ذوالفقار علی بھٹو ۔۔۔ ِ تیرہ شبی کا آغاز - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Wednesday, 4 July 2018

ذوالفقار علی بھٹو ۔۔۔ ِ تیرہ شبی کا آغاز

0 comments

1977ء۔۔۔ اپریل شروع ہو چکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نام نہاد تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتی جا رہی تھی۔ پیسہ جانے کہاں سے آرہا تھا اور کہاں جا رہا تھا؟ اخبارات، ہفت روزہ اور ماہوار جرا ئد،کہ اُن دنوں میڈیا کا یہی ایک رخ تھا، اور واحد سرکاری ٹی وی، بھٹو اور اُن کی پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف ہر کردہ و نا کردہ جُرم اور گناہ سے بھرے ہوتے تھے۔ ہر صبح دروازے پر اخبارات کا پلندہ گرنے کی آواز، سوچ اور فکر کا نظامِ ہضم خراب کرنے، معدے کی گرانی بڑھانے اور ذہنی اپاہج پن فزوں تر کرنے میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔۔۔ ہفت روزہ اور ماہوار جرائدبھی ذہنوں کو مزید مفلوج کرنے اور اَن دیکھے ذرائع سے آنے والے پیسے سے اپنی اپنی جھولیاں بھرنے میں کسی سے پیچھے نہ تھے۔ فضا میں منافرت، قتل و غارت، لوٹ مار، پتھراؤ، گھیراؤ جلاؤ کا زہر، زہرِ ہلاہل کا روپ دھارتا جا رہاتھا۔
تب مَیں راولپنڈی میں تھا۔
راولپنڈی۔ اسلام آباد کی سر سبز و شاداب پہاڑیاں، ڈوبتے سورج کے ساتھ پھولنے والی شفق سے کچھ حسین تر ہو جاتی ہیں۔ مَیں اِک عالمِ بیزاری میں اُدھر بڑھتا چلا گیا۔ شفق پھولنے کا وقت ہو رہا تھا۔ لیکن یہ کیا؟ یہ واہمہ تھا یا پھر سیاستِ وقت سبز پہاڑیوں اور آسمان کو مِلانے والی خوبصورت لکیر پر بھی بھاری پڑ گئی تھی! اُفق اورشَفق۔۔۔ دونوں گدلا رہی تھیں۔۔۔ مَیں سوچنے لگا کہ کیا ہمارے باطن کی آلائشیں واقعی حسنِ فطرت کو بھی َ کجلا دیتی ہیں؟
مَیں کراچی آگیا۔ پَر یہاں تو ہنگامہ آرائی اور ہی گُل ِ کھلا رہی تھی۔ یہاں سمندر اور آسمان مِل کر اُفق کی لکیر کھینچتے ہیں۔ یہاں اُفق اورشَفق دھواں دھواں تھے۔ مَیں راولپنڈی لوٹ آیا۔ سرکاری اور سیاسی سطح پر مذاکرات بھی چل رہے تھے۔ فوج بظاہر حکومتِ وقت یعنی ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ تھی۔۔۔ لیکن مذاکرات ہوں یا فوج۔۔۔ ہر جا تلوّن اور بے یقینی کے گہرے بادلوں کا سایہ ہی دکھائی دیتا تھا!
رات گئے مَیں ایک کتاب لے کے بیٹھ گیا۔ ایک جگہ بانئ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کا ہیولا سا ابھرتا نظر آیا۔ وہ کچھ کہہ رہے تھے۔ تاریخ پر نگاہ گئی۔ 14جون 1948ء، اسٹاف کالج، کوئٹہ میں فوجی افسروں سے خطاب۔ نظریں اُن سطروں پر تھیں اور الفاظ گویا کانوں میں سر سرا رہے تھے:
یہ کہے بِنا چارہ نہیں کہ ایک دو اعلیٰ ترین فوجی افسروں سے گفتگو کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ افواجِ پاکستان کے افسر جو حَلف لیتے ہیں وہ اُس کے الفاظ کے منشاو مفہوم سے آگاہ نہیں ہوتے۔ بے شک حَلف محض چند فقروں پر مشتمل ہوتا ہے لیکن اہم ترشے، اُن کی روح اور قدرو قیمت ہے۔ حَلف میں کہا گیا ہے۔
مَیں خدائے بزرگ و برتر کو حاضر و ناظر جان کر عہد کرتا ہوں کہ ریاستِ پاکستان اور اس کے آئین کا وفا دار ہوں گا۔
اِس کی روح پر جائیے۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ آئین کا مطالعہ کریں اور جب آپ یہ کہیں کہ آپ آئینِ پاکستان کے وفادارہیں تو اُس کے اساسی آئینی اور قانونی منشا اور مفہوم کا اِدراک کریں۔۔۔
قائداعظم کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔ شاید میری آنکھ لگ گئی تھی! بیدار ہوا تو اخبارات کے پلندے میں سوئی، خاموش بڑی بڑی سرخیاں گویا چنگھاڑ رہی تھیں۔۔۔
5 جولائی۔۔۔
گئی رات کے پچھلے پہر کسی نے کہا، ’’سائیں، مذاکرات کا میاب ہوئے۔ سب نے دستخط کر دےئے۔
اور اُسی رات کے سنّاٹے میں قریب آتی بوٹوں کی دھمک قریب تر آچکی تھی۔۔۔
ذوالفقار علی بھٹو کی ِ تیرہ 3کا آغاز ہو چکا تھا۔۔۔
تب بھانت بھانت کی بولیاں سننے میں آنے لگیں۔ کوئی کہہ رہا تھا۔ ہم نے تو دستخط کر دےئے تھے۔ معاملات طے ہو چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے ہمارے مطالبات مان لئے تھے۔ تو پھر یہ فوج کہاں سے آن دھمکی؟
کہیں بھٹو کو کوہالہ پُل پر لٹکانے کی بازگشت تھی۔ کوئی بھٹو کو کافر ثابت کرنے پر تلا بیٹھا تھا۔ مخصوص اخبارات اور جرائد بھٹو خاندان کو بے لباس کرنے لگے۔ تہمتوں کا بازار گرم ہو گیا۔ بہت سے اخبار نویسوں اور کالم نگاروں نے من گھڑت ’’آنکھوں دیکھا حال‘‘ لکھنا شروع کر دیا۔ یوں خصوصاً اخبارات اور صحافیوں کی رگوں میں پیسہ دوڑایا گیا۔ اُن اخبار نویسو ں میں سے چند ایک ایسے بھی تھے، جنہوں نے برسوں بعد، اپنی ہی تحریروں میں تسلیم کیا کہ انہوں نے جو کچھ لکھا، غلط تھا۔ وہ بھٹو کے خلاف اس تحریک کے دامِ فریب میں آگئے تھے۔ انہوں نے قلم کی بے حرمتی کی تھی۔ نام لینا مناسب نہیں۔ پڑھنے والوں نے اُن کی سابقہ اور حالیہ تحریریں پڑھی ہیں۔
جن سیاسی بونوں نے بھٹو کے خلاف اُس تحریک کو کفرو اسلام کی جنگ بنایا تھا، وہ دھیرے دھیرے جنرل ضیا الحق کی فوجی ُ جنتاکی گود میں جا بیٹھے۔ فوجی ُ جنتا، گو اپنا طویل منصوبۂ حکمرانی لے کر آئی تھی، اُن سیاستدانوں نے ُ جنتا کے پلڑے میں بیٹھ کر اُس کے منصوبے کو مزید تقویت دی۔ نوّے دن کا آپریشن فےئر پلے گیارہ برس کی طویل غیر آئینی حکمرانی پر پھیل گیا۔ جنرل ضیا الحق کی فوجی ُ جنتا نے پاکستان کے ملکی اور قومی مفادات کو یک سر نظر انداز کرتے ہوئے اندرونِ ملک اور افغانستان میں بیرونی نو آبادیاتی قوّتوں کا، نہ صرف ساتھ دیا بلکہ اُن کی مدد کے لئے نام نہاد ملکی اور غیر ملکی طالبان کی ایسی فصل بوئی جو آج پاکستانی عوام خود کش حملوں، بمباروں، ہدف بناکر قتل و غارت، بچیوں پر عِلم کے دروازوں کی بندش، لا قانونیت، سیاسی اور اقتصادی بے یقینی، بے چینی اور نہ جانے کس کس عذاب کی صورت میں کاٹ رہے ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو میں ایسی کیا بات تھی جو وہ آج بھی عام آدمی کے دل میں سمایا ہوا ہے؟

1940ء کی دھائی کا ایک کھلنڈرا، بے پروا سا نوجوان، پڑھنے کے لئے امریکہ گیا تو نیویارک کی اُس وقت کی بلندو بالا عمارتیں، ریتی بجری اور سیمنٹ کا شہر دیکھ کر ناک بَھوں چڑھا کے رہ گیا۔ دوستوں کے ساتھ چائے خانوں میں بیٹھتا تو چائے خانوں کے دروازے بند ہونے تک گپ لڑاتا رہتا۔ بیروں کو ٹپ بھی نہ دیتا کہ انہوں نے جلدی چائے خانہ کیوں بند کر دیا؟ اس سے بھی پہلے، بقول پیلو مودی، کرکٹ کا شوقین ممبئی کا کرکٹ اسٹیڈیم اس کا پسندیدہ ٹھکانا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کے جس جس تعلیمی ادارے میں رہا، امتیازی نمبر اور پوزیشن اُس کے دامن گیر رہے۔۔۔
اور تاریخ اس کا محبوب اور پسندیدہ موضوع۔ نیوز ویک کے 1945ء اور اس کے بعد کے شمارے گواہ ہیں کہ تحریکِ پاکستان کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی سرگرمیاں بعض اوقات حد سے تجاوز کرجاتی تھیں۔ قیامِ پاکستان کے فوری بعد کسی بھارتی نے قائدِاعظم محمد علی جناح کے خلاف نیوز ویک میں مضمون لکھا تو بھٹو نیوز ویک کے ّ لتے لینے لگے۔ اسلام اور مملکتِ اسلامیہ کی تاریخ پر طویل تحقیقی مضمون لکھا تو قلم کے بل پر دنیا کے ایک گوشے سے، اسپین کے راستے ہوتے ہوئے یورپ کے دروازوں تک جا پہنچے کہ مملکتِ اسلامیہ ایشیا اور یورپ کے بڑے حصے پر محیط تھی۔ اور سب سے اہم بات تو یہ کہ قدرت نے بھٹو کو اثر انگیز قوتِ تحریر و دیعت کی تھی۔ اس کا اندازِ تحریر دل کے نہاں گوشوں کو بھی ُ چھو لیتا ہے۔ کال کوٹھری میں بیٹھ کر لکھی جانے والی تحریر ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ بلاشبہ ایک ادب پارہ ہے۔
ایک فیوڈل جاگیردار خانوادے سے تعلق کے باو جود ذوالفقار علی بھٹو نے دورانِ تعلیم دنیا دیکھی۔ دنیا کو ہر رنگ میں دیکھا۔ اپنے جن ساتھی طلبا میں وقت گزارا وہ سب تو جاگیردار خانوادوں سے نہ تھے! اُن کا عمومی تعلق ادنیٰ متوسط، متوسط یا اعلیٰ متوسط طبقوں سے تھا۔ یوں بھٹو کے پاؤں زمین پہ رہے۔ اُس نے عام آدمی کے ساتھ رہنا سیکھا۔ اس کے مسائل اور معاملات سے آگہی حاصل کی۔ مٹی کا بیٹا ہونے کا احساس جاگزیں ہوا۔ یہ ایک فطری انقلاب تھا جو اپنی دھرتی پر چلنے پھرنے والے عام لوگوں کے محسوسات کو سمجھنے اور انہیں اپنانے میں بھٹو کے کام آیا۔ شاید یہی سبب تھا کہ ووٹ لینے نکلا تو اُسی عام آدمی نے اپنے وڈیرے سے خوف نہ کھایا اور کہا،

’’سائیں مونجھا، ہمیں کیوں شرمندہ کرتے ہو۔ ووٹ تو آپ کے لئے ہے‘‘۔

پچاس کے عشرے میں ذوالفقار علی بھٹو پاکستان لوٹے تو شاید اقتدار کی سیڑھی ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔ لیکن اِسے حالات کی ستم ظریفی کہیے کہ ایک کُھلے، سویلین عوامی ذہن رکھنے والے شخص کو فوجی حکومت مِلی۔ بھٹو کی اُس دور کی تحریریں پڑھنے اور تقریریں سننے سے اندازہ ہوتا ہے کہ 1970ء تک کا سارا زمانہ بھی ایک ایسی تِیرہ شبی تھا جس کے آخری سرے پر ذوالفقار علی بھٹو کو روشنی کی کِرن نظر آرہی تھی! اور اگر ایسا ہی تھا تو افسوس یہ روشنی چھ ساڑھے چھ سال سے زیادہ نہ رہی۔ اگلی تِیرہ شبی خود بقول بھٹو، اٹھارہ مہینوں پہ پھیلی اور جیون َ جوت بجھا کر ہی دم لیا۔
میرے سامنے ایک خط رکھا ہے۔ یہ خط ذوالفقار علی بھٹو نے دارو رسن کی داستان رقم کرنے سے ٹھیک 16 روز قبل لکھا۔ سوچ حیرت بداماں ہے کہ انسان اتنا بہادر بھی ہوسکتا ہے؟ دار سامنے ہے۔ رسّا بھی جھول رہا ہے۔ اور وہ تاریخ کے صفحات میں بیٹھا بول رہا ہے! یہ خط ذوالفقار علی بھٹو نے 20 مارچ 1979ء کو ممتاز دانشور، شاعر، بلند پایہ منتظم اور انگریز دور کے بیورو کریٹ سیّد ہاشم رضا کے نام لکھا۔ جس کے بارے میں خود سیّد ہاشم رضا کہتے ہیں کہ:
’’کال کوٹھری سے بھٹو کا شاید یہ آخری خط تھا۔ وہ برطانوی ہند کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے بارے میں روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے میرے مضامین پڑھ رہے تھے‘‘۔
ذوالفقار علی بھٹو لکھتے ہیں:
کِرچی کِرچی یادیں یوں امڈی چلی آرہی ہیں گویا کوئی دوسری دنیا ہو۔
***
مَیں اس تنگ سی کوٹھری میں بیٹھا سوچ رہا ہوں۔ میرا لڑکپن تھا جب آپ لاڑکانہ کے کلکٹر تھے۔ آپ کا مہذبانہ رکھ رکھاؤ، طور طریق آج بھی ذہن کے ایک ایک گوشے پر ثبت ہے۔
***
برسوں بعد کی بات ہے، مَیں ایوب خان کے ساتھ گورنمنٹ ہاؤس ڈھاکہ میں بیٹھا تھا۔ معاملہ، اب ہم سے بہت دُور صوبہ، مشرقی پاکستان کے لئے چیف سیکریٹری کے انتخاب یا تقرر پر اٹکا ہوا تھا۔ ایوب خان یہ دیکھ کر ششدررہ گئے کہ مَیں، آپ کے تقرر کے معاملے میں، مشرقی پاکستان کے گورنر، جنرل اعظم خان کے ساتھ کھڑا تھا!
***
’’غیر منقسم ہندوستان کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے تقسیمِ ہند میں جو کردار ادا کیا، اس کے بارے میں میرے اپنے تحفّظات ہیں۔ گزشتہ اٹھارہ مہینوں کے دوران مَیں نے تقسیمِ ہند سے متعلق مواد بار بار پڑھا ہے۔ سیاسیاستِ پاکستان کے بارے میں میرا تجربہ مجھے وسیع تر تناظر میں اُس کے تجزیئے کی جانب لے جاتا ہے اور یہ بات مَیں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ جذبات اور یادِ ماضی کی رو میں بہہ جانا میری فطرت نہیں۔ میری نگاہ میں تاریخ کا احترام ارفع مقام رکھتا ہے۔ ‘‘
***
’’ہم ماؤنٹ بیٹن کو 14 اگست 1947ء سے قبل مسلمانوں اور پاکستان کا بڑا اچھا دوست سمجھتے تھے لیکن اگلی صبح جب ہم بیدار ہوئے تو پتا چلا کہ اس سے بڑا کوئی دشمن ہی نہ تھا۔‘‘
***
’’یحییٰ خان اگر اقتدار میں بٹوارے کے لئے مجیب الرحمن اور میرے ساتھ چال بازیوں سے کام نہ لیتے تو مشرقی اور مغربی پاکستان مزید کچھ عرصے کے لئے ساتھ رہ سکتے تھے۔یہ مَیں نہیں کہہ رہا۔ یہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کہہ رہی ہے اور ا ّ لمیہ تو یہ ہے کہ اب بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ باقی پاکستان کے ساتھ بھی قدرے فرق کے ساتھ وہی کچھ روا رکھا جا رہا ہے۔ مَیں حیراں ہوں کہ اِس نازک سے اتحاد کا مستقبل کیا ہوگا۔ یہ کب تک چلے گا؟‘‘
***
’’ہماری ایک بڑی خامی یہ بھی ہے کہ ہم اپنی غلطیاں دوسروں کے سر تھوپ دیتے ہیں۔‘‘
***
’’براہِ کرم، یہ یاد رکھیئے کہ ہم نے پاکستان کے لئے جو جدوجہد کی، اُس کا مقصد قوموں کی برادری میں برابری حاصل کرنا تھا۔۔۔ برابری سے کم کچھ نہیں۔ آزادی حاصل کرنا تھا۔۔۔ آزادی سے کم کچھ نہیں۔ عزت و قار حاصل کرنا تھا۔۔۔ عزت و وقار سے کم کچھ نہیں۔ ہم بھائی چارا چاہتے تھے، امتیازی سلوک نہیں۔‘‘
***
ذوالفقار علی بھٹو کوتِیرہ شبی کی طرف دھکیلنے والوں میں کچھ نام بھی آتے ہیں۔ اُن کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں۔
***
ذوالفقار علی بھٹو اِس دھرتی کا بیٹا تھا۔ اُس نے دار پہ ُ جھول جانا پسند کیا، کوئی رعایت نہ مانگی۔ اُس کی ِ تیرہ 3 تو ختم ہوئی۔ وہ خود ابدیت حاصل کر گیا۔
ہم نے اس کا ساتھ نہ دیا کہ شاید وہ نقیب تھا اور ہے۔۔۔ آنے والے روشن وقت کا۔۔۔!
***

No comments:

Post a Comment