٹھو ہار میں اناج اور کریانے کا سامان بھیجا جارہا تھا۔ جب بسیں اور باربر داری کے ٹرک نہیں ہوتے تھے تو کشمیر کو سامان کی فراہمی بیل گاڑیوںکے ذریعے ہوتی تھی۔ اُن بیل گاڑیوں کو پوٹھو ہاری زبان میں” کرانچیاں“ کہاجاتا ہے اور اُن کا بہت بڑا اڈا بنی مائی ویروپہ تھا۔ یہ کرانچیاںتو راولپنڈی آکرداستان گو نے بھی دیکھیں لیکن تب یہ جموں اور کشمیر کے دُوردراز دیہات،قصبوں اور شہروں کو سامان پہنچانے کا کام ترک کرچکی تھیں کہ تنگ پہاڑی سڑکوں پر اب بسیں اور ٹرک آچکے تھے۔ اُدھر جہلم تک سامان کی سپلائی ریل گاڑی سے ہوتی تھی اور پوٹھوہار کے جن علاقوں میں ریل گاڑی کی رسائی نہیں تھی، وہی کرانچیاں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بسیں اور ٹرک مال پہنچاتے تھے۔ انیس سو پچاس کے عشرے میں اُن بڑی تھوک منڈیوں میں بھیڑ بھاڑ، ٹرکوں اور بیل گاڑیوں (کرانچیوں)کی مسلسل آمد و رفت، سامان لادنے اور اُتارنے کا مسلسل عمل تو داستان گو نے بھی دیکھا۔ جو سڑک گنج منڈی میں داخل ہوتی تھی، اُس کے ُنکڑ پر ایک ٹھیلے والا بڑے سے تسلے میں کوئی پکوان سجائے کھڑا ہوتا تھا۔ خوشبو اچھی آتی تھی۔ ٹھیلے کے آس پاس چند گاہک کھڑے ہوتے۔ اور وہ پلیٹوں میں پکوان ڈال ڈال کے انہیں دیتا جاتا۔ چوّنی کی پلیٹ ہوتی۔ یادش بخیر،اُسی عرصے میں ناظر اورداستان گو کے ”گروپ“ میں دو نئے دوستوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔ ایک خالص مقامی پوٹھوہاری اسلم اور دوسرا ناظر کا ایک سابق ہم وطن۔ وہ بھی اسلم، طے پایا کہ دونوں ”اسلموں“ میں امتیاز کے لیے مقامی اسلم کو، اسلم دھوبی کہا جایا کرے گا کہ وہ واقعی دھوبی تھا۔ میرے گھر سے قریب اُس کے ابّا نے گھر ہی میں کپڑوں کا مَیل کاٹنے کی بھٹی لگا رکھی تھی۔ ایک گدھا اُن کی ذاتی /نجی ملکیّت میں تھا جس پر بھٹی سے نکلے کپڑوں کی دھلائی کے لیے ”لادیاں“ نالہ لئی پہ لے جائی جاتی تھیں۔ اسلم نے بخوشی اور برضا و رغبت نیا نام قبول کرلیا۔ پانچویں جماعت تک ہمارے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھا اور پھر کپڑوں کی دُھلائی میں اپنے ابّا کے ساتھ”فل ٹائم“ شریک ہوگیا۔ دوسرے اسلم کے ابّا کو نر نکاری بازار کے شروع ہی میں ایک دکان کا چوتھائی حصّہ الاٹ ہوگیا تھا اور انہوں نے وہاں خواتین کی ضروریاتِ آرائش کی چھوٹی موٹی چیزوں سے کام کا آغاز کیا ہوا تھا۔ ”نرنکاری“ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے سِکھوں کی سب سے بڑی مارکیٹ تھی۔ وہ اُسی طرح چھوڑ کے ”راوی پار“ چل دیئے اور مہاجر اور ”مقامی مہاجر“ نئے مالک بن گئے۔ آج بھی اُس بازار کا نام ”نرنکاری بازار“ ہی ہے۔ رہے نام اللہ کا!دوسرا اسلم چھٹی جماعت کے بعد اسکول کو داغِ مفارقت دے کر اُس ”ایک بٹا چار“ دکان کا ہورہا۔ ابّا کا ہاتھ کم بٹاتا، مشکلات زیادہ پیدا کرتا تھا۔ ہم ٹہلتے ٹہلاتے وہاں پہنچتے تو وہ بھی دکان چھوڑ، ہمارے ساتھ ہولیتا، یہ سوچ کر کہ چلو کچھ” آوارگی“ ہوجائے گی۔ سچی بات تو یہ کہ کچھ دنوں سے ہمیں وہ تسلے والا پکوان اچھا لگ رہا تھا۔ ایک روز چاروں نے اکنّی اکنّی مِلا کر چوّنی پوری کی اور ٹھیلے والے سے پوچھ ہی لیا”راجہ جی، ایہہ کیہہ پکا ہویا نیہہ۔“(راجہ جی یہ کیا پکایا ہوا ہے؟) ٹھیلے والے نے ایک پلیٹ میں پکوان ڈال کے ، پلیٹ پر چمچہ بجایا اور ایک گاہک کو تھماتے ہوئے جواب دیا،”نَڈھیو، ہیس نا ناں تے مانہہ وی نئیں پتا۔ پکانڑے ناں کم ماڑی گھر والی کرنی اینہہ۔ چیزاں مَیں خریدی گِن ناں۔ گاﺅاں، مجّھاں ،بکریاں نیہں دل، گردے، اوجھڑی، پھِپھڑے تے ہور وی جو لَبھے۔“ (لڑکو، اِس کا نام تو مجھے بھی معلوم نہیں۔ پکانے کا کام میری بیوی کرتی ہے۔ مَیں سامان لاتا ہوں۔ گائے، بھینس، بکری کے دل، گردے، اوجھڑی، پھیپھڑے، اِس کے علاوہ اور جو کچھ بھی مِل جائے۔)خوشبو دل کو بھارہی تھی۔ چار آنے اُس کی ہتھیلی پہ رکھے۔ اُس نے پکوان پلیٹ میں انڈیلا اور چار عدد چمچوں کے ساتھ ہمیں تھما دیا۔ سب نے مِل جل کر چٹخارے لے لے کے کھایا۔ اور اُس کا نام سوچتے رہ گئے۔



(12)
Image result for urdu bazar rawalpindi

پتا نہیں، کیسے، پہلے پہل بچوں کے رسالوں، پھر ”بڑوں“کے رسالوں اور افسانوں، ناولوں کی لَت لگ گئی تھی۔ اردو بازار کے دونوں ُنکڑوں پہ پُرانے رسالوں اور کتابوں والے کباڑی بیٹھتے تھے۔ اِس زمانے میں لاہور سے ”بچوں کی دنیا“ ،”تعلیم و تربیت“ وغیرہ آتے تھے۔ ”تعلیم و تربیت“ پر لکھا نعرہ تو آج بھی یاد ہے، ”آٹھ سے اَسی سال تک کے بچوں کے لیے“۔ ایک دو مہینے پرانے رسالے اور کہانیوں کی کتابیں سستے داموں مِل جاتے تھے۔ جب بھی جیب اِجازت دیتی کچھ نہ کچھ خرید لاتا اور پڑھتا۔ ایک بار محلّے ہی کا ایک دوست، جسے رسالے پڑھنے کا شوق تھا، کچھ رسالے مانگ کے لے گیا۔ جو اُس کے ابّا نے ”ضبط“ کرلیے کہ اُن کی نظر میں اسکول کی کتابوں کے علاوہ کچھ پڑھنا ”گناہ“ تھا۔ بڑی مشکل سے اپنے رسالے ”واگزار“ کرائے۔ ذرا اور بڑے ہوئے تو نسیم حجازی، ایم اسلم، تیرتھ رام فیروز پوری،قیسی رامپوری اور ایسے ہی ”بھاری بھرکم“ ناول نگاروں اور ”اُن کے ناموں سے بھی زیادہ بھاری اور جسیم ناولوں کے ناموں سے کان آشنا ہوئے۔ نسیم حجازی کے ناول ”اسلامی تواریخی“ اور ایم اسلم، تیرتھ رام فیروز پوری اور قیسی رامپوری وغیرہ کے ”سماجی اصلاحی“ ہوتے تھے۔ اُن سے بہت کچھ سیکھا۔ نئے نئے الفاظ، فقروں کی ساخت۔ یہ کتابیں بھی، دیکھا جائے تو اساتذہ سے کم نہ تھیں۔ ”گھمسان“ کا لفظ پہلے پہل غالباً نسیم حجازی کے کسی ناول میں پڑھا ، کہ اُن کی زیادہ تر کہانیاں ”اسلام اور کُفر کے درمیان معرکوں“ پر مبنی ہوتی تھیں، اور اُن میں ہر آٹھ دس صفحوں کے بعد ”گھمسان کارن“ پڑتا تھا، مذکورہ پکوان کو داستان گو نے ”گھمسان“کا نام دیا، کہ جس طرح ”گھمسان کے رن“میں ہر قسم کی لڑائی ہوتی ہے، اُسی طرح مذکورہ پکوان میں بھی مویشیوں کے ہر قسم کے” فاضل پرزہ جات “ڈالے جاتے تھے۔ نسیم حجازی، راولپنڈی سے شائع ہونے والے روزنامہ کوہستان کے چیف ایڈیٹر بھی تھے۔ اُس زمانے میں بھی انہوں نے اپنے ”طویل و عریض،دوسیری،پنج سیری“ ناولوں کی ”ڈکٹیشن“ لینے کے لیے منشی رکھے ہوئے تھے۔ ایک روز کوہستان میں ایک اشتہار پر نظر پڑی کہ نسیم حجازی صاحب کو ایسے ہی ”منشی“ کی ضرورت ہے۔ ”بے جی“ کی بات یاد آگئی، ”کتنے بیسی کا سَو ہوتا ہے۔“ داستان گو نے بھی حاضری کو مقدّر جانا۔ انہیں اندازِ تحریرا ور اِملا پسند آئے مگر داستان گو کو اوقاتِ کار کی طوالت اور تنخواہ نہ بھائے۔ یوں بیل منڈھے نہ چڑھی۔ وہ بھی کیا زمانہ تھا کہ اسلامی تواریخی ناول کا آغاز شمشیر و سناںسے، سماجی، معاشرتی، اصلاحی ناول کی ابتدا کسی پُرانے ریکارڈ یا اذان سے ہوتی تھی۔سچ تو یہ ہے کہ بچوں کے ادب، ادبی جریدوں اور ناولوں تک داستان گو کی رسائی میں بڑا ہاتھ، اس وقت کی ”آنہ لائبریریوں “ کا رہا۔ ہر رسالہ یا کتاب تو خریدنے کا یارا نہ تھا۔ اب معلوم نہیں ایسی لائبریریوں کا وجود ہے یا نہیں۔ گھر سے قریب ترین ”آنہ لائبریری“ ،باغ سرداراں کے مقابل منڈی سے ملحق رہائشی آبادی کی گلیوں میں تھی۔ پتا نہیں متروکہ تھی ، کوئی ہندو سِکھ علم پرور چھوڑ کے گیا تھا یا کسی مسلمان مہاجر نے بنیاد رکھی تھی۔ داستان گو جب ”واقفیت اور ضمانت“ کا حوالہ لے کے وہاں پہنچا تو ایک بزرگ رہائشی یا مالک لائبریری سے ملاقات ہوئی۔ وہ اکنّی لے کر دو دن کے لیے کتاب دیتے تھے۔ مکانات کی ترتیب اور بناوٹ بتاتی تھی کہ بٹوارے سے پہلے آبادی غیر مسلموں کی رہی ہوگی۔ لائبریری والے کمرے میں ”دڑونی“ کی طرح بھری کتابوں کی قدامت بھی اُن کے ”قبل از بٹوارا“ ہونے کی چغلی کھاتی تھی۔ لائبریرین ایک نستعلیق اردو بولنے والے بزرگ تھے۔ نئی کتابیں تو وہ خرید کے رکھتے ہی تھے۔ مسلم ہائی اسکول اور بعد میں گورڈن کالج اور برٹش کونسل لائبریریوں نے قدرے آسانیاں پیدا کردیں۔ برٹش کونسل لائبریری صدر میں گوشت، سبزیوں اور منیاری کی بڑی مارکیٹ کے پورچ کے اوپر تھی۔ وہاںساکھ بڑی تگ و دو کے بعد بنی۔ گورڈن کالج سے ضمانت لے کے دینی پڑی ۔
اِسی میں راجہ بازار سے سیکنڈ ہینڈ دستی گھڑی خریدنے کی کہانی تو رہی جاتی ہے۔ اسلم کی ایک چوتھائی دکان نر نکاری بازار ہی میں تھی۔ ایک دن وہ ہم سب کو کھینچ کھانچ کے گھڑیوں کے ایک کھوکے پر لے گیا۔ کھوکے کے اوپر لگے چاروں شیشوں پر جو زمانے کی مار سہہ سہہ کے دُھندلا چکے تھے، طرح طرح کی پرُانی، استعمال شدہ دستی گھڑیاں پوری ”چھَب“ سے لٹک رہی تھیں۔ دکان دار نے سب کا تیل پانی چیک کرکے اور چمکا کرکار آمد بنارکھا تھا۔ اور صحیح وقت بتا رہی تھیں۔ اسلم غالباً پہلے ہی کئی روز سے جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے انگلی سے ایک گھڑی کی طرف اشارہ کیا اور دکان دار سے نکال کے دکھانے کا کہا۔ دکان دار بھی، لگتا تھا، ہم لوگوں سے بالا ہی بالا، اسلم کی بَک بَک جھِک جھِک سے زچ ہوچکا تھا۔ گھڑی نکال کے فوراً سامنے رکھ دی۔ ”چل“ رہی تھی، وقت ”بتا“ رہی تھی۔ سیکنڈ بتانے والی سُوئی بھی مسلسل بازو جھُلائے جارہی تھی۔ سب نے گھڑی کا نام دیکھا۔ Newton لکھا تھا۔ دکان دار نے 20 روپے دام بتائے اور کہا یہ تازہ مال ہے۔ صرف چند مہینے چلی ہوئی ہے۔ ایک ضرورت مند بیچ گیا۔عام حالات میں تو چاروں میں سے کسی نے بیس روپے یکمشت دیکھے بھی نہ ہوں گے۔ لیکن سب کی دوستی داﺅ پہ تھی۔ سودا 14 روپے میں طے ہوگیا۔ دکان دار کو شاید دو روپے بیعانہ دے کر گھڑی محفوظ کرائی اور دو دن بعد باقی پیسے دے کے اُس کی ”واگزاری“ کا وعدہ کرلیا۔ دکان دار کو بھی ایسے پھُٹکل گاہک کہاں مِلے ہوں گے؟ یہ کوئی عجوبہ نہیں تھا۔ اُن دنوں سبھی پھُٹکل تھے۔ اس نے وعدہ کیا کہ گھڑی کو مزید تیل ویل دے کے” اور بہتر“ بنادے گا۔ کِسی نے دوچار جلدیں باندھیں، کسی نے ابّا سے چھپ کے دو چار فالتو کپڑے نالہ لئی پہ جاکے دھوئے، خود اسلم نے اپنی ایک چوتھائی دکان پر خواتین کے ہاتھ آرائش کی کچھ چیزیں ”چھپر“ میں بیچیں اور پیسے پورے کرکے گھڑی خرید لی اور اسلم نے کلائی پہ باندھ لی۔ دوچار دن اِترایا پھِرا ۔ اور پھر گھڑی نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ بند ہوجاتی، کبھی آگے نکل جاتی تو کبھی پیچھے رہ جاتی۔ دکان دار کے پاس لے کے گئے تو اس نے کہہ دیا کہ ”جناب مَیں نے آپ کو بالکل صحیح حالت میں دی تھی۔ چلتی ہوئی، سیکنڈ ہینڈ چیز ہے، خراب ہوگئی، اِس کی کوئی گارنٹی تو نہیں ہوتی۔اور چند دنوں میں گھڑی بالکل ہی بند ہوگئی۔ اسلم نے کہیں پڑھ لیا کہ نیوٹن بہت بڑا سائنس دان تھا۔ اسلم بھی مزاج کا سخت کڑوا۔ گھڑی کی چین بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں میں پکڑ کے دوسرے ہاتھ سے اُسے جوتے مارتا اور نیوٹن کی ”شان“ میں پوٹھوہاری گالیوں کا بگھار لگاتا۔ آخر ”نیوٹن“ گھڑی اپنے انجام کو پہنچی۔ سب نے مِل کے اُسے نالہ لئی کے سپرد کردیا۔
داستان گو چھٹی یا ساتویں جماعت میں آچکا تھا۔ ہاں ایک بات اور رہ گئی۔ پرائمری اسکول والوں نے ”اچھے“ نمبروں سے پاس کیا تھا۔ ہم بھی نتیجے والے دن، جو ہر سال 31 مارچ کو آتا تھا، جاتی سخت سردیوں میں پانی سے تَرگلاب کے پھولوں کا ہار اپنے ماسٹر صاحب کو پہنانے کو لے جاتے تھے کہ اُن دنوں متاعِ فقیر اتنی ہی ہوسکتی تھی! داستان گو نے سوچ رکھا تھا کہ گھر سے نزدیک کوئی ایسا اسکول ڈھونڈا جائے جو چھٹی سے دسویں جماعت تک ہو کہ بیچ میں آٹھویں کے بعد بدلنا نہ پڑے۔ وہ دن تھے کہ اسکول والے بھی میرٹ کا خاص خیال رکھتے تھے۔ پیسے کے پیچھے نہیں بھاگتے تھے۔ انہیں احساس ہوتا تھا کہ جن سے ہم پیسے مانگیں گے اُن کے پاس پیسے ہوں گے ہی نہیں۔ زیادہ تر لوگ ایسی ہی ایک سی کشتیوں میں سوار تھے۔ سب ٹاٹ اسکول تھے۔ تاہم، راولپنڈی میں دوہائی اسکولوں کے درمیان میرٹ پہ طلبا کو لینے کا مقابلہ چلتا رہتا تھا۔ دونوں اسکول تعلیمی قابلیت دیکھتے تھے یا کرکٹ، ہاکی، فٹ بال ایسے کھیلوں میں دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے تھے۔ داستان گو کھیل کود میں بالکل پھِسڈّی تھا۔ تعلیمی قابلیت اور اہلیت جانچنے کے لیے دونوں اسکول باقاعدہ ٹیسٹ لیتے تھے۔ پرائمری پاس کرنے کا سرٹیفکیٹ گو دیکھا جاتا لیکن ٹیسٹ ضروری ہوتا تھا۔ سارے شہر کے لڑکے جنہوں نے مختلف پرائمری اسکولوں سے پانچویں جماعت پاس کی ہوتی ، مشترکہ ٹیسٹ کے مرحلے سے گزرتے تھے۔ جو ٹیسٹ میں کامیاب ہوجاتا، اسے چھٹی جماعت میں داخلہ مِل جاتا۔ اتنا ضرور ہوتا کہ دونوں اسکول ٹیسٹ کی تاریخیں الگ الگ رکھتے تھے۔ ایک اسکول کا نام مسلم ہائی اسکول اور دوسرے کا اسلامیہ ہائی اسکول تھا۔ اسلامیہ ہائی اسکول کی دوبرانچیں تھیں۔ بڑی برانچ تو بہت ہی فاصلے پہ تھی۔ مری روڈ پر، انگریزوں کے زمانے کے کمپنی باغ اور بعد میں لیاقت باغ کے بالکل سامنے۔ کمپنی باغ سے لیاقت باغ یوں بنا کہ اُسی ”باغ“ میں پاکستان کے پہلے وزیرِاعظم لیاقت علی خان کو گولی مار کر شہید کیا گیا تھا۔ فاصلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مَیں مسلم ہائی اسکول کے ٹیسٹ میں شامِل ہوگیا۔ یہ اسکول سید پور روڈ جس کا پرُانا نام ”رام ُکنڈ“ تھا، پر واقع تھا۔ گھر سے بمشکل آدھ میل دُور۔ بیچ میں اصغر مال روڈ اور اُس سے آگے اسکول تک کھیت ہی کھیت۔ ٹیسٹ سے ایک دن پہلے سوچا، اسکول دیکھ لیں ذرا۔ گیٹ سے داخل ہوئے تو دنیا ہی کچھ اور تھی۔ پہلے بڑا سا میدان، چاروں طرف سبزے کی بہار۔ درمیان میں برگد کا چھتنار پیڑ، اردگرد تقریباً تین فٹ اونچی گول پختہ منڈیر۔ یہاں صبح کلاسیں شروع ہونے سے پہلے اسمبلی ہوتی تھی۔ آگے کی شکل میں اسکول کی عمارت جس میں بڑے بڑے کلاس روم تھے۔ درمیانی قطار کے پیچھے بالکل وسط میں ہیڈ ماسٹر اور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر صاحبان کے دفاتر۔ بائیں جانب کمروں کی قطار کے بعد وسیع و عریض کھیل کا میدان۔ اُس کے گرد لگ بھگ پانچ فٹ اونچی پختہ چار دیواری۔ چار دیواری کے بعد کھیت شروع ہوجاتے، دُور کچھ کچے پکے مکان۔ یہ کوئی گاﺅں تھا۔ یوں سمجھئے کہ یہاں شہر کی حدیں ختم ہوجاتی تھیں۔ اسکول کی عمارت کے پیچھے بھی ایک میدان تھا جہاں کرکٹ اور دیگر کھیلوں کی پریکٹس ہوتی تھی۔ اُس جانب بھی ایک چھوٹا گیٹ تھا آنے جانے کے لیے۔ باہر دو تین گلیاںنئے نویلے، روشن، ہوا دار ایک اور دو منزلہ مکان۔ دائیں جانب یہ گلیاں اصغر مال روڈ کو جا چھُوتیں۔ اصغر مال روڈ کا یہ رخ آگے مری روڈ سے جا مِلتا تھا۔ ایک بات تو بھول ہی گیا۔ اسکول کے بڑے گیٹ کے ساتھ ایک خوبصورت مکان تھا۔ یہ اسکول ہی کا حصّہ اور ہیڈ ماسٹر صاحب کی رہائش گاہ تھی جو اُنہیں اسکول کی طرف سے مِلی ہوئی تھی۔
اگلے روز ٹیسٹ ہوا۔پاس ہوئے اور مڈل کی کلاسیں یعنی چھَٹی جماعت شروع ہوگئی۔ اسکول کا حدود اربعہ دیکھ دیکھ کے حیرت ہوتی تھی کہ کون لوگ تھے جنہوں نے اپنے اور دوسروں کے بچوں کے لیے اِتنی رقم خرچ کرکے یہ زمین حاصل کی اور اِتنی بڑی اور خوبصورت عمارت کھڑی کردی۔ پاکستان بننے سے پہلے اسکول کا نام ” خالصہ ہائی اسکول“تھا۔ یہ سِکھوں کے فلاحی ادارے کی تخلیق تھا۔ اُس کی انتظامیہ کے لوگ، کرتادھرتا، اساتذہ اور دیگر ملازمین جانے کِس طرح جانیں بچاکے یہاں سے نکلے ہوں گے؟جانے کتنے جان سے گئے ہوں گے؟ 1956ءمیں اُس اسکول میں آیا تو ہیڈ ماسٹرترمذی صاحب تھے۔ اساتذہ بھی اُن کے ساتھ ہی ہجرت کرکے یہاں آئے تھے۔اِس کا اندازہ اُن کے باہمی تعلقات سے ہوتا تھا۔ علم کی روشنی بانٹنے والے یہ اساتذہ ہوشیار پور سے ہجرت کرکے آئے ، خالصہ ہائی اسکول کو مسلم ہائی اسکول کا نام دیا اور مہاجر اور مقامی طلبا پر ، بلا استثنیٰ و تخصیص، اپنا علم نچھاور کرنے لگے۔ وہ جانے کیاکچھ چھوڑ کے گھروں سے نکلے یا نکالے گئے ہوں گے؟ اُن کا سب کچھ چِھن گیا، لیکن علم تو کوئی نہ چھین سکا ہوگا۔ پھر جو یہاں سے نکلے یا نکالے گئے ہوں گے اُن پہ کیا بیتی ہوگی؟ وہ جانیں بچا کر کِن راہوں سے گزرے ہوں گے؟ سرحد پار کرکے کہاں کہاں بِکھرے ہوں گے؟ اُن کا عِلمی خزینہ بھی تو کوئی نہ چھین سکا ہوگا۔ایسے ہی اَن گنت روشن ستارے، پھُلجڑیوں کی مانند چُھوٹ کے نہ معلوم کہاں کہاں گرے ہوں گے؟ ایک چینی کہانی ہے۔ اُس میں108 ہیرو ہیں۔ غالباً 14ویں صدی میں لکھی گئی تھی۔ عنوان تھا ” دلدلوں کے ہیرو“۔ اُس کا راوی کہتا ہے کہ ایک خانقاہ میں صدیوں قبل کسی درویش نے108 روحوں کو قید کردیا تھا۔ صدیوں بعد ایک اور درویش، فوجی جرنیل کے روپ میں آتا ہے اور اُن روحوں کو آزاد کردیتا ہے کہ گنبدِ بے درنے یہ پروانہ اُسی کے نام لکھ رکھا تھا۔ جس اندھے کنویں میں وہ روحیں قید تھیں، درویش اُس کا ڈھکنا اُٹھاتا ہے تو کنویں سے اِک شرار سا اُٹھتا ہے اور بلندی پہ جاکے شرربارہوجاتا ہے۔ چنگاریاں یہاں وہاں، ہر جاگرتی ہیں اور بدی کی قوّتوں کو نیست و نابود کردیتی ہیں۔
داستان کہتے کہتے تقدیم و تاخیر، اکثر و بیشتر، چک پھیریوں کا روپ دھار لیتی ہیں۔ لیکن داستان تو کمہار کا چاک ہے ، سَوتے کی مانند راہ نکالتی چلی جاتی ہے۔ ہاں، کبھی کبھی خود داستان گو ہی کو اونگھ آلیتی ہے۔ ثاقب لکھنوی نے کہا ہے:

زمانہ بڑے شوق سے سُن رہا تھا
ہمیں سو گئے، داستان کہتے کہتے

لیکن داستان گو سویا نہیں، بس اونگھ جاتا ہے۔ اور یہ داستان تو سفرِ حیات ہے۔ لمبا! اور کبھی جی چاہنے لگتا ہے، عبدالحمید عدم کی طرح:

گرچہ سفر حیات کا بے حد طویل تھا
مَیں میکدے کی راہ سے ہو کر گزر گیا

Image result for poet abdul hamid adm

مگر داستان گو میکدے کی راہ سے ہوکر گزرنے والا نہیں۔ کہتا جائے گا۔ بھَلے تاخیر ہو یا تقدیم!

(13)
آفتاب اقبال شمیم

اِک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں

No photo description available.         Image result for aftab iqbal shamim


داستان گویہی کہہ سکتا ہے کہ ” ٹوُٹ ٹوُٹ جاتا ہے سلسلہ تکلّم کا“۔ پینسٹھ ستر برسوں پہ پھیلی یادوں کو سمیٹنامشکل ہوجاتا ہے۔ فکرو خیال کے سَوتے جدھر جی چاہتا ہے،بہہ نکلتے ہیں۔ ہائی اسکول کا آخری سال تھا کہ اپنے ہی ایسا ایک خدائی خوار مِل گیا۔ ایک دن چھُٹی کے بعد دونوںگاﺅں کی طرف نکل گئے۔ داستان گونے کہا ناں کہ اسکول سے آگے گاﺅں شروع ہوجاتے تھے۔ بستے جھُلاتے، او بڑکھابڑپگڈنڈیوں پہ چلتے چلے گئے۔ ارادہ بَری امام جانے کا تھا۔ نیم پہاڑی پگڈنڈیاں کہیں سے کہیں لے جاتی ہیں۔ چھوٹے فاصلے، لمبے ہی نہیں ہوتے، انجانی جگہوں پہ بھی لے جاتے ہیں۔ ایک جگہ گوردوارہ اور چھتناربرگددکھائی دیا۔ قریب ہی چھوٹی سی دیہی آبادی تھی۔ آبادی میں چلے گئے۔ ُنکڑ پر ہی ایک ڈھابا تھا۔ اس نے بتایا کہ گاﺅں کا نام ُکرّی ہے۔ پہلے یہاں سِکھ بھی رہتے تھے۔ یہ سامنے اُن کا گوردوارہ ہے۔ چند سیڑھیاں چڑھ کے ایک چہاردری اور ساتھ برگد کا پیڑ، قریب میں ایک کنواں۔ کچھ پھول بوٹے بھی بنے ہوئے تھے۔لیکن گوردوارہ اب سنسان، اُجاڑ تھا۔ دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب،عمارت شکست وریخت کا شکار تھی۔ برسوں بعد اُس گاﺅں کے بارے میں پڑھاتو پتا چلا کہ اس کا پورا نام کُرّی شہر ہے۔ شہر کا لفظ اِس بات کا غماّز ہے کہ ایرانی قلمرو کے دَور میں بھی ایک شہر کی صورت آباد تھا کیوں کہ شہر کا لفظ خالصتاً فارسی زبان کا ہے اور اِس لحاظ سے راولپنڈی کی نسبت کُرّی شہر کہیں زیادہ قدامت کی تاریخ رکھتا ہے۔ کُرّی کا سنسکرت میں لفظی مطلب ” نرسل“ ہے۔ اسے پنجابی لفظ ُکڑی پڑھاجائے تومطلب بنتا ہے ” لڑکی“۔لیکن ایرانی دور میں یہاں شاید پنجابی کا اتنا دخل نہ تھا یا تھا؟ ممکن ہے کہ اُس زمانے میں راول نامی گاﺅں کا وجود بھی ہو جو بعدازاں راولپنڈی بنا -لیکن یہ سب امکانات ہیں-یہ بھی پتا چلا کہ اُس گاﺅں کے گوردوارے میں گورمکھی میں پکے روغن سے ایک شبد بھی لکھا ہوا تھا جو بابا فرید شکر گنج نے کہا تھا۔ سِکھوں کی مذہبی کتاب گورو گرنتھ صاحب میں بابا فرید شکر گنج کے ایک سو تیس سے زائدحمدیہ شعرشامل ہیں جو گوروگرنتھ صاحب میں شامل ہونے کے بعد سکھ مت کے شبد بن گئے۔ گوردوارے کے اندر کچھ لکھا ہوا تو داستان گونے بھی دیکھا لیکن تب پتا نہ تھا کہ وہ بابا فرید شکر گنج کا حمدیہ شعر یا سِکھوں کی بانی ہے۔ اب تو سنا ہے وہ قدیم گاﺅں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کا گلی محلہ بن چکا ہے۔ کیسے کیسے نشاں بے وجود ہوگئے!خیر وہاں سے ہوتے ہوئی برَی امام پہنچ گئے۔ گاﺅں کا نام نور پور شاہاں ہے۔ سنگلاخ، بے گیاہ پہاڑی علاقہ اچانک گھنی جھاڑیوں ، چھتنار درختوں سے ُگندھا خِطّہ کیسے بن جاتا ہے،یہ قدرت ہی کی بوقلمونی ہوسکتی ہے۔انسان کے بس کی بات نہیں۔
بَری شاہ لطیف کا مزار ایک حجرہ ہے ۔ وہاں تک جو پگڈنڈی جاتی ہے، اُس کے دونوں جانب سرسبز جھاڑیاں ہیں، فضا میں آبی دُھند سی پھیلی رہتی ہے کہ ساتھ ہی گہرے ڈھلواں آب درّے میں شوریدہ سرندی بہتی ہے۔ درّہ تنگ اور ندی اتنی اونچائی سے پتھروں سے ٹکراتی ہوئی بہتی ہے کہ فضا میں پھوار سی بلند ہوتی ہے جو بڑھ کے آبی دُھند بن جاتی ہے۔ ایسی آبی دُھند، داستان گونے چین میں کنفیوشس کے آبائی گاﺅں کے قریب ایک آبشار سے پھوٹتی دیکھی۔ گاﺅں نور پور شاہاں اور بَری شاہ لطیف کے مزار پر جانے کی بات اُن دنوں کی ہے جب بَری شاہ لطیف کو مزار میں کچھ آرام محسوس ہوتا ہوگا۔ ایوب خاں نے اپنے دورِ حکمرانی میں کوئی اور اچھا کام کیا ہو یا نہ کیا ہو، کم ازکم ایک اچھا کام یہ کیا کہ بَری شاہ لطیف کے سالانہ عرس کے نام پر ” ملک گیر ہڑبونگ“ پر پابندی عائد کردی۔ جب سے راولپنڈی میں آکر بسے تھے، ہر سال، بَری شاہ لطیف کے عرس کے دنوں میں شہر میں رہنادُوبھر ہوجاتا تھا، حالانکہ راولپنڈی کے محلہ شاہ چن چراغ میں، اُن کے چچا یا تایا زاد شاہ چن چراغ کے مزار پر بھی عرس ہوتا تھا، پورے عقیدت و احترام سے۔بَری شاہ لطیف کا عرس ایک ایسا ”تیوہار“ بن گیا تھا کہ ملک بھر سے نچنیائیںیاطوائفیں یہاں ڈیرے ڈال لیتی تھیں۔ بڑے بڑے جواری بقول شخصے ٹرنک بھر بھر کے نوٹ یہاں لاتے تھے۔اِسے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سات آٹھ دنوں میں ملک بھر میں کہیں ناچ گانا نہیں ہوتا تھا، سوائے بَری شاہ لطیف کے مزار پر۔ ملک بھر میں کہیں جوُا نہیں ہوتاتھا، طوائفوںپر نوٹ نہیں برسائے جاتے تھے، سوائے بَری شاہ لطیف کے مزار پہ۔ دونعرے اُن دنوں عام تھے۔ جواری جو جیت جاتے، بکرا بلاتے ہوئے نعرہ لگاتے، ”بَری کھوٹی قسمت کردتی آکھری“۔جوہار جاتے اور نوٹوں بھرے ٹرنک جوئے اور نچنیاﺅں پر ” بیل برَکھا“ میں خالی کردیتے، اُن کا نعرہ ہوتا، ”او، بَری گھر بُلا کے لُٹیاای۔“ بَری کا لقب انہیں صوفیائے وقت نے، اُن کی ریاضت اور تصوّف کی دریوزہ گری پر دیا ہوگا۔ بَری کا ماخذ، عربی لفظ برا ¿ت ہے۔ اس کا مطلب بُرائی سے پاک یا بُرائی سے نجات دلانے والا۔اُن کے لقب ”برَی امام“ کا ایک مطلب ” خشکی کا امام“ بھی لیا جاتا ہے۔اُن کے مزار پرجو ”ہڑبونگ“ ہوتی تھی، آزادی یا تقسیمِ برِصغیر سے بہت پہلے سے چلی آرہی ہوگی۔ بہر حال، ایک بدعت کا خاتمہ ہوا۔ اب وہاں امن اور سکون پر ورآبی دُھند تھی۔ بعد کے حکمرانوں کو ”عوام کی فلاح“ کے حوالے سے سُوجھا کہ برَی امام یا برَی شاہ لطیف کے مزار پر سہولتیں مہیا کی جائیں۔ اُن کا پُر شکوہ مزار، ازسرِ نو تعمیر کیا جائے اور اُسے بَری شاہ لطیف ” کمپلیکس“ کا نام دیا جائے۔ داستان گونے دیکھا کہ یہ مزار یا ” کمپلیکس“، اسلام آباد میں وزیرِ اعظم کے ”شاہی محل“ سے کچھ کم نہیں۔ بلکہ لطیفہ تویہ چل نکلا کہ ایک ”حاجت مند“ کاوزیرِ اعظم ہاﺅس میں اپائنٹمنٹ تھا۔ وہ ایک جیسی عمارتیں دیکھ کے بَری شاہ لطیف کے مزار یا ” کمپلیکس“ میں گھُس گئے۔ دوسرے صاحب جو بَری شاہ لطیف کے ” توسط“ سے اللہ میاں سے حاجت روائی کی دعا لے کے گئے تھے، وزیرِ اعظم ہاﺅس جاپہنچے۔ ظاہر ہے دونوںبے مراد لوٹے۔ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ منیر نیازی کا ایک واقعہ یاد آگیا ( دروغ بر گردنِ راوی)ایک شنا سانے دیکھا کہ منیر نیازی بہ چشمِ نَم داتا گنج بخش کے مزار پہ ہاتھ پھیلائے کچھ بُڑ بُڑا رہے ہیں۔ بڑا حیران اور مشوّش ہوا۔ بھاگا بھاگا گیااور دوچار دوستوں کو بلالایا۔منیر نیازی اُسی یکسوئی کے ساتھ ہاتھ پھیلائے مسلسل بُڑ بُڑائے جارہے تھے۔ دوست ُچپکے ُچپکے اُن کے عقب میں پہنچے۔ کان لگا کے سُنا تو منیر نیازی ” دعا“ مانگ رہے تھے،”یا اللہ میرے اور داتا صاحب کے حال پہ رحم فرما۔“ یہی حال، حکمران ایک بار پھر، بَری شاہ لطیف کا کررہے ہیں۔ نور پور شاہاں کے بارے میںروایت ہے کہ اُس کا اصل نام ” چور پور“ تھا کہ یہاں چوروں، ڈاکوﺅں کا راج ہوا کرتا تھا۔ امام بَری شاہ لطیف نے اپنی نیک خوئی سے چوروں، ڈاکوﺅں کے دل موہ لیے۔ اور ” چور پور“، نوُر پوربن گیا-لیکن لگتاہے اُن کی کرامات نے آج کے چوروں، ڈاکوﺅں کے آگے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ اُن کے آگے پیچھے، دائیں بائیں ہر طرف زبانِ حال میں ” مافیاز“ نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔
داستان گو کے منجھلے بھائی کی شادی ہوچکی تھی۔ انہوں نے مظفر آباد سے کوٹلی وغیرہ تک کی بس یا ٹرک ڈرائیوری میں جہلم کو اپنا ”جنکشن“ بنالیا تھا۔ وہاں ریلوے لائن کے اُس پار مکان ذرانئے بنے ہوئے تھے۔ شاید بٹوارے سے پہلے کے تھے۔ شہر میں داخل ہوں تو پہلے بسوں کے اڈے آتے تھے۔ ہر طرف جانے والی مسافر بسیں۔ریلوے لائن پار کریں تو ڈیڑھ دو سو گزآگے سڑک شاخہ بلکہ ” ڈیڑھ شاخہ“ ہوجاتی ۔ چوڑی سڑک ،مزیدچوڑی ہوکے سیدھی نکل جاتی۔ اُدھر صفائی ستھرائی بھی کچھ زیادہ تھی۔ پتلی سڑک جوبائیں ہاتھ کو پھوٹتی تھی، اُس پہ منجھلے بھائی، ایک قدرے پرانے مکان کا آدھا حصہ کرائے پر لے کے بھابی کو وہاں لے گئے تھے۔ یعنی آدھے حصے میںمالک یا مالکن مکان اورآدھے میں ہمارے بھائی بھاوج۔ کنبوں اور خاندانوں میں شادیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ اللہ اللہ ! دوہرے تہرے بلکہ ” مُکعَّب “رشتے بن جاتے ہیں۔ برسوں یہی طے نہ ہوپایا کہ انہیں بھابی کہا جائے یا پھوپی! خیر حالیہ رشتے کے لحاظ سے بھابی کہنا ہی مناسب تھا۔
 جہلم اپنی جگہ کسی رومانس سے کم نہ تھا۔تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو اس شہر کے قریب ہی وہ مقام ہے جہاں سکندر اور پورس کی فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔ جہلم کے لیے یونانی مورّخوں نے لفظ "Hydespes" استعمال کیا ہے۔ اساطیری حوالوں سے اس شہر کی تاریخ مہا بھارت اور کورو، پانڈو کے درمیان جنگ اور کوہستانِ نمک میں پانچ پانڈو، بھائیوں کی جلاوطنی تک جاتی ہے۔ اِس کے اوّلین باشندے جاٹ اور راجپوت بتائے جاتے ہیں۔ لفظ ”جہلم “ کے ماخذ کے بارے میں کئی روایات ہیں، بعض محققّین کا کہنا ہے کہ یہ لفظ ”جل“ ( پوّتر پانی) اور” ہم“ (برف) سے مِل کر بنا ہے۔ یعنی جلہم- بہتا پوّتر پانی جو ہمالیہ کے برف پوش پہاڑوں سے آتا ہے۔ کچھ مورّخوں کی رائے ہے کہ صدیوں قبل ایران کا دارائے اعظم معرکے سر کرتا اور منزلیں مارتا یہاں پہنچا تو اِس جگہ اپنا علَم گاڑتے ہوئے کہا ” جائے علَم“ یعنی پھریرا لہرانے کی جگہ۔ جائے علَم وقت کے ساتھ ساتھ بگڑتے بگڑتے جہلم بن گیا۔ ایک روایت حضرت سعد بن ابی وقاص کے حوالے سے بھی ہے۔ تبلیغ اِسلام کے لیے چین جاتے ہوئے وہ یہاں سے گزرے تو دریا میں ایک شہر کا عکس دیکھ کر اُسے جھیلم( ” چاندنی رات میں لبِ دریا، شہر“ )کہا۔
منجھلے بھائی کے گھر سے نکل کے ریلوے لائن تک آئیں تو دائےں ہاتھ دھوپ میں نہا یا یورپی وضع کا سفید ریلوے اسٹیشن ہے۔ پٹری پار کرکے بائیں جانب پھوٹتی سڑک پہ بڑھیں تو- اُسے کاروباری علاقہ یا اندرونِ شہر بھی کہہ سکتے تھے۔ اب گلیوں ، محلّوں اور سڑکوں کے نام بھول چکا۔چمکتی پٹری تھوڑا سا بَل کھاکے دریائے جہلم کے اُس پُل کا رخ کرتی ہے جہاں سے داستان گو نے، داستان کا آغاز کیا تھا۔ لیکن یہ دوسری سمت ہے۔ یہاں سے ریل گاڑی پُل پار کرکے سرائے عالمگیر کی طرف بڑھتی ہے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اِس پُل پر آتے جاتے ریل گاڑی کو پُل کے ُنکڑ پہ یا عین درمیان پتلی سڑک پہ چلتے ٹریفک کی طرح رُک کے انتظار نہےں کرنا پڑتا۔ بس، دھڑ دھڑاتی، پُل کے آہنی گارڈروں پرگَڑگَڑاتی، اورخود انہیں بھی گَڑگَڑاتی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اُس میں سفر کروتو یوں لگتا ہے ریل گاڑی کھڑی ہے۔ بجلی اور ٹیلی فون کے کھمبے دوڑتے ہوئے گزر رہے ہیں۔ اُن کے تار درمیان میں جھول کھاتے ہیں، اُوپر اُٹھتے ہیں، جھول کھاتے ہیں، اورپھر اُٹھتے ہیں۔ یوں جیسے زندگی کا سلسلہ اِسی طرح چلتا چلاجائے گا۔لیکن عملی زندگی میں ایسا ہوتا نہیں! کانٹا بدلنے کے تار بھی پٹری کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔بلکہ چلتے چلے جاتے تھے۔اور پھرکہیں کہیں رُوپا رنگ میں رنگا کالا انجن ، دھواں چھوڑتا، سیٹی بجاتا، بھاپ سے چلتا انجن - بڑے سے گول پیٹ میں بھرا ڈھیروں پانی، آتش دان میں ڈالنے کو کوئلے کا ڈھیر، اور آگ بھڑکانے کے لیے پھاوڑا بردار، کوئلے کے برادے سے بھجنگ فائر مین، آگے انجن ڈرائیور۔ وہ چھت سے لٹکتا موٹا تار کھینچتا ہے تو سریلا لیکن کان پھاڑو سِل بج اٹھتاہے۔رات کے سفر میں ریل کی پٹری موڑ لیتی ہے تو انجن کے سر پہ لگابرقی ہَنڈا اِتنی تیز روشنی پھینکتا ہے کہ پٹری حدِ نظر تک چمکتی چلی جاتی ہے۔ بعدمیں آنے والے انجنوں میں وہ حُسن نہ رہا یا شاید لوگ پہلے والے حُسن کو بھول نہ سکے ۔ ریل گاڑی سے بچپن سے گُندھا وہ رومانس ہی تھا کہ برسوں بعد ٹرانس سائبیرین ریلوے میںسفر تک لے گیا۔ پیکنگ (چین) سے لندن ( برطانیہ) تک۔ ریل گاڑی چھَک چھَک چلتی چلی گئی۔ کئی دن ریل گاڑی ہی میں گزرے۔ جس ملک کے جس شہر میں جی چاہتا، اُتر جاتے، سیر وسیاحت کے بعد جب ،جس شہر میںجی چاہتا ،سوار ہوجاتے۔
رَو پھر بہک گئی۔ جہلم کے اُسی بازار میں دو سنیما گھر تھے۔ دیوار سے دیوار جُڑی تھی۔ اور سنیما سے آگے دریائے جہلم۔ دائیں ہاتھ اُس مسجد کو راہ جاتی ، جس کی سیڑھیاں دریا کے پانی میں اُترتی چلی گئی تھیں۔ اب جانے وہ منظر ہے یا نہیں۔ ایک سنیما گھر میں بھارتی فلم لگی تھی۔ تب بلیک اینڈوائٹ فلمیں بنتی تھیں۔وہ فلمیں سنیما کے پردے پر چلتیں تو پورے پردے کوروپا سمان بنادیتیں۔ اِسی لیے اُسے پردہ ¿ سیمیں یا سِلوَر اسکرین کہاجانے لگا۔ اُن فلموں کا اپنا رومانس تھا، جو رنگین فلمیںپیدا نہ کرسکیں۔ اور ہوسکتا ہے، جنہوں نے پردہ ¿ سیمیں والی فلمیں نہ دیکھی ہوں، انہیں رنگین فلموں نے اپنے رومانس میں لے لیا ہو۔ فلم کا نام تو اب یاد نہیں۔ہاں، ہیروئن کا نام نروپارائے تھا۔ داستان گو فلم دیکھنے ُگھس گیا۔ ساری فلم میں نروپارائے ہیروئن کم، ہیرو کی امّاں یا بڑی بہن زیادہ لگتی رہیں۔پھر بھارتی فلموں پہ پابندی لگ گئی۔ برسوں بعد وی سی آر پہ بھارتی فلمیں آنے لگیں تو نروپار رائے کو ہمیشہ، فلموں میں ہیرو یا ہیروین کی امّاںکے روپ میں ہی دیکھا۔ وہ بنی بنائی امّاں تھیں۔
جہلم شہر سے باہر جرنیلی سڑک پار کریں تو ایک نئی آبادی شروع ہوجاتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے خوبصورت کوارٹرنما مکان۔ بالکل دریا کنارے! یہ جہلم چھاﺅنی کا علاقہ تھا۔ ابّا کو یہاں کام مِلا تو وہ کچھ دنوں کے لیے اِدھر آگئے۔ بڑا صاف ستھرا علاقہ تھا۔ سڑکوں کے دورَویہ درخت۔ جی بہت لگتا تھا وہاں لیکن اسکول بھی جانا ہوتا تھا۔ ابّا کے ساتھ وہاں کھڑکیاں دروازے لگانے والے ترکھان بھی کام کرتے تھے۔ انہوں نے داستان گو کی پڑھائی لکھائی سے متاثر ہو کر لکھنے پڑھنے کے لیے ایسی میز بنادی، جو میز کم، کسی بنیے یا منیم جی کی بہی کھاتے رکھنے والی صندوقچی یا ” صندوکڑی“ زیادہ لگتی تھی۔ اُس کے نیچے چار پودنی سی ٹنگڑیاں تھیں۔ یعنی بیٹھ کے اور،وہ بھی جُھک کے کام کیا جائے! یہ اُن کی تھی یا دُوراندیشی کہ پڑھ لکھ کے بھی جیون بھر گردن میں ” سَریا“ نہ آئے۔ سرجھکا رہے!
ایک دن منجھلے بھائی اپنی بس میں آزاد کشمیر کے شہر میر پوراور وہاں سے کوٹلی لے گئے۔ بڑا پُرانا شہر تھا اور داستان گو نے شاید پہلی اور آخری بار دیکھا۔ جہلم سے زیادہ دُور نہ تھا۔تب اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ شہر منگلا ڈیم کی جھیل میں غرق ہوجائے گا اور کناروںپر اِک نیا میرپور اُبھرے گا۔ آباد ہوگا۔کوٹلی کے راستے ،پہاڑی پتلی سڑکیں، سبزہ، سبز شاخوں کے بوجھ سے جھکے پہاڑی درخت - حُسن ِفطرت کو کوئی کیا نام دے؟ سوچ جواب دے جاتی ہے۔ ایک پہاڑی ڈھابے پر منجھلے بھائی نے بس روک لی اور اسٹیئرنگ پہ بیٹھے بیٹھے بلند آواز میں ڈھابے والے سے پوچھا،”راجہ جی، کَیہہ پکایا نیہہ؟“(”راجہ جی،کیا پکایا ہے؟“)ڈھابے والا بھی شاید انتظار میں تھا۔ ”تھان“ پہ بیٹھے بیٹھے اُتنی ہی بلند آواز میں جواب دیا، ”اچَھو جی، اچَھو“اج کُکوڑکو ٹھانا ایہہ“۔(”آئیے، آئیے آج مرغا ذبح کرکے پکایا ہے۔“) اُس نے پوٹھوہاری زبان میں خالص پہاڑی زبان کا ”تڑکا“لگایا تھا۔ اِس علاقے کے کشمیری یا پہاڑی باشندے لگتا ہے، خاصے دانا اور دُور بین تھے- زمانہ1950-ءکا عشرہ غالباً آدھے سے زیادہ گزر چکا تھا۔ کشمیریوں اور میر پور سے ملحقہ پہاڑی علاقوں کے باشندوں نے ابتدامیں تو ایک ایک کرکے اور پھر ”قطار اندر قطار“ برطانیہ جانا شروع کردیا۔ملکہ پکھراج نے پہاڑی لوک گیت ” کونجاںجانہہ پیاں بٹوت“ جی جان سے گایا تھا۔ کشمیری اور پہاڑی لوگ ہوشیار نکلے۔ بٹوت کے بجائے برطانیہ کا رخ کرلیا۔برطانیہ والے بھی اپنی نوآبادیوں کی بدولت خاصے پیٹ بھرے ہوچکے تھے۔انہیں اپنے کارخانے چلانے اور محنت مزدوری کے لیے لیبر کی ضرورت تھی۔ تارکینِ وطن کے لیے قوانین بھی سخت نہ تھے، لہٰذا سب کو ”جی آیاں نوں“ ، ” اَچھو جی“، ”راجہ جی بھئی وَنجو“،”بالو، باشو“ کہا گیا۔ دوسری برطانوی نوآبادیوں، افریقہ، جزائر شرق الہند، جزائر غرب الہند، پولی نیشیا، غرض ہر طرف سے برطانیہ پر مزدوروں اورنیم ہنر مند کا رکنوں کی یلغار ہوئی۔ آزاد کشمیر والوں کی دیکھا دیکھی، پاکستان، خاص طور پر، پوٹھوہار میں آباد کشمیری مہاجرین نے بھی برطانیہ کا رخ کرلیا۔اُن میں سابق پاکستانی، حال بنگلہ دیشی بھی شامل تھے۔ یوں تب تو برطانیہ لیبر کے معاملے میں بڑا ” خوش قسمت“ نکلا لیکن بعد میں جب ایک کے بعد ایک اقتصادی بحران نے رستہ دیکھ لیا تو برطانیہ والے بھی بِلبلا اُٹھے۔لیکن تب تک، خصوصاً، کشمیری اور پاکستانی لیبر پاﺅں جما چکی تھی۔ انہوں نے اصلی نقلی کا غذات پر بھائی، بھتیجوں کو بھی لے جانا اوربُلوانا شروع کردیا۔چھُٹی پر ” وطن“ آتے، شادی کرتے اور بیویوں کو بھی ساتھ لے جاتے۔ بھارت بھی اس سلسلے میں پیچھے نہ رہا۔ برسوں قبل برطانیہ جانا ہوا تو ایک دوست لندن کے علاقے آل گیٹ اور ساﺅتھ آل لے گئے۔ غالباً ساﺅتھ آل تب ایسا علاقہ بن چکا تھا کہ کوئی انگریز (مقامی )وہاں رہائش پزیر نہ تھا۔ سِکھوںکی اکثریت تھی۔کہا جاتا تھا کہ بھارت اور پاکستان سے غیر قانونی طور پر آنے والے تارکینِ وطن زیادہ ترساﺅتھ آل ہی میں ”آباد“ تھے۔ دودھ دہی، مٹھائی کی دکانیں، انڈین، پاکستانی ریسٹوراں۔ ہر طرف پنجابی سنائی دے رہی تھی اردو تب سننے میں آتی جب مخاطب اردو بولنے والا ہوتا۔ اور اب تو سِکھ حضرات نے خود کو بین الاقوامی شہری کہنا اور کہلانا شروع کردیا ہے۔ چینی میں ایک کہاوت ہے کہ ” دنیا میں جہاں کہیں پانی بہتا ہے، وہاں چینی موجود ہے۔“یہی کہاوت اب سِکھوں پر بھی صادق آتی ہے۔ داستان گو کی یادوں میں ہے کہ آل گیٹ کے سنیما ہال میں دیوانند کی فلم ” دیس پردیس“ کا پریمیئر تھا۔ سنیما ہال بھی کیا تھا۔ گردوپیش کا منظر دیکھ کے راولپنڈی کے راجہ بازارکا ” روز سنیما“ یا جہلم کا وہ سینما ہال لگتا تھا،جہاں نروپا رائے کی فلم دیکھی تھی۔ نمائش کار کو ساﺅتھ آل میں سنیما نہ مِلا تو اُس نے آل گیٹ میں فلم لگالی- نتیجہ - ساﺅتھ آل والوں نے اپنی اپنی دکانوں پر ”وقفہ برائے فلم دیس پردیس“لگایا، پردے گرائے اور آل گیٹ میں فلم دیکھنے پہنچ گئے۔ ہال، واقعتاً ، کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ فلم میں دیوآنند نے اداکارہ پونم ڈِھلوں کو متعارف کرایا تھا۔ گانے بھی بھارتی اور پاکستانی تارکینِ وطن کے دِلوں کو چھُو لینے والے تھے۔ دیو آنند نے وہ فلم غیر قانونی تارکینِ وطن کے موضوع پر بنائی تھی۔ ظاہر ہے اُس میں مرچ مسالہ بھی تھا لہٰذا کھڑکی توڑ رش لیتی رہی۔ ایک لطیفہ تو رہا جاتا ہے۔ ساﺅتھ آل میں کوئی مقامی انگریز کسی کا پتا پوچھتا ہواپہنچا اور ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ ایک سردار جی نے دروازہ کھولا، اور نام سن کر جواب دیا۔ ”No foreigner lives here“اور دروازہ بند کردیا۔
راولپنڈی میں میاں محمد بخش کانام بھی کانوں میں پڑا کہ بڑے صوفی شاعر تھے، پنجابی، پہاڑی اور پوٹھوہاری زبان میں ”سیف الملوک“ ایسا صوفیانہ شاہکار تخلیق کیا۔ کھڑی شریف جہلم سے چند میل کے فاصلے پہ ہے۔ دینہ کی طرف سے جائیں تو منگلا کے راستے فاصلہ اور کم ہوجاتا ہے۔ تصوّف اور ذو معنویّت کے حوالے سے اُن کے ایک شعر سے آگے کچھ نظر نہیں آتا۔ کہتے ہیں:

لوئی لوئی بھرلے کڑیئے جے تُدھ بھانڈا بھرنا


شام پئے بِن شام محمد گھر جاندی نیہہ ڈرنا

Image result for sufi poetry mian muhammad bakhsh

یہاں شام اور شیام (کرشن جی) کی ذو معنویّت جانے کہاں لے جاتی ہے!
ایک دن منجھلے بھائی صاحب سے کہا کہ دینہ سے ایک راستہ ”ٹِلّہ جوگیاں“ جاتا ہے۔ وہاں جانا ہے۔ انہوں نے اپنے کسی دوست ڈرائیور کے سپرد کردیا جو ا ±دھر ہی جارہا تھا۔ کسی اور شہر کو۔ اُس نے ایک جگہ لبِ سڑک اُتارا اور سامنے اشارہ کرتے ہوئے بولا، ”ٹِلّہ اُدھر ہے۔ آگے پیدل جانا ہوگا۔ تھوڑا سا فاصلہ ہے۔“اتنا کہا اور بس بڑھادی۔ ایسے ہی جیسے ٹٹوُ بڑھایا جاتا ہے۔ اِس زمانے کی بسیں، ٹٹوُوں سے کم نہ تھیں۔ پگڈنڈیوں پہ چلتے چلتے تھک گیا، لیکن ٹِلّہ دُور ہوتا چلا جارہا تھا۔ کب تک دُور ہوتا۔ وہ داستان گو تک یا داستان گو اُس تک پہنچ ہی گیا۔ اِس ٹِلّے یا ٹیلے کی تاریخ بھی بڑی عجیب ہے۔ جہلم سے لگ بھگ 15 میل کے فاصلے پر ۔ مشرق کی سمت قلعہ روہتاس ہے جو دینہ سے صرف 5 میل کے فاصلے پر ہے۔
داستان گو ٹِلّے تک پہنچا تو عجب اُجاڑ اور بیابان سا لگا۔ ہزاروں برس کی تاریخ کے حامِل ٹِلّہ (یا ٹیلہ) جوگیاں میں کچھ تو رونق ہونی چاہیے تھی۔ مانا کہ یہ ہندوﺅں کا مقدّس مقام تھا۔ سِکھ مت کے بابا گورونانک نے بھی یہاں چِلّہ کھینچا تھا۔ 1947ءمیں بٹوارے کے بعد وہ لوگ یہاں سے چلے گئے یا جانے پہ مجبور کردیے گئے تو بھی اُسے آثارِ قدیمہ کا درجہ دیا، یا سیاحتی مرکز بنایا جاسکتا تھا۔ یہ اصل میں کوہستانِ نمک ہی کی تقریباً 3 ہزار فٹ بلند چوٹی ہے۔ سورج ونشی ہندو جانے کہاں کہاں سے یہاں آکے سورج دیوتا کی پوجا کرتے تھے۔ دھیرے دھیرے یہ جوگیوں کا مرکز بن گیا۔ یہاں اُن کے کان چھیدے جاتے تھے اور وہ ”کَن پَھٹے“ کہلاتے تھے۔ سوچنے کی بات ہے انہیں گھر گھر جا کے بھیک ہی مانگنا ہوتی تھی تو کان چھدوانے کیا ضروری تھے؟ بھیک یوں بھی مِل جاتی۔ معذرت کے ساتھ داستان گو، جوگیوں اور دھرم کرم والوں کی بارے میں کچھ نہ کہے گا کہ اکثر اُن کے منہ سے نکلی کوئی بات پتھرکی لکیر ہوجاتی ہے۔ ساتویں یا آٹھویں جماعت کا قصّہ ہے۔ داستان گو گھر کے دروازے پہ کھڑا تھا۔ گلی جو پہلے کچی ہوتی تھی، کمیٹی والوں نے لال اینٹوں سے پکی کروادی تھی۔ نالیاں بھی بن چکی تھیں۔ اُن دنوں، ایک بات تو ہے کہ کام کرنے والے کام کرتے تھے۔ عام لوگوں کے لیے سہولتوں کا خیال رکھا جاتا تھا۔ سامنے والے میدان میں جہاں دوچار برس پہلے تک ایک پڑوسی ہل چلا کے مکئی بویا کرتے تھے، ابّا نے اپنے کلیم (Claim) کے حساب سے 48x48 فٹ کا پلاٹ لے کر دیواریں اُٹھا دی ہوئی تھیں۔ میدان کا باقی حصّہ بھی متروکہ اِملاک کے دعوے دار حاصل کرچکے تھے اور سڑک تک دیوار چلی گئی تھی۔ سڑک پہ یاد آیا۔ نئے نئے راولپنڈی آئے تو کیا زمانہ تھا۔ برقی قمقمے شاید بڑی سڑکوں پہ ہوتے تھے۔ گلیوں اور اُن سے ملحقہ چھوٹی سڑکوں پر شام ڈھلے مٹی کے تیل والی لالٹین نما شمعیں روشن ہوجاتی تھیں۔ یہ شمعیں سات آٹھ فٹ اونچے کھمبے پر لگی ہوتی تھیں۔ وہ کھمبے بھی جِستی، ڈھلائی والے، خاکستری رنگ کے ہوتے تھے۔ روز شام کو میونسپلٹی کا کارندہ کندھے پہ بانس کی چھوٹی نسینی لٹکائے، ہاتھ میں مٹی کے تیل کا ڈبہ اور جھاڑن لیے آتا۔ سیڑھی لگا کے چمنی صاف کرتا، تیل ڈال کے روشن کرتا۔ اور صبح کی روشنی ہونے پر آکے بجھادیتا۔صبح سویرے میونسپلٹی کی پانی والی گاڑی چھڑکاﺅ کرتی۔ اُس پہ پانی والا گول ٹینک ا ورپیچھے، اُس سے جُڑا فوارہ نما بڑا پائپ لگا ہوتاتھا۔ گاڑی آہستہ آہستہ چلتی اور پانی کی پھوار سڑک دھو دیتی۔ یہ پھوار بڑی اچھی لگتی تھی۔ شہر میں کہیں کہیں پیٹرول پمپ تھے۔ ظاہر ہے، گاڑیاں زیادہ نہیں ہوتی تھیں۔ بسوں کے اسٹاپ بھی مقررہ جگہوں پر پختہ ،چھتے ہوئے۔اور اُن کے پیٹرول پمپ اندرہی ہوتے تھے۔ عام اِکّا دکّا لبِ سڑک پیٹرول پمپ پرائیویٹ گاڑیوں، ٹیکسیوں اور کاروں کے لیے ہوتے تھے۔ اوراُن پیٹرول پمپوں کی ذہنی تصویر ماضی میں لے جاتی ہے۔ پمپ میں شیشے کے دو گول لمبوترے مرتبان سے لگے ہوتے تھے۔ پمپ والا ہاتھ سے مُٹھ والا ہینڈل دائیں بائیں گھماتا۔ پمپ کے اندر لگی مشین کے ذریعے ایک مرتبان خالی ہوتا تو دوسرا بھرتا چلا جاتا۔ اُن دنوں ابھی لٹر(Litre) کا زمانہ نہیں آیا تھا۔ پیمانہ گیلن کا ہوتا تھا۔ شاید دو مرتبان مِل کے ایک گیلن بنتے تھے۔ آج سوچو تو سب، الف لیلہ کی کہانی سمان لگتاہے!
بات ہورہی تھی گھر کے دروازے میں کھڑے ہونے کی۔ کہاں سے کہاں پہنچ گئی! دروازے پہ ٹاٹ کا پردہ پڑا رہتا تھا۔ اتنے میں دائیں جانب سے ایک بزرگ آتے دکھائی دیے۔ قریب آکر رک گئے اور غور سے دیکھنے لگے۔ داستان گو سمجھا اب کچھ مانگیں گے۔ ابھی کچھ کہنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ وہ بولے،”بیٹا دو باتیں کہوں گا۔ ایک تو یہ کہ تمہارا طویل سفر شمال کی جانب ہوگا اور برسوں جاری رہے گا۔ دوسرے یہ کہ تم پڑھنے لکھنے میں اچھے ہو لیکن تعلیم مکمل نہیں کرپاﺅ گے۔ “ اتنا کہا اور آگے بڑھ گئے۔ بعد کے برسوں میں دونوں باتیں حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئیں۔ سوچتا ہوں کیا وہ بھی کوئی جوگی تھے؟ لباس تو جوگیوں والا نہ تھا۔ واپس ٹِلّہ جوگیاں پہ چلتے ہیں۔ وارث شاہ کی ہیر میں ذِکر ہے کہ رانجھے نے ٹِلّہ جوگیاں پر کان چھدوائے تھے۔ کیوں؟ اُسے کان چھدوانے اور جوگی بننے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟ اگر ظالم سماج نے مسائل کھڑے کرہی دیے تھے تو اُن کا سامنا کرتا اور ہیر کو لے آتا۔ اُدھر کیدو اور کھیڑے ہیر کو لے جانے کے چکر میں تھے تو رانجھا کان چھدوا کر جوگی بننے کا کھٹ راگ پھیلائے ہوئے تھا۔ ایسے میں مِلن کیسے ہوتا؟وارث شاہ کا کہناہے کہ اُس وقت تِلّہ جوگیاں کے گورو کا نام بال ناتھ تھا۔ لہٰذا اُسے بال ناتھ کا ٹیلہ یا ٹِلّہ بھی کہا جاتا ہے۔لیکن ایک بات۔ اُن کا سنجوگ ہوجاتا تو کہانی ختم ہوجاتی۔ کوئی وارث شاہ کو نہ پوچھتا۔ کہانی تو مِلن کی آس کے ساتھ زندہ رہتی ہے! اور اُسی عالم میں سفر کرتی ہے۔
بابا گورو نانک کے چِلّے والی جگہ پر، مہاراجہ رنجیت سنگھ نے، بابا گورو نانک کی یاد میں ایک حوض بھی تعمیر کرایا تھا۔ انگریزوں نے بھی اپنے دورِ حکومت میں یہاں ایک تالاب بنوایا۔ بابا گورو نانک نے چِلّہ کھینچنے کے بعد ہی شاید یہ حمدیہ دوہرا کہا ہوگا، جس میں وحدت الوجود کی جھلک ہے:

ساس ماس سب جیو تمہارا توُ ہے کہرا پیارا
نانک شاعر ایہو کہت ہے سچے پروردگارا

مولانا محمد حسین آزاد اپنی تخلیقِ بے بدل ”آبِ حیات “میں اُردو زبان کی ترویج و ترقی کا قدم بہ قدم جائزہ لیتے پندرہویں صدی عیسوی میں آتے ہیں اوربرج بھاشا، پراکرت اور دوسری علاقائی زبانوں کے امتزاج اور ملاپ سے پروان چڑھتی اُردو زبان کے حوالے سے مثال دیتے ہیں تو اُن کے سامنے بابا گورو نانک کا یہ شعر آتا ہے، جس میں اُس وقت عربی اور فارسی کے الفاظ رواج پارہے تھے۔ اُس میں شاعر، پروردگارعلامتی الفاظ ہیں کہ برِ صغیر کے لوگ بھی بہ رضا و رغبت انہیں اپنی زبان کا جزو بنارہے تھے۔ مولانا محمد حسین آزاد نے بھگت کبیر کے بھی ایک ایسے ہی دوہرے کا حوالہ دیا ہے جو بابا گورو نانک سے لگ بھگ ستر برس پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

کبیر سر یر سرائے ہے کیوں سوئے سُکھ چین
کوُچ نگارا سانس کا باجت ہے دِن رین

اِس میں سرائے، کوُچ فارسی کے الفاظ ہیں۔
منجھلے بھائی برطانوی فوج میں رہ چکے تھے لہٰذا انہیں برطانیہ جانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئی اور ایک دن وہ بھی پاکستان چھوڑکے چل دیے۔ ترکِ وطن یا نقل مکانی کی دوسری لہر مشرقِ وسطیٰ کی طرف بڑھی۔ پہلے قطر، بحرین، اس کے بعد دوبئی اور دیگر خلیجی ریاستوں اور پھر سعودی عرب میں تیل کے چشمے پھوٹے۔ پہلے چھوٹے چھوٹے، اُس کے بعد بڑے بڑے۔ بدّوﺅں نے بادیہ پیمائی، بادیہ نشینی اور اونٹوں کی کھالوں کے خیمے چھوڑ بستیاں بسانا شروع کردیں۔ مکان بننے لگے اور ہمارے ہاں کے لوگوں نے اُن کا ہاتھ بٹانے اور پیسہ کمانے کے لیے اُدھر کا رخ کرلیا۔بڑے بھائی بھی اُن میں شامل تھے۔ پاکستان میں رہے تو راج مستری کے کام کاج کے حوالے سے ایک بار حسن ابدال گئے۔ کام ذرا لمبا تھا، لہٰذا داستان گو بھی موقع، چھُٹی مِلتے اور پیسے جیب میں آتے ہی اُن کی طرف چلا جاتا۔ راستے میں تاریخ، اساطیر، روایات اور آثارِ قدیمہ کے چند جھروکے آتے تھے۔ واپسی میں ایک بار ٹیکسلا میں رُک گیا۔
داستان گو پہلے کہیں کہہ چکا کہ پوٹھو ہار ماضی کو مصوّر کرنے کے لیے ایک پردہ ¿ زرنگار ہے تو ٹیکسلا کو اس پردہ ¿ زرنگار کا خوبصورت گوشہ کہیے۔ یہ بھی کہا جاچکا کہ معلوم تاریخ میں یہ شہر جواب چھوٹے سے قصبے کے روپ میں ہے، دوبار، اپنے اصل مقام سے ہٹ کے بسایا گیا۔ لگ بھگ تین ہزار برس کی تاریخ میں ٹیکسلا کبھی دارالحکومت رہا تو کبھی مذہبی علماءاور فلاسفروں کی دانش گاہ، جہاں برصغیر ہی نہیں دوسرے ملکوں سے بھی طلبا تحصیل عِلم کے لیے آتے تھے۔روایت کے مطابق یہ دنیا کی اوّلین دانش گاہ تھی جہاں جنگی علوم، طب، سیاسی علوم، فلسفہ، مذہب، زبان، ادب اور صرف و نحو کے مضامین کی تعلیم دی جاتی تھی۔


ساتویں صدی عیسوی کے اوائل میں بودھ مت کا چینی عالم شوان زانگ ( برِصغیر میں معروف نام ہیوَن سانگ) جب یہاں آیا تب، ٹیکسلا علمی شہرت کے حوالے سے دھندلکوں میں ڈوب رہا تھا۔ اُس سے بھی بہت پہلے، لگ بھگ 2400 برس پہلے سکندر اِس خِطے میں آیا تو اُس کے موّرخوں نے ٹیکسلا کو دریائے سندھ (اٹک) اور دریائے جہلم کے درمیان ” اہم ترین اور قابل ذکر شہر“ قرار دیا تھا۔ یہاں آثارِ قدیمہ کی کھدائی اور انہیں منظرِ عام پر لانے کا آغاز1850ءمیں ہوتا ہے جب ماہرِ آثار قدیمہ اور الیکزینڈر کنگھم یہاں آئے۔ وہ قرونِ اولیٰ اور قرونِ وسطیٰ کی تحریریں پڑھنے اور مطالب آفرینی میں بھی مہارت رکھتے تھے۔اس کے باوصف شہر کا اصل نام نیم تاب ہی رکھا۔ چند جگہیں جو کھدائی میں سامنے آئیں انہیں ڈھیری شاہاں ( شاہوں کی سرزمین) سرائے کھولہ، سرکپ، بھِر وغیرہ کے نام دیئے گئے۔سرائے کھولہ کے قریب ایک اور ندی، کلاندی موجود ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ ہمیں ٹیکسلا کے عجائب گھر میں پتھر کا ایک ایسا ٹکڑا بھی مِلتا ہے جس پر قدیم و متروک عبرانی زبان تحریر ہے۔ یہاں ایک ندی بھی ہے جس کے کنارے3100 برس قبل مسیح کی ایک آبادی کا سراغ مِلتا ہے۔ اساطیری روایات کے مطابق اس بستی کے لوگ نامعلوم وجوہ کی بنا کر شمال کی طرف نقل مکانی کرگئے ۔ تب اور آج بھی اس ندی کا نام تمرنالہ یا دھرم نالہ ہے۔روایت کے مطابق اِن ہی میں سے ایک سرسوَتی ندی ہے۔سرسوَتی دیوی۔عِلم کی دیوی! تب یہاں جو شہر آباد ہوا اُس کا نام ” تاکشا شیلا“ تھا جو بگڑتے بگڑتے ٹیکسلا بن چکا ہے۔ اور یہ بگڑا ہوا نام ” ٹیکسلا“ سکندرِ اعظم کا دیا ہوا ہے۔ 326 قبل مسیح میں جب وہ یہاں سے گزرا۔ ٹیکسلا یونیورسٹی کا وجود ہمیں8ویں صدی قبل مسیح میں مِلتا ہے۔ مہا بھارت کے مصنف ویاس، ممتاز ماہرِطب جیوَک اور سنسکرت کی صرف ونحوکے موجد پنینی نے یہاں سے تحصیلِ علم کیا۔ بھِر کی کھدائی سے جو آثار مِلے،اُن سے پتا چلتا ہے کہ سکندر اعظم نے یہاں قیام کیا تھا۔ اس کے ساتھ آنے والے یونانی موّرخ لکھتے ہیں کہ ٹیکسلا کی تجارتی سرگرمیاں برِصغیر کے گوشے گوشے اور وسط ایشیا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہاں کے باسی اپنے سرکے بال اور داڑھیاں ارغوانی، نیلے اور لال رنگ سے رنگتے تھے۔ قد آور دکھائی دینے کے لیے موٹے تلے والے جوتے پہنتے تھے۔ لوگ گھروں سے نکلتے تھے تو تالے والے نہیں لگاتے تھے۔ چوری، نقب زنی یا رہزنی کا خوف نہ ہوتا تھا۔ کاروبار،قول و قرار پر ہوتا تھا۔ تب اِس شہر کو بسے ایک ہزار برس ہوچکے تھے۔باختری یونانیوں نے تمر ندی کے کنارے نیا شہر بسایا۔ اُس دور کے یونانی اثرات گندھار افنِ مجسمہ سازی، فن تعمیر اورفن زیور سازی میںنظر آتے ہیں۔ بھِر سے مِلنے والے آثار قدیمہ سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہر کی اصل ساخت یا بناوٹ ایسی تھی گویا حکمران کے خیمے کے گرد مدوّر بستی۔ ٹیکسلا کے دورِ عروج میں یونانی طرزِ تعمیر غالب نظر آتا تھا تو اس کی گلیاں، محلے قدیم و متروک پشتو، پنجابی اور خروستی زبان سے گونجتے تھے۔ اِن کے علاوہ یونانی،سیتھی، مشرقی ایرانی علاقے کی مجوسی زبانیںبھی سنائی دے جاتی ہیں۔ شام کے وقت دانش گاہ، مادرِ علمی کے معبدوں میں آتش پرست، بودھ، جین، ویدانتی کسی بھی عصبیّت سے ماوراءمکالمہ کرتے اور اپنے علم وفضل کو جِلا دیتے۔ تب کوئی صلح کُل شہر تھا تو ٹیکسلا تھا۔ اِن کے علاوہ ڈھیری ہتھیار سے بھی آثار قدیمہ مِلے ہیں۔ سرسُکھ ٹیکسلا کے آثارِ قدیمہ کا تیسرا بڑا مرکز ہے۔
سر کپ، ٹیکسلا کا وہ روپ ہے، جو اُسے کشانوں نے دیا۔ ایک قلعہ بند شہر۔ چھٹی صدی عیسوی میں ہُن آئے تو انہوں نے اُس کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ اس کے بعد ٹیکسلا کو عظمتِ رفتہ حاصل نہ ہوسکی۔ گیارہویں صدی عیسوی میں ابوریحان البیرونی وسط ایشیا سے سفر کرتا یہاں پہنچا تو لوگ ٹیکسلا کا نام بھول چکے تھے۔ البیرونی کو اُس کانام ” بابر خانہ“ یا شیر کی کچھار بتایا گیا۔ اِس نام کی اساطیری روایت مہاتما بودھ کی جانب رخ کرلیتی ہے کہ مہاتما بودھ نے ایک فاقہ زرہ شیرنی کو بچانے کے لیے اپنا خون پلایا تھا۔ اتفاق سمجھئے کہ ایسی ہی روایت ٹیکسلا سے چند میل کے فاصلے پر مانکیالہ اسٹوپا کے حوالے سے بھی ملتی ہے۔داستان گو، اس کا تذکرہ مانکیالہ میں کرے گا! ایک اور روایت کے مطابق مہاتما بودھ نے دھرم راجک اسٹوپا کے پاس شیرنی کو اپنا خون پلایا تھا۔یہ بودھ اسٹوپا موریا مہاراجہ اشوک نے تیسری صدی قبل مسیح میں تعمیر کرایا تھا۔تقریباً8صدیوں بعد 1850ءمیں ماہر آثار قدیمہ الیکزینڈر کنگھم یہاں آئے تو اس شہر کو اصل نام” ٹیکسلا“ واپس مِلا۔ اُن کے علاوہ اِن آثار قدیمہ کی دریافت میں ماہرین آثارِ قدیمہ سرجان مارشل اور سرمورٹی مورو ہیلر کے نام بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ موئنجو دڑو کے آثار کی نشاندہی اور کھدائی کا سہرا بھی اُن کے سر بندھتا ہے۔
ایک یورپی محقق اور ادیبہ کرسٹینا ڈیمر(Christina Dameyer) کا کہنا ہے کہ ٹیکسلا سے ملنے والے بہت سے قدیم آثار اور اشیاءدنیا بھر کے بڑے عجائب گھروںمیں موجود ہیں، بہر حال بڑا اور خاصی حد تک مکمل ذخیرہ ٹیکسلا کے عجائب گھرمیں ہے۔ ٹیکسلا ہی میں سرکپ کے قریب ایک یونانی مندر کے آثار موجود ہیں۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برِصغیر میں اپنی طرز کا واحد نمونہ ہے۔ اسے جنڈیال کا نام دیا گیا ہے۔ اشوک کے دور سے تعلق رکھنے والے جولیان سے قرب و جوار کی سرسبز اوربَل کھاتی وادیاں بودھ بھکشوﺅں کے لیے بڑی ذہنی شانتی لیے ہوئے ہوتی تھیں۔ بھکشوجن سنگی چوکیوں پر رکھ کے کھانا کھاتے تھے، اُن کے آثار بھی یہاں خاصی حد تک محفوظ ہیں۔ متعدد اسٹوپا اور بدھ ستواﺅں کے مجسمے آج بھی اچھی حالت میں مِلتے ہیں۔
اور چینی بودھ عالم اور محقق شوان زانگ کا سرسری تذکرہ آیا۔ جس دور میں شوان زانگ ٹیکسلا آیا، ٹیکسلا کی عظمت کا سورج ڈھل رہا تھا۔ شوان زانگ نے ٹیکسلا کا حدود اربعہ تقریباً600مربع کلو میٹربتایا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ یہاں کا شاہی خاندان ختم ہوچکا تھا اور اب وہ کشمیر کا ایک باج گزار علاقہ تھا۔ شوان زانگ لکھتا ہے کہ یہ سارا خِطّہ زرخیز ہے اور بھرپور فصلیں دیتا ہے ۔یہاں ندی نالوں اور چشموں کی بہتات ہے۔ لوگ زندہ دل اور دلیر ہیں۔ لیکن بھکشو بہت کم رہ گئے ہیں۔ بودھ خانقا ہیں اب اُجاڑ اور بے آباد ملتی ہیں۔
آج کے دور کی ایک پیش رفت یہ جانیئے کہ ٹیکسلا کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکونے عالمی ورثے کا حِصّہ بنالیا ہے۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی۔ احمد حسن دانی بہت کچھ دامن میںلیے ہوئے ہیں۔ احمد حسن دانی اپنی تمام تر علمی قابلیت، صلاحیت اور زمین کی زیرِ زمین جیبوں سے نادر ونایاب درِّ شہوار نکال لانے کے باوصف ایک معصوم سی شخصیّت کے مالک تھے۔رنگ اس قدر گورا کہ زیادہ تر لوگ انہیں یورپی سمجھتے تھے۔ اُن کے بارے میں ایک لطیفہ بہت مشہور ہوا۔2009ءمیں پاکستان ٹیلی ویژن پر کسی پروگرام میں انہیں مدعو کیاگیا۔ اس پروگرام میںپاکستان ہاکی ٹیم کے اصلاح الدین بھی شریک تھے۔ انہوں نے احمد حسن دانی کو بولتے سنا تو حیران سا ہو کر ساتھی سے کہا، ” دیکھو، یہ انگریز کتنی اچھی اردو بولتا ہے۔“
ڈاکٹر احمد حسن دانی ایک تحقیقی رپورٹ میں لکھتے ہیں کہ وسط ایشیا سے خانہ بدوش وحشی اور بربریّت بداماں گھڑسوار قبیلوں کی برِصغیر پر چڑھائی یا آمد، کچھ بھی کہہ لیجئے،اچانک شروع نہ ہوئی بلکہ کم و بیش18ویں صدی قبل مسیح میں وادی ¿ سندھ کی تہذیب کے زوال کے بعد بتدریج اُن خانہ بدوش قبائل کی آمدکا آغاز ہوا۔ یہ قبائل شمال کے راستے آئے تو ظاہر ہے خِطّہ ¿ پوٹھوہار اُن کی گزرگاہ بنا۔ یہاں سے گزر کے وہ برِصغیر کے گوشے گوشے میں پھیلے اور پھر سماجی اور معاشرتی طور پر مقامی آبادیوں میں یوں سمائے کہ ” آبِ گم“ کی مانند بے نشان ہوگئے۔ سوات ، دیر، باجوڑ سے ٹیکسلا تک اُن خانہ بدوش قبائل کے کثیر التعداد قبرستان، اُس دورکی نقل مکانی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان میں آریانی قبیلے نے قبائلی مملکتیں قائم کیں جن میں سے ایک کا دارالحکومت ٹیکسلا تھا۔ اس کے قرب وجوار ہی میںمارگلہ کی پہاڑیاں ہیں۔ مملکتِ پاکستان وجود میں آنے کے بعد اُس کا دارالحکومت اسلام آباد طے کیا گیا جو ٹیکسلا سے چند میل کے فاصلے پر ہے۔ یوں قدیم آریائی بلکہ وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا کے درمیان یہ سابقہ اور موجودہ دارالحکومت تاریخی ربط کی عکاسی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر دانی کی تحقیق کے مطابق ٹیکسلا کی دانش گاہ میں ہی چندر گیت موریانے تعلیم حاصل کی تھی۔ اشوک نے یہاں اوّلین بودھ خانقاہ“ دھرم راجک ویہار“ تعمیر کرائی تھی۔ایرانی خامنشی (Achaemenian) حکمران یہاں میسوپوٹیمیا سے علوم لے کر آئے جن سے ٹیکسلا کی دانش گاہ کی منزلت میں اضافہ ہوا۔ انہوں نے یہاں اپنا انتظامی ڈھانچا متعارف کرایا۔ کوشلیایاکوٹلیانے علم ِسیاسیات پر سنسکرت میں شہرہ ¿ آفاق کتاب ارتھ شاستر ٹیکسلا ہی میں لکھی۔وہ چندرگپت موریا کا استاد بھی تھا۔کشانوں کے دور میں اسے ”کشان شہر“ کا نام بھی دیا گیا۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی لکھتے ہیں کہ آج کے شلوار، قمیص، شیروانی اور پگڑی خواتین کا غرارہ ایسے پہناوے، کشان حکمرانوں ہی کی تخلیق ہیں۔گھڑ سواری اور نیزہ بازی کے کھیل بھی انہوں نے ہی متعارف کرائے۔ اُن کے بعد وسط ایشیا سے ہُن، منگول اور ترک قبائل اُٹھے۔ سرحدی علاقے اور خِطّہ ¿ پوٹھوہار اَلانگتے ہوئے آگے بڑھے۔ اِن علاقوں میں اُن کی آمد قتل و غارت گری سے عبارت ہے لیکن پھر انہوں نے نسلی اور ثقافتی اعتبار سے اپنے نقوش ثبت کرنا شروع کردیے۔ یہاں کے باسیوں میں غذائی تغیرّات رونما ہوئے۔ اشیائے خورونوش اور عادات میں تبدیلی آئی۔ وسط ایشےا کے آدابِ مجلس یہاں متعارف ہوئے۔ جاٹ، گکھڑ، جنجوعہ اور گوجر قبائل اُدھر سے ہی آئے اور پوٹھوہار میں اپنے نشان چھوڑ تے ہوئے، پنجاب، سندھ کی طرف بڑھ کے اپنا جاگیردارانہ نظام قائم کیا۔ بلوچستان میں اُن کے سبب سرداری نظام متعارف ہوا۔سندھ میں وڈیرا شاہی نظام بھی وسط ایشےا کے قبائلی نظام کا شاخسانہ ہے۔ آج افغانستان، پاکستان کے سرحدی علاقوں اور پوٹھوہار میں ”گُل“ اور ” خان“ کے الفاظ بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔ یہ الفاظ منگول قبائل لے کر آئے۔ آج پوٹھو ہار ہو یا سرحدی پشتون خِطّہ، ” گُل“ نام، مردوں، عورتوں میں بلاتخصیص مِلتاہے۔ گُل مکئی، گُل خان، گُل محمد، گلزار -سابق ریاست سوات کے ایک والی کا نام بھی گُل تھا۔ میاں گُل ودودبادشاہ....
ٹیکسلا عجائب گھر میں بودھ آثارِ قدیمہ کے حوالے سے مہاتما بودھ کے نایاب و کم یاب مجسمے، برت کی حالت میں مہاتما بودھ، دھیان ( مراقبہ) کی حالت میں مہاتما بودھ،جولیان خانقاہ سے بھینٹ کا اسٹوپا، سرکپ سے زیورات وغیرہ موجود ہیں۔
داستان گو، ٹیکسلا کے ہزاروں برس پر محیط ” خواب“ سے نکل کے جرنیلی سڑک پہ آیا تو عین لبِ شاہراہ ” لوسر باﺅلی“ کا چھوٹا سابورڈ نظر آیا جو شاید محکمہ سیاحت کی طرف سے لگایاگیا تھا۔ یہ باﺅلی شیر شاہ سوری نے مغلوں سے پہلے تعمیر کرائی تھی۔ شیر شاہ سوری نے کلکتہ سے پشاور تک 16ویں صدی عیسوی میں جو سڑک تعمیر کرائی وہ آج بھی انجینئرنگ کا یکتاکارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔اس کے دونوں جانب ہر کاروں کے لیے پڑاﺅ، مسافروں کے لیے سرائے اور باﺅلیاں تعمیر کرائیں۔ لوسر باﺅلی بھی ایسی ہی ایک باﺅلی ہے جو امتدادِ زمانہ سے بچ نکلی۔اوپر منڈیر، جہاں سے سیڑھیاں نیچے چلی جاتی تھیں- پانی تک ۔ داستان گو نے جب یہ باﺅلی دیکھی تو پھر پانچ سو برس ماضی میں چلا گیا۔ چشمِ تصوّر واہوئی۔ پتھر وں کے ڈھیر پڑے ہیں۔مزدور ہتھوڑوں سے اُن کی روڑی بنا رہے ہیں۔ سڑک پر روڑی بچھانے کا کام جاری ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھیے کہ زمانہ آج کا نہیں جس میں جدید ٹیکنالوجی استعمال ہوتی ہے۔تب سارا کام دستی ہوتا تھا۔اور بار برداری بیل گاڑیوں سے ہوتی ہوگی۔ شیر شاہ سوری نے سڑک کی تعمیر کاکام پی ڈبلیو ڈی کے ”منظور رشدہ“ ٹھیکیداروں سے تو نہ کروایا ہوگا!بعد کے ادوار میں بلاشبہ اس سڑک کی مرمت ہوتی رہی ہوگی۔ لہٰذا آج تک وجود رکھتی ہے۔ حال ہی میں ایک تصویر اُس باﺅلی کی دیکھنے میں آئی، جگہ وہ نہ تھی۔ جانے اب ہے بھی یا نہیں۔ یا لینڈ مافیاکے ہتھے چڑھ کے وجود ہی کھو بیٹھی! مرتب اس کے قریب ہی پہاڑیوں پر کرشنگ مشینیں لگی ہوئی تھیں۔ مارگلہ کی پہاڑیاں یہاں تک چلی آتی ہیں اور اِس جانب کی پہاڑیاںپتھریلی ہیں۔ لہٰذا اُن پتھروں کو پہلے ڈائنامیٹ سے اڑایا جاتا، پھر پتھر کے بڑے ٹکڑوں کو کرشنگ مشینوں سے روڑی میں تبدیل کیا جاتا۔ اُن مشینوں میں مختلف سائزکی بڑی بڑی چھلنیاں لگی ہوتی تھیں جوروڑی کو روڑی کو چھان دیتی تھیں۔ یہ روڑی پھر سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہوتی۔ظاہر ہے، پہاڑیاںتھیںختم تو نہ ہوں گی۔ کام چلتا رہے گا۔ اُن دنوں یہ بھی سننے میں آیا کہ پہاڑیوں پر اکثر حادثات ہوتے ہیں۔ کہیں ڈائنامیٹ، کہیں کرشنگ مشینوں کی زد میں آکے اور کہیں روڑی کے ڈھیر پھسلنے سے مزدوروں اور کارکنوں کی اموات ہوجائیں۔ کہتے ہیں کہ پہاڑیاں ہیں، ختم نہیں ہوں گی۔ اِس پر ایک قدیم چینی کہانی یاد آگئی۔ کہانی کنفیوشس کے دَور سے تعلق رکھتی ہے۔ عنوان ہے، ” بیوقوف بوڑھا جس نے پہاڑوں کو ہٹادیا۔“ 
کہانی یوں بڑھتی ہے کہ کسی گاﺅںمیں ایک بوڑھا اپنے بچوں پوتوں کے ساتھ رہتا تھا۔ گاﺅں کے سامنے ایک پہاڑ تھا۔ اُس گاﺅں میں پانی کی قلت تھی اِس لیے گاﺅں والوں کو بہت سی پہاڑی پگڈنڈیوں سے ہو کر پہاڑ کی دوسری جانب جانا پڑتا تھا، جہاں پانی تھا۔ ایک دن بوڑھا تھکن سے زِچ ہوگیا۔ کدال، پھاوڑا، ٹھوکری اٹھائے، پوتے کو ساتھ لیااور جاکر پہاڑ کھودنا شروع کردیا۔ دو تین دن اس طرح گزر گئے۔ گاﺅں والوں نے سوچا، بوڑھا شاید سٹھیا گیا، سنکی ہوگیا ہے۔ اتنا بڑا پہاڑ کیسے کھودے گا؟ایک دن جب وہ پہاڑ کھود رہا تھا اور پوتامٹی پتھر ٹوکری میںڈال قریبی کھائی میں پھینک رہا تھا کہ گاﺅں کے کچھ لوگ آگئے اور بوڑھے کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے کہ پوتے کو بلاوجہ تھکاوٹ ہے۔ پہاڑ کہیں یوں بھی صاف ہوئے ہیں۔اِس پہ بوڑھے نے کہا ، ” دیکھو یہ پہاڑ جتنا ہے، اِس سے بڑا تونہیں ہوسکتا۔ مَیں اور میرا پوتا یہ پہاڑ کھودتے رہیں گے۔ ہمارے بعد، ہمارے بچے اور پوتے یہی کام کرتے رہیں گے۔ پہاڑ چھوٹا ہوتا چلا جائے گا اور ایک دن آئے گا جب یہاں دوسری طرف جانے کا رستہ بن جائے گا۔ اور گاﺅں والوں کو پانی لانے کے لیے گھوم کے نہیں جانا پڑا کرے گا۔“
کہانی تو یہی بتاتی ہے کہ لگن ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں رہتا۔ جرنیلی سڑک کی تعمیر شیر شاہ سوری کی ایک لگن تھی۔ باڈلیاں بنانا یک لگن تھی۔ بعد میں آنے والوں نے باﺅلیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ وقت جانے! جن پہاڑیوں پر کرشنگ کی مشینیں لگی ہوئی ہیں، کیا وہ ختم ہوجائیں گی؟ وقت بتائے گا۔
یہاں سے نکل کے داستان گو واپسی کے لیے ذرا آگے بڑھا تو ایک جگہ ” مقبرہ ¿ لالہ رخ“ کا بورڈ نظر آگیا۔ یہ لالہ رخ کون ہے؟ اندر گیا تو ایک خوبصورت باغ منتظرتھا۔اُسی میں ایک مقبرہ تھا لیکن اُجڑا اجڑا اور سنسان۔ لالہ رخ کی کہانی میں روایت کا زیادہ دخل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ وہ مغل شہنشاہ اورنگزیب کی بیٹی تھی۔ کہانی خاصا پُراسراریت کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے۔ دلچسپ بات یہ جانیئے کہ آج جو باغ اور مقبرہ خاموشی کی چادر میں لپٹے اور ماضی کی ایک افسانوی شہزادی لالہ رخ کو دامن میں لیے ہیں، انیسویں صدی عیسوی میں یہ جگہیں اور ” شہزادی لالہ رخ“ یورپی شعرا کی شاعری کا مرکز رہیں۔ خاص طور پر آئر لینڈ کے شاعر تھا مس مُور کی کتاب ” لالہ رخ، مشرق کی ایک داستانِ “ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ لالہ رخ کی افسانوی داستان کے مطابق اُسے دِلّی سے ایک بربط نواز محافظ فرامورز کے ساتھ کشمیر روانہ کیا جاتا ہے کہ وہاں اُس کا منگیتر ہے۔ فرامورزیہ سوچ کے کہ لمبے سفر میں شہزادی لالہ رخ اداس نہ ہو اور راستہ بھی کٹ جائے، اُسے خوبصورت دھنوں میں رزمیہ نظمیں سناتا چلتا ہے۔ لاہور پہنچ کر انہیں خبر مِلتی ہے کہ لالہ رخ کا منگیتر شہزادہ کشمیر پہنچ چکا ہے اور اُس کا منتظر ہے، تب لالہ رخ کے نہاں خانہ ¿ دل میں اِک خیال ابھرتا ہے کہ وہ تو فرامورز کی میں ڈوب چکی ہے۔ وہ بڑی بے دلی سے وادی میں داخل ہوتی ہے۔ اُ س کا پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے،اور پھر شبِ عروس، اُس پہ بھید کھُلتا ہے کہ فرامورز ہی اُس کا منگیتر اور محبوب ہے۔ تھامس نے یہ طویل نظم 1817ءمیں کہی اور دیکھتے ہی دیکھتے فارسی اور روسی زبانوںسمیت دنیا کی متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوگیا اور ہر سُو، اپنی فنی نزاکتوں کے ساتھ دِل دِل میں یوں گھر کر گئی کہ بہت سے یورپی، جوچندر روز کے لیے سہی، اپنے گھروں سے نکلنا پسند نہ کرتے تھے مشرق کی اُن حسین وادیوں کو دیکھنے کے لیے مچلنے لگے، جو شہزادی لالہ رخ کا دیس تھا۔ تھامس مُور کی کتاب کے 20سے زائد ایڈیشن، شائع ہوئے۔برلن میں اِس رومانوی داستان کو اسٹیج کیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ روس کے زارنکولس اوّل نے اُس میں فرمورز اور اس کی ملکہ نے لالہ رخ کے کردار دا کیے۔
لیکن یہاںکہانی میں ایک جھَول مِلتا ہے۔ بیاہی تو وہ کشمیر میں گئی تھی- اُس کا مقبرہ اور باغ پوٹھو ہار کے علاقے حسن ابدال یا ٹیکسلا کے قریب واہ کے باغات میں کیسے آن پہنچا؟کہانی بہر حال،کہانی ہے اور وہ بھی رومانوی کہانی۔ اس میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اگر میرا مّن دہلوی کے چار درویش برِصغیر سے باہر بیٹھ کے دِلّی کے پکوان اڑاسکتے ہیں تو لالہ رخ کا مقبرہ واہ کے باغوں میں کیوں نہیں آسکتا؟ یہ الگ بات کہ کوئی نہیں جانتا اُس خانہ ¿ زیرِ زمین کا مکین کون تھا یا کون ہے؟ ممکن ہے ، بقول عبیداللہ علیم، ویران سرائے کا دیا ہو وہ،کہ اُسی نے کہا ہے:

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو
مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

یہاں اسی کہانی سے اِک اور کہانی پھوٹتی ہے-ایک بیانیہ یا واقعائی کہانی۔ کہاجاتا ہے کہ مغل شہنشاہ جہانگیر اور ملکہ نور جہاں کے بھی پاﺅں میںبلّیاں بندھی تھیں۔ ہر لمحہ سرِو سیاحت پہ تلے رہتے تھے۔ کشمیر جانے کا بہت شوق تھا کہ کبھی کشمیر کے بارے میں کہا جاتا تھا:

اگر فردوس بروئے زمیں است
ہمیں است وہمیں است وہمیں است

لیکن آج نہیں!
اور اُس سفر کے دوران ملکہ نو رجہاں کی آنکھوں میں آشوب ضرور ہوتا تھا۔ دُکھنے لگتی تھیں۔ کسی بزرگ کے کہنے پہ آنکھوں پر دریا کے پانی کا چھپاکا مارنے سے سوزشِ چشم جاتی رہتی تھی۔ یہی واقعہ، ملکہ نور جہاں کے حوالے سے دو دریاﺅں پہ مِلتا ہے۔ اور دونوں جگہ ایک بزرگ یادرویش یہ مشورہ دیتا ہے، شاہی حکیم اور طبیب دھرے ک دھرے رہ جاتے ہیں۔یہ خیال بھی دامن گیر ہوتا ہے کہ شہنشاہ اور ملکہ دِلّی سے کشمیر جانے کا کوئی سیدھا راستہ کیوں نہیں پکڑتے تھے۔ جنگلوں اور پہاڑیوں سے ہوتے ہوئے جانا ضروری تھا کیا؟ایک واقعہ تو یہ ہے کہ کشمیر سے آتے ہوئے اکھنور کے مقام پر جہاں دریائے چناب بہتا ہے، ملکہ نور جہاں کی آنکھوں میں سوزش ہوئی۔ درویش نے کوئی وقت بتایا کہ تب ملکہ دریا کاپانی چلّو میں لے کر آنکھوں پہ چھپاکامارے۔ ملکہ نے ایسا ہی کیا اور آنکھیں تارہ سی ہوگئیں۔ اُس وقت تک جگہ کا نام کچھ اور تھا۔ اس واقعہ کے بعد ملکہ یا شہنشاہ نے اُس کا نام بدل کے اکھنور رکھ دیا۔ یعنی ” آنکھ کا نور“ ۔عین یہی واقعہ خِطّہ ¿ پوٹھو ہار کے علاقے حسن ابدال سے ، مانسہرہ کے راستے جاتے ہوئے دریائے کنہار کے ایک مقام پر پیش آتا ہے ۔وہاں بھی ”درویش“ ملکہ نور جہاں کو وہی مشورہ دیتا ہے۔ ملکہ ایک خاص مقام پر پہنچ کر دریائے کنہار کے پانی کاچھپاکا آنکھوں پہ مارتی ہے اور سوزش جاتی رہتی ہے۔ اُس جگہ کو ” نین سُکھ“ کا نام دیا جاتا ہے۔داستان گو، اِن واقعات اور احوال پہ صرف یہی کہہ سکتا ہے کہ واللہ اَعلم بالصواب!


داستان گو یہاں سے نکلا تو ایک پہاڑی کے دامن میں واقع گوردوارہ پنجہ صاحب زیادہ دُورنہ تھا۔ سوچا پھر جانے موقع مِلے نہ مِلے، پنجہ صاحب بھی دیکھتے چلو۔جگہ اور اس کے تقدّس کابڑا شہرہ سُنا تھا۔ تب تو سارا منظر گھوم پھر کے دیکھ لیا لیکن اس کی تاریخ کے حوالے سے داستان گو کچھ نہ جانتا تھا۔ تھوڑا بہت تو وہاں لکھا ہوا تھا لیکن خاصاتشنہ! وقت کے ساتھ ساتھ کچھ پڑھا، اس کے ماضی میں جھانکا اور جانے کب وہاں پھر جاپہنچا۔ اِس کی تاریخ، روایات میں گندھی ہوئی اور نور بافی کی نقشیں مثال ہے۔
زمانہ 1510ءسے 1520ءکے درمیان کسی وقت کا گجر بجا رہا ہے۔ گورونانک بلادِ عرب میں برسوں گھوم پھر کے، دنیا کے رنگ دیکھ کے اور آبلہ پائی کے بعد افغانستان اور پشاور کے راستے لوٹ رہے تھے۔ پشاور پہنچنے کے بعد انہوں نے غالباً اٹک کے مقام پر دریائے سندھ عبور کیا اور مارگلہ کی پہاڑیوں میں سے ایک بلند پہاڑی کے دامن میں رک گئے۔ اُن کے بچپن کا جگری دوست بھائی مردانہ، ہمراہ تھا۔ اس دامن ِ کوہ میں پڑاﺅ ڈالا تو پاس پڑوس کے گاﺅں دیہات کے باسی اُس بزرگ کی زیارت کو آنے لگے۔ دامنِ کوہ میں پانی نہ تھا۔ مردانہ کو پیاس لگی تو بابا گورونانک نے کہا کہ اوپر پہاڑی پہ ایک بزرگ رہتے ہیں۔ اُن کے پاس چشمہ اور پانی ہے، وہاں سے لے آﺅ۔ یہاں کے باسی بھی وہیں سے پانی لاتے ہیں۔
اوپر ایک بزرگ بابا ولی قندھاری کا حجرہ تھا۔ انہوں نے جو نیچے جھانک کے دیکھا تو ایک اور بزرگ (بابا گورو نانک) ڈیرہ جمائے بیٹھے تھے اور لوگ ان کے پاس آ جارہے تھے۔ بھائی مردانہ پانی کی درخواست لے کے اوپر بابا ولی قندھاری کے پاس پہنچے تو انہوں نے پانی دینے سے انکار کردیا۔ بھائی مردانہ نے نیچے آکے بابا گورو نانک کو بتایا۔ انہوں نے دوبارہ اوپر بھیج دیا وہاں سے پھر انکار ہوگیا۔ تین بار اِسی طرح ہوا۔ آخری بار، پیر ولی قندھاری نے بھائی مردانہ سے کہا کہ اپنے گورو سے پانی کے لیے کہو۔ بھائی مردانہ نے واپس آکر گورو نانک کو بابا ولی قندھاری کی بات بتائی تو بابا گورو نانک نے سامنے سے ایک بڑی چٹان ہٹادی اور بَل بَل کرتا پانی بہنے لگا۔ بابا گورو نانک نے بھائی مردانہ سے کہا کہ ”اب اللہ کا نام لو اور جی بھر کے پانی پیو۔“
اُدھر اوپر بابا ولی قندھاری کا چشمہ عین اُسی وقت خشک ہوگیا۔ اُنہوں نے غصّے میں ایک بھاری چٹان لڑھکا دی جو بابا گورو نانک نے اپنے ہاتھ سے روک لی اور اُس چٹان پر اُن کے ہاتھ کا نشان نقش ہوگیا۔ بابا ولی قندھاری نے یہ منظر دیکھا تو جان گئے کہ نیچے بیٹھا شخص بھی، واقعتا کوئی عارف اور اللہ لوک ہے۔ بابا ولی قندھاری نیچے آئے۔ دونوں کی ملاقات ہوئی، اور وہ دوست بن گئے۔ بابا گورو نانک کے پڑاﺅ کا نام ”پنجہ صاحب“ ہوا اور صدیوں سے یہ دونوں جگہیں، مسلمانوں، سِکھوں سب کے لیے مرجعِ خلائق ہیں۔ گوردوارہ پنجہ صاحب 1823ءمیں سردار ہری سنگھ نے تعمیر کرایا اور 1933 ءمیں اِس کی آرائشِ نو ہوئی۔
داستان گو، نے بابا گورو نانک کے بارے میں تھوڑا بہت پڑھا تو اندازہ ہوا کہ صدیوں سے لوگ انہیں خراج عقیدت و تحسین پیش کرتے آرہے ہیں۔ ایسے میں علّامہ اقبال سامنے آئے کہ میاں دیکھو، مَیں نے بھی گورو نانک کی آہنگِ توحید کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ ذرا بانگِ درا دیکھو۔دیکھا تو ایک نظم نظر آگئی۔ اُس کے ایک شعر میں علّامہ اقبال کہتے ہیں:

پھر اُٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو اِک مرد ِ کامل نے جگایا خواب سے

داستان گو، ٹیکسلا میں گھوم رہا تھا کہ آثارِ قدیمہ کے حوالے سے ایک مجسمے کے بارے میں بتایا گیا کہ اُس کا اصل برٹش میوزیم میں ہے۔ مزید تفصیل کے لیے مانکیالہ اسٹوپا جانے کا مشورہ مِلا۔ ایک دن داستان گو مانکیالہ اور وہاں سے کلّرکہار کی طرف نکل گیا کہ وہاں سے اُس جا کو بھی راہ جاتی تھی جہاں البیرونی نے زمین کا قطر ناپا تھا۔اور نندنا کے کھنڈرات بھی اُدھر ہی کو تھے۔ مانکیالہ، راولپنڈی کے قریب ہی ایک گاﺅں ہے اور اُس کی وجہ ¿ شہرت مہاتما بودھ کی یاد میں، دوسری صدی عیسوی کا وہ اسٹوپا ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مہاراجہ کنشک نے تعمیر کرایا تھا۔ کہانی یہ کہی جاتی ہے کہ مہاتما بودھ یہاں سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا شیر کے سات بچے بھوک سے بِلبلا رہے ہیں۔ مہاتما بودھ نے اپنے جسم سے گوشت کے ٹکڑے کاٹ کر شیر کے بچوں کو کھلادیئے اور یوں اُن کی جان بچائی۔ کہتے ہیں کہ اس گاﺅں اور بودھ اسٹوپا کا نام راجہ مان یا مانک کے نام پر مانکیالہ رکھا گیا تھا۔ یہ اسٹوپا سب سے پہلے 1808ءمیں افغانستان جانے والے برطانوی ایلچی ماﺅنٹ اسٹوارٹ ایلفنسٹن نے دریافت کیا اور 1815ءمیں اپنی کتاب ”مملکتِ کابل“میں بڑی تفصیل سے اِس اسٹوپا کا تذکرہ کیا۔ 1930ءمیں اسٹوپا کی سطح سے 10 سے 20 میٹر نیچے جو نوادر، یاں وینچورا نے دریافت کیے اور کھدائی میں نکالے، وہ اب برٹش میوزیم میں رکھے ہیں۔ اُن میں سونے چاندی، تانبے کے سکے اور خروستی رسم الخط میں ایک لوح، شامِل تھے ۔اُس کے بعد” نوادر چوروں“ نے یہاں ہلہ بول دیا اور دیکھتے ہی دیکھے اسٹوپا کا ”بھاڑ سا منہ“ ُکھل گیا۔ برسوں یہ منہ ” ُکھلا“ رہا۔ پھر اس کے گرد حفاظتی باڑ لگادی گئی۔ ایک اور روایت بھی سامنے آتی ہے کہ مہاراج اشوک نے بودھ مت کو مملکت کا مذہب بنایا تو ایک حکم جاری کیا کہ کپل وستو سے مہاتما بودھ کے تبرّکات سونے چاندی کے 84 صندوقچوں میں بند کرکے پاٹلی پتر (موجودہ پٹنہ) سے قندھار تک 84 مقامات پر دفن کرکے وہاں اسٹوپا تعمیر کردیے جائیں اور اُن اسٹوپاﺅں پر سات سات چھتر تانے جائیں۔ بودھ مت میں سات کا ہندسہ بڑا مقدّس ہے۔ اس سے مراد، سات آسمان، سات کرہ ¿ ارض، کھال کے سات پرت، سات رنگ اور سات سُرہیں۔ مانکیالہ اسٹوپا ان ہی 84 اسٹوپاﺅں میں سے ایک ہے۔برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں نے کچھ اچھے کام کئے۔ آثارِ قدیمہ دریافت کرکے اُن خِطّوں کی عظمتِ رفتہ کو سند دی لیکن اِس کے ساتھ ہی ساتھ اصل نوادر اٹھا کے برٹش میوزیم میں لے گئے اور ”جائے وقوعہ“ پر اُن کی نقل رکھ دی۔ شاہراہِ ریشم کا بڑا حصّہ ایسے ہی آثار ِ قدیمہ کے ”چوروں“ کی زد میں رہا۔ اُن کی حکومتوں نے انہیں Kinghthood کے خطابات دیے لیکن چینی موّرخ انہیں ”چوروں اور لٹیروں“کے نام سے یاد کرتے ہیں اور دُکھی ہوتے ہیں کہ وہ اُن کے قیمتی نوادر لے اُڑے۔ ہمارے ہاں کے لوگ بھی دُکھی ہوتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے مقتدر تو مقتدر ہوتے ہیں۔ کچھ بھی کر گزریں۔ تصرّف کے ساتھ یہی کہا جاسکتا ہے کہ ”جو کچھ جہاں میں ہے، برٹش میوزیم میں ہے۔“
داستان گو، روات اور اُس کے قلعے سے پہلو بچا کے نکل رہا تھا کہ اس نے پیچھے سے چولا پکڑ لیا۔ اب اُسے مِلے بِنا آگے بڑھنے کا کوئی سامان نہ تھا۔ اُس کے پرانے برگدوں اور پیپل کے پیڑوں کے گرد پھیرا لیا اور قلعے کی کھنڈر ہوتی عمارت میں داخل ہوگیا۔ نیا روات قلعے سے باہر ہے۔ اس کا اصل نام روات ہے یا رباط یہ طے نہیں ہوسکا۔ لیکن ممکنہ نام رباط یعنی فوجی چھاﺅنی ہے جو بگڑتے بگڑتے روات بن گیا۔ اِس کی کہانی بھی اس خِطّے کے اہم قبیلے گکھڑ اور شیر شاہ سوری کے گرد گھومتی ہے۔ یہ قلعہ، شہر یا قصبہ 16 ویں صدی کے اوائل میں گکھڑوںنے تعمیر کیا تھا۔ گکھڑ مغلوں کے حامی اور شیر شاہ سوری کے مخالف تھے لہٰذا خوب جنگ ہوئی۔ قلعے کے اندر بھی بہت سی قبریں موجود ہیں۔ اندر تین گنبدوں والی ایک مسجد بھی دکھائی دی۔ شیر شاہ سوری کے خلاف جنگ میں گکھڑ قبیلے کا سردار سلطان سارنگ تھا۔ دیکھنے میں قلعے کے دو دروازے، سامنے اور عقب میں نمایاں تھے۔ یہی کہا جاسکتا تھا کہ ماضی کا کمال اب زوال کا شکار تھا۔
کوہستان ِ نمک کی باتیں سکندر اعظم کے زمانے، تین سوا تین سو برس قبل مسیح سے چلی آرہی ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہوگا کہ سکندر یونانی کی فوجوں کے گھوڑوں نے یہاں کا نمک ”دریافت“ کیا تھا۔ تب سے نمک چلا آرہا ہے اور جانے کب تک رہے گا کہ یہ پہاڑ ہے ۔مختلف ادوار میں مختلف مقتدر لوگ اس نمک سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ مغل آئے تو اس نمک کو وسط ایشیا کی منڈیوں تک رسائی دی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں جموّں کے ڈوگرا راجہ گلاب سنگھ یہ نمک بیچتے رہے۔ اس کے بعد انگریزوں کا قبضہ ہوا۔ اصل کہانی یا جگہ تو وہ ہے جہاں داستان گو لے جانا چاہتا ہے۔ ماضی ¿ بعید کی ایک بڑی دانش گاہ۔ نندنا اور اس کے قریب ہی وہ پہاڑی جہاں کھڑے ہوکر ابو ریحان البیرونی نے اپنی چھڑی یا اُصطرلاب سے زمین کا قطر ناپا تھا۔ اِس کا تذکرہ البیرونی کی کتاب، ”کتاب الہند“ میں مِلتا ہے۔ البیرونی خوارزم سے برِصغیر آئے تھے۔انہوں نے زمین کے قطر کی پیمائش 11 ویں صدی کے اوائل میں کی جو زمین کے اصل اور درست قطر سے صرف 80 میل کم تھا۔ البیرونی سے پہلے یونانی اور پھر عرب زمین کے قطر کی جو پیمائش کرتے رہے وہ ہمیشہ اصل قطر سے کئی سو میل زیادہ رہی۔ البیرونی ریاضی، جغرافیے، علم ِ نجوم اور علم الادویات میں یکتا تھے۔
نندنا جہاں اب کھنڈروں اور ندی کی سوکھی گزر گاہ کے سوا کچھ نہ تھا، کبھی علم و فضل کی بہت بڑی درس گاہ تھی۔ اُدھر جو راہ جاتی ہے، موّرخین لکھتے ہیں کہ سکندر اور اس کے یونانی سپاہی اُسی راہ پہ گھوڑے دوڑاتے جہلم کے قریب پورس سے لڑنے کو بڑھے تھے کہ یہ راہ کوہستان نمک کی طرف سے آتی ہے۔ لیکن اس راہ کا صرف یہی ایک کردار نہ تھا۔ اس راہ پہ صدیوں تک اونٹوں والے تجارتی قافلوں ،صوفیاءو فقرائ، علماءاور فنکاروں کی آمد و رفت بھی جاری رہی۔ اِسی راہ پہ آگے درہ ¿ نندنا ہے۔ یہاں 326 قبل مسیح، سکندر یونانی تو بلا روک ٹوک یہاں سے گزر گیا لیکن 1013 عیسوی میں محمود غزنوی کو کشمیر کے راجہ بھیم پال کی فوجوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کہ گزشتہ دو سو برس سے یہ سارا خِطّہ مملکتِ کشمیر کے زیرِ اقتدار تھا۔ بارہویں صدی کے ممتاز کشمیری موّرخ کیلاہان کے مطابق اُس وقت کشمیر میں کرکوٹ شاہی خاندان کی حکمرانی تھی۔ محمود غزنوی کی فوج نے درہ ¿ نندنا کے قلعے کا محاصرہ کیا اور خوراک اور پانی بند کرکے قلعے کی محافظ فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا۔ کیلاہان نے اس دور کی تاریخ ”راج ترنگنی “ کے عنوان سے لکھی۔ پیچھے کہیں داستان گو کہہ چکا کہ اُسے اردو میں ”شاہ نامہ“ کہا جاسکتا ہے۔ اُس درے کے پاس ہی نندنا یونیورسٹی یا درس گاہ کے کھنڈرات مِلتے ہیں۔ اگر البیرونی اُن عمارتوں میں ”جب وہ آباد تھیں، رہا ہوتا۔ اُس نے سنسکرت پر عبور حاصل کرلیا ہوتا تو دنیا کو شاید ایسی کچھ کتابیں مِل جاتیں جن سے وہ ناواقف تھی۔ یہیں بیٹھ کر البیرونی ہندوستان کے نابغہ ماہرینِ فلسفہ سے مکالمہ کرتا۔ اس عظیم درس گاہ کے قیام اور زوال کا تاریخ کی کسی کتاب میں تذکرہ نہیں مِلتا۔
یہاں مندروں کا ایک ”جھرمٹ“ بھی تھا۔ اندازہ یہی ہے کہ پہلے درس گاہ کو زوال آیا اور پھر علمائے وقت اور دانش وروں کی نقل مکانی کے نتیجے میں مندربھی ویران ہوگئے۔ وقت نے کب کسی کا انتظار کیا ہے؟ البیرونی کے زمانے میں یہاں ہوا صاف اور فضا شفاف ہوتی ہوگی۔ منظر دُور تک نظر آتا ہوگا، اِتنی دُور تک کہ کرّہ ¿ ارض کا خم صاف دکھائی دیتا ہوگا اور اسے یہ بات محض بات نہ لگی ہوگی کہ دنیا گول ہے۔ جس پہاڑی پر البیرونی نے زمین کا قطر ناپا، وہ دریائے جہلم سے 20 میل سے بھی کم فاصلے پہ ہے۔ آج کی گرد آلود فضا میں نظر کا زمین کے خم تک پہنچنا محال ہے۔ داستان گو بتائے دیتا ہے کہ معلومات کا یہ ذخیرہ اُس نے سلمان راشد سے، بصد شکریہ، لیا ہے۔ 
پنجہ صاحب کے تذکرے میں داستان گو بابا گورونانک سے اٹک کے مقام پر دریائے سندھ پار کرتے ہوئے مِلتا ہے۔ وہ کچھ سوچتا ہے اور پھر صدیوں بعد افغانستان کے شاہ شجاع کو اٹک میں دیکھتا ہے۔ 19 ویں صدی کا آغاز ہے۔ 1803ءمیں وہ امیرِ افغانستان کا عہدہ سنبھالتا ہے لیکن 1809ءمیں معزول کردیاجاتا ہے۔ 1811-12ءمیں اٹک میں اسیری کے دن گزارتا ہے اور تیس برس بعد 1839 ءمیں پھر برِ صغیر کے برطانوی نو آبادیاتی حکمرانوں کی مدد سے، امیرِ افغانستان بن جاتا ہے لیکن صرف 3 برس بعد، افغانستان سے برطانیہ کے نکلنے کے فوراً بعد شجاع الدولہ کے ہاتھوں قتل ہوجاتا ہے۔ یہاں بات اس کے زمانہ ¿ جلاوطنی کی ہے۔ انگریز حکمرانوں نے شاہ شجاع اور اس کے ساتھ آنے والوں کو لدھیانے کے جس علاقے میں رکھا، اس کا نام ماتا رانی چوک تھا اور اب وہاں بڑا ڈاک خانہ قائم ہے۔ اس عمارت کے اندر سنگِ مر مر کی ایک تختی پر شاہ شجاع کے وہاں قیام کے بارے میں تحریر ہے۔ ممتاز ادیب اور صحافی حمید اختر لدھیانہ کے رہنے والے تھے۔ وہ اُن جلا وطن افغان کنبوں کے افراد کی فارسی مِلی پنجابی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اُن کنبوں کے بچے دونوں زبانوں کو مِلا کر ایک تیسری زبان یوں بولتے تھے کہ سُن کے ہنسی آجاتی تھی۔ ایک بار عمارت میں گھوڑے باندھنے کی وجہ سے کنبے کی خواتین کو آنے جانے میں دشواری ہونے لگی تو شکایت یوں کی گئی۔
”ٹٹوُ را در ویڑا(پنجابی۔ اردو صحن) بستہ اند، راہِ زناں تنگ می کنند“
داستان گو نے کچھ روز بھٹے بھون کے بیچے، کتابوں کی جلدیں باندھیں اور پھر ایک دن قلعہ روہتاس کے لیے نکل لیا۔ یہ قلعہ جہلم سے لگ بھگ 15 میل اور دینہ سے کوئی 7 میل کے فاصلے پر ایک ٹیلے پر واقع ہے۔ 16 ویں صدی کے وسط تک کا عرصہ، لگتا ہے کہ شیر شاہ سوری اور پوٹھوہار کے اس سارے خِطّے میں پھیلے گکھڑوں کے درمیان جنگی آنکھ مچولی کا زمانہ تھا۔ یہ قلعہ بھی شیر شاہ سوری نے تعمیر کیا، کیونکہ علاقے کے قریب قریب سارے قبیلے اعوان، جنجوعہ، عباسی، کیانی، کھوکھر وغیرہ بھی مغلوں یعنی ہمایوں کے طرف دار اور شیر شاہ سوری کے مخالف تھے۔ خوب جنگ ہوتی رہی تھی۔ روات یا رباط کا قلعہ اور روہتاس کا قلعہ اس جنگی سلسلے کی کڑیاں محسوس ہوئیں۔ قلعہ روہتاس بہر حال، بڑا پر شکوہ ہے۔ یہ قلعہ تعمیر تو شیر شاہ سوری نے کروایا لیکن بعد میں گکھڑوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور عرصے تک اُن کا دارالحکومت رہا۔ اِس قلعے کے بارے میں موّرخوں کا کہنا ہے کہ یہاں 30 ہزار حفاظتی فوج قیام کرسکتی تھی۔ قلعے کی تعمیر میں جو پتھر استعمال ہوا وہ قرب و جوار کے علاقے مثلاً ترّکی موڑ کے پہاڑوں سے حاصل کیا گیا تھا۔ کچھ حصّوں کی تعمیر میں اینٹوں کا بھی استعمال کیا گیا۔ اِس کی تعمیر میں افغان، ایران، ترک اور ہندو طرزِ تعمیر کی جھلک مِلتی ہے۔ اِس کی تعمیر کا آغاز 1541ءمیں ہوا اور تکمیل میں 8 برس لگے۔ مجموعی طور پر اس کے بارہ دروازے ہیں۔ قلعے کے قریب ہی ایک چشمہ ”چوا صاحب“ کے نام سے معروف ہے۔ روایت ہے کہ یہ چشمہ بابا گورو نانک نے دریافت کیا تھا۔ روایت کا دلچسپ حصہ یہ جانئے کہ شیر شاہ سوری اس چشمے کو قلعے کے اندر رکھنے کا خواہاں تھا لیکن وہ جب بھی اس کے گرد دیوار تعمیر کراتا، چشمہ باہر جا پھوٹتا۔ اُس نے سات بار کوشش کی لیکن ناکام رہا اور بالآخر چشمے کو اُس کے حال پہ چھوڑ دیا۔
وقت بیتتا چلا گیا اور داستان گو، گورڈن کالج جا پہنچا۔ اکتوبر 1962ءمیں ایک دن معلوم ہوا کہ کالج کے ایک سابق طالب علم، اور برِ صغیر کے ممتاز و معروف اداکار، براڈ کاسٹر اور ادیب بلراج ساہنی راولپنڈی آئے ہوئے ہیں اور کالج نے اُن کے اعزاز میں ایک تقریب ملاقات کا اہتمام کیا ہے۔ بلراج ساہنی راولپنڈی کے باسی تھے لیکن بٹوارے کے وقت اپنا وطن، اپنی جنم بھومی راولپنڈی چھوڑ کے بھارت جانے پر مجبور ہوگئے تھے۔ بلراج ساہنی کا آبائی علاقہ بھیرہ تھا جہاں اُن کی برادری کے نام سے ”محلہ ساہنیاں“ آباد ہے۔ اُن کی آمد پر گورڈن کالج کا جوبلی ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں، اگر داستان گو یہ کہے کہ ”تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔“ وہ اسٹیج پر کھڑے اپنا اور اپنے اس شہر راولپنڈی کا ماضی دہرارہے تھے تو عملاً اُن کی پلکوں پہ آنسو جھِلملا رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ اُن کا آبائی گھر گورڈن کالج کے عین عقب میں واقع چھاچھی محلے میں تھا۔ جن دنوں وہ راولپنڈی آئے، تب اُس گھر میں جالندھر سے ہجرت کرکے آنے والا ایک مسلمان کنبہ آباد تھا۔ وقت کیسے کیسے رنگ بدلتا ہے۔ کسی کو آباد اور کسی کو بے خانماں کردیتا ہے۔ آخر میں ایک فارسی شعر، گو سفر ختم نہیں ہوا لیکن کہیں تو پڑاﺅ ڈالنا ہی تھا۔
حیف در چشم زدن ّمحبتِ یار آخر شد
روئے گُل سیر ندیدیم کہ بہار آخر شد
___________________



اجمال اور احوال کچھ یوں ہے کہ ایک بے تکان طائرِ ّمتجسس وسیع علاقے کے پہاڑوں، میدانوں، کھائیوں اور دریاﺅں کو اپنی انتھک پرواز تلے کھوجتا اور کھنگالتا ہوا بالآخر تلاش کے پروں کو ”دینہ“ کے آسمان پر سمیٹ لیتا ہے، یہ قریہ ¿ حیرت اثر فطرت کی رعنائیوں کا بے ساختہ پن ہے۔ متذکرہ سارے علاقے اور حوالے گلزار کی ذات سے بالواسطہ منسلک و مربوط ہیں۔ اگر اس سارے زمینی پھیلاﺅ کو فکری لحاظ سے ”اقلیمِگلزار“ کا نام دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیونکہ جہاں جہاں گلزار نہیں بھی گئے وہاں وہاں اُن کی شباہت دبے پاﺅں چلی آئی ہے۔
رشید بٹ نے ایک چھوٹی سی بھری دنیا کی سرو سامانی سے بے سرو سامانی اور مکانی سے لا مکانی تک کی انسانی کتھا کو اپنا موضوع بنایا ہے، آج گھر کو کندھوں پر لیے پھرنے والے ہر شخص کی زبان پر ایک سوال ہے۔
اِس زمین پر رہنے والے کب تک اِسی زمین کی مکانیت بدلتے رہیں گے؟
کاش ہتھیاروں کے زور پر تاریخ بنانے والے یہ بات سمجھ سکتے کہ وہ ُکرہ ¿ ارض کا جغرافیہ نہیں بدل سکتے۔ کاش ہر چیز کو پیمانوں، مسافتوں اور فاصلوں سے ماپنے والے اِس چھوٹی سی بات کو سمجھ پائیں کہ یہ ساری دنیا وطن کے رقبے سے بڑی نہیں ہے، بسا اوقات تو دھرتی ماتا پر جہاں تک کوئی بے فکری سے اپنے پیر پسار لیتا ہے، وہی اس کی دنیاہوتی ہے۔
یہ رپورتاژ اپنے اندر کچھ ایسے سوال سمیٹے ہوئے ہے جس کا جواب ہردرد مند انسان مانگتا ہے۔
انسانوں کا انسانوں کو مار دینا خود کشی نہیں تو اور کیا ہے؟
جو انسان لڑکپن میں دنیا کا نقشہ بڑی محنت ،مہارت اور لگن سے بناتے ہیں بڑے ہوکر وہی اُسے بگاڑنے کے درپے کیوں ہوجاتے ہیں؟ایسا کیوں ہے؟
 آج درس گاہوں میں دوسرے علوم کے ساتھ کا نصاب کیوں نہیں پڑھایا جاتا - ؟

بعض انسانوں کے اندر پورے پورے آدم خور قبیلے آباد ہیں جو کسی بھی بہانے معصوموں کی بستیوں میں در آتے ہیں اور پھر دیکھنے والی فضا تک کا سانس اُوپر کا اُوپر اور نیچے کا نیچے رہ جاتا ہے۔ انسانوں کے درمیان رہنے والا ہر انسان غیر محفوظ کیوںہے؟

گلزار کا جسم ممبئی میں اقامت پزیر ہے اور روح ”دینہ“ میں رہتی ہے اور جب وہ جسم و جاں کے مابین حائل ان دُوریوں کو اُن کی تمام تر جزئیات کے ساتھ سمیٹتے ہیں تو رعنائیِ جمال و خیال کی ایک ایسی دنیا وجود پاتی ہے جو دلکشی سے تر بتر اور نغمگی سے شرابور ہے- اُن کے محسوسات کی وسعت لامکانیت میں ہے لیکن شخصی راجدھانی کی بود و باش والی حدیں پوٹھوہار اور اس سے متصل وہ علاقے ہیں جو دُور رہتے ہوئے بھی اُن کے پیشِ نظر رہتے ہیں۔
رشید بٹ کا تحریر کردہ رپورتاژ”سیرُِ گل“دینہ کا طواف کرتے ہوئے وسیع علاقے کی تہذیبی، جغرافیائی، تمدنی، معاشی اور سماجی کیفیتوں اور حیثیتوں کا احاطہ کرتا ہے بلکہ اُس سے جُڑے ہوئے اُن دور دراز علاقوں تک نفوذ کرگیا ہے جو اس موضوع سے بہر نوع علاقہ رکھتے ہیں۔

”سیرُ ِ گل“زمان و مکاں کی قید میں رہ کر احوالِواقعی کی صورت ایک مخصوص عہد کا ترجمان ہے لیکن داستان گو کہیں کہیں شاہراہ کو چھو ڑکر پگڈنڈیوں پر چل پڑتا ہے اور اِتنی دُور نکل جاتا ہے کہ دوسری شاہراہ اُس کے قدم سمیٹ لیتی ہے۔ پھر کچھ دُور چل کر یہی شاہراہ دوبارہ پگڈنڈی بن جاتی ہے اوریوں کچےّپکےّ راستوں کا ادغام اُسے مزید چلتے رہنے پر کمر بستہ رکھتا ہے۔
اقبال نظر

 خِطّہ پوٹھوہار، گلزار کا وطن ہے۔ گلزار کا دیس ہے۔ یہاں اُن کی آنول نال گڑی ہے۔ داستان گو نے تو صرف داستان سرائی کی ہے۔ اِس میں ایسے احوال و واقعات مِلتے ہیں جو گلزار ہی کے حالات واقعات ہیں، جنہیں وہ، احاطہ ¿ تحریر میں نہ لاسکے یا اُن کے فکر و خیال میں رقصاں رہتے ہیں۔ گلزار کو راوی پار نہ جانا پڑتا تو وہ بھی اپنے پُرکھوں کے ماضی کے مزاروں پر پھول چڑھاتے دکھائی دیتے۔ 
گلزار اگر اپنے وطن میں ہوتے تو اُن ساری جگہوں پہ جاتے جہاں داستان گو لے گیا۔ وہ اِس دھرتی کے سمپورن تھے جہاں لاکھوں برس قبل تہذیب نے قلقاری بھری اور پاﺅں پاﺅں چلی۔ اِس سرزمین، اِس ارتفاعی خِطّے سے جو موسیقی، بہتے پانیوں، ٹوٹتے برفانی گلیشیئروں ، ہواﺅں میں پتّوں کی سرسراہٹوں، پرندوں کی چہکار وںسے پھوٹی، گلزار میںاِسی کے ساتوں سُر ہیںاور یوں وہ شاید اس کی تکمیل کرتے ہیں۔ وہ اس دیس کے باسی تھے جہاں رانجھے نے کان چھدوائے تھے۔ کہتے ہیں کہانی سفر کرتی ہے۔ اس خطے میں، اس سے آگے پنجاب کے خطے میں اور اس سے بھی آگے سندھ اور بلوچستان میں جو کہانیاں سفر کرتی ہوئی داخل ہوئیں، سب کا ماخذ و منبع وسط ایشیا اور ترکستان بتایا جاتا ہے۔ وہاں بھی تو یہ کہانیاں کہیں سے آئی ہوں گی! اِن کہانیوں میں جدائی، جدائی کا دُکھ، مِلن کی آس اور تڑپ ایک سی ہے۔ دو ہزار برس پہلے دیوارِ چین کی تعمیر میں ایک بیگاری مزدور جان دے دیتا ہے تو اس کی محبوبہ، اس کی بیوی اتنے آنسو بہاتی ہے کہ دیوارِ عظیم کا ایک بڑا حصّہ سمندر میں جاگرتا ہے، فنا ہوجاتا ہے۔ وہ محبوبہ بھی فنا ہوجاتی ہے۔ آج بھی اس مقام پر، ایک جانب شکستہ دیوار سمندر کی تہہ میں جا بیٹھتی ہے تو قریب ہی چھوٹی چھوٹی رنگین مچھلیاں پانی میں اُچھلتی اور غوطے لگاتی پھرتی ہیں۔ اُن مچھلیوں کو پکڑنے کی ممانعت ہے کہ وہ محبوبہ کے جسم کے پھول ہیں۔داستان گو نے وہ جگہ دیکھی اور ایک ِبسمل محبوبہ کے جسم سے پھوٹنے والی مچھلیوں کا رقص بھی-رقصِ ِبسمل۔
ایک شعر نظر سے گزرا۔

رقصِ ِبسمل کی بات کرتے ہو 
تم نے ِبسمل کا رقص دیکھا ہے؟

 دنیا میں جہاں کہیں ندیوں، دریاﺅں، جھیلوں، سمندروں میں ننھی ننھی مچھلیاں اُچھلتی کودتی ہیں ،کیا انہیں پیامِلن کی آس رکھنے والا” رقص ماہی“ کہا جاسکتا ہے۔
اگر دنیا بھر میں بِکھری اُن کہانیوں کو مجازی رنگ میں نہ لیا جائے تو وہ تصوّف کا روپ دھار لیتی ہیں۔ وحدت الوجودی اور فکری اڑان بھرتی ہیں۔ قونیہ میں مولانا جامی کے مزار پر جو درویش رقص کرتے ہیں، اُن کا لباس پاﺅں سے سر کی ٹوپی تک مخروطی رنگ اپناتا چلا جاتا ہے۔ وحدت الوجود تک رسائی!اُس رقص کو رقصِ درویش کہا جاتا ہے۔
گلزار کے آبائی گاﺅں سے چند میل دور جوگیوں کا ٹیلہ ہے۔ دو ہزار برس سے زیادہ عرصے تک آباد رہا۔ آباد تو آج بھی ہے، بس آبادی نہیں۔ اس کا وجود تو نہ مِٹ پائے گا! انہوں نے راوی پار بھی جانے کتنے شرنارتھی کیمپوں میں وقت بِتایا ہوگا؟ کہاں سے کہاں گئے ہوں گے؟ حصولِ علم میں کیا کیا پاپڑ بیلے ہوں گے؟ اُن کا عشیر بھی داستان گو بیان کرپایا ہو تو جانیے سب سوارتھ ہوگیا۔
داستان گو ایک مقام پر لوسر باﺅلی کا ذِکر کرتا ہے۔ یہ ٹیکسلا کے قریب واقع ہے۔ مغل سلطنت سے بھی پہلے شیر شاہ سوری نے کلکتہ سے پشاور تک جرنیلی سڑک بنائی جسے آج بھی عہد ِ وسطیٰ میں انجینئرنگ کا ایک سنگِ میل قرار دیا جاتا ہے۔ اِس سڑک کے کنارے، مسافروں کے لیے پڑاﺅ، سرائے اور کنویں تعمیر کیے گئے۔ لوسر باﺅلی اُن ہی میں سے ایک ہے۔ 1950ءبلکہ 1960ءکے عشرے تک یہ باﺅلی اصل حالت میں موجود تھی۔ ماضی کی ایک یادگار ! لیکن پھر مافیا نے اُسے بھی نہ بخشا۔ اب اُس کا کوئی نشان ہے بھی تو اصل نہیں۔ گلزار نے شاید یہ مقام دیکھا بھی نہ ہوگا۔ لیکن پڑھا ضرور ہوگا۔ نہ بھی پڑھا ہو تو کہتے ہیں کہ شاعر پہ اکثر الہامی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔کنویں کے عنوان سے اُن کی دو نظمیں ہیں۔ نظمیں کیا، اُن میں سے ایک تو ”کنویں کا نوحہ“ ہے۔ ایک زندہ کنواں جسے انسان نے اپنے ہاتھوں دفن کردیا۔ گلزار نے ہوسکتا ہے ایسا کنواں کہیں اور دیکھا ہو کہ وہ تو جیون کے چند برس ہی اپنی جنم بھومی میں گزار کے راوی پار جانے پر مجبور کردیے گئے تھے۔ لیکن ایسا کنواں- لوسر باﺅلی -اور ایسے ہی جانے کتنے کنویں اُن کے آبائی خِطّے میں موجود تھے یا ہیں جن پہ اُن کے نوحے کا وُرود جگہ پاسکتا ہے!


داستان گو، ایک قبیلے کی جڑیں یا اُس کے اسلاف کی تلاش میں برِ صغیر کے انجانے خِطّوں، برف پوش سربہ فلک پہاڑوں، دریائی گزر گاہوں میں مارا مارا پھرتا ہے۔ کیا یہ بھی گلزار کا ”رزمیہ“ نہیں؟ یہ برِ صغیر میں بسنے والے ہر فرد کا رزمیہ ہے۔ اُسے صرف قبیلے کا نام بدلنا اور اپنے قبیلے کا نام لکھنا ہے۔ 1980ءکی دہائی کے اوائل میں، سیاہ فام امریکی ایلکس ہیلے نے ”The Roots“ کے عنوان سے نیم تاریخی، نیم افسانوی ناول لکھ کے دنیا بھر میں تہلکہ مچادیا تھا۔ وہ بھی تین ساڑھے تین سو برس پر محیط کہانی کہتا ہے جب یورپی نو آبادیاتی بحری جہاز، افریقی غلام پکڑنے اور انہیں بیچنے کے کریہہ دھندے میں افریقی ساحلوں کے ساتھ ساتھ منڈلاتے رہتے تھے۔امریکا میں افریقی غلام لاکر اُن سے بیگار لینا چند صدی پہلے تک کی نو آبادیاتی قوّتوں کا انتہائی ظالمانہ اور انسانیت سوز اقدام تھا لیکن تب نو آبادیاتی قوّتیں ایسا نہ سمجھتی تھیں۔ اُس کریہہ کاروبار کو اپنا حق تصوّر کرتی تھیں۔لیکن جب کوئی پہاڑ کی چوٹی پہ پہنچ جاتا ہے تو اُس کا اُترنا بھی لابدی ہوتا ہے کہ وہ انتہا سے اوپر نہیں جاسکتا۔ لیکن گلزار کے لیے پُرکھوں کی تلاش تو کئی ہزاربرس پہ پھیلی ہوئی ہے۔ داستان گو کا تو صرف بیانیہ ہے۔ باقی سب سمپورن سنگھ کالڑا عرف گلزار کا ہے! اسلاف کی اِس تلاش کے سمندر میں کتنے ہی دریا آن گرتے اور اپنا وجود کھو کے، نیا وجود پا لیتے ہیں۔ بابا گورونانک کی ایک دوستی بچپن سے چلی اور دمِ واپسیں تک قائم رہی۔ وہ دوستی مردانہ نامی ایک مسلمان سے تھی۔ مردانہ کی اولاد آج بھی پاکستان میں ننکانہ صاحب کے آس پاس آباد ہے۔ یہ سب کیا ہے - تعلق، واسطے اپنے وجود کے لیے وقت یا دورانیے کے محتاج نہیں ہوتے۔

اولڈ گورڈونین، رشید بٹ (راولپنڈی) کی ایک تحریر

Related image

___________________

No comments:

Post a Comment