Dr. Muhammad
Ajmal Khan appointed
University of Karachi’s 17th vice-chancellor
By Our Correspondent
Published:
January 24, 2017
Prof Dr Muhammad Ajmal Khan. PHOTO: FILE
KARACHI: Prof Dr Muhammad Ajmal
Khan was appointed the 17th vice-chancellor (VC) of the University of Karachi
(KU) for four years on Monday through a notification issued by Governor House.
Dr Khan is the founding director of the Institute of Sustainable Halophyte
Utilisation (ISHU).
The post of VC fell vacant when Prof Dr Muhammad Qaiser completed his
tenure on February 9, 2016. He was asked to continue by the government as the
acting VC until a new appointment could be made. The procedure of appointing
the VC faced delays for about a year despite an advertisement for the post
being published on January 27, 2016. Interviews of the shortlisted candidates
were held in August, 2016 but, due to a controversy in the marking in the
interviews and change of the chief minister, governor and the universities and
boards’ secretary, the appointment of the VC came to a halt.
The government sped up the process when, on December 29, 2016, the Sindh
High Court’s Hyderabad circuit bench issued an order to appoint the VC’s of KU,
the University of Sindh and Dow University of Health Sciences within a month.
Soon after the order, CM Murad Ali Shah called the top candidates for
interviews but the marking controversy delayed the appointment.
Following the controversy of markings by the search committee, Governor
House requested that all the clarifications and detailed records of the
advertisement, interviews and markings be presented before any notification was
issued. Deceased governor Justice (retd) Saeeduzzaman Siddiqui had planned to
meet the top candidate the day before he passed away.
Federation of All Pakistan Universities Academic Staff Association
general secretary and president of the Karachi University Teachers Society, Dr
Shakeel Farooqi said that Dr Khan will be facing a number of challenges because
the varsity is not in the best state.
“The university needs sensible decisions to cope with urgent matters,
such as financial crisis and selection boards for appointments and promotions
on merit,” he explained, assuring the VC support from the teacher’s society.
The university also needs proper rules and regulations and special
emphasis on research, academic activities and cleanliness at the campus.
Dr Khan
The newly appointed VC has spent 40 years in teaching and research. He
completed his BSc (Hons) in botany from KU in 1973 and MSc in 1974. He was
awarded a PhD in botany and ecology in 1985 by Ohio University in the United
States and DSc in botany in 2010 by KU.
He is serving as a visiting professor at several US and European
universities and has also been awarded the Pride of Performance award on August
14, 2001 and Sitara-e-Imtiaz in 2007 in recognition of his scientific
contribution.
Pakistan Academy of Sciences elected Dr Khan as its fellow in 2001, while
The World Academy of Sciences (TWAS) elected him as a fellow in 2004. Dr Khan
was elected as a fellow of the Islamic Academy of Sciences (IAS) and the Higher
Education Commission (HEC) conferred upon him the title of Distinguished
National Professor in 2005.
The Pakistan Academy of Sciences also presented its highest award of
Distinguished Professor of the Year in 2008 to the newly appointed VC.
Dr Khan has also served KU from 1975 till his retirement in 2012 as a
tenured track meritorious professor, after which he joined Qatar University as
Qatar Shell Professorial Chair in Sustainable Development and coordinator of
food security programme at the Centre for Sustainable Development.
ISHU was funded by the HEC and KU with Dr Khan as the founder and
director. It provides state-of-the-art facilities for research on
developing non-conventional crops for saline areas.
Published in The Express Tribune, January 24th,
2017.
Dr Mohammad Ajmal
Khan, vice chancellor of the University of Karachi said that he had read the
book in a single sitting and found it fascinating and informative.
“I have read such a good book after a long time,” he said, adding that its Urdu translation was marvelous, which made him happy.
“I have read such a good book after a long time,” he said, adding that its Urdu translation was marvelous, which made him happy.
قائدِ اعظم
محمد علی جناح
تعلیم،
جہدِ آزادی اور کامیابیاں
مصنّف:
محمد علی شیخ
سندھ
مدرستہ الاسلام یونیورسٹی پریس
کراچی
2013 ء جملہ حقوق بحقِ مصنّف اور ایس ایم آئی یونیورسٹی پریس،
کراچی کے نام محفوظ ۔
شائع
کنندہ: ایس ایم آئی یونیورسٹی پریس، کراچی
ایوانِ
تجارت روڈ، کراچی74000-، پاکستان
جملہ حقوق
بحقِ مصنّف محفوظ ہیں۔
مصنّف کی
تحریری اجازت کے بغیر، اِس کتاب کے کسی حصّے کی کسی بھی صورت میں،
برقی ہو یا
میکانکی، بشمول اطلاعاتی یکجائی اور اِس کے دوبارہ حصول اور استعمال
کی اجازت
نہیں ہے۔ البتہ مبّصر حضرات تبصرے کی غرض سے،
مختصراً ،
مختلف حصوں کا حوالہ دے سکتے ہیں۔
ISBN:
978-969-9874-00-0
اردو ترجمہ: رشید
بٹ
تزئین و آرائش: شائستہ
ایم علی
معاون، تزئین و آرائش: محمد
ماجد خاں
مطبوعہ:
خواجہ
پرنٹرزاینڈ پبلشرز
قیمت:-/700روپے
مندرجات
پیش لفظ
باب 1 والدین اور بچپن
باب 2 سندھ مدرستہ الاسلام میں حصولِ تعلیم
باب 3 لندن میں حصولِ علم
باب 4 پی ایچ ڈی کی پیش کش
باب 5 وکالت اور سیاست کے میدانِ عمل میں
باب 6 رتن بائی سے رشتۂ مناکحت
باب 7 ترکِ تعلق
باب 8 قرار دادِ پاکستان
باب 9 حصولِ پاکستان
باب 10 نوزائیدہ مملکت کے خدوخال
باب 11 سفرِ آخرت
باب 12 قائدِ اعظم محمد علی جناح کی آخری
وصیّت
حوالہ جات
کچھ سندھ
مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کے بارے میں
کتاب کے
مصنّف اور ’’نقش ‘‘گر کے بارے میں
پیش لفظ
قائدِ اعظم
محمد علی جناح کی حیاتِ مستعار کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو آج بھی پردۂ اسرار میں
اور ہنوز تحقیق طلب ہیں۔ ایسا ہی ایک پہلو اُن کی اوائل عمری اور تعلیم سے تعلق
رکھتا ہے۔ زندگی کا یہ حصّہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ اسی کی بِنا پر کسی شخص
کی آئندہ اُٹھان کا تعیّن کیا جاسکتا ہے۔
مَیں سندھ
مدرستہ الاسلام کی تحریری دستاویزات کا رکھوالا ہوں، جہاں قائدِ اعظم محمد علی
جناح نے اپنے زمانۂ طالب علمی کا طویل ترین دور، بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ 1887ء سے
1892ء تک کا زمانہ گزارا۔ مَیں نے اُن تاریخی دستاویزات کا جائزہ لیا تو یہ دیکھ
کر حیران رہ گیا کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کے متعدد سوانح نگاروں نے کئی باتیں
خلافِ واقعہ لکھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہیکٹربولیتھو لکھتے ہیں کہ قائدِ اعظم محمد
علی جناح نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا جب کہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوا تھا۔ محترمہ
فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ انہوں نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرسہ سے حاصل کی۔ سندھ
مدرستہ الاسلام کے ریکارڈ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ بات بھی حقیقت سے کوئی
نسبت نہیں رکھتی۔ پھر محمد علی صدیقی نے لکھا کہ انہیں 1883ء میں سندھ مدرسہ میں
داخل کیا گیا۔لیکن یہ حقیقت فراموش کرگئے کہ خود سندھ مدرستہ الاسلام یکم
ستمبر1885ء کو وجود میں آیا تھا۔
اِن
فروگزاشتوں سے قطعِ نظر، بہت سے مصنفّین اور محققّین نے بہ نظرِ غائر یہ کھوج
لگانے کی کہ کوشش نہیں کی کہ محمد علی جناح نے ابتدائی عرصۂ حیات کس ماحول اور کن
حالات میں بسر کیا؟ ملاحظہ کیجئے کہ سوانحِ نگار اپنے قارئین کویہ بتانے سے قاصر
رہے ہیں کہ محمد علی جناح نے انگریزی زبان پر عبور کب، کہاں اور کیسے حاصل کیا؟
عام تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے قیامِ لندن کے دوران انگریزی زبان پر
عبور حاصل کیا لیکن یہ کہنے والے اِس حقیقت کو نظر انداز کرجاتے ہیں کہ جب وہ لندن
پہنچے تو انہیں زبان پر اتنی دسترس تھی کہ لنِکنزاِن میں داخلے کا امتحان آسانی سے
پاس کرلیا تھا۔
اِسی طرح
اُن کی جائے ولادت کے بارے میں بھی مختلف آراء سننے میں آتی ہیں۔ جہاں تک خود اُن
کا تعلق ہے، اکتوبر1938ء میں انہوں نے سندھی ہونے پر اظہارِ تفّخر کیا اور کہا کہ
وہ اُس وقت سندھ میں پیدا ہوئے جب سندھ بمبئی پریذیڈنسی کا حصّہ تھا۔ ایک اور موقع
پر انہوں نے کہا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے تھے۔ تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
انہوں نے کراچی کے کس حصّے میں جنم لیا تھا؟ آیا یہ اندرونِ شہر کا علاقہ کھارادر
تھا یا ضلع کراچی کا علاقہ جھرک۔ اُن کی جائے ولادت کے بارے میں قیاس آرائیوں کے
حامی بھی ہیں اور مخالف بھی لیکن، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس بارے میں بھی
بہت کم تحقیقی کام کیا گیا ہے۔
1893ء سے 1896ء تک انہوں نے
لندن میں قیام اور تحصیلِ علم کیا۔ وہ دور بھی اُن کی زندگی کا ایک اہم حصّہ ہے۔
اِس بارے میں بھی بھرپور تحقیق کی ضرورت ہے کہ بیانیوں میں بہت سے سُقم در آئے ہیں۔
مثال کے طور پر، اُن کے بہت سے سوانح نگاروں نے ، جن میں اُن کی ہمشیرہ بھی شامِل
ہیں، تفصیلاً لکھا ہے کہ دادا بھائی نورو جی کو لندن کے ایک حلقۂ انتخاب سے
دارالعوام کا رکن منتخب کرانے میں قائدِاعظم محمد علی جناح نے حصّہ لیا تھا اور یوں
وہ برطانوی پارلیمنٹ کے اوّلین ہندوستانی رکن بنے۔ حقیقت یہ ہے کہ دادا بھائی
نوروجی نے جس انتخاب میں حصہ لیا وہ جولائی۔ اگست1892ء میں ہوا تھا جب کہ قائدِ
اعظم محمد علی جناح اس کے کئی ماہ بعد لندن پہنچے تھے۔ جس وقت دادا بھائی نورو جی
برطانوی پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے، قائدِ اعظم محمد علی جناح کراچی کے کرسچن
مشنری سوسائٹی(CMS) اسکول
میں پڑھ رہے تھے۔ وہ 8مارچ1892ء سے 31اکتوبر1892ء تک اس اسکول میں زیرِ تعلیم رہے۔
مَیں نے ،
اِن احوال کی روشنی میں ، فیصلہ کیا کہ سندھ مدرستہ الاسلام میں قائدِ اعظم محمد
علی جناح کے حوالے سے جو تاریخی دستاویزات اور معلومات موجود ہیں، وہ علمی کام
کرنے والوں اور محققّین کے سامنے بھی رکھوں تاکہ اُن کی زندگی کے مختلف پہلوئوں کے
بارے میں مزید تحقیق کی جاسکے۔ مَیں نے مزید دو تعلیمی اداروں، سی ایم ایس اور
لِنکنز اِن کے ریکارڈ اور معلومات تک بھی رسائی حاصل کی، جہاں وہ زیرِ تعلیم رہے۔
اِس کے علاوہ مَیں نے، اُن کے بچپن اور لڑکپن کے حوالے سے بھی، دیگر ذرائع سے
معلومات حاصل کیں تاکہ ان کے احوالِ حیات کا بہتر تر مرقّع مرتّب کیا جاسکے۔
قائدِ اعظم
محمد علی جناح ایسی عظیم المرتبت شخصیّت کی اوائل عمری کے حالات وواقعات سے صرفِ
نظر کرکے، اُن کی جہدِ آزادی اور کامرانیوں کا تذکرہ کچھ مناسب محسوس نہیں ہوتا۔
وہ ایک غیر معمولی شخصیّت کے مالک تھے، جس نے کرّۂ ارض پر ایک نئے ملک کا نقش ثبت
کیا۔ انہیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے نہ صرف جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے
لئے1947ء میں دنیا کی سب سے بڑی خود مختار مملکتِ پاکستان قائم کی بلکہ اِس مملکت
کے قیام کے نتیجے میں پورے عالمِ اسلام میں آزادی کی تحریکوں کو مہمیز مِلی اور قیامِ
پاکستان کے بعد دس سے پندرہ برس کے اندر اندر تیس سے زیادہ نئی مسلمان مملکتیں
وجود میں آگئیں۔ وہ ایک عظیم رہنمائے آزادی ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے غیر مقسم
ہندوستان میں ایک ممتاز وکیل کی حیثیت سے بھی لوہا منوایا۔
اِس سارے
پس منظر کو نگاہ میں رکھتے ہوئے، میری یہ خواہش رہی کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی
سوانح رقم کروں، جس میں اُن کی اوائل عمری، زمانۂ طالب علمی، پیشہ ورانہ پیش رفت
کے سلسلے میں جہدِ مسلسل، بحیثیت قائد کامیابیوں اور کامرانیوں، تصورِ پاکستان،
آخری وصیّت اور اس کے ساتھ ساتھ اُن کی نجی زندگی اور رتن بائی سے شادی، غرض، ہر
پہلو کا احاطہ ہو۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح کی سوانح پر محیط یہ کتاب نایاب تصویروں
سے مزّین ہے۔ یہ کتاب مَیں نے اِس انداز میں لکھی ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح
کے قائم کردہ ملک پاکستان کے عوام، خصوصاً نوجوان، پوری دلچسپی کے ساتھ اِس سے
استفادہ کریں۔
اِس کتاب کی
ترتیب، تدوین اور تزئین میں بہت سے افراد نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ تاہم ، جگہ
کی کمی کے سبب اُن کی اَن تھک محنت پر فرداً فرداً شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔
بہر حال،
مَیں، خاص طور پر ، شکر گزار ہوں شائستہ ایم علی کا جنہوں نے کتاب کی تزئین و
آرائش کی، اِسے بنایا سنوارا۔ علاوہ ازیں سندھ مدرستہ الاسلام یونیورسٹی میں میرے
شرکائے کارماجد، جنہوں نے کتاب کی تزئین میں ہاتھ بٹایا، زاہد اسلام جنہوں نے پروف
پڑھے، انورابڑو جنہوں نے تجاویز اور مشوروں سے ہاتھ بٹایا، سریش جن کے وسیلے سے
ادارے کے میوزیم سے پرانی دستاویزات دستیاب ہوئیں، یوسف جن کے تعاون نے لائبریری میں
موجود کتابوں کے حصول کو سہل بنایا اور قاسم، سعید، شمس اور اعجاز جنہوں نے مسوّدے
ٹائپ کئے، اظہارِ سپاس کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
کراچی:11اگست2013ء
والدین اور
بچپن
قائدِ اعظم
محمد علی جناح کے اجداد کا تعلق ریاست گوندل سے تھا جو بمبئی پریذیڈنسی کے کاٹھیاواڑ
ریجن میں واقع تھی۔1 اُن کے دادا پونجا بھائی کا تعلق اسماعیلی خوجہ برادری سے تھا
اور ریاست گوندل کے ایک گائوں پنیلی کے باسی تھے۔2 ریاست گوندل کے باشندے زیادہ تر
زراعت پیشہ تھے۔ کپاس، گندم اور ریاست کی مشہور مرچ، وہاں کی خاص فصلیں تھیں لیکن
پونجا بھائی اپنی ملکیتی کھڈیوںپر کام کرتے تھے۔ اُن کی پوتی فاطمہ جناح لکھتی ہیں
کہ ’’ وہ جوکھدر بُنتے اُس سے بہر حال، اتنی آمدنی ہوجاتی تھی کہ اُن کا شمار اُس
چھوٹے سے گائوں کے متموّل کنبوں میں ہوتا تھا۔‘‘ 3 اُن کے تین بیٹے تھے، ولی بھائی،
نتھو بھائی، جینا بھائی۔ اور ایک بیٹی تھی، مان بائی۔4
پونجا بھائی
کے سب سے چھوٹے بیٹے جینا بھائی کی پیدائش1850ء کے لگ بھگ ہوئی۔5 ذرا بڑے ہوئے تو
چھوٹے سے گائوں پنیلی میں باپ اور دو بھائیوں کے ساتھ مِل کر چند کھڈیوں پر کام
کرنا انہیں کچھ بھایا نہیں، لہٰذا ریاست گوندل کے دارالحکومت جاکر قسمت آزمائی کا
فیصلہ کرلیا۔ باپ نے تھوڑے سے پیسے اور بہت سی دعائیں دے کے رخصت کیا کہ جائو اور
وہاں کوئی کاروبار کرلو۔ فاطمہ جناح نے کئی عشروں بعد لکھا کہ ’’ میرے بابا سوچ
سمجھ کے قدم اُٹھاتے تھے۔ پونجی بہت تھوڑی تھی، اس لئے جلد بازی میں کوئی کام نہیں
کرنا چاہتے تھے۔6 جینا بھائی کی کاروباری سوجھ بوجھ اور محنت رنگ لائی اور جلد ہی
اُن کا شمار شہر کے کامیاب تاجروں میں ہونے لگا۔ وہ اشیائے ضرورت کی تجارت کرتے
تھے۔ جینا بھائی نے کاروبار میں پائوں جمالئے تو 1874ء میں گھر والوں نے ایک اسماعیلی
خوجہ کنبے کی لڑکی مٹھی بائی سے اُن کی شادی کردی۔ یہ کنبہ پنیلی سے کوئی دس میل
دُور واقع ایک گائوں دھرانا میں آباد تھا۔7
مٹھی بائی
کے ساتھ جینا بھائی کی شادی سے پانچ برس پہلے1869ء میں نہر سویز کی تعمیر پایۂ
تکمیل کو پہنچی تو کراچی کو برطانوی ہند میں ایسی بندرگاہ کی حیثیت حاصل ہوگئی جو
فاصلے کے اعتبار سے یورپ سے قریب ترین تھی۔8 نہر سویز کُھلی تو بمبئی سے یورپی
بندرگاہوں کے درمیان فاصلے کی نسبت کراچی کا یورپی بندرگاہوں تک کا فاصلہ تقریباً
دو سو بحری میل کم ہوگیا۔ اِس کے سبب وقت، پیسے اور ایندھن کی بچت ہونے لگی۔ مزید
براں، سندھ کے راستے پنجاب، شمالی ہندوستان بلکہ افغانستان تک رسائی آسان تر ہوگئی۔
اس پس منظر میں، بطور بندرگاہ ، کراچی کی اہمیت فزوں تر ہوتی چلی گئی۔ کراچی کی بے
مثل ترقی اور کاروباری اہمیت دیکھتے ہوئے جینا بھائی نے اپنی بیوی کے ہمراہ یہاں
منتقل ہونے کا فیصلہ کیا اور کاروبار بھی جمالیا۔9
جینا بھائی
کی کراچی آمد اور سکونت کے بارے میں دورائے مِلتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ سیدھے کراچی
آئے اور اندرونِ شہر میں واقع موجودہ عمارت وزیرمینشن میں اپارٹمنٹ کرائے پر لے کے
رہنے لگے۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ وہ پہلے جھِرک آئے تھے ۔ جھِرک اُس وقت کے ضلع کراچی
کی حدود میں واقع ایک قصبہ تھا( اور اب ضلع ٹھٹھہ میں واقع ہے۔) جھِرک سے وہ چند
برس بعد کراچی شہر میں منتقل ہوئے تھے۔
یہاں اس
بات کا تذکرہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ جھِرک، کراچی شہر سے لگ بھگ ستر میل دُور دریائے
سندھ کے کنارے واقع ایک بستی تھی۔ اور یہاں دریائی آمدو رفت اور بار برداری کی ایک
بڑی کمپنی ’’انڈس فلو ٹیلا‘‘ کا صدر دفتر تھا۔10 یہاں نہ صرف بہت سے کاروباری
مواقع موجود تھے بلکہ جینا بھائی کی اسماعیلی خوجہ برادری کے کنبے بھی بڑی تعداد میں
آباد تھے۔ اُن میں برادری کے مذہبی رہنماپرنس آغا خان بھی تھے جنہوں نے 1843ء میں
وہاں اپنا محل بنوا لیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جینا بھائی نے پرنس آغا خان کے محل سے
متصل ایک قطعۂ زمین بھی خریدا تھا۔ اسماعیلی خوجہ برادری ، پرنس آغا خان کے محل کی
دیکھ بھال کرتی ہے، لہٰذا وہ محل آج بھی وہاں محفوظ ہے اور اُس سے متصل وہ قطعۂ
زمین بھی، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جینا بھائی کی ملکیت تھا۔11
قائدِ اعظم
محمد علی جناح کے مبینہ آبائی گھر سے متصل ایک پرائمری اسکول ہے جو برطانوی حکومت
نے 1870ء میں قائم کیاتھا۔ یہ اسکول آج بھی بچوں کی تعلیم میں مصروفِ عمل ہے لیکن
پرانا ریکارڈ سب کھو چکا ہے۔12 1870ء میں جھِرک میں اسکول کا قیام اِس امر کی غمازی
کرتا ہے کہ یہ قصبہ برطانوی دورِ حکومت کے ابتدائی عشروں میں کتنی اہمیت حاصل کر
چکا تھا۔ اِس اسکول کے قیام کے پانچ برس بعد، 1875ء میں سر سیّد احمد خان نے علی
گڑھ کا تعلیمی ادارہ قائم کیا اور پندرہ برس بعد،1885ء میںحسن علی آفندی نے سندھ
مدرسۃ الاسلام کی بنیاد رکھی۔
کچھ لوگوں
کا خیال ہے کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح جھرک میں پیدا ہوئے تھے اور انہوں نے
جھِرک ہی کے پرائمری اسکول میں ابتدائی تعلیم پائی تھی۔ تاہم، ریکارڈ کی عدم دستیابی
کے سبب اِس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی۔ قائدِاعظم محمد علی جناح نے خود کہا تھا کہ
انہیں اپنے سندھی ہونے پر فخر ہے اور یہ کہ وہ سندھ میں پیدا ہوئے تھے۔ قائدِ اعظم
محمد علی جناح کے حوالے سے لکھا گیا ہے: ’’مسٹر ایم اے جناح نے کہا کہ انہیں اپنے
سندھی ہونے پر فخر ہے اور یہ کہ وہ سندھ میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے اُس سندھ کا
حوالہ دیا جب وہ ہنوز بمبئی پریذیڈنسی کا حصّہ تھا، اور جغرافیائی،طبعی اور قدرتی
لحاظ سے، باقی صوبے کی نسبت جداگانہ حیثیت رکھتا تھا۔ وہ خوش تھے کہ اب یہ ایک خود
مختار صوبہ بن چکا تھا۔ ‘‘13
دوسری جانب
کچھ ماہرینِ علم نے لکھا ہے کہ قائدِاعظم محمد علی جناح نے بقول خود کراچی کو اپنی
جائے ولادت قرار دیا تھا۔ لیکن اِس کے استرداد میں یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ اُن
دِنوں جھِرک بھی ضلع کراچی ہی کا ایک حصّہ تھا۔ تاہم ،اس سے کوئی زیادہ فرق نہیں
پڑتا کہ وہ کراچی شہر میں پیدا ہوئے تھے یا ضلع کراچی کے قصبہ جھِرک میں۔
جینا بھائی
اور اُن کا کنبہ کراچی منتقل ہوا تو انہوں نے شہر کے کاروباری مرکز ’’نیو نہام روڈ
‘‘پر واقع ایک تین منزلہ عمارت میں اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا۔ قائدِاعظم محمد علی
جناح کی چھوٹی بہن فاطمہ جناح لکھتی ہیں :’’میرے بابا‘‘ نے کھارادر میں جو شہر کا
کاروباری مرکز سمجھا جاتا تھا، نیو نہام روڈ پر دو کمرے کا معمولی سا اپارٹمنٹ
کرائے پر لیا۔ یہاں بہت سے کاروباری کنبے آباد تھے، جن میں سے کچھ گجرات اور کاٹھیا
واڑ سے آئے ہوئے تھے… پتھر اور چونے کے مسالے سے بنی اِس عمارت کی چھتیں اور فرش
چوبی تختوں سے جَڑے تھے۔ بابا نے جو اپارٹمنٹ لیا وہ پہلی منزل پہ تھا۔ آگے اتنی
بڑی اور چوڑی آہنی بالکونی کہ نیچے پیدل چلنے والوں کے لئے بنے پکے راستے پر سایہ کردیتی۔ دِن کے وقت اُس بالکنی میں بیٹھتے تو
ٹھنڈی ہوا بڑا سُکھ دیتی اور رات کے وقت چارپائی ڈال لیتے تو مزے کی نیند آتی۔
کمروں اور بالکونی کا رُخ مغرب کی جانب تھا اور کراچی میں اس کی ٹھنڈی سمندری ہوا
کے لئے یہ رُخ بہت ہی عمدہ جانا جاتا ہے۔‘‘14
قائدِ اعظم
محمد علی جناح کے گھر میں بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں محترمہ فاطمہ جناح
لکھتی ہیں کہ ’’ہم لوگ کاٹھیاواڑ سے آئے تھے لہٰذا گھر میں گجراتی بولی جاتی تھی۔لیکن
جب کراچی میں سکونت اختیار کرلی تو گھر کے سب لوگ کچھی اور سندھی بھی بڑی اچھی طرح
بولنے اور سمجھنے لگے۔‘‘15
جینا بھائی
نے کراچی میں کئی طرح کے کاروبار میں قسمت آزمائی کی۔ انہوں نے انگریزی زبان سیکھی
جس سے تجارتی لین دین میں انہیں خاصی کامیابی مِلی۔محترمہ فاطمہ جناح اپنے والد کی
کاروباری کامیابیوں کے حوالے سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’تب کراچی میں
کچھ برطانوی کاروباری ادارے، کراچی اور اندرونِ ملک کی پیداواریں اور مصنوعات یورپ
اور مشرقِ بعید کو برآمد اور برطانیہ سے روز مرہ ضروریاتِ زندگی درآمد کرتے تھے۔
گراہم ٹریڈنگ کمپنی، کراچی میں درآمد و برآمد کا ایسا ہی ایک ممتاز ادارہ تھا۔ میرے
بابا نے کسی اسکول میں توانگریزی کی تعلیم حاصل نہیں کی تھی، تاہم لگن اور فطری
رجحان کی بدولت انہوں نے انگریزی زبان پر خاص عبور حاصل کرلیا تھا۔ اُن دِنوں اس
بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کراچی کے کچھ ہی تاجر انگریزی میں بول چال
کی صلاحیت اور اہلیت رکھتے تھے۔ ممکن ہے کہ اُن کی انگریزی بول چال کی اہلیت اور
قابلیت ہی انہیں گراہم ٹریڈنگ کمپنی کے جنرل منیجر کے قریب لے آئی ہو،کیوں کہ قربت
اور تعلق اُن کے تیز تر کاروباری پھیلائو میں بہت ممد و معاون ثابت ہوئے۔‘‘16
جینا بھائی
نے اپنے ادارے کو جینا پونجا اینڈ کمپنی کا نام دیا اور ’’متعدد ممالک، خصوصاً
برطانیہ اور ہانگ کانگ کے ساتھ کاروباری روابط قائم کئے۔‘‘اُن کی بیٹی نے یادوں کے
دیے روشن کیے۔17اس کے علاوہ وہ بے ضابطہ بینکاری کے شعبے سے بھی وابستہ ہوگئے۔ اُن
کی بیٹی لکھتی ہیں:’’اُن دِنوں کھارادر کے کچھ تاجر، کاروبارہی نہیں کرتے تھے بلکہ
بینکاری سے بھی وابستہ تھے۔ اندرونِ سندھ، بلوچستان اور پنجاب کی ساری تجارتی
سرگرمیاں کراچی کی بندرگاہ سے منسلک تھیں اور بینکاری کی مناسب سہولتیں نہ ہونے کے
باعث، مالی لین دین اور انتقالِ زر کا کام عموماً یہی کمپنیاں انجام دیتی تھیں یا
اُن کی مدد سے یہ سارا کام ہوتا تھا۔ بہت سے کنبے اپنی نجی بچتیں اُن تاجروں کے
پاس جمع کراتی تھیں اور اس مقصد کے لئے اُن کے دفاتر استعمال کیے جاتے تھے، جیسے
کہ آج کل کے بینکوں میں ہوتا ہے۔ بے شک، تب جدید بینکاری کا سارا تام جھام نہ تھا
لیکن یہ طے ہے کہ اس زمانے کے تاجر بڑے ایمان دار ہوتے تھے۔ اُن کے منہ سے نکلے
ہوئے لفظ، کسی تحریری اقرار نامے سے کم نہ ہوتے تھے۔ میرے بابا کی کاروباری فرم، جینا
پونجا اینڈ کمپنی، ایسا ہی ایک ادارہ تھا۔ اِس کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں
بڑھتی جارہی تھیں۔ انہیں عام لوگوں اور تاجروں کا اعتبار اور بھروسا حاصل تھا۔‘‘18
جینا بھائی کی کامیاب کاروباری سرگرمیوں نے کنبے کے لئے خوشحالی کے دروازے کھول دیے۔
محمد علی،
جینا بھائی اور مٹھی بائی کے ہاں، 25 دسمبر 1876ء کو پیدا ہوئے۔ وہ اُن کے پہلونٹھی
کے بیٹے تھے۔ یہاں ایک بات قابلِ ذکر ہے کہ اُن کی تاریخ پیدائش کم و بیش تین تعلیمی
اداروں کے اندراجات میں 20 اکتوبر 1875ء دی گئی ہے۔ (اس کی تفصیل اگلے باب میں آئے
گی۔) تاہم، بعد ازاں انہوں نے اپنی صحیح تاریخ پیدائش 25 دسمبر 1876ء تلاش کرلی۔
1946ء میں ایک ماہر علمِ نجوم نے اُن سے کہا کہ وہ اپنی تاریخ پیدائش، وقت اور جگہ
بتائیں تاکہ وہ اُن کا زائچہ تیار کرسکے۔اس پر قائدِ اعظم نے جواب دیا: وقت، صبح
سویرے۔تاریخ، 25 دسمبر 1876ء مقام، کراچی۔19یہی تاریخ اُن کے پاسپورٹ میں درج ہے
اور سرکاری طور پر اُن کا یومِ پیدائش بھی اِسی تاریخ کو منایا جاتا ہے۔
پیدائش کے
وقت ’’محمد علی بہت کمزور، اور منحنی سے تھے۔ اُن کے ہاتھ پتلے اور لمبے اور سر
لمبوترا تھا۔‘‘ ان کی کم زورصحت اور بچنے کے امکانات کم ہونے کا معاملہ، اُن کے
والدین کے لیے باعثِ تشویش بن گیا۔20 تاہم ڈاکٹروں نے یہ کہہ کے اُن کی تشویش
دُورکردی کہ بچہ گو، معمول کے وزن سے قدرے کم لیکن بالکل نارمل ہے۔
دوسرا
معاملہ، اُن کا نام رکھنے کا تھا۔ کاٹھیاواڑ میں کنبے کی نرینہ اولاد کے نام
ہندوانہ اثرات لئے ہوتے تھے، لیکن سندھ ایک مسلمان صوبہ تھا اور اُن کے پڑوسیوں کے
بچوں کے نام اسلامی تھے۔ میاں بیوی نے طے کیا کہ پہلونٹھی کے بیٹے کے لئے ’’محمد
علی نام خوش بختی کا نشان ہوگا۔‘‘فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ :’’انہوں نے بیٹے کا یہی
نام رکھا۔‘‘21وہ صرف چھ ماہ کے تھے کہ کنبے والے اُن کی رسمِ عقیقہ ادا کرنے کے
لئے انہیں کاٹھیاواڑ میں ایک مقامی بزرگ حسن پیر کے مزار پر لے گئے۔22
محمد علی
کے بعد اُن کے چھ بھائی بہن اور ہوئے۔ دو بھائی اور چار بہنیں، جینا بھائی اور مٹھی
بائی کے ہاں کل سات بچے ہوئے۔ اُن کے نام ترتیب واریہ تھے:محمد علی، ان کے بعد دو
بہنیں رحمت اور مریم، پھر ایک بھائی احمد علی، اُن کے بعد پھر دو بہنیں شیریں اور
فاطمہ اور سب سے چھوٹے بھائی بندے علی۔23
کراچی کے
کسی اسکول میں ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں جس سے پتا چل سکے کہ انہوں نے ابتدائی
تعلیم کہاں حاصل کی؟ یہ بات پہلے ہی زیرِ بحث آچکی ہے کہ انہوں نے جھِرک کے پرائمری
اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔لہٰذا یہ بات یقینی ہے کہ اُن کی ابتدائی تعلیم
کے لئے گھر پہ ہی اہتمام کیا گیا تھا۔ اُن کی ہمشیرہ فاطمہ جناح نے لکھا ہے کہ
’’محمد علی قریباً چھ برس کے ہوئے تو انہیں گھر پہ ہی گجراتی پڑھانے کے لئے اتالیق
کا انتظام کیا گیا۔ تاہم، محمد علی، پڑھائی کی نسبت اپنے گلی محلے میں کھیل کود سے
زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ ریاضی سے تو انہیں خدا واسطے کا بَیر تھا۔ اُن کے تعلیمی
رجحان، خصوصاً ریاضی میں کمزوری سے اُن کے والد سخت پریشان تھے کیوں کہ انہوں نے بیٹے
سے بڑی امیدیں لگارکھی تھیں کہ وقت آنے پر وہ خاندانی کاروبار سنبھالیں گے۔ محترمہ
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ تقریباً نو برس کی عمر میں انہیں ایک مقامی اسکول میں
داخل کرادیا گیا لیکن وہاں بھی تعلیم سے اُن کی بے رغبتی کا سلسلہ جاری رہا۔‘‘24
پڑھائی میں
محمد علی کی عدم دلچسپی کے بارے میں فاطمہ جناح لکھتی ہیں کہ’’ اسکول میں انہیں
اپنے ہم جماعتوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ انہیں جب پتا چلتا کہ ہم جماعتوں نے انہیں
پچھاڑ دیا ہے، اُن سے زیادہ نمبر حاصل کیے ہیں تو وہ اور زیادہ دل شکستہ ہوجاتے۔
وہ دیکھتے کہ کھیلوں میں جن لڑکوں کو انہوں نے پیچھے چھوڑ دیا وہ کلاس میں زیادہ
نمبر لے کے اُن سے آگے نکل گئے۔ مایوسی اور زیادہ بڑھ جاتی جب انہیں معلوم ہوتا کہ
وہ کلاس میں اوّل نہیں آئے۔ انہیں، ایک جانب تو کئی گھنٹے کے کھیل کود کو چھوڑ کر
اسکول جانا پڑتا اور دوسری طرف اسکول میں کئی گھنٹوں کی پڑھائی کے باوجود ارفع ترین
طالب علم کا اعزاز حاصل نہیں کرسکتے تھے۔‘‘25
جینا بھائی،
پڑھائی کے معاملے میں اپنے سب سے بڑے بیٹے کے رویّے پر سخت پریشان تھے۔ ایک دن وہ
بیٹے کو لے کے بیٹھ گئے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے۔ ایک سوال کے جواب
میں محمد علی نے والد سے کہا کہ وہ اسکول جانے کے مقابلے میں اُن کے دفتر میں کام
کرنے کو زیادہ ترجیح دیں گے۔ طے ہوگیا، والد مان گئے اور محمد علی نے اُن کے آفس
جانا شروع کردیا، والد کی اس شرط کے ساتھ کہ وہ دفتر میں اوقاتِ کار اور نظم و ضبط
کی پابندی کریں گے۔ محمد علی نے دفتر جانا شروع کردیا۔ دفتر کے اوقات صبح آٹھ بجے
سے رات نو بجے تک تھے جس میں دوپہر کو دو گھنٹے کے لئے کھانے کا اور سہ پہر میں دو
سے چار بجے تک آرام کا وقفہ ہوتا تھا۔ محمد علی نے، بہر حال ایفائے عہد کیا لیکن
تھوڑے ہی عرصے تک ۔انہوں نے دیکھا کہ چوں کہ وہ لکھنے پڑھنے اور سوال حل کرنے کے
قابل نہیں تھے لہٰذا، انہیں اہم کاروباری معاملات اور لین دین سے الگ رکھا جاتا ہے
اور محض پھٹکل کام لئے جاتے ہیں۔ تقریباً دو ماہ بعد ہی انہوں نے والد سے کہہ دیا
کہ وہ اسکول جانا چاہتے ہیں۔ 26
باب 2
سندھ مدرسۃ
الاسلام میں حصولِ تعلیم
محمد علی سیکنڈری
اسکول کی تعلیم کے لئے جولائی 1887ء سے جنوری 1892ء تک سندھ مدرسۃ الاسلام کے طالب
علم رہے۔ اس میں بہر حال، دو مختصر سے وقفے آئے۔ سندھ مدرسۃ الاسلام میں اُن کا
حصولِ تعلیم کا دور سب سے طویل یعنی تقریباً ساڑھے چار برس رہا۔
سندھ مدرسۃ
الاسلام کے دستیاب ریکارڈ کے مطابق محمد علی سیکنڈری اسکول سیکشن کے اسٹینڈرڈ۔I (پرائمری اسکول کے چار
سال بعد… پانچویں جماعت) انگریزی سیکشن میں 4 جولائی 1887ء کو داخل ہوئے۔ اُن کے
مذہبی فرقے کے خانے میں ’’خوجہ‘‘ اور جائے پیدائش کے خانے میں ’’کراچی‘‘ لکھا ہوا
ہے۔ سابقہ تعلیم کے خانے کے سامنے لکھا ہے کہ چار سال کی پرائمری تعلیم گجراتی
زبان میں حاصل کی۔ تاریخ پیدائش تو درج نہیں تاہم عمر ’’14 سال ‘‘ لکھی ہوئی ہے۔
انہوں نے 30 جنوری 1892ء کو سندھ مدرسۃ الاسلام چھوڑا جب وہ انگریزی کے اسٹینڈرڈ V (نویں جماعت) میں تھے۔
ادارہ چھوڑنے کی وجہ، جنرل رجسٹر میں، شادی کے لئے کَچھ روانگی، درج ہے۔1
جواں سالی
کے اس عرصۂ حیات نے، جو سندھ مدرسۃ الاسلام میں گزرا، محمد علی کے ذہن پر کیا
اثرات مرتّب کئے ہوں گے، اس کا اظہار اس وقت ہوا جب وہ 21 جون 1943ء کو اپنی مادرِ
علمی میں آئے اور ’’سندھ مدرسہ کالج‘‘ کے قیام کا اعلان کیا۔ اس موقع پر تقریر
کرتے ہوئے وہ جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ جواحساسِ ذات کے حوالے سے ایک اَن ہونی بات تھی۔
یہ واقعہ اگلے روز روزنامہ مارننگ نیوز اور روزنامہ اسٹار آف انڈیا میںنمایاں طور
پر شائع ہوا۔ خبر میں لکھا تھا: کراچی21 جون:مسٹر ایم اے جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ
نے آج سندھ کے پہلے مسلم کالج کا افتتاح کیا۔
’’یہ کالج سندھ مدرسہ کے
احاطے میں واقع ہے، جو سندھ میں مسلمانوں کا اوّلین تعلیمی ادارہ ہے۔ مسٹر جناح
کراچی میں پیدا ہوئے تھے اور 55 برس قبل انہوں نے اِسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔
مسٹر جناح نے ماضی کی یادیں دہراتے ہوئے کہا کہ، مَیں اِس پر شکوہ تعلیمی ادارے کے
کھیل کے میدانوں کے چپے چپے سے واقف ہوں۔ اور 55 برس بعد یہاں کالج کے قیام کا
اعلان کرتے ہوئے کچھ جذباتی ہوجائوں تو حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ مسٹر جناح نے مزید
کہا کہ اس تعلیمی ادارے کے بانی کے انتقال کے بعد کوئی ایسا شخص نہ تھا جو اُن کی
سیاسی تخلیق کی کماحقہ‘، دیکھ بھال کرسکے۔ ایسا ہونا نہ چاہئے تھا۔ کسی بھی ادارے
کو جاری و ساری رکھنے کے لئے کسی نہ کسی کو ہمہ وقت رہنا چاہئے۔ اس کا اطلاق
مسلمانوں کے تعلیمی ہی نہیں ہر ادارے پر ہونا چاہئے۔ یہ تسلسل برقرار رہنا چاہئے۔
مسٹر جناح نے یہ بات بیتی یادوں کے ساتھ رُندھے لہجے میں کہی۔ وہ اپنی مادرِعلمی،
اس تعلیمی ادارے کے فروغ اور اب یہاںکالج کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے جذباتی ہورہے
تھے ۔ 55برس پہلے وہ یہاں بحیثیت طالب علم پڑھتے تھے اور اِس کے گرائونڈز میں کھیلتے
تھے۔ مسٹر جناح نے کہا، ’’ مَیں اِس تعلیمی ادارے کے کھیل کے میدانوں کے چپّے چپّے
سے واقف ہوں جہاںمَیں نے مختلف کھیلوں میں حصّہ لیا۔ انہوں نے زور دے کر یہ بات کہی
کہ کالج کے لئے ایک مستحکم وقف فنڈ قائم کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے یہ امید بھی
ظاہر کی کہ تعلیم کے شعبے میں سر پرست و مرّبی حضرات آگے بڑھیں گے اور نہ صرف اس
کالج بلکہ ایسے ہی بہت سے دیگر تعلیمی اداروں کے لئے بھی عطیات مہیا کریں گے۔ مسٹر
جناح نے اپنی طرف سے 5ہزارروپے کا عطیہ دیا اور دیگر حضرات نے بھی موقع پر ہی62000/-
روپے کے عطیات دینے کا وعدہ کرلیا۔2
ایسا ہی ایک
اور موقع آیا جب قائدِ اعظم محمد علی جناح نے اپنی اس مادرِ علمی کے لئے عملی طور
پر اظہار ِمحبت ودلدادگی کیا۔ اور یہ وہ موقع تھا جب انہوں نے اپنی آخری وصیّت لکھی۔
اِس وصیّت کے تحت انہوں نے اپنی مجموعی جائیداد کا ایک تہائی حصّہ سندھ مدرستہ
الاسلام کے نام کردیا۔ انہوں نے 30 مئی1939ء کو اپنی آخری وصیّت کے پیرا نمبر12میں
لکھا: ’’مذکورہ بالا تحریر کے تحت میری بقیہ ساری جائیداد، بشمول، بعد از حیات یا
بصورت دیگر، مملوکہ اشیاء کو تین حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ اور مَیں وصیّت کرتا
ہوں کہ اُن میںسے ایک حصّہ علی گڑھ یونیورسٹی،ایک حصّہ اسلامیہ کالج، پشاور اور ایک
حصّہ سندھ مدرسہ کراچی کو تفویض کردیا جائے۔‘‘3
یہاں اُس
صورتِ حال کا اظہار بَرمحل ہوگا جس سے اُن کے دورِ تعلیم میں، سندھ مدرستہ الاسلام
گزررہا تھا اور ساتھ ہی جو کچھ اُن کی گھریلو زندگی میں وقوع پذیرہورہا تھا: یہ
دونوںکیفیات ایک دوسری پر اثر انداز ہورہی تھیں۔
سندھ
مدرستہ الاسلام، بطور سیکنڈری اسکول، ستمبر1885ء میں معرضِ وجود میں آیا اور اس کے
بعد دو برس سے بھی قدرے کم عرصے بعد محمد علی نے وہاں داخلہ لیا۔ یہ تعلیمی ادارہ
سندھ کے مسلمانوں نے ، خان بہادر حسن علی آفندی(1895ء۔1830ء) کی زیرِ قیادت قائم کیا
تھا۔ اِس ادارے کے اغراض و مقاصدیہ تھے کہ بچوں کو جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی
تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔4 ’’ سندھ مدرستہ الاسلام، ایک تعلیمی ادارے کی حیثیت سے
یکم ستمبر1885ء کو کراچی میں قائم کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ’’ صوبے کے
محمڈن(مسلمان) نوجوانوں کو نہ صرف پرائمری اور سیکنڈری سطح تک کی دنیاوی ( سیکولر)
تعلیم دی جائے بلکہ انہیں اخلاقی اور دینی زیورِ تعلیم سے بھی آراستہ کیا جائے۔‘‘
ادارے کی ایک ابتدائی سالانہ رپورٹ میں ایسا ہی کہا گیا ہے۔5 یہ اسکول محمد علی کے
گھر سے لگ بھگ ایک میل کے فاصلے پر تھا۔6
یہ مدرسہ
چار شعبوں پر مشتمل تھا۔ یعنی انگریزی ، اینگلو عربک ، ورناکیولر اور ٹیکنیکل ۔ ’’
انگریزی شعبے کا مقصدمیٹریکولیشن یابمبئی یونیورسٹی میں داخلے کے امتحان تک کی تعلیم
دینا تھا:اینگلو عربک شعبے کا مقصد عربی کے ساتھ ساتھ ثانوی زبان کی حیثیت سے انگریزی
میں اعلیٰ عبور یادسترس سے ہم کنار کرنا تھا،اور ورناکیولر شعبے کا مقصد چوتھی
جماعت تک مقامی زبانوں، سندھی، اردو اور گجراتی کے ساتھ ساتھ انگریزی پڑھانا تھا۔7
سندھ
مدرستہ الاسلام میں، محمد علی کے زمانۂ طالب علمی کے دوران، تمام شعبوں میں طلبا
کی مجموعی تعداد چار سو سے پانچ سو کے درمیان ر ہی۔ اس تعلیمی ادارے میںغیر مسلم
بھی تعلیم حاصل کرتے تھے، لیکن ظاہر ہے کہ اُن کی تعدادکم تھی۔ حسن علی آفندی
نے14اگست1890ء کو تقسیمِ انعامات کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا:’’معزز حاضرین،
یہاں مَیں بتاتا چلوں کہ 31مارچ،1889ء کو ہمارے مدرسے میں طلبا کی تعداد442تھی جو
سال کے اختتام میں مجموعی طور پر 459 ہوگئی۔ یعنی 17طلبا کااضافہ ہوا۔ مذکورہ بالا
459 طلبا میں سے ، ہر ذات و فرقے سے تعلق رکھنے والے محمڈن( مسلمان) طلبا کی
تعداد427 تھی جبکہ گزشتہ سال یہ تعداد415 تھی۔باقی ماندہ32 طلبا نان۔ محمڈن( غیر
مسلم) خصوصاً ہندو تھے، جبکہ گزشتہ برس اُن کی تعداد27تھی۔‘‘8
یہ تعلیمی
ادارہ اگرچہ پورے سندھ کے لئے تھا لیکن کراچی کے طلبا کی تعداد، اندرونِ سندھ سے
آنے والے طلبا سے زیادہ ہی رہی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’ بہ ایں سبب، ہم مجموعی
تعداد کو اِس طرح تقسیم کرسکتے ہیں کہ(1)وہ طلبا جن کا تعلق کراچی سے ہے اور(2)وہ
طلبا جو اندرونِ سندھ سے آئے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سال 365 طلبااور گزشتہ سال256
طلبااوّل الذکر زُمرے میں جبکہ اس سال94 اور گزشتہ سال86 طلبا آخر الذّکر زُمرے میں
آئے۔ مذکورہ بالا94 طلبا میں سے 51 طلباجبکہ1889ء میں 63 طلبامدرسے کے بورڈنگ میں
مقیم رہے۔9 محمد علی جس شعبۂ انگریزی میں زیرِ تعلیم رہے، وہ اِس تعلیمی ادارے کے
لئے تاج کی حیثیت رکھتا تھا۔ ساری کلاسوں میں ڈیڑھ سو سے کم طلبازیرِ تعلیم تھے۔‘‘
مدرسے کے متعدد شعبوں میںزیرِ تعلیم مجموعی طور پر 459 طلبا میں سے 146 طلبا انگریزی
شعبے اور313 ورناکیولر شعبوں میں تعلیم حاصل
کررہے تھے، جبکہ مارچ1889ء میں یہ تعدادبالترتیب145 اور297 تھی۔‘‘10
سندھ مدرسہ
میں تحصیلِ علم کا ماحول کچھ ایسا تھا کہ ہر طالب علم میں محنتِ شاقہ کی لگن موجزن
رہتی تھی۔ دوسری جانب محمد علی کے دل میں بھی ایسے جذبے نے جنم لیا کہ والد کے
دفتر میں کام سے فارغ ہوکے وہ مطالعے میں جُٹ جاتے۔ فاطمہ جناح اپنی یادوں کو تازہ
کرتے ہوئے لکھتی ہیں:’’ وہ چاہتے تھے کہ جو وقت کھو گیا، اُس کا ازالہ کریں، کیوں
کہ اُن کے ہم عمر یا اُن سے کم عمر کے لڑکے، حصولِ علم میں اُن سے کہیں زیادہ آگے
بڑھ چکے تھے۔ وہ مطالعہ کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہوگئے اور گھر میں رات دیر
گئے تک پڑھتے رہتے۔ انہوں نے عزمِ صمیم کررکھا تھا کہ وہ آگے بڑھیں گے۔ میرے بابا،
محمد علی کو کتابوں میں کھوئے ہوئے اور مطالعے میں سنجیدہ دیکھ کر خوشی سے پھولے
نہ سماتے تھے۔11
تاہم، اپنے
تمام تر سنجیدہ مطالعے اور کوششوں کے باوجود محمد علی حساب کتاب اور ریاضی میں
کمزور ہی رہے۔ فاطمہ جناح نے اِس ضمن میں ایک کہانی بیان کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ’’
ایک دن بابا کو سرِ راہ بیٹے کے ایک استاد مِل گئے تو انہوں نے پوچھ لیا کہ محمد
علی اسکول میں کیسا جارہا ہے؟ اِس پر استاد نے بتایا کہ ’’باقی تو سب ٹھیک ہے لیکن
یہ آپ کو بتادوں کہ حساب کے مضمون میں اُس کا حال بہت پتلا ہے۔‘‘12جینا بھائی یہ
سُن کے کہ اُن کا بیٹا ریاضی میں بہت کمزور ہے، غصّے میں آگئے، کیوں کہ وہ سمجھتے
تھے کہ کاروبار کو کامیابی سے چلانے کے لئے ریاضی کے مضمون پر مکمل دسترس انتہائی
ضروری تھی۔
اُن ہی
دنوں، جینا بھائی کی اکلوتی بہن مان بائی، بھائی کے کنبے سے مِلنے کراچی آئیں۔ اُن
کا بیاہ بمبئی کے ایک تاجر سے ہوچکا تھا۔ جینا بھائی کے بچے انہیں ’’مان بائی
پھوپھی‘‘کہتے تھے۔ (اُردو میں والد کی بہن کے لیے پھوپھی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔)
انہیں اپنے چھوٹے بھائی اور اُن کے بچوں سے بڑا لگائو تھا۔ فاطمہ جناح اپنی یادوں
کی زنبیل ٹٹولتے ہوئے مان بائی کا ذِکر بڑے پیار سے کرتی ہیں:’’ ہماری پھوپھی بہت
بڑی قصّہ گو تھیں۔ مَیں آج بھی حیران ہوتی ہوں کہ انہیں سیکڑوں کہانیاں کیسے یاد
تھیں۔ وہ تو کبھی اسکول بھی نہیں گئی تھیں، لہٰذا کتابوں میں وہ کہانیاں پڑھ کے یاد
رکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا؟… ہماری آنکھیں اور کان ہر وقت اُن ہی کی طرف
لگے رہتے تھے۔ وہ جب کہانی کہہ رہی ہوتیں تو ہم سحر زدہ سے ہوکر، گُم صُم، بس اُن
ہی کی طرف دیکھتے رہتے۔ وہ رات رات بھر کہانیاں سناتی رہتیں۔ وہ پریوں کی کہانیاں
سناتیں۔ اُڑتے قالینوں، جنوں، دیوئوں، اژدہوں اور گھڑیالوں کی کہانیاں کہتیں اور
ہماری معصوم سوچوں اور خیالوں کو وہ کہانیاں بڑی اچھی لگتیں۔ کہانیاں، جن کا اِس
دنیا سے کوئی واسطہ نہ ہوتا تھا۔13 محمد علی بھی، اپنے بھائی بہنوں کی طرح، پھوپھی
کی اُن کہانیوں کے جادو میں کھوئے رہتے۔‘‘
مان بائی
بمبئی واپس گئیں تومحمد علی بھی جانے کیوں، اُن کے ساتھ ہی بمبئی چلے گئے۔ اس کی
کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہیں اپنی پھوپھی سے بہت پیار تھا، دوسرے یہ
کہ ریاضی کے مضمون میں اُن کی کمزوری کے باعث بابا کی بے اطمینانی… یا پھر کوئی
اور وجہ! بمبئی میں مان بائی نے اپنے بھتیجے کو انجمنِ اسلام اسکول میں داخل کرادیا۔
اُسی کلاس یعنی اسٹینڈرڈI-
میں، جہاں
وہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں پڑھ رہے تھے۔ امتحان نومبر میں ہوئے اور وہ پاس ہوگئے۔
اُدھر محمد علی کی والدہ زیادہ عرصے تک بیٹے کی جدائی برداشت نہ کرپائیں اورانہوں
نے جینا بھائی سے کہہ دیا کہ محمد علی کو کراچی واپس لے آئیں۔14
دو ماہ کی
غیر حاضری کے بعد، جینا بھائی، محمد علی کو واپس لے آئے اور 23 دسمبر 1887ء کو پھر
سے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخل کرادیا۔ اِس بار محمد علی کے ہاتھوں میں انجمنِ
اسلام اسکول، بمبئی کا سرٹیفکیٹ بھی تھا کہ انہوں نے وہاں سے اسٹینڈرI- کا امتحان پاس کرلیا ہے۔
نتیجتاً، محمد علی کو سندھ مدرسۃ الاسلام کے جنرل رجسٹر کے مطابق، دوبارہ وہاں
داخلہ مِل گیا۔ اس بار سندھ مدرسۃ الاسلام میں اُن کی صحیح تاریخِ پیدائش 20
اکتوبر 1875ء درج کی گئی۔ شاید یہ تاریخِ پیدائش اُس سرٹیفکیٹ میں درج تھی جو وہ
بمبئی سے لائے تھے۔ اُن کا داخلہ اسٹینڈرڈII- میں
ہوا۔15
اِس بار
سندھ مدرسۃ الاسلام میں ان کا دورِ تعلیم کسی خلل کے بغیر تین برس سے زیادہ کا
رہا۔ اس کے بعد انہوں نے 5 جنوری سے 9 فروری 1891ء تک تقریباً ایک مہینے کی رخصت لی۔
واپسی پر تیسری بار سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ لیا۔ جنرل رجسٹر میں اُن کا
سلسلہ نمبر 430 لکھا ہوا ہے۔16
محمد علی
نے سندھ مدرسۃ الاسلام سے جو سب سے بڑا اعزاز یا تحفہ حاصل کیا وہ انگریزی زبان پر
اُن کا عبور تھا۔ 1887ء میں جس سال محمد علی جناح نے سندھ مدرسۃ الاسلام میں داخلہ
لیا، بمبئی پریذیڈنسی کی حکومت نے مسٹر ایچ پی جیکب کو سندھ میں ایجوکیشنل انسپکٹر
مقرر کیا۔ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ خالص انگریزی ادب میں بہت دلچسپی رکھتے
ہیں۔ سندھ مدرسۃ کرانیکل کے ریکارڈ کے مطابق وہ اکثر و بیشتر سندھ مدرسۃ الاسلام
کا چکر لگاتے اور سارا دن وہیں گزارتے اور اس دوران میں یہ جائزہ لیتے کہ طلبا نے
انگریزی ادب میں کہاں تک پیش رفت کی ہے۔ وہ طلبا کی اِس ضمن میں رہنمائی کرتے اور
انہیں انگریزی بول چال کی مشق بھی کرواتے۔17
وہ (مسٹر ایچ
پی جیکب) کوکنی انگریزی تلفظ سے سخت چڑتے تھے بلکہ نفرت کرتے تھے۔ اُن کی موجودگی
میں کوئی طالب علم بے پروائی سے یا معصومیت میں کوئی تلفظ غلط ادا کردیتا تو مسٹر
جیکب تلملا اُٹھتے۔ اور کلاس ٹیچر کی کارگزاری پر سخت عدم اطمینان کا اظہار کرتے۔
اپنی ناپسندیدگی اور ناخوشی کے اظہار میں اُن افراد کا منہ چڑاتے جن سے ’’بربریّت
آمیز‘‘ غلطی سرزد ہوئی ہوتی۔ آخر کوئی صحیح اور شستہ لہجے میں انگریزی بول کے اُن
کے غصّے اور خفگی کو ٹھنڈا کرتا اور اُن کی خوش مزاجی لوٹ آتی۔ اُن کا ایک شوق یہ
بھی تھا کہ وہ طلبا کی مشقی کاپیاں بڑی احتیاط سے دیکھتے تھے۔18
سندھ مدرسۃ
الاسلام میں محمد علی کے ابتدائی زمانۂ تعلیم کے دوران، مسٹر ایچ پی جیکب، شعبۂ
انگریزی کے طلبا کی پڑھائی اور لکھائی میں کارکردگی سے مطمئن نہ تھے۔19 تاہم،
انہوں نے ہمت نہ ہاری اور سب سے پہلے
اساتذہ کو انگریزی زبان کی تربیت دینے کا فیصلہ کیا۔ ’’اساتذہ کو اس قابل بنانے کے
لئے کہ وہ طلبا کو درست تلفظ، اظہار اور احساسات کے ساتھ انگریزی زبان کی بول چال
اور خوش خوانی سکھائیں، مسٹر جیکب نے صوبے کے دیگر اضلاع میں جانے سے پہلے،
گورنمنٹ ہائی اسکول میں اتوار کے اتوار اساتذہ کے لئے تربیتی کلاس کا اہتمام کیا۔
اُن تربیتی کلاسوں میں اسکول کے اساتذہ انگریزی کے اسباق پڑھتے اور پڑھ کے سناتے
تھے۔ مسٹر جیکب، بڑی توجہ سے اور ازراہِ مہربانی، اُن کی رہنمائی کرتے اور اصلاح دیتے
تھے۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہمارے اساتذہ باقاعدگی کے ساتھ اُن تربیتی کلاسوں میں شرکت
کرتے تھے اور مسٹر جیکب، بلاشبہ، اُن کی رہنمائی کرتے تھے۔ اُن کی یہ کوششیں بار
آور ثابت ہوئیں۔‘‘20
مسٹر جیکب
نے اساتذہ کو موزوں اور معیاری انگریزی ادب سیکھنے اور پڑھنے کی سخت اور محنت کوشی
پر مبنی تربیت دی تو سندھ مدرسہ کی انتظامیہ اور اساتذہ نے بھی اُس کے ثمرات اور
زبان دانی کی مہارت اپنے طلبا تک پہنچانے اور ان کی انگریزی زبان سیکھنے اور پڑھنے
کی صلاحیتوں کو خوب اُجاگر کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا۔ ان کوششوں کا
ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ مدرسے کو جو مالی امداد مِلتی تھی، مسٹر جیکب کی سفارشات
نے اس کے حصول میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس تعلیمی ادارے کی تعلیمی استعداد،
خصوصاً طلبا کی انگریزی زبان سیکھنے اور پڑھنے کی صلاحیتیں بہتر تر ہوتی چلی گئیں۔
سندھ مدرسہ میں محمد علی کی تعلیم کے آخری برس میں، مسٹر جیکب نے رائے دیتے ہوئے
کہا:
’’مدرسے نے اس سال اطمینان
بخش ترقی کی ہے۔ ہائی اسکول کی کلاسوں میں یہ پیش رفت اور بھی اچھی رہی ہے۔ مجھے
طلبا کی انگریزی اور فارسی شعر خوانی میں روانی دیکھ کر خاصی حیرت بھی ہوئی۔
اساتذہ نے صحیح تلفظ کو یقینی بنانے میں بڑی محنت سے کام لیا ہے۔‘‘21
شاید مسٹر
جیکب کی شعری خوبیوں کی حامِل انگریزی میں دلچسپی ہی کا سبب تھا کہ سندھ مدرسہ کی
لائبریری نے انگریزی شاعری، خصوصاً شیکسپیئر کی بہت سی کتابیں حاصل کیں، جن میں سے
آج بھی کئی کتابیں سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کی لائبریری کے شعبۂ نوادر میں
موجود ہیں۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ شیکسپیئر کو پہلی بار محمد علی نے
سندھ مدرسہ ہی میں پڑھا، جو زندگی بھر اُن کا پسندیدہ شاعر رہا۔ ’’بھرپور سیاسی
زندگی میں بھی، وہ جب محنتِ شاقہ کے بعد تھکے ماندے گھر لوٹتے تھے تو شیکسپیئر کا
کوئی ڈرامہ لئے بستر پہ دراز پڑھتے رہتے تھے۔ کبھی ہم ڈنر کے بعد ڈرائنگ روم میں بیٹھتے
تو وہ مجھے شیکسپیئر کے کسی ڈرامے سے اپنے پسندیدہ مکالمے با آوازِ بلند پڑھ کے
سناتے… ‘‘فاطمہ جناح کی یادوں کی زنبیل کھلتی جاتی ۔22
سندھ مدرسۃ
الاسلام میں، محمد علی جناح کے زمانۂ طالب علمی میں اعلیٰ تعلیمی معیار کے بارے میں
سندھ کے اُس وقت کے کمشنر مسٹر جیمز بھی رطب اللسان رہے۔ وہ 22 اگست 1891ء کو
لکھتے ہیں: ’’مَیں جب بھی سندھ مدرسۃ الاسلام کے معائنے کے لئے گیا، مجھے خوشی ہی
مِلی۔ کسی اور تعلیمی ادارے کے معائنے کے دوران مجھے اتنی خوشی کبھی بھی نہیں مِلی…
یہ لوگ ،ادارے کی انتظامیہ، نوجوان نسل کو بھرپور تعلیم دینے کے لئے جو کوششیں
کرتے ہیں، اُن کے نتیجے میں یہ ادارہ یقیناپیش رفت جاری رکھے گا اور کامیابیاں
حاصل کرے گا۔‘‘ 23
اِسی طرح
بمبئی پریذیڈنسی کے گورنر لارڈ ہیرس سندھ مدرسۃ الاسلام کے دورے پر آئے تو انہوں
نے مدرسے کے طلبا (بشمول جناح) کو مبارکباد دی کہ انہیں ایسے بلند پایہ تعلیمی
ادارے، ایسی خوبصورت عمارت اور ایسے شاندار ماحول میں حصولِ علم کا اعزاز حاصل ہے۔
انہوں نے کہا،’’مَیں مسٹر حسن علی اور اُن کے رفقاء کو اُن کے کام پر مبارکباد دیتا
ہوں کہ اُن کی کوششوں کی بدولت محمڈن (مسلمان) تعلیم حاصل کرنے کے قابل ہوئے ۔ مَیں
نے پوری بمبئی پریذیڈنسی میں ایسی خوبصورت عمارت نہیں دیکھی جیسی مسٹر حسن علی اور
اُن کے رفقاء نے تعمیر کی ہے۔ مَیں یہاں سب طلبا کو بھی مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ
وہ ایسی دلکش عمارت میں تعلیم پاتے اور رہتے ہیں۔‘‘24
سندھ مدسۃ
الاسلام میں تعلیمی کوششیں اور سرگرمیاں تو جاری تھیں، اِس کے ساتھ ساتھ محمد علی
خود بھی اپنی پڑھائی میں بہت دلچسپی لے رہے تھے۔ اُن کے ایک سوانح نگار ہیکٹر بولیتھو
نے ایک خاتون فاطمہ بائی کوانٹرویو کیا، جن کی شادی 1880ء کے عشرے میں جینا بھائی
کے کنبے میں ہوئی تھی اور انہوں نے محمد علی کو اُن کے بچپن میں دیکھا تھا۔ ہیکٹر
بولیتھو کے بقول، فاطمہ بائی کا کہنا تھا کہ ’’وہ خوش اطوار اور ہوشیار لڑکا تھا۔
ہم آٹھ افراد، نیو نہام روڈ کی ایک بلڈنگ کی پہلی منزل پر دو کمروں کے مکان میں
رہتے تھے۔ رات میں جب سارے بچے سورہے ہوتے، وہ چراغ کے آگے گتے کا ٹکڑا تان دیتے
تاکہ روشنی بچوں کی آنکھوں پر نہ پڑے۔ اس کے بعد وہ مسلسل مطالعہ کرتے رہتے۔ ایک
رات میں اُٹھ کے اُس کے پاس گئی اور کہا’’تم اتنا پڑھتے رہتے ہو، بیمار پڑ جائو
گے۔‘‘تو اُس نے جواب دیا۔ ’’بائی، مَیں محنت نہیں کروں گاتو زندگی میں کچھ حاصل نہ
کرسکوں گا۔‘‘25
اسکول میں
اور ذاتی طور پر انگریزی زبان پر عبور حاصل کرنے کے حوالے سے محمد علی کی یہی ساری
کوششیں تھیں کہ وہ گجراتی زبان میں پرائمری تعلیم حاصل کرنے کے بعد ، نہ صرف سندھ
مدرسۃ الاسلام میں داخل ہوئے بلکہ وہاں سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لندن کی لِنکنز
اِن میں داخلے کا امتحان پاس کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔
تعلیم کے
ساتھ ساتھ سندھ مدرسۃ الاسلام نے اسپورٹس کے شعبے میں بھی محمد علی کی صلاحیتوں کو
جِلابخشی۔ اُن کے اپنے الفاظ ہیں کہ ’’مَیں، بچپن میں کراچی کی گلیوں میں کنچے کھیلا
کرتا تھا۔‘‘26دوسری جانب سندھ مدرسۃ الاسلام، کرکٹ، ٹینس، ہاکی اور دیگر ایسے ہی
کھیل سیکھنے اور کھیلنے میں طلبا کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی کررہا تھا کیونکہ یہ
کھیل اُسی زمانے میں برِ صغیر میں متعارف کرائے گئے تھے اور زیادہ مقبول نہ تھے۔
اِن کھیلوں میں سب سے زیادہ ترجیح کرکٹ کو دی جاتی تھی۔ سندھ مدرسۃ الاسلام میں،
اِس مقصد کے تحت، ایک کرکٹ کلب بھی قائم کیا گیا۔ سندھ مدرسہ نے اِس حد تک اقدام کیا
کہ ’’ہر پندرھواڑے میں طلبا کو آدھا دن کرکٹ کھیلنے کے لئے چھٹی دی جاتی تھی۔‘‘27
پھر بھی، مسٹر جیکب، کرکٹ کلب کی کارکردگی سے مطمئن نہ تھے۔
سندھ مدرسۃ
الاسلام کے ابتدائی زمانے کی ایک سالانہ رپورٹ میں مسٹر جیکب کی طرف سے، اسکول میں
کھیلی جانے والی کرکٹ کی خامیوں کی نشاندہی،طلبا میں کرکٹ کو مقبول بنانے کے حوالے
سے اسکول کی کوششوں اورراہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرنے کا تذکرہ مِلتا ہے: ’’ مسٹر
جیکب کو اسکول میں کھیلی جانے والی کرکٹ میں خامیاں بھی مِلیں۔ اِن خامیوں کا، بہر
حال، تعلق طلبا کی عدم دلچسپی سے نہ تھا، بلکہ سبب یہ تھا کہ اِس مہنگے کھیل کے
اخراجات پورے کرنا اُن کے بس میں نہ تھا۔ سندھ کے آنجہانی کمشنر مسٹر اے سی ٹریور
نے ازرہِ کرم، اِس مد میں پچاس روپے کی رقم کلب کو دی تھی، جو عرصہ ہوا ختم ہوچکی
ہے۔‘‘28
طلبا میں
کرکٹ کے کھیل کو مقبول بنانے کے حوالے سے اسکول کی کوششیں رنگ لائیں اور یہ کئی
طلبا کا پسندیدہ کھیل بن گیا۔ اُن میں محمد علی بھی شامِل تھے، جنہوں نے کنچے چھوڑ
کے کرکٹ کو اپنالیا۔ اُن کے لڑکپن کے ایک دوست نانجی جعفر نے ہیکٹریو لیتھو کو بتایا:
’’مَیں گلی میں اُن کے ساتھ کنچے کھیلا کرتا تھا۔‘‘ 29 ایک دن نانجی جعفر گلی میں
کنچے کھیل رہے تھے کہ محمد علی جن کی عمر لگ بھگ14برس ہوچلی تھی، اُن کے پاس آئے
اور کہا ، ’’دھول مٹی میں کنچے نہ کھیلو، تمہارے کپڑے میلے اور ہاتھ گندے ہوجائیں
گے۔ ہمیں یہ چھوڑ کے کرکٹ کھیلنی چاہئے۔‘‘30
یہی زمانہ
تھا جب محمد علی کو گھڑ سواری کا شوق ہوا۔ فاطمہ جناح لکھتی ہیں: ’’ میرے بابا کے
پاس کئی بگھیّاں تھیں کیوں کہ ان دنوں رئوسا کی آمدو رفت کا یہی ذریعہ تھا۔ حرکت
پذیر انجن سے چلنے والی موٹر کاروں کا زمانہ ابھی بہت دُور تھا۔ بابا کے اصطبلوں میں
اعلیٰ نسل کے بہت سے گھوڑے تھے، لہٰذا، محمد علی نے بہت جلد گھڑ سواری سیکھ لی۔
انہیں گھڑ سواری میں بڑا مزہ آتا تھا۔ اُن کا اسکول کا ایک دوست کریم قاسم تھا۔ اس
کے والد بھی کھارا در کے ایک تاجر تھے۔ دونوں لڑکے روزانہ گھڑ سواری کرتے کرتے
دُور تک نکل جاتے۔‘‘31
سندھ مدرسہ
میں دورانِ تعلیم، محمد علی کو نو آبادیاتی ہندوستان کے بہت سے اعلیٰ برطانوی عہدیداروں
سے ملاقاتوں کے مو۱قع
بھی مِلے۔ محمد علی جناح جب سندھ مدرسہ میں زیرِ تعلیم تھے، اس عرصے کے دوران،
وہاں کم از کم چار بڑی تقریبات ہوئیں جن میں ، دیگر افراد کے علاوہ، وائسرائے اور
برطانوی ہندوستان کے گورنرجنرل، بمبئی پریذیڈنسی کے گورنر اور سندھ کے کمشنر بھی
شریک تھے۔
اُن میں سے
ایک تقریب اگست1887ء میں ہوئی، جب محمد علی جناح کو سندھ مدرستہ الاسلام میں داخل
ہوئے چند ہفتے ہی گزرے تھے۔ یہ طلبا میں تقسیمِ انعامات کی اوّلین تقریب تھی۔ بمبئی،
جس میں سندھ بھی شامِل تھا، پریذیڈنسی کے گورنر لارڈ رے، مہمانِ اعلیٰ کی حیثیت سے
اِس تقریب میں شریک ہوئے۔ سندھ مدرسہ کرانیکل کی ایک رپورٹ میں، اس تقریب کی منظر
کشی یوں کی گئی ہے:
’’ موقع کی مناسبت سے ایک
خوبصورت شہ نشین تعمیر کیا گیا تھا۔ مقررہ دن اور وقت پر کراچی کے محمڈن ( مسلمان)
رؤسا بڑی تعداد میں، نیک طینت گورنر کا استقبال اور اپنے اسکول کے جلسۂ تقسیمِ
انعامات میں شرکت کرنے کے لئے جمع تھے۔ معزز مہمان، بوقتِ آمد تقریباً چالیس برس کی
عمر کے لگ رہے تھے۔ وہ بڑے بلند پایہ خطیب اور خوش بیان مقرر ثابت ہوئے۔ تقریب کا
آغاز قرآن پاک کی سورۂ رحمن سے ہوا، اس کے بعد سندھی زبان میں استقبالیہ نظم پیش
کی گئی۔ خطبۂ استقبالیہ میں بڑے واضح الفاظ میں سندھی محمڈنز ( مسلمانوں) کی زبوں
حالی اور اُن کوششوں کا ذِکر کیا گیا جو سندھ مدرسہ کے قیام کے وسیلے سے، اُن کی
حالتِ زار کو بہتری کی طرف لے جانے کے لئے کی جارہی تھیں… اِس کے بعد لارڈرے خطبۂ
استقبالیہ کا جواب دینے کے لئے اٹھے۔ انہوں نے دِلی استقبال اور خوش کُن خطبۂ
استقبالیہ پیش کرنے پر ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس بات پر اظہارِ
ستائش کیا کہ سندھ مدرسہ ، پسماندہ محمڈنز( مسلمانوں) کے لئے خدمات انجام دے رہا
ہے۔ انہوں نے کہا کہ اِس تعلیمی ادارے کو بہت کم مالی مدد دی جارہی ہے جو اضافے کی
متقاضی ہے۔ انہوں نے 6000/- روپے سالانہ سرکاری مالی امداد کا اعلان کیا… اِس کے
بعد انعامات تقسیم کئے گئے، گورنر اور دیگر حاضرین کے لئے ہپ ہپ ہرا کہا گیا اور
اِس کے ساتھ ہی تقریب اختتام کو پہنچی۔‘‘32
چند ماہ
بعد ہی14 نومبر1887ء کو اس تعلیمی ادارے کی تاریخ کی عظیم ترین تقریب کا انعقاد
ہوا۔ جب وائسرائے اور گورنر جنرل ہندوستان، لارڈڈفرِن، سندھ مدرستہ الاسلام کی اصل
عمارت کا سنگِ بنیاد رکھنے برطانوی ہند کے دارالحکومت کلکتہ سے کراچی آئے۔ اِس کے
بارے میں سندھ مدرستہ الاسلام کے اُس وقت کے پرنسپل ولی محمد آفندی لکھتے ہیں: ’’
تقریب میں شرکت کے لئے قریب قریب سارا کراچی اُمڈ آیا تھا۔ اُس کے بعد مَیں نے شہر
میں ایسی کوئی تقریب نہیں دیکھی۔‘‘33
سندھ
مدرستہ الاسلام میں قائدِ اعظم محمد علی جناح کے عرصۂ تعلیم کے دوران ایک اور اہم
تقریب14اگست1890ء کو ہوئی۔ یہ بھی تقسیمِ انعامات کا جلسہ تھا۔ اس میں سندھ کے
کمشنر اور ان کے ہمراہ دیگر اہم شخصیّات نے شرکت کی۔‘‘34
محمد علی،
سندھ مدرستہ الاسلام کے پانچویں درجے میں پڑھ رہے تھے اور یہیں اُن کی کھیلوں کے
حوالے سے پرداخت ہورہی تھی کہ اُن کے والدین نے فیصلہ کیا کہ اب پہلو نٹھی کے بیٹے
کی حیثیت سے اُن کی شادی ہوجانی چاہئے، لہٰذا انہوں نے 30جنوری 1892ء کو سندھ
مدرسہ چھوڑ دیا۔ وہ اپنے آبائی وطن گوندل گئے جہاں ممتاز اسماعیلی خوجہ مسٹرلیراکھیم
جی کی بیٹی ایمی بائی سے اُن کی پہلی شادی ہوئی۔ سندھ مدرستہ الاسلام کے جنرل
رجسٹر میں اِس کا اندراج یوں مِلتا ہے، ’’ شادی کے لئے کَچھ روانہ ہوگئے‘‘۔35
سندھ
مدرستہ الاسلام چھوڑنے کے لگ بھگ پانچ ہفتے بعد، نوبیاہتا محمد علی کراچی لوٹے اور
8مارچ1892ء کو چرچ مشنری سوسائٹی( سی ایم ایس) ہائی اسکول کے چھٹے درجے میں داخلہ
لیا۔ اسکول کے جنرل رجسٹر میں اُن کا داخلہ نمبر483 مِلتا ہے۔ اس سے قبل آخری
اسکول جہاں وہ زیرِ تعلیم رہے، اُس کا نام ’’ مدرسہ‘‘ لکھا ہوا ہے( جو سندھ مدرسہ
کا مختصر نام تھا۔) تاریخِ پیدائش وہی20اکتوبر1875ء درج ہے، جو سندھ مدرستہ
الاسلام کے اندراجات میں مِلتی ہے۔ اور عمر16برس، 4ماہ،11دن لکھی ہے۔لیکن سی ایم ایس
اسکول میں وہ چند ماہ ہی زیرِ تعلیم رہے۔ وہ جس، چھٹے، درجے میں داخل ہوئے تھے،
اُسی درجے میں، اُسی برس اکتوبر میں اسکول سے رخصت ہوگئے۔ اسکول کے جنرل رجسٹر میں
اُن کے ترکِ اسکول کی کوئی وجہ بیان نہیں کی گئی۔ بس ’’ چھوڑ گئے‘‘ لکھا ہوا مِلتا
ہے۔36
برسوں بعد،
بلکہ یوں کہہ لیجئے کہ اپنی مادرِ علمی سندھ مدرسہ کو کالج کا درجہ دینے کے تین
برس بعد، سی ایم ایس ہائی اسکول کے پرنسپل ریو رینڈ ایس این سپنس(Rev.S.N Spence) نے محمد علی جناح کو اپنے اسکول کی
صد سالہ تقریبات میں، جو ہفتہ بھر جاری رہیں، شرکت کے لئے مدعو کیا۔ یہ تقریبات،
اُن کے خط مورخہ23اکتوبر1946ء کے مطابق9 سے 16نومبر1946ء تک جاری رہنی تھیں۔ انہیں
’’ مسٹر جناح‘‘ کے نام سے مخاطب کرتے ہوئے، پرنسپل نے لکھا: ہمیں اِس بات پر فخر
ہے کہ آپ ہمارے اسکول کے سابق طلبا میں شامِل ہیں اور یہ کہ ہمارا اسکول ہندوستان
کے ایک نام ور سپوت کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں شریک رہا ہے، مَیں ممنون ہوں گا
اگر آپ اس ضمن میں ہماری معلومات میں اضافہ کرسکیں کہ آپ کِن دنوں میں ، اِس اسکول
میں زیرِ تعلیم رہے اور آپ کا شعبۂ علم کیا تھا؟ بہتر ہوگا اگر آپ مجھے اپنی کسی
عمدہ سوانح کا حوالہ دے دیں، تاکہ آپ کے عرصۂ حیات کے بارے میں ہماری معلومات دو
چند ہوجائیں… مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارا یہ دعوت نامہ قبول کریں گے… یہ امر
ہمارے لئے مزید باعثِ مسرّت ہوگا کہ جلسۂ تقسیمِ انعامات کے افتتاح کے موقع پر آپ
کی ہمشیرہ بھی ، آپ کے ہمراہ تشریف لائیں۔‘‘37
قائدِ اعظم
محمد علی جناح نے 11نومبر1946ء کو اس دعوت نامے کے جواب میں معذرت کی کہ وہ تقریب
میں شریک نہیں ہوسکتے لیکن ساتھ ہی تسلیم کیا کہ وہ اُس اسکول میں زیرِ تعلیم رہے
تھے۔ انہوں نے لکھا: ’’مجھے آپ کا خط مورخہ23 اکتوبر، موصول ہوا، جس پر میں آپ کا
شکریہ ادا کرتا ہوں۔ میری دلی خواہش تھی کہ میں9سے 16نومبر1946ء کو کراچی میں ہوتا
اور اسکول کی صد سالہ تقریبات میں شرکت کرتا، جہاں مجھے ابتدائی تعلیم کے حصول کا
شرف حاصل ہوا تھا۔ آپ کے اسکول کا ایک سابق طالب علم ہونے کے ناتے، مَیں اسکول کی
صد سالہ تقریبات کے انعقاد پر دلی مسّرت کا اظہار کرتا ہوں… آپ کی طرف سے اِس دعوت
نامے پر مس جناح اور مَیں، آپ کے دِلی طور پر شکر گزار ہیں۔‘‘38
جیسا کہ
قبل ازیں، تذکرہ آچکا ہے، محمد علی نے اکتوبر1892ء میں سی ایم ایس ہائی اسکول میں
اپنا سلسلۂ تعلیم منقطع کردیا تھا۔ جب کہ بمبئی یونیورسٹی کے میٹر یکولیشن کے
امتحان تک رسائی اور اہلیت کے لئے سال بھر سے زیادہ کا مزید تعلیمی عرصہ در کار
تھا۔ اس وقت میٹرک کا امتحان دینے کے لئے ضروری تھا کہ وہ ایک سال سے زیادہ عرصے
تک مزید تعلیم حاصل کریں۔ انہوں نے یہ امتحان سیکنڈری اسکول کا ساتواں درجہ پاس
کرنے کے بعد دیا۔ ( اس میں پرائمری اسکول کے وہ چار سال بھی شامِل تھے جن میں
انہوں نے مقامی زبانوں میں تعلیم پائی تھی۔) انہوں نے جب سی ایم ایس ہائی اسکول
چھوڑا تو وہ چھٹے درجے میں پڑھ رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انہیں میٹرک کا
امتحان دینے کے لئے چھٹے اور ساتویں درجے کی پڑھائی مکمل کرنا تھی۔
فاطمہ جناح
لکھتی ہیں کہ اُن کے بابا کے ایک انگریزدوست اور کاروباری شراکت دار نے انہیں
مشورہ دیا تھا کہ محمد علی کو لندن میں گراہم ٹریڈنگ کمپنی کے ہیڈ آفس میں اپرنٹس
کے طور پر بھیج دیں تاکہ وہ وہاں تجارت کی مبادیات سیکھ سکیں۔ ’’ گراہم ٹریڈنگ
کمپنی کے انگریز جنرل منیجر نے، جو بابا کے گہرے دوست بھی بن چکے تھے، کہا کہ وہ
جواں سال محمد علی کو تین برس کے لئے اپرنٹس کی حیثیت سے کمپنی کے لندن ہیڈ آفس میں
بھیجنے کو تیار ہیں۔ جہاں وہ عملی کاروباری رموز سیکھیں گے اور یوں لندن سے واپس
آکر والد کے کاروبار میں ہاتھ بٹائیں گے۔ جنرل منیجر نے بابا کو یقین دلایا کہ
محمد علی، بابا کے کاروبار کو مزید وسعت دینے میں نہ صرف ہاتھ بٹائیں گے بلکہ اُن
کے لئے بہت بڑا اثاثہ ثابت ہوں گے۔ یہ بات ایک کاروباری شخص کے دل کو لگی اور
انہوں نے سوچاکہ محمد علی لندن میں کاروباری رموز سیکھ لے گا تو کنبے کے کاروبار
کو مزید وسعت دینے اور دیگر تجارتی شعبوں میں آگے بڑھنے کی نئی راہیں کُھل جائیں گی۔‘‘39
جینا بھائی
نے محمد علی کے لندن میں تین سالہ قیام کے اخراجات کے لئے پیسے جمع کئے۔ محمد علی
کی والدہ ابتداً اس بات کے حق میں نہ تھیں کہ اُن کا چہیتا بیٹا، اُن سے اتنی دُور
لندن جیسی جگہ پر جاکے رہے، لیکن شوہر کے اس طرح سمجھانے بجھانے پر راضی ہوگئیں کہ
اُن کا بیٹا، اُن سے دُور رہتے ہوئے کچھ سیکھ کے آئے گا تو کنبے پر مزید ہن برسنے
لگے گا اور خود محمد علی کا کاروباری مستقبل بھی روشن ہوگا۔ پلکوںپر جدائی کے آنسو
اور مستقبل کی امیدیں لئے، محمد علی ، اپنے ماں باپ، بیوی جس سے شادی کو صرف دس
ماہ ہوئے تھے، بھائی بہنوں اور دیگر عزیزوں سے رخصت ہو کر جنوری1893ء میں عازمِ
لندن ہوگئے۔30
لندن میں
حصولِ علم
برطانوی
ہند سے برطانیہ تک بحری سفر میں عموماً دو سے تین ہفتے لگتے تھے۔ جواں سال محمد علی
کے ساتھ کوئی سازو سامان نہ تھا۔ جہاز راستے میں چند بندرگاہوں پررُکا جن میں پورٹ
سعید بھی شامل تھی جو پاکٹ ماروں یا جیب کتروں کے حوالے سے بہت بدنام تھی۔ فاطمہ
جناح لکھتی ہیں: ’’محمد علی ، عبوری ( ٹرانزٹ) مسافر کی حیثیت سے پورٹ سعید پر
جہاز سے اترنے لگے تو اُن کے ایک انگریز بزرگ ہم سفر نے انہیں خبردار کیا کہ
بندرگاہ پر اپنے بٹوے وغیرہ کے معاملے میں ہوشیار رہیں۔ ’’آپ کو پورٹ سعید پر
چوکنا رہنا ہوگا کیوں کہ یہاں کے لوگوں کی انگلیاں بڑی پُھرتیلی ہوتی ہیں۔ آپ کو
خبر بھی نہ ہوگی اور وہ آپ کا بٹوا لے اُریں گے۔‘‘1 محمد علی نے یہ نصیحت تو پلے
باندھ لی لیکن معاملے کو اپنے لئے ایک چیلنج بھی گردانا۔ انہوں نے جیب میں تھوڑے
سے پیسے رکھے اور بڑے چوکنّے انداز میں بندرگاہ پر گھومتے پھرے۔ اور جہاز پر لوٹ
کر اپنے بہی خواہ کو ساری رام کہانی کہہ سنائی، ’’ دیکھئے جناب، میرا بٹوا محفوظ
ہے۔ مَیں نے گھومنے پھرنے میں بڑی احتیاط برتی۔ٖ‘‘2
محمد علی
فروری1893ء میں برطانیہ پہنچے۔3 یہ برطانیہ میں دورِ وکٹوریہ(1901ء۔1837ء) کا آخر
آخر تھا_امن،خوش حالی اور تہذیب و شائستگی کا دور_وہ سائوتھمپٹن میں جہاز سے اُترے
اور ریل کے ذریعے لندن پہنچے جو اُن دنوں دنیا کے انتہائی خوبصورت شہروں میں شمار
ہوتا تھا۔ انہوں نے ایک ہوٹل میںکمرہ کرائے پر لے لیا۔ فروری کے دن تھے لیکن سردیوں
نے ابھی رنگ جمانا نہ چھوڑا تھا۔ ایک طرف شدید ٹھنڈ اور دوسری جانب یہ حقیقت کہ وہ
ہمیشہ ایک بھرے پُرے کنبے میںرہے تھے، لندن میں انہیں تنہائی کی اذیّت نے آن گھیرا۔
’’ یہ بڑا تلخ تجربہ تھا۔ مَیں جواں سال اور تنہا تھا۔ گھرسے دُور، اپنے ماں باپ
سے دُور، ایک نئے ملک میں جہاں جیون دھارا اُس جیون دھارے سے بالکل مختلف تھا جس
کا مَیں کراچی میں عادی رہا۔‘‘4
انہوں نے
گراہم شپنگ کمپنی کے ہیڈ آفس میں تربیت کے لئے اپنی آمد کی اطلاع دی۔ اُن کے والد
نے رائل بینک آف اسکاٹ لینڈ کے ذریعے، لندن میں دو سالہ قیام کے اخراجات کی مد میں
خاصی رقم اُن کے نام منتقل کردی ہوئی تھی۔ انہوں نے لندن کے کنگسٹن کے علاقے میں
رہائش اختیار کی جہاں سے وہ تھریڈ نیڈل اسٹریٹ آتے جاتے تھے کیوں کہ کمپنی کا دفتر
اس علاقے میں واقع تھا۔ انہیں ایک میز کرسی اور مطالعے اور کام کے لئے اکائونٹ لیجردے
دیئے گئے۔ اس کام میں وہ کوئی دلچسپی پیدا نہ کرپائے۔
اپریل1893ء
میں اُن کی رہائش لندن کے مغربی کنگسٹن کے علاقے میں40۔گلاس بری روڈ پر تھی۔5 اُن
کی رہائش گاہ سے دفتر تک کا 5میل(8کلو میٹر)کا راستہ، اُس علاقے کے قریب سے ہو کے
گزرتا تھا جہاں لندن کی مشہور و معروف اِنز(INNS) واقع تھیں۔ 6لِنکنز اِن، سینٹرل
لندن کے عین وسط میں اور اُس مقام کے پڑوس میں تھی جہاں محمد علی کام کرتے تھے۔یہ
ایک انتہائی باوقار ادارہ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 1292 عیسوی میں کنگ ایڈورڈI- کے ایک حکم کے تحت قائم
کیا گیا تھا۔ اس ادارے کے بارے میں جو ریکارڈدستیاب ہے وہ زیادہ سے زیادہ1422 عیسوی
تک جاتا ہے۔ چار مشہور اِنز(INNS)، لِنکنز اِن، اِنرٹیمپل، مڈل ٹیمپل اور گریز(GRAY'S) اِن میں لِنکنز اِن سب سے پرانی
ہے۔7 قیاس یہی کیا جاسکتا ہے کہ محمد علی اپنے دفتر کے قرب و جوار میں گھومتے
پھرتے،لِنکنز اِن سے شناسا ہوئے۔
محمد علی،
بزنس ایڈمنسٹریشن میں حصولِ تربیت چھوڑ کے قانون کے شعبے کی طرف کیوں چلے گئے، اس
بارے میں تو بس قیافہ ہی لگایا جاسکتا ہے__محترمہ فاطمہ جناح کے خیال مَیں، محمد
علی اس نتیجے پر پہنچے ہوں گے کہ ’’ کاروباری چکر اُن کی فکری اُپج سے لگّا نہیں
کھاتا تھا۔ کاروبار کا تو مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ ہر سال آدمی کے اثاثے اس کے قرضوں
بٹوں کے مقابلے میں بڑھتے چلے جائیں اور یوں وہ مال و دولت کے انبار لگالے۔‘‘8
دوسری جانب
وہ عظیم سیاسی رہنمائوں کے حالاتِ زندگی اور عوامی مسائل کے مختلف پہلوئوں کے بارے
میں اُن کے افکار کا مطالعہ کررہے تھے۔ وہ زندگی کے اِس رخ سے متاثر ہورہے
تھے۔’’جو تربیت وہ حاصل کررہے تھے، چوں کہ وہ طرزِ زندگی کے حوالے سے اُن کی سوچ
پر شبہات کے سائے ڈال رہی تھی، لہٰذا وہ معاصر اور ماضی کے عظیم برطانوی
رہنمائوںکے حالاتِ زندگی پڑھنے اورانہیں زیرِ بحث لانے لگے تھے۔ اُن پر یہ منکشف
ہوا کہ اُن رہنمائوں میں سے بیشتر نے قانون پڑھنے کو ترجیح دی تھی۔ اور قانون کی
محکم تعلیم کے بَل پر ہی وہ عوامی زندگی میں تن کر کھڑے ہوپائے تھے‘‘۔9ایک ایسے ہی
واقعے کی تصدیق خود محمد علی کرتے ہیں کہ ایک بار وہ اپنے والد کے ہمراہ ایک عدالت
میں گئے۔ وہاں انہوں نے ایک ایڈووکیٹ کو چوغے اور پٹکے میں دیکھا تو پکارا ٹھے
تھے، ’’ مَیں بیرسٹر بنوں گا۔‘‘10
سبب جو کچھ
بھی ہو، محمد علی نے لِنکنز اِن میں داخلہ لینے کا فیصلہ کرلیا۔ اِس ضمن میں پہلا
ریکارڈ ہمیں25اپریل1893ء کی ہاتھ سے لکھی ایک درخواست کی صورت میں ملتا ہے، جس میں
انہوںنے استدعا کی ہے کہ انہیں لِنکنز اِن میں داخلے کے امتحان میں لاطینی زبان کے
پرچے سے استثنیٰ دیا جائے۔ ایسے داخلے کو لِٹل گو‘‘(Little Go) بھی کہا جاتا تھا۔ وہ آخری سال تھا
جب کوئی امیدوار، باقاعدہ تعلیم حاصل کئے بغیر، داخلے کا امتحان پاس کرکے، لِنکنز
اِن میں داخلہ لے سکتا تھا۔ محمد علی جناح نے بعدازاں لکھا: ’’ یہ میری خوش قسمتی
تھی کہ وہ سال، آخری سال تھاجب کوئی امیدوار داخلے کا امتحان پاس کرکے، جسے اُس
وقت تک ’’لِٹل گو‘‘ کہا جاتا تھا، وہاں داخلہ لے سکتا تھا۔ اگلے برس ضوابط تبدیل
ہونے والے تھے۔ یوں مجھے پیشۂ وکالت اختیارکرنے کا اجازت نامہ حاصل کرنے(Called to the Bar) کے لئے مزید دو سال درکار
ہوتے۔ چنانچہ مَیں نے گراہم والوں کی اپرنٹس شپ چھوڑ کر ’’لٹل گو‘‘ پاس کرنے کے
لئے پوری توجہ پڑھائی کی طرف مبذول کردی۔ 11
لیکن ایک
مسئلہ در آیا۔ داخلے کے امتحان کا ایک حصّہ لاطینی زبان سے متعلق تھا جس کے بارے میں
محمد علی کچھ نہ جانتے تھے۔ اِس سلسلے میں انہوں نے استثنیٰ لینے کا فیصلہ کیا۔انہوں
نے ’’ ماسٹرز آف دی بینچ آف دی آنریبل سوسائٹی آف لِنکنز ان ‘‘ کے نام درخواست میں
لکھا: ’’ مَیں بصدعِجز اور احترام معروض ہوں کہ مَیں داخلے کے ابتدائی امتحان میں
شرکت کا خواہاں ہوں…یہ جان کر کہ مجھے لاطینی زبان کا امتحان بھی دینا ہوگا، آپ سے
درخواست کرتا ہوں کہ مندرجہ ذیل اسباب کی بنا پر مجھے اس پرچے سے استثنیٰ دیا جائے:(i) ہندوستان کا باسی ہونے کے ناتے، یہ
زبان مجھے کبھی نہیں پڑھائی گئی۔(ii) مَیں
ہندوستان کی کئی زبانیں جانتا ہوں تاکہ ہم اپنی کلاسیکی کتابیں پڑھ سکیں یا ثانوی
زبان کے طور پر سیکھ سکیں۔(iii) مَیں
نے وہی زبانیں سیکھیں جن کی ہندوستان میں ضرورت تھی، لہٰذا مَیں لاطینی زبان نہیں
سیکھ پایا۔ اور اگر مجھے یہ زبان مجبوراً سیکھنا پڑی تو مطلوبہ امتحان پاس کرنے کے
لئے مجھے کئی برس درکار ہوں گے… امید ہے کہ آپ مذکورہ اسباب کو اطمینان بخش تصوّر
کرتے ہوئے میری درخواست قبول فرمائیں گے۔‘‘ 12
محمد علی کی
استثنیٰ کی درخواست قبول کرلی گئی۔ انہوں نے دیگر مضامین میں سخت محنت کی، امتحان
میں کامیاب ہوئے اور انہیں5جون 1893ء کو لِنکنز اِن میں داخلہ مِل گیا۔لِنکنز اِن
کے داخلہ رجسٹربرائے1420-1893ء کے صفحہ نمبر444پر اُن کے داخلے کا اندراج موجود
ہے۔ رجسٹر میں اندراج اِس طرح ہے: ’’ محمد علی جینا بھائی، کراچی، ہندوستان(19)،
آئی ۔ایس جینا بھائی،کراچی، سندھ، ہندوستان، مذکور، تاجر‘‘۔ 13 یہاں ’’(19)‘‘ سے
مراد یہ ہے کہ اُن کی عمر19برس تھی۔ اور ’’آئی۔ ایس‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جس طالب
علم کو داخلہ دیا گیا وہ اپنے والد کا پہلو نٹھی کا بیٹا ہے۔
محمد علی
کے والد اِس بات پر پریشان ہوگئے کہ بیٹے نے بزنس ایڈمنسٹریشن میں تربیت کے حوالے
سے اُن کے پروگرام کے برعکس، بارایٹ لاکے لئے لِنکنز اِن میں داخلہ لینے کا فیصلہ
کرلیا تھا جس میں تین برس لگیں گے۔ ’’ میرے بابا نے انہیں لکھا کہ وہ اپنی سعیٔ
نامشکور ترک کردیں اور فوراً وطن لوٹ آئیں۔یہ درشت خط ملنے پر قائدِ اعظم نے بڑے
ملتجیانہ لہجے میں میرے بابا کو لکھا کہ انہیں لندن میں قیام اور قانون کی تعلیم
مکمل کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ انہوں نے اپنے جوابی خط میں یہ یقین بھی دلایا کہ
وہ اخراجات میں ممکنہ حد تک جُزرسی سے کام لیں گے، مزید پیسوں کے لئے نہیں کہیں
گے، پڑھائی کے ساتھ ساتھ کام بھی کریں گے اور انہیں دو سال کے اخراجات کے لئے جو پیسے
دیئے گئے ہیں، انہیں کھینچ تان کے وہ چار سال کے اخراجات تک لے جائیں گے۔ بابا،
اگرچہ اُن کے فیصلے سے خوش نہ تھے، پھر بھی انہوں نے صورتِ حال سے سمجھوتا کرلیا
اور یہی دعا کرتے رہے کہ جو بھی ہو، اچھا ہی ہو۔‘‘14
لِنکنز اِن
میں داخلے کے بعد محمد علی لندن کے کنگسٹن کے علاقے میں 35۔ رسل روڈ پر منتقل
ہوگئے اور آخر تک وہیں مقیم رہے۔ لِنکنز اِن کے ساتھ اُن کی ساری مراسلت میں یہی
پتا مِلتا ہے ۔ اُن کی ہمشیرہ رقمطراز ہیں کہ محمد علی، مسز ایف ای پیج ڈریک کے پے
اِنگ گیٹ تھے اور دس پونڈ ماہانہ ادا کرتے تھے۔ ’’آخری برسوں میں وہ انہیں اکثر یاد
کرتے اور کہتے کہ مسز ڈریک بڑی مہربان بزرگ خاتون تھیں۔ اُن کا کنبہ خاصا بڑا تھا۔
مجھ سے وہ خاص طور پر بڑے پیار سے پیش آئیں اور بیٹے کی طرح چاہتی تھیں۔‘‘15
محمد علی
نے اب اپنی ساری توجہ پڑھائی کی طرف مبذول کرلی تھی۔ لِنکنز اِن میں اُن کے ایک
استاد، سرہا ورڈ ایلفنسٹن لکھتے ہیں: ’’ مسٹر جناح بھائی، 1894ء کا پورا سال
اور1895ء کے کچھ حصّے تک میرے لیکچرز میں حاضر رہے۔ مجھے اُن کے بارے میں اظہارِ
رائے کرتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے۔ لیکچرز میں شرکت اور پھر امتحانی نتائج کو پیشِ
نظررکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ وہ بڑے قابل شخص ہیں۔ وہ جس کام یا معاملے میں بھی
ہاتھ ڈالتے ہیں اُسے بخوبی انجام دیتے ہیں‘‘۔16
اِسی طرح،
اُن کے ایک اور استاد بیرسٹر ڈگلس ایڈورڈز نے محمد علی جناح کے بارے میں کہا کہ وہ
محنتی، ذکی اورذہین طالب علم تھے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’مسٹرایم اے جناح بھائی1894ء میںکچھ
عرصے کے لئے میرے شاگرد رہے۔ ایسے میں جب کہ وہ کونسل آف لیگل ایجوکیشن کی طرف سے
منعقد ہونے والے با ر کے امتحان کی تیاری کے لئے رومن اور انگلش قانون کا مطالعہ
کررہے تھے… مسٹر جناح بھائی نے میری شاگرد ی کے دوران، بڑی محنت، ذکاوت اور ذہانت
کا مظاہرہ کیا اور نسبتاً مختصر سے عرصے میں تیاری کرکے امتحان دیا۔ اِس صورت ِ
حال کی روشنی میں اُن کے حوالے سے ایسا زاویۂ نظر معیّن کیا جاسکتا ہے کہ وہ کسی
بھی کام میں اپنی صلاحیتوں کو مفید مقاصد کے لئے کام میں لاسکتے ہیں۔‘‘17
اِسی عرصے
کے دوران کتب بینی میں محمد علی کی دلچسپی اتنی بڑھی کہ انہوں نے برٹش میوزیم کے
دارالمطالعہ کی رکنیت حاصل کرنے کی سعی کی۔ اِس مقصد کے لئے انہیں ایک تعارف کی
ضرورت تھی، جو انہوں نے بیرسٹر ایٹ لا، مسٹر آر۔ ایچ اسمتھ سے حاصل کرلیا۔ مسٹر
اسمتھ نے 7جنوری 1895ء کو4۔ اسٹون بلڈنگز، لِنکنز اِن سے برٹش میوزیم کے پرنسپل
لائبریرین کے نام مراسلے میں لکھا: ’’مَیں بذریعۂ تحریر ہذا، معروض ہوں کہ مَیں
لِنکنز اِن میں قانون کے طالب علم مسٹر ایم اے جناح سے واقف ہوں اور یقینی طور پر
کہہ سکتا ہوں کہ اگر انہیں دارالمطالعہ کی رکنیت دے دی گئی تو وہ اس سے مناسب
استفادہ کریں گے۔‘‘18
محمد علی
نے اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک درخواست کے ساتھ یہ تعارفی خط پیش کردیا۔ انہوں نے
اپنی درخواست میں لکھا: ’’ محترم، مَیں حوالہ جات وغیرہ کے لئے دارالمطالعہ کی رکنیت
حاصل کرنے کا خواہاں ہوں اور اِس مقصد کے تحت خطِ سفارش منسلک کررہا ہوں۔‘‘19 اِس
درخواست میں چوں کہ انہوں نے اپنے پتے کا تذکرہ اور داراالمطالعہ کی رکنیت کے حصول
کے لئے کوئی واضح مقصد ظاہر نہیں کیا تھا، لہٰذا دوسری درخواست میں انہوں نے اپنا
پتا 35۔ رسل روڈ، کنگسٹن لکھا اور کہا: ’’ جناب ِوالا، اس جوابی تحریر میں ، مَیں
وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں دارالمطالعہ میں کچھ ایسی تحریریں پڑھنا اور اُن کے
حوالہ جات لینا چاہتا ہوں، جن کا تعلق عمومی اور خصوصی طور پر مشرق سے ہے۔ (انہوں
نے دو لفظ ’’خصوصی‘‘ اور ’’حوالہ جات‘‘ خط کشیدہ کئے جو یہاں ترچھے حروف ( Italics) میں دیئے جارہے ہیں)… میرا موجودہ
ذاتی پتا اوپر درج ہے… مَیں امید کرتا ہوں کہ آپ اجازت نامہ لِنکنزاِن کے کامن روم
میں بھیج دیں گے۔‘‘20
محمد علی کی
درخواست منظور کرلی گئی۔ برٹش میوزیم کے پرنسپل لائبریرین نے 9جنوری1895ء کو ایک
خط جاری کیا جس پر نمبر249 درج ہے۔ اس خط میں انہیں مطلع کیا گیا: ’’برٹش میوزیم
کے پرنسپل لائبریرین، مسٹر محمد علی جناح کو مطلع کرتے ہیں کہ مذکورہ تاریخ کے چھ
ماہ کے اندر وہ جب بھی یہ نوٹ دارالمطالعہ کے کلرک کو پیش کریں گے، انہیں مطالعے
کا اجازت نامہ(Ticket) دے
دیا جائے گا۔‘‘ 21 تاہم، نوٹ کے نیچے ایک شرط درج تھی کہ دارالمطالعہ کی سہولت سے
استفادہ کرنے والے کی عمر کم سے کم 21برس ہونی چاہئے۔ لہٰذا محمد علی نے جواباً
دارالمطالعہ سے استفادے کے حوالے سے ایک اقرار نامہ(Declaration) بھی منسلک کیا جس میں لکھا تھا: ’’
مَیں نے دارالمطالعہ کے حوالے سے اقرار نامہ بھی پڑھ لیا ہے اور مَیں ذریعۂ ہذا یہ
اقرار کرتا ہوں کہ میری عمر21برس سے کم نہیں ہے۔‘‘22
لِنکنز اِن
اور برٹش میوزیم کی لائبریریوں میں موجود کتابیں، اُن کی علم کی پیاس بجھانے کے
لئے ناکافی تھیں، لہٰذا، وہ ذاتی کتابیں خریدتے رہے اور دھیرے دھیرے کتابوں کا
اچھا خاصا ذاتی ذخیرہ جمع ہو گیا، حالانکہ اُن کی مالی حالت، خاصی سقیم تھی۔ یہ
کتابیں مثلاً تھامس کار لائل کی ’’ماضی اورحال‘‘(1894ء) سے اینڈریو لینگ کی ’’
ارسطو کی سیاسیات‘‘ (1880ء) تک اور جان اسٹوارٹ مِلز کی ’’ سیاسی معیشت کے اصول‘‘
(1893ء) سے آئزک ڈسرائیلی کی ’’ نابغہ افراد کا ادبی کردار‘‘ تک مختلف النوّع
موضوعات کا احاطہ کرتی تھیں۔ اُن میں سے کچھ کتابیں اب بھی کراچی یونیورسٹی کی
قائدِ اعظم لائبریری میں موجود ہیں۔ اُن میں سے سَر والٹراسکاٹ کی لکھی ہوئی ایک
کتاب ’’ اخلاقیات کے بارے میں‘‘ ہے جس پر قائدِ اعظم کے ہاتھ کی تحریر ہے کہ ’’ یہ
کتاب مرتے دم تک میری ہے۔ اسے چوری کرکے شرمندہ نہ ہوں۔ یہاں مَیں کتاب کے مالک کا
نام درج کررہا ہوں۔ ایم اے جناح،10ستمبر1895ء۔‘‘23
قانون اور
دیگر موضوعات پر مطالعے کے ساتھ ساتھ، لندن ہی میں اُن میں، مستقبل کے ایک سیاسی
رہنما کے آثار بھی نمودار ہونے شروع ہوئے۔ وہ دادا بھائی نوروجی سے خاص طور پر،
بہت متاثر ہوئے، جو بمبئی کے ایک مجوسی تھے اور لندن میں آباد ہوچکے تھے۔ انہوں نے
برطانیہ کی لبرل پارٹی کے جھنڈے تلے سیاست کا آغاز کیا۔ لندن کے ایک حلقے سے
برطانوی دارالعوام کی نشست جیتی اور برطانوی پارلیمنٹ کے اوّلین ایشیائی رکن کا
اعزاز حاصل کیا۔24
دادا بھائی
نوروجی نے پہلی بار 1886ء کے عام انتخابات میں لندن کے ایک حلقے سے لبرل امیدوار کی
حیثیت سے انتخاب لڑا تھا، لیکن شکست کھا گئے تھے۔ دوبرس بعد1888ء میں اُن کی مخالف
کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ اعظم لارڈ سالسبری نے، اُن کی شکست کا ایک
سبب بتاتے ہوئے کہا کہ کوئی برطانوی حلقۂ انتخاب کسی ’’کالے آدمی‘‘ کو منتخب کرنے
پر تیار نہیں۔ اِس نسل پرستانہ رائے زنی نے لبرل کارکنوں میں اُن کے لئے ہمدردی کے
جذبات کو ہوا دی جو اس وقت ولیم ایورٹ گلیڈاسٹون کی زیرِ قیادت برطانوی سیاست میں
آگے بڑھ رہے تھے۔ 1892ء میں اگلے عام انتخابات ہوئے تو دادا بھائی نوروجی کو سنٹرل
فنس بری کے ایک نسبتاً ترقی پسند حلقے سے لبرل پارٹی کے امیدوار کا ٹکٹ دیا گیا۔
اور اِس انتخاب میں وہ معمولی اکثریت سے جیت گئے۔25
لارڈسالسبری
کی رائے زنی نے دادا بھائی نوروجی کو برطانیہ میں مقیم ایشیائی افراد میں مقبولیت
بخش دی تھی کیوں کہ وہ سب لارڈ سالسبری کی رائے کو اپنی اجتماعی تضحیک سمجھتے تھے۔
اور محمد علی بھی اُن میں سے ایک ایسے ہی ایشیائی تھے جنہیں اُس رائے پر سخت غصّہ
آیا تھا۔ فاطمہ جناح، محمد علی کی سوچ کو اِس انداز میں بیان کرتی ہیں: ’’مجھے
معلوم ہوا کہ لارڈ سالسبری نے اپنی ایک تقریر میں دادا بھائی کو ’’ کالا آدمی‘‘
کہہ کے اُن کی تضحیک کی ہے اور اس حوالے سے فنس بری کے انتخابی حلقے کو خبردار کیا
ہے کہ وہ انہیں منتخب نہ کریں تو مجھے غصّہ آگیا۔ اگر دادا بھائی کالے آدمی تھے تو
مَیں اُن سے زیادہ کالا آدمی تھا، اور اگر ہمارے سیاسی آقائوں کی یہی ذہنیت ہے تو
پھر ہمیں اُن سے بھلائی کی کوئی اُمید نہیں رکھنی چاہئے۔ اُس دن سے، مَیں ہر اُس
فرد کا بے لوچ دشمن ہوں جو کسی بھی نوع کی رنگ و نسل پرستی کا حامی ہو۔‘‘26
شاید یہی
مرحلہ تھا جب محمد علی نے اعتدال یا میانہ روی کو مطمحِ نظر اور طرزِ زندگی کے طور
پر اپنایا۔ انہوں نے یہ بھی طے کیا کہ وہ ایک رہنما کا کردار ادا کریں گے۔ ہیکٹربولیتھو،
ڈاکٹر اشرف کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’لندن میں آخری دوبرس کے قیام کے دوران ،ا
نہوں نے زیادہ وقت ایسے مزید انفرادی مطالعے میں صرف کیا، جو سیاسی اُٹھان سے تعلق
رکھتا تھا اور جس کے بارے میں وہ پہلے ہی اپنا ذہن بناچکے تھے۔ جناح نے یہ بھی کہا
کہ خوش بختی مجھ پر مہربان تھی۔ اور ایسی کئی اہم، انگریز لبرل شخصیتوں سے میری
ملاقات رہی جو اعتدال پسندی کے نظریے کی تفہیم میں میرے ممدو معاون ثابت ہوئے۔ اُس
وقت لارڈ مورلے کے لبرل ازم یا اعتدال پسندی کو عروج حاصل تھا۔ مَیں نے اُسی
اعتدال پسندی کو اپنایا۔ وہ اعتدال پسندی میرا جزوِ جان بن گئی اور اُس نے میرے
اندر ایک نئی روح پھونک دی۔‘‘27
قیامِ لندن
کے یہی وہ ماہ وسال تھے جب انہیں شیکسپیئر کے اسٹیج ڈراموں میں اداکاری کا بھی
موقع مِلا۔ فاطمہ جناح لکھتی ہیں: ’’ وہ شیکسپیئر کے ڈرامے دیکھنے کے لئے اکثر
اولڈوِک(Old Vic) چلے
جاتے۔ یہیں وہ اُن عظیم اداکاروں کے سحر میں آئے جو شیکسپیئر کے ڈراموں میں اداکاری
کرتے تھے۔ کچھ عرصے تک وہ بڑی سنجیدگی کے ساتھ سوچتے رہے کہ اداکاری کا پیشہ اپنالیں،
لیکن انہیں پیش کش ہوئی بھی تو ایک ایسی معمولی تھیٹر کمپنی کی طرف سے جو کبھی
کبھار شیکسپیئر کے ڈرامے کھیلتی تھی۔ اور کردار بھی انہیں بہت معمولی سے مِلے۔ وہ
تو چاہتے تھے کہ اولڈوک میں رومیو کا کردارادا کریں۔ اُن کا یہ خواب نہ تو اسٹیج کی
محدود دنیا میں پورا ہوا اور نہ ہی انہیں زندگی کے بھرے پُرے میلے میں اِس کی تعبیر
مِلی… ’’وہ جب بھی شیکسپیئر کے مکالمے بولتے، اُن کی آواز اور لہجے میں وہ لطافت
اور لوچ دَر آتے جو اُن لوگوں کا خاصّہ ہے جنہوں نے اسٹیج اداکاری میں کچھ تربیت
حاصل کی ہوتی ہے۔‘‘ 28
لندن میں قیام
کے دوران محمد علی کو زندگی کی تگ و دو میں خوشیاں اور کامرانیاں مِلیں تو ساتھ ہی
ساتھ وہ غموں اور پسپائیوں سے بھی دوچار ہوئے۔ انہیں سب سے بڑا دُکھ تو یہ مِلا کہ
کراچی میں اُن کی والدہ انتقال کرگئیں۔ اُن کا انتقال، محمد علی کے سب سے چھوٹے
بھائی بندے علی کی پیدائش کے وقت ہوا۔ محمد علی اپنی والدہ سے بے حد پیار کرتے
تھے، لہٰذا اُن کے انتقال کی خبر محمد علی پر بجلی بن کر گری۔ قبل ازیں، انہیں اپنی
اہلیہ ایمی بائی کے انتقال کی خبر بھی مِل چکی تھی، جو محمد علی کی لندن روانگی کے
تھوڑے عرصے بعد ہی دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ اِسی عرصے میں، والد نے یہ اطلاع بھی
دی کہ کراچی میں اُن کا کاروبار ٹھپ ہوکے رہ گیا تھا۔ نتیجتاً اُن کے خلاف نالشیں
ہورہی تھیں جن کے باعث اُن کی صحت برباد ہوگئی تھی اور کنبہ شدید معاشی بحران کا
شکار ہوچکا تھا۔ تاہم ،محمد علی نے اُن ساری آزمائشوں کا بڑی جرأت مندی اور حوصلے
کے ساتھ سامنا کیا اور اپنی تمام تر توجہ حصولِ مقاصد پر مبذول کئے رکھی۔
وقت گزرتا
گیا اور بالآخرانہوں نے سارے تقاضے پورے کردیئے۔ اور اپریل1896ء میں انہیں پیشۂ
وکالت اختیار کرنے کی اجازت دینے کے لئے بلا لیا گیا۔ تاہم ، لِنکنز اِن میں پڑھائی
کی تکمیل سے قبل انہوں نے حکام سے باضابطہ درخواست کی کہ اُن کے خاندانی نام سے
لفظ ’’ بھائی‘‘ متروک قرارد یا جائے۔ محمد علی نے اپنی رہائش گاہ، 35۔ رسل روڈ،
کنگسٹن سے30مارچ1896ء کو ایک خط لِنکنز اِن کے اسٹیورڈ کے نام لکھا جس میں انہوں
نے کہا: جنابِ والا، مَیں آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں اپنے نام سے آخری لفظ
’’ بھائی‘‘ جولفظ ’’مسٹر‘‘ کے لئے استعمال ہوتا ہے، خذف کرنے کا خواہاں ہوں… اِس کی
وضاحت مَیں پہلے ہی آپ کے سامنے کرچکا ہوں۔ ہندوستان کی روایت کے مطابق، مجھے
داخلے کے وقت، نام کا یہ آخری حصّہ درج کرنا ہی تھا۔ میری گزارش ہے کہ اگر آپ کے
لئے کسی الجھن کا باعث نہ ہو تو میرے نام میں ترمیم کرتے ہوئے یہ آخری لفظ خذف کردیا
جائے۔ میرا نام ایم اے جناح، مکمل نام محمد علی جناح کردیا جائے… مجھے امید ہے کہ
پیشۂ وکالت کے لئے نامزدگی سے قبل آپ ،بہر صورت، میرے نام میں ترمیم کردیں
گے۔‘‘29
نام میں
تبدیلی کے لئے محمد علی کی درخواست لِنکنز اِن کی کونسل کے ایک اجلاس میں زیرِ بحث
آئی جس میں لگ بھگ دودرجن ارکان شریک تھے۔ یہ اجلاس 14اپریل1896کو منعقد ہوا۔ اِس
اجلاس میں جو قرار داد منظور کی گئی ، اس کا متن یہ ہے: ’’ محمد علی جناح بھائی
صاحب نے ، جو اِس سوسائٹی کے ایک طالب علم ہیں، عرضداشت گزاری کہ اُن کا نام
سوسائٹی کے اندراجات میں تبدیل کرکے محمد علی جناح کردیا جائے۔ اُن کی یہ عرضداشت
منظور کی جاتی ہے۔‘‘30
1896ء کی ایسٹرٹرم کے اختتام
پر انہوں نے مقررہ ترکیب و ساخت میں ’’ دی ورشپ فل ماسٹر آف دی بینچ‘‘ کے نام
عرضداشت اور اقرار نامہ داخل کیا کہ انہیں پیشۂ وکالت اختیار کرنے کے لئے نامزد کیا
جائے۔ مقررہ ترکیب و ساخت میں کہا گیا ہے ’’ حالاتِ زندگی اور پیشے کے بارے میں بیان
کریں۔‘‘ جناح نے اِس کے مقابل لکھا :’’ محمد علی جناح ( محمد علی جینا بھائی کے
نام سے داخلہ لیا)سکنہ کراچی، ہندوستان۔ جینا بھائی ،سکنہ کراچی، سندھ ، ہندوستان
کا پہلو نٹھی کا بیٹا، مذکور، تاجر۔‘‘31
عرضداشت میں
مزید کہا گیا: ’’ کہ اس درخواست گزار نے 5جون1893ء کو اِس سوسائٹی میں داخلہ لیا
تھا اور خواہاں ہے کہ اُسے پیشۂ وکالت اختیار کرنے کے لئے نامزد کیا جائے، کہ وہ
اکیس برس کا ہوچکا ہے، اُس نے طالب علم کی بارہ میقات پوری کرلی ہیں، کونسل آف ایجوکیشن
کے حسبِ اطمینان پبلک امتحان میں کامیاب ہوچکا ہے، اور خود کو اِس سوسائٹی کے
قواعد و ضوابط کے موافق ڈھال چکا ہے… لہٰذا، آپ محترم حضرات سے معروض ہے کہ اُسے
اِس میعاد میں پیشۂ وکالت اختیار کرنے کے لئے نامزد کیا جائے کہ وہ اپنے زمانۂ
طالب علمی کے جملہ واجبات ادا کرچکا ہے جن میں اِس سوسائٹی کے خازِن کی طرف سے
عائد تمام رسمی جرمانے اور مرکبّات شامِلہیں۔‘‘درخواست گزار محمد علی جناح نے
21اپریل1896ء کو تقریباً470الفاظ پر مشتمل اِس عرضداشت اور ساتھ ہی ساتھ باضابطہ
اقرار نامے پر دستخط کئے ہیں تاکہ اُسے پیشۂ وکالت اختیار کرنے کے لئے نام زدگی
کا اہل قرار دیا جائے۔32
محمد علی
جناح کی عرضداشت پر لِنکنز اِن کے ایک بینچر گراہم ہیس ٹنگز نے صاد کیا۔ انہوں نے
ایک نوٹ میں اسٹیورڈ آف دی اِن کومخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’’مَیں محمد علی جناح (جن
کا داخلہ محمد علی جینا بھائی کے نام سے ہوا تھا ) کی اسپیشل کونسل کے سامنے پیشۂ
قانون اختیار کرنے کے لئے نام زدگی کی تحریک پیش کرنے کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ اسپیشل
کونسل کا اجلاس ، بروز جمعہ،24اپریل1896ء شام ساڑھے پانچ بجے طے کیاگیا ہے۔‘‘33
اِس ضمن میں اگلا دستیاب ریکارڈ، باربُک(Bar Book) میں محمد علی جناح کی نام زدگی کا
اندراج ہے۔ اس میں انہوں نے 50پائونڈ مالیّت کے ایک اسٹامپ پر ’’ ایم اے جناح کے
نام سے دستخط کئے ہیں۔ اِس میں تحریر ہے: گراہم ہیس ٹنگز صاحب کی تجویز پر، ایڈورڈ
ہنری پیمبر صاحب، کیو۔سی خازن نے 29 اپریل1896ء کو، جان ویسٹ میک صاحب، جارج وِرگ
مین صاحب، فرینک وِٹکر بش صاحب، ایڈورڈ پارکر وولسٹن ہوم صاحب، ولیم فپسن بیلے
صاحب اور ڈیوڈ لینڈو الیکزینڈر صاحب کی موجودگی میں بار کے لئے جاری /شائع کیا۔
کونسل کے حکم موّرخہ28 اپریل1896ء کے تحت جاری کیا گیا۔‘‘34
اِن جملہ
رسمی کارروائیوں کی تکمیل کے بعد بیرسٹر محمد علی جناح نے ایک باضابطہ سرٹیفکیٹ کے
اجرا کے لئے درخواست پیش کی۔ اِس درخواست میں انہوں نے ماسٹرز آف دی بینچ کو مخاطب
کرتے ہوئے لکھا: ’’ کہ آپ کا یہ درخواست کنندہ جو5جون1893ء کو داخل ہوا اور 29اپریل1896ء
کو اُسے بیرسٹر ایٹ لا کی سند کے لئے نام زدکیا گیا، عرض گزار ہے کہ اُس نے سوسائٹی
کے تمام قواعد و ضوابط کی پیروی کی ہے اور اب اس سوسائٹی میں اپنا وجود اور طور طریقے
برقرار رکھنے کے لئے ایک سرٹیفکیٹ کے اجرا کا خواہاں ہے… لہٰذا، آپ کا یہ عرض گزار
درخواست کرتا ہے کہ ، آپ محترم حضرات، بمسرت ، اس کے نام یہ سرٹیفکیٹ جاری کردیں
گے کہ اُس نے داخلہ لیا، اُسے پیشۂ قانون اختیار کرنے کے لئے نام زد کیا گیا اور
اُسے اِس سوسائٹی میں شامِل کرلیا گیا، جس کے لئے اُس نے تاریخ ِاجرا کے حکم کے ایک
ماہ کے اندر اندر خازن کو اپنے جملہ واجبات اور ڈیوٹیز ادا کردیئے، آپ کا یہ عرض
گزار یہ ذمّہ داری بھی قبول کرتا ہے کہ اُس کی طرف اور بھی کوئی واجبات نکلیں گے
تو وہ ادا کرے گا۔‘‘35
اُن کی عرض
داشت، کونسل آف دی اِن کے اجلاس مورخہ 11مئی 1896ء کو زیرِ غور آئی اور منظور کرلی
گئی ۔36 نتیجتاً محمد علی جناح کو سرٹیفکیٹ جاری کردیا گیا جس میں لِنکنز اِن میں
اُن کے حصولِ تعلیم کا تذکرہ تھا۔ یوں لِنکنز اِن اور دیگر اداروں میں اُن کے تحصیل
ِعلم کادور پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
اب وقت آگیا
تھا کہ یہ جو اں سال بیرسٹر وطن لوٹ آئے۔ لیکن روانگی سے قبل انہوں نے اپنے واجبات
کی مکمل ادائیگی کو فراموش نہ کیا۔فاطمہ جناح نے جن کے پاس اُن کی بینک پاس بک تھی،
اُن آخری چار چیکوں کے بارے میں تفصیلات بتائیں جو انہوں نے لندن میں جاری کئے
تھے۔ ’’ انہوں نے 3پائونڈ کا ایک چیک 14جولائی1896ء کو مسز پیچ ڈریک کے نام جاری کیا۔
یہ رقم غالباً اُس کنبے کو واجبات کی مد میں حتمی ادائیگی تھی جہاں وہ پے اِنگ گیسٹ
کے طور پر رہتے رہے تھے۔ 15جولائی 1896ء کو انہوں نے تین چیک کاٹے۔71-1-10پائونڈ کا
ایک چیک نیشنل بینک آف انڈیا، بمبئی کے نام تھا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں
نے کراچی کے بجائے بمبئی کو جائے سکونت بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ دوسرا چیک تھامس
کک اینڈ سنز کے نام42.18.12 پائونڈ مالیّت کا تھا جو لندن سے کراچی تک اُن کے سفری
اخراجات سے متعلق تھااور10.9.8 پائونڈ مالیّت کا آخری چیک ذاتی تھا جس سے وہ اپنا
بینک اکائونٹ حتمی طور پر بند کررہے تھے۔‘‘37
یہ
امردلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ انہوں نے لندن میں اپنے تین سالہ قیام کے دوران تقریباً800
پائونڈ خرچ کئے۔ اُن کے بینک ریکارڈ سے یہی بات سامنے آتی ہے۔38 1890ء کے عشرے میں
ایک برطانوی پائونڈ کی مالیّت کو مدِ نظر رکھا جائے تو وہ آج کی شرحِ مالیّت کے
مطابق66.40 پائونڈ اسٹرلنگ بنتی ہے۔39 1890ء کے عشرے کے 800 پائونڈ کو آج کی شرحِ
مالیّت کی روشنی میں دیکھا جائے تو 53,120پائونڈ بنتے ہیں۔ اور آج ہی کی برطانوی
پائونڈ کی ، امریکی ڈالر سے شرحِ تبادلہ کو لیا جائے تو ایک پائونڈ1.52 امریکی
ڈالر کے برابر ہے۔ یوں دیکھا جائے تو انہوں نے آج کی شرحِ مالیّت کے حساب سے
80,750 امریکی ڈالر خرچ کئے تھے۔ لندن میں محمد علی جناح کا قیام مجموعی طور پر
39مہینے رہا۔ آج کی مالیّت کو سامنے رکھا جائے تو انہوں نے ماہانہ2100 امریکی ڈالر
خرچ کئے تھے۔ اور محمد علی جناح ایسے آدمی کے لئے لندن میں آسودہ اور حسبِ مراتب
زندگی بسر کرنے کے لئے یہ رقم اچھی خاصی تھی کیوں کہ وہ شاہ خرچی پر یقین نہیں
رکھتے تھے۔
لندن میں
فرائض کی انجام دہی اور حصولِ مقاصد کے بعد بیرسٹر محمد علی جناح1896ء کے موسمِ
گرما میں ، بذریعہ بحری جہاز، کراچی کے لئے روانہ ہوگئے۔
پی ایچ ڈی
کی پیش کش
عشروں پر
محیط بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں محمد علی جناح، برِصغیر میں آباد مسلمانوں کے
قائدِ اعظم بن کر اُبھرے، اُن کی زیر ِ قیادت مارچ1940ء میں لاہور کے مقام پر قرار
دادِ پاکستان منظور ہوچکی تھی۔ اِس سارے پس منظر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے
محمد علی جناح کی مسلمانوں کے مطمحِ نظر کے لئے خدمات کے اعتراف میں، 12اپریل1942ء
کو فیصلہ کیا کہ انہیں ڈاکٹر آف لا کی اعزازی ڈگری دی جائے۔
اِس فیصلے
کے بعد، اُس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین احمد نے
23اپریل1942ء کو قائدِ اعظم محمد علی جناح کے نام ایک خط میں انہیں کورٹ آف یونیورسٹی
کے فیصلے سے آگاہ کیا۔ انہوں کے لکھا: ’’ میرے عزیز جناح صاحب…اِس یونیورسٹی کی
کورٹ نے اپنے 12اپریل1942ء کے اجلاس میں ، مجھے یہ اختیار دیا ہے کہ آپ کو ڈاکٹر
آف لا کی اعزازی ڈگری دینے کے لئے ضروری کارروائی کروں۔ اِس کے لئے تاریخ آپ کی
سہولت کے مطابق طے کی جاسکتی ہے۔ براہِ کرم، مجھے مطلع کردیجئے کہ اِس مقصد کے لئے
کون سی تاریخ اور وقت، آپ کی سہولت کے مطابق، مناسب رہیں گے، تاکہ مَیں ضروری اقدامات
کرسکوں؟‘‘1
قائدِ اعظم
محمد علی جناح نے اِس کا کوئی جواب نہ دیا۔ ڈاکٹر ضیاء الدین نے ، اُن کی دہلی کی
رہائش گاہ پر اُن سے ملاقات کی دوبار کوشش کی لیکن قائدِ اعظم محمد علی جناح کی
مصروفیات کے سبب ملاقات میں کامیاب نہ ہوسکے۔ پہلے خط کے جواب کا تقریباً چھ ماہ
انتظار کرنے کے بعد، وائس چانسلر ڈاکٹر ضیا الدین احمد نے 30ستمبر1942ء کو مسٹر
جناح کے نام ایک اور خط لکھا جس میں انہوں نے کہا: ’’ میرے عزیز جناح صاحب، مَیں
معذرت چاہتا ہوں کہ دہلی میں آپ سے ملاقات کا شرف حاصل نہ ہوسکا۔ پہلے ہفتے میں آپ
بہت مصروف تھے۔ مَیں دوبار آپ کے درِ دولت پہ حاضر ہوا لیکن آپ کی مصروفیات کے سبب
ملاقات نہ ہوسکی۔ اور پھر اپنے قیام کے اگلے چار روز تک مَیں بسترِ علالت پہ پڑا
رہا۔ یہاں تک کہ مَیں خاکساروں کے مسئلے پر تقریر کرنے گیا تو مجھے 102 ڈگری کا
بخار تھا۔ مَیں آپ سے کئی معاملات پر بات کرنے کا خواہاں تھا… مَیں نے23اپریل1942ء
کو آپ کے نام ایک خط لکھا، جس کی نقل آپ کے فوری ملاحظہ کے لئے منسلک کررہا ہوں۔
مَیں آپ سے ذاتی طور پرمِلنا بھی چاہتا ہوں۔ مجھے ، ایگزیکٹو کونسل کے آئندہ اجلاس
سے پہلے آپ کا جواب درکار ہوگا۔ ہمیں خصوصی کانووکیشن کے انعقاد کے لئے بھی کچھ
وقت چاہئے ہوگا۔ براہِ کرم، اپنی سہولت دیکھتے ہوئے، مجھے اِس سلسلے میں آگاہ فرما
دیجئے۔‘‘2
اِس خط کا
جواب محمد علی جناح نے 4اکتوبر1942ء کو دہلی سے دیا۔ انہوں نے یہ اعزاز قبول کرنے
سے معذرت کی اور کہا کہ وہ صرف مسٹر جناح کہلانا پسند کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ کوئی
سابقہ،لاحقہ لگانے کے حق میں نہیں۔ انہوں نے لکھا: ’’ ڈیر ڈاکٹر سر ضیا الدین۔مجھے
آپ کا 30ستمبر کالکھاہوا خط مِلا۔ مَیں کورٹ آف مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کا شکر
گزار ہوں کہ انہوں نے مجھے ڈاکٹر آف لا کی اعزازی ڈگری دیئے جانے کے لائق سمجھا۔ ایک
طرف مَیں اِس جذبے کا معترف ہوں جس کے تحت کورٹ نے یہ فیصلہ کیا، تو دوسری جانب،
بادلِ ناخواستہ، یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مَیں نے ساری زندگی سیدھے سادے جناح کی
حیثیت سے گزاری ہے اور اِسی کیفیت میں جان ، جان آفریں کے سپرد کرنے کا خواہاں
ہوں۔ مجھے اپنے نام کے ساتھ کوئی اعزاز یا خطاب لگاتے ہوئے بیزاری سی محسوس ہوتی
ہے اور اِس بات پہ زیادہ خوش رہتا ہوں کہ میرے نام کے ساتھ کوئی سابقہ، لاحقہ
منسوب نہیں ہے… لہٰذا، مَیں امید کرتا ہوں کہ کورٹ میرے جذبات واحساسات کا پاس کرتے
ہوئے اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے گا، حالانکہ مجھے بخوبی احساس ہے کہ مسلم یونیورسٹی
نے میرے لئے جس اعزاز کا اہتمام کیا ہے، کسی بھی انسان کے لئے اِس سے بڑا اعزاز
اور کوئی نہیں ہوسکتا۔‘‘3
یونیورسٹی
کی ایگزیکٹو کونسل نے جناح صاحب کے اِس جواب پر غورو خوض کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ
اُن سے اپنے فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی جائے کیوں کہ یونیورسٹی اِس امر کی
خواہاں تھی کہ جناح صاحب کا نام یونیورسٹی سے ڈگری پانے والے افراد کی فہرست میں
آجائے۔ وائس چانسلر کو یہ فریضہ دوبارہ سونپا گیا کہ وہ جناح صاحب کو ڈگری قبول
کرنے پر آمادہ کریں۔ اِس فیصلے کی روشنی میں وائس چانسلر نے 3دسمبر1942ء کوایک اور
خط جناح صاحب کے نام لکھا جس میں انہوں نے کہا: ’’ میرے عزیز جناح صاحب… مَیں نے
آپ کا 4اکتوبر1942ء کا خط ایگزیکٹو کونسل کے سامنے رکھا تو کونسل نے متفقہ طور پر
مجھے کہا کہ آپ سے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کروں۔ آپ کی طرف سے عدم قبولیت
بہت بڑی مایوسی کا باعث ہوگی۔ اعزازی ڈگری حاصل کرنے والی شخصیّات میں آپ کے نام کی
شمولیت یونیورسٹی کے لئے بہت بڑا اعزاز ہوگی۔4
تاہم ،
جناح صاحب پر اِس کا بھی کوئی اثر نہ ہوا۔ 6جنوری1943ء کو انہوں نے دہلی سے ایک خط
میں، ڈگری لینے سے ایک بار پھر معذرت کی اور کہا:’’ڈیر سرضیا الدین… آپ کے
3دسمبر1942ء کے خط کا بہت بہت شکریہ۔ آپ نے ایگزیکٹو کونسل کی طرف سے کہا ہے کہ مَیں
اپنے فیصلے پر نظر ثانی کروں۔ مَیں نے اُن کی خواہش کے احترام میں پھر غور کیا ۔
اور اس نتیجے پر پہنچا کہ کونسل جو بیش بہا اعزاز مجھے بخشنا چاہتی ہے، معذرت کے
ساتھ، مَیں وہ قبول کرنے سے قاصر ہوں۔ ایسی بات نہیں کہ مجھے اُن کے احساسات کا خیال
نہیں، لیکن ایسے متعدد اسباب ہیں، جن کی بِنا پر، مَیں ایک بار پھر، بادلِ
ناخواستہ، کہتا ہوں کہ مَیں کونسل کی نیک نیتی پر مبنی درخواست قبول نہیں کرسکتا۔
بہر حال، مجھے امید ہے کہ کونسل میری رائے کا کوئی غلط مطلب نہیں لے گی یا یہ کہ
مَیں نے یہ فیصلہ نہ چاہتے ہوئے کیا ہے۔‘‘5
یوں، قائدِ
اعظم محمد علی جناح کی تعلیمی زندگی میں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری لینے کا باب
اختتام کو پہنچا۔
وکالت اور
سیاست کے میدانِ عمل میں
پیشۂ
قانون اختیار کرنے کی سَند لینے کے بعد محمد علی جناح1896ء کے موسمِ گرما میں کراچی
لوٹے جہاں بہت سے مسائل اُن کی راہ دیکھ رہے تھے۔ انہیں والد کی زبانی پہلی بار
علم ہوا کہ اُن کا کاروبار تباہ ہوچکا تھا اور قرض خواہوں نے کاروباری واجبات کی
وصولی کے لئے عدالتوں میں مقدمات دائر کررکھے تھے۔ ’’ گھر پہنچنے کے فوراً بعدبابا
نے انہیں حالات سے آگاہ کرنا شروع کردیا۔ انہوں نے بتایا کہ کنبے کا کاروبار تباہ
ہوچکا تھا اور انہیں متعدد کاروباری اداروں کو بڑی بڑی رقوم ادا کرنی تھیں جن میں
سے چند ایک نے رقوم کی وصولیابی کے لئے عدالتوں میں مقدمے دائر کررکھے تھے۔‘‘1 اُن
کے والد نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ کراچی میں وکالت شروع کردیں لیکن وہ
بمبئی میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرچکے تھے۔ وہ اپنی وکالت اور سیاست کے لئے کراچی
کو میدانِ عمل کے لئے بہت چھوٹا تصوّر کرتے تھے۔
بمبئی
پہنچنے کے بعد انہوں نے ہائی کورٹ کے قرب و جوار میں واقع ایک ہوٹل میں کمرہ کرائے
پر لیا اور ایڈووکیٹ کی حیثیت سے اندراج کے لئے درخواست دے دی۔ 18اگست1896ء کو
بمبئی ہائی کورٹ کے رجسٹرار کے نام اپنے خط میں انہوں نے لکھا: ’’جنابِ والا کی
اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مَیں بمبئی ہائی کورٹ میں بحیثیت ایڈووکیٹ اندراج کا
خواہاں ہوں۔ مَیں نے قانون کی بارہ میقات مکمل کی ہیں اور29اپریل 1896ء کو پیشہ
ٔقانون اختیار کرنے کی سَند حاصل کرچکا ہوں۔ مَیں مذکورہ بالا عدالت میں وکالت
کرنا چاہتا ہوں اور اس کے لئے اہلیت کے دوسرٹیفکیٹ منسلک کررہا ہوں۔ ایک سرٹیفکیٹ
سرہاورڈ ڈبلیو ایلفنسٹن اور دوسرا مسٹر ڈگلس ایڈورڈ زکی طرف سے ہے… جہاں تک کریکٹر
سرٹیفکیٹ کا تعلق ہے، اِس معاملے میں چوں کہ مَیں لاعلم تھا، اِس لئے پیش کرنے سے
معذور ہوں۔ تاہم اگر آنربیل چیف جسٹس اور جج صاحبان ازراہِ کرم مجھے مستقل وکالت کی
اجازت دے دیں تو مَیں ذمہ داری لیتا ہوں کہ تین ماہ کے اندر اندر برطانیہ سے ایسے
بیرسٹر سے سرٹیفکیٹ منگوا کر پیش کردوں گا، جن کے ساتھ مَیں پڑھتا رہا ہوں۔‘‘2
رجسٹرار نے فائل 24اگست1896ء کو اندراج کے انچارج ججوںکے سامنے پیش کردیا اور
انہوں نے ریمارک دیئے: ’’ مستقل طور پر وکالت کے لئے اندراج کرلیا جائے۔‘‘ اور یوں
بیرسٹر محمد علی جناح کے لئے وکالت کے طویل اور کامیاب کیریئر کی بنیاد رکھ دی گئی۔
پہلا مقدمہ
جس میں وہ بطور وکیل پیش ہوئے، غالباً کراچی ڈسٹرکٹ کورٹ میں تھا اور اس کے لئے وہ
ستمبر میں بمبئی سے کراچی آئے۔9دسمبر1896ء کو عدالت نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا۔3
وہ جنوری1897ء میں بمبئی لوٹ آئے اور اپالوبندر پر ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے لیا۔
اگلے تین برس کے دوران انہیں کچھ زیادہ مقدمے نہ مِلے۔ بس کچھ ایسے مقدمے تھے جن میں
وہ بطور وکیل مہتا گروپ کے ساتھ پیش ہوئے۔4
محمد علی
جناح چونکہ بڑے اسمارٹ اور دل کش شخصیّت کے مالک تھے اس لئے اُن کا سماجی اور پیشہ
ورانہ حلقۂ احباب بڑھنے لگا۔ ایک دوست نے انہیں بمبئی کے قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل
جان مولزورتھ میکفرسن سے متعارف کرادیا۔ وہ محمد علی جناح سے اتنے متاثر ہوئے کہ
اپنے دفتر میں کام کرنے کی دعوت دے دی۔5محمد علی جناح نے یہ پیش کش قبول کرلی اور
اہلیّت ثابت کرکے دکھائی۔ وکیل کی حیثیت سے کام ابتدائی برسوں میںمحمد علی جناح نے
سر جارج لووینڈیس کے دفتر میں بھی کام کیا۔6 کسی ہندوستانی کے لئے یہ اعزاز کم کم
ہی دیکھنے میں آیا کہ اُس نے اتنے ممتاز و معروف قانون دانوں کے ساتھ کام کیا ہو۔
جن دنوں
محمد علی جناح ،قانون دان جان میکفرسن کے دفتر میں کام کررہے تھے، بمبئی پریذیڈنسی
کے محکمۂ قانون میں، جس کی سربراہی سر چارلس اولیونٹ کررہے تھے،جوڈیشل مجسٹریٹوں
کی کچھ عارضی اسامیاں نکلیں تو مستحکم پیشہ ورانہ حوالوں کے نتیجے میں،انہیں مئی1900ء
میں بمبئی میں تھرڈ پریذیڈنسی مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز کردیا گیا۔7 جواں سال محمد
علی جناح کے لئے یہ آگے بڑھنے کا ایک موقع اور ساتھ ہی ساتھ ایک چیلنج بھی تھا۔
موقع یہ کہ برطانوی ہند میں بحیثیت مجسٹریٹ کام کا تجربہ اور چیلنج یہ کہ اپنے ہم
سر اور سینئر حضرات کی توقعات پر پورا اُترنا۔ اور محمد علی جناح نے اپنی اہلیتوں
کا خوب تراظہار کیا۔
یہ تقرری
چھ ماہ کے لئے تھی۔ مدت ختم ہوئی تو انہیں پیش کش کی گئی کہ وہ اُس عہدے پہ کام
جاری رکھیں۔ اُس عہدے پر ماہانہ تنخواہ ایک ہزار پانچ سو روپے تھی جو اُن دنوں ایک
معقول رقم تصوّر ہوتی تھی۔ لیکن، پُر اعتماد محمد علی جناح نے یہ کہتے ہوئے معذرت
کرلی کہ:’’ بہت شکریہ جناب، مَیں جلد ہی اِس قابل ہوجائوں گا کہ ایک دن میں اتنے پیسے
کمالوں۔‘‘8
محمد علی
جناح نے دوبارہ وکالت شروع کردی۔ قانونِ طب(Forensic) اُن کا خصوصی شعبہ تھا۔ اِس منتخب
شعبے میں اُن کی مہارت اِس حد تک بڑھی کہ انہیں ’’ بمبئی کورٹ کا لارڈ سائمن‘‘ کہا
جانے لگا۔ وہ اِس حوالے سے یوں معروف ہوئے کہ لارڈ سائمن برطا نوی عدالتوںمیں
قانونِ طب کے شعبے (Forensic Fields) میںیکتا تھے۔ اِس شعبے میں اُن کی گہری نظر تھی۔ چند
سال بعد، محمد علی جناح سے سر اولیونٹ کی ملاقات ہوئی تو انہوں نے جناح کو اِس
درست فیصلے پر مبارکباد دی کہ انہوں نے سرکاری ملازمت قبول نہیں کی تھی۔ محمد علی
جناح نے برسوں بعد، کسی موقع پر اپنی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا، ’’انہوں نے میرے
عزمِ صمیم اور اظہارِ جرأت پر مبارک باد دی اور کہا کہ مَیں نے اُن کی پیش کش
قبول نہ کرکے بہت اچھا فیصلہ کیا تھا‘‘۔
مالی مسائل
سے نجات حاصل کرتے ہی، محمد علی جناح اپنے والد اور بھائی بہنوں کو کراچی سے بمبئی
لے آئے اور خوجہ محلے کے ایک اپارٹمنٹ میں اُن کی رہائش کا انتظام کردیا۔ خود وہ
الگ رہتے تھے لیکن اپنے والد اور بھائی بہنوں سے باقاعدگی سے، خصوصاً اتوار کے
روزمِلا کرتے تھے۔ 17اپریل1902ء کو اُن کے والد انتقال کرگئے۔9اور اس کے بعد انہوں
نے سارے بھائی بہنوں کی مکمل ذمّہ داری سنبھال لی۔ انہوں نے یہ ذمّہ داری اِس حد
تک نبھائی کہ30مئی 1939ء کو اپنی آخری وصیّت میں بھی، اپنی املاک و اموال میں اُن
کا حصّہ رکھا۔
پیشۂ
وکالت میں استواری کے بعد، محمد علی جناح نے اپنے سیاسی میدانِ عمل کی طرف توجہ
مبذول کی۔ اِس کا آغاز 1903ء میں ہوا جب انہوں نے بمبئی پریذیڈنسی ایسوسی ایشن کی
سرگرمیوں میں حصّہ لینا شروع کیا۔ یہ تنظیم1885ء میں قائم ہوئی تھی۔10 مارچ1904ء میں
انہوں نے کسی سیاسی عہدے کے لئے غالباً زندگی کا پہلا انتخاب لڑا۔ یہ بمبئی میونسپل
کارپوریشن کے ارکان کا انتخاب تھا۔ اور سولہ منتخب ارکان میں محمد علی جناح بھی
شامِل تھے۔11 چند ماہ بعد جولائی1904ء میں وہ بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس کی
استقبالیہ کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔12
محمد علی
جناح1906ء تک ایک سربرآوردہ وکیل بن چکے تھے۔ اُس وقت اُن کی عمر30برس تھی۔ اب
انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے ایک رہنما کی حیثیت سے ابھرنا شروع کیا۔ اُس برس
وہ کلکتہ میں منعقد ہونے والے کانگریس کے سالانہ اجلاس میں شرکت کے لئے بنگال گئے
تو انہیں کانگریس کے جن اعلیٰ سیاسی رہنمائوں کی ہمراہی کا اعزاز حاصل ہوا ، اُن میں
سردادا بھائی نوروجی بھی شامِل تھے، محمد علی جناح اُن کے پولیٹکل سیکریٹری کے
فرائض انجام دے رہے تھے۔ اُسی سال کے اوآخر میں، 30دسمبر کو بنگال کے ایک اور شہر
ڈھاکا میں، کچھ سربرآوردہ مسلمان شخصیّات کے ایک اجتماع میں آل انڈیا مسلم لیگ نے
جنم لیا۔ اور یہی تنظیم تھی جس میں، کئی برس بعد، محمد علی جناح کو شامِل ہونا اور
قیامِ پاکستان کے لئے برِصغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی کرنا تھی!یہ بات بھی ذہن میں
رہے کہ اُس سال جن مسلمانوں شخصیّات نے مسلم لیگ کے قیام کا ڈَول ڈالا، اُن کے
بارے میں عمومی تاثر یہ تھا کہ وہ سوچ کے اعتبار سے انگریز حکمرانوں کے زیرِ اثر
تھے۔ اُس اجلاس کی صدارت نواب وقار الملک نے کی۔ انہوں نے مسلم لیگ کے قیام کی
قرار داد پیش کی جس کا مقصد یہ تھا کہ ’’ ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی حقوق اور
مفادات کو سامنے لایا جائے، اُن کا تحفّظ کیا جائے اور اُن کی خواہشات اور امنگوں
کو بہ احترام حکومت کے سامنے پیش کرکے اُن ( مسلمانوں) کی نمائندگی کی جائے۔‘‘13
1909ء میں برطانوی حکومت کا
’’انڈین کونسلز ایکٹ مجر یہ 1909ء ‘‘آگیا جسے عرفِ عام میں’’ مورلے۔ مِنٹو
اصلاحات‘‘کہا جاتا ہے۔ اِس ایکٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ کلکتہ کی امپیریل لجسلیٹو کونسل میں ہندوستانی نمائندگان کی
تعداد بڑھائی جائے گی۔ محمد علی جناح ’ بمبئی سے مسلمان رکن‘ کی حیثیت سے، اِس کے
ساٹھ ارکان میں منتخب کئے گئے۔ تھوڑے ہی عرصے بعد کونسل میں ایک قرار داد پیش کی
گئی کہ جنوبی افریقہ کو ہندوستانی مزدوروں کی، اقرار نامے کے تحت برآمد، ختم کردی
جائے۔ یہ معاملہ بڑی اہمیت کا حامِل تھا کہ ہندوستانی رائے عامہ یہ چاہتی تھی کہ
ہندوستانیوں کو جنوبی افریقہ، جو برطانیہ کی ایک اور نوآبادی تھی، بھجوانا بند کیا
جائے۔
25فروری1910ء کو ، امپیریل
لجسلیٹو کونسل کے اجلاس منعقدہ کلکتہ میں، یہ معاملہ زیرِ بحث آیا۔اِس موقع پر
محمد علی جناح نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’ یہ بڑا درد ناک مسئلہ ہے، ایسا مسئلہ جس
نے ملک کے ہر طبقۂ فکر میں غم و غصّے کو ہوا دے رکھی ہے۔ یہ جان کر اُن کا غم و
غصّہ اور ہَر اس ،ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتا چلا جارہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں
ہندوستانی مزدوروں کے ساتھ بے رحمانہ اور ظالمانہ برتائو کیا جاتا ہے۔‘‘وائسرائے
مِنٹو جو اجلاس کی صدارت کررہے تھے، ’’ ظالمانہ برتائو‘‘ ایسے سخت الفاظ کے
استعمال پر چُپ نہ رہ سکے کہ اُن کے خیال میں یہ الفاظ قلمروئے برطانیہ ( ایمپائر)
کے ایک ’’دوست حصّے کے حوالے سے بہت درشت تھے‘‘۔ لیکن جناح شدید غصّے میں تھے۔
انہوں نے کہا : ’’ مائی لارڈ! مَیں اِس سے بھی زیادہ سخت زبان میں بات کہنا چاہتا
ہوں لیکن اِس کونسل کے آئین سے بخوبی آگاہ ہوں، لہٰذا، ایک لمحے کے لئے بھی حدود
سے تجاوز کا روادار نہیں ہوسکتا۔ لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ ہندوستانیوں کے ساتھ
انتہائی بے رحمی کا برتائو کیا جارہا ہے اور اِس سلسلے میں سارے ملک کی رائے یہی
ہے۔‘‘14
1912ء میں آغا خان مسلم لیگ
کی صدارت سے مستعفی ہوگئے۔ اعلیٰ سطح پر تبدیلی کے نتیجے میں مسلم لیگ کی پالیسیوں
میں بھی تبدیلی رونما ہوئی۔ دوسری جانب، بعض برطانوی اقدامات اور پالیسیوں نے
مسلمانوں کو دُکھی کردیا۔ اُس وقت مسلمانوں کی بڑی شکایات یہ تھیں کہ تقسیمِ بنگال
کو کالعدم قرار دے دیا گیا تھا، محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کو یونیورسٹی کا درجہ دینے
کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کی جارہی تھیں، کان پور کی مسجد شہید کردی گئی تھی، اور
جنگِ بلقان کے حوالے سے برطانیہ نے ناپسندیدہ پالیسیاں اپنائی تھیں۔ اِن اقدامات
نے مسلمانوں میں بے چینی پیدا کردی ہوئی تھی۔ مولانا ظفر علی خاں کا’’ زمیندار‘‘،
مولانا محمد علی کے ’’کامریڈ‘‘ اور ’’ہمدرد‘‘ اور مولانا ابوالکلام آزاد کا
’’الہلال‘‘ ایسے اخبارات اور جرائد مسلمان رائے عامہ کا اظہار کررہے تھے۔
اِن حالات
و واقعات کے پس منظر میں مسلم لیگ نے اپنی سوچ میں تبدیلی اور نیا آئین اپنانے کا
فیصلہ کیا۔ 23مارچ،1913ء کو مسلم لیگ نے لکھنؤ اجلاس میں فیصلہ کیا کہ وہ برطانوی
راج کی سرپرستی میں حکومتِ خود اختیاری کا ایسا نظام اپنائے گی جو ہندوستان کے لئے
موزوں ہو… عوام میں جذبہ بیدار کرے گی… اور اِن مقاصد کے حصول کے لئے وہ دوسری قومیتوں
کے ساتھ تعاون کرے گی۔مسلم لیگ کا یہ ترمیم شدہ مطمحِ نظر ہندوستان کے روشن خیال
مسلمانوں کے لئے زیادہ قابلِ قبول تھا جن میں محمد علی جناح بھی شامِل تھے۔
ستمبر1913ء
میں مسلم لیگ کے دو زعماء مولانا محمد علی اور سیّد وزیر حسن برطانوی حکام کو مسجد
کان پور کی شہادت کے معاملے پر مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے آگاہ کرنے کی غرض سے
برطانیہ گئے۔ اُس وقت محمد علی جناح بھی لندن میں تھے۔ دونوں حضرات نے اُن سے
ملاقات میں درخواست کی کہ وہ مسلم لیگ میں شامِل ہوجائیں۔ محمد علی جناح نے اِس
شرط پر آل انڈیا مسلم لیگ میں شمولیت پر رضا مندی کا اظہار کیا کہ ’’اُن کے اس
اِقدام سے کسی بھی صورت یہ کیفیت ظاہر نہیں ہونی چاہئے کہ انہوں نے وسیع تر قومی
مقصد سے روگردانی ہے‘‘اُن کا اشارہ کانگریس کے ساتھ وابستگی کی طرف تھا۔اُن کی شرط
مان لی گئی اور وہ انڈین نیشنل کانگریس کی رکنیت برقرار رکھتے ہوئے، آل انڈیا مسلم
لیگ کے رکن بن گئے۔ اِس کے نتیجے میں وہ دونوںپارٹیوں کے درمیان ایک پُل کی صورت
اختیار کرگئے اور انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیر کہا جانے لگا۔
1914ء میں گاندھی سے جناح کی
پہلی ملاقات ایک گارڈن پارٹی میں ہوئی جو جنوبی افریقہ سے گاندھی کی ہندوستان واپسی
پر دی گئی تھی۔ اُسی سال عالمی جنگ بھی شروع ہوچکی تھی جس کے نتیجے میں سیاسی
سرگرمیاں ماند پڑ چکی تھیں۔ تاہم انہوں نے دونوں پارٹیوں کو قائل کرلیا کہ وہ
دسمبر1915ء میں ایک ہی تاریخ پربمبئی میں اپنا اپنا اجلاس منعقد کریں۔ محمد علی
جناح نے مسلم لیگ کے اجلاس میں ایک قرار داد پیش کی کہ ہندوستان میں سیاسی اصلاحات
کے لئے منصوبہ بنانے کی عرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے
جو چند سال بعد کانگریس کے صدر بنے اور تب مسلم لیگ ہی کے ایک رکن تھے،قرار داد کی
حمایت کی۔یہ قرار داد منظور ہوئی اور اصلاحات کے لئے کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ محمد
علی جناح کی کوششوں کے نتیجے میں ہندوستان کی دونوںبڑی پارٹیوںکے درمیان برف
پگھلنا شروع ہوچکی تھی۔
1916ء کے اختتام پر دونوں کمیٹیوں
کا مشترکہ اجلاس کلکتہ میں ہوا اور انہوں نے اصلاحات کا متفقہ مسوّدہ تیار کیا جسے
تاریخ میںمیثاقِ لکھنؤ کہا جاتا ہے۔ اِس میثاق میں کہا گیا کہ مختلف نمائندہ
اسمبلیوں اور بلدیات میں مسلمانوں کو جداگانہ انتخاب کا حق حاصل ہوگا۔ اس میں باہمی
افہام و تفہیم سے،ملک کی لجسلیٹو کونسلوں میں مسلمانوں کی متناسب نمائندگی کے حق
کو بھی متفقہ طور پر تسلیم کیا گیا جو قبل ازیں ایک بڑا تکلیف وہ اور پُر خار
مسئلہ رہا تھا۔’’انہوں نے1916ء کے کانگریس- لیگ معاہدے میں معتبرانہ کردار ادا کیا۔
یہ واحد اور اوّلین معاہدہ تھا جو دونوں تنظیموں یعنی کانگریس اور مسلم لیگ کے درمیان
ہوا…اِس معاہدے کے تحت جو منصوبہ مرتّب کیا گیا، وہی مونٹی گو_ چیمس فورڈ اصلاحات،
یعنی گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1919ء کی بنیاد بھی بنا۔‘‘ 15 دسمبر1916ء میں مسلم لیگ
کے اجلاس منعقدہ لکھنؤ کی صدارت محمد علی جناح نے کی اور اُسی اجلاس میں دونوں
پارٹیوں کے درمیان ہونے والی مفاہمت کی توثیق کی گئی۔
رتن بائی
سے رشتۂ مناکحت
اپریل1918ء
میں محمد علی جناح کی نجی زندگی کے انتہائی اہم واقعات میں سے ایک یہ تھا کہ انہوں
نے ایک پارسی( مجوسی) کنبے کی جواں سال لڑکی رتن بائی سے رشتۂ مناکحت استوار کیا۔رتن
بائی نے شادی سے ایک دن قبل اسلام قبول کیا تھا۔ محمد علی جناح1893ء میں پہلی بیوی
کے انتقال کے بعد سے عُزلت کی زندگی گزار رہے تھے۔ کلکتہ سے شائع ہونے والے
اخبارروزنامہ اسٹیٹسمین نے18 اپریل1918ء کو یہ خبر شائع کی کہ ’’سرڈِ نشاپٹیٹ کی
اکلوتی صاحبزادی رتن بائی نے کل اسلام قبول کرلیا اور آج عزت مآب ایم اے جناح سے
اُن کی شادی ہورہی ہے۔‘‘ رتن بائی کا اسلامی نام مریم رکھا گیا، لیکن عمومی طور پر
انہیں رتن بائی کے نام ہی سے جانا جاتا رہا۔
یہ شادی
خاندان کی پسند ایسی مشرقی روایات کے برعکس کلیتاً فریقین کی باہمی رضا مندی اور
آزادانہ پسند پر مبنی تھی۔ رتن بائی، جو عرفِ عام میں رَتّی کہلاتی تھیں، ’’ہمدرد،
جذباتی، دانا اور قابلِ تعریف خاتون تھیں۔ وہ خوش مزاج، اور شاعری اور فنون کی دل
دادہ تھیں۔‘‘1 فطر تاً وہ ایک سماجی کارکن تھیں اور عصمت فروشی ایسی سماجی برائیوں
اور حیوانات کے ساتھ بے رحمی کے برتائو کے خلاف مہمیں چلاتی رہتی تھیں۔ مسٹر اور
مسز جناح کی حیثیت سے وہ ایک باکمال جوڑا تھے اور بمبئی کے سماجی حلقوں میں انہیں
گرمجوشی کے ساتھ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔ اُن کی خوب آئو بھگت ہوتی تھی۔
آنے والے
برسوں کے دوران، بہر حال، اِس شادی کو کچھ ناخوشگوار حالات و معاملات سے گزرنا
پڑا۔ میاںبیوی کے درمیان دُوریاں بڑھتی چلی گئیںکیوں کہ اُن کے مفادات اور فہم و
فراست کی راہیں مخالف سمتیں اختیارکرنے لگی تھیں۔ تاہم، دونوں کے درمیان کسی حد تک
محبت اور باہمی عزت و احترام ،آخر دم تک موجود رہے۔اور رَتّی نے بیمار ہو کر بسترِ
مرگ پکڑا تو دونوں کے درمیان موجود اختلافات ہوا ہوگئے۔ رَتّی کو علاج کے لئے پیرس
لے جایا گیا تو جناح اُن کے پیچھے پیچھے وہاں پہنچے اور مہینے بھر سے زیادہ عرصے
تک اُس نرسنگ ہوم میں مقیم رہے جہاں وہ زیرِ علاج تھیں۔
جہاں تک
رَتّی کا تعلق ہے، وہ بھی محمد علی جناح کو بہت چاہتی تھیں۔ انہوں نے انتقال سے
چند ماہ قبل، اکتوبر1928ء میں محمد علی جناح کے نام خط میں لکھا:’’ڈارلنگ، آپ نے میری
خاطر جو کچھ کیا، اُس پر مَیں شکر گزار ہوں… انسان زندگی کی حقیقت سے اتنا قریب (
زندگی کی حقیقت تو بہر حال، موت ہی ہے) ہوتا ہے، جیسے کہ مَیں ہوں، تو اُسے حسین ،
نرم و نازک محبت آمیز لہجے ہی یاد آتے ہیں، باقی سب کچھ خیالی اور موہوم سے غبار میں
کھو جاتا ہے۔ میرے محبوب مجھے مسئلے ہوئے پھول کی طرح نہیں، چُنے ہوئے پھول کی
مانند اپنی یادوں میں بسائے رکھنا… ڈارلنگ، مَیں نے تمہیں چاہا ہے، تمہیں چاہا ہے۔
میری چاہت میں کمی ہوتی تو شاید کچھ دن اور تمہارے ساتھ جی لیتی…میرے محبوب، مَیں
نے تمہیں جتنا چاہا، کوئی کم کم ہی اتنا چاہا گیا ہوگا۔ میری التجا ہے تم سے کہ جس
المیہ کہانی کی ابتداچاہت سے ہوئی تھی، چاہت پر ہی انجام کو پہنچے۔شب بخیر، خدا
حافظ، میرے محبوب۔‘‘2
رَتّی
علالت سے جانبر نہ ہوسکیں اور جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ اُن کی شادی شدہ زندگی
گیارہ برس سے بھی کم رہی۔ اُن کی تجہیزو تکفین بمبئی میں اسلامی مذہبی رسوم کے
مطابق ہوئی۔
محمد علی
جناح اور رتن بائی کے ہاں15اگست1919ء کو بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام ’’دینا‘‘ رکھا گیا۔
دینا اُن کی اکلوتی اولاد تھی۔ وہ دس برس کی بھی نہ ہوئی تھی کہ ماںکا انتقال ہوگیا۔
اور محمد علی جناح اپنی بہن فاطمہ جناح کی مدد سے اُس کی پرورش کرنے لگے۔
ترکِ تعلق
اُدھر
ہندوستان کے سیاسی منظر پر، حکومتِ برطانوی ہند نے جولائی1918ء میں ’’ مونٹی گو۔ چیمس
فورڈ اصلاحات‘‘ کے منصوبے کا مسوّدہ شائع کردیا تاکہ عوامی ردِ عمل کا اندازہ لگایا
جاسکے۔ کانگریس اور مسلم لیگ نے اپنے جوابات اور ردِ عمل تشکیل دینے کے لئے دہلی میں
اپنے اپنے اجلاس بلائے۔ مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت مولوی فضل الحق اور کانگریس کے
اجلاس کی صدارت پنڈت مدھن موہن مالویہ نے کی۔ مسلم لیگ نے اپنی قرار داد میں
اصلاحات کا یہ منصوبہ جزوی طور پر قبول کرلیا، جب کہ کانگریس نے اُسے کُلّی طور پر
مسترد کردیا۔ اور اس کے نتیجے میں ، سارے ہندوستان میں، حکومت کے خلاف احتجاج اور
مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔
ملک میں
امن وامان بحال کرنے کے لئے نو آبادیاتی حکمرانوں نے ’’نراج اور انقلاب سے متعلق
جرائم کا ایکٹ‘‘ نافذ کردیا جسے عام طور پر ’’ رولیٹ ایکٹ‘‘ کہاجاتا ہے۔ کیوں کہ
جس کمیٹی نے یہ قانون تشکیل دیا تھا، اس کی سربراہی جسٹس ایس اے رولیٹ نے کی تھی۔
اِس ایکٹ کے تحت، مشتبہ سیاسی افرادکو کسی عدالتی کارروائی کے بغیر سزادی جاسکتی
تھی۔ محمد علی جناح نے اس آمرانہ قانون کی مخالفت کی۔ اِس بل پر بحث کے دوران
انہوں نے کہا: ’’ میری پہلی دلیل یہ ہے کہ یہ قانون اور انصاف کے بنیادی اصول کے
خلاف ہے کہ تسلیم شدہ شہادت اور طریقِ کار کی رو سے عدالتی کارروائی کے بغیر نہ
کوئی شخص اپنی آزادی کھوسکتا ہے اور نہ کسی شخص کو اُس کی آزادی سے محروم کیا
جاسکتاہے۔‘‘1
حکومت اپنے
اقدام پر اَڑی رہی۔ محمد علی جناح نے وائسرائے کے نام ایک کھلے خط میں دوبارہ سخت
الفاظ میں اپیل کی کہ یہ عوام دشمن اور غیر آئینی قانون واپس لیا جائے۔ انہوں نے
وائسرائے کو لکھا: ’’ اگر کوئی حکومت زمانہ ٔ امن میں ایسا قانون نافذ کرتی ہے تو
وہ مہذب حکومت کہلانے کے دعوے سے محروم ہوجاتی ہے۔ حکومت نے اُن کی اپیل ایک بار
پھر اَن سُنی کردی۔ اِس پر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اُس اعلیٰ ترین برطانوی اسمبلی
سے الگ ہوجائیں گے اور اِس کے ساتھ ہی انہوں نے امپیریل لجسلیٹو کونسل سے استعفیٰ
دے دیا۔2
اُدھر سارے
ہندوستان میں اِس قانون کے خلاف احتجاج جاری تھا۔ کانگریس نے 6اپریل1919ء کو ہڑتال
کی اپیل کی جس کے نتیجے میں ، ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ جواباً حکومت نے بزورِ
قوت بہت سے سیاسی کارکنوں کو گرفتار کرلیا۔مظاہرین 11اپریل کو پنجاب کے شہر امرتسر
میں ایک تھانے کے باہر اکٹھے ہوگئے اور سیاسی کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ کرنے
لگے۔ اگلے روز جیلیا نوالہ باغ میں ایک احتجاجی جلسہ ہوا جس کا مقصد حکومت پر زور
دینا تھا کہ وہ اِس ایکٹ کو واپس لے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرے۔
انتظامیہ
نے پوری قوّت کے ساتھ صورتِ حال سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ شہر کا انتظام جنرل ڈائر
کے سپرد کردیا گیا اور اُس نے شہر میں فوج تعینات کردی۔ جیلیا نوالہ باغ میں لگ
بھگ بیس ہزار مظاہرین جمع ہوچکے تھے کہ جنرل ڈائر نے اپنے فوجیوں کو فائر کھولنے
کا حکم دے دیا جس میں بے تحاشا جانی نقصان ہوا۔ اس سانحے کے نتیجے میں سارے
ہندوستان میں غم و غصّے کی ایسی لہر پھیلی جس کی، اس سے پہلے کوئی مثال نہ تھی۔
حکومت اس قدر بے بسی محسوس کررہی تھی کہ اس نے صوبہ پنجاب میں مارشل لانافذ کردیا
جس سے حالات اور بگڑ گئے۔ 1920ء میں حکومت نے ایک وائٹ پیپر میں تسلیم کیا کہ
پنجاب میں مارشل لا ’’بڑا سخت‘‘ تھا۔ کئی دیہات پر بم باری کی گئی اور کئی نمبر
داروں کو سرِ عام کوڑے مارے گئے۔ اس صورتِ حال میں سارا پنجاب احتجاجی شعلوں کی لپیٹ
میں آگیا۔ صوبے میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، لہٰذا وہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ
حالات دیکھ کرمحمد علی جناح کو شدید صدمہ ہوا۔
محمد علی
جناح اور گاندھی، بعض امور پر اختلاف رائے کے باوجود، مِل کر کام کررہے تھے، لیکن
اُن میں دُوریاں بڑی تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ گاندھی اُس وقت ہندوستان کی دو اہم سیاسی
تنظیموں کے سرخیل تھے: ایک کانگریس اور دوسری ہوم رول لیگ۔ محمد علی جناح اِن
دونوں تنظیموں سے وابستہ تھے۔ اُن کے ترکِ تعلق کا آغاز 3اکتوبر کو ہوا، جب محمد
علی جناح نے ہوم رول لیگ سے استعفیٰ دے دیا کیوں کہ گاندھی نے محمد علی جناح کے خیالات
سے اتفاق نہ کرتے ہوئے، اُن کے خلاف فیصلہ دیاتھا۔
اِس کے
تھوڑے ہی دنوں بعد ناگپور میں کانگریس کا اجلاس ہوا جس میں گاندھی نے حکومت کے
خلاف ستیہ گرہ کی قرار داد پیش کی۔ مندو بین کی اکثریت نے قرار داد کی حمایت کی لیکن
محمد علی جناح نے قرار داد کی مخالفت کی اور مطالبہ کیا کہ انہیں جذبۂ جمہوریت کی
رو سے سنا جائے۔ اُن کا خیال تھا کہ ستیہ گرہ کے حامی جو دعوے کررہے ہیں، اُن کے
برعکس یہ تحریک تشدد سے مبرّا نہیں رہے گی۔ ٹائمز آف انڈیا لکھتا ہے کہ، ’’مسٹر
جناح چہرے پر اپنی روایتی مسکراہٹ لئے‘‘ اطمینان، پوری خود اعتمادی اور یقینِ
کامِل کے ساتھ اسٹیج پر آئے اور بھرپور دلائل، واضح اور غیر مبہم اسلوبِ بیان کے
ذریعے سوچ میں تبدیلی کی مخالفت کی‘‘۔3 جوں ہی انہوں نے کہا ، ’’ مَیں قرار داد کی
مخالفت کرتا ہوں‘‘، اُن کی آواز ہوٹنگ، شور شرابے اور سیٹیوں میں ڈوب کے رہ گئی۔‘‘4
یہ ترکِ
تعلق کے نقارے پر آخری چوٹ کے مصداق تھی۔ اِس اجلاس کے بعد محمد علی جناح نے کانگریس
سے استعفیٰ دے دیا۔ کانگریس کے ساتھ اُن کی پندرہ برس کی رفاقت انجام کو پہنچ گئی۔
یہ
ہندوستان کی تاریخ کا بڑا متلاطم دَور تھا۔ ایک طرف عوام میں، نوآبادیاتی حکمرانوں
کے خلاف بے اطمینانی بڑھ رہی تھی تو دوسری جانب مختلف مذہبی حلقوں کے مابین تعلقات
ابتر ہوتے چلے جارہے تھے جس کے نتیجے میں فرقہ ورانہ ہنگامے اور بلوے روز کا معمول
بن رہے تھے۔ جولائی1925ء تک برِصغیر کے بڑے شہروں مثلاً دہلی، کلکتہ اور الہ آباد
میں ایسے خونریز ہنگامے ہوچکے تھے جنہوں نے آنے والے کئی برسوں تک ہندوستان کی سیاسی
زندگی کو لپیٹ میں لئے رکھا۔
مارچ1927ء
میں محمد علی جناح نے پہل کرتے ہوئے اُس وقت کے اہم مسلمان رہنمائوں کا ایک اجلاس
دہلی میں بلالیا۔ اِس اجلاس میں متفقہ طور پر ایک قرارداد منظور کی گئی جو بعدازاں
’’دہلی مسلم تجاویز‘‘ کے نام سے معروف ہوئی۔ اِس قرارداد میں ، ملک میں سیاسی
اصلاحات کے نئے منصوبے کے بارے میں مسلمانوں کے نقطۂ نظر سے روشنی ڈالی گئی۔ محمد
علی جناح کی اِس پہل قدمی کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مسلمانوں کی قیادت جو کئی
دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی، یکجا ہوگئی۔ قرار داد کے مندرجات پر، ہندوستان کے مختلف سیاسی
حلقوں کی طرف سے مِلا جُلا ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ کانگریس نے اُس کے جواب میں
نہرو کمیٹی قائم کردی۔ اُسے یہ نام پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد پنڈت موتی لعل
نہرو کے نام پر دیا گیا تھا۔
نہرو کمیٹی
نے جو رپورٹ پیش کی، وہ عمومی طور پر ، دہلی مسلم تجاویز کے خلاف تھی، لہٰذا، مسلم
لیگ نے مارچ1929ء میںمنعقدہ اپنے دہلی اجلاس میںاُس رپورٹ کو مسترد کردیا۔ اِس
موقع پر محمد علی جناح نے اپنے مشہور و معروف 14نکات پیش کئے۔ اُن کی اہلیہ رتن
بائی کے انتقال کو، مسلم لیگ کے اجلاس کے وقت ابھی مہینہ بھر نہ بیتا تھا، تاہم
انہوں نے اپنے ذاتی سوگ پر، ایک سیاسی رہنما کی ذمّہ داریوں کو قربان نہ ہونے دیا۔
اُن کے 14نکات مسلمانوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے بنیادی اقدامات کی حیثیت
رکھتے تھے۔
اُدھر مئی1929ء
میں لندن کے ویسٹ منسٹر ایبی میں ایک سیاسی تبدیلی رونما ہوئی۔ برطانیہ کے عام
انتخابات میں لیبر پارٹی جیت گئی۔ اُس کی حکومت بنی اور ریمزے میکڈونلڈ وزیرِ اعظم
مقررہوئے۔ اکتوبر میں وائسرائے لارڈ اِروِن(Irwin) نے اعلان کیا کہ نئی برطانوی حکومت،
مستقبل میں ہونے والی آئینی اصلاحات کے نفاذ سے قبل ہندوستانی عوام کی رائے لے گی۔
اگلے برسوں میں لندن میں تین گول میز کانفرنسیں ہوئیں۔ پہلی گول میز کانفرنس میں
محمد علی جناح سے کہا گیا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی طرف سے اظہارِ خیال کریں۔
نومبر1930ء میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں محمد علی جناح نے ہندوستان اور برطانیہ
کے سیاسی زعماء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ آپ (
برطانیۂ عظمیٰ) کے ہندوستان سے تجارتی اور سیاسی، ہردو طرح سے بڑے بڑے مفادات
وابستہ ہیں۔ لہٰذا آپ حضرات اِس میں ایک فریق کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور ہندوستان کے
آئندہ آئین میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن… مَیں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات بھی
یہ تسلیم کرلیں کہ ، آپ کے مقابلے میں ہمارے مفادات کہیں زیادہ اہمیّت رکھتے ہیں۔
آپ کے مالی اور تجارتی مفادات ہوں گے، سیاسی مفادات ہوں گے لیکن ہمارے لئے یہ سبھی
کچھ اہمیّت رکھتا ہے۔‘‘5
1930ء میں پہلی گول میز
کانفرنس میں شرکت کے بعد محمد علی جناح نے لندن ہی میں سکونت اختیار کرکے پر یوی
کونسل میں مقدمے لڑنے کا فیصلہ کیا اور ہندوستان میں اپنی سیاسی سرگرمیاں ترک کردیں۔
اُن کی محبوب بیوی کے انتقال نے اُن کے گرد جو دُکھ کے سائے چھوڑے تھے، غالباً وہ
سیاسی چکاچوند سے کچھ دُور رہ کے اپنے دِلی دُکھوں کا مداوا کرنا چاہتے تھے۔ اِس
عرصے میں انہوں نے ساری توجہ وکیل کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی پر مبذول کئے
رکھی۔ پیشہ ورانہ کامیابیوں کی بدولت برطانیہ میں اُن کی زندگی مالی اعتبار سے خاصی
سہل ہوگئی لیکن ہندوستان میں مسلمان، سیاسی منظر پر اُن کی عدم موجودگی، کو بہت زیادہ
محسوس کررہے تھے۔ یہی سبب تھا کہ مسلمان رہنما برطانیہ آتے تو اُن سے ہندوستان
واپسی کی درخواست ضرور کرتے۔ اور آخر کار وہ ، چار برس لندن میں قیام کے بعد، اپریل1934ء
میں ہندوستان لوٹ آئے۔ واپس آکر انہوں نے سیاست کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور دیکھتے
ہی دیکھتے ہندوستان کے مسلمانوں کے واحد ترجمان بن گئے۔
جولائی1935ء
میں برطانوی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ1935- ء کی منظوری دے دی جس کے
تحت1936-37ء میں ہندوستان میں مختلف سطحوں پر قانون ساز اداروں کے انتخابات ہوئے۔ یہی
زمانہ تھا جب مسلم لیگ دھڑے بندیوں کا شکار ہوکر لڑکھڑا رہی تھی، جب کہ دوسری جانب
کانگریس بڑی منظم، فعال اور باصلاحیّت پارٹی کے طور پر کام کررہی تھی۔ انتخابات کے
نتائج پر کسی کو حیرانی نہ ہوئی جب کانگریس گیارہ میں سے پانچ صوبائی اسمبلیوں میں
مطلق اکثریت کے ساتھ اُبھری اور سات صوبوں میں حکومت بنالی۔ مسلم لیگ صرف108مسلم
نشستیں حاصل کر پائی جب کہ مجموعی طور پر ایسی 484 نشستیں تھیں۔
1937ء سے 1939ء کے دوران
کانگریس نے بعض صوبوں میں حکومتیں بنا تو لیں لیکن مسلمان اقلیّت کے لئے وہ کشادہ
دلی اور قوتِ برداشت پیدا نہ کرسکی جو ہندوستان ایسے کثیر القومیّتی اور بو قلموں
ثقافتی ملک کا تقاضا تھیں۔ جن صوبوں میں کانگریس کی وزارتیں بنی تھیں وہاں اور دیگر
علاقوں سے مسلم لیگ ہیڈ کوارٹرز میں، مسلمانوں پر ظلم و تعدی کی شکایتوں کا سیلاب
اُمڈ آیا۔ اِن شکایات پر مسلم لیگ نے راجہ محمد مہدی آف پیر پور کی سربراہی میں ایک
کمیٹی قائم کی تاکہ کانگریسی حکومتوں والے علاقوں میں مسلمانوں کی شکایات کی تحقیق
کی جاسکے۔ ’’ پیر پوررپورٹ‘‘ میں کئی الزامات کی توثیق کی گئی۔ ایک شکایت یہ بھی
سامنے آئی کہ وسطی صوبجات(Central Provinces) میں مقامی تعلیمی بورڈ نے اردو اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر صاحبان
کے نام ایک سرکلر جاری کیا ہے کہ ’’ مہاتما گاندھی کی تصویر کی پوجا کی جائے۔‘‘6
محمد علی
جناح نے اِن ظالمانہ اقدامات کے خلاف احتجاج کیا۔ انہوں نے کانگریس کے صدر سبھاش
بوس کے نام ایک خط میں تجویز پیش کی کہ کانگریس اور مسلم لیگ ، دونوں پارٹیاں مِل
کر اِس مسئلہ کا حل تلاش کریں جو مختلف قومیتوں کے مابین تعلقات میں رکاوٹ پیدا
کررہا ہے۔ لیکن کانگریس یہ بات دل سے تسلیم کرنے کو تیار نہ تھی کہ مسلم لیگ ،
ہندوستان کے مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم تھی۔ بہ ایں وجہ کانگریس نے مذاکرات سے
معذرت کرلی۔ ان ہی دنوں نہرو نے اپنی سوچ کا کھل کے اظہار کردیا کہ ہندوستان میں
دوہی پارٹیاں ہیں۔ ایک کانگریس اور دوسری، برطانیہ۔ اِس پر محمد علی جناح نے اُس میں
اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ تیسری پارٹی مسلمان ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کانگریس کے روّیے
نے مسلمانوں میں یہ احساس جگادیا کہ وہ ایک الگ قومیّت ہیں۔ اور نتیجتاً وہ گروہ
در گروہ مسلم لیگ میں شامِل ہونے لگے۔ محمد علی نے اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
مسلم لیگ کو ملک بھر میں منظم کردیا۔
قراردادِ
پاکستان
اکتوبر1938ء
میں کراچی میں ایک عظیم واقعہ رونما ہوا۔ مسلم لیگ کاایک اجلاس کراچی میں منعقد
ہوا جس کی صدارت محمد علی جناح نے کی ۔اِس اجلاس میں سرعبداللہ ہارون نے ایک قرار
داد پیش کی جس میں ہندوستان میں، پہلی بار، مسلمانوں کے لئے الگ وطن کے قیام کا
مطالبہ کیا گیا۔ اجلاس کی قرار داد نمبر5میں کہا گیا کہ مسلمان ایک ’’الگ قوم‘‘ ہیں۔
اور ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں۔ اِس قرار داد میں کہا گیا:
’’یہ کہ ایک متحدہ
ہندوستان اور متحدہ ہندوستانی قوم کا ارتقا، جس میں ایک جیسی امنگیں اور ایک جیسے
نصب العین ہوں، یہ اِس سبب کی وجہ سے ممکن نہ تھا کہ یہاں ذات پات میں گُندھی ذہنیت
اور اکثریتی قوم کی مسلمان دشمن پالیسی، مزید براں، دونوں قوموں کے درمیان مذہب، زبان،
رسم الخط، ثقافت، سماجی اور معاشرتی رویّے اور زندگی کے بارے میں شدید اختلافات پر
مبنی نقطۂ نظر اور ساتھ ہی ساتھ بعض علاقوں میں نسل پرستی ،کو پیشِ نظر رکھتے
ہوئے، یہ کانفرنس، وسیعِ تر برِصغیر ہندوستان میں پائیدار امن اور بے روک ٹوک
ثقافتی فروغ، معاشی اور سماجی بہتری اور دونوں قوموں، ہندوئوں اور مسلمانوں کے سیاسی
حقِ خودارادیّت کو بنیادی طور پر لازمی قرار دیتی ہے اور آل انڈیا مسلم لیگ سے
سفارش کرتی ہے کہ وہ اس پورے معاملے کا دوبارہ جائزہ لے اور اُس پر نظر ثانی کرے
کہ ہندوستان کے لئے ایسا کون سا آئین مناسب ہونا چاہئے جس کے تحت دونوں قومیں
باعزت اور جائز استحقاق حاصل کرسکیں۔ یہ کانفرنس، آل انڈیا مسلم لیگ سے یہ سفارش
بھی کرتی ہے کہ وہ ایسا منصوبہ بھی تیار کرے جس کے تحت مسلمان مکمل خودمختاری حاصل
کرلیں‘‘1
اس قرار
داد کی اہمیّت یہ تھی کہ مسلم لیگ نے پہلی بار اِس حقیقت کا باضابطہ اعلان کیا تھا
اور توضیح کی تھی کہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان ’’ دو الگ الگ قوموں‘‘ کی حیثیت
سے رہ رہے تھے۔ اور اُس نے مسلمانوں کی خود مختاری کی وکالت کی تھی۔ اِس قرار داد
نے ، حصولِ پاکستان کے حوالے سے مسلم لیگ کے اُس باضابطہ مطمحِ نظر کی راہ ہموار کی
جس کا اعلان سترہ ماہ بعد مارچ 1940ء میں لاہور میں کیا گیا۔
تحریک اور
جدوجہدِ حصولِ پاکستان کے لئے مارچ1940ء میں لاہور کا جلسہ ایک عظیم سنگِ میل کی حیثیت
رکھتا تھا۔ 23مارچ، 1940ء کے جلسے میں مسلم لیگ نے محمد علی جناح کی زیرِ صدارت
قرار دادِ پاکستان منظوری کی ۔ لاہور کے اِس جلسے میں ہندوستان بھر سے مندوبین شریک
ہوئے۔ 22مارچ کو محمد علی جناح نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’ خواتین و حضرات، ہم
پندرہ مہینے بعد آج کے اِس اجلاس میں یکجا ہوئے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کا گزشتہ
اجلاس دسمبر1938ء میں پٹنہ میں ہوا تھا۔ تب سے اب تک بہت سے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔
سب سے پہلے مَیں آپ کو مختصراً یہ بتا نا چاہتا ہوں کہ آل انڈیا مسلم لیگ کو پٹنہ
اجلاس کے بعد کن حالات کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘2
مندوبین کو مسلم لیگ کے تنظیمی کام میں پیش رفت سے آگاہ
کرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا: ’’ آپ کو یاد ہوگا کہ ہم پر ایک فریضہ یہ بھی
عائد کیا گیا تھا اور جو، تاحال مکمل نہیں ہوپایا، یہ تھا کہ سارے ہندوستان میں
مسلم لیگ کو منظم کیا جائے۔ ہم نے گزشتہ پندرہ مہینوں میں اِس شعبے میں بے تحاشا
کام کیا ہے۔ مَیں آپ کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کررہا ہوں کہ ہم نے ہر صوبے میں
صوبائی مسلم لیگ قائم کردی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں کے ضمنی
انتخابات میں ہمارا مقابلہ طاقتور مخالفین سے تھا۔ مَیں مسلمانوں کو مبارکباد دیتا
ہوں کہ انہوں نے ہر آزمائش میں پورے عزم، استقلال اور جذبے کے ساتھ ہمارا ساتھ دیا۔
کوئی ایسا ضمنی انتخاب نہ تھا جس میں ہمارے مخالفین، مسلم لیگی امیدواروں کے
مقابلے میں جیتے ہوں۔ یوپی کونسل، یعنی ایوانِ بالا میں مقابلہ اپنی نوع کا آخری
مقابلہ تھا جس میں مسلم لیگ نے سو فیصد کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ کی تنظیمی پیش
رفت میں ہم نے کیا کچھ کیا، اُس کی تفصیل میں جاکر مَیں آپ لوگوں کو تھکانا نہیں
چاہتا، تاہم، اتنا ضرور کہوں گا کہ ہم تنظیمی اعتبار سے دن دونی رات چوگنی ترقی
کررہے ہیں۔‘‘3
محمد علی
جناح کی زیر ِقیادت مسلم لیگ نے خواتین کو پارٹی معاملات میں برابری کی حیثیت دینے
کی پالیسی پر عمل شروع کردیا۔ انہوں نے اپنے دم بخود سامعین کو بتایا: ’’اس کے
بعد، یاد کیجئے کہ ہم نے پٹنہ اجلاس میں خواتین کی ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔ اس کی
بڑی اہمیت ہے کیوں کہ میری دانست میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم حیات و ممات کی جدوجہد
کے ہر عمل میں خواتین کو شامِل کریں۔ہم نے خواتین کی یہ کمیٹی اس لیے قائم کی تھی
کہ خواتین مسلم لیگ کے کام میں حصّہ لیں۔ اس مرکزی کمیٹی کے مقاصد یہ تھے:(1) وہ
صوبائی اور ضلعی سطح کی مسلم لیگ کے تحت صوبائی اور ضلعی سطح پر خواتین کی ذیلی کمیٹیاں
قائم کریں؛(2) مسلم لیگ کی خواتین اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے؛(3) سارے
ہندوستان کی مسلمان خواتین میں زیادہ سے زیادہ سیاسی شعور بیدار کرنے کے لئے
بھرپور پروپیگنڈے کا کام کیا جائے کیوں کہ اگر ہماری خواتین میں سیاسی شعور پیدا
ہوجائے تو یاد رکھیے کہ آپ کے بچے اِس ضمن میں زیادہ پریشان نہیں ہوں گے؛(4) ایسے
معاملات میں انہیں مشورے دیئے جائیں، اُن کی رہنمائی کی جائے کیوں کہ مسلمان
معاشرے کی ترقی کا زیادہ تر انحصار اُن خواتین ہی پر ہے۔‘‘4
محمد علی
جناح نے اپنی تقریر میں اُن حالات کا تذکرہ بھی کیا جو بعض صوبوں میں 1936-37 ء کے
انتخابات کے نتیجے میں بننے والی کانگریسی حکومتوں کے دوران رونما ہوئے تھے۔ انہوں
نے کہا:’’ 11 جنوری 1939ء سے لے کر اعلانِ جنگ کے وقت تک ہمیں بہت سی مشکلات کا
سامنا کرنا پڑا۔ ہم نے ناگپور کے ودّیا مندر کے معاملے کا سامنا کیا۔ ہم نے
ہندوستان بھر میں واردھا منصوبے کا سامنا کیا۔ ہم نے کانگریس کی حکمرانی والے
صوبوں میں مسلمانوں کے ساتھ برُے برتائو اور اُن پر ظلم و تشدد کے معاملے کا سامنا
کیا۔ ہم نے کچھ ہندوستانی رجواڑوں مثلاً جے پور اور بھائو نگر میں مسلمانوں کے
ساتھ بدسلوکی کے معاملے کا سامنا کیا۔ ہم نے ہندوستان کے چھوٹے سے رجواڑے راجکوٹ میں
اُس اہم معاملے کا سامنا کیا جو کانگریس کے ایسڈ ٹیسٹ (Acid Test) کے نتیجے میں پیدا ہوا کہ اس کی وجہ
سے ایک تہائی ہندوستان متاثر ہوسکتا تھا۔ اس طرح مسلم لیگ نے جنوری 1939ء سے لے کر
اعلانِ جنگ کے وقت تک بہت سے تنازعات کا سامنا کیا۔‘‘5
گورنمنٹ آف
انڈیا ایکٹ- 1935ء پر اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے محمد علی جناح نے اُسی مارچ کے
مہینے کے دوران، لاہور میں اپنے سامعین کو بتایا؛’’ہم نے محسوس کیا کہ گورنمنٹ آف
انڈیا ایکٹ - 1935ء میں جس سینٹرل فیڈرل گورنمنٹ کا خطرناک منصوبہ پیش کیا گیا ہے،
ہم اُسے کبھی بھی قبول نہیں کرسکتے۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نے برطانوی حکومت کو سینٹرل
فیڈرل گورنمنٹ کے منصوبے سے دست کشی پر قائل کرنے کے لئے جو کردار ادا کیا، وہ ہر
لحاظ سے بڑی اہمیّت رکھتا ہے۔ مَیں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ برطانوی حکومت کو
اِس حوالے سے قائل کرنے میں مسلم لیگ نے جو کردار ادا کیا، وہ بلاشبہ کوئی چھوٹا
موٹا کردار نہ تھا۔ آپ جانتے ہیں کہ برطانوی عوام بڑے ضدی ہیں۔ وہ بڑے قدامت پسند
بھی ہیں۔ وہ، اگرچہ بڑے ہوشیار ہیں لیکن معاملات کا ادراک کرنے میں سست رو ہیں۔
جنگ کا اعلان ہوا تو وائسرائے کو فطری طور پر مسلم لیگ کی مدد کی ضرورت محسوس ہوئی۔
تب ہی انہیں احساس ہوا کہ مسلم لیگ بھی ایک قوّت تھی۔ ذرا یاد کیجئے کہ اعلانِ جنگ
سے پہلے، وائسرائے ملاقات کے حوالے سے کسی کو کوئی اہمیّت دیتے تھے تو وہ گاندھی
اور صرف گاندھی تھے۔ انہوں نے کسی اور سے مِلنے کا کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔ مَیں
قانون ساز اسمبلی میں ایک اہم سیاسی پارٹی کا عرصے تک رہنما رہا۔ وہ سیاسی پارٹی، یعنی
قانون ساز اسمبلی میں ،مسلم لیگ سے بڑی پارٹی تھی، جس کا سربراہ ہونے کا مجھے اب
اعزاز حاصل ہے۔ وائسرائے نے مجھ سے ملاقات کا کبھی سوچا ہی نہیں تھا۔‘‘6
محمدعلی
جناح اور گاندھی کے نام وائسرائے کے دعوت ناموں کا پس منظر بتاتے ہوئے انہوں نے
حاضرین سے کہا: ’’گاندھی کے ساتھ ساتھ جب مجھے وائسرائے کا دعوت نامہ مِلا تومَیں
حیران رہ گیا کہ یہ اچانک مجھے اتنی اہمیّت کس وجہ سے حاصل ہوگئی؟پھر مجھے احساس
ہوا کہ مَیں آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر تھا! میرا خیال ہے کہ یہ دعوت نامہ کانگریس
کی ہائی کمان پر بجلی بن کے گرا کیوں کہ ہندوستان کی طرف سے کچھ کہنے یا بولنے کا
کُلّی اختیار جو انہیں حاصل تھا، وہ چیلنج کردیا گیا تھا۔ اور مسٹر گاندھی اور
کانگریس کی ہائی کمان کا روّیہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ابھی تک اُس صدمے سے نہیں
نکل پائے۔ میرا موقف یہ ہے کہ آپ اِس حقیقت کو تسلیم کریں کہ اپنے آپ کو منظم کرنے
کی قدر و اہمیّت کیا ہوتی ہے؟مَیں اس موضوع پر کچھ اور کہنے سے گریز کروں گا۔
تاہم، ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مَیں جو کچھ دیکھ اور سُن رہا ہوں، اُس کی
بنیاد پر مجھے یقین ہے کہ ہندوستان کے مسلمان صرف بیدار ہی نہیں ہوئے بلکہ باشعوربھی
ہوچکے ہیں۔ اور مسلم لیگ اب ایک ایسی مضبوط اور طاقتور تنظیم کی صورت اختیار کرچکی
ہے جسے کوئی، خواہ وہ کوئی بھی ہو، تباہ نہیں کرسکتا۔ شخصیّات آتی جاتی رہیں گی لیکن
مسلم لیگ ہمیشہ قائم و دائم رہے گی۔‘‘7
محمد علی
جناح نے جنگی کوششوں کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے مسلم لیگ کے اجلاس کے شرکاء
کو بتایا: ’’اب ہم اعلانِ جنگ کے بعد کے دور کی طرف آتے ہیں۔ ہماری پوزیشن یہ ہوچکی
ہے کہ ہم نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ لیکن مَیں نہیں جانتا کہ اِس کے کیا نتائج
برآمد ہوں گے۔ تاہم ہمارا موقف یہ ہے۔ ہم، بلا کسی ابہام کے، ہندوستان کی آزادی
چاہتے ہیں۔ لیکن یہ سارے ہندوستان کی آزادی ہونا چاہئے، کسی ایک حصّے کی نہیں، اور
بدتر بات تو یہ کہ کانگریسی طرز کی آزادی اور مسلمانوں اور دوسری اقلیتی قومیتوں کی
غلامی نہ ہو۔ہندوستان کے باسیوں کی حیثیت سے، ہم فطری طور پر بہت سے تجربات کے
حامِل ہیں۔ خاص طور پر، گزشتہ اڑھائی سال کے صوبائی آئین کے تجربات جو ہمیں کانگریس
کی زیرِحکومت صوبوں میں حاصل ہوئے، ہم نے بہت سے سبق سیکھے ہیں۔ لہٰذا، ہم اب ہم
سوجھ بوجھ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور کسی پر بھروسا نہیں کرسکتے۔ میری رائے میں
ہر کسی کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ دوسروں پر حد سے زیادہ بھروسا نہ کیا جائے۔ کبھی
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں پر بھروسا کرلیتے ہیں اور پھر تجربے میں یہ بات
سامنے آتی ہے کہ ہمارے ساتھ تو دھوکا ہوا۔ لہٰذا، یہ ہر کسی کے لئے واضح سبق ہونا
چاہئے کہ اُن لوگوں پر بھروسا نہ کیا جائے جنہوں نے ہمیں دھوکے دیئے۔‘‘8
انہوں نے
طویل تقریر سمیٹتے ہوئے دانش وروں سے اپیل کی، ’’مَیں دانش وروں سے اپیل کرتا ہوں۔
دانش ور دنیا کے ہر ملک میں آزادی کی تحریکوں کا ہر اول رہے ہیں۔ مسلمان دانش ور
اِس ضمن میں کیا سوچ رہے ہیں؟ مَیں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ جب تک آپ اسے اپنے
لہو کا جزو نہیں بنائیں گے، اڑان نہیں بھریں گے اپنے عوام کے لیے، اپنا سب کچھ
قربان نہیں کریں گے، بے لوثی، مستعدی اور خلوص کے ساتھ کام نہیں کریں گے، آپ کبھی
حصولِ مقصد میں کامیاب نہیں ہوپائیں گے۔ لہٰذا، دوستو، مَیں چاہتا ہوں کہ آپ پختہ
ذہن بنائیں، سوچیں، لوگوں کو منظم کریں، اپنی تنظیم کو مستحکم کریں اور سارے
ہندوستان کے مسلمانوں کو یک جان کریں۔‘‘9
23 مارچ، 1940ء کو آل انڈیا
مسلم لیگ کے اِس اجلاس نے متفقہ طور پر قرار دادِ پاکستان منظور کی جس میں کہا گیا
تھا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی منطقوں کو مِلاکر خود مختار ریاستوں کی
شکل دی جائے، جن میں مشمولہ یونٹ خود اختیار اور مقتدر ہوں۔
حصولِ
پاکستان
جس وقت
قرار داد ِپاکستان منظور ہوئی، حکومت ِبرطانیہ کی ساری توجہ دوسری جنگ ِعظیم پر
مبذول تھی جس نے 1939ء سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ اور نتیجتاً
ہندوستان میں ہونے والی سیاسی سرگرمیوں پر توجہ ثانوی حیثیت اختیار کرگئی تھی۔ا
گرچہ گزری صدی کے اُس طوفانی عشرے میں برِصغیر میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیاں
اس کتاب کے احاطہ ٔتحریر میں نہیں آتیں، یہاں صرف وہ اہم نکات مختصراً زیرِ تذکرہ
آئیں گے جن کا تعلق محمد علی جناح سے بنتا ہے۔ اگست 1940ء میں وائسرائے ہند نے
’’اگست پیش کش‘‘کی جس میں،کسی حد تک، مسلم لیگ کے مطالبات شامِل تھے۔ مارچ 1942ء میں
سراسٹیفورڈ کرپِس ہندوستان کا پیچیدہ یا بند گلی میں الجھا سیاسی مسئلہ حل کرنے کی
غرض سے ہندوستان آئے تو انہیں زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ کانگریس کی سیاست اُن
دنوں ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کے نعرے کے گرد گھومتی رہتی تھی، جبکہ محمد علی جناح کی
مسلم لیگ کا برطانیہ سے مطالبہ تھا کہ ’’ہندوستان کو تقسیم کرو اور نکل جائو۔‘‘
جون 1943ء
میں محمد علی جناح کراچی آئے۔ انہوں نے اپنی مادرِ علمی سندھ مدرسۃ الاسلام کا
دورہ کیا اور 21 جون ،1943ء کو وہاں سندھ مدرسہ کالج کی بنیاد رکھی جس کی تفصیل،
قبل ازیں ایک باب میں دی جاچکی ہے۔
محمد علی
جناح اُسی سال یعنی دسمبر 1943ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کے اجلاس کی
صدارت کے لئے کراچی آئے۔ 23 دسمبر 1943ء کو وہ کراچی پہنچے تو اہلیان ِشہر نے اُن
کا والہانہ استقبال کیا۔ اُن کا قافلہ اجلاس گاہ کی طرف یوں روانہ ہوا کہ استقبال
کرنے والوں کا دو میل لمبا جلوس اُن کے جِلَو میں تھا۔
ایک اخبار
نے لکھا:مسلم لیگ کی مجلسِ عاملہ کا اجلاس ہارون آباد میں ہونا تھا۔ اِس اجلاس کی
صدارت کے لئے محمد علی جناح وہاں پہنچے تو یوں محسوس ہوتا تھا گویا کہیں سے کوئی
خفیہ بٹن دبادیا گیا ہواور سارا علاقہ عظیم نو تعمیر شدہ بجلی گھر کی روشنیوں میں
نہا گیا ہو۔ عوامی نعروں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔ اس علاقے کو
گویا ایک نئی زندگی مِل گئی تھی۔ محمد علی جناح شیروانی میں ملبوس تھے۔ حاضرین نے
بھرپور تالیوں کے ساتھ اُن کا استقبال کیا۔ بڑی تقریب چونکہ ہارون آباد میں ہونا
تھی،لہٰذا سارے علاقے میں زندگی سے بھرپور سرگرمیاں دیکھنے میں آرہی تھیں۔ آج کا
بڑا منظر ایک بے مثل اور ازحد پُر شکوہ، تقریباً دو میل لمبا جلوس تھا جو مسٹر
جناح کو لے کر پنڈال میں پہنچا جہاں انہوں نے مسلم لیگ کے جھنڈے کی رسم ِپرچم کشائی
ادا کی۔ راجہ صاحب محمود آباد، عزت مآب سر خواجہ ناظم الدین ا ور دیگر ارکان کمیٹی،
توقع ہے کہ کل کراچی پہنچیں گے۔بنگال سے عزت مآب (مسٹر) تمیز الدین خان اور 30 دیگر
مندوبین پہلے ہی کراچی پہنچ چلے ہیں۔‘‘1
رپورٹ میں
مزید کہا گیا:’’جہاں سے صدارتی جلوس کا آغاز ہوا، وہ جگہ اُس مقام سے تھوڑے ہی
فاصلے پر ہے جہاں مسٹر جناح نے اپنا لڑکپن گزارا تھا۔ یہ مقبولیت اور گرمجوشی کا ایسا
اظہار تھا کہ بڑے بڑے بادشاہ اُس پر رشک کریں۔ شان و شوکت کا یہ ایسا اظہار تھا جو
کراچی نے اِس سے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ساری تقریب گھڑی کی سوئیوں کی مانند
بروقت اور موثر و دل نشیں انداز میں منعقد ہوئی۔ چار میل لمبا سارا راستہ کراچی میں
آباد تمام قومیتوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وہ سارے کے سارے لوگ جو کسی لازمی
ضرورت کے تحت مصروف نہ تھے، اپنے اپنے کام کاج چھوڑ کر یہ ناقابلِ فراموش منظر دیکھنے
کے لیے وہاں موجود تھے۔راستے کے دونوں جانب بلڈنگوں کی بالکنیاں، چھتیں، کٹہرے،
غرض ہر وہ جگہ جہاں کھڑا ہوا جاسکتا تھا، استقبال کرنے والے لوگوں سے بھرے ہوئے
تھے۔ اس کے علاوہ راستے کے دونوں جانب استقبال کرنے والوں کی پانچ پانچ، چھ چھ
قطاریں تھیں۔ گویا وہ ایک کے بعد ایک قطار میں کھڑے تھے۔ مجموعی طور پر دو لاکھ سے
زائد افراد استقبالیہ ہجوم میں شامِل تھے۔ خاکستری وردیوں میں مسلم نیشنل گارڈز کے
چاک و چوبند دستوں پر نظریں جم جاتی تھیں۔ اُن محافظوں کی تعداد لگ بھگ دو ہزار تھی
اور وہ ہندوستان کے قریب قریب ہر صوبے سے آئے تھے۔ اُن کے ساتھ بینڈ اور بیگ پائپ (Bagpipe) تھے۔ اس کے علاوہ سو سے زائد کاروں
کا ایک بیڑا تھا جن میں مسلم لیگ کے رہنما سوار تھے۔ سندھ، پنجاب اور شمال مغربی
سرحدی صوبے کے وزرائے اعلیٰ بھی کار نشیں تھے۔‘‘2
اخبار مزید
لکھتا ہے:’’مسٹر جناح کے دائیں بائیں دو خصوصی محافظ نواب صدیق علی خاں اور سیّد
سرور شاہ گیلانی تھے۔ بگھی میں مسٹر جناح کے ساتھ استقبالیہ کمیٹی کے جنرل سیکریٹری
مسٹر یوسف عبداللہ ہارون، اور استقبالیہ کمیٹی کے چیئرمین مسٹر جی ایم سیّد بیٹھے
تھے۔ جلوس جونہی کہیں رُکتا، استقبالیہ ہجوم نعرے بازی شروع کردیتا اور مسٹر جناح
ہاتھ اور سر ہلا ہلا کر اُن کے استقبالیہ نعروں کا جواب دیتے۔ ساڑھے سات بجے شام
جلوس، اجلاس گاہ پہنچا اور مسٹر جناح نے صدر دروازے پر مسلم لیگ کا پرچم لہرایا۔
اِس موقع پر 31 گولوں کی سلامی بھی دی گئی۔ مسٹر جناح نے روسٹرم سے، حد ِنگاہ تک
پھیلے استقبالی ہجوم سے خطاب کیا اور شاہانہ استقبال پر اہلیانِ کراچی کا شکریہ
ادا کیا۔‘‘3
برِصغیر کے
سیاسی مستقبل کے بارے میں کسی متفقہ فیصلے پر پہنچنے کے لئے ستمبر 1944ء تک، محمد
علی جناح اور گاندھی کے درمیان متعدد ملاقاتیں ہوئیں لیکن یہ ملاقاتیں کچھ زیادہ
بار آور ثابت نہ ہوسکیں۔ اِن ملاقاتوں کے اختتام پر محمد علی جناح نے ایک بیان جاری
کیا جس میں انہوں نے کہا کہ،’’مَیں پُر یقین ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں، بلکہ باقی
ہندوستان کی بہبود اِسی میں ہے کہ ’قرار دادِ لاہور ‘کی تجویز کے مطابق ہندوستان
کا بٹوارا کردیا جائے۔‘‘
دونوں
رہنما کسی سمجھوتے پر پہنچنے میں ناکام ہوگئے تو حکومتِ ہند نے جون 1945ء میں ایک
نئی تجویز پیش کی جسے ویول پلان (Wevell Plan) کہا
جاتا ہے۔ ہندوئوں اور مسلمانوں کے نمائندوں کا ایک اجلاس شملہ میں بلایا گیا لیکن یہ
کوشش بھی کامیاب نہ ہوسکی۔
پھر دوسری
عالمی جنگ اختتام کو پہنچی اور لیبر پارٹی کی نئی حکومت نے جس کے وزیرِاعظم کلیمنٹ
اٹیلی تھے، ہندوستان میں انتخابات کا حکم جاری کردیا۔ یہ انتخابات دسمبر 1945ء میں
ہوئے۔ اِن انتخابات میں مسلم لیگ کا واحد نعرہ ’’پاکستان‘‘ تھا اور اِن انتخابات میں
مسلم لیگ نے مرکزی قانون ساز اسمبلی میں ساری نشستیں جیت لیں۔ اُسے مسلمانوں کے 87
فیصد ووٹ مِلے۔ یہ محمد علی جناح کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ مارچ 1946ء میں کیبنٹ
مشن جو برطانوی کابینہ کے تین وزراء، پیتھک لارنس، اسٹیفورڈ کرپِس اور اے وی الیکزینڈر
پر مشتمل تھا، برِصغیر کے مستقبل کے بارے میں مذاکرات کے لئے آیا۔
محمد علی
جناح نے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ ہندوستان کے مسلمان، مطالبۂ قیام ِپاکستان پر اُن
کے ساتھ کھڑے ہیں، 9 اپریل 1946ء کو مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام منتخب
مسلمان نمائندوں کا اجلاس طلب کرلیا۔ اِس کانفرنس نے اتفاق رائے سے یہ قرار داد
منظور کی کہ وہ سب نظریۂ پاکستان کی حمایت کرتے ہیں۔ مشن نے شملہ میں محمد علی
جناح اور کانگریسی رہنمائوں سے ملاقات کی لیکن کسی نتیجے پر پہنچنے میں ناکام رہا۔
اِس کے بعد محمد علی جناح نے مسلم لیگ کونسل کا ایک اجلاس بلایا جس نے 16 اگست
1946ء کو یومِ راست اقدام منانے کا فیصلہ دے دیا۔
ہندوستان میں
امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال پر محمد علی جناح پریشان تھے۔ فرقہ وارانہ
بلوے اور لڑائی جھگڑے ہرگزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے جارہے تھے اور اُن میں
اضافہ بھی ہوتا جارہا تھا۔ حکومتِ برطانیہ نے محمد علی جناح اور ہندوستان کی دیگر
سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں کو مذاکرات کے لئے لندن مدعو کیا۔ لہٰذا محمد علی جناح،
لیاقت علی خان، جواہر لعل نہرو اور بلدیو سنگھ دسمبر 1946ء میں برطانیہ پہنچے۔
ہندوستان میں صورتِ حال کا کوئی حل تلاش کرنے کے سلسلے میں برطانوی وزیرِخارجہ سے
اُن کے مذاکرات ہوئے لیکن تنازعے کا حل تلاش کرنے میں ناکامی ہوئی۔
اِسی پس
منظر میں برطانیہ کے وزیرِاعظم اٹیلی نے 20 فروری 1947ء کو برطانوی دارالعوام میں
اعلان کردیا کہ اُن کی حکومت نے اگلے برس ہندوستان میں اقتدار ہندوستانیوں کو
منتقل کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا:مَلک معظم کی حکومت ہندوستان کے
تمام فریقوں کے منظور شدہ آئین کے تحت مقررکردہ حکام کو اختیارات منتقل کرنا چاہتی
ہے… لیکن بدقسمتی سے، اِس وقت وہاں ایسے آئین کے وجود میں آنے کے امکانات موجود نہیں
ہیں… مَلک معظم کی حکومت یہ بات واضح کرنا چاہتی ہے کہ اِس ضمن میں اُس کا ارادہ
بالکل قطعی ہے… وہ اِس بات کی خواہاں ہے کہ کسی ایسی تاریخ کو ذمّہ دار ہندوستانیوں
کو اختیارات منتقل کردے جو جون 1948ء کے بعد کی نہ ہو۔ ‘‘4
برطانوی
ہند کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کی غرض سے لارڈمائونٹ بیٹن کو نیا وائسرائے
بناکر ہندوستان بھیج دیا گیا اور انہوں نے مارچ 1947ء کو اپنا عہدہ سنبھال لیا۔
انہوں نے محمد علی جناح اور گاندھی کے ساتھ مشاورت کی اور برطانیہ واپس چلے گئے
تاکہ حکومتِ برطانیہ کو ہندوستان کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال سے آگاہ کرسکیں۔
وہاں برطانیہ نے ہندوستان کے لئے منصوبے کو آخری شکل دی اور وائسرائے نے 31 مئی کو
واپس آکر فوری طور پر اِس منصوبے کو عملی شکل دینے کے لئے کام کاآغاز کردیا۔ انہوں
نے لندن میں طے ہونے والے منصوبے پر بڑی سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیا۔ اُسے 3
جون 1947ء منصوبہ کہا جاتا ہے۔
محمد علی
جناح کو دہلی ریڈیو اسٹیشن پر مدعوکیا گیا جہاں انہوں نے نئے منصوبے کے بارے میں
اپنی پارٹی کا نقطۂ نظر واضح کیا۔ ریڈیو کے نشریئے کے بعد انہوں نے تقریر کے متن
سے ہٹ کر ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ بلند کیا۔ باقی تو سب ایک رسمی سی کارروائی
تھی۔ انتقالِ اقتدار کے لئے 15 اگست 1947ء کی تاریخ مقرر کی گئی۔ مسلم لیگ نے ایک
قرار داد کے ذریعے، متفقہ طور پر قائداعظم محمد علی جناح سے درخواست کی کہ وہ نئی
مملکت کے اولین سربراہ کا عہدہ قبول کریں۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنیں۔ اُدھر
کانگریس نے یہ عہدہ لارڈ مائونٹ بیٹن کی جھولی میں ڈال دیا۔
برطانوی
پارلیمنٹ میں 4 جولائی کو آزادیٔ ہند کا بل پیش کیا گیا، جو اتفاق سے، امریکا کا یومِ
آزادی بھی تھا۔ 15 جولائی کو یہ بل منظور ہوا اور 18 جولائی کو اس پر شاہی مہر ثبت
ہوگئی۔ محمد علی جناح نے 5 اگست کو لارڈ مائونٹ بیٹن سے ملاقات کی اور رسمی طور پر
انتقالِ اقتدار سے ایک ہفتہ قبل 7 اگست کو کراچی کے لئے روانہ ہوگئے۔ اِن اچانک
تبدیلیوں کے نتیجے میں ہندوستان بد ترین فرقہ وارانہ اور نسلی بلووں اور پُر تشدد
ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا۔ ہزاروں افراد کو موت کی نیند سلادیا گیا، بسا اوقات تو یہ
بھی علم نہ ہوپاتا کہ انہیں کیوں قتل کیا جارہا تھا۔ محمد علی جناح اِس دیوانگی
اور پاگل پن پر بڑے مضطرب ہوئے۔ محمد علی جناح کے ایک قریبی ساتھی سیّد شمس الحسن
نے محمد علی جناح کے دُکھ اور اذیت کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’7 اگست کو قائدِ اعظم محمد
علی جناح دہلی سے بذریعہ طیارہ کراچی روانگی کے لئے تیاری کررہے تھے کہ مجھے
10۔اورنگزیب روڈ سے یہ پیغام مِلا کہ مَیں فوری طور پر اُن سے مِلوں۔‘‘
’’اُن کی رہائش گاہ پر
پہنچتے ہی خورشید نے مجھے بتایا کہ قائدِاعظم اپنی اسٹڈی میں میرا انتظار کررہے
تھے۔ مَیں فوری طور پر وہاں پہنچا۔ قائد سفید کرتے پاجامے میں ملبوس ایک آرام کرسی
پر بیٹھے کچھ اخبارات کے مطالعے میں ڈوبے ہوئے تھے۔ مجھے کمرے میں داخل ہوتے دیکھ
کر انہوں نے اخبارات ایک طرف رکھے اور اپنے مخصوص انداز میں مونوکل ہٹاتے ہوئے مجھ
سے شہر کی صورتِ حال کے بارے میں استفسار کیا۔ مَیں نے انہیں بتایا کہ شہر میں
بدترین نوعیت کی مذہبی کشیدگی پھیلی ہوئی ہے۔ مَیں نے انہیں مسلمانوں کے اُن خدشات
سے بھی آگاہ کیا کہ اُن کے اجتماعی قتلِ عام کا ایک منظم منصوبہ بن چکا ہے۔
’’قائد اِس اطلاع پر شدید
تشویش میں مبتلا ہوگئے اور مشرقی پنجاب میں ہندوئوں کی بہیمانہ کارروائیوں کا ذِکر
کرنے لگے کہ کس طرح وہاں مسلمانوں کا منظم قتلِ عام ہورہا ہے اور باوجودیکہ لارڈ
مائونٹ بیٹن اور پنڈت جواہر لعل نہرو نے حالیہ بات چیت میں انہیں یقین دہانی کرائی
تھی کہ فرقہ ورانہ قتل و غارت گری نہیں ہوگی، مسلمانوں کا دانستہ اور بلا روک ٹوک
قتلِ عام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے اُن پابندیوں کے تسلسل کا بھی ذِکر کیا جو دہلی کی
حکومت نے جولائی 1947ء میں ڈان اخبار پر عائد کی تھیں۔ اُن پابندیوں کے تحت ڈان
اخبار سے کہا گیا تھا کہ وہ ہندو مسلم فسادات کے بارے میں تفصیلی رپورٹیں شائع نہ
کرے۔
’’مَیں نے قائد کو کبھی
اتنا دُکھی اور خفگی میں نہ دیکھا تھا۔ مَیں نے یہ کہہ کر انہیں تسلی دینے کی کوشش
کی کہ اگرچہ مسلمان بدترین تشدد کا شکار ہیں اور اُن کے ساتھ غیر انسانی برتائو
روا رکھا جارہا ہے، وہ بڑی جواں مردی کے ساتھ ہندوئوں کے مظالم کا سامنا کررہے ہیں
اور مذہب کی روشنی میں یہ سوچتے ہیں کہ وہ اپنے نوزائیدہ مادرِ وطن کی خاطر ساری
قربانیاں دے رہے ہیں۔‘‘5
لارڈ
مائونٹ بیٹن 14 اگست کو کراچی آئے اور باضابطہ طور پر محمد علی جناح کو مملکتِ
پاکستان کے نئے گورنر جنرل کی حیثیت سے اقتدار منتقل کیا۔ یہ دن اُس خواب کی تعبیر
تھا جو محمد علی جناح اور برِصغیر کے مسلمانوں نے ایک ساتھ دیکھا تھا۔ محمد علی
جناح کو اب تک جو بہترین خراجِ عقیدت پیش کیا گیا وہ اسٹینلے وولپرٹ کے الفاظ میں
ہے۔ اسٹینلے وولپرٹ لکھتے ہیں : ’’کچھ افراد ہی ایسے گزرے ہوں گے جنہوں نے قابلِ
ذِکر حد تک تاریخ کے دھارے کا رخ موڑا۔ اُن سے بھی کم افراد ایسے ہوں گے جنہوں نے
دنیا کا نقشہ بدل کے رکھ دیا اور بمشکل ہی کسی فرد کو یہ اعزاز بخشا جاسکتا ہے جس
نے قومیّت کی بنیاد پر ریاست تخلیق کی ہو۔ محمد علی جناح نے یہ تینوں کام بیک وقت
کر دکھائے۔ پاکستان کے عظیم رہنما (قائدِ اعظم) اور اس کے پہلے گورنر جنرل محمد علی
جناح حقیقتاً ایسی ہی شخصیّت تھے جنہوں نے صرف اور صرف اپنے غیر متزلزل عزم و
ارادے کی بدولت، اِس خطۂ زمین پر ایک ریاست تخلیق کی۔‘‘6
نوزائیدہ ریاست
کے خدو خال
پاکستان کی
اوّلین دستور ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 11 اگست کو کراچی میں ہوا۔ اسمبلی نے قائدِ
اعظم محمد علی جناح کو صدر اور نوابزادہ لیاقت علی خان کو وزیرِاعظم منتخب کیا۔
اسمبلی میں ایک قرار داد بھی پیش کی گئی جس میں محمد علی جناح کو باضابطہ طور پر
قائدِ اعظم کا خطاب دیا گیا۔ اِسی موقع پر قائدِ اعظم محمد علی جناح نے وہ شہرۂ
آفاق تقریر کی جس میں خود اُن کی تخلیق کردہ ریاست کے خدوخال واضح کیے گئے تھے۔
اُن کا تفصیلی خطاب متعدد کتابوں میں موجود ہے جس کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہیں۔
تاہم، اس تقریر کے اہم نکات یہاں پیش کیے جارہے ہیں:
انہوں نے
سب سے پہلے تو اسمبلی کا شکریہ ادا کیا کہ انہیں صدر منتخب کیا گیا۔ پھر انہوں نے
پاکستان میں دستور ساز اسمبلی کے آئندہ کردار کی توجیہہ کی: ’’دستور ساز اسمبلی کو
دواساسی کردار ادا کرنے ہوں گے۔ پہلا، بڑا کٹھن اور ذمّہ دارانہ کردار یہ ہے کہ وہ
پاکستان کا آئندہ آئین تشکیل دے گی اور دوسرا کردار یہ کہ وہ کُلّی طور پر خود اختیار
ادارے کی حیثیت سے پاکستان کی وفاقی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔ ہمیں اس ضمن میں اپنی
سی سعی کرنا ہوگی…‘‘
انہوں نے
اسمبلی کو یاد دلایا کہ وہ جس حکومت کو وجود میں لارہی ہے، اُس حکومت کے لئے اُسے
فرائض اور ذمّہ داریوں کا تعیّن بھی کرنا ہوگا: ’’آپ بلاشبہ، مجھ سے اتفاق کریں گے
کہ حکومت کا پہلا فریضہ امن و امان قائم رکھنا ہے تاکہ ریاست اپنے شہریوں کے جان و
مال اور مذہبی عقائد کا کُلّی طور پر تحفظ کرسکے۔‘‘اُن کی ترجیحی فہرست میں حکومت
کا دوسرا فریضہ یہ تھا کہ وہ رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کی روک تھام کرے:
’’ہندوستان سے چمٹی ہوئی بڑی بڑی لعنتوں میں ایک لعنت رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔
صورتِ حال واقعتاً ایسی ہی ہے۔ ہمیں اِس لعنت سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔ اور
مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلے میں ممکنہ طور پر جلد از جلد مناسب اقدامات کریں گے۔‘‘
حکومت کے
لئے چور بازاری ایک اور لعنت ہے جس کا سدِّباب ضروری ہے:’’چور بازاری ایک اور لعنت
ہے… مَیں جانتا ہوں کہ چور بازاری کرنے والوں کو اکثر و بیشتر پکڑا جاتا ہے اور
انہیں سزائیں بھی دی جاتی ہیں۔ عدالتیں انہیں سزائیں سناتی ہیں یا کبھی کبھی صرف
جرمانہ کردیا جاتا ہے۔ اب آپ کو اِس عفریت سے نمٹنا ہے جو معاشرے کے خلاف بہت بڑا
جرم بن چکا ہے۔ ہمارے اِن مایوس کُن حالات میں، جب ہم خوراک کی قلت کا مسلسل سامنا
کررہے ہوں… کوئی شہری ایسے میں چور بازاری کرتا ہے تو وہ، میرے خیال میں، بڑے سے
بڑے اور گھنائونے جرم سے بھی بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ اِن چور بازاری کرنے والوں
کو سخت ترین سزائیں دی جانی چاہئیں کیونکہ وہ محاسبے کے پورے نظام کو خطرے میں ڈال
دیتے ہیں۔‘‘
محمد علی
جناح کی ساری زندگی اہلیّت کا پرچم بلند رکھنے اور ہر قسم کی جانبداری اور اقربا
پروری کے خلاف لڑنے سے عبارت رہی۔ اِسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے نئی دستور ساز
اسمبلی کو اُس روز نصیحت کی:’’اقربا پروری اور رشوت ستانی جیسی بُرائی… ہمیں ورثے
میں مِلی ہے۔ ہمیں چاہئے کہ بے دردی کے ساتھ اِس بُرائی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکیں۔مَیں
یہ بات واضح کردینا چاہتا ہوں کہ مَیں کسی بھی قسم کی اقربا پروری، رشوت ستانی کو
برداشت نہیں کروں گا اور نہ یہ برداشت کروں گا کہ کوئی براہِ راست یا بالواسطہ طور
پر اثر و رسوخ سے کام لیتے ہوئے مجھے متاثر کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
اُن دِنوں
معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو نظریۂ قیامِ پاکستان کے خلاف تھے۔ محمد علی
جناح نے اس موقع پر اُس حلقے کی بد گمانیاں رفع کیں اور صورتِ حال بھی واضح کی:’’مَیں
جانتا ہوں کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ہندوستان کے بٹوارے اور پنجاب اور بنگال کی تقسیم
کے حامی نہیں تھے۔ اِس کی مخالفت میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے لیکن اب جب کہ سب کچھ
ہوچکا اور اُسے قبول کیا جاچکا ہے، ہر شخص کا فرض بنتا ہے کہ وہ پوری وفاداری کے
ساتھ اُسے قبول کرے اور معاہدے کی رو سے راست بازی کے ساتھ اِس پر عمل کرے۔ کیوں
کہ یہ معاہدہ حتمی ہے۔ اِس کی پابندی سب پر لازم ہے۔ لیکن آپ حضرات، جیسے کہ مَیں
کہہ چکا ہوں، یاد رکھیں کہ یہ انقلاب جو آگیا، اِس کی پہلے کبھی کوئی مثال نہیں
مِلتی۔‘‘
انہوں نے
تقریر جاری رکھی:’’ لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ ہوا، کیا اُس کے برعکس کچھ کرنا
ممکن یا قابلِ عمل تھا… بٹوارا تو ناگزیر تھا۔ ہندوستان ہو یا پاکستان، دونوں جانب
ایسے لوگ موجود تھے جو اِس سے متفق نہیں تھے۔ اُسے پسند نہیں کرتے تھے۔ لیکن میری
رائے یہ ہے کہ اس کے بِنا کوئی چارہ نہ تھا۔ کوئی اور حل نہ تھا۔ اور مجھے یقین ہے
کہ آنے والے وقتوں میں جو تاریخ لکھی جائے گی وہ اپنا فیصلہ اِس کے حق میں دے گی۔
مزید برآں، عملی تجربات کی روشنی میں بھی یہ ثابت ہوگا کہ یہ ہی مسئلے کا واحد حل
تھا… متحدہ ہندوستان کا کوئی بھی تصوّر قابلِ عمل نہیں ہوسکتا تھا۔ اور میری پھر یہ
رائے ہے کہ یہ فیصلہ ہمیں بدترین بربادی کی طرف دھکیل دیتا۔ ممکن ہے یہ فیصلہ درست
ہو، ممکن ہے غلط ہو۔ اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔‘‘
محمد علی
جناح نے پاکستان کی آئندہ راہِ عمل کے بارے میں رہنما اصولوں کا تعیّن بھی کیا۔
انہوں نے کہا: ’’اب ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اگر ہم اِس عظیم ریاستِ پاکستان کو خوش
حال اور پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں عوام، خصوصاً عام اور غریب افراد کی
فلاح وبہبود پر توجہ دینا ہوگی۔ اگر آپ لوگ ماضی کو فراموش کرکے، لڑائی بھڑائی
چھوڑ کر، عداوتوں کو دفن کرکے مِل جُل کر باہمی تعاون سے کام کریں گے تو یقینا کامیابی
آپ کے قدم چومے گی۔ اگر آپ ماضی کو تبدیل کردیں۔ ایک جذبے کے ساتھ اُن لوگوں کے
ساتھ برابری، استحقاق اور اخلاقی پابندیوں کی بنیادوں پر مِل جُل کر کام کریں۔ماضی
میں اُن افراد کے تعلقات آپ سے کیسے بھی رہے ہوں، وہ رنگ، نسل، ذات، مسلک اور عقیدے
کے اعتبار سے کچھ بھی ہوں۔ وہ اوّل، دوم اور آخر اِسی مملکت کے شہری ہیں تو آپ کی
ترقی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی۔‘‘
انہوں نے
اس تاریخ ساز موقع پر اپنی تقریر کے دوران، پاکستان میں آباد اقلیتی قومیتوں کے
کردار اور اُن کے حقوق پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا: آپ ریاستِپاکستان میں
آزاد ہیں۔ آپ کو اس ریاستِ پاکستان میں اپنے مندروں میں جانے کی آزادی ہے، آپ کو
اپنی مسجدوں یا اپنی کسی بھی دوسری عبادت گاہوں میں جانے کی آزادی ہے۔ آپ کسی بھی
مذہب، ذات یا مسلک سے تعلق رکھتے ہوں… اس کامملکت کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں…
ہم اِس دور میں آغاز کررہے ہیں جب فرقوں یا طبقوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں، کوئی
تخصیص نہیں، عقائد یا ذات کی بنیادوں پر کوئی امتیاز نہیں۔ ہم اس بنیادی اصول کی
روشنی میں ابتدا کررہے ہیں کہ ہم سب اِس ریاستِ پاکستان کے شہری اور برابری کی سطح
کے حامِل شہری ہیں۔ برطانیہ کے عوام کو بھی وقت کے ساتھ ساتھ واقعاتی حقیقتوں کا
سامنا کرنا پڑا تھا اور حکومت کی عائد کردہ ذمّہ داریاں اور بار اُٹھانے پڑے تھے…
آج آپ کہہ سکتے ہیں کہ انصاف کی رو سے وہاں کوئی رومن کیتھولک یا پروٹسٹنٹ نہیں،
جو کچھ بھی ہے وہ یہ ہے کہ ہر فرد شہری ہے، برابری کا حامِل برطانوی شہری … سب
ارکانِ قوم ہیں۔‘‘
محمد علی
جناح نے طلبا سے کیا توقعات وابستہ کررکھی تھیں اور وہ انہیں کیا کیا مشورے دیتے
تھے، یہاں ہم اِس موضوع پر بھی روشنی ڈالیں گے۔ 1944ء کا آغاز تھا کہ محمد علی
جناح کو ضلع بمبئی کی مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن نے مدعو کیا اور انہوں نے یکم فروری
1944ء کو اپنے جواں سال مقلّدین سے خطاب کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ وہ اپنے اپنے علمی
شعبوں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ
چار ایسے ستون ہیں جن پر پاکستان کی بنیادیں استوار ہوں گی: تعلیم، معیشت، معاشرہ
اور سیاست۔ انہوں نے اوّل الذّکر تین ستونوں کا ترجیحاً ذِکر کیا۔ ڈیلی اسٹارآف
انڈیا نے اپنی 2 فروری 1944ء کی اشاعت میں اِس کا تذکرہ یوں کیا:
’’…انہوں نے مسلمان
نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ اُن ستونوں کی تعمیر میں اپنی سی کوششیں کریں جن پر
پاکستان کی بنیادیں استوار ہوں گی۔ یہ ستون تعلیم، معیشت، معاشرہ اور سیاست ہیں۔
اور پاکستان کی اساس رکھنے میں اوّل الذّکر تین ستونوں کو ترجیح حاصل ہے۔ اِن کے
بعد ہی سیاسی مسئلہ حل کیا جاسکے گا۔ مسلمان نوجوانوں کو آئندہ فریضے کی ادائیگی
کے لئے سخت محنت، جفا کشی اور استقلال کو کلید بنانا ہوگا۔ انہوں نے یہ بات زور دے
کر کہی کہ اگر ہم کچھ بھی نہیں کریں گے تو کچھ بھی حاصل نہ کرپائیں گے… انہوں نے
طلبا کو نصیحت کی کہ وہ نہ صرف اِس بات میں گہری دلچسپی لیں کہ مسلمانوں کے ساتھ کیا
ہورہا ہے بلکہ اِس بات کا بھی بہ نظرِ غائر جائزہ لیں کہ سارے ہندوستان اور ساری
دنیا میں کیا کیا اور کیسے کیسے واقعات رونما ہورہے ہیں۔
’’انہوں نے اِس بات پر
اظہارِ مسرت کیا کہ فیڈریشن نے ایک لائبریری قائم کی ہے۔ تاہم ، طلبا کو خبردار کیا
کہ تعلیم حاصل کرنے کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ کتابی کیڑے بن کے رہ جائیں اور محض
رَٹّا لگا کر امتحان میں کامیابی حاصل کرلیں۔ انہیں عمومی علم لازماًحاصل کرنا چاہیے۔
مسٹر جناح نے سوال کیا کہ فیڈریشن نے اب تک کیا کچھ کیا ہے اور مسلمانوں کی ترقی
کے لئے اُن کی کوششیں کیا رہی ہیں؟ انہوں نے طلبا پر زور دیا کہ وہ ایسا ٹھوس کام
کریں جو مسلمانوں کی معاشرتی، سماجی، تعلیمی اور معاشی شعبوں میں ترقی کے لیے بار
آور ثابت ہو۔ مسلم لیگ کا حوالہ دیتے ہوئے مسٹر جناح نے بتایا کہ مسلم لیگ کے
ارکان کی تعداد دسیوں لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور دسیوں لاکھ مسلمان ایسے ہیںجو تکنیکی
اعتبار سے، گو، مسلم لیگ میں شامِل نہیں لیکن اُس کے ساتھ قدم سے قدم مِلا کر کھڑے
ہیں۔ اُن کے سامنے ایک وسیع میدانِ جُہد ہے۔ انہوں نے محنتِ شاقہ اور عزم بالجزم
کے وسیلے سے مسلمانوں میں ایک ہی مقصد کے حصول کے لیے اتحاد پیدا کیا ہے۔ اب اُن
کا کام یہ ہے کہ وہ عمل کے لیے اتحاد پیدا کریں۔‘‘1
سماجی اور
معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہوئے محمد علی جناح نے اپنے
جواں سال سامعین کو بتایا کہ، ’’تعلیمی اعتبار سے مسلمانوں کی حالت مایوسی کی حد
تک بدتر ہے۔ معاشی لحاظ سے وہ ابتری کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوئی قوم اگر
معاشی لحاظ سے دوسری قوم کی دست نگر ہو تو وہ کامیابی کے ساتھ جدِوجُہد نہیں کرسکتی۔
یہاں تک کہ کوئی آزاد قوم بھی اگر معاشی اعتبار سے کمزور ہوتو حالات اُس کے لئے
ناموافق ہوجاتے ہیں۔ معاشرتی اعتبار سے ترقی ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور
مسلمان جب یہ تین ستون تعمیر کرلیں گے تو وہ اتنے طاقتور ہوجائیں گے کہ سیاست کا مینار
کسی دشواری کے بغیر تعمیر کرلیں۔ محنتِ شاقہ اور جفا کشی بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
اِن کے سبب افراد ہی کو نہیں بلکہ ساری قوم کو فائدہ پہنچتا ہے۔ کوئی قوم ایسی نہیں
جس نے جدِوجُہد کئے بغیر کچھ حاصل کیا ہو۔‘‘2
مطالبۂ
پاکستان کی تشریح کرتے ہوئے محمد علی جناح نے کہا:’’مسلمانوں کی طرف سے حصولِ
پاکستان کے مطالبے کا مطلب اِس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر قوم کا اپنا وطن ہونا چاہئے۔
ہندو اس مطالبے کا مطلب آسانی سے سمجھ سکتے ہیں، کیوں کہ اُن کے ہاں یہ ریِت ہے کہ
جب عدم اتفاق پیدا ہوتا ہے تو وہ مشترکہ کنبے کی ملکیت جائیداد کے بٹوارے پر اُتر
آتے ہیں۔ ہندوئوں نے اُن کی مخالفت کی کیوں کہ وہ اِس اصول کے خلاف تھے کہ سارا
ہندوستان، ہندوئوں کی ملکیت ہے۔ اور یہ کہ اُس پر ہندوئوں کی حکومت ہونی چاہیے۔
محمد علی جناح یہ جانتے تھے کہ ہندوئوں کی یہ کوشش کامیاب نہیں ہوگی۔ اور جہاں تک
مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ ہندوستان کے بٹوارے سے کم کسی بات پر مطمئن ہونے کو تیار
نہ تھے۔‘‘3
سفرِ آخرت
برِصغیر کے
مسلمانوں کے لئے جداگانہ وطن، پاکستان کے قیام کی خوشی پر، غم و اندوہ کی گھٹائوں
نے اندھیارا کردیا۔ اور یہ اندھیارا تھا اُس بہیمانہ قتل و غارت گری کا جو سارے
برِ صغیر میں مذہب کے نام پر کی گئی۔ یہ کہہ لیجئے کہ مذہب کے نام پر انسانی جانوں
کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی۔ محمد علی جناح پر ہر جانب سے شدید دبائو تھا۔ پہلا
اور سب سے بڑا دبائو تو یہ تھا کہ ایک نوزائیدہ مملکت میں کاروبارِ حکومت چلانے کے
لئے کارپرداز مہیا کئے جائیں جن کا، کم و بیش، وجود تک نہ تھا۔ یہ کارپردازوں کو
عدم سے ہستی میں لانے والی بات تھی۔ اس کے بعد مسلمان مہاجرین کے طویل اور لامتناہی
کاررواں تھے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے آرہے تھے اور جنہیں سر چھپانے کی جگہیں،
خوراک اور زندگی کی دیگر بنیادی ضروریات مہیا کرنا تھیں۔ مملکت کا خزانہ، قریب قریب،
نہ ہونے کے برابر تھا۔ اس پر مستزاد اور سب سے بدتر کیفیت یہ کہ ہندوستان کے ساتھ
ریاستی سطح پر متعدد تنازعات نے سر اُٹھا لیا تھا۔ اِن تنازعات میں، دونوں ملکوں
کے درمیان وسائل اور اثاثوں کی تقسیم، اور خود مختار ریاستوں اور رجواڑوں کے ایک یا
دوسرے ملک کے ساتھ الحاق، شامِل تھے۔ تاہم، محمد علی جناح اِن ساری آزمائشوں اور
اِدبار کا سامنا کرگزرے اور کامیابی کے ساتھ اُن سے نکل آئے کیوں کہ انہیں پاکستان
کے عوام کا اعتبار اور حمایت حاصل تھے۔
لیکن اُن
معاملات سے نبرد آزما ہونا اتنا آسان و سہل بھی نہ تھا۔ محمد علی جناح کو ان دشواریوں
کا سامنا کرنے میں اپنی تیزی سے بگڑتی ہوئی صحت کی شکل میں قربانی بھی دینی پڑی۔ یہ
ضروری ہوگیا کہ انہیں کوئٹہ اور پھر اُس سے بھی آگے، زیارت ریذیڈنسی میں منتقل کردیا
جائے۔ لیکن اُن کی صحت بہتر نہ ہوسکی۔ ستمبر کے پہلے ہفتے میں اُن کی صحت مزید بگڑ
گئی اور ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ انہیں واپس کراچی لے آیا جائے۔ 11 ستمبر 1948ء کو
انہوں نے کراچی میں آخری سانس لی اور جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔ پاکستان کو
وجود میں آئے ایک برس سے کچھ ہی زیادہ بِیتا تھا کہ وہ یتیم ہوگیا!
قائدِاعظم
محمد علی جناح کی آخری وصیّت
قائدِ اعظم
محمد علی جناح نے اپنی آخری وصیّت 30 مئی 1939ء کو بمبئی میں سپردِ قلم کی تھی۔
اُس وقت اُن کی عمر تقریباً 63 برس تھی۔ یہ سیاسی اور نجی ہر دو اعتبار سے
قائدِاعظم کے لئے عروج کا زمانہ تھا۔ جس کاغذ پر اُن کی وصیّت لکھی ہے اُس پر یہ
پتا درج ہے: ’لٹِل گبِس روڈ، مالا بار ہل،بمبئی۔‘،ڈیڑھ برس بعد،25 اکتوبر 1940ء کو
انہوں نے اپنی وصّیت میں ایک ضمنی شِق (تتمہ) شامِل کی۔ محمد علی جناح کی وصیّت کی
اہم ترین خصوصیّت یہ ہے کہ انہوں نے تعلیمی اداروں کو اپنے اقربا پرترجیح دی تھی۔
اِس وصیّت کی رُو سے انہوں نے اپنی گاڑھے پسینے کی کمائی کا بڑا حصّہ اپنی بیٹی،
بہنوں یا بھائیوں کو دینے کے بجائے تعلیمی اداروں، خصوصاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،
پشاور کے اسلامیہ کالج اور اپنی مادرِ علمی سندھ مدرسۃ الاسلام کے نام تفویض کردیا
تھا۔ اُن کی آخری وصیّت بشمول تتمہ، ذیل میں دی جارہی ہے:
’’یہ میری آخری وصیّت اور
عہد نامہ ہے ۔ میری باقی تمام وصیّتیں اور عہد نامے منسوخ تصوّر کئے جائیں۔
’’مَیں اپنی ہمشیرہ فاطمہ
جناح، مسٹر محمد علی چائے والا، سالیسٹر بمبئی، اور نوابزادہ لیاقت علی خان سکنہ
دہلی کو اپنے وصی، وصیّت کے تعمیل کنندگان اور ساتھ ہی ساتھ اپنے امین نامزد کرتا
ہوں۔
’’تمام حصص، اسٹاک اور سیکیورٹیز
اور کرنٹ اکائونٹس جو اِس وقت میری ہمشیرہ فاطمہ جناح کے نام ہیں، وہ اُن کی مطلق
ملکیّت ہیں۔ یہ سب کچھ مَیں نے اپنے دورانِ حیات بطور تحفہ انہیں دیا اور اب بھی
اِس کی توثیق کرتا ہوں۔ اور وہ جب چاہیں، جیسے چاہیں، اپنی خوشی سے اپنی اِس مطلق
ملکیّت کو زیرِ استعمال لاسکتی ہیں۔
’’مَیں اب، ذریعۂ ہذا،
اپنا مکان اور ساری زمین مع مشمولات، لوازمات و متعلقات، آئوٹ ہائوس وغیرہ، واقع
مائونٹ پلیرنٹ روڈ، مالا بارہل، بمبئی بشمول اس کی پوری حدود میں جملہ فرنیچر، پلیٹس،
سلور اور موٹر کاریں اُن کی مطلق ملکیّت میں دیتا ہوں، اور یہ کہ وہ اُن ساری اشیاء
اور املاک کو جس طرح چاہیں، بخوشی، اپنی وصیّت، قانونی دستاویز یا کسی اور شکل میں
زیرِ استعمال لاسکتی ہیں۔
’’مَیںاپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت بھی کرتا ہوں کہ انہیں تاحیات 2000/- (دو ہزار) روپے ماہانہ
(بطورِ کفالت و دیگر اخراجات) ادا کئے جاتے رہیں۔
’’مَیں اپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میری ہمشیرہ رحمت قاسم بھائی جمال کو تاحیات
100/-(ایک سو) روپے ماہانہ ادا کئے جاتے رہیں۔
’’مَیں اپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میری بہن مریم عبدن بھائی پیر بھائی کو تاحیات
100/- (ایک سو) روپے ماہانہ ادا کئے جاتے رہیں۔
’’مَیں اپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میری بہن شیریں کو تاحیات 100/- (ایک سو) روپے
ماہانہ ادا کئے جاتے رہیں۔
’’مَیں اپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ میرے بھائی احمد کو تاحیات 100/- (ایک سو) روپے
ماہانہ ادا کئے جاتے ہیں۔
’’مَیں اپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ 200,000/- (دو لاکھ) یا (دو سو ہزار) روپے 6%
پر رکھوا دیں۔ جس سے 1000/- (ایک ہزار) روپے ماہانہ آمدنی ہوا کرے گی۔ یہ آمدنی یا
جتنی آمدنی بھی بنے، میری بیٹی کو اِس کی ساری زندگی ہر مہینے ادا کردی جایا کرے۔
اور اُس کے انتقال کی صورت میں، جمع شدہ دو لاکھ روپے کی مجموعی رقم اُس کے بچوں،
بیٹے ہوںیا بیٹیاں، میں مساوی تقسیم کردی جائے۔ اور بے اولاد ہونے کی صورت میں دو
لاکھ روپے کی جمع شدہ رقم میری باقی ماندہ املاک و جائیداد میں شامِل کردی جائے۔
’’مَیں اپنے، وصیّت کے تعمیل
کنندگان کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ مندرجہ ذیل رقوم، درج شدہ اداروں کو ادا کردیں۔
مَیں 25,000/- (پچیس ہزار) روپے انجمنِ اسلام اسکول،بمبئی، واقع ہارنزبی روڈ،
مقابل بوری بندر اسٹیشن اور متصل دی ٹائمز آف انڈیا بلڈنگز کو تفویض کرتا ہوں۔ مَیں
50,000/- (پچاس ہزار) روپے یونیورسٹی آف بمبے کو تفویض کرتا ہوں ۔ مَیں 25,000/-
(پچیس ہزار) روپے عربک کالج، دہلی کو تفویض کرتا ہوں۔
’’مذکورہ بالا سے مشروط، میری
باقی ماندہ املاک و جائیداد بشمول جمع شدہ رقوم جن کی میعادِ منافع ختم ہوچکی ہو یا
بصورت دیگر، تین حصّوں میں تقسیم کی جائے اور مَیں اُن میں سے ایک حصّہ علی گڑھ یونیورسٹی،
ایک حصّہ اسلامیہ کالج پشاور اور ایک حصّہ سندھ مدرسہ، کراچی کو تفویض کرتا ہوں‘‘۔
محمد علی
جناح نے 25 اکتوبر1940ء کو اپنی وصیّت میں ایک تتمہ شامِل کیا جس میں درج کیا گیا:’’یہ
میری وصیّت کا تتمہ ہے۔ نیشنل بینک آف انڈیا میں میرا بینک اکائونٹ ہے جس کا نمبر
2 ہے۔ اِس کے علاوہ ریزرو بینک آف انڈیا کے پانچ سو (500) شیئر بھی ہیں۔ یہ شیئر بینک
کے پاس لیکن میرے نام پر ہیں۔ یہ شیئر اکائونٹ نمبر 2 میں موجود رقم سے خریدے گئے
تھے۔
’’یہ اکائونٹ، اِس میں جمع
شدہ رقوم اور سرمایہ کاری میں استعمال شدہ رقوم مجھے ذاتی طور پر مختلف عوام دوست
افراد نے یہ کہہ کے دی تھیں کہ مَیں مسلمانوں کی ترقی کے لئے اِن رقوم کو جس طرح
چاہوں اور جیسے چاہوں خرچ کروں۔ لہٰذا ان رقوم پر اور انہیں حسبِ منشا خرچ کرنے پر
مجھے کُلّی اور مکمل اختیار حاصل ہے۔ مجھے حسبِ منشا مسلم لیگ کا پریس اور اخبار
قائم کرنے کے لئے بھی ایک لاکھ روپے کا عطیہ موصول ہوا تھا۔
’’مجھے چوں کہ اِن رقوم کو
خرچ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے، لہٰذا مَیں اپنے اُن ہی، وصیّت کے تعمیل کنندگان
کو یہ رقم تفویض کرتا ہوں۔ وہ اس اکائونٹ سے متعلق یہ رقم یا اس سے حاصل شدہ منافع
موزوں اور مناسب طو رپر خرچ کرسکتے ہیں۔
’’اِس رقم اور ریزرو بینک
آف انڈیا کے 500 شیئر کے علاوہ میرے نیشنل بینک آف انڈیا اور امپیریل بینک کی بمبئی
اور نئی دہلی برانچوں میں بھی اکائونٹ ہیں۔ تاہم یہ اکائونٹ اور بیرونِ ملک دیگر
سارے اکائونٹ میری ذاتی اور مطلق ملکیّت ہیں اور انہیں میری اُس وصیّت کے مطابق
استعمال کیا جائے گا جو مَیں پہلے کرچکا ہوں۔
یہ تذکرہ
دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ قائدِاعظم کی آخری وصیّت پر کس طرح عمل کیا گیا تھا۔
1948ء مَیں قائدِاعظم کے انتقال کے بعد، سندھ ہائی کورٹ نے محترمہ فاطمہ جناح اور
نوابزادہ لیاقت علی خان کو اُن کی وصیّت پر عمل درآمد کے لئے منتظم مقرر کیا۔ اور یہ
فریضہ سونپا گیا کہ وہ قائدِاعظم کی وصیّت کی تعمیل کریں۔ 1967ء میں محترمہ فاطمہ
جناح کا انتقال ہوگیا تو قائدِاعظم محمد علی جناح کی دوسری ہمشیرہ شیریں بائی کو
اُن کی جگہ منتظم مقرر کردیا گیا۔ 1980ء میں شیریں بائی دنیا سے رخصت ہوئیں تو
قائدِاعظم محمد علی جناح کے تیسری پشت میں بھتیجے مسٹر لیاقت مرچنٹ کو اُن کی جگہ
منتظم مقررکیا گیا۔ قائدِاعظم محمد علی جناح کی وصیّت کے بیشتر حصّے پر اُن کے
حسبِ منشا عمل درآمد ہوا، سوائے پیرا نمبر12کے ، جس کے کچھ حصّے پر ہی عمل درآمد
ہوسکا اور کچھ حصّہ ابھی تعمیل طلب ہے۔
قائدِاعظم
محمد علی جناح کی باقی ماندہ جائیداد اور املاک سے حاصل ہونے والی رقوم اُن تین
اداروں میں تقسیم ہونی تھیں جن کا ذِکر اُن کی وصیّت کے پیرا نمبر 12 میں کیا گیا
تھا۔ یہ ادارے اسلامیہ کالج، پشاور، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور سندھ مدرسہ، کراچی
تھے۔ اُن کی باقی ماندہ املاک اور جائیدادیں کراچی میں فلیگ اسٹاف ہائوس، ملیر میں
زمین، گلبرگ لاہور میں زمین اور کراچی میں ہاکس بے کے علاقے ماری پور میں وسیع
قطعۂ زمین پر مشتمل تھیں۔ اُن کے علاوہ وہ جمع شدہ رقوم تھیں جو وصیّت کے مطابق
منافع کے لئے دی گئی تھیں اور اُن کا دورانیہ پورا ہوچکا تھا۔
قائدِاعظم
کی وصیّت کے پیرا نمبر 12 کی تعمیل اس لئے بھی نہ ہوئی کہ اُن کی باقی ماندہ املاک
اور جائیدادیں پوری طرح حاصل نہیں کی جاسکی تھیں اور اُن کی فروخت بھی پایۂ تکمیل
کو نہ پہنچ پائی تھی۔ اُن کی باقی ماندہ جائیدادوں اور املاک کی فروخت بالآخر
1980ء میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم کے تحت مکمل ہوئی۔ وصیّت کے تحت ہر ادارے کو تفویض
کردہ حصے کی رقم۔ 10,811,600/- روپے بنی (مجموعی رقم۔ 32,434,800/- روپے تھی)
اسلامیہ کالج پشاور واحد خوش قسمت ادارہ تھا جسے اپنا پورا حصّہ وصول ہوا۔ اور اُس
نے قائدِاعظم کے نام پر ایک لائبریری قائم کی۔
جہاں تک علی
گڑھ مسلم یونیورسٹی کا تعلق ہے، اسے 1948ء تک کسی بھی منتظم کے ذریعے کوئی ادائیگی
نہ ہوئی۔ 1965ء میں بھارتی پارلیمنٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ مجریہ 1920ء میں
ترمیم کردی جس کے تحت مبینہ طور پر اس کا مسلمان کردار ختم کردیا گیا۔ یہ مقدمہ
سندھ ہائی کورٹ کے سپرد کردیا گیا۔ جس نے 1984ء میں فیصلہ سنایا۔ اس فیصلے میں ہدایت
دی گئی کہ رقم پاکستان ہی میں رکھ کر تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال کی جائے۔ ہائی
کورٹ نے اپنے فیصلے کے تحت ’’قائدِ اعظم علی گڑھ اسکالر شپ ٹرسٹ‘‘ کے نام سے ایک
ٹرسٹ قائم کیا، اُس کے تین ٹرسٹی مقرر کئے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا حصّہ اُن
کی تحویل میں دے دیا۔ یہ رقم گورنمنٹ سیکیورٹیز میں لگائی گئی اور اس سے حاصل ہونے
والے منافع میں سے پاکستانی طلبا کو وظائف دیئے جانے لگے۔
’’سندھ مدرسۃ الاسلام،
کراچی‘‘کا معاملہ یہ رہا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے 1956ء میں پہلی قسط کے طور پر
350,000/- روپے دیئے۔ 1962ء میں انہوں نے 100,000/- روپے کی دوسری قسط ادا کی۔ اُن
کے بعد محترمہ شیریں بائی نے 1972ء میں 260,000/- روپے دیئے۔ یوں اُس سال تک سندھ
مدرسۃ الاسلام کو مجموعی طور پر 710,000/- روپے کی رقم مِلی۔ تاہم 1972ء میں
حکومتِ سندھ نے سندھ مدرسۃ الاسلام کو قومی ملکیّت میں لے لیا۔ حکومتِ سندھ نے
ادارے کا کنٹرول پرائیویٹ مینجمنٹ بورڈ سے لے لیا، جو’’سندھ مدرسۃ الاسلام بورڈ‘‘
کے نام سے کام کرتا تھا۔ دو سال بعد، 1974ء میں وفاقی حکومت نے سندھ مدرسۃ الاسلام
کا انتظام و انصرام، حکومتِ سندھ سے لے لیا کیوں کہ یہ قائدِاعظم کی مادرِ علمی تھی۔
1972ء میں سندھ مدرسۃ
الاسلام کے قومی ملکیت میں لئے جانے کے بعد اگرچہ پرائیویٹ مینجمنٹ بورڈ کا تعلق
سندھ مدرسہ کے معاملات سے منقطع ہوچکا تھا، پھر بھی پرائیویٹ بورڈ کے کچھ اہل کار،
قائدِاعظم کی وصیّت کے تحت منتظمین سے وہ رقوم وصول کرتے رہے جن پر سندھ مدرسۃ الاسلام
کا حق تھا۔ بدقسمتی یہ رہی کہ قائدِاعظم کی وصیّت کے منتظمین نے بھی نئے حقائق پر
توجہ دینے کی ضرورت محسوس نہ کی۔ دوسری جانب، پرائیویٹ مینجمنٹ بورڈ کے ارکان نے
بھی منتظمین کو مطلع نہ کیا کہ سندھ مدرسۃ الاسلام کا کنٹرول اب اُن کے پاس نہیں
تھا بلکہ حکومت اُس کی منتظم تھی۔ اِس طرح پرائیویٹ بورڈ نے 1980ء سے 1994ء کی مدت
کے دوران، کسی اختیار کے بغیر، سندھ مدرسۃ الاسلام کے حصّے کی بقایا رقم وصول کرلی
جو۔ 10,101,600/- روپے بنتی تھی۔ یوں سندھ مدرسۃ الاسلام کو اس رقم کا ایک معمولی
سا حصّہ 10,811,600/- روپے میں سے صرف 710,000 روپے بلکہ کہہ لیجئے کہ اُس رقم کا
صرف 6.5 فیصد حصّہ مِل پایا، جو قائد اعظم اس ادارے کو دینے کے خواہاں تھے۔1
(1) فاطمہ جناح، ’’میرا بھائی‘‘،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1987ء صفحہ 44
(2) جی الانا، ’’ہمارے حریت
پسند1947ء1562-ء‘‘
فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور، 1985ء صفحہ 227
(3)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب
صفحہ 45
(4)جی الانا، مذکورہ کتاب ،
صفحہ 227
(5) ایضاً
(6) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب
صفحہ 45
(7) جی الانا، مذکورہ کتاب
صفحہ 228
(8) اسٹینلے وولپرٹ،’’جناح
آف پاکستان‘‘، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی 1984ء صفحہ 4
(9)ایس ایم برکی اور سلیم
الدین قریشی،’’ قائدِ اعظم محمد علی جناح: اُن کی شخصیّت اور اُن کی سیاست‘‘،
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس،
کراچی 1997ء ، صفحہ 32
(10) محمد علی شیخ،’’ سندھ مدرسہ: وقت کا
سفر‘‘، سندھ مدرسۃ الاسلام، کراچی 1995ء صفحہ 23
(11) مصنّف نے اُس جگہ کا دورہ کیا اور
مقامی لوگوں سے بات چیت کی۔
آغا خان کا محل، گندھی
ہوئی مٹی سے بنا ہوا ہے۔
اِس پر پتھر کی ایک تختی
لگی ہوئی ہے جس اِس پر محل کی تعمیر کا سال 1843ء لکھا ہے۔
اس کتاب میں پتھر کی تختی
کی تصویر شامِل ہے۔
(12) مصنّف نے اس اسکول کا دورہ کیا۔
پرانی عمارت کی جگہ نئی عمارت تعمیر ہوچکی ہے۔
ریکارڈ کے بارے میں بتایا
گیا کہ پرانا ریکارڈ کھوچکا ہے۔
(13) جلسۂ عام میں تقریر،ڈیلی گزٹ 8
اکتوبر 1938ء۔ منقولہ وحید احمد (ایڈیٹر
’’قائدِاعظم محمد علی جناح:قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل۔
قائد ِاعظم اکیڈمی، کراچی
1992ء صفحہ 279
(14) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 47
(15)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 49
(16)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 48
(17)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 49
(18)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 49
(19) سیّد شمس الحسن …’’پلین، مسٹر جناح‘‘،
رائل بک کمپنی، کراچی 1976ء صفحہ 71
(20)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 50
(21) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 50
(22) جی الانا، مذکورہ کتاب، صفحہ 229
(23)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 50
(24)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 54
(25) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 55
(26)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 56
(2) وحید احمد (ایڈیٹر)
’’قائدِاعظم محمد علی جناح:’’ قوم کی آواز، جلد سوم،
تشریحات کے ساتھ تصاویر اور بیانات‘‘،
مئی 1942ء تا اکتوبر
1944ء‘‘، قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1997ء صفحہ 225
(3) قائدِاعظم محمد علی جناح
کی آخری وصیّت 30 مئی 1939ء کو بمبئی میں تحریر کی گئی تھی۔
اُن کی وصیّت میں 25 اکتوبر1940ء کو ایک تتمہ کا اضافہ
کیا گیا۔
اِس وصیّت کی نقل سندھ
مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی کے آرکائیوز میں موجود ہے۔
(4) محمد علی شیخ،’’ حسن علی
آفندی:بانیٔ سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘، سندھ مدرسۃ الاسلام کالج، کراچی، 2010ء صفحہ 11
(5) سندھ مدرسۃ الاسلام کی
پانچویں سالانہ رپورٹ برائے سال 1890-91ء صفحہ 1
(6)فاطمہ جناح، مذکورہ
کتاب، صفحہ 57
(7) سندھ مدرسۃ الاسلام کی
چوتھی سالانہ رپورٹ برائے سال 1889-90ء صفحہ 2
(8) سندھ مدرسۃ الاسلام کی
چوتھی سالانہ رپورٹ برائے سال 1889-90ء صفحہ 2
(9) سندھ مدرسۃ الاسلام کی
چوتھی سالانہ رپورٹ برائے سال 1889-90ء صفحہ 3
(10)سندھ مدرسۃ الاسلام کی چوتھی سالانہ
رپورٹ برائے سال 1889-90ء صفحہ 3
(11) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 57
(12) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 57
(13)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 58
(14) فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 59
(15) جنرل رجسٹر، سندھ مدرسۃ الاسلام
محمد علی جناح کا دوسری بار داخلہ سیریل نمبر 178
(16) جنرل رجسٹر، سندھ مدرسۃ الاسلام
محمد علی جناح کا دوسری بار داخلہ سیریل نمبر 430
(17)خواجہ علی محمد، ’’سندھ مدرسۃ
الاسلام کی تاریخ‘‘، مضمون منقولہ سندھ مدرسہ کرانیکل،
گولڈن جوبلی شمارہ، کراچی ۔1935ء کا صفحہ 21
(18)خواجہ علی محمد،’’ سندھ مدرسۃ
الاسلام کی تاریخ‘‘، مضمون منقولہ سندھ مدرسہ کرانیکل،
گولڈن جوبلی شمارہ، کراچی
۔1935ء کا صفحہ 21
(19) سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کی چوتھی
سالانہ رپورٹ، کراچی، رپورٹ مذکورہ ، صفحات 4،5
(20)سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کی چوتھی
سالانہ رپورٹ، کراچی، رپورٹ مذکورہ ، صفحہ 5
(21)سندھ مدرسۃ الاسلام کی پانچویں
سالانہ رپورٹ، کراچی رپورٹ مذکورہ، صفحہ ،5
(22)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ، 80
(23) سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی، چھٹی
سالانہ رپورٹ برائے سال1891-92ء ،
تبصرہ منقولہ مہمانوں کی
کتاب،
فونِکس پریس، کراچی
1892ء صفحہ 18
(24)سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی، چھٹی
سالانہ رپورٹ برائے سال1891-92ء،
تبصرہ منقولہ مہمانوں کی کتاب،
فونِکس پریس، کراچی
1892ء صفحہ 33
(25)ہیکٹر بولیتھو:’’جناح : خالقِ
پاکستان‘‘،
دوبارہ اشاعت آکسفورڈ یونیورسٹی
پریس، کراچی، 2006ء صفحہ 3,2
(26) فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 62
(27) سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی، پانچویں
سالانہ رپورٹ کراچی، رپورٹ مذکورہ، صفحہ 10
(28)سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کی چھٹی
سالانہ رپورٹ، کراچی، رپورٹ مذکورہ، صفحہ 12
(29) ہیکٹر بولیتھو، کتاب مذکورہ، صفحہ 3
(30)ہیکٹر بولیتھو، کتاب مذکورہ، صفحہ 3
(31)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 59
(32) خواجہ علی محمد، کتاب مذکورہ، صفحہ
22
(33)خان بہادر ولی محمد حسن علی آفندی:’’یادیں‘‘،
منقولہ، سندھ مدرسہ کرانیکل 1925ء
پلاٹینم جوبلی بک، سندھ
مدرسۃ الاسلام (سیکشن ۔V)
1960ء صفحہ
5
(34) -سندھ مدرسۃ الاسلام کراچی کی چوتھی
سالانہ رپورٹ، 1890ء صفحہ 1
(35) جنرل رجسٹر سندھ مدرسۃ الاسلام،
محمد علی جناح کے تیسری بار داخلے کا ریکارڈ، سیریل نمبر 430
(36) جنرل رجسٹر چرچ مشنری سوسائٹی (CMS) ہائی اسکول (اقتباس)سے حاصل کیا گیا۔
(37)سیّد شمس الحسن …’’ پلین مسٹر جناح‘‘،
رائل بک کمپنی، کراچی 1976ء صفحہ 72
(38)سیّد شمس الحسن … ’’پلین مسٹر جناح‘‘،
رائل بک کمپنی، کراچی
1976ء صفحہ 73
(39)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 60
(40) اسٹینلے وولپرٹ، کتاب مذکورہ، صفحہ
8
(1) فاطمہ جناح، کتاب
مذکورہ، صفحہ 70
(2)فاطمہ جناح، کتاب
مذکورہ، صفحہ 70
(3)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب
مذکورہ، صفحہ 9
(4)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ
صفحہ 71
(5)عزت مآب سوسائٹی آف
لِنکنز اِن کے نام محمد علی جناح کی درخواست مورخہ 25 اپریل 1893ء،
جس میں اُن کا پتا بھی
درج ہے۔
(6)محمد علی جناح کی آمد و
رفت کا ممکنہ راستہ، گوگل میپ میں دونوں پتے درج کرکے بنایا گیا ہے۔
(7) لِنکنز اِن ویب سائٹ
(8)فاطمہ جناح، مذکورہ
کتاب، صفحہ 81
(9)فاطمہ جناح، مذکورہ
کتاب، صفحہ 73
(10) ہیکٹر بولیتھو، مذکورہ کتاب، صفحہ 4
(11)فاطمہ جناح، مذکورہ کتاب، صفحہ 73
(12) لِنکنزاِن کا ریکارڈ جو محترمہ
فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں نقل کیا ہے۔
قائدِ اعظم اکیڈمی کراچی، 1987ء اور سلیم قریشی کی
کتاب: ’’جناح: بانیٔ پاکستان‘‘،
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی 1998ء
(13)لِنکنزاِن کا ریکارڈ جو محترمہ
فاطمہ جناح نے اپنی کتاب ’’میرا بھائی‘‘ میں نقل کیا ہے۔
قائدِ اعظم اکیڈمی کراچی،
1987ء اور سلیم قریشی کی کتاب: ’’جناح: بانیٔ پاکستان‘‘،
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس،
کراچی 1998ء ،صفحہ 61
(14)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 75
(15)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 76
(16)سر ہاورڈ ایلفنسٹن کا ہاتھ سے لکھا
ہوا نوٹ مورخہ 5 مارچ، 1896ء
جو محترمہ فاطمہ جناح نے
نقل کیا،کتاب مذکورہ، تتمہ صفحہ 11
(17)ڈبلیو، ڈگلس ایڈورڈز، بار ایٹ لا،
کا ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ مورخہ 6 مارچ 1896ء
جو محترمہ فاطمہ جناح نے
نقل کیا، کتاب مذکورہ، تتمہ صفحہ 12
(18)لِنکنز اِن کا ریکارڈ، کتاب مذکورہ
(19)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،
کتاب مذکورہ
(20)لِنکنز اِن کا ریکارڈ، کتاب مذکورہ
(21)لِنکنز اِن کا ریکارڈ، کتاب مذکورہ
(22)لِنکنز اِن کا ریکارڈ، کتاب مذکورہ
(23)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 89
(24) انٹر نیٹ ویب سائٹ:
http://www.spartacus.schoolnet.co.uk/PRnaoroji.htm
سے حاصل کردہ معلومات
(25) اوپن یونیورسٹی، لندن کی ویب سائٹ:
http://www.open.ac.uk/researchprojects
(26) فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 79
(27) ہیکٹر بولیتھو، کتاب مذکورہ، صفحہ 7
(28) فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 80
(29)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(30)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(31)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(32)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(33) لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(34) لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(35)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(36)لِنکنز اِن کا ریکارڈ،مذکورہ کتاب
(37)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 81
(38)فاطمہ جناح، کتاب مذکورہ، صفحہ 81
(39)1890ء کے برطانوی پائونڈ کی
موجودہ قدر کے تعیّن میں ویب سائٹ:
http://wiki.answers.com/Q/Value
of one
pound in 1880
accessed in lune 2013
سے مدد لی گئی۔ اِس کے
مطابق 1890ء میں ایک برطانوی پائونڈ کی
جو قدر تھی وہ موجودہ
مالیّت کے اعتبار سے 66.4 پائونڈ بنتی ہے۔
باب 4
پی ایچ ڈی
کی پیش کش
(1)سیّد شمس الحسن، کتاب
مذکورہ، صفحہ 76
(2)سیّد شمس الحسن، کتاب
مذکورہ، صفحہ 76 ،77
(3)سیّد شمس الحسن، کتاب
مذکورہ، صفحہ 77،78
(4)سیّد شمس الحسن، کتاب مذکورہ،
صفحہ 78
(5) سیّد شمس الحسن، کتاب مذکورہ، صفحہ 78
وکالت اور
سیاست میں عملی قدم
(2) فاطمہ جناح، ضمیمہ 13
(دستی نقل)
(3)محمد علی صدیقی،
’’قائدِاعظم جناح: تاریخ وار سلسلۂ واقعات‘‘،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1996ء صفحہ 2
(4)محمد علی صدیقی،
’’قائدِاعظم جناح: تاریخ وار سلسلۂ واقعات‘‘،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1996ء صفحہ 3
(5)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب
مذکورہ ، صفحہ 17
(6)سیّد شریف الدین پیرزادہ:
’’قائدِاعظم محمد علی جناح کا مجموعۂ، تحاریر و تقاریر،
جلد اوّل‘‘،
ایسٹ اینڈ ویسٹ پبلشنگ کمپنی، کراچی 1984ء، صفحہ vi
(7)محمد علی صدیقی، کتاب
مذکورہ، صفحہ 3
(8)فاطمہ جناح، کتاب
مذکورہ، صفحہ 86
(9)محمد علی صدیقی، کتاب
مذکورہ، صفحہ 3
(10)سیّد شریف الدین پیرزادہ، کتاب
مذکورہ، صفحہ vi
(11) محمد علی صدیقی، کتاب مذکورہ، صفحہ
4
(12)محمد علی صدیقی، کتاب مذکورہ، صفحہ
4
(13)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب مذکورہ، صفحہ
25
(14)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب مذکورہ، صفحات
32، 33
(15)شریف المجاہد، ’’محمد علی
جناح(مضمون)’’مسلمان صاحبانِ علم و فضل‘‘،
نیشنل ہجرہ کونسل، اسلام آباد، 1988ء صفحہ 223
باب 6
رتن بائی
سے رشتۂ مناکحت
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، کراچی 1997ء صفحہ 14
(2)خواجہ رضی حیدر، ’’رتّی
جناح، کہی اور اَن کہی کہانی‘‘،
پاکستان اسٹڈی سینٹر، کراچی یونیورسٹی 2004ء، صفحات
143، 144
باب 7
ترکِ تعلق
(1) جی الانا، کتاب مذکورہ،
صفحات 236، 237
(2)جی الانا، کتاب مذکورہ،
صفحات 236، 237
(3)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب
مذکورہ، صفحہ 71
(4)جی الانا، کتاب مذکورہ،
صفحہ 238
(5)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب
مذکورہ، صفحہ 121
(6)آئی ایچ قریشی، ’’مختصر
تاریخِ پاکستان‘‘،
شعبۂ تصنیف و تالیف و ترجمہ،
کراچی یونیورسٹی، 2006ء
صفحہ 211 (کتاب چہارم)
باب 8
قرار دادِ
پاکستان
(2)وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘،جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1992ء، صفحہ 486
(3)وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1992ء، صفحہ 486
(4)وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1992ء، صفحہ 486
(5) وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1992ء، صفحہ 486
(6) وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1992ء، صفحہ 486
(7)وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1992ء، صفحہ 486
(8)وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1992ء، صفحہ 486
(9)وحید احمد (ایڈیٹر)’’قائدِاعظم
محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد اوّل،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1992ء، صفحہ 486
باب 9
حصولِ
پاکستان
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1997ء، صفحہ 333
(2) وحید احمد (ایڈیٹر)
’’قائدِاعظم محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد سوم،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی 1997ء، صفحہ 333
(3)وحید احمد (ایڈیٹر)
’’قائدِاعظم محمد علی جناح: قوم کی آواز‘‘، جلد سوم،
قائدِاعظم اکیڈمی، کراچی
1997ء، صفحہ 333
(4) اسٹینلے وولپرٹ، کتاب
مذکورہ، صفحہ 308
(5) سیّد شمس الحسن، کتاب
مذکورہ، صفحہ 1
(6)اسٹینلے وولپرٹ، کتاب
مذکورہ، صفحہ vii
باب 10
نوزائیدہ ریاست
کے خدوخال
(2)وحید احمد(ایڈیٹر) کتاب
مذکورہ، جلد سوم، صحہ 376
(3) وحید احمد(ایڈیٹر) کتاب
مذکورہ، جلد سوم، صحہ 376
٭٭٭
ایس ایم آئی
یونیورسٹی ایک چارٹرڈ اور ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) آف پاکستان سے باقاعدہ طور پر تسلیم
شدہ یونیورسٹی ہے۔ یہ جنوب مشرقی ایشیا کے قدیم ترین اداروں میں سے ایک ہے۔ بانیٔ
پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح، اِس ادارے میں 1887ء سے 1892ء تک تقریباً ساڑھے چار
سال زیرِ تعلیم رہے تھے۔
یہ یونیورسٹی
کراچی کے تجارتی اور کاروباری مرکز اور آئی آئی چندریگر روڈ اور حبیب بینک پلازہ
کے قرب و جوار میں واقع ہے۔ یونیورسٹی آٹھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہوئی ہے
اور اس میں نوآبادیاتی دَور کی انتہائی خوبصورت عمارتیں دیکھنے کو مِلتی ہیں۔
یونیورسٹی
کی لائبریری میں پندرہ ہزار سے زائد کتابیں ہیں، جن میں سے کچھ کتابیں، نایاب
کتابوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ یونیورسٹی کی لائبریری تقریباً تین درجن قومی اور بین
الاقوامی تحقیقی جرائد منگواتی ہے۔ علاوہ ازیں اُسے ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کے کفالتی بین الاقوامی برقی (ڈیجیٹل)
جرائد تک رسائی حاصل ہے۔
ایس ایم آئی
یونیورسٹی ملک کی ایک انتہائی جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی لیبارٹری کی حامِل ہے اور
اس میں جدید ترین CORE 17 کمپیوٹر
نصب ہیں۔ یونیورسٹی انٹرنیٹ تک بلا معاوضہ رسائی فراہم کرتی ہے اور اس کے کمپیوٹر،
انٹر نیٹ پر دستیاب تحقیقی مواد تک رسائی کے لئے سپر ہائی اسپیڈ رابطے سے لیس ہیں۔
مزیدبراں، یونیورسٹی دستیاب سہولتوں کو کم سے کم طوالت کی حامل جدید ٹیکنالوجی کے
ساتھ بہتر تر بنارہی ہے۔
یونیورسٹی
کے کلاس روم کشادہ، ایئر کنڈیشنڈ اور ملٹی میڈیا پروجیکٹروں سے مزیّن ہیں۔ اس کا
آڈیٹوریم مکمل ایئر کنڈیشنڈ اور جملہ سہولتوں سے آراستہ ہے جو طویل لیکچروں،
مباحثوں، تقریری مقابلوں، معلوماتِ عامہ کے مقابلوں، ڈراموں اور تفریحی پروگراموں
کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ چھوٹے اجتماعات کے لئے جوناگڑھ سیمینار ہال، جس میں 80
نشستوں کی گنجائش ہے، زیرِ استعمال لایا جاتا ہے۔
یونیورسٹی
میں جناح عجائب گھر ہے جس میں اُن شخصیات سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں جن کا اِس
ادارے سے کبھی نہ کبھی اور کسی نہ کسی صورت تعلق رہا۔ اُن میں قائدِاعظم محمد علی
جناح بھی شامِل تھے۔ اُن کا تعلیمی اور درسی ریکارڈ یہاں رکھا گیا ہے۔ حال ہی میں
ایک آرکائیوز سیکشن قائم کیا گیا ہے، جہاں اہم ریکارڈ کو محفوظ کیا جارہا ہے۔
یونیورسٹی،
طلبا اور اساتذہ کی اِس ضمن میں حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ نصابی اور غیر نصابی
سرگرمیوں میں حصّہ لیں۔ اِن سرگرمیوں میں مطالعہ اور تفریحی پروگرام شامِل ہیں۔
یونیورسٹی
کے اِس سٹی کیمپس کے علاوہ، کراچی کے قریب واقع شہرِ علم (Education City) جو ڈی ایچ اے سٹی کے نزدیک ہے، ایک
اضافی کیمپس تعمیر کیا جارہا ہے۔ شہرِ علم میں ایس ایم آئی یونیورسٹی کو 100 ایکڑ
زمین الاٹ کی گئی ہے۔
٭٭٭
کتاب کے
مصنّف اور نقش گر کے بارے میں
ڈاکٹر محمد
علی شیخ سوشل سائنسز کے پروفیسر ہیں اور اِس وقت سندھ مدرسۃ الاسلام یونیورسٹی،
کراچی کے وائس چانسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے ابلاغِ عامہ (Mass Communication) میں ڈاکٹریٹ کیا ہے اور
امریکن یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی میں فل برائٹ اسکالر کی حیثیت سے خدمات انجام دے
چکے ہیں۔ ڈاکٹر شیخ پبلک سیکٹر کے کئی اہم عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں جن میں ڈائریکٹر
جنرل محتسب سندھ سیکریٹریٹ اور متعدد سرکاری محکموں کے ڈائریکٹرز جنرل کے عہدے
شامِل ہیں۔ وہ SZABIST سینیٹر
برائے اطلاعات و تحقیق، کراچی کے اوّلین ڈائریکٹر بھی رہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے۔ڈاکٹر شیخ ’’بے نظیر
بھٹو کی سوانح‘‘ سمیت متعدد کتابوں کے مصنّف ہیں۔ اُن کی دیگر تصانیف میں
’’پاکستان میں سیٹلائٹ ٹیلی ویژن اور سماجی تبدیلیاں‘‘ ،’’دیہی سندھ کے بارے میں
مطالعہ‘‘،’’ حسن علی آفندی بانیٔ سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘، ’’سندھ، صدیوں کا سفر‘‘
اور ’’سرزمین کے صاحبانِ علم و فضل‘‘ شامِل ہیں۔
٭٭٭
نقش گر
شائستہ ایم
علی تزئین و آرائش میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ انہوں نے دو اور کتابوں کی بھی نقش گری کی
ہے اور تزئین و آرائش کے اعتبار سے سنوارا، نکھارا ہے۔ اُن کتابوں کے عنوان، ’’سندھ، صدیوں کا سفر‘‘ اور
’’حسن علی آفندی: بانیٔ سندھ مدرسۃ الاسلام‘‘ ہیں۔ وہ سندھ مدرسۃ الاسلام میں کیوریٹر
اور میوزیم انچارج بھی رہی ہیں۔ خواتین اور نسبیات اُن کا خاص موضوعِ مطالعہ ہیں۔
اِس کی کتاب کی تزئین و آرائش اور نقش گری میں ، گرافک ڈیزائنر محمد ماجد خان نے
شائستہ ایم علی کی معاونت کی۔
٭٭٭