ذوالفقار علی بھٹو -آخرِ شب....رشید بٹ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Tuesday, 3 April 2018

ذوالفقار علی بھٹو -آخرِ شب....رشید بٹ

0 comments


اکتوبر 1983ء .... اِک ہوائے کرم تھی کہ مجھے پیچنگ سے اُڑائے اُڑائے دہلی لے آئی۔ پندرہ دن کے ویزے پر ۔ اور اس کے بعد مجھے پاکستان میں اپنی دھرتی پر پاؤں رکھنے تھے جہاں سے مَیں چھ سال پہلے اکتوبر 1977ء میں نکلا تھا۔ فوج کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ اُلٹے جانے کے لگ بھگ چار ماہ بعد.... تب پکڑ دھکڑ جاری تھی اور اب بھی، اتنے برسوں بعد.... ذہن کے کسی نہاں خانے میں یہ خدشہ موجود تھا کہ اپنی سر زمین پر قدم رکھتے ہی دھرنہ لیا جاؤں۔ 1980ء میں ایک دوست دہلی سے آتے ہوئے ایک کتاب لے آئے تھے  If I am Assasinated ۔ یہ پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ میں ذوالفقار علی بھٹو کا آخری بیان تھااور دہلی کے ویکاس پبلشرز نے کتابی شکل میں شائع کیا تھا، ہندوستان کے معروف و ممتاز صحافی پر ان چوپڑا کے پیش لفظ کے ساتھ۔ پران چوپڑا گو ہندوستان کے ایک نامور صحافی اور ادیب تھے،تاہم انہیں برِصغیر کے وسیع تر تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ 1921 ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ 1941ء میں لاہور کے انگریزی روزنامے ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ سے صحافت کا آغاز کیا جو تقسیمِ ہند سے قبل برِصغیر کے بڑے، معتبراور شہرت یافتہ اخبارات میں شمار ہوتا تھا۔ پران چوپڑا بھارتی اخبار ’’اسٹیٹسمین‘‘ کے چیف ایڈیٹر رہے۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں بنگلہ دیش کے حوالے سے ایک کتاب بھی شامل ہے۔فری لانس صحافی کی حیثیت سے چین، مشرقِ بعیداور جنوبی ایشیا کا طول و عرض ایک کیااور 1962ء میں چین بھارت سرحدی تنازعے کے وقت پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو سے شناسائی ہوئی جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی۔ اُن کا انتقال 92 برس کی عمر میں، 22 دسمبر 2013 ء کو ہوا۔بھٹو کے طویل بیان ’’If I am Assasinated‘‘ کی کتابی شکل میں اشاعت کے حوالے سے پیش لفظ لکھنے کے لیے پران چوپڑا سے بہتر شاید کوئی نہ تھا جن کی اولاً ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں آگہی قابلِ بھروسا تھی تو ثانیاً یہ کتاب پاکستان سے نہیں بلکہ ’’اسمگل‘‘ہوکر بھارت سے اشاعت پزیر ہورہی تھی۔ شاید یہی سبب تھا کہ 1979ء میں پران چوپڑا کے حوالے سے ہی کتاب کے ایک نوٹ میں لکھا گیا:

یہ تحریر قریب قریب، گوشۂ گمنامی میں جاچکی تھی۔
پاکستان میں اس کا بلیک آؤٹ کردیا گیا۔ اشاعت ممنوع قرار دے دی گئی۔ بھٹو کے وکلاء نے جس پرنٹنگ پریس سے اِسے چھپوانے کی کوشش کی اُسے سر بمہر کردیا گیا۔ لیکن گمنام ہاتھ اِسے اُس ’’بدبو دار کال کوٹھری‘‘ سے اسمگل کر لانے میں کامیاب ہوگئے جہاں بھٹو نے ’’کاغذ گھٹنوں پہ رکھ کے ‘‘اِسے لکھا تھا۔ یہ دراصل اس اپیل کا متن ہے جو ذوالفقار علی بھٹو نے لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے سزائے موت کے فیصلے کے خلاف پاکستان کی سپریم کورٹ میں کی تھی۔ اِس میں انکشافات بڑے خطرناک ہیں۔ اور اتنے سنسنی خیز کہ پاکستان کا حکمران ٹولہ کھلے عام اُن کا سامنا کرنے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے۔ بھٹو اس ٹولے پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ انہیں عوامی مقبولیت کے سنگھاسن سے اتارنے کے لیے ایک غیر ملکی طاقت کے ساتھ مل کر سازش کررہاہے۔ رشوت کھارہا ہے۔ یہ اپیل بادی النّظر میں مدعی کو ملزم کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنے کا ایک بلیغ بیان ہے۔

بھٹو پاکستان کے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہیں ، اتنا شعور اور آگہی رکھتے ہیں کہ کوئی دوسرا شاید اس کا دعویٰ نہیں کرسکتا! اور موت کے لہراتے سایوں نے اُن کی ژرف نگاہی اور معاملہ فہمی کو اور بھی اُجال دیا ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب، جنرل یحییٰ اور جنرل ضیا کی فوجی جنتاؤں کے کرتوتوں کی پردہ دری وہ بڑی بے خوفی سے کرتے ہیں۔

نقارۂ نیم شب بج چکا! وقت آن پہنچا!
بھٹو تختۂ دار پہ ُ جھول جائیں یا زندہ رہیں، نتائج بہر طور دُور رس ہوں گے۔ صدر یا اسیر، بھٹو سیاسیاتِ پاکستان کے فرمانروا رہے ہیں اور زندہ بھٹو یا اُن کی روح فرمانروا رہے گی۔۔۔
یہ کتاب تیسری دنیا کے ممالک کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کو درپیش خطرات کی پردہ کشائی ہی نہیں کرتے بلکہ اُن افریشیائی ممالک کو پیش آنے والے خطرات کا تذکرہ بھی کرتے ہیں جو عوامی حمایت پر مبنی حکومتیں قائم کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ فوجی طالع آزماؤں اور گئے وقتوں کے خفیہ سامراجی ہتھکنڈوں سے بچاؤ کے لیے بھی نبرد آزما ہیں۔ 
پران چوپڑا اپنے پیشِ لفظ میں لکھتے ہیں:
’’ اس بیان کی ایک نقل جو بقول بھٹو’ مَیں نے گھٹنے پہ کاغذ رکھ کے لکھا ‘،کال کوٹھری سے اسمگل کی گئی۔ یہ بیان کسی ردّ و بدل کے بغیر شائع کیا جارہا ہے۔ البتہ بعض حصوں کو ابواب کی شکل میں یکجا کرنے کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں کچھ تکرار پائی گئی، اُسے حذف کردیا گیاہے۔
انہوں نے انتخابات میں دھاندلی کی یا نہ کی ہو، یہ خوبی کال کوٹھری میں بیٹھے ایک ذہنِ رسا کی سوچ میں مضمر ہے۔ ایک ایسا ذہن جسے پاکستان میں (بانئ پاکستان قائداعظم )محمد علی جناح کے بعد سب سے ارفع اور جنوبی ایشیا کا ایک اعلیٰ ترین ذہن قرار دیا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ اس نوع کی سوچ کا خا صّہ ہوتا ہے، بھٹو کے بیان میں شوریدہ سری اور تکرار ہے۔ بعض مقامات پر اس میں بلاغت سے کام لیا گیا ہے توکچھ جگہوں پر از حد سادگی ہے۔ بھٹو کے فیصلوں پر جا بجا اُن کے احساسِ مسیحائی کا َ پر تو جھلکتا ہے۔ وہ بہ کمال فصاحت ،اِس اِیقان کا اظہار کرتے ہیں کہ صرف اور صرف وہی پاکستان کو نجات دلاسکتے ہیں اور عوام کو ظالموں کے شکنجے سے آزاد کراسکتے ہیں۔آخر میں یہ بیان ایک بلند پایہ سیاسی دستاویز کا روپ دھار لیتا ہے۔ یہ بیان پاکستان کے لیے آگہی اور معلومات کا اغلباًبیش بہا خزانہ ہے۔یہ بھرپور فکری گہرائی اور اہمیت کی حامل دستاویز ہے۔ یہ بیان ایک انسان اور اس کے دور کومنکشف کرتا ہے۔



یہ بیان بھٹو پر لگائے گئے الزامات کے توڑ میں مؤثر ہو یا نہ ہو، تاریخِ پاکستان کے طالب علم کے لیے یقینی طور پر مفید اور ترقی پزیر ممالک میں سیاسی عمل کے طلباکے لیے مفید تر ہے، کیونکہ اس میں پاکستان کا ایک سابق صدر اور وزیرِاعظم محض کسی عدالت کو مخاطب نہیں کررہا بلکہ اپنے شہ نشینِ فطانت پر براجمان ،تاریخ سے محوِ گفتگو ہے۔ وہ تیسری دنیا کے ایک انتہائی دلچسپ ملک میں بے مثل آپ بیتی کہہ رہا ہے۔

بھٹو کچھ بھی کرتے رہے ہوں، پاکستان کے عوارض کے جو حل انہوں نے تشخیص کیے ،وہ نہ صرف خود ان کے ، پاکستان کے لیے، بلکہ تیسری دنیا کے اُن ممالک کے لیے بھی درماں کا درجہ رکھتے ہیں جو اپنے ہاں جمہوری روایات کو فروغ دے رہے ہیں۔ بھٹو پر عائد الزامات اور اُن کے جوابی الزامات دونوں ہی ثابت کرتے ہیں کہ فوجی یا سِول، مطلق العنانیت نے پاکستان کے سیاسی نظام کو حد درجہ بدعنوان بنادیا ہے۔ یہ سیاسی نظام اُن تمام روایات کے بندھنوں سے آزاد ہوچکا ہے جو کسی صحت مند سیاسی معاشرے میں حاکمانہ اختیارات کے جابرانہ استعمال کی راہ میں بہترین رکاوٹ ثابت ہوتی ہیں۔
بھٹو نے پاکستان کے سیاسی نظام میں مارشل لا کی طرف میلان کا جو خوبصورت تجزیہ اپنے بیان میں پیش کیا، اسے تیسری دنیا کے رہنماؤں کے لیے غالباً مفید ترین حصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ بھٹو کسی بھی سیاست دان کی نسبت ، (وہ زندہ ہو یا دارِ فانی سے کوچ کر چکا ہو)وجودِ پاکستان کی بہتر آگہی رکھتے ہیں اور مختلف ادوار میں شریکِ مارشل لا اور کشتۂ مارشل ہونے کے ناتے اُنہیں مارشل لا کی طرف پاکستان کے میلان کا بہتر تر شعور حاصل ہے۔ اِسی ناتے وہ ترقی پزیر ملکوں کو متنبہ کرنے کی خصوصی اہلیت رکھتے ہیں اور بڑی فصاحت سے انہیں ’اچانک فوجی قبضے کے ذریعے تسلط‘ (Coupgemony) سے خبردار کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح بھٹو کی اعلیٰ سیاسی فطانت کی تخلیق ہے۔
وہ دیسی ساخت کے ’اچانک فوجی قبضے کے ذریعے تسلط‘ کے خطرے اور خارجی بالادستی کے خطرے کو یکساں قرار دیتے ہیں اور عوام کی جمہوری اور فطری امنگوں پر دونوں طرح کے اِس جبر کی بھرپور مذمّت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اچانک فوجی قبضے کے ذریعے تسلط‘ ایک ایسا پل ہے جس پہ چل کے بالادستی (Hegemony)آتی ہے۔‘‘
اِسے ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ 1973ء میں جب مسلح افواج نے بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کی پہلی کوشش کی تو بھٹو نے اُسی شخص کوتحقیقاتی کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا تھا۔ (ذرا ماضی میں جائیے، یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ ترکی میں جب فوجی جرنیلوں نے ڈیمو کریٹک پارٹی کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر وزیراعظم میندریس، وزیر خارجہ زور کو اور وزیر خزانہ کریپتکان کو سزائے موت سنائی تو صدر ایوب نے اِن سزاؤں پر عمل درآمدرکوانے کی غرض سے بھٹو کو اپنے خصوصی ایلچی کے طور پر انقرہ بھیجا۔ بھٹو اس مشن میں ناکام رہے اور سزاؤں پر عمل درآمد ہوگیا)۔ جنرل ضیا نے تحقیقاتی کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے جو کچھ سیکھا خوب تر ہی سیکھا ہوگا!



قاری کو اس بیان میں جا بجا بکھرے جواہر ہائے دانش یکجا کرنے کے لیے پوری دستاویز کھنگالنے کی ضرورت محسوس نہ ہوگی۔ بھٹو نے بلوچستان کے بارے میں جو کچھ کہا، اُس میں اِن جواہر پاروں کا مکمل تر مفہوم بڑے دلفریب انداز میں آشکار ہوجاتا ہے۔ بلوچستان بعض اوقات علامتی اور عملی ہر دو اعتبار سے، اور بسا اوقات صرف اور صرف عملی اعتبار سے پاکستان کے کسی بھی دوسرے صوبے کی نسبت زیادہ عرصے تک فوج کے زیرِ تسلّط رہا ہے۔ یہاں بھی بھٹو جس عمل کی مذمّت کرتے دکھائی دیتے ہیں، اُس کی کچھ ذمہ داری گو خود اُن کے سر بھی جاتی ہے لیکن وہ ساتھ ہی اپنے خصوصی معاون راؤ عبدالرشید کا لکھا ہوا ایک نوٹ بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ نوٹ کسی لیبارٹری ٹیسٹ کی مانند ہے کہ جب قواعد و ضوابط کو فوجی ایڑی تلے کچلا جاتا ہے تو سیاست، انتظامیہ اور عملاً پورے معاشرے پرکیا بیتتی ہے؟

یہ بیان علمِ سیاسیات کی کسی بھی لائبریری میں ایک عمدہ اضافے کا درجہ رکھتا ہے۔ پاکستان کے فوجی حکمران دانا ہوتے تو اس بیان کو دبانے کی بجائے ہر فوجی اسکول کے لیے لازمی درسی مواد قرار دے دیتے کیونکہ اس میں بڑے دلنشیں پیرائے میں جائزہ لیا گیا ہے کہ فوج جب سیاست میں منہ مارنے لگتی ہے تو کس کس رنگ میں وہ سیاسی نظام کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ضرر پہنچاتی ہے۔ سیاست ایک ایسا کھیل ہے جس کی فوج صلاحیت رکھتی ہے نہ تجربہ۔ اُس کا طبعی میلان بھی اُدھر نہیں ہوتا۔ فوج اپنے اصل حربی کردار کو پسِ پشت ڈال کر ہی یہ خصوصیات حاصل کرتی ہے۔
یہ بیان کیا تھا.... تاریخ کا ایک دھارا تھا۔ ایک دریائے فصاحت تھا۔ مَیں نے اِس کا اردو ترجمہ کیا، یہ سوچ کے کہ کبھی تو وقت آئے گااور مَیں اِسے اپنے وطن میں کتابی صورت میں چھاپ کے شائع کر دوں گا ۔ اور جو وقت آنے پر مَیں نے کیا۔
اگلے روز مَیں کناٹ پلیس، دہلی میں ویکاس والوں کی دکان پہ جا پہنچا اور سیاسیات کے موضوع پر کتابیں دیکھنے لگا۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ کتاب فروش بہت بڑا نفسیات دان ہوتا ہے۔ کاؤنٹر کے ایک گوشے میں کھڑے، ایک صاحب نے، ایک نامانوس اور اجنبی سی صورت کو یوں کتابوں میں کھویا دیکھا تو قریب آگیا۔ اُس کے نظریں میری نگاہوں کے ساتھ ساتھ چل رہی تھیں۔ پھر اُس نے کتابوں کے بارے میں بات چھیڑ دی اور باتوں باتوں میں اچانک سوال جَڑ دیا، ’’آپ یہاں کے تو نہیں لگتے، کہاں سے آئے ہیں؟ اب میرے پاس اپنا پس منظر اور دکان پہ آنے کا سبب بتائے بِنا کوئی چارہ نہ تھا۔ بات کرتے کرتے وہ ایک جانب جھکا اور ایک کتاب میرے سامنے رکھ دی۔ ’’آپ کو If I am Assasinatedمل گئی مگر یہ نہ ملی ہو گی۔‘‘ میرے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کی ایک اور کتاب Notes From Death Cell رکھی تھی۔اُن صاحب نے If I am Assasinated کا نام لیا تو میں رہ نہ سکا۔’’ذرا رکیے،آپ نے اس کتاب کا جائزہ لیا ہے؟ مَیں جب پیچنگ میں اِس کا اردو ترجمہ کررہا تھا تو ایک بہت بڑی غلطی سامنے آئی۔ ایک جگہ اس کا تسلسل ٹوٹ گیا اور اس میں بے ربطی آگئی ہے۔‘‘ مَیں نے اُن سے ایک کاپی لے کر صورتِ حال واضح کردی ۔ وہ ذرا پریشان ہوئے اور کہا کہ اگلے ایڈیشن میں اِس کی تصحیح کردی جائے گی۔ اصل میں ہوا یہ کہ Copy Pasting کے دوران دو صفحے غلط جگہوں پر لگ گئے تھے۔مَیں نے بعد کا ایک ایڈیشن بھی دیکھا لیکن وہ غلطی اپنی جگہ تھی۔ 1989ء میں جب پاکستان میں کتاب کا ترجمہ مَیں نے خود شائع کیا تو پیش لفظ میں اس کی یوں نشان دہی کی :


دہلی سے شائع شدہ اصل انگریزی کتاب میں غالباً طباعت کے عمل میں کئی صفحات آگے پیچھے ہوگئے۔ اور اس کے بعد ’’مقلّدین‘‘ اُسی مکھی پہ مکھی مارتے رہے۔ ایک اور صاحب نے اردو ترجمہ کیا،تو انہوں نے بھی اس فاش غلطی سے صرفِ نظر کیا جس کی بناء پر بیس پچیس صفحات پر پھیلا مفہوم یکسر تلپٹ ہوگیا تھا۔ مَیں وضاحت کردوں کہ دہلی سے شائع شدہ انگریزی ایڈیشن کے صفحہ 64 کی آخری سطر میں کیبنٹ سیکریٹری وقار احمد کا ذکر ہے جبکہ صفحہ 65 کی پہلی سطر میں یکلخت پنجاب کے سابق وزیرِاعلیٰ جناب حنیف رامے اور حیات محمد ٹمن کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے۔ کتاب چھاپتے وقت شاید کاپیاں غلط جڑ گئی تھیں، لہٰذا صفحات آگے پیچھے ہوگئے تھے۔ پھر یہ غلطی مسلسل دہرائی جاتی رہی۔ ہمارے فاضل مترجم نے اتنے بڑے فرق اور فاش غلطی پر کوئی توجہ نہ دی اور حالات و واقعات کی بے ربطی کو برقرار رکھا۔ اگرذرا سی احتیاط سے کام لیا جاتا تو صفحہ64 کا سلسلہ آگے چل کر صفحہ 77 پر مل جاتا، جو حقیقت میں صفحہ 65 ہے۔ اور اس صفحے کا تسلسل پھر سے پیچھے آنے کے بعد صفحہ 65 پر ملتا ہے جو اصل میں صفحہ 66 ہے، جس پر نمبر غلط لگا ہوا ہے۔

بعد ازاں پاکستان پیپلز پارٹی کے قائم کردہ ایک ادارے نے بھٹو صاحب کی کئی کتابیں اور اُن پر لکھی گئی اس کتاب سمیت متعدد کتابوں کو PDF شکل میں اپنی Website پر جاری کیا لیکن کسی نے اس غلطی کی تصحیح نہیں کی ۔ بلکہ دونوں جگہ گرامر کی غلطیاں سمجھ کر اُن کی بزعمِ خود اصلاح کردی ،لیکن متن کے تسلسل میں جھول بدستور موجود ہے۔ جناب فخر زمان نے بھی یہ کتاب ایک Website پر ’’برائے فروخت ‘‘لگارکھی ہے لیکن وہ بھی شاید تصحیح کے بغیر ہے۔ جناب فخر زمان کو چاہیے کہ اِس غلطی پر توجہ دیں جو گزشتہ 36 برس سے چلی آرہی ہے۔
ہم موضوع پرواپس آجاتے ہیں:
Notes From Death Cellکے مرّ تب کا نام تھا B.L.Kak ۔مَیں نے ورق گردانی شروع کی تو اندازہ ہوا کہ بھٹو تو تاریخ میںُ گندھی الہامی سیاست کا یگانہ تھا۔
اِن دونوں کتابوں کے ہندوستان پہنچنے کی دلچسپ کہانی بھی سامنے آئی۔ ضیائی دور میں اُن کی پاکستان میں اشاعت کی کوششیں چوں کہ ناکام ہو چکی تھیں لہٰذا دونوں مسوّدے، یعنی If I am Assasinated اور Notes From Death Cell پُرزوں کی شکل میں اسمگل ہو کے ممتاز کشمیری صحافی بی۔ ایل۔ کاک تک پہنچے۔ ’’روزنامہ آفتاب‘‘، سری نگر نےIf I am Assasinated کے کچھ حصوں کا ترجمہ کرکے چھاپ دیا۔ بعدازاں مکمل مسوّدہ ویکاس پبلشرز دہلی اور Notes From Death Cell بی ۔ایل۔ کاک نے شائع کیے۔ Notes From Death Cellکے بارے میں ابتداً اِن شکوک کا اظہار کیا گیا کہ یہ من گھڑت ہیں۔ لیکن اُن کی زبان اور اندازِ تحریر و بیان نے بالآخر ثابت کر دیا کہ یہ ’’پُرزے‘‘، ہوائی پُرزے نہ تھے۔



کشمیری ہونے کے ناتے مجھے ایک معاملے میں آل انڈیا کانگریس کمیٹی کی کشمیری رکن اور کمیٹی کی جوائنٹ سیکریٹری محمودہ بیگم سے ملنا تھا۔ معاملہ کیا تھا؟ مَیں اپنے آبائی شہر جمّوں جانا چاہتا تھاجہاں سے تین چار سال کی عمر میں،اگست 1947ء میں برِصغیر کی تقسیم کے بعد نکلا تھا۔ اور بڑھتی عمر کے ساتھ یہ خواہش فزوں تر ہوتی جارہی تھی کہ اپنی جنم بھومی ایک بار پھر دیکھ لوں۔ محمودہ بیگم نے اس وقت کی بھارتی وزیرِاعظم مسز اندرا گاندھی تک سے میری ملاقات کرادی لیکن اجازت نہ مل پائی۔ محمودہ بیگم ایک دن،باتوں باتوں میں کہنے لگیں، ’’تمہارے ذوالفقار علی بھٹو آخر کیا شے تھے؟ وطن کی ّ محبت اور اصول پرستی کا جھنڈا بلند رکھتے ہوئے سُولی پہ جُھول گئے اور اَن گنت لوگوں کو زندہ رہنے اور مشکلات کا سامنا کرنے کا حوصلہ دے گئے۔ تمہاری جانب اگر عام لوگ اُن کے نام پر کوڑے کھا رہے ہیں تو سرحدوں کے اِدھر کشمیری بھی ذوالفقار علی بھٹو کی عظمت کے گیت گاتے نہیں تھکتے۔‘‘ مَیں کیا جواب دیتا۔۔۔اِک طمانیت ، اور’’ چھُپا‘‘کے دونوں کتابیں لیے، مَیں سرحد پار کر کے اپنی دھرتی پہ لوٹ آیا۔

ذوالفقار علی بھٹو جغرافیائی حد بندیوں کی حامل سیاسیاستِ عالم پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اُن کے نوٹس (Notes)پڑھ کے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ تاریخ کا دامن تھامے جب وہ ماضی، حال اور مستقبل کے متوقع احوال و واقعات کا تجزیہ کرتے ہیں، پیش گوئیاں کرتے ہیں تو اُن پر اپنی اَنا یا سَند کی مہر ثبت نہیں کرتے بلکہ سیاسیات کے ایک طالب علم کا اندازروا رکھتے ہیں۔ انہوں نے 1970ء کے عشرے میں روس، امریکا، افغانستان اور ہندوستان، جنرل ضیا، جنرل ایوب، سب کے بارے میں کال کوٹھری میں بیٹھ کر اور سرِمقتل جو سیاسی اور تاریخی پیش گوئیاں کیں، وہ حقیقت کا روپ دھار کے ایک تسلسل کے ساتھ سامنے آ رہی ہیں۔انہوں نے جو کچھ کہا وہ ایک سیلِ رواں ہے، اور ہر دور کے مورّخوں کے لیے انمٹ دستاویز !
ذوالفقار علی بھٹو نے اِس ملک، اپنے وطن، پاکستان کے عوام کو جن جمہوری اور سیاسی راہوں پر گامزن کیا، انہیں زبان دی، آواز دی، جمہوریت اور سیاست کی سنگلاخ راہوں پر چلنے کا جو حوصلہ بخشا، راہ میںآنے والی فوجی ُ جنتاؤں ایسی رکاوٹوں کو عبور کرنے کی جو ہمت دی، اس کی توضیح کے لیے ہمیں کم و بیش 1945ء کے زمانے میں لوٹنا ہوگا۔ تاریخ سبق تو سکھاتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بے رحم بھی ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے پورے سیاسی کردار میں اور اُس عرصۂ محشر میں جہاں وہ اپنے عوام کو جمہوریت کا شعور اور آگہی دے رہے تھے، بہت سے سیاسی مخالفین اُن پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے۔ کسی نے انہیں ملک دشمن، ملک توڑنے والا، جاگیردار، فیوڈل سوچ رکھنے والا کہا تو کوئی انہیں دائرۂ اسلام ہی سے خارج کرنے پرُ تلا رہا۔ اِن ساری باتوں کے توڑ کا آغاز امریکی جریدے ’’نیوزویک‘‘ (Newsweek) کے 1945ء سے 1948ء کے شمارے کرتے ہیں۔ اِس جریدے میں ذوالفقار علی بھٹو کی تحریریں اور خطوط جریدۂ عالم پر گویا ثبت ہو کر دوام پا چکے ہیں۔ وہ سرمایۂ شبّیریؓ ہیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جب برِصغیر میں تحریکِ حصولِ پاکستان پورے زوروں پہ تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو تب امریکا میں تعلیم حاصل کر رہے تھے مگر اُن کی سرگرمیاں، اُن کی جواں سال توانائیاں اُس تحریک کے ساتھ تھیں۔ اُن کا قلم چل رہا تھا- ’’نیوز ویک‘‘ کے صفحات پر۔ قیامِ پاکستان کے بعد کسی بھارتی نے اُسی امریکی جریدے میں بانئ پاکستان قائدِاعظم محمد علی جناح کے خلاف مضمون لکھ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھے جب تک انہوں نے قائدِاعظم کی بلند کر داری اور کامیابیوں کے حوالے سے ’’نیوز ویک‘‘ میں اپنا ایک جامع اور مبسوط مضمون نہ چھپوالیا۔ وہ دل و جان سے پاکستانی تھے۔ محبِ وطن تھے۔ جمہوریت پسند ہی نہیں، جمہوریت پرست تھے۔ اِسے حالات و واقعات کا ستم اور تاریخ کا جبر جانیے کہ انہیں اقتدار کی غلام گردشوں میں آنے کے لیے فوجی بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑا اور کچھ عرصہ اُن کے ساتھ ہی چلنا پڑا۔ لیکن حقائق آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ انہوں نے اِسی ملک، اپنے وطن پاکستان کے کچلے اور پسے ہوئے عوام کو سر اُٹھا کر چلنے کا درس دیا۔ بلکہ انہیں ساتھ لے کر چلے۔ بانئ پاکستان قائدِاعظم کے بے وقت انتقال، ایک گہری سازش کے تحت وزیرِاعظم لیاقت علی خان کے قتل اور دوسری سازشوں نے بھاری فوجی بوٹوں کی دھمک تیز تر کردی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس نے ملک کی سالمیت اور یکجہتی کے خلاف کام کیا؟ ایوب خان نے سندھ، ستلج، چناب، راوی اور جہلم جیسے دریاؤں کا پانی ہندوستان کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کسی نے نہ پوچھا، بلکہ عالمی خصوصاً امریکی دباؤ میں انڈس بیسن ٹریٹی (Indus Basin Treaty) پر بڑی واہ واہ ہوئی۔ تاریخ کے دھارے کو ہم تھوڑا سا پیچھے لے جائیں تو دیکھتے ہیں کہ جب ریڈ ِ کلف کمیشن (Redcliffe Commission)ہندوستان اور پاکستان کی پنجاب باؤنڈری لائن کی نشاندہی کر رہا تھا تو اُس کے ارکان میں برٹش انڈین آرمی کی طرف سے کرنل محمد ایوب خان شامل تھے، یہ وہی جنرل بلکہ ’’فیلڈ مارشل ‘‘ ایوب خان تھے جو بعدازاں پاکستان کے فوجی آمرحکمران بنے۔ اِسی کمیشن نے 17 اگست 1947ء یعنی 14اگست 1947ء کو قیامِ پاکستان کے ٹھیک چار دن بعد مسلمان اکثریتی آبادی والے علاقے گورداس پور، اجنالہ تحصیل اورتحصیل قصور کا دو تہائی حصّہ ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیاتھا۔ اور افسوس کی بات تو یہ رہی کہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت میں سے کسی نے بھی اِس پر اعتراض نہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کرنل ایوب کو کس ’’قوت‘‘ نے، کس بنیاد پر کمیشن کا رکن بنایا؟ حساس معاملے میں کون اِس فاش غلطی کی پشت پناہی کر رہا تھا؟ کیا یہ نئے وطن، اپنی سر زمین، اپنی مٹی سے غداری نہیں تھی؟

سیاسی جوڑ توڑاور ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں سکندر مرزا پاکستان کے صدر بن چکے تھے۔ قدرت اللہ شہاب اُن کے سیکریٹری تھے۔ شہاب صاحب اپنی کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

ذوالفقار علی بھٹو اور قدرت اللہ شہاب چین کے شہر کینٹن میں 
ایک مسلمان بزرگ کے مزار پر فاتحہ خوانی کر رہے ہیں
’’سکندر مرزا ایک روز اچانک میرے کمرے میں آئے اور بولے، ’’تم زُلفی کو جانتے ہو؟‘‘ یہ نام میرے لیے قطعی اجنبی تھا۔مَیں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ بڑے حیران ہوئے اور کہنے لگے،‘‘ تعجب ہے تم رُلفی کو نہیں جانتے۔ بڑا اسمارٹ لڑکا ہے۔۔۔ وہ ایک نوجوان بیرسٹر ہے۔ بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ سندھ کے امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کا بڑا شوقین ہے۔ وہ ایوانِ صدر کی لائبریری میں سندھ سے متعلق جو بہت سی کتابیں ہیں، انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔‘‘ صدر مرزا نے مجھے ہدایت کی کہ مَیں ٹیلی فون کرکے اُس نوجوان کو اپنے پاس بلاؤں اور پریذیڈنٹ ہاؤس کی لائبریری استعمال کرنے میں اُس کی مدد کروں۔
میرے بلاوے پر ایک چھریرے بدن کا نہایت خوش شکل، خوبصورت، تیز طرّار، شوخ اور سیماب صفت نوجوان میرے کمرے میں وارد ہوا۔ مسٹر بھٹو میں بلا کی ذہانت اور فطانت تھی۔ اور اُنہیں جدید علوم اور اُن کے اظہار پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ چند ہی روز میں انہوں نے پریذیڈنٹ ہاؤس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کے رکھ دیا۔ ایک روز وہ میرے کمرے میں بیٹھے کسی کتاب سے کچھ اقتباسات ٹائپ کروا رہے تھے کہ صدر سکندر مرزا دن کے ایک بجے میری کھڑکی کے پاس آکر رُکے۔ بھٹو صاحب کو دیکھ کر انہوں نے بلند آواز سے کہا،
’’زُلفی،ُ گڈنیوز فاریوُ۔ تمہارا نام یو این او کے ڈیلی گیشن میں شامل ہو گیا ہے۔‘‘
یہ خبر سن کر بھٹو صاحب خوشی سے سرشار ہو گئے۔ صدر مرزا کے جانے کے بعد انہوں نے انگریزی ڈانس کی طرز پر میرے کمرے کے ایک دوچکر کاٹے اور پھر مجھے مخاطب کرکے اپنی مخصوص اردو میں کہا۔
’’آپ صاب دیکھو گے کہ اب مَیں اِس راہ پر آیا ہوں تو فارن منسٹر کی کرسی تک دوڑ لگاؤں گا۔‘‘ 
بھٹو صاحب وزیرِ خارجہ کی منزل سے بہت آگے تک گئے۔ اور انجامِ کار اقتدار کے میدان کو یوں چھوڑا:
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے 
اپنی پہلی ملاقات ہی سے وہ مجھے ’آپ صاب‘ کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔ وزیر، وزیرِاعظم اور صدر کی حیثیت سے بھی انہوں نے اِس اسلوبِ تخاطب کوبڑی وضع داری سے نبھایا۔ اُن کے عروج کے آخری دَور میں بہت سے وزیروں اور اعلیٰ افسروں کو اکثر یہ شکایت رہتی تھی کہ بھٹو صاحب کابینہ اور دوسری میٹنگوں میں اُن کے ساتھ بڑی سختی، بدسلوکی اور ہتک آمیز روّیے سے پیش آتے تھے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا۔ مَیں جیسا ’آپ صاب‘ شروع میں تھا، ویسا ہی آخر تک رہا۔‘‘
’’شہاب نامہ‘‘ کے اقتباس میں ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کئی سوالوں کے جواب بھی ملتے ہیں۔ مثلاً اُن کا اندازِ تخاطب، رکھ رکھاؤ، اقتدار کی راہوں پر آگے بڑھنے کی خواہش۔ تاہم بعض سوال بھی پیدا ہوتے ہیں جو اُن کے سیاسی مخالفین، اُن کے دمِ واپسیں تک کرتے رہے۔ اُن کا فیوڈل سوچ کے برعکس عوامی انداز۔ 
یہ درست ہے کہ وہ ایک جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ اُن کی جواں سالی کا زمانہ کس ماحول میں گزرا؟ ذوالفقار علی بھٹو نے امریکا اور برطانیہ کے جن شہروں اور تعلیمی اداروں میں تعلیم پائی اور وقت گزارا، اُن میں ہر کوئی جاگیر دار یا فیوڈل گھرانوں سے نہیں آیا تھا۔ عموماً متوسط طبقے کے طلبا اور ساتھیوں سے اُن کا ربط ضبط رہا۔ اور اِسی ماحول نے اُن میں ذہنی اور قلبی وسعت پیدا کی ۔ عام آدمی کے مسائل اور وسائل سے وہ آگاہ ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نیو یارک کے بارے میں اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ’’ یہ تو سیمنٹ اور سریے کا جنگل ہے۔‘‘ چائے خانوں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو دیر ہو جانے پر چائے خانے والے دروازے بند کرنا اور بتیاں بجھانا شروع کر دیتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو اوراُن کے دوست اٹھتے ہوئے، ویٹر کو ٹپ (TIP) نہیں دیتے کہ ’’یہ کیا بات ہوئی۔ ہم چائے پی رہے ہیں، باتیں کر رہے ہیں اور انہوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے؟‘‘
ماہرینِ عمرانیات کی رائے ہے کہ نوجوانی کے زمانے کی باتیں اور خیالات ذہن پر جو نقوش چھوڑتے ہیں وہ دوام پا جاتے ہیں۔ اور شاید یہی کشادہ ذہنی اور عوامی افکار عملی زندگی میں اُن کے لیے نشانِ راہ بنے۔ اُن سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں، فیوڈل سوچ بھی اکثر غالب آئی لیکن، عوام میں شعور کی بیداری اور پختگی کا جو ارفع کام انہوں نے کیا وہ اُن کی خامیوں یا کمزوریوں پر غالب آجاتا ہے۔ بانئ پاکستان قائدِاعظم محمدعلی جناح کے تذکرے کا یہ موقع نہیں۔ اُن کے بعد آنے والی سول یا فوجی قیادت میں ہمیں کوئی ایسی مقتدر شخصیت نہیں ملتی جس کے لیے عام آدمی دیوانہ ہو گیا ہو۔ جس کے ساتھ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہو، جس کے لیے لوگوں نے خودسوزی کی ہو، جیلیں کاٹی ہوں، کوڑے کھائے ہوں۔۔۔ لاہور اور قرب و جوار کے علاقوں میں آج بھی ایسے لوگ مل جائیں گے جن کے پاس بھٹو صاحب کے کوٹ کا کوئی ٹکڑا تبرّک کی مانند محفوظ ہو کہ ایک عام جلسے میں بھٹوصاحب نے اپنے سامنے سیل کی مانند اُمنڈتے ہجومِ بے کراں کو دیکھ کر وفورِ جذبات میں اپنا کوٹ اُتار کے اُچھال دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اُس کے اَن گنت ٹکڑے ہوگئے۔ جس کے ہاتھ جو ٹکڑا لگا وہ تبرّک سمجھ کے لے گیا۔ بھٹوصاحب کی کرشماتی شخصیت میں، بہر طور، کچھ تو تھا۔ ہم جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ جمہوریت، جمہور سے بنتی ہے۔ اور آج بھٹو صاحب کو جاں سے گزرے 36 برس بیتنے کے باوجود عوام کے لیے انہیں بھول جانا ممکن نہیں ہو سکا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی بصیرت اور اِس راہ پر اُن کی پیش رفت بھی حیرت بداماں کر دیتی ہے۔ 1962ء تک، ہم دیکھتے ہیں کہ ہندی چینی بھائی بھائی کے نعرے نے جنوبی ایشیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ چین، پاکستان کے دو سال بعد آزاد ہو ا۔ گو، پاکستان کے حوالے سے چین نے کبھی بھی مخالفانہ روّیہ اختیار نہیں کیا یا اِس کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن دیکھا جائے تو پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی گہری بنیاد یں رکھنے والے اور اِس کے عملی معمار ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ چین نے آزادی کے بعد برما اور نیپال کے ساتھ معقول سرحدی معاہدے کیے جبکہ سرحدی مسائل ہندوستان اور پاکستان کے ساتھ بھی تھے۔ اور یہ مسائل انگریزوں کے نوآبادیاتی دور کے چھوڑے ہوئے تھے۔ ہندوستان نے اِس سلسلے میں چین کے ساتھ رقابت اور مسابقت اختیار کی کیونکہ وہ ایشیا کی قیادت کا دعوے دار بن رہا تھا۔ نتیجہ 1962ء میں چین اور ہندوستان کے درمیان سرحدی جھڑپوں کی صورت برآمدہوا اور دونوں ملکوں کے تعلقات سرد مہری کی انتہائی نچلی سطح پر جا پہنچے۔ یہاں مجھے رئیس امروہوی کا ایک مصرع یاد آگیا۔ چین اور ہندوستان کے درمیان متنازعہ سرحدی علاقے کو جغرافیائی لحاظ سے "North Eastern Frontier Area"کہا جاتا ہے جس کا مخفف (NEFA) اور اردو میں ’’نیفا‘‘ بنتا ہے۔ اس سرحدی جھڑپ کے بعد رئیس امروہوی نے اخبار میں قطعہ لکھا جس کا ایک مصرع تھا:
ع چین کے ہاتھوں میں بھارت کا نیفا ہے
ایسے حالات میں بحیثیت وزیرِ خارجہ پاکستان، بھٹو صاحب نے صدرایوب خان کو قائل کر لیا کہ چین کے ساتھ سرحدی سمجھوتا کیا جائے اور جب تک سمجھوتے پردستخط نہ ہو جائیں، اُسے خفیہ رکھا جائے۔ ایسا ہی ہوا اور فروری 1963ء میں اِس سمجھوتے پر دستخط ہو گئے۔
بھٹو صاحب اپنی سوچ کے اعتبارسے عالمی سطح کے مدّبر اور سیاست داں تھے۔ انہوں نے اسلامی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو ایک نئی جہت دی۔ لاہور میں منعقدہ اسلامی سربراہ کانفرنس اس جہت کا نقطۂ عروج تھی۔ ہماری ایک بد قسمتی یہ بھی ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک میں مطلق العنان بادشاہتوں اور آمرانہ حکومتوں کا رواج ہے۔ بھٹو صاحب نے اس نوع کی سیاسی برف کو پگھلانے کی کوششیں کیں اور اگر عالمی طاقتیں اُن کی خود مختارانہ پالیسیوں اور آزادئ فکر کے خلاف نہ ہوتیں اور انہیں سازش کے تحت ہٹا کر دنیا ہی سے رخصت نہ کروا دیتیں تو آج شاید اسلامی دنیا کا حال کچھ بہتر اور جداگانہ ہوتا۔ پاکستان، جغرافیائی لحاظ سے، امریکا، روس اور دیگر یورپی طاقتوں کے لیے انتہائی اسٹرٹیجک پوزیشن کا حامل ہے، لہٰذا ایک طاقتور اور خود مختار پاکستان، اِن قوتوں کے حق میں نہیں جاتا۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو ہی تھے جو اپنی سیاسی بصیرت اور آگہی کو کام میں لاتے ہوئے 93 ہزار پاکستانی جنگی قیدیوں کو ہندوستان سے نہ صرف چھڑا لائے بلکہ پانچ ہزار مربع میل کا علاقہ بھی واپس لیا۔ بھٹو جیسا شخص جوپاکستان کے دولخت ہونے پر اقوام متحدہ میں رو دے، ہندوستان کے ساتھ ہزار سال تک جنگ اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی خاطر گھاس تک کھانے کی بات کرے، وہ ملک دشمن کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ ملک توڑنے کے عمل میں حصّہ دار کیسے ہوسکتا ہے؟ 
فروری 1963ء ہی کی بات ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان سرحدی سمجھوتے پر دستخط ہو چکے تھے۔ وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو پر چینی اعلیٰ حکام کتنا بھروسا اور اعتماد کرتے تھے، اِس کا اظہار ایک واقعہ سے ہوتا ہے۔ سمجھوتے پر دستخطوں کے بعد چین کے عظیم رہنما چیئرمین ماؤزے تونگ سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔ اِس وفد میں قدرت اللہ شہاب بھی شامل تھے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اُس وقت چیئرمین ماؤ کی عمر اسّی برس کے لگ بھگ تھی۔ لیکن اُن کا گول مٹول، نیم خوابیدہ چہرہ بچوں کی طرح پُرسکون اور مطمئن دکھائی دیتا تھا۔ مسٹر بھٹو کے ساتھ گفتگو کا آغاز کرتے ہی چیئرمین ماؤ نے جو پہلا سوال کیا وہ یہ تھا:
? IS EAST PAKISTAN TRANQUIL 
(کیا مشرقی پاکستان میں امن و امان ہے؟)
اُس زمانے میں مشرقی پاکستان میں بظاہر کسی خاص شورش کے آثار نمایاں نہ تھے۔ اس لیے چیئرمین ماؤ کا یہ سوال مجھے کسی قدر بے تُک، بے موقع اور بے محل محسوس ہوا۔ لیکن اِس کے بعد کئی دعوتوں اور استقبالیوں میں وزیرِاعظم چواین لائی اور وزیرِ خارجہ مارشل چھن ای اور چند دوسرے چینی اکابرین بھی اپنے اپنے انداز سے ہمیں مشرقی پاکستان کے متعلق خاص طور پر باخبر اور چوکنّا رہنے کی فرداً فرداً تاکید کرتے رہے ۔‘‘
اِن احوال کی روشنی میں بھٹو صاحب مشرقی پاکستان یا آج کے بنگلہ دیش کے معاملات میں اتنے غبی نہیں ہوسکتے تھے۔ انہیں دانستہ طور پر غلط فوجی یا سیاسی اقدامات میں گھسیٹاگیا۔ 
قدرت اللہ شہاب1965ء میں ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر تھے ۔ وہ مزید لکھتے ہیں: 
’’پاکستان اور ہندوستان کے درمیان 1965ء کی جنگ میں سیز فائر کے بعد بھٹو صاحب نیو یارک سے واپسی پر لندن سے گزرے ۔ وہاں سے وہ ایسے ہوائی جہاز میں بیٹھے جو ایمسٹرڈیم میں بھی رُکتا تھا۔ ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر اُتر کر انہوں نے مجھے ہیگ میں ٹیلی فون کرکے کہا،
’ مَیں یہاں صرف تم سے ملنے اُترا ہوں۔ فوراً ایئرپورٹ آجاؤ۔ اپنے سفارت خانے والوں کو ہر گز نہ بتانا کہ مَیں یہاں اُتراہوں۔ تم اکیلے آجاؤ۔‘
مَیں جلدی جلدی کار میں بیٹھ کر ایمسٹرڈیم کے ہوائی اڈے پر پہنچا جو ہیگ سے بیس پچیس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے ۔۔۔مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ مسٹر بھٹو کو کہاں تلاش کروں کہ کے ایل ایم کے وی آئی پی مسافروں کی دیکھ بھال کرنے والی خاتون میری طرف بڑھی اوربولی،
’آئیے، مَیں آپ کو آپ کے فارن منسٹر کے پاس لے چلتی ہوں۔‘
راستے میں اُس خاتون نے بتایا کہ جس جہاز سے مسٹر بھٹو کراچی جارہے ہیں، وہ ٹھیک پندرہ منٹ کے بعد روانگی کے لیے تیار ہے ۔ انہیں دس منٹ میں ضرور جہاز پر سوار ہوجانا چاہیے۔۔۔مَیں نے یہ بات بھٹو صاحب کو بتائی تو وہ بولے ،
’دراصل مَیں صرف دس بارہ منٹ باتیں کرنے کے لیے یہاں نہیں رکا۔ کیا یہ خاتون ایسا بندوبست نہیں کرسکتی کہ مَیں دوتین گھنٹے بعد کسی اور فلائٹ سے کراچی روانہ ہوسکوں؟‘
کے ایل ایم کی خاتون نے مسکراکر کہا، ’نوپرابلم سر۔ اپنا ٹکٹ مجھے دیجئے ۔مَیں ابھی ساراانتظام کرکے آتی ہوں۔‘
دیکھتے ہی دیکھتے اُس نے بھٹو صاحب کا سامان نکلوایا اورتین گھنٹے بعد ایک اور ہوائی کمپنی کی پرواز میں کراچی کے لیے اُن کی نشست بھی محفوظ کرالی۔ اِس کے بعد اُس نے کہا، 
’اگر آپ یہ وقفہ ایئرپورٹ پر ہی گزارنا چاہیں تو ہمارا وی آئی پی ریسٹ ہاؤس حاضر ہے ۔ ‘
بھٹوصاحب نے کہا، ’شکر یہ ہم کچھ دیر کے لیے باہر گھومنے جائیں گے ۔ یہ خیال رکھیے کہ مَیں یہاں صرف اپنی ذاتی حیثیت میں رُکا ہوں۔ اس لیے پریس یا پروٹوکول والوں کو خبر نہ دیں۔‘
بھٹو صاحب نے ائیر پورٹ سے باہر آکر مجھ سے پوچھا، 
’تمہارا ڈرائیور کیا کیا زبانیں جانتا ہے؟‘
مَیں نے بتایا کہ وہ نیا ملازم ہے اور اردو یا انگریزی بالکل نہیں جانتا ۔
’بس یہ ٹھیک ہے۔‘ بھٹو صاحب خوش ہو کر بولے۔ ’اب دو ڈھائی گھنٹے مجھے اپنی کار میں ایمسٹرڈیم کی سیرکراؤ اور وقت پر ائیر پورٹ پہنچا دو۔‘ 
کار میں بھٹو صاحب مسلسل بولے جارہے تھے۔ اِس میں صدر ایوب اور چند فوجی جرنیلوں کی کم ہمتی، کوتاہ اندیشی اور فنِ حرب کی مہارت کے فقدان کا ذِکر تھا۔ اُن کے سینے میں دبا تلخیوں کا لاوا، اُن کی گفتگو کی روانی میں بہہ بہہ کر مسلسل نکل رہا تھا۔ وہ بار بار ایک بات دہرا رہے تھے کہ پہاڑ جیسی غلطیوں اور بلاوجہ نا کامیوں کے کاروبار میں وہ صدر ایوب کا مزید ساتھ نہیں دے سکتے۔۔۔ 
مَیں اِس شش و پنج میں تھا کہ وہ خاص طور پر ایمسٹرڈیم میں رُک کر یہ ساری باتیں مجھے کیوں سنا رہے ہیں؟ شاید وہ اپنے خیالات صدر ایوب تک پہنچانے کے لیے مجھے آلۂ کار بنانا چاہتے ہیں۔ مَیں نے اپنا یہ مفروضہ اُن کے سامنے رکھ دیا تو وہ ہنس کر بولے،
’ارے بھائی، مَیں ایسے کسی مقصد کے ساتھ یہاں نہیں آیا۔ مَیں صرف اس لیے یہاں رُکا ہوں کہ تمہارے ساتھ صاف گوئی سے باتیں کرکے اپنے دل کا غبار نکال لوں۔ کیونکہ مجھے مکمل اعتماد ہے کہ تم میری باتیں اپنے تک ہی رکھو گے اور اِن کا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھاؤ گے۔‘ 
مجھے خوشی ہے کہ مَیں نے بھٹو صاحب کے اعتماد کو پورا پورا نبھایا۔ اور اِس وقت اِس واقعہ کو قلمبند کرنے سے پہلے کسی کے ساتھ اِس کا ذِکر تک نہیں کیا۔‘‘
اور اب ہم پھر اکتوبر 1968ء میں لوٹ جاتے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے حیدر آباد میں میر رسول بخش تالپور کی قیام گاہ پرپارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:


’’وطن کے بہادر کسانو، مزدورو،طالب علمو اور جمہوریت پسند ساتھیو،

میرے ضمیر کی آواز تھی کہ عوام میں لوٹ آؤ اور مَیں نے ایسا ہی کیا۔۔۔‘‘


لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوتی..... 27 اکتوبر 1968 ء ..... مَیں اُن دنوں چین سے سالانہ ُ چھٹی پر پاکستان آیا ہوا تھا۔شام کا وقت عموماً روزنامہ جنگ کراچی کے نیوز روم میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ گزرتا تھا۔ ایک شام بڑے میر صاحب (میر خلیل الرحمٰن) ہاتھ میں چند کاغذ پکڑے تیسری منزل سے سیڑھیوں کے راستے تیز تیز قدم اُٹھاتے دوسری منزل پر نیوز روم میں داخل ہوئے۔ پہلے استاد یوسف صدیقی سے کچھ کہا پھر مجھے دیکھا تو ایک الگ پڑی چھوٹی سی میز کے ساتھ رکھی کرسی پہ بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ مَیں بیٹھ گیا تووہ کاغذ میرے سامنے رکھتے ہوئے، استاد یوسف صدیقی سے مخاطب ہوئے، ’’یہ ترجمہ رشید بٹ کردے گا۔ آپ بس اس پر نظر رکھیں، بھاگ نہ جائے۔‘‘ پھر نیوز پرنٹ کی کچھ سلپس (Slips) میرے سامنے رکھ دیں۔ مَیں نے مسوّدہ دیکھا تو وہ ٹائپ شدہ کاغذوں کی کاربن کاپی تھا۔ اُس زمانے میں فوٹو کاپی کا تصّوربھی نہ تھا۔ یہ بھٹو صاحب کی اُس تقریر کا متن تھا جو اُنہیں اگلے روز حیدرآباد کنونشن میں کرنی تھی۔ جتنی دیر مَیں ترجمہ کرتا رہا، یوسف صدیقی صاحب تو میرے سر پہ سوار رہے ہی، میر صاحب بھی ہر دس پندرہ منٹ بعد آ کے جھانک جاتے تھے۔ جنگ کراچی کے آرکائیوز میں پڑا اُس روز کا اخبار، بھٹو صاحب کی تقریر کے، میرے ترجمہ شدہ متن کے ساتھ اشاعت کا گواہ ہے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ بڑے میر صاحب خطرات مول لینے سے گھبراتے نہ تھے۔ ایوب خانی آمریت کے زمانے میں کوئی صدائے احتجاج چھاپنا یا بادِ مخالف کے جھونکوں کو تحریری شکل دینا بڑی ہمت اور حوصلے کا کام تھا!
بھٹو عوام میں لوٹ آئے لیکن انجامِ کار اُنہیں اِس جرأتِ رندانہ پر جان کا نذرانہ دینا پڑا ! 



****

No comments:

Post a Comment