برِّصغیر میں سماع اور قوّالی کی آمد، رشید بٹ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Tuesday, 20 November 2018

برِّصغیر میں سماع اور قوّالی کی آمد، رشید بٹ

0 comments


کہیں یہ ذِکر آچکا ہے کہ برِّصغیر میں سماع اور قوّالی کو فروغ کیسے حاصل ہوا۔ اور کیسے کیسے ہیرے اور موتی ثناء خواں اور قوّال حضرات نے اِن دونوں اصناف کو بامِ عروج تک پہنچایا۔ تاہم، اِن اصناف کے آغاز کی داستان بڑی دل چسپ ہے۔ محمد اسلام شاہ نے کم وبیش 31برس ریڈیو پاکستان میں گزارے۔ اُس ملازمت کا زیادہ تر دورانیہ موسیقی کے شعبے سے رہا۔ جنوری 2002ء میں اشفاق نقوی نے روزنامہ ڈان میں اُن کے بارے میں تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے اُن کی ایک کتاب ’’صوفیانہ موسیقی اور ہمارے قوّال‘‘ کا حوالہ دیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں عارفانہ یا صوفیانہ کلام سے لگاؤ ودیعت کیا تھا۔ محمد اسلام شاہ نے اِس کتاب میں عارفانہ کلام (سماع) اور کلام کی گلوکاری میں نام پیدا کرنے والوں کی تاریخ مرتّب کردی ہے۔

خواجہ معین الدینؒ نے جب اجمیر شریف کو مسکن بنایا تو اِس سارے علاقے میں ہندوؤں کی آبادی تھی۔ یہ خواجہؒ پر اللہ کی خاص نظرِ عنایت تھی کہ ہندو اُن کے در پہ حاضر ہوکر دولتِ اسلام سے مالا مال ہونے لگے۔ لیکن ایک مسئلہ تھا کہ صدہا برس سے یہاں جو ہندو موسیقی کا چلن تھا، اُس کی بِناء پر خدشہ رہتا تھا کہ جو گانا بجانا نومسلموں کی گھُٹّی میں پڑا ہے وہ اُنہیں واپس اُسی ڈگر پہ نہ لے جائے۔ لہٰذا، اُن کو نمازِ عشا کے بعد حمد وثناء اور نعتِ رسول ؐکی ترغیب دی جانے لگی جس نے بتدریج سماع اور پھر قوّالی کا انداز اختیار کرلیا۔ محققّین کی رائے ہے کہ بّرِصغیر میں قوّالی کے باضابطہ مکتب کو حضرت امیر خسروؒ نے رواج دیا۔ اُن کا مقصد بجز اِس کے کچھ نہ تھا کہ خدائے بزرگ وبرتر کی ثناء خوانی اور نعتِ رسول مقبولﷺ کے وسیلے سے اپنے مرشد خواجۂ خواجگان حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے ذوق وحُبِّ جمالیاتِ رب العالمین اور رسولِ کریمﷺ کو دوچند کیا جائے۔ مسلمان صوفیائے کرام کے مختلف مکاتبِ فکر نے اِس اندازِ سماع کو اپنا لیا اور برِّصغیر میں مختلف صوفیا اور بزرگانِ دین کے مزاروں پر اُسے فروغ مِلا۔

حضرت امیر خسروؒ کی ایک فارسی ثناء و نعت صدیوں سے پڑھی جارہی تھی۔ عظیم پریم راگیؒ اگرچہ قوّال کے بجائے ثناء خوان کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے، لیکن امیر خسرو کی ثناء ونعت:


نمی دانم چہ منزل بود، شب جائیکہ من بوُدَم

بہر سُو رقصِ بِسمل بود شب جائیکہ من بوُدَم


کے بحرِ بے کنار میں وہ بھی بہہ گئے اور اُسے گا کر زندۂ جاوید کردیا۔ یہ 1930ء کا عشرہ تھا جب دو قوّالوں اور ثناء ونعت خوانوں اور عارفانہ کلام گانے والوں کے نام اُبھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دو آوازیں برِّصغیر کی فضاؤں میں چھا گئیں۔ اُن میں ایک آوازِ عظیم پریم راگیؒ اور دوسری واعظ قوّال کی تھی۔ واعظ کو بھی ’’واعظ‘‘ کا خطاب دہلی کے نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ کی ایک مقبول اور ممتاز ادبی شخصیّت خواجہ حَسن نظامیؒ نے عطا کیا تھا۔ قدرت نے اِن دونوں کو ایسا لَحن عطا کیا تھا کہ برِّصغیر کے اہلِ تصوّف اُن کے دیوانے تھے۔ ہم کچھ اور پیچھے جاتے ہیں تو تاریخ یہ حقیقت ہمارے سامنے لے آتی ہے کہ برِّصغیر میں ریکارڈ اور گرامو فون 1902ء میں متعارف ہوئے۔ اُس کے بعد عارفانہ کلام، خصوصاً قوّالیوں کی صورت خانقاہی نعتیہ کلام اِس سرزمین کے گوشے گوشے میں پہنچنے لگا۔ فطری سی بات تھی کہ کلام کے ساتھ ساتھ ثناء خواں، نعت خواں اور قوّال بھی شہرت بہ داماں ہوئے اور اگلے چالیس پچاس برس کے دوران حمد وثناء، نعت خوانی اور قوّالی کے ساتھ ساتھ چاربیت، داستان گوئی اور نوٹنکی ایسی اصناف کو بھی قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ اِس عرصے میں ہمیں گلو قوّال، پیارو قوّال، فخرِعالم قوّال، اِبوّقوّال، علی بخش (واعظ) قوّال، فاروق احمد نیازی، رئیس احمد نیازی اور منظور نیازی قوّال، پیارے خان صاحب، حبیب پینٹر قوّال، استاد فتح علی خان، جنہوں نے اپنا فن اپنے بیٹے نصرت فتح علی خان کو یوں منتقل کیا کہ وہ اُسے دنیا کے دُوردَراز گوشوں تک پھیلا کر شاید قبل ازوقت ہی داعیِ ملکِ اجل ہوگئے، فتح علی، مبارک علی قوّال، استاد محمد علی فریدی، اسماعیل آزاد، استاد محمد علی فریدی قوّال، (انہیں بابا فرید گنج شَکرؒ کے درباری قوّالوں کا جدِامجد سمجھا جاتا ہے اور وہ تھے۔)، رشید احمد فریدی قوّال، مہر علی، شیر علی قوّال، میاں داد، حافظ داد قوّال اور شیرمیاں داد، بدر میاں داد قوّال۔ (ناموں میں تقدیم وتاخیر ہوسکتی ہے لیکن اِس سے اُن کی شہرت اور عظمت متاثر نہیں ہوتی۔)

ہم 1930ء کے عشرے میں لوٹ کے جاتے ہیں تو ہمیں عظیم پریم راگیؒ کا نام درگاہ اجمیرشریف میں یوں جَڑا مِلتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ عظیم پریم راگیؒ عارفانہ کلام خود ہی کہتے، دوسرے صوفی شعرأ کے کلام میں جوڑتے اور پھر ساز وآواز کے ساتھ خواجہ کی نذر کردیتے۔ ہوتے ہوتے یہ کلام سارے ہی خواجگانِ برِّصغیر کی درگاہوں اور مزاروں سے ہوتا ہوا اُن کی روحوں تک جاپہنچا۔ اجمیر شریف بنیادی طور پر پہاڑی علاقہ ہے جہاں بلاتخصیص، مسلمان درویشوں اور ہندو سادھوؤں نے، درگاہِ خواجہ اجمیر کے آس پاس ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عظیم پریم راگیؒ جب بھی دربارِ خواجہ اجمیر میں چوکی بھرتے، وہ درویش اور سادھو اُنہیں سننے کے لئے جوق درجوق چلے آتے تھے۔ اُس زمانے میں عظیم پریم راگیؒ درگاہ پر اکثر گایا کرتے:


ع دَرس بھکارن ہوں تیری اجمیری خواجہ 



عظیم پریم راگیؒ چوں کہ خود بھی شاعری کرتے تھے لہٰذا، کبھی کبھی دل چسپ صورتِ حال بھی پیدا ہوجاتی تھی۔ ایک بار استاد فیاض خان اور عظیم پریم راگیؒ ریاست جوناگڑھ گئے ہوئے تھے۔ دونوں میں سینئر، جونیئر ہونے کے باوجود گاڑھی چھَنتی تھی۔ ریاست کے دیوان (وزیرِاعظم) کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے دونوں کو اپنے ہاں مدعو کرلیا۔ تقریبِ موسیقی کا آغاز ہوا تو استاد فیاض خان نے موقع محل کی مناسبت سے اپنا پسندیدہ راگ درباری چھیڑ دیا۔ کچھ وقت گزرا تھا کہ شاہی خانوادے کے رکن ایک مہمان کسَمسانے لگے اور پھر اُنہوں نے غزل کی فرمائش کردی۔ اِس پر استاد فیاض خان بھِنّا گئے۔ راگ روک کے سامان سمیٹا، اُٹھے اور عظیم پریم راگیؒ کی طرف اشارہ کرکے کہنے لگے۔



’’مجھے تو معاف ہی رکھو۔ مَیں جا رہا ہوں ، غزل وزل سننا ہو تو یہ بیٹھا ہے۔ اِس کو شعروشاعری کا شوق ہے اور گاتا بھی ہے۔‘‘ 

استاد فیاض خان کو روکنے کی بہت کوشش کی گئی، معافی تلافی ہوئی مگر وہ کہاں رُکنے والے تھے۔
ابتدا میں یہ بات بھی آچکی ہے کہ عظیم پریم راگیؒ شعر بھی کہتے تھے۔ آگے چل کر ہم اس کتاب میں اُن کا مجموعۂ کلام (جس حد تک دست یاب ہوسکا) بھی شامِل کریں گے۔ اُن کا بیش تر کلام عارفانہ ہے لیکن زمان ومکان کے حوالے سے لوگوں نے بہت سا کلام وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کردیا۔
ایک بار انہوں نے خواجہ اجمیریؒ کی درگاہ پر چوکی بھری اور ہندو، مسلمان سب سننے چلے آئے۔ انہوں نے ایک تربینی کہی:
’’ہِے (ہ) سے ہندو بن گیا اور ’’میم‘‘ (م) سے مسلم بنا



دونوں حرفوں کو مِلاؤ تم تو دیکھو ’’ہم‘‘ بنا

پھر برُا کِس کو جانوں، بھلا کِس کو مانوں؟


وہ آخری مصرعے کی تکرار کرتے جاتے تھے اور سامعین سر دُھنتے جاتے تھے۔

عظیم پریم راگی ؒ نے کچھ عارفانہ کلام بھی کہا ، اُن میں سے ایک، جس کا مصرعِ اولیٰ تھا:


ع ڈولی میں ہو جا سوار



ہر خاص و عام کے دِل کی آواز بن گیا۔ کچھ لوگ تھے جنہوں نے مالی منفعت کے حوالے سے اُسے شادی بیاہ پر گانے کی صورت دے دی۔ یہ وہ زمانہ تھا (1940ء کا عشرہ) جب برِّصغیر میں ہزماسٹرز وائس کمپنی کے ریکارڈوں کی دھوم تھی۔ انہوں نے عظیم پریم راگیؒ سے کہا کہ وہ یہ گیت اور اپنی کہی ہوئی یا دیگر حمد وثناء ریکارڈ کرادیں۔ اِس پر عظیم پریم راگیؒ نے جو جواب دیا، وہ واقعتاً کوئی بڑا آدمی ہی دے سکتا تھا۔ اُنہوں نے ذاتی منفعت کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے کہا:



’’مَیں حمد و ثناء پڑھتا ہوں۔ عارفانہ کلام اور قوّالیاں میرا اثاثہ ہیں۔ آپ کے ریکارڈ پر کُتے کی تصویر بنی ہوتی ہے۔ مَیں عارفانہ کلام اُس پر کیسے ریکارڈ کرا سکتا ہوں؟‘‘



اُن کے گائے ہوئے کلام اور قوّالیوں کو دوسری ریکارڈنگ کمپنیوں نے ریکارڈ کرکے جاری کیا اور عام سامعین تک پہنچایا۔ اِن میں معروف ریکارڈنگ کمپنی ینگ انڈیا (Young India) تھی۔

وقت بڑی تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ اور بہت سی ریکارڈنگ یا ریکارڈ وجود سے عدم میں چلے گئے۔ امیر خسروؒ کے فارسی کلامِ حمد ونعت جس سے عظیم پریم راگیؒ کو شہرت مِلی اور اِس کے ساتھ ساتھ امیر خسروؒ کا کلام زندۂ جاوید ہوا، آج وہ عظیم پریم راگیؒ کے البم میں موجود نہیں ہے۔ لہٰذا، ہم یہاں اصل متن شامِل کر رہے ہیں:


محمد شمعِ محفل بود شب جائیکہ مَن بوُدَم

امیر خسروؔ 


نمی دانم چہ منزل بود شب جائیکہ مَن بوُدَم

بہر سُو رقصِ بسمل بود شب جائیکہ مَن بوُدَم

ترجمہ: مجھے یقینی طور پر معلوم نہیں کہ وہ کون سا مقام تھا جہاں رات کے وقت مَیں گیا تھا۔ ہاں اِتنا جانتا ہوں کہ وہاں ہر طرف جاں نثار عاشقوں کا رقص ہورہا تھا، رات جہاں مَیں گیا تھا۔



پری پیکر نگارے سرو قدّے لالہ رُخسارے

سراپا آفتِ دل بود شب جائیکہ مَن بوُدَم 


ترجمہ: ایک نہایت حَسین و جمیل محبوب، دل آویز قد، نوُر برستاہوا چہرہ، دل کَش مکھڑے والا، وہاں تھا جہاں رات کے وقت مَیں گیا تھا۔



رقیباں گوش بر آوازِ اُو در ناز و مَن ترساں

سخن گفتن چہ مشکِل بود شب جائیکہ مَن بوُدَم


ترجمہ: دشمن اُس محفلِ مبارکہ کی روداد جاننے کے لئے گھات میں لگے ہوئے تھے، یعنی شیطان اِس حقیقت کو معلوم کرنے کے درپے تھا تاکہ راز فاش کردے ۔ دریں صورتِ حال وہاں کچھ کہنا اور بولنا کِس قدر مشکل تھا جہاں رات کے وقت مَیں گیا تھا۔



خدا خود میرِ محفل بود اندر لامکاں خسروؔ 

محمد شمعِ محفل بود شب جائیکہ مَن بوُدَم


ترجمہ: اے خسرو اِس واقعے کا ماحصل سُن۔ وہ مقام لا مکاں تھا یعنی اللہ تعالیٰ کے رہنے کی جگہ۔ اُس وقت خود رب تبارک وتعالیٰ اُس محفل کا صدر نشین تھا اور اُس محفل کو منوّر کرنے والے شمع صفت حضرت جناب روحی فداہ محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تھے جہاں رات کے وقت مَیں گیا تھا۔



اِس کی وضاحت میں میری مصدّقہ معلومات کے مطابق یہ روایت اور حقیقت پیشِ نظر ہے کہ اہل اللہ اور اصفیا کے نزدیک سماع عالمِ اسلام میں مروّج تھا۔ صوفیا حضرات، مشائخ، علماء، اہلِ معرفت، اولیاء اللہ اور بزرگانِ دین اُس کی روحانی مسّرتوں، لذّتوں، تجلّیاتِ حق اور جلوؤں سے ابتدا ہی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔

No comments:

Post a Comment