جدیدچینی ادب
مصنّفہ: شن ژونگ ترجمہ: رشید بٹ
سوچ گلی کے جگنو
ہزاروں برس پر پھیلے چینی ادبِ عالیہ کی جزئیات میں جانے کا یہ َ محل نہیں پھر بھی اتنا کہا جاسکتا ہے کہ گویہ تاریخِ چین کے مختلف ادوار میں نوع بہ نوع نشیب و فراز سے گزرا لیکن چین سے باہر اس کی تشہیر و ترویج کم کم ہی ہوئی۔ شاہانِ چین کے صدیوں پر محیط زمانوں میں یہ تصوّر کار فرمارہا کہ ’’چین دنیا کا مرکز ہے۔ اِس سے باہر کچھ نہیں۔‘‘ اِس سوچ کو آج کی مستعمل سیاسی ، علمی، ادبی اور فکری اصطلاح میں شاونزم یا شاو ّ نیت کہا جاسکتا ہے۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ کم و بیش دوہزار سال کے دوران وقت کی چھلنی سے َ چھن َ چھن کر لاؤزی اور کنفیوشس (4سے 5سو سال قبل مسیح) ایسے قدیم علمائے فکر اور فاہیان، شوان زانگ یا ہیون سانگ (پہلی سے 7ویں صدی عیسوی) ایسے ّ سیاح چین سے باہر کی دنیا میں چہرہ نمائی کرتے رہے۔ اُدھر چین کا ادبِِ عالیہ حکمرانوں کی پابندیوں اور بندشوں کے باوصف اندر ہی اندر پھلتا پھولتا رہا۔ کبھی اِس کے کرداروں نے انسانی روپ اختیار کیا تو کبھی لکھاریوں نے اپنی بات کہنے اور مافی ا ّ لضمیر بیان کرنے کی خاطر فوق اُ لبشر کرداروں اور جانوروں کو چنا۔ اور دلچسپ بات یہ دیکھنے میں آتی ہے کہ اس کے استعارے، تلمیحات اور اشارے کنایے دریائے معانی سمیٹے ملتے ہیں۔ چینی ادب کے بیرونی دنیا پر افشا کی روایت ہمیں پہلے پہل 17 ویں اور 18 ویں صدی عیسوی میں ملتی ہے جب یورپ کی نو آبادیاتی، فوجی اور کلیسائی قوتوں نے چین کو نشانہ بنایا۔ اس سے قبل کے لگ بھگ دو سو سال ہمیں بتاتے ہیں کہ اِن ہی میں چین کا عظیم کلاسیکی ادب مثلاً زوال پزیر جاگیرداری کی طویل داستان ’’لال حویلی کا خواب‘‘، جابر حاکموں کے خلاف جدوجہد کا ّ عکاس ناول ’’دلدلوں کے ہیرو‘‘، بودھ شاستروں کی تلاش میں شوان زانگ کے سفرِ ہند کی افسانوی روداد ’’پچھم یا ترا‘‘ وغیرہ، تخلیق ہوا اور پھر یہ ادب، حملہ آور خصوصاً کلیسائی قوتوں کے توسّط سے جب یورپ پہنچا تو اس نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچادیا۔ اساطیری طویل و مختصر کہانیوں کے وجود میں آنے کے بارے میں البتہ زمان و مکاں کا تعیّن مشکل ہے۔ ابتداً چینی سے انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں ترجمے کمزور تھے جنہیں بتدریج بہتر اور مفہوم و مطالب سے قریب تر لایا گیا۔باقی ایشیا بھی چوں کہ اس زمانے میں جارح قوتوں کی جولان گاہ بنا ہوا تھا، لہٰذا چینی ادب اس خطے میں ذرا تاخیر سے پہنچا۔ 1949ء میں جب چین عملاً آزاد ہوا تو چین کی دنیائے ادب میں ایک نئی آواز بلند ہوئی’’رنگ برنگ پھولوں کو بہار دکھانے دو‘‘اور ’’نوع بہ نوع افکار کو مقابل آنے دو‘‘*۔یہ ماؤزے تونگ کا آہنگِ نو تھا کہ وہ خود بھی بلند پایہ شاعر اور ادیب تھے۔ اُس دور کا جدید ادب زندگی سے خاصا بھرپور رہا۔پھر 1966ء میں ’’چینی ثقافتی انقلاب‘‘کا بند ٹوٹا اور بہت کچھ بہا کر لے گیا۔۔۔ یہ سَیل ٹھہرا۔۔۔ تو کم و بیش دس برس تال کی صورت ٹھہرا رہا۔ اِس میں ’’کائی‘‘ جمتی رہی__ تھم گیا پانی ،جم گئی کائی۔۔۔ کہیں کہیں، کبھی کبھی کوئی گلِ صدبرگ نظر آجاتا تو لکھنے والے کو اُس کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑتا۔ یہ چینی ادب وثقافت کے لیے بڑا ہی کٹھن دور تھا۔ 1978ء میں ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تکلیف دہ زمانہ بھی بالآخر نقطۂ انجام کو پہنچا۔ گیندے کے پھولوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ تازہ ہوا کے جھونکے کائی ہٹانے لگے۔ پانی کو رستہ مل گیا۔ مَیں نے 1966ء سے 1978ء تک کے زمانے کو چینی ادب و ثقافت کا ’’عبوری دور‘‘ لکھاہے کہ اس کے بعد چینی ادب کا ایک نیا رنگ، نیاآہنگ ، نیا رخ نظر آیا۔ گیندے کے ایک ایسے ہی پھول ’’ادھیڑ عمری‘‘ کو چینی قلمروئے ادب میں 1980ء کی بہترین کہانی کا اعزاز دیا گیا۔ میرے بارے میں ،کہ مَیں چین میں برسوں قیام کے ناتے، ثقافتی انقلاب کے ایک خاص دور میں غیر ملکی ہونے کے باوصف، معتوب رہا تھا، چینی کمیونسٹ پارٹی اور حکومت کے واحد سرکاری ترجمان’’پیکنگ ریویو(بعد ازاں بیجنگ ریویو)نے فروری 1980ء میں ایک پروفائل شائع کیا جس میں، مجھے بین السّطور تمام سیاسی اور غیر سیاسی ّ تحفظات سے ’’ َ بری‘‘ کرتے ہوئے لکھا کہ رشید بٹ نے اپنی تحریر**میں چین کے ثقافتی انقلاب پر کھل کرناقدانہ اظہارِ خیال کیا ہے۔(ملاحظہ کیجئے، اختتامی حاشیہ)۔ مجھے اس ناولٹ کا اردو میں ترجمہ کرنے کی بھی اجازت دی گئی۔ اس کہانی کا پہلا اردو ایڈیشن بیجنگ ہی سے شائع کیا گیا۔ لہٰذا میں یہ کہنے میں شاید حق بجانب ہوں کہ انگریزی اور چند یورپی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو واحد ایشیائی زبان ہے جس میں اس کہانی کا ترجمہ شائع ہوا۔ اور یہ اعزاز میرے حصے میں آیا۔ میرے لیے یہ بھی ایک اعزاز ہے کہ اقبال نظر اور شاہدہ ّ تبسم اسے اپنے کتابی سلسلے ’’کولاژ‘‘ کے پہلے شمارے کی زینت بنارہے ہیں۔ یہ کہانی جسے مَیں نے ’’سازِ زندگی‘‘ کا عنوان دیا، اپنے سیاق و سباق میں خود بول رہی ہے۔ تیس پینتیس برس گزرنے کے بعد بھی اس کے کردار قاری کو اپنے گرد و پیش گھومتے، ’’سرسراتے‘‘ محسوس ہوں گے بلکہ ممکن ہے کہ قاری خود بھی کوئی ایسا ہی کردار ہو!
1977-78 ء کے زمانے میں چین سے متعلق میری یہی تحریر ’’My Days in China‘‘ تھی جو مغربی اور امریکی ’’دنیا‘‘ کے لیے چینی ثقافتی انقلاب کے بارے میں اوّلین مستند معلومات کا ذریعہ بنی کیوں کہ اسے خود حکومتِ چین نے پہلے صرف انگریزی اور پھر انگریزی/ چینی زبانوں میں شائع کیا۔ اور یہ تیس پینتیس سال سے یورپی اور امریکی ّ محققین کے لیے تحقیقی کتابوں ، جریدوں ، مذاکروں اور لیکچروں میں بنیادی حوالہ جاتی مواد کا درجہ رکھتی ہے۔ ایسی ہی ایک تازہ ترین کتاب
(Translation Zones in Modern China by Bonnie S.McDougal)
اگست 2011ء میں سڈنی یونیورسٹی میں لکھی اور نیو یارک سے شائع کی گئی۔
’’ساز زندگی‘‘ کی کہانی ایک خاتون ڈاکٹر کے گرد گھومتی ہے۔ یہ صرف ایک ڈاکٹر کی کہانی نہیں بلکہ ایسے دانشوروں کی تصویر ہے جو چین کے ثقافتی انقلاب کے دوران اذیتوں کا شکار رہے۔ تفکرات اور الجھنوں کی شدت اِس ادھیڑ عمر ڈاکٹر کے لیے عارضۂ قلب کا باعث بن جاتی ہے۔ کہانی میں کھوکھلے سیاسی نعرے لگانے والے بے عمل اعلیٰ افسر کھرے، صاف گو، دیانتدار اور ایک دوسرے کے دکھ درد کے ساجھی عام لوگ،غرض ہر نوع کے کردار چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔’’سازِ زندگی‘‘ معروف ادیبہ شن ژونگ کی تخلیق ہے۔ وہ 1935ء میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم کے بعد پہلے ایک اشاعت گھر اور پھر اخبار سے منسلک رہیں۔ 1954 ء میں پیچنگ کے ایک کالج میں روسی زبان سیکھی اور ریڈیو پیچنگ کے روسی نشریات کے شعبے سے وابستہ ہوگئیں۔ 1963ء میں شدید علالت کے باعث ریڈیو سے سبکدوش ہوکر گھر ہی میں لکھنے لکھانے کا شغل اختیار کرلیا۔ انہوں نے ’’سازِ زندگی‘‘ کے علاوہ دو ناول’’سدا بہار‘‘ اور اندھیرا اجالا‘‘ بھی لکھے ہیں۔
(رشید بٹ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)
آسمان پر تارے ٹمٹما رہے ہیں؟ یا کوئی کشتی سمندر میں ہچکولے کھا رہی ہے؟ ڈاکٹر ُ لو ون تھینگ اسپتال کے بستر پر پڑی تھی۔ وہ آنکھوں کی معالج تھی مگر اِس وقت خود اُس کی آنکھوں کے سامنے ترمرے ناچ رہے تھے۔ اُسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے بادلوں کے اڑن کھٹولے میں بیٹھی کسی انجانی منزل کو چلی جارہی ہو۔
یہ کوئی سپنا تھا یا موت کی پرچھائیاں؟
اس کے ذہن میں مبہم سے ہیولے تھرک رہے تھے۔ صبح وہ آپریشن تھیٹر میں گئی تھی۔ اُس نے گاؤن پہنا تھا اور پھر ہاتھ دھونے لگی تھی۔ ہاں، اُسے یاد آگیا۔ اُس کی پیاری سہیلی چیانگ یافن نے خود ہی پیشکش کی تھی کہ آپریشن میں اُس کا ہاتھ بٹائے گی۔ چیانگ اور اس کے میاں کو ویزے مل چکے تھے اور وہ کینیڈا جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ باہمی معاونت میں یہ دونوں کا آخری آپریشن تھا۔
اُن کی دوستی کا آغاز میڈیکل کالج سے ہوا تھا۔ گریجویشن کے بعد دونوں کو ایک ہی اسپتال میں بھیج دیا گیا۔ اور اب بیس پچیس سال کی رفاقت کے بعد جدائی کا خیال اُن کے لیے سوہانِ روح ہو رہا تھا۔ یوں بھی ایسی ذہنی کیفیت کے ساتھ آپریشن ٹیبل پر جانا مناسب نہ تھا۔ وہ ماحول کی اداسی کم کرنے کے لیے چیانگ سے باتیں کرنا چاہتی تھی، پر کوئی موضوع نہیں مل رہا تھا۔ اُس نے چیانگ کو مخاطب کرتے ہوئے یونہی پوچھ لیا تھا، یا فن ٹکٹ و کٹ خرید لیے؟‘‘
چیانگ نے جواب میں کیا کہا تھا؟ اِک خاموشی! لیکن اُس کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ کافی دیر بعد چیانگ نے اُس سے پوچھا تھا، ’’کیا خیال ہے، چار گھنٹوں میں تین آپریشن کر لوگی؟‘‘
اُس نے جانے کیا جواب دیا تھا۔ غالباً وہ چپ چاپ بیٹھی ناخن صاف کرتی رہی تھی۔ نیا برش پوروں میں ُ چبھ رہا تھا۔ اُس نے ہاتھوں پر صابن کے بلبلے دیکھتے ہوئے دیواری گھڑی پر نظر ڈالی تھی۔ تین تین منٹ تک برش سے ہاتھ، کلائیاں اور بازو دھونے کے بعد اُس نے ٹھیک دس منٹ بعد بازو انٹی سپٹک محلول میں ڈبو دےئے تھے۔ جس میں75 فیصد الکوحل تھی۔ محلول سفید تھا۔ یا پھر زردی مائل۔ اِس وقت بھی اس کے ہاتھ اور بازو ُ سن تھے اور اُن میں جلن ہو رہی تھی۔ اِس کی وجہ الکوحل تھی؟ نہیں۔ پہلے تو کبھی ایسا درد نہیں ہوا تھا۔ اور یہ بازو کیوں بے جان ہورہے تھے؟
وہ چھیاؤ کی آنکھ کے ڈھیلے کے پیچھے نووکین کا انجکشن لگا رہی تھی کہ چیانگ نے دبے لہجے میں پوچھا تھا، ’’تمہاری بچی کا نمونیا ٹھیک ہو گیا؟‘‘
یہ آج چیانگ کو کیا ہو گیا تھا؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ آپریشن کرتے وقت سرجن کو اپنی ذات، کنبہ، ہر شے بھول کر پوری توجہ مریض پر مرکوز کر دینی چاہیے؟ ایسے وقت شیاؤ چیا کا حال پوچھنے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی؟ شاید وہ جدائی کے خیالوں میں بھول ہی گئی تھی کہ وہ آپریشن میں معاونت کرنے جا رہی تھی۔
ُ لو نے قدرے جھلا کر جواب دیا تھا، ’’اِس وقت میرا دھیان صرف اِس آنکھ کی طرف ہے۔‘‘
اور اس نے سر جھکا کر نشتر چلا دیا تھا۔
ایک کے بعد دوسرا آپریشن۔ ایک دن میں تین آپریشن ضروری تھے کیا؟ اُسے نائب وزیر چھیاؤ کے موتیا بند کا آپریشن کرنا تھا، چچا چانگ کی آنکھ میں نیا قرنیہ لگانا تھا اور وانگ شیاؤ مان کا بھینگاپن دُور کرنا تھا۔ اُس نے آٹھ بجے کام شروع کیا تھا اور ساڑھے چار گھنٹے تک مسلسل اونچے اسٹول پر بیٹھی رہی تھی۔ اُس کے ہاتھ نشتر چلانے اور ٹانکے لگانے میں مصروف رہے تھے۔ چچا چانگ کی آنکھوں پر پٹی باندھتے باندھتے وہ تھکن سے چور ہو چکی تھی اور ٹانگوں میں تو جیسے دم ہی نہ رہا تھا۔
لباس تبدیل کرنے کے بعد چیانگ نے دروازے سے اُسے پکارا تھا، ’’ون تھینگ، چلوچلیں۔‘‘
’’تم جاؤ۔‘‘ اُس نے وہیں بیٹھے بیٹھے جواب دیا تھا۔
’’تمہارے ساتھ چلوں گی۔ جانے پھر ملاقات ہو نہ ہو۔‘‘چیانگ کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی تھیں۔ وہ رو رہی تھی۔ مگر کیوں؟
’’تم گھر جاؤ۔ ابھی تمہیں سامان وغیرہ بھی باندھنا ہوگا۔ شوہر تمہاری راہ دیکھ رہا ہو گا۔‘‘
’’وہ سارا سامان باندھ چکا ہے۔‘‘ چیانگ نے اُسے دیکھتے ہوئے پوچھا تھا، ’’یہ تمہاری ٹانگوں کو کیا ہوا؟‘‘
’’دیر تک بیٹھے رہنے سے شاید ُ سن ہو گئی ہیں، تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائیں گی۔ شام کو مَیں تمہارے ہاں آؤں گی۔‘‘
’’اچھا تو مَیں چلتی ہوں۔ شام کو ملاقات ہوگی۔‘‘
چیانگ کے جانے کے بعد وہ اٹھی تھی۔ کچھ دیر دیوار کا سہارا لیے کھڑی رہی تھی اور پھر لباس تبدیل کرنے والے کمرے کی طرف چل دی تھی۔
اُسے یاد تھا۔ وہ خاکستری جیکٹ پہن کر اسپتال سے نکلی تھی کہ یکلخت اُس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا تھا۔ گلی دھندلا سی گئی اور گھر دور، بہت دور محسوس ہونے لگا تھا۔ اُسے یوں لگا تھا گویا وہ کبھی گھر نہ پہنچ پائے گی۔
اُسے آنکھیں کھولنی مشکل ہورہی تھیں اور حلق میں کانٹے سے پڑگئے تھے۔ اُسے بے حد پیاس لگ رہی تھی۔ کاش بوند بھر پانی ہی مل جاتا!
اور سوکھے ہونٹ تھرتھرا کر رہ گئے تھے۔
(2)
’’ڈاکٹر سُون، یہ ہوش میں آرہی ہے!‘‘ چیانگ نے دھیرے سے کہا۔ وہ سارا وقت ُ لو کے سرہانے بیٹھی رہی تھی۔
شعبۂ امراضِ چشم کا سربراہ سون، ڈاکٹر ُ لو کی کیس ہسٹری دیکھ کر دھک سے رہ گیا تھا۔ دل کا دورہ! وہ پریشانی کے عالم میں سرجھٹک رہا تھا۔ ُ لو اس شعبے میں پہلی ڈاکٹر نہ تھی جسے چالیس کے پیٹے میں ہی دل کے عارضے نے آلیا تھا۔ اور دل کا یہ اچانک دورہ خاصا شدید تھا۔
سُون نے جھک کر ُ لو کے زرد چہرے پر نظر ڈالی۔ اُس کی آنکھیں بند تھیں۔ سانس کی آمدو رفت دھیمی اور سوکھے ہونٹوں پر ہلکی سی کپکپاہٹ تھی۔
’’ ڈاکٹر ُ لو، ‘‘سُون نے دھیرے سے پکارا۔
وہ بے حس و حرکت پڑی رہی۔ اُس کا چہرہ بالکل سپاٹ تھا۔
’’وَن تھینگ،‘‘ اب کے چیانگ نے آواز دی، مگر کوئی ردِ عمل ظاہر نہ ہوا۔
سُون نے ایک گوشے میں رکھے ہوئے بڑے سے آکسیجن سلنڈر کی طرف دیکھا اور پھر دل کی دھڑکن ماپنے والے آلے پر نظریں جما دیں اور یہ دیکھ کر اسے خاصا اطمینان ہوا کہ ُ لوکے دل کی دھڑکن معمول کے مطابق تھی۔ اُس نے چیانگ سے کہا، ’’اِس کے شوہر سے کہو اندر آجائے۔‘‘
چالیس پینتالیس سال کا ایک قبول صورت آدمی، جس کے سر کے بال اڑتے جارہے تھے، لپک کر اندر آگیا۔ یہ فُوچیا چیے تھا۔ اُس نے ُ لوکے سرہانے بیٹھے بیٹھے رات پلکوں میں ِ بتا دی تھی۔ وہ وہاں سے ہٹنے کو بالکل تیار نہ تھا مگر سُون نے اُسے مجبور کر دیا تھا کہ کمرے کے باہر بنچ پر لیٹ کر ذرا آرام کرلے۔
فُو بیوی کے بے رونق چہرے پر جھک گیا جو اُس وقت بڑا انجانا سا لگ رہا تھا۔
ُ لوکے ہونٹوں میں ہلکی سی جنبش ہوئی۔ شوہر کے سوا کوئی اُس کی بات نہ سمجھ پایا۔ ’’اُسے پیاس لگی ہے۔ پانی مانگ رہی ہے۔‘‘ اُس نے سر اٹھا کر کہا۔
چیانگ نے اُسے چھوٹی سی چائے دانی دی اور فُونے آکسیجن ٹیوب سے بچاتے ہوئے چائے دانی کی ٹونٹی اُس کے خشک ہونٹوں سے لگا دی اور قطرہ قطرہ پانی اُس کے حلق میں ٹپکانے لگا۔
’’وَن تھینگ۔ وَن تھینگ۔‘‘ فُونے اُسے پکارا۔
فُوکے ہاتھ کی لرزش سے پانی کا ایک قطرہ ُ لو کے رخسار پر گرا تو رخسار دم بھر کے لیے پھڑک کر ساکت ہو گیا۔
(3)
آنکھیں۔ آنکھیں۔ آنکھیں۔۔۔
اُس کی بند آنکھوں میں بہت سی آنکھیں لپکی چلی آرہی تھیں۔ مردوں کی آنکھیں، عورتوں کی آنکھیں، بوڑھوں اور بچوں کی آنکھیں۔ بڑی اور چھوٹی آنکھیں، روشن اور بجھی بجھی سی آنکھیں۔۔۔ ہر نوع کی آنکھیں اُس کے تصوّر میں جھپک رہی تھیں۔
آہ! یہ اس کے شوہر کی آنکھیں تھیں۔ اُن آنکھوں میں خوشیاں، غم، کلفتیں، مصائب، امیدیں سبھی کچھ تو دکھائی دے رہا تھا۔ اُسے اُن آنکھوں میں شوہر کے دل کی دھڑکن سنائی دے رہی تھی۔ اُس کی آنکھیں آسمان پر ٹکے سورج سمان تھیں۔ شوہر کے پیار بھرے دل نے اُسے ڈھیروں خوشیاں دی تھیں۔ یہ اُسی کی تو آواز تھی! چیا چیے کی آواز! اِس قدر چاہت بھری، نغمہ بار آواز! مگر یہ کتنی دُور سے آرہی تھی! جیسے وہ کسی اور دنیا کا باسی تھا۔
’’کاش مَیں کوئی تیز رَو ندی ہوتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میری محبوبہ
ننھی سی شوخ و شنگ مچھلی بن کے کف بداماں موجوں میں
تیرتی پھرتی۔‘‘
فانوسِ خیال پھیلتا چلا گیا۔ وہ کہاں تھی؟ ارے، وہ تو برف سے ڈھکے ہوئے ایک پارک میں تھی! پارک میں ایک منجمد جھیل تھی جس کی بلوریں سطح پر نیلے، پیلے، لال۔۔۔ دھنک رنگ کپڑوں میں لوگ سکیٹنگ کر رہے تھے۔ فضا میں قہقہے رچے ہوئے تھے اور وہ دونوں بھیڑ میں راستہ بناتے، ہاتھوں میں ہاتھ دےئے چلے جارہے تھے۔ اُس کی نگاہوں میں بس ایک ہی چہرہ تھا۔ بھیڑ سے الگ تھلگ وہ برف پر پھسل رہے تھے، چک پھیریاں لے رہے تھے، قہقہے لگا رہے تھے۔ کس قدر خوش تھی وہ!
برف کا لبادہ اوڑھے چھتر منزل کتنی خاموش اور پُر سکون لگ رہی تھی۔ انہوں نے سنگ مرمر کے جنگلے سے ٹیک لگا رکھی تھی اور برف کے گالے چہروں سے ٹکرا رہے تھے۔ دونوں کو سردی کا احساس تک نہ تھا۔
تب وہ جوان تھی!
وہ پیار اور خوشی سے ناآشنا رہی تھی۔ چھوٹی سی تھی کہ باپ ماں کو چھوڑ کر چلا گیا اور ماں نے ہزار جتن کرکے اسے پالا تھا۔ بچپن سے اُس کی کوئی سہانی یادیں وابستہ نہ تھیں۔ صرف اتنا یاد تھا کہ ماں رات رات بھر دیے کی لو میں بیٹھی کپڑے سیتی رہتی تھی۔
پھر اسے میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ وہ پو پھٹے اُٹھ کر انگریزی کے لفظ یاد کرتی، دن بھر کلاسوں میں گزرتا اور رات گئے تک لائبریری کی کتابوں میں کھوئی رہتی۔
چیانگ یافن اُس کی ہم جماعت تھی اور دونوں ہوسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہتی تھیں۔ چیانگ کی آنکھیں بڑی من موہنی، بدن چھریرا اور ہونٹ گلاب کی پنکھڑیوں ایسے تھے۔ قد بوٹا سا تھا اور بڑی ہنسوڑ تھی۔ اس کا محبوب اسے پیار بھرے خط لکھتا تھا اور وہ ہر سنیچر کی شام اُس سے ملنے جاتی تھی۔ مگر ُ لو کا کوئی چاہنے والا نہ تھا۔
گریجویشن کے بعد دونوں کی پوسٹنگ ایک ہی اسپتال میں ہوئی۔ یہ اسپتال کوئی سو سال پرانا تھا۔ ضابطے کے مطابق تربیت کے ابتدائی چار برس ہمہ وقت اسپتال میں ہی رہنا تھا اور اِس عرصے میں شادی کی اجازت نہ تھی۔ چیانگ تو دبے دبے لہجے میں اِن ضابطوں کو کوستی رہتی، لیکن ُ لو نے انہیں بخوشی قبول کرلیا، چوبیس گھنٹے اسپتال میں رہنے سے کیا فرق پڑتا تھا؟ اگر دن کے اڑتالیس گھنٹے بھی ہوتے تو اُسے یہ سارا وقت اسپتال میں گزارنے پر کوئی اعتراض نہ ہوتا۔ چار سال تک شادی پر پابندی سے کیا فرق پڑتا تھا۔ کئی ڈاکٹروں نے دیر سے شادیاں نہیں کی تھیں؟ اور بعض تو عمر بھر چھڑے ہی رہے تھے! ُ لو تن من سے کام میں ڈوب گئی۔
مگر زندگی بھی اِک ُ طرفہ تماشا ہے! فُو چیاچیے بہار کے جھونکے کی مانند اچانک اُس کی زندگی میں آدھمکا اور اُسے پتا بھی نہ چلا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔
فُو کی آنکھوں میں کچھ تکلیف تھی۔ وہ اسپتال میں داخل ہوا تو ُ لو اُس کی معالج ٹھہری۔ وہ بڑی لگن سے اُس کا علاج کر رہی تھی۔ شاید یہی لگن فُو کے دل میں پیار کی َ جوت جگا گئی۔ اور اِس َ جوت نے دونوں کی زندگی میں ایک تلاطم پیدا کر دیا۔
اُس نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ چاہت اِس قدر مخمور کر دے گی۔ وہ پہلے اِس لذت سے آشنا کیوں نہ ہوئی؟ وہ اٹھائیس سال کی ہو چکی تھی مگر دل ابھی تک کچی ّ کنیاکا تھا۔ وہ اُس کے پیار میں ڈوب کے رہ گئی۔
’’کاش مَیں اَن ُ چھوا جنگل ہوتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری محبوبہ
ننھی سی گور ّ یا بن کر
میرے گھنے پیڑوں میں
گھونسلا بناتی، چہچہاتی‘‘
لطف کی بات یہ ہوئی کہ فُو چیاچیے کو شاعری سے بھی لگاؤ تھا! حالانکہ وہ ایک سائنسی ادارے میں خلائی جہازوں پر تحقیق کررہا تھا۔ اور چیانگ تو اسے ہمیشہ کتابی کیڑا کہا کرتی تھی۔
’’یہ گیت کس کا ہے؟‘‘
’’ہنگری کے شاعر پیٹوفی***کا۔‘‘
’’کیا سائنس دان کو شاعری کے لیے بھی وقت مل جاتا ہے؟‘‘
’’ ّ تخیل کے بغیر سائنس دان کس کام کا؟ سائنس اور شاعری میں کچھ قدریں مشترک ہیں۔‘‘
یہ کتابی کیڑا باتیں تو خوب کرتا ہے۔ اُس نے سوچا۔
’’تم کہو، تمہیں شاعری پسند ہے؟‘‘ اب فُوکی باری تھی۔
’’مجھے؟ مَیں تو شعر و شاعری سے بالکل پیدل ہوں۔‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ہمارا کام تو جراحت ہے اور اِس میں ّ تخیل پر نہیں مار سکتا۔۔۔‘‘
’’تمہارا فن تو بذاتِ خود ایک خوبصورت نظم ہے۔‘‘ فُونے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’تم لوگوں کی بینائی لوٹاتی ہو۔۔۔‘‘
وہ اور قریب آگیا۔ دونوں کے چہرے ایک دوسرے کی سانسوں کا لمس محسوس کرنے لگے۔ ُ لو اس کی مردانہ وجاہت میں کھو کر رہ گئی۔ اور پھر فُونے اسے مضبوط بازوؤں میں بھر لیا۔ فُو کی آنکھوں میں دلکش مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ ُ لو کی پلکیں جھک گئیں اور وہ پیار کے اتھاہ ساگر کی گہرائیوں میں ڈوبتی چلی گئی۔
چار سال کی بندش ختم ہونے پر ُ لو نے شادی میں پہل کرکے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ فُوسے اُس کا جنم جنم کا ناتا شاید روزِ ازل سے لکھا جاچکا تھا۔ وہ انکار کیوں کر کرتی؟ پھر، وہ اُسے چاہتا بھی تو دیوانگی کی حد تک تھا!۔۔۔
’’کاش مَیں کوئی خرابہ ہوتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میری محبوبہ
عشق پیچاں کی بیل بن کر
مجھ سے لپٹ رہتی۔‘‘
زندگی کتنی دلربا تھی، چاہت میں کس قدر سندرتا تھی۔ بیتے دنوں کی میٹھی میٹھی یادیں اُس کے جسم میں ایک نئی توانائی کھینچ لائیں اور اُس نے دھیرے سے پلکیں کھول دیں۔
(4)
وہ جیسے کسی بے نشان راہ پر چلی جا رہی تھی۔ کہیں صحرا تھا تو کہیں دلدل اور کہیں ویرانہ۔ بندہ نہ بندے کی ذات۔ ہر سُوسناٹا تھا۔ تکان سے اس کا بند بند ٹوٹا جا رہا تھا اور پاؤں شل ہو گئے تھے۔
ذرا لیٹ جاؤ اور آرام کرلو۔ صحرا تپ رہا تھا۔ دلدلی زمین نرم تھی۔ ذرا لیٹ جاؤ کہ تپتی زمین پر اکڑے ہوئے جسم کو کچھ سکون مل جائے۔ دھوپ دُکھتے جوڑوں کو سہلا دے۔ موت سر گوشیاں کر رہی تھی، ’’ڈاکٹر ُ لو، آؤ، آرام کر لو!‘‘
ذرا لیٹ جاؤ اور آرام کرلو۔ ہمیشہ کے لیے آرام۔ نہ کوئی خیال دل میں چٹکیاں لے گا، نہ دکھ ستائیں گے اور نہ غم ہی قریب پھٹکیں گے۔
مگر آرام تو اُس کے نصیب ہی میں نہ تھا۔ جہاں راستہ ختم ہوتا تھا، وہاں اُس کے مریض آس لگائے بیٹھے تھے۔ چشمِ تصوّر سے اُس نے دیکھا کہ ایک مریض بے چینی سے کروٹیں بدل رہا تھا۔ اسے شاید بینائی چلے جانے کا خوف کھائے جارہا تھا۔ کئی آنکھیں ُ لو کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ مریض مایوسی کے عالم میں پکار رہے تھے، ’’ڈاکٹر ُ لو! ڈاکٹر!۔۔۔‘‘
فرض پکار رہا تھا۔ وہ گرتی پڑتی۔ گھر سے اسپتال، کلینک سے وارڈ تک اور پھر گاؤں گاؤں چلی جارہی تھی۔ دن، مہینے، سال۔ وقت گویا اڑا جا رہا تھا۔۔۔۔
’’ڈاکٹر ُ لو!‘‘
کسی نے بلایا تھا؟ ڈائریکٹر چاؤ؟ ہاں۔ ڈائریکٹر چاؤ نے اسے فون پر بلایا تھا۔ رسیور رکھ کر اُس نے مریض کو چیانگ کے حوالے کیا تھا اور خود چاؤ کے دفتر کی طرف چل دی تھی۔
اُس نے تیز تیز قدموں سے باغیچہ پار کیا تھا۔ اُسے سفید اور زرد گل داؤدی اور تتلیاں دیکھنے کی فرصت کہاں تھی؟ وہ فوری طور پر مریضوں کے پاس لوٹ آنا چاہتی تھی۔ صبح سترہ مریض انتظار میں تھے اور وہ ابھی تک صرف سات کا معائنہ کر پائی تھی۔ اور کل سے اسے وارڈ ڈیوٹی پر جانا تھا۔
وہ بنا دستک دےئے ڈائریکٹر چاؤ کے کمرے میں داخل ہو گئی، مگر صوفے پر ایک اجنبی مرد اور عورت کو بیٹھے دیکھ کر اس کے قدم دروازے میں ہی رک گئے۔ پھر اس کی نظر ڈائریکٹر چاؤ پر جا پڑی جو گھومنے والی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔
’’ڈاکٹر ُ لو، اندر آ جاؤ،‘‘ چاؤ نے اُسے رکتے دیکھ کر کہا۔
وہ آگے بڑھی اور کھڑکی کے قریب ایک چرمی کرسی پر بیٹھ گئی۔
بڑا سا کمرہ روشن، صاف ستھرا اور پُرسکون تھا۔ کلینک میں تو بے حد شور ہوتا تھا اور بچے ہنگامہ مچائے رکھتے تھے۔ کمرے کا سکوت اور صفائی دیکھ کر اس کی طبیعت کچھ اُوبنے لگی۔
اجنبی جوڑا خاصا سلجھا ہوا لگتا تھا۔ ڈائریکٹر چاؤ ہمیشہ چاق و چوبند رہتا تھا اور اُس کے چہرے سے علمیت جھلکتی تھی۔ سنہری فریم کی عینک کے پیچھے اُس کی آنکھیں مسکراتی رہتی تھیں۔ اُس نے ہلکے خاکستری رنگ کا سوٹ اور چمکدار سیاہ چمڑے کے جوتے پہن رکھے تھے۔
اجنبی مرد دراز قد تھا اور کنپٹیوں پر بال چاندی ہو رہے تھے۔ اس نے سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا۔ ُ لو ایک نظر دیکھتے ہی سمجھ گئی کہ اُس کی آنکھوں میں تکلیف تھی۔ وہ صوفے کی پشت سے ٹیک لگائے اپنی چھڑی سے کھیل رہا تھا۔
عورت پچاس کے پیٹے میں تھی اور اِس عمر میں بھی اُس کے چہرے کی دلکشی برقرار تھی۔ اُس نے بالوں میں خضاب لگا رکھا تھا اور قیمتی اور عمدہ تراش کا لباس پہنے ہوئے تھی۔
عورت نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اُسے تولا اور اُس کے چہرے پر شک، بے یقینی اور مایوسی کے سائے سے لہرا اٹھے۔
’’ڈاکٹر ُ لو، مَیں آپ کا تعارف کرا دوں۔ یہ نائب وزیر چھیاؤ چھنگ شی اور یہ اِن کی اہلیہ کا مریڈ چھین پو ہیں۔‘‘
نائب وزیر؟ اُس نے پچھلے دس بارہ سال میں جانے کتنے وزیروں، پارٹی سکریٹریوں اور ڈائریکٹروں کا علاج کیا تھا اور کبھی اُن کے عہدوں پر توجہ نہیں دی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ اُس کی آنکھوں میں آخر کیا تکلیف تھی۔ کیا وہ بینائی کھو رہا تھا؟
ڈائریکٹر چاؤ نے پوچھا، ’’ڈاکٹر ُ لو، آپ کلینک میں ہیں یا وارڈ ڈیوٹی پر؟‘‘
’’کل سے وارڈ ڈیوٹی پر چلی جاؤں گی۔‘‘
’’بہت خوب، ‘‘ اُس نے ہنس کر کہا۔ ’’نائب وزیر چھیاؤ موتیابند کا آپریشن کروانا چاہتے ہیں۔‘‘
تو اُسے نئی ذمہ داری سونپی جا رہی تھی! وہ نائب وزیر سے پوچھنے لگی، ’’ایک آنکھ میں موتیاہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کونسی؟‘‘
’’بائیں۔‘‘
’’اِس آنکھ سے بالکل دکھائی نہیں دیتا؟‘‘
اُس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
’’پہلے کسی ڈاکٹر کو دکھا چکے ہیں؟‘‘
وہ آنکھ کا معائنہ کرنے اٹھی تو اُسے احساس ہوا کہ مریض نے کسی اسپتال کا نام لیا تھا۔ اُس نے آنکھ کی طرف ہاتھ بڑھایا تو چھیاؤ کی بیوی نے بڑی شائستگی سے منع کردیا۔
’’ڈاکٹر ُ لوبیٹھ جائیے۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ آنکھ کے معائنے کے لیے تو ہمیں آپ کے کلینک میں جانا چاہیے۔‘‘ چھین پو نے کہا اور پھر مسکرا کر ڈائریکٹر چاؤ سے مخاطب ہوئی، ’’جب سے انہیں آنکھ کی تکلیف ہوئی ہے مَیں خود بھی آنکھوں کی چھوٹی موٹی ڈاکٹر بن چکی ہوں۔‘‘
ُ لو آنکھ کا معائنہ تو نہ کر سکی، لیکن دیر تک وہاں رکنا پڑا۔چھین نے اُس سے کئی ذاتی نوعیت کے سوال پوچھے تھے۔
’’ڈاکٹر ُ لو آپ کب سے یہاں کام کر رہی ہیں؟‘‘
کتنے برس؟ اُسے تو یاد ہی نہیں رہا تھا۔ گریجویشن کے بعد وہ سیدھی اِسی اسپتال میں آئی تھی۔ ’’مَیں 1961ء سے یہاں ہوں۔‘‘
’’اٹھارہ سال۔‘‘ چھین نے انگلیوں پر گنتے ہوئے کہا۔
وہ اِن چھوٹی چھوٹی باتوں میں اِس قدر دلچسپی کیوں لے رہی تھی؟ پھر ڈائریکٹر چاؤ بیچ میں بول پڑے تھے، ’’ڈاکٹر ُ لوبہت تجربہ کار اور بڑی ماہر سرجن ہیں۔‘‘
چھین نے دوسرا سوال کر دیا۔ ’’ڈاکٹر ُ لو، لگتا ہے آپ کی صحت کچھ اچھی نہیں رہتی۔‘‘
آخر وہ چاہتی کیا تھی؟ ُ لو دوسروں کی دیکھ بھال میں اتنی مشغول رہتی تھی کہ اسے اپنی صحت کے متعلق سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملتی تھی۔ حتیٰ کہ اسپتال میں اُس کی کیس ہسٹری تک نہیں تھی۔ اِس اجنبی عورت کو اتنی تشویش کیوں لاحق تھی؟ اُس نے ذرا جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ ’’مَیں بالکل ٹھیک ہوں۔‘‘
چاؤ پھر بول اٹھے، ’’ڈاکٹر ُ لو بے حد صحت مند ہیں۔ انہوں نے برسوں سے کوئی چھٹی نہیں لی۔‘‘
ُ لو چپ رہی۔ اُس کے ذہن میں یہی سوال گردش کر رہا تھا کہ آخر وہ عورت اِن باتوں کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی تھی۔ وہ واپس جانا چاہتی تھی۔ چیانگ کے لیے اتنے مریضوں سے تنہا نمٹنا دشوار تھا۔
عورت کی نظریں ُ لو کے چہرے پر گڑی ہوئی تھیں۔ اُس نے مسکراتے ہوئے پوچھا، ’’ڈاکٹر ُ لو، آپ کو یقین ہے کہ موتیابند کا آپریشن آسانی سے کرلیں گی؟‘‘
یہ ایک اور مشکل سوال تھا۔ گو آج تک کوئی حادثہ پیش نہیں آیا تھا، مگریقین سے بھی تو کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ اگر مریض تعاون نہ کرے یا بیہوشی کی دوا ٹھیک سے اثر نہ کرے تو؟
جانے اُس نے کیا جواب دیا تھا، لیکن چھین کی آنکھوں سے جھلکتا شک اُسے بے چین کئے دے رہا تھا۔ اُس نے ہر نوع کے مریضوں کا علاج کیا تھا۔ اور اعلیٰ افسروں کی بیویوں کے مزاج سے بھی واقف تھی۔
یہ تکلیف دہ گفتگو کیسے ختم ہوئی تھی؟ ہاں، چیانگ اسے بلانے آگئی تھی۔ اُسے چچا چانگ کی آنکھوں کا معائنہ کرنا تھا۔
چھین نے بڑی شائستگی سے کہا، ’’ڈاکٹر ُ لو، اب آپ جا سکتی ہیں۔ آپ بہت مصروف ہوں گی۔‘‘
ُ لو بڑے سے کمرے سے نکل آئی، جس میں اُس کا دم ُ گھٹنے لگا تھا۔
ہاں اُس کا دم واقعی گھٹ رہا تھا!
(5)
چھٹی سے ذرا پہلے ڈائریکٹر چاؤ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ڈاکٹر سُون کے کمرے میں آگیا۔
’’ڈاکٹر ُ لو کی صحت تو ہمیشہ سے اچھی تھی، ڈاکٹر سُون۔ دل کے اِس اچانک دورے کا سبب کیا ہو سکتا ہے؟‘‘ چاؤ نے ڈاکٹر سُون کے ہمراہ ُ لو کے کمرے کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔ وہ عمر میں ڈاکٹر سُون سے آٹھ سال چھوٹا تھا مگر زیادہ جوان لگتا تھا۔ اُس کی آواز بڑی پاٹ دار تھی۔
اُس نے سر ہلاتے ہوئے بات جاری رکھی، ’’یہ ہمارے لیے ایک طرح کی وارننگ ہے۔ ادھیڑ عمر ڈاکٹر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بھاری ذمہ داریوں اور گھریلو مسائل کے سبب اُن کی صحت گرتی جارہی ہے۔ وہ یونہی یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے گئے تو ہم مشکل میں پڑ جائیں گے۔ اس کے کنبے میں کتنے لوگ ہیں؟ اُس کے پاس کتنے کمروں کا مکان ہے؟‘‘
سُون کے متفکر چہرے پر نظریں دوڑاتے ہوئے اُس نے کہا، ’’کیا؟۔۔۔ ایک کمرے میں چار افراد؟ ہونہہ! اُس کی تنخواہ کتنی ہے۔۔۔ ساڑھے چھپن یوان! شاید اِسی لیے لوگ کہتے ہیں سرجن بننے سے بہتر ہے کہ آدمی حجام بن جائے۔ اس بات میں کچھ نہ کچھ صداقت تو ہے۔ پچھلے سال اُس کی تنخواہ میں اضافہ کیوں نہیں کیا گیا؟‘‘
’’ لوگ زیادہ ہیں۔ ہر کسی کی تنخواہ کیوں کر بڑھائی جا سکتی ہے۔‘‘ سُون نے تلخی سے جواب دیا۔
’’آپ پارٹی برانچ میں یہ مسئلہ اٹھائیں اور تجویز پیش کریں کہ ادھیڑ عمر ڈاکٹروں کے کام، آمدنی اور رہن سہن کے بارے میں تحقیق کی جائے۔ اِس کے بعد مجھے رپورٹ بھیجیں۔‘‘
’’کیا فائدہ؟ 1978ء میں ایسی ہی رپورٹ بھیجی گئی تھی،‘‘ سُون نے دھیرے سے جواب دیا۔ اُس کی نظریں جھکی ہوئی تھیں۔
’’یہ گلے شکوؤں کا وقت نہیں، ڈاکٹر سُون۔ رپورٹ سے کچھ نہ کچھ تو فائدہ ہوگا۔ مَیں یہ رپورٹ میونسپل پارٹی کمیٹی، وزارتِ صحت اور ہر متعلقہ محکمے کو بھیجوں گا۔ مرکزی کمیٹی نے بار بار زور دیا ہے کہ باصلاحیت افراد اور دانشوروں کی قدر کی جائے اور اُن کی تنخواہیں بڑھائی جائیں۔ ہم اِس ہدایت کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مجھے یقین ہے کہ ادھیڑ عمر کارکنوں کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘‘ ُ لو کے کمرے میں قدم رکھتے ہی وہ خاموش ہو گیا۔
چاؤ کو اندر آتے دیکھ کر فُو چیا چیے کھڑا ہو گیا۔ چاؤ نے ہاتھ کے اشارے سے اُس کے سلام کا جواب دیا، جھک کر ُ لو کے چہرے کا معائنہ کیا اور ڈاکٹر سے اُس کی میڈیکل رپورٹ لے کر کر پڑھنے لگا۔ پلک جھپکنے میں وہ ڈائریکٹر سے ڈاکٹر بن چکا تھا۔
چاؤ دراصل سینے کے امراض کا ماہر ڈاکٹر تھا اور آزادی کے بعد وطن لوٹا تھا۔ وہ اپنے فن میں ہی ماہر نہ تھا بلکہ سیاسی طور پر بھی بڑا سر گرم تھا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اسے پارٹی میں شامل کر لیا گیا۔ اسپتال کا ڈائریکٹر مقرر ہونے کے بعد انتظامی مصروفیات اور بے شمار میٹنگوں میں شرکت کی وجہ سے اسے مریضوں کو دیکھنے کا وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ بہت ہوتا تو کبھی کبھار کسی اہم مریض کو دیکھ لیتا ۔ ثقافتی انقلاب کے دوران پہلے اسے غیر قانونی طور پر نظر بند رکھا گیا اور پھر اسپتال میں جھاڑو دینے پر لگا دیا گیا۔ اسے بحال ہوئے اب تین سال ہونے کو آرہے تھے۔
اور اِس وقت وہ ڈاکٹر ُ لو کو دیکھنے آیا تو وارڈ کے سارے ڈاکٹر اُس کے گرد اکٹھے ہو گئے۔
اُس نے ڈاکٹروں کو کچھ ہدایات دینے کے بعد پوچھا، ’’اِس کا شوہر آیا ہوا ہے؟‘‘
ڈاکٹر سُون نے فُو کا تعارف کرایا تو چاؤ حیرت میں پڑگیا۔ اس خوشرو آدمی کے بال اڑتے جارہے تھے۔ جس شخص کو اپنا ہوش نہیں وہ بیوی کی دیکھ بھال کیا کرے گا؟
’’معاملہ خاصا سنگین ہے،‘‘ چاؤ اُسے بتانے لگا، ’’اُسے مکمل آرام کی ضرورت ہے۔ کوئی چوبیس گھنٹے دیکھ بھال کرنے والا ہونا چاہےئے۔ اُسے تو پہلو بدلنے میں بھی مدد درکار ہو گی۔ آپ کہاں کام کرتے ہیں؟ اور آپ اکیلے اِس کی تیمارداری نہیں کر سکیں گے۔ گھر میں کوئی اور بھی ہے؟‘‘
فونے نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ ’’صرف دو چھوٹے بچے ہیں۔‘‘
چاؤ نے سُون کی طرف مڑتے ہوئے کہا، ’’آپ اپنے ڈپارٹمنٹ سے کسی کو فارغ کر سکتے ہیں؟‘‘
’’ایک دو دن سے زیادہ نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ فی الحال یہی سہی۔‘‘
چاؤ کی نظریں پھر ُ لو کے زرد چہرے پر جم گئیں۔ وہ ابھی تک اِسی ادھیڑبن میں تھا کہ یہ تندرست و توانا عورت یکلخت کیونکر ڈھیر ہو گئی تھی۔
اُسے یونہی خیال آگیا کہ شاید وہ نائب وزیر چھیاؤ کے آپریشن کی وجہ سے نروس ہو گئی تھی۔ لیکن اگلے ہی لمحے اُس نے یہ خیال جھٹک دیا۔ وہ تو بڑی تجربہ کار تھی اور محض اعصابی اضطراب دل کے دورے کا سبب نہیں بن سکتا تھا۔
تاہم ایک موہوم سا خیال اُس کے ذہن سے گویا چپک کر رہ گیا۔ چھیاؤ کے آپریشن اور ُ لو کی بیماری میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور تھا۔ اُسے افسوس ہونے لگا کہ اُسی نے آپریشن کیلئے ُ لو کا نام تجویز کیا تھا۔ درحقیقت چھیاؤ کی بیوی چھین شروع ہی سے اُس کے خلاف تھی۔
اُس روز ُ لو کے جانے کے بعد چھین نے پوچھا تھا، ’’ڈائریکٹر چاؤ، کیا ڈاکٹر ُ لو اپنے شعبے کی نائب سربراہ ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’پارٹی ممبر ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’ توپھر میں صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہوں گی کہ ہم سب پارٹی ممبر ہیں۔ اور یہ مناسب نہیں لگتا کہ ایک معمولی ڈاکٹر نائب وزیر چھیاؤ کا آپریشن کرے۔‘‘
چھیاؤ نے چھڑی سے فرش بجاتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی اور جھنجلا کر کہا، ’’ چھین پو، کیا کج بحثی کر رہی ہو؟ یہ انتظام اسپتال والوں پر چھوڑ دو۔ کوئی بھی سرجن میرا آپریشن کر سکتا ہے۔‘‘
اِس پر چھین جھلا اٹھی، ’’لاؤ چھیاؤ، تمہارا رویہ ٹھیک نہیں۔ ذرا سوچو تو، تم اُسی صورت کام کر سکتے ہو کہ تمہاری صحت ٹھیک رہے۔ تمہیں انقلاب اور پارٹی کو مدِ نظر رکھنا چاہیے۔‘‘
چاؤ نے اتمام حجت کے لیے جلدی سے دخل در معقولات کرتے ہوئے کہا، ’’کامریڈ چھین، آپ میری بات کا یقین کریں۔ گوڈاکٹر ُ لو کمیونسٹ نہیں، مگر بہت تجربہ کار ہے۔ اور موتیا بند کا آپریشن کرنے میں تو اُس کا کوئی ثانی نہیں۔ آپ بالکل بے فکر رہیں!‘‘
’’یہ بات نہیں، ڈائریکٹر چاؤ،‘‘ چھین نے آہ بھرتے ہوئے جواب دیا، ’’مَیں کادر اسکول میں تھی تو ایک بوڑھے کامریڈ کو آنکھ کے آپریشن کی ضرورت پڑی۔ اسے بیجنگ آنے کی اجازت نہ ملی اور مجبوراً وہیں ایک چھوٹے سے اسپتال میں چلا گیا۔ اور آنکھ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ چھیاؤ نے سات سال قید میں گزارے ہیں اور حال ہی میں بحال ہوئے ہیں۔ آنکھوں کے بغیر تو کام کرنے سے رہے!‘‘
’’کامریڈ چھین، آپ کوئی اندیشہ نہ کریں۔ ہمارے اسپتال میں ایسے بہت کم حادثے ہوئے ہیں۔‘‘
مگر چھین بحث میں الجھی رہی، ’’کیا ہم شعبے کے سربراہ ڈاکٹر سُون سے آپریشن کے لیے نہیں کہہ سکتے؟‘‘
چاؤ نے نفی میں سر ہلا دیا اور ہنستے ہوئے جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر سُون کی عمر ستر کے لگ بھگ ہے اور اُن کی اپنی نظر بہت کمزور ہو چکی ہے! پھر یہ کہ انہوں نے برسوں سے کوئی آپریشن نہیں کیا۔ اُن کا کام بس تحقیق کرنا، نوجوان ڈاکٹروں کو مشورے دینا اور پڑھانا ہے۔ ڈاکٹر ُ لو اُن سے بہتر سرجن ہیں۔‘‘
’’ڈاکٹر ُ کوکے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
چاؤ کی حیرت دو چند ہو گئی، ’’ڈاکٹر ُ کو؟‘‘
تو چھین گویا شعبۂ چشم کے بارے میں خاصی چھان بین کر چکی تھی۔
’’میرا مطلب ہے ڈاکٹر ُ کو ژوچھینگ۔‘‘ چھین نے بات آگے بڑھائی۔
چاؤ پژمردہ ہو گیا۔ ’’وہ ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔‘‘
چھین نے اب بھی ہتھیار نہ ڈالے۔ ’’کب واپس آئیں گے؟‘‘
’’وہ واپس نہیں آئیں گے۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘ اب چھین کے حیران ہونے کی باری تھی۔
چاؤ نے سرد آہ بھرتے ہوئے جواب دیا۔ ’’ڈاکٹر ُ کو کی بیوی باہر سے آئی ہوئی تھی۔ اس کے والد کا انتقال ہوا تو اپنی دکان بیٹی کے نام کر گیا۔ چنانچہ اُن دونوں نے یہاں سے جانے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘
’’ڈاکٹری چھوڑ کر دکانداری کرنے چلے گئے؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘ چھیاؤ افسردہ لہجے میں بول اٹھا۔
’’ملک چھوڑ کر جانے والا وہ پہلا ڈاکٹر نہیں۔ ہمارے کئی قابل ڈاکٹر جاچکے ہیں یا جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘
چھین آگ بگولا ہو گئی۔ ’’یہ بڑی عجیب ذہنیت ہے۔‘‘
چھیاؤ نے اضطراری انداز میں چھڑی ہلائی اور چاؤ سے کہنے لگا، ’’1949ء میں آزادی کے بعد ملک کی تعمیر میں مدد دینے کے لیے تم جیسے دانشور بے شمار مشکلات کا سامنا کرکے وطن لوٹ آئے۔ مگر اب صورت یہ ہے کہ جن دانشوروں کو ہم نے تربیت دی وہ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔ یہ ہمارے لیے ایک بڑا تلخ سبق ہے۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو سکتا،‘‘ چھین چپکی نہ رہ سکی۔ ’’ہمیں مزید نظریاتی کام کرنا ہوگا۔ چنڈال چوکڑی کے خاتمے کے بعد دانشوروں کا سماجی مرتبہ بلند کیا گیا ہے۔ چین کی ترقی کے ساتھ ساتھ اُن کے حالاتِ کار اور رہن سہن بھی بہتر ہوتے جائیں گے۔‘‘
’’ہاں، ہماری پارٹی کمیٹی کی بھی یہی رائے ہے۔ مَیں نے دوبار ڈاکٹر کو سے بات چیت کی اور رکنے پر اصرار کیا۔ مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔‘‘
چھین نے کچھ کہنے کو منہ کھولا تھا کہ چھیاؤ نے اُسے روک دیا اور بولا۔ ’’ڈاکٹر چاؤ، مَیں یہاں اِس لیے نہیں آیا کہ آپ میرے لیے کسی ماہر یا پروفیسر کا انتظام کریں، بلکہ اس لیے آیا ہوں کہ مجھے آپ کے اسپتال پر بھروسا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اِس اسپتال سے مجھے کچھ جذباتی لگاؤ ہے۔ چند سال قبل میری دائیں آنکھ کا آپریشن یہیں کیا گیا تھا اور بہت عمدگی سے کیا گیا تھا۔‘‘
’’کس نے کیا تھا؟‘‘ چاؤ نے پوچھا۔
چھیاؤ ملول سا ہو گیا، ’’مجھے آج تک پتا نہ چل سکا کہ وہ کون تھی۔‘‘
چاؤ نے یہ سوچتے ہوئے رسیور اٹھایا کہ اگر ڈاکٹر کا پتا چل گیا تو چھین مطمئن ہو جائے گی۔ لیکن چھیاؤ نے اسے منع کر دیا، ’’تم اس ڈاکٹر کو تلاش نہ کر سکو گے۔ میرا آپریشن بیرونی مریض کے طور پر ہوا تھا اور کوئی ریکارڈ نہیں رکھا گیا تھا۔ بہرحال اُس ڈاکٹر کا لہجہ جنوبی چین کا تھا۔
’’پھر تو مشکل ہے۔‘‘ چاؤ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ڈاکٹر ُ لو بھی جنوب کی رہنے والی ہیں۔ انہی کو آپریشن کرنے دیں۔‘‘
آخر دونوں نے ہامی بھرلی تھی۔
کیا ُ لو کی بیماری کا سبب یہی تھا؟ چاؤ کو یقین نہیں آرہا تھا۔ ُ لونے ایسے سینکڑوں آپریشن کئے تھے۔ وہ چھیاؤ کے آپریشن سے قبل ُ لوسے ملا تھا۔ اس وقت تو وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ تو پھر اسے اچانک دل کا دورہ کیونکر پڑ گیا؟
چاؤ نے ایک بار پھر تشویش بھری نظروں سے ُ لو کا چہرہ دیکھا۔ وہ موت کی دہلیز پر بھی جیسے اطمینان سے سو رہی تھی۔
(6)
ُ لو ہمیشہ سے بڑی بردبار اور خاموش طبع تھی۔ کوئی دوسری عورت ہوتی تو چھین کے اہانت آمیز رویے پر آپے سے باہر ہو جاتی یا کم از کم اُن کے جانے کے بعد خفگی کا اظہار ضرور کرتی، لیکن وہ تو بڑی رسان سے چاؤ کے دفتر سے نکلی تھی۔ مریض کی مرضی آپریشن کروائے، نہ کروائے۔
’’اب کے کونسے بڑے افسر کا بلاوا آیا ہے؟‘‘ چیانگ نے دھیرے سے پوچھا۔
’’ابھی طے نہیں ہوا۔‘‘
’’جلدی چلو،‘‘ چیانگ نے اُسے کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارا وہ چچاچانگ تو میرے قابو میں نہیں آرہا۔ وہ اڑا ہوا ہے کہ آپریشن نہیں کروائے گا۔‘‘
’’ایسا نہیں ہو سکتا! اس نے اتنا پیسہ خرچ کیا ہے اور اتنا لمبا سفر کرکے یہاں پہنچا ہے۔ آپریشن کے بعد اس کی بینائی لوٹ آئے گی۔ ہمارا فرض ہے کہ اُس کا علاج کریں۔‘‘
’’تو پھر تم ہی سمجھاؤ اسے۔‘‘
دونوں مسکرا مسکرا کر مریضوں کے سلام کا جواب دیتی ہوئی ویٹنگ روم سے گزر گئیں۔ ُ لو اپنے کمرے میں آگئی اور ایک نوجوان مریض کا معائنہ کررہی تھی کہ کسی نے پاٹ دار آواز میں پکار کر کہا، ’’ڈاکٹر ُ لو!‘‘
ُ لو اور مریض دونوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو ایک لمبا تڑنگا چوڑے چکلے شانوں والا تنومند بوڑھا چلا آرہا تھا۔ عمر پچاس پچپن کے درمیان رہی ہوگی۔ وہ سیاہ رنگ کے پاجامے اور قمیص میں تھا اور سر کے گرد سفید تولیہ لپیٹ رکھا تھا۔ اُس کے گمبھیر لہجے کا اثر تھا کہ برآمدے میں بیٹھے مریضوں نے جلدی سے اس کے لیے راستہ چھوڑ دیا تھا اور وہ راستہ ٹٹولتا ہوا ُ لو کی آواز کی سمت بڑھتا چلا آرہا تھا۔ وہ اندھے پن کے سبب بالکل بے خبر تھا کہ سب لوگوں کی توجہ اُس کی طرف مبذول تھی۔
ُ لو نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے سہارا دیتے ہوئے کہا۔ ’’چچا چانگ، یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘
’’شکریہ ڈاکٹر ُ لو۔ مَیں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’اچھا اچھا۔ فی الحال یہاں بیٹھ جاؤ۔‘‘ ُ لو نے اسے کرسی پر بٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’مجھے بیجنگ آئے کافی دن ہو گئے اور اب واپس جانا چاہتا ہوں۔ پھر کسی وقت آجاؤں گا۔‘‘
’’نہیں۔ تم اتنی دُور سے آئے ہو اور پھر اتنے پیسے بھی خرچ کئے ہیں۔۔۔‘‘
’’یہی تو بات ہے، ‘‘ چانگ نے اُس کی بات کاٹ دی۔ ’’مَیں واپس جا کر کچھ اور پیسے کمانا چاہتا ہوں۔ اگر چہ مجھے دکھائی نہیں دیتا، لیکن کچھ نہ کچھ کام تو کرہی لیتا ہوں۔ بریگیڈ کے لوگ مجھ پر بڑے مہربان ہیں۔ ڈاکٹر ُ لو، مَیں واپس جانے کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ مگر آپ کو خدا حافظ کہے بغیر جا بھی تو نہیں سکتا تھا۔ آپ نے میری بڑی مدد کی ہے۔‘‘
اُس کی آنکھوں کے قرنیے پر برسوں سے ورم تھا۔ ڈاکٹر ُ لو ایک بار میڈیکل ٹیم کے ہمراہ اُس کے گاؤں گئی تو اُسے آپریشن کروانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ اُسی مشورے پر وہ اسپتال آیا تھا۔
’’تمہارے بیٹے نے تمہیں یہاں بھجوانے پر بہت سا پیسہ خرچ کیا ہے۔ ہم تمہیں اِسی حالت میں گھر واپس نہیں جانے دیں گے۔‘‘
’’مَیں اب بہتر محسوس کررہا ہوں۔‘‘
ُ لو ہنسنے لگی۔ ’’آپریشن کے بعد تم مزید بیس سال کام کرنے کے قابل ہو جاؤ گے۔ تمہاری صحت بہت اچھی ہے۔‘‘
چانگ بھی ہنس دیا۔ ’’یقینا! اگر میری آنکھیں ٹھیک ہو جائیں تو مَیں ہر کام کر سکتا ہوں۔‘‘
’’تو پھر علاج کے بعد جاؤ۔‘‘
چانگ نے دھیرے سے جواب دیا، ’’ڈاکٹر ُ لو، سچی بات تو یہ ہے کہ میرے پاس پیسے کم پڑ گئے ہیں۔ میں بیجنگ میں ہوٹل کا خرچہ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘
ُ لو کو ایک دھچکا سا لگا اور جلدی سے بولی، ’’اب فہرست پر تمہارا نام ہے۔ جو نہی کوئی آنکھ کا عطیہ دے گا ہم تمہارا آپریشن کر دیں گے۔‘‘
آخر وہ مان گیا۔ ُ لو اُسے باہر پہنچا آئی۔ اور اِس کے بعد گیارہ بارہ سال کی ایک لڑکی اُس کے پاس آگئی۔ اُسے ایک دن قبل ہی اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
اُس کا خوبصورت، گلابی چہرہ بھینگے پن کی وجہ سے بدنما ہو رہا تھا۔ اُس نے قریب آکر ڈرتے ڈرتے پکارا، ’’ڈاکٹر ُ لو۔‘‘
’’وانگ شیاؤ مان، تم اپنے وارڈ میں کیوں نہیں جاتیں؟‘‘
’’مجھے ڈر لگتا ہے۔ مَیں گھر جانا چاہتی ہوں۔‘‘ اُس نے بسورنا شروع کردیا۔ ’’مَیں آپریشن نہیں کرواؤں گی۔‘‘
ُ لونے اسے بازوؤں کے حلقے میں لیتے ہوئے کہا، ’’کیوں، آپریشن کیوں نہیں کروانا چاہتیں؟‘‘
’’بہت درد ہوگا۔‘‘
’’بیوقوف لڑکی، ذرا بھی درد نہیں ہوگا۔ ہم تمہیں پہلے بے ہوشی کا ٹیکا لگائیں گے۔ اور بس! درد کا پتا بھی نہیں چلے گا۔‘‘ ُ لو نے اُس کے بال سہلاتے ہوئے کہا، ’’تم نہیں چاہتیں کہ تمہاری یہ بھدی آنکھ دوسری آنکھ کی طرح خوبصورت بن جائے؟ اب اپنے وارڈ میں جاؤ۔ اسپتال میں ادہر ادہر بھاگتے پھرنا اچھی بات نہیں ہوتی۔‘‘
لڑکی آنسو پونچھتی ہوئی چلی گئی اور ُ لو دوسرے مریضوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔
کچھ دنوں سے مریضوں کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ چاؤ کے دفتر میں جو وقت ضائع ہوا تھا وہ اُس کی تلافی کرنا چاہتی تھی۔ وہ چھیاؤ، چھین اور خود اپنے آپ کو بھول کر مریضوں میں کھو گئی۔
ایک نرس نے آکر بتایا کہ اس کا ٹیلی فون تھا۔
وہ مریضوں سے معذرت کرتی ہوئی فون سننے چلی گئی۔
فون کنڈرگارٹن کی نرس کا تھا۔ ’’آپ کی بچی شیاؤ چیا کو کل رات سے بخار ہے۔ مَیں جانتی تھی آپ بہت مصروف ہوں گی، چنانچہ خود ہی اسے ڈاکٹر کے پاس لے گئی۔ ڈاکٹر نے ٹیکا لگا دیا ہے، پر بخار نہیں اترا۔ وہ آپ کو پکارے جا رہی ہے۔ کیا آپ آسکتی ہیں؟‘‘
’’ابھی آئی۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے رسیور رکھ دیا۔
لیکن اُسے جانے میں خاصی دیر ہوگئی۔ بہت سے مریض انتظار میں بیٹھے تھے۔ اُس نے شوہر کو فون کیا تو وہ کسی میٹنگ میں جا چکا تھا۔
چیانگ نے دفتر میں آکر پوچھا، ’’کس کا فون تھا۔ کوئی خاص بات؟‘‘
’’نہیں، کوئی خاص بات نہیں۔‘‘
اپنے غموں کی صلیب کا بوجھ دوسروں کے کندھوں پر ڈال دے، یہ ُ لو کو کبھی گوارا نہ تھا۔ ’’مریض بھگتا کر ہی کنڈر گارٹن جاؤں گی، ‘‘ اس نے سوچا اور مریضوں میں کھو گئی۔ اوّل اوّل اُسے بیٹی کے خیال نے ستایا، لیکن بالآخر فرض احساسات پر غالب آگیا۔ مریضوں سے فارغ ہو کر وہ سیمابی کیفیت لیے کنڈر گارٹن کی طرف چل دی۔
(7)
’’بڑی دیر لگا دی آنے میں۔‘‘ نرس نے شکایت کی۔
ُ لو لپک کر بیٹی کے کمرے میں پہنچی۔ اُس کا چہرہ بخار سے تمتما رہا تھا۔ ہونٹ کھلے ہوئے تھے، آنکھیں بند تھیں اور سانس لینے میں دقت محسوس کر رہی تھی۔
وہ جھک گئی۔ ’’امی آگئی ہے، میری دلاری۔‘‘
ُ لو، شیاؤ چیا کو اپنے اسپتال لے گئی۔ وہ اسے بچوں کے ماہر ڈاکٹر کو دکھانا چاہتی تھی۔
’’اسے نمونیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر نے کہا۔ ’’بڑی احتیاط برتنی پڑے گی۔‘‘
شیاؤ چیا کو ٹیکا لگوانے اور کچھ دوائیاں لینے کے بعد وہ باہر نکل آئی۔
دو پہر کے اِن لمحوں میں اسپتال ایک عجیب سناٹے میں ڈوبا ہوا تھا۔ بیرونی مریض جا چکے تھے، اسپتال میں داخل مریض سو رہے تھے اور عملے کے لوگ آرام کر رہے تھے۔ باغیچے میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور اِدھر اُدھر درختوں پر پھد کتی پھررہی تھیں۔ شہروں کے شور شرابے میں جہاں اونچی اونچی عمارتیں کھڑی تھیں اور فضا کثافت سے آلودہ رہتی تھی، فطرت ہنوز انسان سے نبرد آزما تھی۔ دن بھر اسپتال میں رہنے کے باوجود ڈاکٹر ُ لو کو کبھی وہاں چڑیوں کے وجود کا احساس نہیں ہوا تھا۔
وہ شش و پنج میں پڑ گئی کہ بیٹی کو کہاں لے کر جائے۔ بیمار بچی کو کنڈر گارٹن میں چھوڑنا مناسب نہ تھا، مگر گھر میں بھی اُس کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا!
کچھ پس و پیش کے بعد وہ جی کڑا کرکے کنڈ ر گارٹن کی طرف ہولی۔
’’نہیں، مَیں وہاں نہیں جاؤں گی،‘‘ شیاؤ چیا اُس کے کندھے سے چمٹ کر دہائی دینے لگی۔
’’بڑی اچھی بیٹی ہے شیاؤ چیا۔۔۔‘‘
’’نہیں، مَیں گھر جاؤں گی!‘‘ اُس نے پاؤں چلانے شروع کردےئے۔
’’اچھا تو پھر گھر ہی چلتے ہیں۔‘‘
وہ بچی کو کندھے سے لگائے ایک مصروف سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگی، جہاں حال ہی میں جدید ترین ملبوسات کے بڑے بڑے اشتہاری بورڈ لگائے گئے تھے۔ ُ لونے کبھی دکانوں کی آرائشی کھڑکیوں میں جھانکنے کی ہمت نہیں کی تھی اور نہ ہی اُسے اُن چیزوں سے کوئی دلچسپی تھی جو کسان شہروں میں لا کر بیچتے تھے۔ دو بچوں کے ساتھ گھر کا خرچ چلانا ہی خاصا دُو بھر تھا۔ اور اس وقت تو اُسے گردوپیش پر نظر ڈالنے کا بالکل ہی ہوش نہ تھا۔
گھر پہنچی تو اس کا بیٹا یوان یوان منہ پھلائے انتظار کر رہا تھا۔ ’’امی، اتنی دیر کہاں لگا دی؟‘‘ اُس نے چھوٹتے ہی سوال جڑ دیا۔
’’شیاؤ چیا بیمار ہے،‘‘ اُس نے بیٹی کو بستر پر لٹاتے ہوئے تلخی سے جواب دیا۔
یوان یوان نے جو میز کے قریب کھڑا تھا، جھنجلا کر کہا، ’’امی، کھانا پکاؤ، نہیں تو مجھے دیر ہو جائے گی۔‘‘
ُ لو بھی بے بسی کے عالم میں چلا اٹھی، ’’تم تو مجھے پاگل کرکے رکھ دو گے!‘‘
یوں جھڑکی ملنے پر یوان یوان رو ہانسا ہو گیا۔ ُ لو اسے نظر انداز کرکے چولہا جلانے لگی۔ نعمت خانہ خالی پڑا تھا۔ کھانے کی کوئی بچی کھچی چیز بھی نہیں تھی۔
وہ اپنے آپ کو ملامت کرنے لگی کہ بیچارے لڑکے کو بلاوجہ اِتنی بُری طرح ڈپٹ دیا تھا۔ پچھلے چند برسوں سے گھرداری کا سارا بوجھ اسی کے کندھوں پر آن پڑا تھا۔ ثقافتی انقلاب کے دوران اس کے شوہر کی لیبارٹری بند ہوگئی تھی اور تحقیقی منصوبہ اتھل پتھل ہو کر رہ گیاتھا۔ وہ صبح اور سہ پہر کو محض گھنٹے دو گھنٹے کے لئے دفتر جاتا اور باقی سارا وقت گھریلو کام کاج میں جٹا رہتا۔ یوں ُ لو کو گھر کے بکھیڑوں سے نجات مل گئی تھی۔ لیکن سائنسی تحقیق دوبارہ شروع ہونے کے بعد فُومصروف ہو گیا تھا اور ُ لو پھر سے گھر کے گورکھ دھندوں میں الجھ کے رہ گئی تھی۔ اسے روزانہ دوپہر کو گھر آکر پکانا ریندھنا پڑتا تھا۔
اُس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور بیٹے کو کچھ پیسے دیتے ہوئے کہا، ’’جاؤ اپنے لیے کھانے کو کچھ لے آؤ۔‘‘
یوان یوان نے جاتے جاتے مڑ کر پوچھا، ’’اور تم امی؟‘‘
’’مجھے بھوک نہیں۔‘‘
’’مَیں تمہارے لیے بھی روٹی خرید لاتا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد وہ دو روٹیاں اٹھائے واپس آیا اور ایک روٹی ماں کو تھما کر دوسری خود کھاتا ہوا اسکول چلا گیا۔
ٹھنڈی روٹی چباتے ہوئے ُ لو یونہی چھوٹے سے کمرے میں نظریں دوڑاتی رہی۔
ُ لو اور اس کا شوہر فطرتاً سادگی پسند تھے اور شادی کے بعد سے اِسی چھوٹے سے کمرے میں گزارا کرتے چلے آئے تھے۔ تنگ دستی کے سبب وہ کوئی صوفہ، کپڑوں کی الماری یا نئی میز تک نہیں خرید سکے تھے۔ تاہم انہیں کتابوں سے عشق تھا۔ شادی کے بعد جب وہ اِس چھوٹے سے کمرے میں آبسے تو ایک دن پڑوسن خالہ چھن نے مذاق مذاق میں کہا تھا، ’’یہ کتابی کیڑے آخر گزارا کیسے کریں گے؟‘‘ تاہم وہ خوش تھے۔
وہ ہر بیتتے لمحے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔ شام کو پاس پڑوس کے بچے اس نئے نویلے جوڑے کے کمرے میں تاک جھانک کرتے تو انہیں ہمیشہ پڑھائی میں مگن پاتے۔ ُ لو اکلوتی میز پر ڈکشنری کی مدد سے طب کی غیر ملکی کتابوں میں ڈوب جاتی اور فُو صندوق پر کتابیں رکھے مطالعہ کرتا رہتا۔ گرمیوں میں پڑوسی صحن میں بیٹھ کر گپیں لگاتے۔ مگر اُن دونوں کو چائے کی مہک، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، ٹمٹماتے ستاروں اور اِدھر اُدھر کی خبروں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اپنے چھوٹے سے اُمسے ہوئے کمرے میں بند رہتے۔
بہرحال، یہ پُرسکون دور جلد ہی خواب ہو کر رہ گیا۔ پہلے یوان یوان اور پھر شیاؤ چیا کی آمد زندگی میں مشکلات کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی مسرت بھی لے کر آئی۔ اُن کے معمولات میں بھی فرق آگیا۔ پنگوڑے کی جگہ چھوٹے بچھونوں نے لے لی۔ کمرے میں ہر طرف بچوں کا کاٹھ کباڑ بکھرا رہنے لگا۔ اُن کا شور شرابا اور قلقاریاں دن بھر گونجتی رہتیں۔
یوان یوان نے اسکول جانا شروع کیا تو اُس نے میز پر بھی قبضہ جما لیا۔ اب یہ ہوتا کہ وہ اسکول کاکام کر چکتا تو تب کہیں ُ لو کو مطالعے کا موقع ملتا اور وہ اپنی طبی کتابیں اورکاپیاں پھیلا کر بیٹھ جاتی۔ اِس کے بعد فُوکی باری آتی۔
زندگی کس قدر دشوار ہو کر رہ گئی تھی!
ُ لو کی نظریں چھوٹی سی گھڑی پر جمی ہوئی تھیں۔ ایک بج کر پانچ منٹ، دس منٹ، پندرہ منٹ۔ اسپتال جانے کا وقت ہو رہا تھا۔ کیا کرے؟ اگلے روز وارڈ ڈیوٹی پر جانے سے پہلے اُسے کئی کام نمٹانے تھے۔ شیاؤ چیاکا کیا ہو گا؟ شوہر کو بلا لے؟ قریب میں کوئی ٹیلی فون بوتھ بھی نہیں تھا اور پھر جانے وہ فون پر ملے نہ ملے۔ اُس کے دس سال پہلے ہی ضائع ہو چکے تھے۔ بہتر ہے اسے تنگ نہ کیا جائے۔
اس کی پیشانی پر شکنیں اُبھر آئی تھیں اور وہ انہی خیالوں میں غوطے کھا رہی تھی۔
وہ یونہی شادی کے جھمیلوں میں پڑ گئی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں شادی پیار کا گلا گھونٹ کے رکھ دیتی ہے۔ وہ ذراسی دانشمندی سے کام لیتی تو کنبے کے بوجھ سے جان چھوٹی رہتی۔
ایک بیس ۔ خالہ چھن کا دروازہ کھٹکھٹائے؟ خالہ چھن کئی بار آڑے وقت میں کام آئی تھی۔۔۔ اُس نے کبھی خدمت کا معاوضہ قبول نہیں کیا تھا، لہذا وہ اسے تکلیف دینے سے حتی الوسع گریز کرتی تھی۔
مگر اس وقت تو مجبوری تھی۔ وہ خالہ چھن کے پاس گئی تو اُس نے بڑی اپنائیت سے کہا، ’’بچی کو میرے پاس چھوڑ جاؤ، ڈاکٹر ُ لو۔‘‘
اُس نے بچوں کی کچھ مصور کتابیں اور کھلونے شیاؤچیا کے پاس چھوڑے اور خالہ چھن کو اسے وقت پر دوا پلانے کی تاکید کرتی ہوئی اسپتال روانہ ہو گئی۔
وہ نرس سے کہنا چاہتی تھی کہ اس کے پاس کم سے کم مریض بھیجے۔ وہ جلدی گھر لوٹنا چاہتی تھی۔لیکن سب کچھ بھول گئی۔
چاؤ نے اُسے ٹیلی فون پر ایک بار پھر یاد دلایا کہ چھیاؤ اگلے روز اسپتال میں داخل ہونے والا تھا۔
چھین نے دو بار ٹیلی فون کیا اور آپریشن کی تیاریوں کے بارے میں پوچھتی رہی۔
وہ کیا جواب دیتی۔ اُس نے ایسے سینکڑوں آپریشن کئے تھے مگر کسی نے پے در پے سوال کرکے کبھی یوں پریشان نہیں کیا تھا۔ اُس نے محض اتنا جواب دیا، ’’کسی خاص تیاری کی ضرورت نہیں۔‘‘
’’واقعی؟ بہتر ہے قبل از وقت ہی مناسب تیاری کرلی جائے۔ کیا خیال ہے اگر مَیں اسپتال آ جاؤں اور صلاح مشورہ کرلیا جائے؟‘‘
ُ لو نے بعجلت جواب دیا، ’’آج سہ پہر مَیں بہت مصروف ہوں۔‘‘
’’تو پھر کل اسپتال میں بات کرلیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
وہ گھر لوٹی تو اندھیرا اتر آیا تھا اور خالہ چھن شیاؤ چیا کو گیت سنا رہی تھی۔
’’میری دلاری،
جلدی جلدی بڑی ہو جاؤ
اور انجینئر بنو۔‘‘
اور شیاؤ چیا ہنس رہی تھی۔ اُس نے خالہ چھن کا شکریہ ادا کیا۔ بچی کی پیشانی کو چھو کر دیکھا تو بخار اتر چکا تھا۔ اُس نے اُسے ایک اور ٹیکا لگایا۔ اتنے میں فُو آگیا اور تھوڑی دیر بعد چیانگ یا فن اور اُس کا شوہر لیو بھی آپہنچے۔
’’ہم خدا حافظ کہنے آئے ہیں،‘‘ چیانگ نے کہا۔
’’کہاں جارہے ہو تم لوگ؟‘‘ ُ لونے پوچھا۔
’’ہمیں ابھی ابھی کینیڈا کا ویزا ملا ہے۔‘‘ چیانگ نے فرش پر نظریں جمائے جواب دیا۔
لیو کا باپ کینیڈا میں ڈاکٹر تھا اور انہیں وہاں بلانا چاہتا تھا۔ تاہم ُ لوکو توقع نہیں تھی کہ وہ چلے جائیں گے۔
’’کب تک وہاں رہوگے؟ لوٹ کر کب آؤگے؟‘‘ ُ لونے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔
’’ممکن ہے ہمیشہ کے لیے وہیں رہ جائیں۔‘‘ لیونے سوالیہ نظروں سے سہیلی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ڈرتی تھی کہ تم روکنے کی کوشش کروگی۔ اور یہ بھی اندیشہ تھاکہ کہیں میں اپنا ارادہ نہ بدل دوں۔‘‘ چیانگ نظریں چراتے ہوئے بولی۔
لیونے ہینڈبیگ سے کھانے پینے کی چیزیں نکالتے ہوئے کہا، ’’مجھے یقین ہے تم لوگوں نے ابھی کھانا نہیں پکایا۔ آؤ آج شام الوداعی ڈنر ہو جائے۔‘‘
(8)
چیانگ اور اُس کے شوہر کو رخصت کرنے اور بچوں کو سلانے کے بعد ُ لو باورچی خانہ صاف کرنے لگی۔ وہ کمرے میں واپس آئی تو فُو بستر سے ٹیک لگائے خیالوں میں گم تھا اور ایک ہاتھ سے پیشانی مسلے جا رہا تھا۔
’’کیا سوچ رہے ہو، چیا چیے؟‘‘ ُ لو اسے دلگیر دیکھ کر حیران سی ہوگئی۔
’’تمہیں پیٹوفی کا وہ گیت یاد ہے؟‘‘ فُونے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کر دیا۔
’’ہاں، یاد ہے!‘‘
’’کاش میں کوئی خزانہ ہوتا۔۔۔‘‘
فُو نے پیشانی سے ہاتھ ہٹا لیا۔ ’’ مَیں اب کھنڈر بن چکا ہوں۔ میرے بال اڑتے جا رہے ہیں۔ سر سفید ہونے لگا ہے۔ پیشانی پر لکیریں ابھر رہی ہیں۔ مَیں ایک کھنڈر بن چکا ہوں!‘‘
وقت کے بے رحم ہاتھوں نے گویا اسے قبل از وقت بڑھاپے کی حدوں میں دھکیل دیا تھا۔ ُ لو پریشان ہو گئی اور اُس کی پیشانی کو چھوتے ہوئے بولی، ’’یہ میرا دوش ہے! ہم تمہارے لیے بوجھ بن چکے ہیں!‘‘
فُونے پیار سے اُس کا ہاتھ تھام لیا۔ ’’نہیں، اِس میں تمہارا کوئی دوش نہیں۔‘‘
’’مَیں بڑی خود غرض ہوں۔ صرف اپنے کام سے مطلب رکھتی ہوں۔‘‘ ُ لو کی آواز میں لرزش تھی۔ وہ شوہر کی پیشانی سے نظریں نہیں ہٹا پا رہی تھی۔ ’’یہ میرا اپنا گھر ہے، مگر مَیں اس پر توجہ نہیں دیتی۔ اسپتال سے چھٹی کے بعد بھی میرا دھیان مریضوں میں رہتا ہے۔ مَیں اچھی بیوی بن سکی ہوں نہ اچھی ماں۔‘‘
’’بے وقوفی کی باتیں مت کرو! مَیں جانتا ہوں تم نے کتنی قربانی دی ہے!‘‘ اُس کی پلکوں پر آنسو جھلملانے لگے اور وہ چپ ہو گیا۔
ُ لونے اس کی چھاتی پر سر ٹکا دیا اور اداس لہجے میں بولی، ’’مَیں تمہیں یوں بوڑھا ہوتے نہیں دیکھ سکتی۔۔۔‘‘
’’فکر مت کرو۔
’’اگر میری محبوبہ عشق پیچاں کی بیل ہے تو وہ مجھے نرمی اور ملائمت سے اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔‘‘
اُس نے گیت کا مصرع دوہرا دیا، جو دونوں کا پسندیدہ گیت تھا۔
پت جھڑ کی ساکت رات میں ُ لو شوہر کے سینے پر سر رکھے رکھے نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔ اُس کی پلکیں بھیگی ہوئی تھیں۔ فُو نے اُسے دھیرے سے بستر پہ لٹایا تو اُس نے آنکھیں کھول دیں، ’’کیا مَیں سو گئی تھی؟‘‘
’’ تم بہت تھکی ہوئی ہو۔‘‘
’’نہیں، بالکل نہیں۔‘‘
فُونے پہلو بدل کر اُس کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا، ’’یوں تو لوہا بھی تڑخ جاتا ہے۔ پہلے اُس میں چھوٹا سا بال آتا ہے جو بڑھتا جاتا ہے اور آخر کار اچانک تڑخ جاتا ہے۔‘‘
فُو اپنے پیشے کی نسبت سے اکثر اس قسم کی مثالیں دیتا رہتا تھا۔ مگر اُس وقت یہ بات ُ لو کے دل پر نقش ہو کر رہ گئی۔
خوفناک بال، دہشت خیز ٹوٹ پھوٹ، رات کے سناٹے میں ُ لو کو جیسے تڑخنے، ٹوٹنے کے دھماکے سنائی دے رہے تھے۔ بڑے پلوں، ریل کی پٹریوں، دیواروں اور کھنڈر سے لپٹی عشق پیچاں کی بیل کے ٹوٹنے اور تڑخنے کے دھماکے۔۔۔ ہر شے ٹوٹ رہی تھی!
(9)
رات بھیگتی جارہی تھی۔
کمرے میں چھوٹے سے نیلے قمقمے کی مدہم روشنی بکھری ہوئی تھی۔
روشنی کے دو نیلے ترِمرے جگنوؤں کی مانند اُس کی نظروں کے سامنے لہرائے اور دیکھتے ہی دیکھتے چھین کی سرد آنکھوں کا روپ دھار گئے۔
گو چھین نے جب اسے چھیاؤ کے کمرے میں بلوایا تھا تو اس کے لہجے میں بڑی گرمجوشی اور گھلاوٹ تھی۔ ’’ڈاکٹر ُ لو، بیٹھئے۔ لاؤ چھیاؤ ای سی جی کرانے گئے ہیں۔ تھوڑی دیر میں لوٹ آئیں گے۔‘‘
یہ کمرہ اسپتال کی ایک پر سکون عمارت میں تھا۔ اُس کے برآمدوں میں بھی سرخ قالین بچھے ہوئے تھے کہ یہ اعلیٰ حکام کے لیے مخصوص تھی۔ چھین آرام کرسی سے اٹھی، بستر کے سرہانے کی چھوٹی الماری سے سنگتروں کی ٹوکری نکالی اور بغلی میز پر رکھتے ہوئے مسکراکر بولی:
’’یہ سنگترہ لیں۔‘‘
’’نہیں شکریہ۔‘‘ ُ لونے بڑی ملائمت سے انکار کر دیا۔
’’چکھ کر تو دیکھیں۔ میری ایک سہیلی نے جنوبی چین سے بھیجے ہیں۔ بہت بڑھیا ہیں۔‘‘ اُس نے ایک سنگترہ اٹھا کر ُ لو کی طرف بڑھا دیا۔
ُ لونے سنگترہ لے لیا۔ چھین کا دوستانہ رویہ دیکھ کر اسے کچھ اچنبھاہوا تھا۔ پہلی ملاقات میں چھین کی سرد نگاہیں اُسے ابھی تک یاد تھیں۔
’’ڈاکٹر ُ لو، یہ موتیا بند آخر ہوتا کیا ہے؟ کچھ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ بعض حالات میں اِس کا آپریشن ضروری نہیں ہوتا۔‘‘ چھین کی گفتگو میں بڑی مٹھاس اور انکساری تھی۔
’’ایک جھلی سی آنکھ کے ڈھیلے پر چڑھ جاتی ہے اور اس سے بینائی ختم ہو جاتی ہے۔‘‘ ُ لونے سنگترے کو دیکھتے ہوئے وضاحت کی۔ ’’اسے کئی مرحلوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ موتیا پک جائے تو آپریشن کروا لینا ہی مناسب ہوتا ہے۔‘‘
’’ہونہہ۔ اگر آپریشن نہ کروایا جائے تو؟‘‘
ُ لو حیران تھی کہ آخر اتنے سوالوں کا کارن کیا تھا۔ محض وقت گزاری؟ وارڈ ڈیوٹی کا پہلا دن تھا۔ وہ ابھی مریضوں کو بھی نہیں دیکھ سکی تھی اور یہاں چھین بے کار باتوں میں وقت ضائع کررہی تھی۔ اُسے چھیاؤ کی آنکھ کا معائنہ بھی کرنا تھا۔
چھین نے جیسے چپ رہنا سیکھا ہی نہ تھا۔ کہنے لگی، ’’مَیں نے سناہے کہ دوسرے ملکوں میں مصنوعی عدسہ بنایا گیا ہے۔ مریض کو آپریشن کے بعد بڑا عدسہ لگانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ کیا یہ درست ہے؟‘‘
’’ہاں، ہم بھی اس پر تجربات کر رہے ہیں۔‘‘
چھین کے لہجے میں تجسس نمایاں ہو گیا، ’’آپ میرے شوہر کی آنکھوں میں یہ عدسہ لگا سکتی ہیں؟‘‘
ُ لو مسکرا دی۔ ’’مَیں نے ابھی کہانا کہ یہ عدسہ ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے۔ اور میری رائے میں اس کی ضرورت بھی نہیں۔ کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
’’ہاں، کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ چھین گڑبڑا گئی، ’’ ویسے آپریشن کا طریقہ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’کیا مطلب ہے آپ کا؟‘‘ ُ لو چکرا کر رہ گئی۔
’’میرا مطلب ہے، کسی غیر متوقع صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے آپ پہلے کوئی خاکہ نہیں بنا لیتیں؟ مَیں نے اخباروں میں اکثر پڑھا ہے۔ بعض اوقات صلاح مشورے کے لیے سرجنوں کی ٹیم بنالی جاتی ہے۔‘‘
ُ لوکی ہنسی چھوٹ گئی۔ ’’اِس کی کوئی ضرورت نہیں! یہ بڑا معمولی آپریشن ہے۔‘‘
چھین نے جھلا کر منہ پھیر لیا، لیکن چند لمحے بعد مسکرا کر پھر اسی بات پر آگئی۔ ’’دشمن کو کمتر سمجھنے سے بعض اوقات شکست کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ ایسا ہماری پارٹی کی تاریخ میں بھی ہو چکا ہے۔‘‘ اس پر ُ لو اسے بتانے لگی کہ کن حالات میں آپریشن ناکام ہو سکتا ہے۔
’’ہمیں ایسے مریضوں کے بارے میں خاص طور پر سوچنا پڑتا ہے، جو دل کے عارضے، ہائی بلڈ پر یشر یا برنکائٹس میں مبتلا ہوں۔ کھانسی بھی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔‘‘
’’مجھے بھی یہی خدشہ ہے،‘‘ چھین نے کرسی کے بازو پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ ’’میرے شوہر کو دل کی تکلیف ہے اور وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض بھی ہیں۔‘‘
’’ہم آپریشن سے پہلے مریض کا اچھی طرح معائنہ کر لیتے ہیں۔‘‘ ُ لونے اُسے تسلی دی۔
’’انہیں برنکائٹس بھی ہے۔‘‘
’’کیا حال ہی میں انہیں کھانسی کی شکایت بھی رہی ہے؟‘‘
’’نہیں، مگر اِس کا کیا بھروسا کہ آپریشن ٹیبل پر شروع ہو جائے؟ ایسی صورت میں کیا ہو گا؟‘‘
ُ لوبار بار گھڑی دیکھ رہی تھی اور اِس سوچ میں غلطاں تھی کہ چھین کو آخر اتنی پریشانی کیوں لاحق تھی۔ ساری صبح غارت ہو کر رہ گئی تھی۔ وہ فرانسیسی دریچے پر پڑے سفید لیس کے پردے کو دیکھنے لگی۔ اُس کا اعصابی کھچاؤ بڑھتا جارہا تھا۔ آخر خاصے انتظار کے بعد چھیاؤ ایک نرس کے سہارے چلتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
’’بڑی دیر لگا دی،‘‘ چھین اسے دیکھتے ہی بول اٹھی۔
چھیاؤ نے ُ لو سے ہاتھ ملایا اور تھکا تھکا سا آرام کرسی میں دھنس گیا۔ ’’طرح طرح کا معائنہ تھا۔ خون ٹیسٹ کیا گیا، ایکسرے لیا گیا اور پھر ای سی جی ہوا۔ یہاں کا عملہ بہت اچھا ہے۔ مجھے باری کا انتظار نہیں کرنا پڑا۔‘‘
’’مجھے تو گمان بھی نہ تھا کہ آنکھ کے آپریشن کے لئے اتنے ٹیسٹ ہوتے ہیں۔‘‘ چھین نے شوہر کو چائے کا پیالہ دیتے ہوئے حیرت کا اظہار کیا۔
ُ لونے رپورٹیں دیکھ کر کہا، ’’ ایکسرے اور ای سی جی نارمل ہیں۔ صرف بلڈ پریشر کچھ زیادہ ہے۔‘‘
’’کتنا زیادہ ہے؟‘‘ چھین نے کھدبدا کر کہا۔
’’150/100۔ لیکن یہ کوئی خطرے کی بات نہیں۔‘‘ ُ لونے جواب دیا اور پھر چھیاؤ سے پوچھنے لگی، ’’نائب وزیر چھیاؤ، حالیہ دنوں میں آپ کو کھانسی کی شکایت تو نہیں رہی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اُس نے ہلکے پھلکے لہجے میں جواب دیا۔
اب چھین اُس کے سرہو گئی، ’’ کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپریشن ٹیبل پر نہیں کھانسیں گے؟‘‘
’’بھئی ۔۔۔‘‘ چھیاؤ سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔
’’یہ بڑی اہم بات ہے، لاؤ چھیاؤ،‘‘ چھین نے بڑے گمبھیر لہجے میں کہا۔ ’’ڈاکٹر ُ لو نے ابھی ابھی مجھے بتایا ہے کہ اگر آپ کھانس دےئے تو آنکھ کا ڈھیلا باہر آجائے گا۔‘‘
چھیاؤ نے ُ لو کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’یہ مَیں یقین سے کیسے کہہ دوں کہ کھانسی نہیں آئے گی؟‘‘
’’یہ کوئی تردّد کی بات نہیں۔ بس اتنا کریں کہ اگر آپ سگریٹ کے عادی ہیں تو آپریشن سے پہلے سگریٹ نہ پئیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘
چھین کی سوئی ہنوز اٹکی ہوئی تھی، ’’مگر کھانسی آگئی تو کیا کروگے؟ ایسی صورت میں کیا ہوگا؟‘‘
ُ لو ہنسنے لگی۔ ’’کامریڈ چھین آپ پریشان نہ ہوں۔ کھانسی کی صورت میں ہم ِ چیرے کو سی دیں گے اور کھانسی رکنے کے بعد پھر کھول لیں گے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک کہا آپ نے۔‘‘ چھیاؤ بول اٹھا۔ ’’جب میری دائیں آنکھ کا آپریشن ہوا تھا تو اِسی طرح کیا گیا تھا، لیکن اس کی وجہ کھانسی نہیں تھی!‘‘
’’پھر کیا سبب تھا؟‘‘ ُ لو کے لہجے میں تجسس جھلک آیا۔
چھیاؤ نے چائے کا کپ رکھ کر سگریٹ کیس نکالا اور ُ لو کی ہدایت یاد آنے پر پھر جیب میں ڈال لیا۔ اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا۔ ’’مجھ پر غداری کا الزام لگایا جا چکا تھا اور زندگی بڑی کٹھن ہو رہی تھی۔ اِس دوران میری دائیں آنکھ کی بینائی جاتی رہی اور مجھے آپریشن کروانا پڑا۔ آپریشن ابھی شروع ہوا تھا کہ کچھ باغی اندر گھس آئے اور سرجن کو مجبور کرنے لگے کہ وہ میرا آپریشن نہ کرے۔ مارے غصے کے میرا دم گھٹ رہا تھا، لیکن سرجن نے بڑے سکون سے چیرے میں ٹانکے لگائے، باغیوں کو دھکے دے کر باہر نکالا اور پھر اسی اطمینان سے دوبارہ آپریشن میں مشغول ہو گئی۔‘‘
’’واقعی؟‘‘ ُ لومبہوت سی ہو کر رہ گئی، ’’کس اسپتال میں آپریشن ہوا تھا؟‘‘
’’اِسی اسپتال میں۔‘‘
عجب اتفاق تھا! اُس نے گہری نظروں سے چھیاؤ کو دیکھا مگر پہچان نہ سکی۔
دس سال قبل وہ ایک نام نہاد غدار کی آنکھ کا آپریشن کر رہی تھی کہ باغی اندر آ گھسے تھے۔ اس مریض کا نام بھی چھیاؤ تھا۔ کیا وہ یہی چھیاؤ تھا؟ بعدازاں چھیاؤ کے محکمے کے باغیوں نے اسپتال کے ایک باغی کے ساتھ مل کر ایک پوسٹر بھی لگایا تھا کہ ’’ ُ لو وَن تھینگ نے غدار چھیاؤ چھنگ شی کا آپریشن کرکے پرولتا ریہ سے غداری کی ہے۔‘‘
وہ چھیاؤ کو پہچان نہیں پائی تھی تو یہ کوئی حیرت کی بات نہ تھی۔ اُس وقت چھیاؤ ایک پریشان حال، زردرو آدمی تھا۔ اُس نے پرانا روئی دار کوٹ پہن رکھا تھا اور عام بیرونی مریض کی حیثیت سے تنہا ہی آیا تھا۔ ُ لو نے اُسے آپریشن کروانے کو کہا اور وہ مقررہ تاریخ پر آگیا۔ اُس نے آپریشن شروع کیا تو باہر نرس کسی سے کہہ رہی تھی، ’’اندر جانے کی اجازت نہیں۔ یہ آپریشن تھیٹر ہے۔‘‘
باہر شور مچ گیا۔ ’’تھو! وہ غدار ہے۔ ہم غداروں کا علاج نہیں ہونے دیں گے۔‘‘
’’دروازہ توڑ دو!‘‘
چھیاؤ نے آپریشن ٹیبل پر لیٹے لیٹے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، ’’ڈاکٹر، مت کرو آپریشن۔ اندھا ہو جانے دو مجھے۔‘‘
ُ لو نے اسے ہلنے جلنے سے منع کرتے ہوئے بڑی چابک دستی سے ِ چیرا سی دیا۔
تین آدمی درّاتے ہوئے اندر گھس آئے، جبکہ کچھ جھجک کر دروازے ہی میں رک گئے۔ ُ لو بے حس و حرکت بیٹھی رہی۔
چھیاؤ کے بقول ڈاکٹر نے باغیوں کو دھکے دے کر باہر نکال دیا تھا۔ جبکہ واقعہ درحقیقت کچھ اور تھا۔ وہ سفید گاؤن، سبز پلاسٹک کے سلیپر، نیلی ٹوپی اور ماسک پہنے آپریشن ٹیبل کے پاس ایک اسٹول پر بیٹھی رہی۔ ایسے میں صرف اُس کی آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ باغی غالباً اُس کے انوکھے حلیے، آپریشن تھیٹر کے سنجیدہ ماحول اور سفید تولیے کے بیچوں بیچ سوراخ میں لہو لہو آنکھ سے مرعوب ہو گئے تھے۔ ُ لو نے ذرا سخت لہجے میں کہا ’’براہِ کرم، آپ لوگ باہر نکل جائیں!‘‘
باغیوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کمرے سے نکل گئے۔
ُ لو نے دوبارہ آپریشن شروع کیا تو چھیاؤ کہنے لگا، ’’ڈاکٹر، آپریشن رہنے دیں، آپ نے علاج کر بھی دیا تو یہ لو گ مجھے پھراندھا کر دیں گے اور آپ بھی اس قضےئے میں ملّوث ہو جائیں گی۔‘‘
’’خاموش رہو،‘‘ ُ لو نے جواب دیا اور اُس کے ہاتھ بجلی کی سی سرعت سے چلتے رہے۔ پٹی باندھتے ہوئے اُس نے صرف اتنا کہا تھا، ’’مَیں ایک ڈاکٹر ہوں۔‘‘ یہ تھی ساری کہانی۔
چھیاؤ کے محکمے کے باغیوں نے ُ لو کے خلاف پوسٹر لگایا تو ایک سنسنی پھیل گئی۔ تاہم اُس نے پوسٹر کو درخوراعتنا نہ سمجھا۔ اُسے تو پہلے ہی بورژوا اسپیشلسٹ قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جا رہا تھا۔ وہ سارے الزامات اور آپریشن کا ّ قصہ اُس کے ذہن سے محو ہو چکے تھے۔ مگر اب چھیاؤ نے بھولی بسری باتیں یاد دلا دی تھیں!
’’ڈاکٹر ُ لو مَیں دل سے اُس کا احترام کرتی ہوں۔ وہ حقیقی معنوں میں ڈاکٹر تھی،‘‘ چھین نے سرد آہ کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’افسوس اسپتال نے کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔ جانے وہ کون تھی؟ کل مَیں نے ڈائریکٹر چاؤ سے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ وہی ڈاکٹر میرے شوہر کا آپریشن کرے۔‘‘ پھر ُ لوکے چہرے پر جھنجلاہٹ دیکھ کر جلدی سے بولی، ’’معاف کیجئے گا، ڈاکٹر ُ لو، چونکہ ڈائریکٹر چاؤ کو آپ پر بھروسا ہے اس لیے ہم بھی آپ پر اعتماد کرتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ آپ ڈائریکٹر چاؤ کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچائیں گی۔ آپ کو اُس ڈاکٹر سے سیکھنا چاہیے۔ بے شک، ہم سب کو اس سے سیکھنا چاہیے، کیا خیال ہے آپ کا؟‘‘
ُ لو محض اثبات میں سر ہلا کر رہ گئی۔
’’آپ ابھی جوان ہیں۔‘‘ چھین نے حوصلہ بڑھانے کے انداز میں کہا۔ ’’مَیں نے سنا ہے کہ آپ ابھی تک پارٹی میں شامل نہیں ہوئیں۔ کامریڈ آپ کو اس سلسلے میں بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
’’میرا طبقاتی پس منظر اچھا نہیں۔‘‘ ُ لو نے لگی لپٹی رکھے بغیر جواب دیا۔
’’یوں مت سوچیں۔ یہ فیصلہ کرنا تو انسان کے بس میں نہیں کہ اسے کس کنبے میں پیدا ہونا چاہیے۔ ہاں، اپنی راہِ حیات متعین کرنے کا فیصلہ وہ خود ضرور کر سکتا ہے۔‘‘ چھین بڑے جوشیلے لہجے میں لیکچر پلانے لگی۔ ’’ہماری پارٹی طبقاتی ماخذ پر توجہ دیتی ہے، مگر یہ کوئی واحد کسوٹی نہیں۔ معاملے کا انحصار آدمی کے روّیے پر ہوتا ہے۔ جب کوئی اپنے اور اپنے کنبے کے درمیان خط امتیاز کھینچ لیتا ہے، پارٹی کے قریب آجاتا ہے، دل و جان سے عوام کی خدمت کرتا ہے، تو پھر پارٹی اُس کے لیے اپنی بانہیں وا کر دیتی ہے۔‘‘
ُ لو نے کھڑکیوں کے پردے گرا دےئے، چھیاؤ کی آنکھ کا معائنہ کیا اور اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی، ’’اگر آپ تیار ہوں تو پرسوں آپریشن کر دیا جائے۔‘‘
’’بہتر۔ جتنی جلدی آپریشن ہو جائے اتنا ہی اچھا ہے۔‘‘ چھیاؤ نے جواب دیا۔
ُ لو فارغ ہو کر باہر نکلی تو چھ بج چکے تھے۔ چھین اُس کے پیچھے لپکی چلی آئی، ’’ڈاکٹر ُ لو، آپ گھر جا رہی ہیں؟‘‘
’’جی ۔‘‘
’’ٹھہرےئے، چھیاؤ کی کار آپ کو چھوڑ آئے گی۔‘‘
’’نہیں، شکریہ۔‘‘ اُس نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔
(10)
رات لگ بھگ آدھی بیت چکی تھی۔ وارڈ میں ہر سُو سناٹا رینگ رہا تھا۔ دیواری قمقمے کی ماندی ماندی سی نیلگوں روشنی میں ڈرپ سے قطرہ قطرہ دوائی ڈاکٹر ُ لو کے جسم میں سرایت کر رہی تھی۔
فُو بستر کی پٹی سے لگا بیٹھا تھا۔ اُس کی کھو کھلی نظریں بیوی کے چہرے پر ٹکی ہوئی تھیں۔ جب سے وہ بیمار پڑی تھی اُسے پہلی بار تنہائی میسر آئی تھی اور شاید پچھلے بارہ تیرہ برسوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ اُس نے بیوی کو یوں نظروں میں بھر رکھا تھا۔
ایک بار وہ دیر تک اسے دیکھتا رہا تھا تو وہ شرما گئی تھی، ’’مجھے ایسی نگاہوں سے کیوں تک رہے ہو؟‘‘ اور فُو نے نظریں ہٹا لی تھیں۔ یہ تب کی بات ہے جب وہ ابھی شادی کے بندھنوں سے آزاد تھے اور پیار کی وادیوں میں چاہت کے دیپ جلا رہے تھے۔ پَر اِس لمحے تو وہ بے جان لاشے کی مانند پڑی تھی اور اِس احساس سے ماورا تھی کہ اُس کا چاہنے والا شوہر اسے یوں نظروں میں سموئے جا رہا تھا۔
وہ کتنی ناتواں اور بوڑھی لگ رہی تھی! اُس کے چمک دار سیاہ بالوں میں چاندی سے تار جھلملا رہے تھے۔ کَساکَسا، نرم و نازک بدن ڈھلکنے لگا تھا اور پیشانی پر لکیریں اُبھر آئی تھیں۔ ہو نٹوں کے گوشے جن میں کبھی بڑی رعنائی تھی، خمیدہ ہو رہے تھے۔ اُس کی زندگی اب بجھتے شعلے سمان تھی۔ رات بھر میں کیا سے کیا ہو گیا تھا!
وہ اچھی طرح جانتا تھا کہُ لو کمزوردل نہ تھی۔ اُس نے ہر طرح کی مشکلات اور ابتلاؤں کا مقابلہ کیا تھا اور کبھی حرفِ شکایت زبان پہ نہیں لائی تھی۔ کبھی آزردہ خاطر نہیں ہوئی تھی۔
’’تم بڑی جی دار عورت ہو،‘‘ وہ اُسے اکثر چھیڑا کرتا تھا۔
’’مَیں؟ نہیں بھئی مَیں تو بڑی ڈرپوک ہوں۔‘‘ اُس کا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا تھا۔
ایک رات پہلے ہی تو اس نے یہ اٹل فیصلہ کیا تھا کہ فُو اپنے انسٹی ٹیوٹ میں منتقل ہو جائے۔
شیاؤ چیا کی طبیعت خاصی سنبھل چکی تھی۔ یوان یوان نے اسکول کا کام ختم کر لیا اور دونوں بچے سو گئے تو چھوٹے سے کمرے میں جیسے یکایک طوفان تھم گیا۔
پت جھڑ نے ڈیرے ڈال دےئے تھے۔ ہوا میں خنکی بڑھ رہی تھی۔ اور کنڈرگارٹن والوں نے بچوں کے گرم کپڑوں کا تقاضا کر دیا تھا۔ ُ لونے شیاؤ چیا کا پچھلے سال والا دَگلا نکال کر ادھیڑا اور میز پر پھیلا کر کتر بیونت میں مصروف ہو گئی۔ اِسی اثنا میں فُو نے الماری سے اپنا ایک نامکمل مضمون نکالا، چند لمحے میز کے پاس کھڑا رہا اور پھر بستر پر جا بیٹھا۔
’’بس ایک منٹ،‘‘ ُ لو نے سر اٹھائے بغیر کہا، ’’میرا کام ختم ہو رہا ہے۔‘‘
اُس نے دَگلا میز سے اٹھایا تو فُونے حسرت بھرے لہجے میں کہا، ’’کاش ہمارے پاس ایک کمرہ اور ہوتا۔ بھلے سے چھوٹا سا ہی ہوتا۔ ایک اور میز رکھنے کی جگہ نکل آتی۔‘‘ ُ لوسر جھکائے دَگلا سیتی رہی اور تھوڑی دیر بعد یک لخت سلائی ادھوری چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی، ’’مَیں ذرا اسپتال جا رہی ہوں۔‘‘
’’کیوں؟ اتنی دیر گئے؟‘‘ وہ حیران ہو گیا۔
ُ لو نے دَگلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے جواب دیا، ’’صبح دو آپریشن کرنے ہیں۔ اور مجھے اس وقت مریضوں کی کیفیت دیکھنی ہے۔‘‘
وہ اکثر شام کو اسپتال چلی جایا کرتی تھی۔ فُو نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’گھر آکر بھی تمہارا دل اسپتال میں اٹکا رہتا ہے۔ باہر سردی ہے۔ گرم کپڑے پہن کر جانا۔‘‘
’’بس زیادہ دیر نہیں لگاؤں گی۔‘‘ اُس نے معذرت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا، ’’دو بڑے عجیب سے مریض آئے ہیں۔ ایک تو نائب وزیر ہے۔ اُس کی بیوی آپریشن کے فکر میں مری جارہی ہے اور عجب َ فیل مچا رکھا ہے۔ چنانچہ اُسے دیکھنا ضروری ہے۔ اور ایک بچی ہے۔ آج کہہ رہی تھی رات کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔‘‘
’’او کے، ڈاکٹر !‘‘ فُو مسکرا دیا، ’’جاؤ ، لیکن جلدی لوٹ آنا!‘‘
وہ لوٹ کر آئی تو فُو ہنوز کام میں کھویا ہوا تھا۔ وہ اُس کے کام میں مخل نہیں ہونا چاہتی تھی، چنانچہ بچوں کی رضائی ٹھیک کرتے ہوئے بولی، ’’مَیں سونے جا رہی ہوں۔‘‘
فُونے مڑ کر دیکھا تو وہ بستر میں دبک چکی تھی۔ وہ پھر اپنی کتابوں میں غرق ہو گیا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں اسے محسوس ہوا کہ ُ لو بستر میں بار بار بے چینی سے کروٹیں بدل رہی تھی۔ شاید اُسے روشنی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی! فُونے ٹیبل لیمپ کا شیڈ جھکا دیا اور ایک طرف اخبار سے ڈھک کر پھر کام میں منہمک ہو گیا۔
ُ لو دھیمے دھیمے خراٹے لینے لگی تو وہ سمجھ کیا کہ یہ جھوٹ موٹ کے خراٹے تھے۔ ُ لو اُسے انہماک سے کام کا موقع دینے کی خاطر اکثر سوتی بن جاتی تھی اور فُو مدت ہوئی اُس کی یہ ننھی منی چال بھانپ چکا تھا۔
آخر وہ بھی اٹھ گیا اور انگڑائی لیتے ہوئے بولا، ’’مجھے بھی نیند آرہی ہے۔‘‘
’’تم میری فکر مت کرو!‘‘ ُ لو جلدی سے بول اٹھی۔ ’’مَیں تو بس سو ہی رہی تھی۔‘‘ فُو نے ادھورے مضمون پر ایک نظر ڈالی، دم بھر کو ہچکچایا اور پھر کتابیں سمیٹتے ہوئے جواب دیا، ’’نہیں، باقی کل سہی۔‘‘
’’تم نے راتوں سے پورا فائدہ نہ اٹھایا تو مضمون کیسے مکمل کرو گے؟‘‘
’’ایک رات دس برسوں کی تلافی تو نہیں کر سکتی۔‘‘
ُ لو اٹھ بیٹھی۔ شانوں پر سویٹر ڈالا اور پلنگ کے سرہانے سے ٹیک لگاتے ہوئے بولی، ’’بھلا بتاؤ تو مَیں ابھی کیا سوچ رہی تھی؟‘‘
’’اِن سوچوں کو دفان کرو اور آنکھیں موند کر لیٹ جاؤ! کل تمہیں دوسرے لوگوں کی بینائی لوٹانی ہو گی۔‘‘
’’مَیں مذاق نہیں کررہی۔ سنو، میرا خیال ہے کہ تم انسٹی ٹیوٹ میں منتقل ہو جاؤ۔ وہاں تمہیں زیادہ فرصت مل جایا کرے گی۔‘‘
فُو متحیر سا ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ ُ لو کے چہرے پر شفق پھوٹ آئی تھی اور آنکھیں ناچ رہی تھیں۔
’’مَیں پوری سنجیدگی سے کہہ رہی ہوں۔ تمہیں بہت کچھ کرنا ہے۔ اور مَیں جانتی ہوں کہ یہاں ہم لوگوں کی وجہ سے تم کام پر پوری توجہ نہیں دے سکتے۔‘‘
’’چھوڑو اِس قصے کو! اِس کی وجہ تم۔۔۔‘‘
ُ لونے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا، ’’بلاشبہ، یہی وجہ ہے! ہم دونوں علیحدگی اختیار نہیں کرسکتے۔ تاہم کوئی ایسی راہ تو نکالی جا سکتی ہے کہ تم دلجمعی سے کام کر سکو۔‘‘
’’مگر بچوں اور گھرداری کا سارا بوجھ تمہارے کندھوں پر آپڑے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا!‘‘
’’کیوں نہیں ہو سکتا؟‘‘
اُس نے بہت سر مارا، پَر ُ لو نے ایک نہ سنی اور آخر میں کہنے لگی، ’’تم اکثر کہا کرتے ہو نا کہ مَیں بڑی جی دار عورت ہوں؟ مَیں گھر سنبھال لوں گی۔ تمہارا بیٹا بھو کا رہے گا، نہ تمہاری بیٹی کو کوئی تکلیف ہو گی۔‘‘
آخر اُس نے ہتھیار ڈال دےئے۔
’’چین میں کوئی کام کرنا کس قدر دشوار ہے!‘‘ فُو کپڑے بدلتے ہوئے بڑ بڑایا۔ ’’نئے چین کی خاطر بہت سے پرانے انقلابیوں نے جانیں نثار کیں۔ اور اب ملک کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے ہماری اِس نسل کو بے شمار قربانیاں دینی پڑ رہی ہیں۔ مگر شاید ہی کسی کو ان قربانیوں کا احساس ہو۔‘‘
وہ یونہی اپنے آپ سے باتیں کرتا رہا۔ کپڑے بدل کر بستر پر لیٹا تو ُ لو میٹھی نیند میں ڈوب چکی تھی اور اُس کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ شاید کوئی سہانا سپنا دیکھ رہی تھی!
کسے معلوم تھا کہ اُن کا یہ تجربہ پہلے ہی دن ناکام ہو جائے گا؟
(11)
اگلے روز سارے آپریشن کامیاب رہے۔
ُ لو معمول کے مطابق وقت سے دس منٹ پہلے وارڈ میں داخل ہوئی تو ڈاکٹر سُون اُس کا منتظر تھا۔
’’صبح بخیر، ڈاکٹر ُ لو۔‘‘ اُس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ہمیں آج ہی ایک آنکھ کا عطیہ ملا ہے۔ کیا اُسے استعمال کیا جاسکتا ہے؟‘‘
’’بہت خوب! ہمارے پاس ایک مریض موجود ہے۔ بیچارہ بہت پریشان ہے۔‘‘ ُ لوکا چہرہ خوشی سے ِ کھل اٹھا۔
’’مگر آپ کو تو پہلے ہی دو آپریشن کرنے ہیں۔ تیسرا آپریشن کرلیں گی؟‘‘
’’یقینا۔‘‘
’’بس تو پھر ٹھیک ہے۔‘‘
اتنے میں چیانگ بھی آگئی اور ُ لو کا بازو پکڑے آپریشن تھیٹر کی طرف ہولی۔ وہ بڑی خوش تھی اور خراماں خراماں چل رہی تھی۔
اسپتال کے آپریشن تھیٹر خاصے بڑے بڑے تھے۔ جب کسی مریض کو اسٹریچر پر لایا جاتا تو اُس کے عزیز و اقارب دروازے پر ہی رک جاتے اور امیدوبیم کی حالت میں اِدھر اُدھر دیکھتے رہتے جیسے موت وہیں کہیں چھپی بیٹھی ہو۔
لیکن حقیقت میں یہاں امیدیں پلتی تھیں۔ اندر دیواروں پر ہلکا سبز رنگ کیا گیا تھا جو آنکھوں کو بھلا لگتا تھا۔ یہاں کسی کو ہنسنے یا باتیں کرنے کی اجازت نہ تھی۔ سارے اسپتال میں صرف یہی جگہ تھی جہاں ہمہ وقت خاموشی پر پھیلائے رہتی تھی۔ نائب وزیر چھیاؤ کو آپریشن ٹیبل پر لٹا دیا گیا۔ اُس کا سر سفید تولیے سے ڈھکا ہوا تھا جس میں بائیں آنکھ کے عین اوپر سوراخ تھا۔
ُ لو نے گاؤن اور دستانے پہنے اور آپریشن ٹیبل کے پاس اسٹول پر بیٹھ گئی۔ یہ اسٹول حسب ضرورت اونچا نیچا کیا جا سکتا تھا۔ ُ لو کا قد چھوٹا تھا لہٰذا جب بھی آپریشن کرنے بیٹھتی تھی، حسبِ ضرورت اسٹول اونچا کر لیتی تھی۔ مگر آج اسٹول پہلے ہی اونچا کیا جا چکا تھا۔ اُس نے مشکور نگاہوں سے چیانگ کو دیکھا۔ اُس کے خیال میں شاید چیانگ نے اسٹول اونچا کر دیا تھا۔
ایک نرس نے آلاتِ جراحی والی میز ُ لو کے قریب لاکر کھڑی کردی۔
’’شروع کردیں؟‘‘ ُ لونے چھیاؤ کی آنکھ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ ’’جسم ڈھیلا چھوڑ دیجئے۔ ہم پہلے آپ کو لوکل انیستھیسیا دیں گے اور آپ کی آنکھ بالکل ُ سن ہو جائے گی۔ آپریشن میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘
’’ذرا ٹھہر جائیں!‘‘ یکلخت چھیاؤ مضطرب لہجے میں بولا۔
کیا ہوا؟ ُ لو اور چیانگ دونوں دم بخود سی ہو کر رہ گئیں۔ چھیاؤ نے منہ سے تولیہ ہٹا کر سر اٹھانے کی کوشش کی اور ُ لو کی طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ڈاکٹر ُ لو، پہلے بھی آپ ہی نے میری آنکھ کا آپریشن کیا تھا نا؟‘‘
ُ لونے جلدی سے دستانوں والے ہاتھ پرے ہٹالیے، مبادا وہ انہیں چھولے۔ اِس سے پیشتر کہ وہ کوئی جواب دیتی، چھیاؤ بڑے جذباتی لہجے میں بولتا چلا گیا، ’’ہاں، آپ ہی تھیں۔ یقیناً آپ ہی تھیں! آپ نے بالکل وہی الفاظ کہے ہیں۔ لب و لہجہ بھی وہی ہے!‘‘
’’ہاں، مَیں نے ہی آپریشن کیا تھا،‘‘ ُ لو کو اقرار کرنا پڑا۔
’’آپ نے پہلے کیوں نہ بتایا؟ مَیں آپ کا بے حد ممنون ہوں۔‘‘
’’چھوڑےئے اِس قصے کو۔۔۔‘‘ ُ لوسے کچھ بات نہ بن پائی اور نرس کو تولیہ بدلنے کا اشارہ کرتے ہوئے بات بدل دی، ’’نائب وزیر چھیاؤ، آپریشن شروع کر دیا جائے؟‘‘
چھیاؤ ٹھنڈی سانس بھر کر رہ گیا۔ اُس کے لیے ہیجانی کیفیت پر قابو پانا محال ہو رہا تھا۔ آخر ُ لو کو تحکمانہ لہجہ اختیار کرنا پڑا۔ ’’ہلیے مت اور خاموش رہیے۔ اب ہم آپریشن شروع کر رہے ہیں۔‘‘
اُس نے بڑی چابک دستی سے چھیاؤ کی آنکھ کے نچلے پپوٹے میں نووکین کا انجکشن لگایا اور آپریشن شروع کر دیا۔ اُس نے ایسے اَن گنت آپریشن کئے ہوں گے، مگر ہر بار یوں آلات اٹھا رہی تھی گویا کوئی رنگروٹ پہلی بار میدانِ جنگ میں آیا ہو۔ دفعتاًاُس نے ایک آنکڑا نما سوئی اٹھائی اور روشنی کے رخ اس کا معائنہ کرنے لگی۔
’’کیا بات ہے؟‘‘ چیانگ نے دھیرے سے پوچھا۔
’’یہ نئی سوئی ہے؟‘‘
چیانگ بھی لاعلم تھی، چنانچہ دونوں کی نظریں بیک وقت نرس کی طرف اٹھ گئیں۔
نرس نے ایک قدم آگے بڑھ کر کہا، ’’ہاں، نئی ہے۔‘‘
’’یہ سوئی ہم کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟‘‘ ُ لو بڑبڑاتی۔
ُ لو اور کئی دوسرے ڈاکٹر جانے کتنی بار گھٹیا آلات جراحی کی شکایت کر چکے تھے، اس کے باوجود اکثر ایسے آلات آجاتے تھے۔ ُ لو اِس سلسلے میں بالکل بے دست و پا تھی۔
اسے بالکل خبر نہ تھی کہ اُس روز سارے آلات نئے لائے گئے تھے۔ اور اُن میں یہ سوئی خراب نکل آئی تھی۔ ایسے میں وہ نرس سے کیا کہتی؟ اُدھر نرس بھی غالباً حقیقت سے بے خبر تھی۔ ُ کند سوئی سے نہ صرف آپریشن لمبا ہوتا بلکہ مریض کو بھی سخت اذیت سے گزرنا پڑتا۔
ُ لونے تیوری پر بل ڈالتے ہوئے سر گوشی کی، تاکہ چھیاؤ نہ سن لے، ’’دوسری سوئی لاؤ!‘‘
یہ حکم تھا۔ اور نرس دوسری سوئی لے آئی۔
آپریشن تھیٹر کی نرسیں ُ لو کی عزت کرتی تھیں۔ تاہم، اُس کے پیشہ ورانہ سخت رویے کی بنا پر اس سے ڈرتی بھی تھیں۔ وہ اس کی فنی مہارت کی معترف تھیں۔ ڈاکٹر اپنے نشتر کے بل پر فضیلت حاصل کرتا ہے۔ ایک اچھا سرجن اندھے کو اندھیاروں سے نکال لاتا ہے جبکہ بُرا سرجن مریض کو ہمیشہ کے لیے بینائی سے محروم کر سکتا ہے۔ ُ لوکے پاس کوئی عہدہ، کوئی اختیار نہ تھا مگر وہ اپنے نشتر کی بدولت دلوں پہ راج کرتی تھی۔
آپریشن قریب قریب ختم ہونے کو تھا کہ یک لخت چھیاؤ کے جسم میں تشنج پیدا ہوا۔
’’ہلیے مت!‘‘ ُ لو نے کہا۔
’’ہلیے مت!‘‘ چیانگ بھی ساتھ ہی بول اٹھی، ’’کیا بات ہے؟‘‘
’’مجھے۔۔۔ مجھے ۔۔۔ کھانسی اٹھ رہی ہے!‘‘ چھیاؤ کی آواز گھٹ رہی تھی۔
اُس کی بیوی دم بدم یہی خدشہ ظاہر کرتی رہی تھی۔ آخر اِس موقع پر کھانسی اُٹھنے کی کیا وجہ تھی؟ نفسیاتی اثر تو نہیں تھا؟
’’لمحے بھر کے لیے کھانسی پر قابو نہیں پاسکتے آپ؟‘‘
’’نہیں، مَیں۔۔۔ برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ اُس کا سینہ دھونکنی ہو رہا تھا۔
ایسے میں ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ ُ لو نے اسے بہلاتے ہوئے ہنگامی اقدامات شروع کردےئے۔ ’’بس ایک سیکنڈ! سانس چھوڑیں۔ کھانسی پر قابو پانے کی کوشش کریں!‘‘
وہ دھیرے دھیرے سانس چھوڑنے لگا۔ اُس کے سینے کی لرزش دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا اُس کا دم گھٹ کر رہ جائے گا۔ ُ لو کے ہاتھ برق رفتاری سے چلتے رہے۔ اُس نے آخری ٹانکا لگا کر اطمینان کی سانس لی اور کہا، ’’اب آپ کھانس سکتے ہیں، پر دھیرے دھیرے۔‘‘
لیکن چھیاؤ کے کھانسی نہ اٹھی بلکہ آہستہ آہستہ ّ تنفس معمول پر آگیا۔
’’کھانسیے۔ اب کوئی خطرہ نہیں رہا۔‘‘ چیانگ نے بھی کہا۔
’’مَیں سخت شرمندہ ہوں،‘‘ چھیاؤ کے لہجے میں معذرت تھی۔ ’’مَیں اب بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ آپریشن جاری رکھیں۔‘‘
چیانگ کو غصہ آگیا۔ وہ چھیاؤ کی اچھی طرح خبر لینا چاہتی تھی۔ تاہم ُ لو نے آنکھوں آنکھوں میں منع کر دیا اور وہ غصہ پی کر رہ گئی۔ دونوں ایک دوسری کی طرف دیکھ کر مسکرا دیں۔ ایسی باتیں تو روز کا معمول تھیں!
ُ لونے ٹانکے کھولے اور پھر آپریشن میں مصروف ہو گئی۔ آپریشن ختم کرکے وہ نسخہ لکھنے لگی اور نرس چھیاؤ کا اسٹریچر دھکیل کر باہر لے گئی۔ اسٹریچر ابھی دروازے میں پہنچا تھاکہ اچانک چھیاؤ نے ُ لو کو یوں پکارا جیسے کوئی شریر بچہ اپنی شرارت پر نادم ہو۔ اُس کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی۔
ُ لو اٹھ کر اسٹریچر کے پاس گئی اور جھک کر پوچھنے لگی، ’’کوئی اور خدمت میرے لائق؟‘‘
چھیاؤ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ اُس نے ہاتھ آگے بڑھایا اور ٹٹول ٹٹول کر اس کا ہاتھ تھام لیا جس پر ابھی تک دستانہ چڑھا ہوا تھا، اور بولا، ’’مَیں نے آپ کو دونوں باربے حد تکلیف دی۔ مَیں معذرت خواہ ہوں۔۔۔‘‘
ُ لولمحے بھر کو سکتے میں آگئی اور پھر ّ تشفی آمیز لہجے میں گویا ہوئی، ’’اِس کی کوئی ضرورت نہیں۔ اچھی طرح آرام کریں۔ چند دن میں آپ کی پٹی کھول دی جائے گی۔‘‘
ُ لو نے گھڑی دیکھی۔ چالیس منٹ کے آپریشن نے ایک گھنٹہ لے لیا تھا۔ اُس نے جلدی جلدی گاؤن اور دستانے تبدیل کئے اور گاؤن کی گرہ لگوانے کے لیے نرس کی طرف مڑی تو چیانگ نے استفسار کیا،
’’دوسرا آپریشن ابھی کرنا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
(12)
’’دوسرا آپریشن مجھے کرنے دو،‘‘ چیانگ نے ملتجی لہجے میں کہا۔ ’’ذرا آرام کر لو۔ تیسرا تم کرلینا۔‘‘
ُ لونے مسکرا کر نفی میں سر ہلاتے ہوئے جواب دیا، ’’نہیں، یہ آپریشن بھی مجھی کو کرنا ہے۔ تم وانگ شیاؤ مان کو نہیں جانتیں۔ وہ بے حد ڈری ہوئی ہے۔ پچھلے چند دنوں میں مَیں اُس سے ذرا بے تکلف ہو چکی ہوں۔‘‘
لڑکی اسٹریچر پر لیٹ کر تو کیا آتی۔ اُسے قریب قریب گھسیٹ کر آپریشن روم لایا گیا۔ اُس نے سفید گاؤن پہن رکھا تھا جو اس کے قد سے بہت زیادہ لمبا تھا۔ وہ آپریشن ٹیبل کے قریب نہیں پھٹک رہی تھی۔
’’خالہ ُ لو، مجھے ڈر لگتا ہے۔ مَیں آپریشن نہیں کرواؤں گی۔ آپ میری امی کو بتا دیں۔‘‘
ڈاکٹروں اور نرسوں کو عجیب و غریب حلیے میں دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ ہراساں ہو گئی تھی اور نرس کے شکنجے سے نکلنے کے لیے پھڑپھڑا رہی تھی۔
ُ لو میز کے قریب گئی اور اُسے دلارتے ہوئے بولی‘ ’’تم تو بڑی پیاری بچی ہو۔ تم نے آپریشن کروانے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ ہمت سے کام لو! ڈرنے کی تو کوئی بات ہی نہیں۔ ذرا درد نہیں ہوگا۔‘‘
شیاؤ مان نے لو کے مضحکہ خیز حلیے کا جائزہ لیا۔ ایک نظر اُس کی مسکراتی آنکھوں میں جھانکا اور چپ چاپ آپریشن ٹیبل پر چڑھ گئی۔ ایک نرس نے اُس کے منہ پر تولیہ ڈال دیا۔ ُ لو نے اشارہ کیا اور نرس نے اُس کے ہاتھ جکڑنے شروع کردےئے ۔ ننھی سی مریضہ احتجاج کرنے کو تھی کہ ُ لو نے اُسے دلاسا دیا، ’’شیاؤ مان، تم تو بڑی اچھی بیٹی ہو۔ آپریشن کے وقت سب مریضوں کے ہاتھ جکڑے جاتے ہیں۔ ّ سچی! آپریشن میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔‘‘ اُس کے ساتھ ہی ُ لو نے اُس کی آنکھ میں ُ سن کرنے کا ٹیکا لگا دیا اور کہا، ’’دیکھو، تمہیں پتا بھی نہیں چلے گا اور آنکھ ٹھیک ہو جائے گی۔‘‘
اب ایک طرف اُس کی انگلیاں چل رہی تھیں تو دوسری طرف وہ بچی سے مسلسل باتیں کئے جارہی تھی۔ اُس لمحے گو یا سرجن کے قالب میں ممتا ہلکورے لے رہی تھی۔ ُ لو نے بھینگاپن پیدا کرنے والی نس کاٹی اور شیاؤ مان کو متلی سی محسوس ہوئی تو وہ کہنے لگی۔
’’متلی ہو رہی ہے؟ ذرا گہری سانس لو۔ سانس لیتی رہو۔ طبیعت بہتر ہوئی؟ ابھی بھی متلی ہو رہی ہے؟ ہیں؟ بس آپریشن ختم ہو رہا ہے۔ واہ، واہ، کتنی اچھی بچی ہے!‘‘
ُ لو کی باتوں سے شیاؤمان پر غنودگی طاری ہو گئی اور آپریشن جاری رہا۔ جب اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی اور اسٹریچر باہر لے جایا جانے لگا تو اُسے ماں کے الفاظ یاد آگئے اور اُس نے بڑی میٹھی آواز میں کہا، ’’بہت بہت شکریہ، خالہ۔‘‘
کمرے میں سب کی ہنسی چھوٹ گئی۔ آپریشن میں صرف آدھا گھنٹہ لگا تھا۔
ُ لوپسینے میں شرابور تھی اور پیشانی پر پسینے کے قطرے ناچ رہے تھے۔ کمرے میں گرمی نہیں تھی اور یوں بے تحاشا پسینہ آنے پر وہ بڑی حیران تھی۔ اس نے اپنے ُ سن بازوؤں کو دھیرے دھیرے جنبش دی جو دیر تک حرکت میں رہنے سے دُکھنے لگے تھے۔
وہ دوسرا گاؤن پہن رہی تھی کہ اچانک اُسے چکر آگیا۔ اُس نے آنکھیں بند کر لیں، سر کو دو چار بار جھٹکا اور پھر دھیرج سے آستین میں بازو ڈال دیا۔ ایک نرس تسموں کی گرہیں لگانے کے لیے قریب آگئی۔
ڈاکٹر ُ لو، آپ کے ہونٹ تو بالکل پھیکے پڑ رہے ہیں؟‘‘ اُس نے قدرے متحیر ہو کر کہا۔
یہ ُ سن کر چیانگ بھی گاؤن بدلتے بدلتے مڑ کر ُ لو کی طرف دیکھنے لگی۔ ’’افوہ! تمہارا رنگ تو بالکل ہلدی ہو رہا ہے!‘‘
اور یہ حقیقت بھی تھی۔ اُس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے نمودار ہو چکے تھے اور پپوٹے سوجے سوجے سے تھے۔ وہ دیکھنے میں خود بیمار لگ رہی تھی۔
چیانگ کی متعجب نظریں دیکھ کر ُ لو مسکرا دی، ’’یونہی ہلا نہ مچاؤ! تھوڑی دیر میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
اُسے یقین تھا کہ وہ تیسرا آپریشن کرلے گی۔ برسوں سے یہی ہوتا چلا آ رہا تھا!
’’تیسرا آپریشن کرنا ہے؟‘‘ نرس نے پوچھا۔
’’ہاں، کیوں نہیں۔‘‘
کام کیسے رک سکتا تھا؟ عطیے میں ملنے والی آنکھ کو دیر تک محفوظ نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ اور نہ ہی آپریشن میں تاخیر ممکن تھی۔
’’ون تھینگ،‘‘ چیانگ نے رائے دی، ’’ میرا خیال ہے، آدھ گھنٹہ آرام کر لیا جائے۔‘‘
ُ لو نے گھڑی دیکھی تو دس بج رہے تھے۔ اگر آدھے گھنٹے کا وقفہ دیا گیا تو کچھ ساتھیوں کو لنچ میں دیر ہو جائے گی اور کئی ساتھی ایسے تھے جنہیں گھر واپس جا کر بچوں کے لیے کھانا بھی تیار کرنا تھا۔
’’ابھی کرنا ہے آپریشن؟‘‘ نرس نے دوبارہ پوچھا۔
’’ہاں۔‘‘
(13)
دروازے پر زیرِ تربیت ڈاکٹروں کا جمگھٹا لگ گیا۔ اُن میں اِس اسپتال کے علاوہ کئی دوسرے اسپتالوں کے ڈاکٹر بھی تھے۔ انہوں نے یہ آپریشن دیکھنے کے لیے خاص اجازت لی تھی۔ ُ لو باہر نکل کر ان سے باتیں کرنے لگی۔
چچا چانگ ایک نرس کی مدد سے آپریشن ٹیبل پر لیٹ گیا۔ وہ بے تکان بولے جا رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا۔ میز اس کے لیے قدرے چھوٹی تھی اور اُس کے ہاتھ پاؤں باہر نکلے ہوئے تھے۔ اُس نے نرس کو چھیڑتے ہوئے کہا، ’’لڑکی، میری ہنسی مت اڑاؤ۔ اگر میڈیکل ٹیم ہمارے گاؤں میں نہ آتی اور وہ لوگ مجھے آپریشن کروانے کے لیے نہ پھسلاتے تو مَیں وہیں مر جاتا، پر تمہیں چاقو سے آنکھ نہ کاٹنے دیتا۔ ذرا سوچو تو! فولادی چاقو میرے جسم میں گھس جائے گا، واہ! جانے اِس سے کوئی فائدہ بھی ہوگا یا نہیں؟ ہاہاہا، ہاہاہا!۔۔۔‘‘
نوجوان نرس کھلکھلا کر ہنس پڑی اور دھیرے سے بولی، ’’چچا، ذرا آہستہ باتیں کرو۔‘‘
’’مَیں جانتا ہوں، بٹیا! اسپتال میں اونچی آواز میں باتیں نہیں کرنی چاہئیں نا؟‘‘ بڈھا بلا کا باتونی تھا۔ ہاتھ نچاتے ہوئے کہنے لگا، ’’جب مَیں نے سنا کہ میری آنکھ ٹھیک ہو سکتی ہے تو تم تصوّر بھی نہیں کر سکتیں کہ میری کیا حالت تھی۔ مَیں قہقہے لگانا چاہتا تھا، اور پتا ہے؟ رونا چاہتا تھا۔ میرا باپ بھی بڑھاپے میں اندھا ہو گیا تھا اور اندھا ہی مر گیا۔ مَیں نے کبھی سوچا بھی نہ تھاکہ مجھ جیسے بوڑھے آدمی کی بینائی لوٹ سکتی ہے۔ زمانہ واقعی بہت بدل گیا ہے۔ ہے نا؟‘‘
اُس کے چہرے پر تولیہ ڈالتے ہوئے نرس کے منہ سے ایک بار پھر ہنسی کی پھوار چھوٹ گئی۔ ’’چچا اب ہلنا نہیں۔ اور نہ اِس تولیے کو ہاتھ لگانا۔ اسے جراثیم سے پاک کیا گیا ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا۔‘‘ اُس نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا۔ ’’اِس وقت مَیں اسپتال میں ہوں، لہذا ضابطوں کی پابندی کروں گا۔‘‘ مگر ساتھ ہی پھر بازو اٹھانے کی کوشش کرنے لگا۔
اُس کی بے چینی دیکھ کر نرس نے تسمہ اٹھالیا اور بولی، ’’چچا مَیں تمہارے ہاتھ جکڑنے جا رہی ہوں۔ یہ بھی ایک ضابطہ ہے۔‘‘
چانگ کچھ الجھن میں پڑ گیا، لیکن فوراً ہی اس کا ہنسوڑپن لوٹ آیا، ’’مجھے جکڑو گی؟ تو ٹھیک ہے جکڑ دو! بٹیا، اتنا بتا دوں کہ آنکھوں کا معاملہ نہ ہوتا تو تم مجھے اتنا فرمانبردار نہ پاتیں۔ اندھا ہونے کے باوجود مَیں دن میں دو بار کھیتوں کا چکر لگاتا ہوں۔ میری فطرت تو سیمابی ہے۔ مَیں نچلا نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘
نرس کے گلے میں پھر گھنٹیاں بج اٹھیں اور چانگ بھی ہنس پڑا۔ مگر جیسے ہی ُ لو کمرے میں داخل ہوئی اُس کی ہنسی رک گئی اور کان کھڑے ہو گئے، ’’ آپ ڈاکٹر ُ لو ہیں نا؟ مَیں قدموں کی چاپ سے پہچان لیتا ہوں۔ ہے نا مزے کی بات! جب سے میری آنکھیں گئی ہیں، کان تیز ہو گئے ہیں۔‘‘
اُسے یوں چہکتے دیکھ کر ُ لو بھی ہنسنے لگی۔ اور پھر آپریشن کے لیے تیار ہو کر اسٹول پر بیٹھ گئی۔ وہ محلول والی شیشی سے ڈھیلے کی بیرونی جھلی نکال کر گاچ پر سی رہی تھی کہ چانگ دوبارہ بول پڑا، ’’آنکھ بھی بدلی جاسکتی ہے؟ یہ تو مَیں جانتا ہی نہیں تھا!‘‘
’’پوری آنکھ نہیں، صرف قرنیہ تبدیل کیا جاتا ہے،‘‘ چیانگ نے جواب دیا۔
’’ میرے لیے ایک ہی بات ہے۔‘‘ اُسے جزئیات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اُس نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی، ’’اِس کام کے لیے تو بڑی مہارت درکار ہوتی ہو گی؟ جب میں روشن آنکھیں لے کر واپس جاؤں گا تو گاؤں والے کہیں گے کہ یہ یقیناًکسی نیک دل پری کی مہربانی ہے۔ ہا ہا ہا، ہاہاہا! تو مَیں انہیں بتاؤں گا کہ یہ مہربانی ڈاکٹر ُ لو نے کی ہے۔‘‘
چیانگ نے دبی دبی ہنسی کے ساتھُ لو کو آنکھ ماری تو وہ شرما گئی اور چانگ سے کہنے لگی، ’’دوسرے ڈاکٹر بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔‘‘
’’بالکل درست ہے۔ اِس بڑے اسپتال میں سب ڈاکٹر بہت اچھے ہیں۔ مَیں مذاق نہیں کر رہا۔‘‘ چانگ نے جواب دیا۔
تیاری مکمل ہو گئی تو ُ لو نے ایک آلے سے اس کے دونوں پپوٹے اٹھاتے ہوئے کہا، ’’اب ہم آپریشن شروع کر رہے ہیں۔ جسم بالکل ڈھیلا چھوڑ دو۔‘‘
چانگ دوسرے مریضوں کی طرح نہیں تھا جو ڈاکٹر کی بات صرف سنتے ہیں۔ اُس نے سوچا کہ جواب نہ دینا بداخلاقی کی بات ہوگی، لہٰذا کہنے لگا، ’’مَیں بالکل پُرسکون ہوں۔ آپ اپنا کام شروع کریں۔ مجھے درد کی کوئی پروا نہیں۔ بے شک نشتر لگنے سے درد ہوتا ہے، پَر کوئی بات نہیں۔ آپ میری فکر مت کریں۔ مجھے آپ پر بھروسا ہے۔ دوسرے یہ کہ۔۔۔‘‘
چیانگ نے مسکرا کر اس کی بات کاٹ دی، ’’چچا، اب باتیں مت کرو۔‘‘
اور اُس نے چپ سادھ لی۔
ُ لونے فونٹین پین کے ڈھکنے جتنی، چھوٹی سی ترفین سے پہلے چانگ کے ڈھیلے کی پتلی سے خراب قرنیے کا گول ٹکڑا کاٹا۔ پھر عطیے میں ملنے والی آنکھ کے قرنیے سے اتنا ہی بڑا ٹکڑا کاٹا اور اسے چانگ کی آنکھ میں منتقل کرکے ٹانکے لگانے کا نازک کام شروع کردیا۔ دھاگا بال سے بھی باریک تھا۔
اُس نے کام ختم کیا تو میز کے ارد گرد کھڑے ڈاکٹر دنگ رہ گئے۔ اس نے اتنی چابک دستی اور خوب صورتی سے آپریشن کیا تھا کہ اگر ڈھیلے پر ننھے ننھے کالے ٹانکے نہ ہوتے تو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نیا قرنیہ تھا۔
ُ لو نے اطمینان کی بھرپور سانس لی۔ چیانگ کی جذبات سے مغلوب نظریں سہیلی کے چہرے کی بلائیں لینے لگیں۔ ُ لو خاموشی سے چانگ کی آنکھوں پر پٹی باندھ رہی تھی۔۔۔
اسٹریچر پر باہر جاتے جاتے چانگ گویا یک لخت خواب سے بیدار ہو گیا۔ ’’بہت بہت شکریہ، ڈاکٹر ُ لو!‘‘
تینوں آپریشن مکمل ہو چکے تھے۔ ُ لو اٹھنے لگی تو اُس کی ٹانگیں جیسے جواب دے گئیں۔ تھوڑی دیر بعد اُس نے دوبارہ کوشش کی، مگر ٹانگیں تو بالکل ُ سن ہو چکی تھیں۔ اُس نے ایک بار پھر ہمت سے کام لیا اور آخر اٹھنے میں کامیاب ہو گئی۔ لیکن ساتھ ہی پہلو میں شدید ٹیس اُٹھی۔ یہ درد نیا نہ تھا، پر اب تو قدم اٹھانا محال ہو رہا تھا۔
(14)
عین اُس وقت فُو تیز تیز سائیکل چلاتا گھر کی طرف چلا جا رہا تھا۔ بیوی کی تجویز پر صبح وہ اپنا بستر سائیکل کے کیرئیر پر باندھ کر دفتر لے گیا تھا اور واپسی کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
لیکن دوپہر ہوتے ہوتے یہ ارادہ ڈھلمل ہونے لگا۔ ُ لو وقت پر آپریشن سے فارغ ہو جائے گی؟ اُس نے تصوّر ہی تصوّر میں دیکھا کہ وہ بچوں کے لیے دوپہر کا کھانا تیار کرنے گرتی پڑتی گھر جا رہی ہے۔ اور اسے احساسِ جرم ستانے لگا۔ دم بھر نہیں بیتا تھا کہ اُس نے سائیکل اٹھائی اور مارا مار گھر کی طرف چل دیا۔
اپنی گلی میں مڑتے ہی اُس کی نظریں بیوی پر جا پڑیں۔ وہ دیوار سے ٹیک لگائے بے سدھ کھڑی تھی۔
’’ون تھینگ! کیا ہوا ؟‘‘ وہ کود کر سائیکل سے اترا اور اُس کی طرف دوڑ پڑا۔
’’کچھ نہیں۔ بس ذرا تکان محسوس ہو رہی ہے۔‘‘ اُس نے بازو شوہر کے گلے میں ڈال دیا اور آہستہ آہستہ قدم اٹھانے لگی۔
فُونے غور سے دیکھا تو اُس کا رنگ بالکل زرد پڑ چکا تھا اور پیشانی پر پسینے کے قطرے چمک رہے تھے۔
اُس نے بیتاب ہو کر پوچھا، ’’تمہیں اسپتال لے چلوں؟‘‘
وہ بستر کی پٹی پر بیٹھ گئی اور آنکھیں موند لیں۔ ’’پریشانی کی ضرورت نہیں۔ تھوڑی دیر آرام کرنے سے ٹھیک ہو جاؤں گی۔‘‘
فُو نے اُس کا کوٹ اور جوتے اتارتے ہوئے کہا، ’’لیٹ جاؤ اور کچھ دیر سو لو۔ مَیں تمہیں بعد میں جگا دوں گا۔‘‘
’’سونے کا وقت نہیں۔ بس ذرا لیٹنے سے طبیعت سنبھل جائے گی۔‘‘
فُو باورچی خانے میں گیا اور پانی ابالنے کے لیے پتیلی چولہے پر رکھ دی۔ چند لمحے بعد وہ کمرے میں آیا تو ُ لو بڑبڑا رہی تھی، ’’کچھ آرام بھی کرنا چاہیے۔ اگلے اتوار بچوں کو پئی ہائی پارک لے چلیں؟ ہم دس سال سے اُدھر نہیں گئے۔‘‘
’’واہ واہ، ضرور چلیں گے!‘‘ فُونے اُس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے جواب دیا۔ وہ حیران تھا کہُ لوکو اچانک پارک میں جانے کا خیال کیسے آگیا تھا۔ اُس نے بے قرار نظروں سے بیوی کو دیکھا اور کھانا پکانے چلا گیا۔ اور کچھ دیر بعد کھانا اٹھائے کمرے میں آیا تو ُ لو گہری نیند میں ڈوب چکی تھی۔
اُس نے بیوی کو بے آرام کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اتنے میں یوان یوان اسکول سے آگیا اور دونوں بیٹھ کر کھانا کھانے لگے۔
عین اُسی لمحے ُ لو نے کراہنا شروع کر دیا۔ فُو لپک کر بستر کے پاس پہنچا تو ُ لو کے چہرے پر مردنی چھائی ہوئی تھی اور پسینے پسینے ہو رہی تھی۔
’’اب یہ درد برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی‘‘‘ ُ لو نے ڈوبتی آواز میں کہا۔
فُو ہراساں ہو گیا اور اُس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھنے لگا، ’’کیا بات ہے؟ کہاں درد ہو رہا ہے؟‘‘
ُ لو بمشکل دل کی طرف اشارہ کرکے رہ گئی۔
فُو کے ہاتھوں کے طوطے اُڑگئے۔ اُس نے لپک کر ایک دراز کھولی اور دردمار گولیاں ڈھونڈنے لگا۔ پھر اچانک خیال آیا کہ ُ لو کے لیے تو سکون آور دوا درکار تھی۔
شدید درد کے باوصف ُ لو کے حواس برقرار تھے۔ اُس نے ساری قوت مجتمع کرتے ہوئے شوہر کو تسلی دی اور کہا، ’’مجھے اسپتال لے چلو!‘‘
فُو کو تکلیف کی شدت کا احساس ہو گیا۔ ُ لو نے تو کبھی کسی ڈاکٹر کو نبض دکھانے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، حالانکہ ہر روز اسپتال جاتی تھی۔ اِس کا مطلب تو یہ تھا کہ بیماری واقعی سنگین نوعیت کی تھی۔ ’’مَیں ابھی ٹیکسی لے کر آتا ہوں،‘‘ یہ کہتے ہوئے فُو باہر نکل گیا۔
وہ پبلک ٹیلی فون بوتھ پر پہنچا اور نمبر ملا کر انتظار کرنے لگا۔ قدرے توقف کے بعد کوئی بڑے سرد لہجے میں بولا، ’’اِس وقت کوئی ٹیکسی نہیں۔‘‘
’’مگر مریض بالکل لبِ مرگ ہے۔ اُسے اسپتال لے جانا ہے۔‘‘
’’آدھے گھنٹے بعد ٹیلی فون کرنا۔‘‘
فُو گڑگڑانے لگا، اور دوسری طرف فون بند ہو گیا۔
اُس نے ُ لوکے اسپتال فون کیا، لیکن اُس کے شعبے میں شاید کوئی بھی نہیں تھا۔ اُس نے آپریٹر سے ڈسپیچ آفس کا نمبر ملانے کو کہا۔
’’اجازت نامے کے بغیر ہم گاڑی نہیں بھیج سکتے،‘‘ ڈسپیچ آفس سے کسی نے جواب دیا۔
وہ اجازت نامہ لینے کے لیے اسپتال کے لیڈروں کی تلاش میں کہاں مارا مارا پھرتا!
’’یہ ایمرجنسی ہے! ہیلو!‘‘ دوسری طرف لائن منقطع ہو چکی تھی۔
اُس نے سیاسی شعبے کو فون کیا۔ یہاں سے کچھ مدد ملنے کی توقع تھی۔ خاصے انتظار کے بعدکسی عورت نے فون اٹھایا اور اُس کی بات سننے کے بعد بڑی حلیمی سے جواب دیا، ’’براہِ کرم، آپ انتظامیہ سے رابطہ قائم کریں۔‘‘
اُس نے آپریٹر سے انتظامیہ کا نمبر ملانے کو کہا تو آپریٹر نے آواز پہچان کر خفگی سے پوچھا، ’’بھئی، آپ آخر کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
کس سے ؟ یہ تو وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ اُس نے آپریٹر کی منت سماجت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ میں کسی سے بھی ملادے۔ دیر تک گھنٹی بجتی رہی۔ کسی نے فون نہ اٹھایا۔
فُونے مایوس ہو کر ٹیکسی ڈھونڈنے کی کوشش ترک کر دی اور ایک قریبی ورکشاپ میں چلا گیا جہاں گتے کے ڈبے بنتے تھے۔ اُس نے تین پہیوں والی ٹرالی سائیکل مستعار مانگی تو انچارج عورت نے اُس کی کتھاسننے کے بعد معذرت کر دی۔ ورکشاپ کی دونوں ٹرالی سائیکلیں باہر گئی ہوئی تھیں۔
اب کیا کروں؟ فُو گلی میں کھڑے کھڑے بے قرار ہو رہا تھا۔ ُ لو کو سائیکل کے کیرئیر پر بٹھا کر اسپتال لے جائے؟ یہ ناممکن تھا۔
اُسی لمحے ایک ٹرک آتا دکھائی پڑا اور اُس نے کچھ سوچے سمجھے بغیر ہاتھ دے دیا۔
ٹرک قریب آکر رک گیا اور ڈرائیور سر نکال کر متعجب نظروں سے اُسے دیکھنے لگا۔ اور جب اُس نے ساری داستان سنی تو اُسے ٹرک میں بٹھالیا۔
ڈرائیور نے فُو کے گھر کے سامنے ٹرک روک دیا اور جب وہ بیوی کو سہارا دیتا ہوا باہر نکلا تو اُس نے لپک کر کیبن کا دروازہ کھول دیا اور آہستہ آہستہ ٹرک چلاتا ہوا انہیں اسپتال کے ہنگامی وارڈ تک پہنچاگیا۔
(15)
وہ پہلے نہ کبھی اِتنی دیر تک سوئی تھی اور نہ ایسی تکان ہی محسوس ہوئی تھی۔ درد سے اُس کا اَنگ اُنگ ٹوٹ رہا تھا، گویا کسی نے اُسے بادلوں سے اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا ہو۔ جسم میں طاقت کی رمق تک باقی نہیں رہی تھی۔ پُرسکون نیند کے بعد دل کو کچھ چین آگیا، مگر ذہن بالکل ماؤف تھا۔
اُسے کبھی گزرے دنوں کی کلفتوں اور آنے والی مشکلوں کا سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملی تھی۔ اب گویا سارے جسمانی یا ذہنی بار اُٹھ چکے تھے۔ اب فرصت ہی فرصت تھی۔ وہ جی بھر کے سوچ سکتی تھی، لیکن ذہن تو بجھ کے رہ گیا تھا۔ کوئی یاد، کوئی آس۔ کچھ بھی تو نہیں تھا!
شاید یہ کوئی سپنا تھا۔ وہ پہلے بھی تو ایسے سپنے دیکھتی رہی تھی۔۔۔
وہ کوئی پانچ سال کی تھی کہ ایک شام شمالی ہوائیں چنگھاڑنے لگیں۔ ماں اُسے گھر میں چھوڑ کر کہیں گئی ہوئی تھی۔ دم بھر میں اندھیرا چھا گیا۔ وہ تنہائی سے ہولا گئی اور رو رو کر ماں کو پکارنے لگی، ’’امی۔۔۔ امی۔۔۔ ‘‘ اور یہ واقعہ اکثر خوابوں میں آتا رہا۔ چیختی چلاتی ہوائیں، بگولے کے زور سے اچانک دروازے کا چوپٹ کھل جانا، لالٹین کی پیلی پیلی روشنی۔۔۔ برسوں تک اُس کے ذہن میں چٹکیاں لیتے رہے تھے۔ یہ محض خواب تھا یا حقیقت۔ وہ مدت تک فیصلہ نہ کر سکی تھی۔
اور اب۔۔۔ یہ سپنا نہ تھا۔ جیتی جا گتی حقیقت تھی۔
وہ بستر سے لگ چکی تھی اور چیا چیے اس کی تیمارداری کر رہا تھا۔ خود اُس کا چہرہ بھی اُترا ہوا تھا اور بستر پر نیم دراز اونگھ رہا تھا۔ اسے جگایا نہ گیا تو زکام ہو جائے گا۔ اُس نے فُو کو پکارنے کی کوشش کی تو ہونٹ کپکپا کر رہ گئے۔ گلے میں جیسے کوئی شے پھنسی ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اسے کوٹ ہی اوڑھا دے، پر یہ بازو تو گویا اُس کے تھے ہی نہیں۔
اُس نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں تو دیکھا کہ وہ ایک پرائیویٹ کمرے میں تھی۔ ایسے کمروں میں تو صرف نازک حالت والے مریضوں کو رکھا جاتا ہے۔ یک لخت خوف اُس کے دل پر دستک دینے لگا۔ ’’کیا میں۔۔۔؟‘‘
خزاں کی ہوا دروازے اور کھڑکیوں سے ٹکراتی گزر رہی تھی۔ کمرہ اندھیرے میں ڈوبتا چلا گیا۔ زندگی دم توڑ رہی تھی۔ موت کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ سنائی دینے لگی تھی!
تو وہ لحظہ بہ لحظہ موت کے قریب ہوتی جارہی ہے۔ کوئی اندیشہ، کوئی درد۔۔۔ نہیں۔ بس زندگی کی دھنک غروب ہونے کو تھی۔ احساسات مفلوج ہو رہے تھے۔ وہ سطحِ آب پر ڈولتے سو کھے ّ پتے کی طرح دھیرے دھیرے ڈوب رہی تھی۔
ُ تند موجیں گویا اُس کے سینے پر امڈتی چلی آرہی تھیں۔ وہ ننھی منی ناؤ کے مانند دریا میں ہچکولے کھا رہی تھی۔۔۔
’’اَ ّ می۔۔۔ اَ ّ می۔۔۔‘‘
اُس نے سنا۔ شیاؤ چیا کنارے کے ساتھ ساتھ دوڑتی ہوئی پکار رہی تھی۔ اُس نے مڑکر بانہیں پھیلا دیں۔
’’شیاؤ چیا۔۔۔ میری دُلاری۔۔۔‘‘
اور لہریں اُسے بہا کر دُور لے گئیں۔ شیاؤ چیا کا چہرہ دھندلا پڑ گیا۔ اُس کی رُندھی ہوئی آواز سسکیوں میں ڈھل گئی۔
’’اَ ّ می، میری چوٹیاں گوندھ دو۔۔۔‘‘
مَیں اس کی چوٹیاں کیوں نہیں گوندھتی؟ وہ چھ سال کی ہو رہی تھی۔ اسے چوٹیاں گندھوانے کا بڑا شوق تھا۔ وہ جب بھی دوسری لڑکیوں کی گندھی ہوئی چوٹیاں اور سرخ ربن دیکھتی تھی۔۔۔ اس کا ُ منّا سا دل مچل اُٹھتا تھا، پَر وہ تو ہمیشہ اس کی ننھی منی خواہش کو نظر انداز کردیتی تھی۔ اُسے فرصت ہی کہاں تھی؟ پیر کو اسپتال میں مریضوں کی بھیڑ ہوتی تھی۔ اور ایک ایک لمحہ قیمتی ہوتا تھا۔
’’اَ ّ می ۔۔۔ اَ ّ می۔۔۔‘‘
یہ یوان یوان کی آواز تھی۔ وہ کنارے کے ساتھ ساتھ دوڑتا ہوا اُسے پکارے جا رہا تھا۔ اُس نے پلٹ کر بانہیں پھیلا دیں۔
’’یوان یوان۔۔۔ یوان یوان۔۔۔‘‘
ایک لہر اٹھی اور وہ دریا کی پہنائیوں میں اُترتی چلی گئی۔ بڑی تگ و دو کے بعد وہ ڈوب ڈوب کر ابھری تو کنارے پہ کوئی نہ تھا۔ صرف بیٹے کی آواز کانوں میں گونج رہی تھی۔
’’اَ ّ می۔۔۔ میرے سفید جمناسٹک شوز۔۔۔ مت بھولنا۔۔۔‘‘
طرح طرح کے اسپورٹس شوز اُس کی نظروں کے سامنے ناچنے لگے۔ سفید اور نیلے شوز، اسپورٹس شوز، جمناسٹک شوز، نیلی، سرخ دھاریوں والے سفید شوز۔ یوان یوان کے لیے ایک جوڑی خریدلوں۔ اُس کے جوتے تو بالکل ہی پھٹ چکے ہیں۔ ایک جوڑی جمناسٹک شوز۔ اور وہ مہینے بھر تک بھنبھیری کی طرح تھرکتا پھرے گا۔ ایکاایکی شوز غائب ہو گئے۔ صرف اُن کی قیمتیں رہ گئیں۔ تین یوان دس سینٹ، ساڑھے چار یوان، چھ یوان تیس سینٹ۔۔۔
اب چیاچیے اُسے پکارتا چلا آرہا تھا۔ اُس کا لپکتا سایہ پانی میں بل کھا رہا تھا اور آواز میں تھر تھراہٹ تھی، ’’ون تھینگ، ہمیں یوں چھوڑ کر نہ جاؤ !‘‘
دل میں کیسی تمنّا مچلی تھی کہ اُس کی بانہوں میں سما جائے! اُس نے ہاتھ بڑہایا تھا کہ ایک ظالم موج اُسے بہا کر دُور لے گئی۔
’’ڈاکٹر ُ لو۔۔۔ ڈاکٹر ُ لو۔۔۔‘‘
کتنے ہی لوگ کناروں پہ کھڑے پکار رہے تھے۔ سفید گاؤن میں ملبوس یا فن، لاؤ لیو، ڈائریکٹر چاؤ، ڈاکٹر سُون۔ اسپتال کے کپڑوں میں چھیاؤ چھنگ شی، چچا چانگ اور وانگ شیاؤ مان۔ باقی مریضوں میں وہ چند ایک ہی کو پہچان پائی۔
مَیں نہیں جاؤں گی۔ نہیں! ابھی اتنے کام بھگتا نے ہیں۔ شیاؤ چیا اور یوان یوان ماں کے بنا کیسے رہ سکیں گے۔ مَیں چیا چیے کو اور دکھ نہیں دے سکتی۔ مَیں اپنے اسپتال سے، اپنے مریضوں سے منہ نہیں موڑ سکتی۔ اُف، کبھی نہیں! مَیں اِس دکھ بھری، مگر پیاری زندگی کا َ پلو نہیں چھوڑ سکتی!
مَیں نہیں ڈوبوں گی! مَیں جدوجہد کروں گی! مَیں اس دنیا میں رہنا چاہتی ہوں۔ مگر یہ اِس قدر تکان کیوں؟ یہ ہاتھ پیر کیوں نہیں چلتے؟ مَیں ڈوب رہی ہوں، ڈوب۔۔۔
آہ! الوداع، یوان یوان! الوداع ، شیاؤ چیا! اَ ّ می کو یاد کرو گے؟ زندگی کے اِن آخری لمحوں میں بھی مَیں تمہارے لیے تڑپ رہی ہوں۔ آؤ تمہیں گلے تو لگالوں۔ سنو، میرے جگر پارو، اپنی اَ ّ می کو معاف کر دینا، جو تمہیں پیار نہ دے سکی۔ اپنی اَ ّ می کو معاف کردینا، جو تمہیں سینے سے نہ لگاسکی۔ اپنی اَ ّ می کو معاف کردینا، جو تم ننھی منی جانوں کو یوں چھوڑے جا رہی ہے۔
الوداع، چیاچیے! تم نے میرے لیے سب کچھ تیاگ دیا! تمہارے بنا میں کچھ بھی تو نہ پا سکتی تھی۔ تمہارے بنا زندگی کا کوئی مقصود نہ تھا۔ آہ، تم نے میری خاطر کتنی قربانیاں دیں! میرے بس میں ہوتا تو تمہیں سجدہ کرتی کہ تمہاری مہر و وفا کے بدلے میں تمہیں کچھ نہ دے سکی۔ مگر اب بہت دیر ہو چکی! افسوس! مَیں کچھ بھی تو نہیں کر سکتی۔
الوداع، میرے مریضو! اٹھارہ سال سے میری زندگی تمہارے لیے وقف رہی۔ سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے تمہاری آنکھیں ہی میری سوچوں میں بسی رہیں! تمہیں بینائی لوٹا کر مجھے کس قدر راحت ملتی تھی۔ تم لوگ اِس کا تصوّر بھی نہیں کر سکتے۔ افسوس مَیں اب وہ راحت نہ پا سکوں گی۔۔۔
(16)
’’ون تھینگ! ون تھینگ!‘‘ فُو چلا اُٹھا۔ اُس کی نظریں بیوی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ ُ لو سانس لینے میں بڑی دِ ّ قت محسوس کر رہی تھی۔
ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر اور نرسیں لپک کر کمرے میں آگئیں۔
’’لیڈو کین کا انجکشن دو!‘‘ ڈاکٹر نے ایک نرس کو ہدایت دی۔ لیکن انجکشن ختم ہونے سے پہلے ہی لو کے ہونٹ نیلے پڑ گئے، مٹھیاں بھنچ گئیں اور آنکھیں پتھرانے لگیں۔
دل کی دھڑکن بند ہوگئی۔
ڈاکٹر نے مالش شروع کردی۔ سر پر مصنوعی ّ تنفس کا آلہ چڑھا دیا گیا۔ تھوڑی دیر بعد دل کی دھڑکن لوٹ آئی۔
’’برف کی تھیلی تیار کرو!‘‘ انچارج ڈاکٹر نے حکم دیا۔ اُس کی پیشانی پسینے سے تر تھی۔
ُ لو کے سر پر برف کی تھیلی رکھ دی گئی۔
(17)
کھڑکی سے صبح کی زردی جھلکنے لگی۔ بالآخر سویرا ہو گیا تھا اور زندگی کی ایک نازک رات بیت چکی تھی۔ نیا دن شروع ہونے کو تھا۔
ایک نرس نے آکر کھڑکی کھول دی اور نسیمِ صبح کے ساتھ پرندوں کی چہکار کمرے میں رونق پیدا کرنے لگی۔ دوائیوں کی بو اور موت کے سایوں کا گویا کبھی کمرے میں وجود تک نہ تھا۔ سویرا تنِ ناتواں کے لیے اِک نئی امید لے کرآیا تھا!
ایک نرس نے ُ لو کا ٹمپریچر لیا اور دوسری ناشتہ لے آئی۔ اِس کے بعد ڈاکٹر آگیا۔
وانگ شیاؤ مان جس کی آنکھ پر ابھی تک پٹی بندھی ہوئی تھی، دروازے پر نرس کی منت سماجت کر رہی تھی۔ ’’مجھے ڈاکٹر ُ لو کو دیکھ لینے دو۔ بس ایک نظر!‘‘
’’نہیں۔ وہ رات مرتے مرتے بچی ہے۔ فی الحال کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں۔‘‘
’’خالہ، شاید آپ نہیں جانتیں۔ وہ میرا آپریشن کرنے کی وجہ سے بیمار ہوئی ہیں۔ ایک نظر دیکھ لینے دو۔ مَیں وعدہ کرتی ہوں کہ منہ سے کچھ نہ بولوں گی۔‘‘
’’نہیں، بالکل نہیں۔‘‘ نرس نے ِ ّ جھلا کر کہا۔
’’خدا کے لیے! بس ایک نظر۔‘‘ شیاؤ مان کی پلکوں پر موتی جھلملانے لگے۔ اچانک پیچھے قدموں کی چاپ سنائی دی اور اُس نے مڑ کر دیکھا تو چچا چانگ پوتے کا ہاتھ تھامے چلا آرہا تھا۔
’’دادا میاں،‘‘ وہ تڑپ کر اُس کی طرف بڑھی، ’’اِس خالہ سے میری سفارش کر دیں۔ یہ مجھے ۔۔۔‘‘
چانگ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ شیاؤ مان اُسے کھینچتی ہوئی نرس کے پاس لے گئی۔
’’سسٹر، براہِ مہربانی ہمیں ڈاکٹر ُ لو کو ایک نظر دیکھ لینے دو۔‘‘
نرس آگ بگولا ہو گئی۔ ’’یہ تم لوگ کیا وارڈوں میں اُودھم مچاتے پھر رہے ہو؟‘‘
’’سسٹر یہ کیا بات ہوئی؟ تم سمجھتی کیوں نہیں؟‘‘ آج چانگ کی آواز میں وہ پہلی سی گھن گرج نہ تھی۔ وہ گھگیایا، ’’نرس تم تو جانتی ہو، ڈاکٹر ُ لو کی بیماری کا سبب کیا ہے؟ اُس نے ہمارا آپریشن کیا تھا۔ گو مَیں اسے اچھی طرح دیکھ نہیں سکتا، پھر بھی دم بھر اُس کے قریب کھڑا رہوں گا تو میرے اعصاب کو کچھ سکون مل جائے گا۔‘‘
اُس کے لہجے میں اتنی بے چارگی تھی کہ نرس کچھ نرم پڑ گئی اور رسان سے سمجھانے لگی، ’’مَیں تمہیں جان بوجھ کر تو نہیں روک رہی۔ ڈاکٹر ُ لو کو دل کا شدید دورہ پڑا ہے۔ انہیں دِق کرنا مناسب نہیں۔ تم چاہتے ہو نا کہ وہ جلد از جلد اچھی ہو جائیں؟ تو بہتر ہو گا کہ انہیں فی الحال آرام کرنے دو۔‘‘
’’ہاں، تم بھی ٹھیک کہتی ہو۔‘‘ چانگ ٹھنڈی سانس بھر کر بنچ پر بیٹھ گیا اور زانو پر ہاتھ مارتے ہوئے بولا، ’’یہ سب میرا قصور ہے۔ مَیں نے ہی آپریشن کے لیے ہا ہا کار مچا رکھی تھی۔ لیکن کسے معلوم تھا۔۔۔؟ ڈاکٹر ُ لو کو کچھ ہو گیا تو مَیں لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گا؟‘‘ اُس نے پشیمانی کے عالم میں سر نیہوڑا لیا۔
ڈاکٹر سُون، ُ لو کو دیکھنے آیا تو شیاؤ مان نے اُسے راستے ہی میں روک لیا، ’’ڈاکٹر سُون، آپ ڈاکٹر ُ لوکو دیکھنے جا رہے ہیں؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’ مجھے بھی ساتھ لے چلیں گے؟ بڑی مہربانی ہوگی۔‘‘
’’ابھی نہیں۔ کچھ دیر بعد۔ ٹھیک؟‘‘
ڈاکٹر سُون کی آواز سن کر چانگ بھی کھڑا ہو گیا اور قریب آکر اُس کی آستین پکڑتے ہوئے بولا، ’’ڈاکٹر سُون، ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے، مگر میری ایک عرض ُ سن لیجئے۔ مَیں جانتا ہوں آپ بہت مصروف ہیں، پھر بھی دل کی بات کہے بنا چین نہیں پڑ رہا۔‘‘
سُون نے چانگ کا کندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا، ’’ہاں ہاں، کہو۔‘‘
’’ ُ لو ایک بہت اچھی ڈاکٹر ہے۔ آپ لیڈروں کو چاہیے کہ اُس کا اچھی طرح علاج کریں۔ اگر آپ اُسے بچا لیں گے، تو وہ بہت سے لوگوں کے لیے روشنی کی کرن بن جائے گی۔ آپ کے پاس بہت اچھی اچھی دوائیاں بھی ہیں نا؟ اُسے اچھی دوائیاں دیں۔ اِس معاملے میں پس و پیش نہ کریں۔ مَیں نے سنا ہے مریض کو بعض قیمتی دوائیاں اپنے پلے سے خریدنی پڑتی ہیں۔ ُ لوکے دو بچے ہیں۔ اُس کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں۔ اور اب وہ بسترِ مرگ پر پڑی ہے۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ وہ قیمتی دوائیوں کا بوجھ برداشت کرلے گی۔ کیا یہ اتنا بڑا اسپتال اُس کی مدد نہیں کرسکتا؟‘‘
وہ چپ ہو گیا اور ڈاکٹر سُون کے ہاتھ تھامے، کان کھڑے کرکے جواب کا انتظار کرنے لگا۔
سُون نے کبھی اپنے احساسات کا برملا اظہار نہیں ہونے دیا تھا مگر اِس وقت وہ بھی جذبات سے مغلوب ہو گیا اور گرمجوشی سے چانگ کا ہاتھ دباتے ہوئے اپنائیت بھرے لہجے میں جواب دیا،
’’ہم اُسے بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں!‘‘
چانگ بظاہر مطمئن ہو گیا۔ اُس نے پوتے کو پاس بلایا اور اُس کے شانے سے لٹکے ہوئے تھیلے میں کچھ ٹٹولنے لگا۔
’’یہ کچھ انڈے ہیں۔ براہِ کرم ڈاکٹر ُ لو کے لیے لے جائیں۔‘‘
’’اِس کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ سُون نے جلدی سے جواب دیا۔
چانگ کو دھچکا سا لگا اور سُون کا ہاتھ پکڑ کر بلند آواز میں بولا، ’’انکار کریں گے تو مَیں آپ کو اندر نہیں جانے دوں گا!‘‘
سُون کے لیے انڈوں کا تھیلا تھامے بنا کوئی چارہ نہ رہا۔ اُس نے سوچا کہ کسی نرس سے کہہ دے گا کہ انڈے چانگ کو لوٹا کر اس سے معذرت کرلے۔ چانگ نے گویا اُس کی سوچوں کو پڑھ لیا، ’’ایسا نہ ہو کہ بعد میں یہ انڈے آپ مجھے واپس بھیج دیں۔‘‘
سُون نے انڈے رکھ لیے اور چانگ اور شیاؤ مان کو سیڑھیوں سے نیچے لے گیا۔
چھین ڈائریکٹر چاؤ کے ہمراہ ُ لو کے کمرے کی طرف آ رہی تھی۔ ’’چاؤ،‘‘ چلتے چلتے اُس نے قدرے جذباتی لہجے میں کہا، ’’میرا روّیہ بالکل افسرانہ جیسا تھا۔ مَیں تو نہیں جانتی تھی کہ ڈاکٹر ُ لو نے ہی پہلے لاؤ چھیاؤ کا آپریشن کیا تھا، پَر آپ تو جانتے تھے؟ خوش قسمتی سے چھیاؤ نے اُسے پہچان لیا۔ ورنہ ہم لوگ اندھیرے ہی میں رہتے۔‘‘
’’مَیں اُن دنوں گاؤں میں کام کر رہا تھا،‘‘ چاؤ نے بے بسی کے انداز میں جواب دیا۔
وہ ُ لو کے کمرے میں داخل ہوئے تھے کہ سُون بھی آگیا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے انہیں رات بھر کے ہنگامی اقدامات کی رپورٹ دی۔ چاؤ کیس ہسٹری دیکھتے ہوئے سر ہلاتا رہا اور پھر کہنے لگا، ’’اِسے ہمہ وقت دیکھ بھال کی ضرورت ہے۔‘‘
فُو اتنے لوگوں کو ایک ساتھ آتے دیکھ کر اپنی جگہ سے اُٹھ گیا تھا۔ چھین اُس کی موجودگی سے بے خبر، فوراً خالی اسٹول پر بیٹھ گئی۔
’’ڈاکٹر ُ لو، کیسی طبیعت ہے؟‘‘ اُس نے پوچھا۔
ُ لو نے دھیرے سے پلکیں اٹھا کر اسے دیکھا مگر منہ سے کچھ نہ بولی۔
’’نائب وزیر چھیاؤ نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔‘‘ چھین کے لہجے سے تپاک جھلک رہا تھا۔ ’’وہ آپ کے بے حد احسان مند ہیں۔ وہ تو خود آپ کو دیکھنے آرہے تھے پر مَیں نے روک دیا۔ مَیں اُن کی طرف سے شکریہ ادا کرنے آئی ہوں۔ کچھ کھانے کو جی چاہتا ہو، کسی شے کی ضرورت ہو، مجھے بتائیں۔ مَیں آپ کی مدد کروں گی۔ تکلف بالکل نہ کریں۔ ہم سب انقلابی کامریڈ ہیں۔‘‘
ُ لونے پلکیں موند لیں۔
’’آپ ابھی جوان ہیں۔ حوصلہ نہ ہاریں۔ آپ بیمار ہیں، ہماری طرف سے یہ۔۔۔‘‘
’’کامریڈ چھین پو، انہیں کچھ دیر آرام کر لینے دیں۔ ابھی ابھی تو ہوش میں آئی ہیں۔‘‘ چاؤ نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا، اچھا۔ خوب اچھی طرح آرام کریں،‘‘ چھین اٹھتے ہوئے بولی۔ ’’ مَیں ایک دو روز میں پھر آؤں گی۔‘‘
وارڈ سے نکلتے ہی چھین کی تیوریوں پر بل پڑ گئے اور شکایت کرنے لگی، ’’ڈائریکٹر چاؤ، مجھے آپ پر سخت غصہ آرہا ہے۔ ڈاکٹر ُ لو حقیقتاً ایک اثاثہ ہے۔ اگر آپ پہلے سے ہی اُس پر توجہ دیتے تو وہ یوں بیمار نہ پڑتی۔ ادھیڑ عمر کامریڈ ہمارے ملک کے لیے ریڑھ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ باصلاحیت لوگوں کی قدر کرنا بے حد ضروری ہے۔‘‘
’’ہاں،‘‘ چاؤ مختصر سا جواب دے کر خاموش ہو گیا۔ چھین کو جاتے دیکھ کر فُو نے دبی آواز میں سُون سے پوچھا، ’’یہ کون تھی؟‘‘
سُون نے چشمے کے اوپر سے برآمدے میں دیکھا اور بھویں سکیڑ کر جواب دیا، ’’ایک بڑھیا جو ہر وقت انقلابی تقریریں جھاڑتی رہتی ہے!‘‘
(18)
اُس روز ُ لوکی طبیعت کچھ بہتر تھی، لیکن کھو کھلی نظروں سے محض چھت کو تکے جارہی تھی۔ اُس کا چہرہ ہر قسم کے جذبات سے عاری تھا، گویا اپنی نازک حالت اور خانگی ناخوشیوں تک سے لاتعلق ہو چکی تھی۔ جیسے اُسے زندگی سے کوئی سروکار نہیں رہا تھا۔
فُو کو انجانے اندیشوں نے آگھیرا۔ وہ اُسے بار بار پکار رہا تھا، مگر ُ لو شاید بات کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔
وقت کے گویا کسی نے پنکھ کاٹ دےئے تھے۔ فُو نے دو راتیں ُ لو کے پلنگ کی پٹی سے لگے لگے آنکھوں میں بتا دی تھیں اور اِس وقت تکان سے بے حال ہو رہا تھا۔ اُس پر غنودگی طاری تھی کہ یک لخت ایک دلدوز چیخ سن کر ہڑبڑا اٹھا۔ ساتھ والے کمرے میں کوئی لڑکی ’’اَ ّ می، اَ ّ می‘‘ پکارے جا رہی تھی اور کسی مرد کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ پھر تیز تیز قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی۔ شاید بہت سے لوگ کمرے کی طرف چلے آرہے تھے۔ فُو بھی لپک کر برآمدے میں آگیا۔ کمرے سے ایک اسٹریچر باہر لایا جا رہا تھا اور پندرہ سولہ سال کی ایک لڑکی پچھاڑیں کھا رہی تھی۔ اُس کے بال پریشان تھے اور آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی۔ اُس نے کپکپاتے ہاتھوں سے اسٹریچر تھام لیا اور گڑ گڑانے لگی، ’’اِسے مت لے کر جاؤ! میری اَ ّ می سو رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں جاگ جائے گی! مَیں جانتی ہوں، تھوڑی دیر میں آنکھیں کھول دے گی!‘‘
لوگوں نے اسٹریچر کے لیے راستہ چھوڑ دیا۔
فُو بت بنا کھڑا تھا۔ اُس کے چہرے پر وحشت برس رہی تھی اور رخساروں کی ہڈیاں نمایاں ہو گئی تھیں۔ اُس کی سرخ آنکھوں میں آنسوسمٹنے لگے۔ اُس نے مٹھیاں بھینچ کر خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر تھرا کر رہ گیا۔ لڑکی کی آہ و بکا پگھلے سیسے کی مانند کانوں میں اترتی جا رہی تھی۔
’’اَ ّ می، اُٹھو! اُٹھ جاؤ اب! دیکھو یہ لوگ تمہیں لے جا رہے ہیں!‘‘ وہ دیوانوں کی طرح واویلا کر رہی تھی۔ اور اسٹریچر کے پیچھے پیچھے ایک ادھیڑ سا آدمی سسکیاں بھرتا چلا جا رہا تھا۔ ’’یہ سب میری خطا ہے! سب میری خطا ہے!‘‘
یہ الفاظ خنجربن کر فُو کے سینے میں اُتر گئے۔ وہ پارے کی طرح تڑپا اور بیوی کے کمرے میں پہنچ کر سر اُس کی پٹی سے ٹکا دیا اور زیرِ لب بڑ بڑانے لگا، ’’شکر ہے، تم زندہ ہو!‘‘
ُ لو نے اس کی بھاری سانسوں کی آواز سن کر آنکھیں کھول دیں۔ آنکھیں جو بے نور ہوئی جا رہی تھیں!
وہ کانپ اُٹھا، ’’ون تھینگ!‘‘
ُ لو کی سرد نگاہیں بدستور اُس کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔ فُو کا دل خون کے آنسو رو دیا۔ وہ ُ لو کو دلاسا دینا چاہتا تھا۔ ُ لو جو اُس کی بیوی تھی، عزیز ترین متاعِ حیات تھی! کبھی ایسے ہی جاڑوں میں اُس نے بیوی کو گیت سنائے تھے۔ اور اب اُن گیتوں کو جانے کتنے برس بیت چکے تھے؟ وہ اس کی جانِ بہار تھی۔ اُس کے بغیر جینے کا تصوّر ہی سوہانِ روح تھا! یہ جدائی برداشت نہ ہو سکے گی!
گیت! ہاں وہی گیت سناؤ! اُسی گیت نے پہلے پہل ُ لو کے دل میں پیار کی چنگاری بھڑکائی تھی! اور آج بھی وہ اُن سہانی یادوں کے لیے، جینے کی اُمنگ پیدا کرنے کے لیے وہی گیت سنائے گا!
وہ جھک گیا اور ڈبڈبائی آنکھوں کے ساتھ گیت کے بول دھرانے لگا:
’’کاش میں کوئی تیز رو ندی ہوتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میری محبوبہ
ننھی سی شوخ و شنگ مچھلی بن کر
کف بداماں موجوں میں
تیرتی پھرتی۔،،
گیت کے بول شاید اثر کر گئے تھے۔ اُس نے سر پھیر کر شوہر کو دیکھا۔ اُس کے ہونٹ دھیرے دھیرے ہل رہے تھے۔ فُو کان اس کے ہونٹوں تک لے آیا۔ وہ کہہ رہی تھی: ’’اب مجھ میں تیرنے کی۔۔۔ سکت نہیں۔۔۔ رہی۔‘‘
فو نے آنسو پی لیے:
’’کاش میں اُن ُ چھوا جنگل ہوتا،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور میری محبوبہ
ننھی سی گورّیا بن کر
میرے گھنے پیڑوں میں
گھونسلا بناتی، چہچہاتی۔‘‘
وہ بڑبڑائی، ’’اب مجھ میں اڑنے کی۔۔۔ سکت نہیں۔۔۔ رہی۔‘‘
فُو تڑپ گیا۔ اُس کے آنسو بہہ نکلے:
’’کاش میں کوئی خرانہ ہوتا،
۔۔۔۔۔۔
اور میری محبوبہ
عشق پیچاں کی بیل بن کر
مجھ سے لپٹ رہتی۔‘‘
آنسو ُ لو کے رخساروں پر لڑھک لڑھک کر سفید تکیے میں جذب ہونے لگے اور بمشکل اِتنا کہہ سکی، ’’اب سکت۔۔۔ نہیں رہی!‘‘
فُو اُس سے لپٹ کر بلک پڑا۔ ’’مَیں ایک اچھا شوہر نہ بن سکا۔۔۔‘‘ ُ لو کی سرد نگاہیں پھر چھت پر جا ٹکی تھیں۔ وہ جیسے آہوں، سسکیوں، گردوپیش کی ہر شے بے نیاز ہو چکی تھی۔
فُو کی سسکیاں سن کر ایک ڈاکٹر اندر آگیا۔ ’’ڈاکٹر ُ لو بہت کمزور ہیں۔ اُنہیں زیادہ بے چین نہ کریں۔‘‘
شام ڈھلے ُ لو کی طبیعت ذرا سنبھلی تو اُس نے سر گھما کر فُو کو دیکھا۔ اُس کے ہونٹ کپکپا رہے تھے۔
’’ون تھینگ،،کچھ تو کہو!‘‘ فُو نے اُس کے ہاتھ تھام لیے۔
’’یوان یوان کو۔۔۔ سفید جمناسٹک شوز لے دو۔۔۔‘‘
’’کل ہی لے دوں گا، ‘‘ اور اُس کی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو چھلک آئے۔
’’شیاؤ چیا۔۔۔ اُس کی چوٹیاں گوندھ دینا۔۔۔‘‘
’’ضرور گوندھ دوں گا!‘‘ فُو نے وعدہ کیا۔ اور اُس کا منہ تکنے لگا۔
ُ لو کے ہونٹ پھر ساکت ہو چکے تھے۔
(19)
دو دن بعد ُ لو کے نام ایک خط آیا جو بیجنگ کے ہوائی اڈے سے پوسٹ کیا گیا تھا۔ فُو خط کھول کر پڑھنے لگا:
پیاری ون تھینگ،
ممکن ہے یہ خط تم تک نہ پہنچ پائے۔ مگر میرا دل کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہوگا! اور تم صحت یاب ہو جاؤ گی۔ تمہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ ابھی تم جوان ہو، اتنی جلدی ہمیں چھوڑ کر نہیں جا سکتیں!
کل رات مَیں اور میرا شوہر تمہیں الوداع کہنے آئے تو تم بے سدھ پڑی تھیں۔ ہم آج صبح بھی آنا چاہتے تھے لیکن مصروفیت آڑے آگئی۔ ممکن ہے گزرے دن کی ملاقات آخری ملاقات ثابت ہو۔ یہ سوچ سوچ کر میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ ہمارا بیس برس کا ساتھ تھا۔ ہم میں کس قدر قربت اور یگانگت تھی، کوئی نہیں جان سکتا۔ کسے معلوم تھا کہ ہمیں یوں جدا ہونا پرے گا؟
یہ خط مَیں ہوائی اڈے سے لکھ رہی ہوں۔ جانتی ہو اِس وقت میں کہاں کھڑی ہوں؟ دستکاریوں کے کاؤنٹر پر۔ آس پاس کوئی بھی نہیں۔ صرف کاؤنٹر کے شیشے جگمگا رہے ہیں۔ یاد ہے جب ہم دونوں پہلی بار یہاں آئی تھیں؟ یہاں نرگس کے مصنوعی پھولوں کا ایک گملا تھا۔ پتیوں پر شبنم کے قطرے جھلملا رہے تھے۔ کیسا جیتا جاگتا پودا تھا؟ تم اُس پودے پر مر مٹی تھیں۔ مگر قیمت دیکھ کر ہماری طبیعت صاف ہو گئی تھی۔ اور اب مَیں پھر اسی کاؤنٹر پہ کھڑی ایک اور پودا دیکھ رہی ہوں۔ اُس کے رنگ بالکل نرگس کے اُسی پودے جیسے ہیں اور میرے دل سے ہوک سی اٹھ رہی ہے۔ جانے کیوں؟ شاید یہ ہوک بیتے وقت کے لیے ہے!
مجھے یاد ہے فُو سے تمہارا نیا نیا معاملہ چل رہا تھا۔ ایک بار اُس نے ہمارے کمرے میں باتوں باتوں میں پشکن کا ایک مصرعہ سنایا تھا،
’’ماضی کی یادیں بڑی سہانی ہوتی ہیں۔‘‘
مَیں نے منہ بنا کر اُس کی بات کو جھٹلا دیا تھا۔ بلکہ یہاں تک کہہ گئی تھی کہ بیتی ہوئی ابتلائیں بھی بھلا سہانی یادیں بن سکتی ہیں؟ اور فُو نے ہنس کر میری بات ٹال دی تھی۔ لیکن آج مَیں جان گئی ہوں۔ پشکن نے ٹھیک کہا تھا۔ مَیں اِس لمحے بالکل ایسا ہی سوچ رہی ہوں۔ یوں لگتا ہے اُس نے یہ مصرعہ میرے ہی لیے کہا تھا! ماضی کی یادیں واقعی بڑی سہانی ہوتی ہیں۔
ابھی ابھی ایک جیٹ طیارے نے پرواز کی ہے۔ جانے کس منزل کا راہی ہے؟ گھنٹے بھر میں مَیں بھی اپنا وطن چھوڑ کر اُڑ جاؤں گی۔ صرف ساٹھ منٹ باقی ہیں۔ میرے آنسو اِس خط کو بھگوئے دے رہے ہیں۔ پَرمیرے پاس دوبارہ لکھنے کا سمے نہیں۔
مَیں بے حد اُداس ہوں۔ شاید میرا فیصلہ غلط ہے۔ مَیں یہ جگہ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتی۔ بالکل نہیں! مجھے اپنا اسپتال، آپریشن تھیٹر، حتیٰ کہ کلینک میں بچھی ہوئی چھوٹی سی میز بے حد یاد آرہے ہیں۔ مَیں اکثر بڑ بڑاتی رہتی تھی کہ ڈاکٹر سُون کا روّیہ بڑا سخت ہے۔ وہ ایک غلطی بھی معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ اور اب اُن کی ڈانٹ ڈپٹ سننے کو جی چاہتا ہے۔ وہ بڑے سخت گیر استاد ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو مَیں شاید اپنے پیشے میں مہارت حاصل نہ کر پاتی!
لاؤڈاسپیکر پر ابھی ابھی مسافروں کو جہاز میں سوار ہونے کا سندیسہ دیا گیا ہے۔ یہ سفر؟ مَیں کہاں جا کر اُتروں گی؟ مستقبل کیسا ہوگا؟ میرا دل ڈوبا جا رہا ہے۔ مَیں خوفزدہ ہوں! ہاں، سخت خوفزدہ! کیا ہم ایک اجنبی دیس کا رہن سہن اپنانے میں کامیاب ہو جائیں گے، جس کا ہمارے دیس سے کوئی سمبندھ ہی نہیں؟ مَیں دل کا چین کہاں سے لاؤں گی؟
میرا شوہر ایک آرام کرسی پر مغموم بیٹھا ہے۔ پچھلے چند دن اُسے سامان باندھنے بندھانے میں سوچنے کی فرصت ہی نہ ملی، لیکن گزشتہ رات آخری کوٹ سوٹ کیس میں رکھتے ہوئے اُس نے اچانک کہا، ’’کل سے ہم بے گھر ہو جائیں گے!‘‘ تب سے وہ بالکل چپ ہے، اور مَیں جانتی ہوں کہ اُسے بھی وسوسوں نے گھیر رکھا ہے۔
اُس روز ہم تمہارے ہاں آئے تو تم نے کہا تھا، ’’تم لوگ اپنا یہ فیصلہ تبدیل نہیں کرسکتے؟‘‘
اِس کا جواب مَیں ایک فقرے میں نہیں دے سکتی۔ مَیں اور میرا شوہر پچھلے چند مہینوں سے قریب قریب ہر روز اس سوال پر بحث کرتے رہے ہیں۔ ہمارے ذہنوں میں اِک طوفان بپا رہا۔ چین سے جانے کی کئی وجوہ ہیں۔ اِس کی ایک وجہ ہماری بیٹی یایا ہو سکتی ہے۔ پھر لیو کی بہتری بھی اسی میں ہے اور میری بھی۔ تاہم، یہ وجوہ میرے مَن میں اُٹھنے والی ٹیسوں کا مرہم نہیں بن سکتیں۔ ایسے میں جب چین ایک نئے دور میں داخل ہوا ہے، ہمارے لیے یہاں سے جانا مناسب نہ تھا۔ اپنے فرائض سے پہلوتہی کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں۔
مَیں بڑی کمزور قوتِ ارادی کی مالک ہوں۔ گو پچھلے دس سال میں تمہاری نسبت مجھ پر کم ابتلائیں آئیں، پھر بھی مَیں اُن کا سامنا نہ کرسکی۔ مَیں تمہاری طرح استقامت نہ دکھا سکی۔ مَیں یہی سو چتی رہتی تھی کہ یوں ذِ ّ لت اٹھانے سے مر جانا بہتر ہے، لیکن یا یا کا وجود آڑے آجاتا تھا۔ لیو کو بھی ’’دشمن کا ایجنٹ‘‘ قرار دے کر غیر قانونی طور پر نظر بند کردیا گیا۔
یہ سب ماضی کی تلخ یادیں ہیں۔ فُو نے ٹھیک ہی کہا تھا: ’’تاریکی چھٹ گئی ہے۔ سویرا نمودار ہو رہا ہے۔‘‘ مصیبت یہ ہے کہ برسوں کے بد اثرات راتوں رات ختم نہیں کئے جاسکتے۔ حکومت کی پالیسیوں کے نتائج سامنے آنے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ افواہیں، کسی بھی شخص کی موت کا سبب بن سکتی ہیں۔ مجھے ایسے ڈراؤنے خوابوں سے بڑی وحشت ہوتی ہے۔ مَیں تم سا حوصلہ نہیں رکھتی!
مجھے یاد ہے کہ ایک میٹنگ میں تمہیں اور مجھے بورژوا اسپیشلسٹ کہا گیا تھا تو میٹنگ کے بعد مَیں پھٹ پڑی تھی، ’’میرے تو کچھ پلے نہیں پڑتا۔ لوگ اتنی محنت سے کام کریں اور انہیں یوں لتاڑا جائے، آخر کیوں؟ مَیں آئندہ ایسی میٹنگ میں نہیں جاؤں گی!‘‘ لیکن تم نے بڑی رسان سے جواب دیاتھا، ’’ارے، چھوڑو! وہ ہزار میٹنگیں کریں، مَیں تو جاؤں گی۔ آپریشن تو آخر ہمیں ہی کرنے ہیں۔ مَیں گھر میں مطالعہ کروں گی۔‘‘ مَیں نے پوچھا تھا، ’’تمہیں محسوس نہیں ہوتا کہ ہمارے ساتھ زیادتی کی جا رہی ہے؟‘‘ اور تم نے مسکرا کر کہا تھا، ’’مَیں اتنی مصروف رہتی ہوں کہ ان باتوں پر سوچ بچار کا وقت ہی نہیں ملتا۔‘‘ رخصت ہوتے وقت تم نے مجھے تاکیدکی تھی، ’’فُو کو نہ بتانا یہ باتیں۔ وہ پہلے ہی مصیبتوں میں گھرا ہے۔‘‘ اِس کے بعد ہم دونوں کو چپ سی لگ گئی تھی۔تم بڑی پُرسکون اور پُراعتماد نظر آرہی تھیں۔ کوئی تمہارے عزم میں ہلچل پیدا نہیں کرسکتا تھا۔ مَیں جانتی تھی کہ تم اپنی قوتِ ارادی کے بل پر ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کر لوگی۔ اگر مجھ میں تم سے آدھی ہمت بھی ہوتی تو یوں وطن چھور کر جانے کا فیصلہ کبھی نہ کرتی۔
مَیں جارہی ہوں، پَر دل یہیں چھوڑے جا رہی ہوں، اپنے مادرِ وطن میں۔ مَیں کہیں بھی رہوں چین کو کبھی نہ بھول سکوں گی۔ یقین جانو، مَیں ضرور لوٹ کر آؤں گی۔ جب یایا بڑی ہو جائے گی، ہم اپنے پیشے میں کچھ نئی کامیابیاں حاصل کر لیں گے، تو لوٹ آئیں گے۔
مجھے یقین ہے تم بہت جلد صحت یاب ہو جاؤ گی! اب اپنی صحت پر توجہ دینا۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ خود غرض بن جاؤ۔ مَیں تو ہمیشہ سے تمہاری بے لوثی کی معترف رہی ہوں۔
خدا حافظ، میری گوئیاں!
ڈھیروں پیار کے ساتھ،
تمہاری یافن
(20)
ڈیڑھ ماہ بعد ڈاکٹر ُ لو کو گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔
یہ ایک معجزہ تھا۔ اُس کے جیون کی ناؤ ڈوب ڈوب کر ابھری تھی۔ ڈاکٹروں کو اُس کے یوں بچ جانے پر خوشی کے ساتھ ساتھ حیرت بھی تھی۔
فُو ُ پھولا نہیں سما رہا تھا۔ صبح سویرے وہ اُسے گرم کپڑے پہننے میں مدد دے رہا تھا کہ ُ لو نے کہا:
’’کچھ گھر کی سناؤ!‘‘
’’سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ کل تمہاری پارٹی برانچ کے لوگ آئے تھے۔ کمرہ صاف کرنے میں ہاتھ بٹاتے رہے۔‘‘
اُس کے خیالوں کی رو یک لخت چھوٹے سے کمرے کی طرف بہہ نکلی۔ بڑا بک شیلف، ننھا سا ٹیبل کلاک اور میز۔۔۔
وہ اٹھی تو ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ اُس نے ایک ہاتھ سے فُو کا بازو تھاما، دوسرے سے دیوار کا سہارا لیا اور ہولے ہولے قدم اٹھاتی وارڈ سے باہر نکل آئی۔
چاؤ، سُون اور ُ لو کے ساتھی ڈاکٹر اور نرسیں پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔
سرد ہوا کا تند جھونکا درختوں کی بے پات شاخوں سے سرسراتا گزر گیا۔ دو دن تک بارش ہوتی رہی تھی اور اب دھوپ میں کچھ زیادہ ہی شوخی تھی۔ فُو بیوی کو سہارا دےئے دھیرے دھیرے دھوپ اور ہوا کی طرف بڑھنے لگا۔
سیڑھیوں کے پاس کالے رنگ کی ایک کار منتظر تھی۔ یہ کار چاؤ کی درخواست پر انتظامیہ نے ُ لو کے لیے بھیجی تھی، مگر۔۔۔
ُ لو شوہر کے کندھے کا سہارا لیے پیدل ہی گیٹ کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔۔۔
179179179
حواشی
* ہم چینی فن و ادب کے گنجِ شائگاں و گنجِ رواں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو تاریخ ہمارا ہاتھ تھامے منزل منزل
پڑاؤ ڈالتی لگ بھگ 28 سو برس پیچھے لے جاتی ہے۔ 770 سے 476 قبل مسیح تک کا یہ 3سو سال پر پھیلا
زمانہ ’’دورِ بہار و خزاں‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ اُس دور میں فن و ادب اور فلسفے کو اتنا فروغ حاصل ہوا
کہ وہ جریدۂ وقت پہ بقائے دوام کا نقش بن کر ثبت ہو گئے۔ یہی زمانہ ہے جب کنفیوشسی افکار، تاؤ مت،
موہی مت (آفاقی محبت)، تصوّرِ حیات و ممات اور دیگر فلسفیانہ افکارو خیالات کو وجود و عروج حاصل ہوا
اور ایسی کلاسیکی تحریریں سامنے آئیں جنہوں نے آنے والے ادوار میں ثابت کر دیا کہ یہی دور چینی
تہدیب و معاشرت کا گہوارہ تھا۔ ’’رنگ برنگ پھولوں کو بہار دکھانے دو‘‘ اور ’’نوع بہ نوع افکار کو مقابل آنے دو‘‘
اُسی زمانے یعنی 28 سو سال قبل کی تخلیق ہیں۔ صدیوں پر پھیلے بعد کے مختلف ادوار حتیٰ کہ حالیہ دو ر میں بھی
ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو جب جب حالات کے جبر کا سامنا ہوا، انہوں نے اُسی دور کے
استعاروں، اشاروں، کنایوں اور تلمیحات کا سہارا لیا۔ یہ ایک اجمالی کیفیت ہے۔ تفصیل کسی اور وقت کے
لیے اٹھا رکھتے ہیں۔ ماؤ زے تونگ کا مطالعہ، بلاشبہ، بہت وسیع تھا۔ اُن کی تحریروں کی روانی بھی اپنی مثال
آپ ہے۔ وہ جو دشمن کے گھیرے میں پہاڑ پہ کھڑا ہے۔ ایسے میں پہاڑ پہ پھیلا فطری حُسن دیکھ، دشمن کو یک
سر ُ بھلا کے کہہ اٹھتا ہے۔
ع قلۂ کوہ پہ ہے حُسن یہاں حُسن وہاں
انہوں نے ’’رنگ برنگ پھولوں کو بہاردکھانے دو‘‘ اور ’’گوناگوں افکار کو مقابل آنے دو‘‘ کے آہنگِ ادب اُسی دور سے اٹھائے۔
**
Rashid Butt, a Pakistani journalist who worked in the )China's( FLP's Urdu section for three terms (1967-1969, 1972-1975 and 1977-1983), provides a vivid description of the workplace over this time133.Rashid Butt, 'My Days in China' in Living in China, by Twenty Authors from Abroad, New World Press, Beijing, 1979. Most of the contributors have nothing but praise۔۔۔but, Butt's article is not only the most detailed but also the most critical; it also brings historical and non-Western perspectives to the changes over these decades. The book must have been considered a success, for a bilingual version was published in 1982, featuring nine of the original twenty authors. Remarkably, Butt's critical account was included uncut۔۔۔ See Living in China by Nine Authors from Abroad, New World Press, Beijing, 1982.
پاکستانی صحافی رشید بٹ جنہوں نے غیر ملکی زبانوں کے اشاعت گھر، بیجنگ کے شعبۂ اردو میں تین ادوار (1967ء تا 1969ء، 1972ء تا 1975ء اور 1977ء تا 1983ء) میں کام کیا، جائے کار کی بڑی جاندار بیانیہ تصویر کَشی کی ہے۔۔۔ نیوورلڈ پریس، بیجنگ نے 1979ء میں Living in Chinaکے عنوان سے انگریزی میں کتاب شائع کی جس میں چین کے حوالے سے بیس (20)غیر ملکی کارکنوں کے تاثرات شامل ہیں۔ اس میں رشید بٹ کا مضمون ’’ My Days in China ‘‘ شامل ہے۔ ان میں سے بیشتر تاثرات محض ۔۔۔تعریف وتوصیف تک محدود ہیں لیکن رشید بٹ کا مضمون نہایت تفصیلی بلکہ بھر پور ناقدانہ انداز لئے ہوئے ہے۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں رونما ہونے والے تغیرات پر بھی تاریخ کے تناظر میں اور مغربی زاوےۂ نظر سے ہٹ کر روشنی ڈالی ہے۔ یہ کتاب یقیناًایک کامیاب کاوش رہی ہوگی کہ 1982ء میں اس کا ایک انگریزی /چینی (Bi-lingual) ایڈیشن شائع ہوا جس میں بیس (20) میں سے صرف نو (9) منتخب غیر ملکی مصنفین کے مضامین لئے گئے اور حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ رشید بٹ کا تنقیدی مضمون کسی قطع وبرید کے بغیر شامل کیا گیا ہے۔
Book: Translating Science: the Transmission of Western Chemistry into Late Imperial China,1840-1900
133. As the longest-serving foreign member of the translation team, Fryer must take a large part of the credit for this. ... The uneasy relationship between the foreign translator and his or her Chinese colleagues continues to the present time. ... See Rashid Butt, 'My Days in China', Book:Living in China, New World Press, Beijing,1982, ... Author:David Wright,
Pages 584, Published in 2000, by Brill Academ ic Publishers, Leiden, Netherlands and Boston, USA.
چین میں غیر ملکی مترجم کی حیثیت سے طویل ترین عرصہ گزارنے کا اعزاز فرائر کو حاصل ہے۔۔۔ غیر ملکی مترجم اور چینی مترجم ساتھی کارکنوں کے درمیان بے اطمینانی کا ایک رشتہ 1840ء سے آج تک چلا آرہا ہے ۔ ملاحظہ کیجئے، رشید بٹ کا مضمون’’ My Days in China ‘‘، کتاب Living in China ، مطبوعہ نیو ورلڈ پریس، بیجنگ، 1979ء کتاب : ۔۔۔Translating Science ، مصنّف: ڈیوڈ رائٹ صفحات584، پبلشرز: بر ِ یل اکیڈمک پبلشرز، لیڈن نیدر لینڈز اور بوسٹن، امریکہ، 2000 ء
Research Article: Foreign Involvement in China's Colleges and Universities: A Historical Perspective
133. For over a century foreign educators have entered China as teachers and administrators. While political turmoil and change has dictated the numbers and the nationalities of those participating, there has been no period since the 1860s when foreign educators were absent from Chinese institutions of higher learning. ... R.Butt, "My Days in China", Living in China, New World Press, Beijing (1979)133. By E. Porter (1987) Vanderbilt University, USA in International Journal of Intercultural Relations, Official Publication of the International Academy for Intercultural Research, Vol. 11, No.4, 21 July 2005. Editor-in-Chief: Dan Landis, University of Mississippi, USA. Published by Elsevier Science Ltd. Printed in Great Britain.
133. For over a century foreign educators have entered China as teachers and administrators. While political turmoil and change has dictated the numbers and the nationalities of those participating, there has been no period since the 1860s when foreign educators were absent from Chinese institutions of higher learning. ... R.Butt, "My Days in China", Living in China, New World Press, Beijing (1979)133. By E. Porter (1987) Vanderbilt University, USA in International Journal of Intercultural Relations, Official Publication of the International Academy for Intercultural Research, Vol. 11, No.4, 21 July 2005. Editor-in-Chief: Dan Landis, University of Mississippi, USA. Published by Elsevier Science Ltd. Printed in Great Britain.
تحقیقی مضمون: چین کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں غیر ملکیوں کا عمل دخل ۔۔۔ تاریخ کے تناظر میں۔۔۔ چین میں غیرملکی اساتذہ اور منتظمین کی آمدورفت کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن 1860ء سے اب تک کے دور میں سیاسی شورشوں اور تبدیلیوں کے سبب ایسے غیر ملکی کارکنوں کی تعداد اور قومیتوں میں ردّو بدل دیکھنے میں آتا رہا ہے اور یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ چین کے اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں کوئی غیر ملکی ماہرِ تعلیم نہ رہا۔ حوالہ: رشید بٹ کا مضمون My Days in China کتاب: Living in China
مطبوعہ: نیوورلڈ پریس، بیجنگ (1979ء) تحریر: ای پورٹر، (1987ء)وینڈربلٹ یونیورسٹی، یو ایس اے، مطبوعہ: عالمی جریدہ برائے بین الثقافتی تعلقات، مستند ترجمان: بین الثقافتی تحقیق کی عالمی اکیڈمی، جلد نمبر 11، شمارہ:4 ، 21 جولائی 2005ء، ایڈیٹر انچیف: ڈان لینڈلیس، یونیورسٹی آف مسی سیپی، امریکہ، اشاعت: ایلسوئر سائنس لمیٹڈ، مطبوعہ: برطانیہ
Book: Translation zones in modern China by Bonnie S McDougall, Publishers: Cambria NY. USA, 2011
In (Rashid) Butt's words ..... This sorry state began to improve in the late 1970s. Miraculously, periodicals, particularly,
China Pictorial, now came out of press relatively on time. The contents are diversified and have a social flavour133
بقول رشید بٹ،۔۔۔ 1970 ء کے عشرے کے اواخرمیں صورتِ حال بہتر ہوتی نظر آنے لگی۔ جرائد خصوصاً ’’چین باتصویر‘‘ معجزانہ طور پر ، نہ صرف بروقت پریس سے آجاتے بلکہ موضوعاتی تنوع بھی لئے ہوتے تھے۔۔۔ کتاب: جدید چین میں ترجمے کی حدود وقیود ،مصنفہ : پروفیسر بونی میکڈوگل۔ پبلشرز : کیمبریا، نیویارک، امریکہ 2011ء
*** بعض اوقات، بعض مقامات اور حوالوں سے بڑی دلچسپ کیفیات دیکھنے میں آتی ہیں۔ پیٹوفی ہنگری کا
معروف شاعر تھا۔ پورا نام سیندور پیٹوفی۔ 1823ء میں پیدا ہوا اور 1849 ء، جواں عمری ہی میں، جب
ہنگری کی انقلابی فوج، آسٹریا اور روس کی فوجوں سے لڑ رہی تھی، لاپتا ہو گیا۔ دیہی پس منظر کے حامل اِس
شاعر کے گیتوں اور نظموں میں ابتداً روایتی لوک رس ملتا ہے لیکن بعد کی شاعری قوم پرستی کی عکاسی کرتی
ہے۔ ایک دلچسپ کیفیت یہ نظرآئی کہ اِس کہانی میں پیٹوفی کا جو گیت ’’کاش مَیں کوئی خرابہ ہوتا‘‘ شامل
ہے، اُس کی باز گشت ہمیں برِ صغیر، خصوصاً اُتر پر دیش کی پوربی زبان کے لوک گیتوں میں ملتی ہے جیسے
’’جو مَیں ہوتی راجا بیلا چنبیلیا‘‘۔ اور یہ بازگشت ہمیں خانہ بدوش یا جپسی لوک موسیقی تک لے جاتی ہے۔ جپسی
تاریخ کے اوراق یہ اظہار بھی کرتے ہیں کہ اُن کا اصل وطن برِ صغیر کا یہی علاقہ تھا اور یہاں سے 15ویں
اور 16 ویں صدی میں وہ چلتے،پھیلتے مشرقی یورپ پہنچے اور پھر پورے یورپ میں اپنی راہیں بناتے چلے
گئے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی گوشہ ہو، جہاں جپسی یا جپسی ثقافت کا وجود نہ ہو۔ یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ
سیندور پیٹوفی خود جپسی تھا یا جپسی ثقافت، موسیقی اور شاعری سے متاثر تھا۔