اخلاق احمد کی جَلتی بُجھتی کہانیاں۔۔۔رشیدبٹ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Saturday, 20 January 2018

اخلاق احمد کی جَلتی بُجھتی کہانیاں۔۔۔رشیدبٹ

0 comments


اخلاق احمد کی کچھ کہانیاں مَیں نے پڑھیں لیکن بس ایسے ہی جیسے دوسری کہانیاں پڑھتے ہیں۔ ہاں، کچھ عرصہ ہوا ایک کہانی کچھ دل کو لگی۔ ایک بلوچ سردار کی کہانی۔ اخلاق احمد سے شناسائی ضرور تھی، کچھ طویل بھی لیکن ہمیشہ رسمی سی رہی۔ بلوچ سردار والی کہانی پڑھی تو معلوم ہوا کہ اُن کا تو ’’جانے پہچانے‘‘ کے عنوان سے افسانوں کا مجموعہ بھی ’’زیرِ تعمیر‘‘ ہے، جس میں مذکورہ کہانی بھی شامل ہے۔ گویا مَیں نے صرف دیگ کا ایک دانہ ہی چکھا تھا۔ کراچی پریس کلب میں پولنگ تھی۔ مَیں بھی چلا گیا اور وہاں اخلاق صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ مَیں نے شکایتاً کہہ دیا کہ آپ نے ایک دانہ چکھایا اور دیگ سنبھال کے رکھ لی۔ مسکرائے اور بولے، ’’ہاں ’دیگ‘ اب تیار ہے۔ آپ کو پوری کی پوری بھیج دوں گا۔‘‘ مَیں نے اِسے دیوانے کی بڑ جانا مگر چند روز بعد ہی اپنے سوچے پہ شرم سار سا ہو گیا۔ TCS والا آیا اور چاروں طرف سے بند ایک لفافہ تھما گیا۔ کھولا تو ’’جانے پہچانے‘‘ کا ٹائٹل منہ چڑھا رہا تھا۔ کتاب کو اُلٹ پَلٹ کے دیکھا تو لکھنے والے کا نام ’’اخلاق احمد‘‘ دکھائی دے گیا۔ اخلاق احمد نے بات رکھ لی تھی۔ پیش لفظ پڑھا تو یوں محسوس ہوا، اخلاق احمد چھ دہائیوں سے جن راہوں اور پگڈنڈیوں سے گزر رہے تھے اور گزر رہے ہیں، مَیں سات دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اُن ہی راہوں کا مسافر تھا۔ ہم دونوں ہی ’’پہاڑ کے اُس پار‘‘ پہنچنے اور دیکھنے کے آرزو مند تھے اور ہیں، دونوں کے بچپن پر عسرت و تنگ دستی نے نقوشِ پا چھوڑ رکھے تھے۔ ہاں ایک کُھلا فرق ضرور نظر آیا۔ اخلاق احمد نے اپنی سوچوں کو افسانوں کا رنگ دے دیا اور مَیں اِس میں ناکام رہا۔ مَیں افسانہ نہیں لکھ سکتا کہ یہ میرا مزاج ہی نہیں۔ تو پھر مجھے رہ رہ کے احمد ندیم قاسمی کیوں یاد آتے رہے:

انداز ہُو بہُو تیری آوازِ پا کا تھا
باہر نکل کے دیکھا تو جھونکا ہوا کا تھا

اخلاق احمد عملاً بھی بڑے اخلاق والے ہیں۔ انہوں نے سوچا کہ کتاب پر صرف رشید بٹ کا نام لکھا تو  خانۂ انوری میں بھونچال سا آجائے گا۔ لہٰذا، انہوں نے ساتھ میری بیوی حمیرا اطہر کا نام بھی لکھ دیا کہ وہ بھی ادب و صحافت میں بڑا نام اور مقام رکھتی ہیں۔ یوں اخلاق احمد، منیر نیازی کا محاوراتی ’’دریا‘‘ آسانی سے پار کر گئے بلکہ ہم خرما وہم ثواب بھی ہوئے۔
’’جانے پہچانے‘‘ کے افسانے بڑے خوبصورت ہیں اور مَیں اُن کے حُسن میں ایسا کھویا ہوا ہوں کہ نکلنے کو جی ہی نہیں چاہ رہا۔ تاجور نجیب آبادی نے برسوں پہلے کہا تھا کہ :

ع         مَیں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں

اخلاق احمد کے افسانوں کا بہاؤ، انقلابِ آسماں پر اعتبار کرنے کے حوالے سے بے اختیار کر دیتا ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment