حرفِ آخر۔۔۔، نجم رضوی کے دوست اور ’’دشمن‘‘ تحریر: رشید بٹ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Saturday, 30 March 2019

حرفِ آخر۔۔۔، نجم رضوی کے دوست اور ’’دشمن‘‘ تحریر: رشید بٹ

0 comments

نجم الحسن رضوی کے انتقال سے چند ماہ پہلے میں اور میری بیوی ممتاز صحافی حمیرا اطہر نے شہر ہنر کے عنوان سے نجم کی 50 سالہ ادبی کاوشوں پر ایک ناقدانہ کتاب لکھی تھی۔ یہ مضمون جب لکھا گیا تو نجم نے اسے لاس ویگاس (امریکا) میں پڑھا اور مجھے تاکیداََ ایک ای میل بھیجے کہ یہ مضمون اس کے بارے میں کتاب کے بالکل آخر میں لگایا جائے اور اس پر کتاب مکمل کر دی جائے۔ میں نے اس کے آخری ’’حکم‘‘ کی تعمیل کی۔ (رشیدبٹ)

نجم رضوی کے دوست اور ’’دشمن‘‘اِس مضمون پر نجم رضوی کے ادبی حلقے یا ادبی دوستوں کی پرچھائیں تک نہیں پڑنے دی گئی اور اگر کہیں ’’سہواً‘‘ پڑگئی ہو تو درگزر کر جایئے کہ اِس کے بِنا کوئی چارہ نہیں __کبھی کبھی ’’خون کے گھونٹ‘‘ پینے ہی پڑتے ہیں!


یہ اُن دنوں کا قصّہ ہے جب کراچی میں ٹیلی فون نمبر پانچویں یا چھٹے عدد پہ تمام ہوجاتے تھے۔ یہی کوئی پچاس برس پہلے کا! اب تو اعداد کی تعداد آٹھ،اور ملک و شہر کا کوڈ شامِل کرلیا جائے تو گیارہ بارہ تک پہنچ چکی ہے۔ 1965ء اور 1966ء کا زمانہ- نجم رضوی سے پہلے شناسائی، پھر دوستی اور اُس کے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں ہم جماعتی کی بِنا پڑی۔ (آج کل کے ’’ماڈرن‘‘ زمانے میں ہم جماعت کہنے سے رتبہ، مرتبہ بلکہ ’’ پایہ‘‘ کچھ ’’پیڑھی‘‘ کا ہو کے رہ جاتا ہے، اس لئے ’’کلاس فیلو‘‘کہہ لیجئے)۔ یونیورسٹی کی ہم جماعتی تو زیادہ دن نہ چل پائی کہ مجھے حکومتِ چین نے چیئر مین مائوزے تونگ کی تحریروں کے ترجمے پر لگادیا تھا جس کی ’’پاداش‘‘ میں دو سال کے لئے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا۔ ہاں دوستی قائم رہی مگر اِس طرح کہ بقول شکیل بدایونی:

؎    وہی کارواں، وہی راستے، وہی زندگی، وہی مرحلے
  مگر اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں

اِس سے پہلے کہ ’’ بات‘‘ آگے بڑھے، اِتنا بتادوں کہ نجم رضوی کے فنِ ادب نگاری کی خوبیوں، خامیوں کو ناقدانہ نگاہوں سے بہت سے لوگوں، ادیبوں، نقادوں نے دیکھا ہے۔ اُن میں ادبی حوالوں سے ہر قدو قامت کے صاحبانِ علم شامِل تھے اور ہیں۔ نجم رضوی کا علمی ادبی قد کا ٹھ آئینہ کرنے کے لئے کتنے ہی نام یک جا کئے۔ انہیں سمیٹنے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے، اجمالاً کہاجائے تو ’’ مینڈک تو لنا‘‘ جانئے۔ مینڈک کِس نے تولے؟ کیسے تولے؟بہت مشکل بلکہ خاصا خدائی خواری کاکام ہوتا ہے۔ یہ تذکرہ باتوں باتوں میںکہیں آجائے گا۔ کہیں کیا، ابھی کئے لیتے ہیں۔ چند برس ہوئے، اکادمی ادبیاتِ پاکستان نے کراچی آرٹس کونسل میں ، ادیبوں شاعروں کا ایک مجمع لگایا۔ دُور دُور سے، بڑے بڑے ادیب، شاعر حضرات مدعو کئے گئے تھے۔تقریب اختتام کو پہنچ رہی تھی ۔ہمارے ایک دوست ہیں۔ بچوں کے لئے ایک ماہنامہ شائع کرتے تھے۔ آپ جانئے، بچے بھی پھُدک پھُدک کے اِدھر اُدھر ہونے میں مینڈکوں سے کم نہیں ہوتے۔ کسی جگہ ٹِک کے بیٹھنا یا انہیں بٹھائے رکھنا، ناممکن ! ایسے میں ہمارے دوست کو یہ سوجھی کہ کچھ بڑے اور نامور ادیبوں، شاعروں کو ایک جگہ کرسیوں پر بٹھاکے اُن کا گروپ فوٹو بنالیا جائے اور اگلے شمارے میں یہ اسکوُپ (Scoop)مارا جائے۔ تھوڑی دیر میں دیکھا کہ پسینے میں’’لہولہان‘‘ کبھی اِدھر، کبھی اُدھر مارے بھاگے پھررہے ہیں۔ روک کے پوچھا۔ انہوں نے دم بھرکو سانس قابو میں کی اور بولے،’’ یار کیا بتائوں ۔دوچار شاعروں، ادیبوں کو گھیر کے لاتا ہوں، بٹھاتاہوں۔ پھر دوسروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہوں۔ انہیں لے کے آتا ہوں تو پہلے والے اِدھر اُدھر ہوچکے ہوتے ہیں۔ انہیں بھی مینڈکوں کی طرح ایک جگہ چین نہیں‘‘__اور تصویر نہ بن سکی۔مینڈکوں کو کوئی تول سکا ہے بھلا؟نجم کے ادبی حوالے لے کر چلنا میرا، مُدّعا نہیں ۔ مَیں تو نجم رضوی کی ، جیون راہوں میں، اُن عام روّیوں کی بات کروں گا جن پر اُس کی علمی ادبی پرچھائیاں سایہ مصّور نہیں کرتیں۔بات ہوگی، اُن دوستوں کی جو اُس کے دوست ہوئے یا وہ اُن کا دوست بنا، علمی ادبی راہوں سے ہٹ کے۔ اُن میں کچھ اِس __کبھی شہرِ پُرساں اور کبھی شہرِ ناپُرساں__کراچی کی مادرِ علمی اور خارزارِ صحافت میں اُس کے ہمراہ چلے، بچھڑے، مِلے، مِلے، بچھڑے۔ بعض نئی دنیائوں میں جابسے جن سے برسوں میں کبھی ہیلو ہیلو ہوجاتی ہے۔ وہ اساتذہ جو ہمارے لئے علم کے شب چراغ بنے اور ہمارے بعد آنے والوں کے لئے بھی شب تاب رہے اور ہیں۔
اُن دنوں کی بات ہے جب نجم رضوی ’’ بتیّاں دیکھنے ’’ سکھر سے نیا نیا کراچی آچکا تھا۔ میرے یہاں آنے کا مدّعا بھی کچھ ایسا ہی تھا، فرق صرف اتنا کہ مَیں ذرا اور دُور کے ’’ باہر گائوں‘‘ راولپنڈی سے یہاں پہنچا تھا۔طبقاتی حوالے سے بات کریں تو نجم رضوی، متوسط طبقے سے تعلق رکھتا تھا تو مَیں ادنیٰ متوسط طبقے سے ۔ رجحان دونوں کا صحافتی یا اخباری دنیا کی طرف اور شاید یہی یک رنگی تعلق کا سبب بنی تھی۔مَیں ایک اخبار، ریڈیو کی سنٹرل نیوز آرگنائزیشن(CNO) اور اِدھر اُدھر لکھ لکھاکے، ترجمہ کرکے ’’ حسبِ ضرورت‘‘کفالتوں کی بخیہ گری کرتا۔ نجم رضوی کو شاید گھروالے بھی کچھ سپورٹ کرتے تھے اور کراچی میں وہ اُس وقت کی خبر رساں ایجنسی پاکستان پریس ایسوسی ایشن (پی پی اے) میں کام کرتا تھا۔ پی پی اے میں وہ سب بے چین’’ روحیں‘‘ جمع تھیں جنہیں کچھ عرصے بعد کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت( کہ تب اُس شعبے کا یہی نام تھا!) میں یک جا ہونا تھا۔ ایک چینی کلاسیکی داستان ہے۔ غالباً 14ویں صدی عیسوی میں لکھی گئی۔ عنوان ہے ’’ دلدل کے ہیرو‘‘۔ (ابتدامیں اِس کا ترجمہ ’’ ہم سب بھائی ہیں‘‘ کے عنوان سے بھی ہوا تھا)۔بیتے زمانوں میں ایک تائو درویش یا بھکشونے ایک پہاڑی خانقاہ میں کچھ شریر روحوں کو اندھے کنویں میں بند کرکے قفل لگادیا کہ وہ باہر نہ نکل سکیں۔ ساتھ ہی قفل کھولنے ،روحوں کو آزاد کرنے کاایک منتر لکھ کر بڑے دیوتا کے بُت کے پائوں تلے رکھ دیا۔ اور خانقاہ کے بھکشوؤں اور پجاریوں کو حکم دے دیا کہ کوئی قفل کھولے ،نہ کسی کو کھولنے دے۔ جانے کتنے برس گزر گئے۔ کتنے ہی شاہی دَور بِیت گئے۔ایک دن، ایک جرنیل جسے شاید لوحِ محفوظ پہ قفل کھولنے والے جوگی، درویش یابھکشوہی کا مقام دیا گیا تھا، راہ بھول کے اُس خانقاہ میں آگیا۔ شام ڈھل چکی تھی۔ بھکشوئوں نے اُسے کھانا وانا کھلایا اور پھر وسیع و عریض خانقاہ دکھانے لے چلے۔خانقاہ کے بڑے بڑے دالان، مورتیاں دیکھتے دیکھتے سب اُس مقفّل دروازے تک پہنچ گئے جہاں شریر روحیں بند تھیں۔ جرنیل نے دروازے اور قفل کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے ساری کہانی کہہ سنائی۔ جرنیل نے کہا کہ وہ قفل کھولے گا۔ اِس پہ بھکشوئوں کا رنگ فق ہوگیا۔ وہ صدیوں سے ، پُرکھ تا پُرکھ، مقفّل روحوں کے بارے میں سنتے چلے آرہے تھے۔ انہوں نے جرنیل کو بہت روکا لیکن وہ نہ مانا کہ ، لوحِ محفوظ پہ اُس کا مقام قفل کھولنے والے بھکشو کا تھا۔ وہ خانقاہ کے بھکشوئوں اور پجاریوں کی بات کسی طور نہ مانا تو بھکشو آخری حربے کے طور پر اُسے بڑے بُت والے دالان میں لے گئے کہ ’’دیکھو، صدیوں پہلے جس بھکشو نے اِن روحوں کو اسیر کیا تھا،اُس نے ایک منتر یہاں رکھ دیا تھا اور کہا تھا کہ روحوں کو رہا کرنے سے بڑی تباہی اور بربادی ہوگی۔‘‘ جرنیل، دو قدم آگے بڑھا اور منتر والا کاغذ بُت کے پائوں تلے سے کھینچ لیا۔ کھول کے پڑھا تو لمحے بھرکو مبہوت سا ہوکے رہ گیا۔ پھر کاغذ بھکشوئوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا ، ’’ دیکھو، اِس پر میرا نام لکھا ہے کہ مَیںہی وہ مقفّل دروازہ کھول کے شریر روحوں کو رہا کروں گا۔‘‘ بھکشو دہشت زدہ تھے کہ جانے کیا ہوجائے؟ کیا تباہی مچے؟ وہ جرنیل کو روکتے رہ گئے لیکن اُس نے پَٹ کھول دیے۔ پھر کیا ہوا؟ پَٹ ُکھلتے ہی اندھے کنویں سے چنگاریاں سی پھوٹیں اور آسمان کے رخ بلند ہوکے شرربار ہوگئیں۔جہاں تک زمین تھی اُس پہ بِکھر گئیں۔ کُل108روحیں تھیں۔ کچھ نیک ، کچھ بد! انہوں نے سر زمین کے جانے، اَن جانے گوشوں میں آباد کنبوں میں جنم لیا۔ اُن کے لئے لوحِ محفوظ پر ’’ برائیوں کے خلاف جنگ آزمائوں‘‘ کا مقام، اور بدی کے خلاف لڑتے بھِڑتے دلدل کے علاقے میں پہنچنا اور مِلنا لکھا تھا۔کہانی بہت طویل ہے۔ لیکن جنگ اور پی پی اے کے حوالے سے یہاں ختم ہوجاتی ہے کہ وہ بے چین’’روحیں‘‘ بھی، 108تو نہیں مگر شاید ویسی ہی تھیں۔ پی پی اے کے دفاتر، میکلوڈ روڈ (آئی آئی چندریگر روڈ) کے آخری کونے سے پھوٹتے ایلنڈر روڈ پر روزنامہ مارننگ نیوز کے ساتھ والی بلڈنگ سیفی ہائوس میں تھے۔ وہی بڑے بڑے دالان! وہاں سب نہیں تو کچھ ’’روحیں‘‘جانے کہاں کہاں سے آچکی تھیں۔ سکھر، شکار پور…راولپنڈی والی روح جنگ میں تھی-مَیں- لیکن لوحِ محفوظ پہ ’’ مِلاپ‘‘ پی پی اے والی روحوں کے ساتھ لکھا تھا۔ اپنے دفتر سے اُٹھتا تو پی پی اے کی ’’ خانقاہ‘‘ میں آسن جمالیتا۔ اُن بے چین ’’ روحوں‘‘ کو قابو میں رکھنے کے لئے تب ’’جاوید بخاری‘‘ تھے۔ بڑے پائے کے صحافی اور باس۔ سب اُن کی موجودگی میں لئے دیئے رہتے۔ مَیں بھی ، باوجود یکہ ’’ باہر والا‘‘ تھا، اُن کی عزت و تکریم میں پیچھے نہ رہتا، حالانکہ اُن کا روّیہ کسی سے بھی افسرانہ نہ تھا۔ دوستوں کے دوست تھے۔اشفاق بخاری تھے۔ آج بھی شاید ڈان میں ہیں یا ریٹائر ہوگئے!
وہاں، ایک اور نجم الحسن بھی تھا غالباً شکار پور سے آیا تھا۔ لاپروائوں کا ’’ مغلِ اعظم‘‘۔ مہینوںشکار پور میں گھر والوں کو اپنی خیر خبر نہ دیتا۔ اور آخر اُس کے ابّا، ’’خیر خبر‘‘ لینے آجاتے۔ وہاں کسی کالج میں پڑھاتے تھے، لہٰذا جب بھی آتے، ہم سب کو اپنے شاگرد ہی سمجھتے اور ’’برتائو‘‘ بھی ویسا ہی کرتے۔ وہ نجم الحسن، ’’رضوی‘‘ نہ تھا۔ رنگ بھی میری طرح یا مجھ سے کچھ زیادہ ہی پکّا! حلقۂ احباب میں ’’ نجم کالیا‘‘ کے نام سے جانا جاتا۔ اُس کے ابّا، بلا اطلاع آتے، بغل میں پوٹلی و وٹلی دبائے۔ نجم حسبِ عادت- غائب۔ اب اُس کی تلاش میں ہر کوئی کنوئوں میںبانس ڈال رہا ہے۔ اُس کے معلوم اور نامعلوم ’’ ٹھکانوں‘‘ پہ ڈھونڈ رہا ہے۔ ابّا سے شاگردوں والا ’’برتائو‘‘ بھی کروارہا ہے۔بصد سامانِ رسوائی، اُسے ڈھونڈ نکالا جاتا۔ ابّا سے مِلوایا جاتا تو ابّاکے سینے میں ٹھنڈک سی پڑجاتی۔ شکار پور سے آئی پوٹلی کھول کے سب پہ سوار تھ کردیتے۔جب سبھی نجم الحسن کی تلاش میں گھَنچکر بنے ہوتے تو ابّا اپنی بے چینیوں کو اپنے دل کا روپ دے کے شکار پور کسی کو فون کرتے۔ اُسے احوال سے آگاہ کرتے اور اِس امید میں کہ وہاں سے کوئی ٹیلی فون آجائے گا۔شکارپور والے ممدوح کو اپنا فون نمبر یوں لکھواتے، دو لاکھ ایک ہزار پانچ سو باسٹھ (201562)اور ہم اِدھر اُدھر منہ کیے، کھِی کھِی کرتے رہ جاتے۔
فون کا ذِکر آگیا تو یہ نہ سمجھ لیجئے کہ اُن دنوں گو یا فون کی ’’ بہاریں‘‘ تھیں۔ ہر گھر، ہر دفتر میں فون بلکہ فونوں کی ریل پیل تھی۔ جب جی چاہا، فون اُٹھایا اور جہاں چاہا ’’کھڑکا‘‘ دیا۔اُس زمانے میں گھر پہ یادفتر میں فون لگوانا ایسا ہی تھا جیسے دیوانی مقدمہ لڑنا۔ باپ مقدمہ دائر کرے یا اُس پہ مقدمہ دائر ہو تو پوتا تاریخیںبھگتتا پھِرے۔ انکوائری ایسی ہوتی گویا لڑکی کے رشتے یا بَردکھّوے کی بات ہو۔جس جگہ ٹیلی فون لگانے کی درخواست کی جاتی، اُس کے طبقات الارض تک کو کھنگالا جاتا۔ اور اگر جگہ کرائے کی ہوتی تو درخواست گزارکے ساتھ ساتھ ’’ مالک جائے وقوعہ‘‘ کو بھی کمبختی آگھیرتی۔ محکمہ ٹیلی فون تب ملک بھر میں ایک ہی ہوتا تھا، لہٰذا دونوں کو خوب رگیدتا۔ درخواست گزاروں کو اکثر و بیشتر تگڑی سفارشیںتلاش کرنا پڑتیں۔فون لگوالینا، اولمپک مقابلہ جیتنے سے کسی طور کم نہ ہوتا تھا۔شہر میں اِکّا دُکّا ٹیلی فون تھے۔ ہاں ’’ محکمہ ہذا‘‘ کی ’’ دریا دلی‘‘ جانئے کہ شہریوں کی سہولت کے لئے کہیں کہیں پبلک ٹیلی فون بوتھ لگادیئے گئے تھے۔ایک مخصوص شکل وصورت کا بڑا ساڈبہ جس کے ساتھ ریسیورہُک(Hook)کیا ہوا ہوتا تھا۔ اُن دنوں دس پیسے کا کنگوروں والا سِکہ مارکیٹ میں آچکا تھا۔ ریسیور اُٹھاکے سِکہ ڈبے میں ، سِکے والی جگہ ڈالا جاتا، ایسی آواز سنائی دیتی گویا کوئی شے آہنی سیڑھی کے پائیدانوں پرکھڑکھڑ لڑھکتی کسی جگہ ٹکرا کے ’’کھڑنک‘‘ کی سی آواز سے رُک گئی ہو۔ فون اگر کام کررہا ہوتا تو ریسیور سے ہلکی مگر مسلسل گمک سی سنائی دینے لگتی۔ نمبر مِلایا جاتا اور مِل بھی جاتا لیکن کبھی کبھی!کیونکہ وہ پبلک ٹیلی فون بوتھ عموماً خراب رہتے تھے۔ ہاں، اُن دنوں مقامی(Local) کال تو مِل جاتی تھی لیکن کسی بھی شہر کی ’’میونسپل حدود‘‘ سے باہر یعنی دوسرے شہر میں کال تو جوئے شیر لانے سے کم نہ ہوتی تھی۔ یہاں فون کرنے والے کے پَر عملاً جل جاتے تھے کہ’’ داروغۂ ٹیلی فون‘‘ یعنی آپریٹر سدِراہ ہوتا تھا۔اور فون کرنے والا اُس کے رحم و کرم پر!مطلوبہ شہر کا فون نمبردے کر اور ’’ باری‘‘ کا نمبر لے کے کال کو ’’اللہ نبی وارث‘‘ کردیا جاتا کہ پوٹھو ہاری زبان اور لہجے میں، ’’کَدی تہہ مِل سی ناں‘‘۔ اور بیرونِ ملک کال تو ’’ مکاں سے لامکاں‘‘ والی کیفیت سے دوچار کردیتی تھی۔ اُس کا ’’داروغہ‘‘ انٹر نیشنل گیٹ وے کہلاتا تھا۔ وہی زمانہ تھا کہ پاکستانی، برطانیہ اور خلیجی ریاستوں میں قدم جمارہے تھے۔ یہاں سے کال کرنے والوں کو کال مِلوانے کے لئے اکثر اور مجبوراًآپریٹر سے جھوٹ بھی بولنا پڑتا تھا کہ کسی کا ’’ انتقال‘‘ ہوگیا ہے، اطلاع دینی ہے۔ شروع شروع میں تو آپریٹر غچاّ کھاجاتے لیکن آہستہ آہستہ جان گئے اور کال کرنے والوں کا یہ وار بھی خالی جانے لگا۔آج کی نسل اُس زمانے کی ’’ٹیکنالوجی‘‘ کا تصوّر شاید نہ کرسکے لیکن ایسا ہوتا تھا!
ٹیلی فون کے چکر میں نجم کی بات ادھوری رہ گئی - نجم جو ’’ رضوی‘‘نہ تھا۔ کپڑوں، خاص طور پر کوٹ پتلون کا شوقین__ایسا کہ ایک بار کوئی پتلون یا کوٹ’’ سر یر آرائے بدن‘‘ ہوگیا تو پھراُس کا اُترنا یا اُتارا جانا ’’ کارِدارد‘‘ ہوجاتا۔ کسی تقریب یا دعوت میں جانا ہوتا تو اُس کی تیاری دیدنی ہوتی۔ ہم جُثّہ اور ہم قامت دوستوں کے ’’ملبوساتِ فاخرہ و غیر فاخرہ‘‘ کی شامت آجاتی۔ جس کے کپڑے پہنتا، اُتارنا بھول جاتا۔ رات گئے لوٹتا تو گھر کے بجائے دفترہی کا رخ کرتا۔ جو صوفہ وغیرہ خالی نظر آتا اُس پر گھٹنے ٹھُڈی میں دے، سوجاتا۔ صبح تک کپڑوں کی ایسی کی تیسی پھِرجاتی اور دِنوں تک پھِری رہتی تاآنکہ کپڑے بوُچھوڑنے لگتے۔ مَیں نے کہا ناں کہ میرے کچھ عزیز، کدال اور پھاوڑوں سے لیس، خلیجی ریاستوں میں تیل کے کنویںکھودنے اور بادیہ نشینوں کے خیموں کو پکے مکانوں میں بدلنے کے لئے اُدھر کوچ کرچکے تھے۔ پاکستان ایسے ملکوں سے اُن ریاستوں کو لیبر مِل رہی تھی تو یورپ سے روزمرّہ کی اشیائے صرف۔یوں دونوں خِطّوںکے لئے منڈیاں کھل گئی تھیں۔ اب عزیز رشتہ داروں کو چھٹیوں میں پاکستان لوٹتے وقت کراچی میں ایسے عزیزوں کی ضرورت رہتی تھی جو بقول میری بڑی بہن ’’ کَشٹم کُشٹم‘‘ کرانے، رعایت دِلوانے اور اضافی سامان نکلوانے میں مدد دے سکیں۔ قطر، بحرین، دبئی، ابوظبئی، شارجہ وغیرہ ایسی خلیجی ریاستیں، تیل اور گیس نکلنے کے ساتھ ساتھ اُبھر رہی تھیں اور پس ماندہ ملکوں سے لیبر کو دعوتِ عام دے رہی تھیں۔ ایک عزیز آتے ہوئے میرے لئے سوٹ کاکپڑا لے آئے۔ برطانیہ کا بنا ہوا۔ زندگی میں پہلی بار ’’ اپنے لئے‘‘ ایک ایسے سوٹ پیس پہ ہاتھ پھیر کے دیکھا جس کے شاید ہرگَزپر برقی مشین سے’’مانچسٹر‘‘ کڑھاہوا تھا! اُن دنوں مَیں پی آئی بی ( پیر الٰہی بخش) کالونی میں رہتا تھا۔ جن لوگوں کو بھارت سے پاکستان ہجرت کے بعد اُس کالونی میں کوارٹر الاٹ ہوگئے تھے، انہوں نے ایک ایک دو دو اضافی کمرے بنا کر ’’باہر گائوں‘‘ سے پڑھنے یا کام کاج کے لئے کراچی آنے والے لڑکوں کو کرائے پر دے رکھے تھے۔(تب ہم سب ’’لڑکے‘‘ تھے! یادِ ماضی عذاب ہے یارب!!) ایک کمرے کا کرایہ سو روپے سے کم نہ ہوتا تھا۔ مالک مکان بھی یہ جانتے تھے کہ ایک ایک کمرہ کرائے پر لینا، ہر لڑکے کے بس کا روگ نہیں، لہٰذا اگر ایک ایک کمرہ ’’ کرائے میں شراکت‘‘ کی بنیاد پر تین تین لڑکے لے لیتے تو مالک مکان ’’ بہ رضاورغبت‘‘ چشم پوشی کرجاتے۔ بس انہیں مہینے کے شروع میں وقت پر کرایہ مِل جانے کی ضمانت چاہیے ہوتی تھی۔ ٹوائلٹ اور غسل خانے کوارٹر کے پیچھے والی ’’ پتلی گلی‘‘ میں ہوتے تھے۔ جن کوارٹروں کے کرائے والے کمرے پچھلے حصّے میں ہوتے انہیں تو زیادہ مسئلہ پیش نہ آتا لیکن مجھ سمیت، جن کے کمرے سامنے والی بڑی گلی کے رخ ہوتے، وہ روزانہ ہی صبح سویرے، عجب مخمصے اور گومگو کے پُل صراط سے گزرتے۔ ہاتھ میںلوٹالئے، کوارٹروں کی قطار کے اختتام پہ دوسری گلی میں مُڑ کے پچھلی ’’پتلی گلی‘‘ میں اتنا ہی فاصلہ طے کرکے ٹوائلٹ اور غسل خانے تک پہنچنا۔ پہلے ٹوائلٹ اور پھر غسل خانے والی قطار میں لگنا۔ پچاس برس بعد بھی گردشِ ایام ماضی میں لے جاتی ہے تو سوچ ایک گھُمن گھیری میںجا الجھتی ہے کہ تب واقعی ایسے دن بِتائے تھے؟
ایک تو بہت بُری عادت ہے میری کہ کھُلی راہوں پہ چلتے چلتے پگڈنڈیوں کا رخ کرلیتا ہوں۔ لیکن یہ بھی مجبوری جانئے کہ حالات وواقعات کا بہائو اپنی راہیں خود بناتا ہے۔ پی آئی بی کالونی کے عین آغازمیں جیل کی دیوار کے ساتھ ساتھ کچھ چھپر ٹائپ دکانیں بن چکی تھیں۔اُن میں ایک دکان درزی ( یا ٹیلر ماسٹر!)کی بھی تھی۔ موصوف درزی کم اور ایکٹر زیادہ تھے۔ اداکاری کا اتنا شوق کے ناپ لینے اور سلائی کے دام طے کرنے میں بھی اداکاری اور مکالموں سے باز نہ آتے۔ نام اب ذہن سے نکل گیا۔ شاید’’کُچھ‘‘ اختر تھا۔ باتوں باتوں میں انہیں پتا چلا کہ مَیں اخبار میں کام کرتا ہوں تو سلائی کے 80 روپے میں ’’رعایت‘‘ دیتے ہوئے فوراً 70 روپے کردیئے۔ تین چار قسطوں میں سلائی کے پیسے پورے کیے اور سوٹ اُٹھالا یا۔ لیکن حاشا وکلاّ،وہ سوٹ یا کوٹ پتلون کبھی ایک ساتھ پہننا نصیب نہ ہوا۔کوٹ یا پتلون میں زیادہ تر حصّے داری روشن اختر کرتا۔ نجم نے ، جو ’’رضوی‘‘ نہیں تھا، پتلون کا کیا حشر کیا، اُس کی بات پہلے ہوجائے۔ روشن اختر بعد میں۔ ایک دن حسبِ معمول نجم کو پتلون کی ضرورت آپڑی ۔ وہ کپڑوں کے ساتھ جو’’ سلوک‘‘ کرتا تھا، سب جانتے تھے پھر بھی پتلون اُس کی ’’ نذر‘‘ کردی۔رات جانے کب آیا اور گُچھا مُچا ہو کے دفتر کے ایک صوفے پہ سوگیا۔ صبح تک پتلون رنگ روپ کھوچکی تھی۔ پتلون کا واپس حصول کوئی آسان نہ تھا۔ بہر حال، لی اور ڈرائی کلینر کو دے دی۔ستمبر1967ء میں چین یاتراکے وقت بھی وہ ’’ سوٹِ ممدوحہ‘‘ کسی بے چین روح ہی کے تصّرف میں تھا۔
روشن اختر کا اصل نام بڑا بھاری بھرکم تھا- سیّدعزا دار حسین زیدی -یونیورسٹی میں داخلے کے دن قریب آرہے تھے۔ مَیں اپنے دفتر سے اُٹھ کے پی پی اے کے دفتر میں چلا جاتا۔ ایک دن دیکھا کہ روشن اختر اپنے ٹائپ رائٹر پر کسی خبر سے الجھا ہوا، اور نجم رضوی اُسے زِچ کررہا ہے۔ ’’یار سمجھ نہیں آرہی تو مجھ سے پوچھ لو۔‘‘اور ٹائپ رائٹر کےKey Board پر روشن اخترکا دبائو بڑھ جاتا۔ یہ کیفیت دیکھ کے مَیں نے ’’ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ‘‘ والا کام کیا، ’’ یار عزادار، کئی بار کہا، اپنا نام بدل لو، تم سنتے ہی نہیں۔ داخلے بھی قریب آرہے ہیں۔ وہاں تمہارانام ’’ سیّد عزادار حسین زیدی‘‘ لکھ دیا گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ پھر نام تبدیل بھی تو نہیں کیا جاسکے گا۔‘‘ اِس پہ روشن اختر پھٹ ہی تو پڑا۔ ٹائپ رائٹر ایک طرف پٹخ کے دوچار ٹھیک ٹھاک گالیاں سنائیں اور بولا، ’’ ابے، مَیں خبر میں پھنسا ہوا ہوں اور تمہیں نام کی سوجھ رہی ہے۔ خبر کانام سے کیا تعلق ہے؟’’ نجم رضوی کا ہنس ہنس کے بُرا حال ہورہا تھا۔ ’’ تعلق ہے ناں۔تمہارا نام تبدیل ہوگا تو بھی خبر بنے گی۔‘‘ روشن اختر ٹائپ رائٹر چھوڑ اُٹھ کھڑا ہوا، ’’ چلو ابھی سٹی کورٹ چلتے ہیں۔اسٹامپ پیپر پہ نام تبدیل کرواتے ہیں اور پھر تمہارے ہی اخبارکے عوامی اشتہارات میں دیئے دیتے ہیں۔ چلو۔‘‘ ہم دونوں سٹی کورٹ آئے، ساری کارروائی ہوئی اور جنگ اخبار کے دفتر آکر اشتہار دے دیا۔ تب اشتہار کا ریٹ شاید دو یا تین روپے فی سطرتھا۔ کورٹ وغیرہ کا خرچہ مِلا کے پندرہ بیس روپے خرچ ہوئے ہوں گے۔ یوں ’’ سیّد عزادار حسین زیدی‘‘، روشن اختر بن گیا۔یونیورسٹی بھی اُسی نام سے گیا۔نام تو بدل گیا لیکن ایک عرصے تک یہ مسئلہ بنا رہا کہ کوئی آواز دیتا یا دُور سے پکارتا تو الجھن پیدا ہوجاتی کہ لڑکی کو پکارا گیاہے یا لڑکے کو؟ مجھے تو سال پورا ہونے سے پہلے ہی یونیورسٹی بدرکردیا گیا اور ملک بدری مَیں نے ’’حقِ خود اختیاری‘‘ کے تحت اپنائی۔ مَیں حکومتِ چین کے کہنے پہ چیئرمین مائوزے تونگ کی تحریروں کا اردو میں ترجمہ کررہا تھا تو ہمارے ہاں کے ’’ لوگوں‘‘ کو یہ بات ’’ پسند ‘‘ نہ آئی۔ مجھے یونیورسٹی سے دو سال کے لئے نکال دیا گیا۔ روشن اختر نے یونیورسٹی سے پاس آئوٹ کیا۔ پی پی اے میں رہا۔ پی پی اے کا ایک دو غیر ملکی نیوز ایجنسیوں سے اشتراک ہوا تو وہ پی پی آئی (پاکستان پریس انٹر نیشنل) بن گئی۔ ایک بات اور - پی پی اے یا پی پی آئی والی بے چین’’ روحوں‘‘میں میری، روشن اختر سے زیادہ دوستی تھی۔ روشن خاصا اَنا پسند تھا۔ اُس کے بہنوئی ڈاک کے محکمے میں اعلیٰ عہدے پر تھے۔ غالباً ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جنرل۔ دفتر اُن کا میکلوڈروڈ پر جنگ کے دفاتر کے قریب اور رہائش بھی اُسی سڑک پر۔ جنگ کے سامنے ایک سڑک برنس روڈ کو جاتی ہے۔ جہاں سے یہ سڑک پھوٹتی ہے وہ اُس کے عین نکڑ پہ انگریزوں کے زمانے کے ایک بنگلے میں رہتے تھے۔روشن اِدھر اُدھر مارا مارا پھرتا۔ انہوں نے کئی بار کہا کہ اُن کے ہاں آکے رہے لیکن وہ ٹال جاتا۔ پھر یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور نیوز ایجنسی کی نوکری بھی بھاری پڑنے لگی تو بہنوئی سے کہہ کے ایک سرونٹ کوارٹر لے لیا۔ میرے لئے اور بھی مشکل تھی کہ جنگ، ریڈیو نیوز،یونیورسٹی کے طبلے پہ’’ آڑا چوتا لا‘‘بجانا پڑتا تھا۔ میری ’’کمزوری‘‘ دیکھ کے روشن اختر نے مجھے بھی ’’ ساتھ‘‘ مِلالیااور مَیں پی آئی بی کی ’’حویلیاں‘‘ اور ان کے پسِ دیوار، ’’پتلی گلی‘‘ والے ’’ ٹوائلٹ اور غسل خانے‘‘ تیاگ کے یہاں آگیا۔ تب تک شاید منیر نیازی نے یہ شعر نہیں کہا تھا ۔

اِک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
مَیں ایک دریا کے پار اُترا تو مَیں نے دیکھا

 یہ سرونٹس کوارٹر بھی بڑے دلچسپ تھے۔ جس بنگلے کا مَیں نے ذِکر کیا، اُس کی برنس روڈوالی بیرونی دیوار دُور تک چلی گئی تھی اور ایس ایم لا کالج کے سامنے چورا ہے کے قریب ختم ہوتی تھی۔ اُسے صرف دیوار نہ سمجھیں۔ وہ دراصل بنگلے کے ساتھ بنے دس بارہ سرونٹس کوارٹروں کی بیرونی دیوار تھی۔ ایک پھاٹک سا بناہوا تھا۔ اندر داخل ہوں تو کوارٹروں کا ’’فرنٹ‘‘ دکھائی دیتا تھا۔ درمیان میں کھلا میدان نما صحن اور میدان کے پار’’ مشترکہ ٹوائلٹ‘‘! سرکاری زبان اور فائلوں میں وہ درجہ چہارم کے ملازمین کے کوارٹر تھے یعنی، چپراسی، نائب قاصد وغیرہ (اور ہم!) ہر کوارٹر میں ایک چھوٹا سا کمرہ، ساتھ کھانا وانا پکانے کے لیے تھلّا۔ برائے نام صحن اور پھر دروازہ۔ صبح سویرے اُٹھ کے، لوٹا لیے میدان پار کرکے دوسرے کونے پر ٹوائلٹ جانا پڑتا۔پی آئی بی کالونی والے جھمیلے نے یہاں بھی ساتھ نہ چھوڑا تھا۔ لیکن یہاں جھمیلے سے ’’ فرار‘‘ کا ایک رستہ ہم نے ڈھونڈ نکالا۔ صبح اُٹھتے، 8-Aکی بس پکڑتے، ریگل سینما ( اب وہاں ریگل ٹریڈ اسکوائر ہے)کے ساتھ لگی پتلی سی گلی میں میونسپل کارپوریشن کے ٹوائلٹ میں دس پیسے کا سِکہ دیتے ، ’’ فراغت‘‘ حاصل کرتے،سڑک کے پار ایرانی ڈھابے میں ناشتہ کرتے، تھوڑا پیدل چل کے جہانگیر پارک کے دوسری جانب، پوائنٹ میں سوار یونیورسٹی جا اُترتے۔ یونیورسٹی سے لوٹ کے اپنے اپنے دفتر آتے۔ یوں دن تمام ہوتا-اگلے دن کے انتظار میں!چھ مہینے ہم نے اُس سرونٹ کوارٹر میں گزارے۔
مَیں تو پہلے ہی ملک بدر ہوچکا تھا۔ روشن اختر یونیورسٹی سے ایم اے کے بعد چیکو سلاویکیہ کی نیوز ایجنسی میں ٹریننگ کے لئے پی پی آئی کی طرف سے دوبرس کے لئے پراگ گیا تو لوٹ کے نہ آیا۔وہاں کی ’’پتلی گلی‘‘ سے لندن کو نکل گیا۔ برسوں بعد، غالباً1978ء میں، لندن جانا ہوا تو اُسی کے ہاں ٹھہرا۔ اُسے نہ صرف برطانیہ کی شہریت مِل چکی تھی بلکہ سٹی کونسل نے ایک مکان بھی دے رکھاتھا۔ صحافت وغیرہ سب چھوڑ چھاڑ کسی افریقی سفارت خانے کے اکائونٹس ڈپارٹمنٹ میں کام اور بقول شخصے’’ مجے‘‘ کررہا تھا۔
روشن اختر، دیکھا جائے تو ’’ چیزے دیگری‘‘ تھا۔ کھانے کے معاملے میں کوئی، اور کسی جگہ تکلف نہ برتتا تھا۔ ہمارا دوپہر، جو عموماًسہ پہر کو ہوتی،کے کھانے کا مجمع پی پی آئی کے دفتر میںلگتا تھا۔ روشن اختر آتے ہی ہانک لگاتا، ’’ ہاں بھئی لنگرکھُل گیا؟‘‘ مطلب یہ کہ جو کوئی بھی جو کچھ لاتا یا منگواتا تھا، ایک ہی وقت میں کھُلتا تھا۔ اِس کی تخصیص نہ تھی کہ کون کس کا کھانا کھارہا ہے۔ روزنامہ جنگ کے سامنے دو گلیاں ہیں۔ اُن میں ایک ’’ بیگم گلی‘‘ کہلاتی تھی۔ جس میں ایک ملباری ماما کا ڈھابا ہوا کرتا تھا۔ وہاں میرا کھاتا کھُلا ہوا تھا۔ہر مہینے تنخواہ مِلنے پر مَیں ’’ بھرپائی‘‘ کے لئے جاتا تو ماما کھاتا کھول بیٹھ جاتے کہ اتنے کھانے تمہارے پی پی آئی میں گئے ہیں اور اتنے جنگ میں۔ میرے نام پر روشن اختر مہینہ بھر’’ انڈا گھٹالا‘‘، مکھن کے تڑکے والی دال وغیرہ منگواتا رہتا۔ اور ملباری ماما کا کھاتا چلتا رہتا۔
ہاں یاد آیا، اُس زمانے میں خلیجی ریاستوں میں سوئٹزرلینڈ کی بنی ہوئی رسٹ واچ CAMY کی بڑی دھوم تھی۔ جو کوئی وہاں سے آتا، کیمی(CAMY) کی چمچماتی گھڑی باندھے ہوتا۔ ایک عزیز آئے تو اُن کی کلائی بھی لشکارے ماررہی تھی۔ جھجکتے ہوئے پوچھا تو انہوں نے35 روپے قیمت بتائی۔ تب 35روپے بھی بڑی رقم ہوتے تھے۔ اپنے اُن ہی دوستوں سے دس دس پانچ پانچ روپے ’’چندہ‘‘ کرکے 35روپے میں گھڑی خریدلی۔ اتفاق سے وہ گھڑی نجم رضوی کو بھی اچھی لگی۔ اور اس نے ’’یکمشت‘‘35روپے نکال کے میرے ہاتھ پر رکھ دیئے اور حکم صادر کیا کہ ’’ اب تمہارا کوئی بھی رشتے دار یا غیر رشتے دار آئے، اُس سے ایک گھڑی منگوائو‘‘۔ رشتے دار یا غیر رشتے دار تو عرصے تک ، کوئی نہ آیا، ہاں 35روپے مَیں نے غتر بود کردیئے۔ کئی مہینے گزر گئے۔ پی پی آئی والی بے چین ’’ روحوں‘‘ نے کچھ خفیہ کھُسر پھُسر کی۔ مَیں حسبِ معمول گھڑی والا بازو’’ جھُلاتا‘‘ پی پی آئی کے دفتر میں داخل ہوا توتو… پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔CAMY گھڑی جو چند لمحے پہلے ’’میری‘‘ تھی ، اب نجم رضوی اپنی کلائی پہ باندھے’’پاکستان کا تازہ ترین معیاری وقت‘‘ دیکھ رہا تھا… اور مسکرارہا تھا۔
پی پی آئی میں حسین نقی بھی تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ اُن دنوں احتراماً اُن سے بس سلام دعا ہوتی تھی۔ وہ کراچی کے ایک بڑے طالب علم رہنما اور ایوب خان کے زمانے کے بارہ کراچی بدر طلبا میں شامِل تھے۔ اُن سے بات کرنے کو ہمت نہ پڑتی تھی۔ اور یہ ہمت1970ء میں تب پیدا ہوئی جب مَیں چین سے واپس آچکا تھا، اپریل1970ء میں صحافیوں کی ملک گیر ہڑتال کے نتیجے میں جنگ راولپنڈی سے نکالا جاچکا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کے اخبار ’’ مساوات‘‘ ، لاہورمیں شامِل ہوچکا تھا۔ حسین نقی کو کراچی شاید راس نہ آیا تھا، لہٰذا وہ پی پی آئی ( تب پی پی اے، پی پی آئی کا روپ دھار چکی تھی۔) کے بیورو چیف ہو کر مستقلاً لاہور کو دارالقرار بناچکے تھے۔ اُن کی اہلیہ زہرہ ’’ پنجاب پنچ‘‘ کے نام سے انگریزی ہفت روزہ بھی نکالتی تھیں جس کا کام ظاہر ہے زہرہ اور حسین نقی مِل کر ہی کرتے تھے۔ اخبار میں انہوں نے حبیب جالب کے مشہور مصرع کی رومن ہیڈ لائن 
LARKANY CHALO WARNA THANEY CHALO 
لگا کرسیاسی تھرتھّلی مچائی تھی۔حسین نقی نے تحریک میں بھٹو صاحب کی حمایت کی اور پھر نظریاتی طور پر اُن کی مخالفت میں بھی پیش پیش رہے۔ مَیں نے دو برس لاہور میں گزارے۔ روزنامہ مساوات اور روزنامہ آزاد کی کہانی بہت لمبی ہے۔ یہاں اُس کی جانہیں۔ 1972ء میں مجھے چین سے پھر بلاوا آگیا۔
پی پی آئی میں حسیب الدین تھے اور عموماً ’’ڈین‘‘ کہلاتے تھے۔ سینئر تھے، بڑا ٹہکا تھا اُن کا- برسوں بعد غالباً1985ء میں کراچی پریس کلب میں اُن سے دوبارہ ملاقات رہی۔ دیکھ کے ذہنی اور دلی تکلیف ہوئی کہ کینسر ایسا موذی مرض اُنہیں نچوڑ چکا تھا اور دھیرے دھیرے کھائے جارہا تھا۔ گلے کا کینسر تھا۔ آپریشن ہوچکا تھا کہ دائیں جبڑے تلے خلا بڑا نمایاں تھا۔ جب بھی مِلتے بڑی سے مِلتے۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے، ایک دن دنیاوی سرحدیں پارکر گئے! پی پی آئی کے پرانے دوستوں میں، سجان بھی تھے۔ وہ بعد میںصنعت و تجارت کی فیڈریشن میں سیکریٹری ہوگئے۔ اُن سے بھی لگ بھگ30 برس بعد پاکستان چوک، کراچی میں ملاقات ہوئی۔ اتنے برسوں میں چہرہ ناشنا سا ہوچکا تھا۔ مَیں پیدل جارہا تھا کہ ایک گاڑی قریب آکے رُکی۔ ایک صاحب اُترے اور بڑے تپاک سے مِلے۔ میرے چہرے پہ ناشناسی کی دُھند دیکھ کے ذرا مسکرائے اور بولے، ’ ’مجھے نہیں پہچانا؟ مَیں سجان ہوں۔پی پی آئی والا۔ ‘‘ اب میرے چہرے پر شناسائی کی روشنی سی جھلکی، ’’سجان صاحب آپ تو فیڈریشن میں چلے گئے تھے، کلفٹن میں ۔‘‘ جواب مِلا، ’’ اب بھی وہیں ہوں۔ ترقی ہوچکی ہے۔‘‘ دونوں نے مِلتے رہنے کا وعدہ کیا لیکن بات وہی آجاتی ہے، ’’کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں۔‘‘ برسوںگزرگئے، سجان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ جانے کہاں ہے؟ 
ایک اور دلچسپ دوست تھا اور ہے۔ ضیا شہزاد! اندرونِ شہر کی تنگ گلیوں میں کہیں رہتا تھا۔ ساری ’’ بے چین روحوں‘‘ کی طرح ’’کاروبارِ حیات‘‘کا مارا ہوا۔ ذہن ’’تکنیکی‘‘ تھا۔ قلم کم چلاتا تھا، قلم میں بھرنے والی روشنائی زیادہ بناتا تھا۔ اُن دنوں کسی بیرونی ملک ، شاید برطانیہ یا امریکا سے نیلی روشنائی آتی تھی Qink۔ ضیا شہزاد نے بالکل ویسی ہی شیشی بنوائی یا بوتل گلی سے حاصل کرلی اور DURBAN INK کے نام سے نیلی روشنائی بناکر بیچنے لگا۔ جب تک مَیں پاکستان میں رہا، یہ روشنائی مارکیٹ میں نظر آتی رہی۔ پھر اُس نے شہر سے باہر کوئی نئی بستی بسالی۔ ایک دو ڈائجسٹ نکال کے بند بھی کئے۔غالباً پراپرٹی کاکام بھی کیا۔ پیسہ کمایا اور ُلٹایا بھی۔ شام کو بدھّوگھر لوٹ کے آیا تواپنے آپ کو کسی اخبار کا کامرس رپورٹر پایا۔ آج بھی اخبار میں کام کررہا ہے اور ممکن ہے، کرتا ہی رہے۔
یونیورسٹی میں غلام قادر ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ موسیقی پہ جان دینے والا۔ گِٹار کیا خوب بجاتا تھا۔ ہوسٹل میں رہتا تھا۔ موقع مِلتا تو ہم اُس کے کمرے میں اکٹھے ہوجاتے اوروہ سب کو گِٹار کی ’’دھار ‘‘پہ رکھ لیتا۔ بنگالی تھا۔ ڈھاکا سے آیا تھا۔ مرنج و مرنجاں۔ ہمیشہ خوش باش رہنے والا۔مَیں یہاں سے چلا گیا۔1971ء کے آواخر میں جب سابق مشرقی پاکستان، حال بنگلہ دیش کا سانحہ اُبال پکڑرہا تھا یا کہہ لیں کہ پاکستان شکست و ریخت کا شکار ہونے جارہا تھا، مَیں روزنامہ آزاد ،لاہور کے نیوز روم میں بیٹھا کام کررہا تھا۔ شام بھیگ رہی تھی کہ ایک ساتھی نے آکے کہا کہ کوئی صاحب تم سے مِلنے آئے ہیں۔ انہیں ساتھ والے کیبن میں بٹھادیا ہے۔ مَیں کیبن میں گیا تو ایک صاحب بیٹھے تھے۔ کھُلے اخبار کے پیچھے چہرہ  ُچھپا ہوا۔ آہٹ سُن کے اخبار ہٹایا تو پلکوں پہ آنسوجھِلملارہے تھے- وہ غلام قادر تھا! مَیں نے چائے منگوائی۔ اُس کے بھی حواس کچھ بحال ہوئے تو کہنے لگا۔ ’’برسوںوطن کے اِس حصے میں رہا ہوں۔ کراچی سے نکلا تو سوچا کہ دوسرے شہر بھی ایک بار پھر دیکھ آئوں۔ دوبارہ دیکھ پاوں، نہ پاوں۔مجھے پتا تھا تم یہاں لاہور میں ہو۔ مِلنے چلا آیا۔ مَیں ڈھاکا جارہا ہوں۔ کِس رستے سے جائوں گا، نہیں جانتا۔ میری پلکیں بھی بھیگ گئیں۔ دونوں کی آوازیں بھّرارہی تھیں۔ غلام قادر کچھ دیر رُک کے چلا گیا__اپنا گِٹار بھی لے گیا! برسوں بعد مَیں نے پیکنگ میں شریف الحق دالِم (مشہور و معروف میجر دالِم)سے کہا کہ وہ غلام قادر کا پتا کرکے بتائے۔ اُس نے وعدہ کرلیا۔ پھر2005ء سے وہ بھی ایسا رُوپوش ہوا کہ آج تک ’’ نامعلوم افراد‘‘ میںشامِل ہے۔
سلیم مراد، ہمارا ایک اور دوست تھا یونیورسٹی میں۔ پَرلے درجے کا ٹھرکی۔ وہ میرے ساتھ گورڈن کالج راولپنڈی میں بھی پڑھتا رہا تھا۔ گریجویشن کرکے کراچی آگیا کہ اس کے ابّا اور باقی سارے رشتے دار یہیں رہتے تھے۔ ابّا کی بندر روڈ ( ایم اے جناح روڈ) پر جوتوں کی دکان تھی۔ سلیم مراد کی Beatبھی کا مرس تھی اور وہ برسوں انگریزی اخبار مارننگ نیوز کے لئے رپورٹنگ کرتا رہا۔ پھر ایسے مرض نے آلیا جو اُسے وہیل چیئر کی نذر کرگیا۔ دو برس ہوتے ہیں، وہ بھی ہمیں چھوڑ کے چل دیا۔
نجم رضوی نے یونیورسٹی سے ایم اے کیا تو مَیں پاکستان میں تھا ہی نہیں۔ اُس نے کچھ عرصہ نیوز ایجنسی وغیرہ میں کام کیااور پھر وزارتِ اطلاعات میں چلا گیا۔ 1970ء میں ابھی صحافیوں کی ملک گیر ہڑتال نہیں ہوئی تھی۔ ایک دن اسلام آباد میں اُس سے ملاقات ہوگئی۔ اُس نے بتایا کہ راولپنڈی میں سید پور روڈ پہ رہتا ہے، کرائے کے مکان میں ۔ مَیں دیے ہوئے پتے پہ پہنچا تو اندازہ ہوا کہ وہ میرے پرانے گھر سے شاید چند سوگز کے فاصلے پہ رہتا تھا۔ اسکول کے زمانے میں تو وہ گلی میرا روزکا رستہ تھی۔ کونے کا مکان۔ دائیں ہاتھ چلیں تو مائی ویرو کی بنّی ، بائیںہاتھ بڑھیں تو اصغر مال چوک جہاں سے سڑکیں سید پور روڈ اور اصغر مال روڈ کے نام اختیار کرلیتیں۔ہماری راہیں پھر جدا ہوگئیں۔ وہ وزارتِ اطلاعات کے افسر کی حیثیت سے شہرشہر گھومتا رہا اور مَیں صحافیوں کی ہڑتال میں اخبار سے نکالے جانے کے بعد لاہور چلا گیا۔ غالباً1972ء کی بات ہے۔ مجھے چین سے پھر بلاوا آیا تو پاسپورٹ اپنی میعاد ’’پوری‘‘ کرچکا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ، خان عبدالقیوم خان کے ’’ تعاون کے عوض‘‘ وزارتِ داخلہ اُن کے حوالے کردی تھی۔ پاسپورٹ کی تجدید یا نئے پاسپورٹ کا حصول- الامان- نئی وزارت نے اِتنے نئے سرخ فیتے اور نئے قواعد و ضوابط مسلط کردیئے تھے کہ ضرورت مند اُدھر کا رخ ہی نہ کرے۔ لاہور، راولپنڈی اور اسلام آبادکے پھیرے لگاتے لگاتے جوتے گھِس گئے۔ ایک دن اِسی طرح گھَن چکر بنا اسلام آباد سیکریٹریٹ میں وزارتِ داخلہ کے دفاتر میں جانے کے لئے لفٹ کا انتظار کررہا تھا۔ لفٹ کا دروازہ کھُلا تو دیکھا کہ نجم رضوی اور اُس کے ساتھ محمد حسیِن خاں صاحب باہر نکل رہے ہیں۔ حسیِن خاں صاحب یونیورسٹی میں ہمارے استاد تھے اور مجھ سے پرچہ انہوں نے ہی ’’ لیا‘‘ تھا۔ کراچی یونیورسٹی کا ریکارڈ، کوئی آج بھی جاکے چیک کرے تو میرے پرچے پر حسیِن خاں صاحب کے ہاتھ کا نوٹ لکھا مِلے گا کہ ’’ نقل کرتے ہوئے پکڑا گیا۔‘‘ جب کہ وہ خود بھی جانتے تھے کہ اُن کے اُس نوٹ کے پیچھے انٹیلی جینس رپورٹیں تھیں جن کا تعلق چینی قونصلیٹ، کراچی میں میری آمدو رفت سے تھا۔ یادش بخیر، اُن دنوں ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب کراچی یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت کے سے تعلق تھا۔ ابھی مجھے دو سال کے لئے یونیورسٹی بدر نہیں کیا گیا تھا۔ ایک دن مَیں نے انہیں کہہ دیا کہ ’’ سر میرے خلاف نا مناسب کارروائی کی گئی ہے‘‘، تو انہوں نے جواب دیا، ’’ جو فیصلہ ہوچکا، وہ تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ 
ہم واپس اسلام آباد سیکریٹریٹ کی لفٹ تک آتے ہیں۔ حسیِن خاں صاحب شاید دو تین مہینے بعد ہی یونیورسٹی چھوڑ کے وزارت ِ اقتصادی امور میں چلے گئے اور اُن کی پوسٹنگ اسلام آباد میں ہوگئی۔ لفٹ سے نکلے تو اس واقعے کو کئی برس بیت چکے تھے۔ حسیِن خاں صاحب، مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے، ’’رشید بٹ تمہاری جوبے توقیری ہم لوگوں نے کی ، اُس کا مداوا چینیوں نے کردیا کہ عزت کے ساتھ تمہیں پیکنگ لے گئے۔ مَیں نے جو کچھ کیا، وہ بہر حال، مجھے کہا گیا تھا۔‘‘ حسیِن خاں صاحب، اب ہم میں نہیں۔اللہ اُن کی مغفرت کرے۔ نجم رضوی نے ڈیپوٹیشن پہ حسیِن خان صاحب کے ساتھ کام بھی کیا ، لیکن جہاں تک مَیں جان پایا، انہوں نے نجم رضوی سے کبھی اِس ضمن میں بات نہ کی تھی۔ یہ اُن کا بڑا پن تھا ۔
غلام قادر کی طرح ہمارے جاننے والوں میں ایک اور کُشتۂ مشرقی پاکستان تھے- ایم جے زاہدی-ایم جے زاہدی کو اُن کے پورے نام محبوب جمال زاہدی کے حوالے سے بہت کم لوگ جانتے تھے کہ ایم جے زاہدی ہی اُن کا ’’ نام‘‘ تھا۔ بہت سینئر صحافی تھے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے شملہ اور لاہور سے انگریزی اخبار ’’ سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ شائع ہوتا تھاجسے پیارسے لوگ CMG بھی کہتے تھے۔ آغاز1872ء میں ہواتھا۔ اُس اخبار کے ساتھ بہت سے ’’رومان اور افسانے ‘‘ وابستہ تھے۔ ممتاز انگریزکہانی کار اور شاعررڈیارڈکِپلینگ بھی کچھ عرصہ اخبار کے لاہور ایڈیشن سے وابستہ رہے۔ دفتر کے جس کمرے میں وہ بیٹھتے تھے،انتظامیہ نے اُس کے دروازے پر ایک یادگاری تختی لگادی تھی۔ وقت وقت کی بات ہے،عروج کو زوال بھی دیکھنا ہوتا ہے! اخبار کا شملہ ایڈیشن غالباً پہلے بند ہوچکا تھا۔ لاہور ایڈیشن پر بھی نزع طاری ہوا تو وقت کا کباڑ یا ’’ یادگاری تختی‘‘ بھی سمیٹ کے لے گیا۔ جن دنوں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے چراغ کی لَودھیمی ہورہی تھی، اُس کی آخری ’’ بھڑک‘‘ کراچی میں دیکھی گئی ۔ شملہ ایڈیشن 1949ء میں بند ہوا تو کراچی سے اشاعت کا ڈَول ڈالا گیا لیکن وہ چار برس بعد ہی 1953ء میں بند ہوگیا۔ لاہور ایڈیشن سِسک رہا تھا۔ ایم جے زاہدی نے ڈھاکا کے ’’پاکستان آبزرور‘‘ سے صحافت کا آغاز کیا تھا۔ وہاں کئی اخباروں اور کولمبوپلان جرنلزم اسکالر کے طور پر آسٹریلیا کے اخبارات میں کام کرنے کے بعد وہ 1960ء میں ڈھاکا سے لاہور آئے اور پاکستان ٹائمز کے ادارتی عملے میں شامِل ہوگئے۔ اُن دنوں ممتازشاعر فیض احمد فیضؔ اُس کے ایڈیٹر تھے۔ ایوب خان کا دور تھا۔ پاکستان ٹائمز پر ’’سرکاری چھاپے‘‘ کے نتیجے میں وہ نیشنل پریس ٹرسٹ کے سیلاب میں ڈوبا تو ایم جے زاہدی سول اینڈ ملٹری گزٹ میں چلے گئے۔ لیکن چار ماہ بعد ہی1963ء میں سول اینڈ ملٹری گزٹ بندہوگیا۔ یوں ایم جے زاہدی سول اینڈ ملٹری گزٹ کے آخری دنوں کے آخری ساتھی بنے۔ پھر وہ انگریزی اخبار روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کے بلاوے پر ڈان، کراچی میں آئے تو یہیں کے ہورہے۔ایم جے زاہدی میں ادب کے جراثیم بھی تھے۔ قدرت اللہ شہاب نے ادیبوں اور صحافیوں کو پاکستان رائٹرزگلڈ کے پَروں تلے لیا تو 1970ء میں زاہدی صاحب گلڈ کے سیکریٹری جنرل منتخب ہوگئے۔اُن کا ذہنی اور فکری جھکائو بائیں بازو کی طرف تھا، لہٰذا قیدو بند کی صعوبتیں بھی اُن کے حصّے میں آئیں۔ اُن کی پہلی گرفتاری 7اکتوبر 1958ء کو ، ایوب خان کے مارشل لا، کے ساتھ، ڈھاکا میں عمل میں آئی تھی۔
محبوب جمال زاہدی، سراپا پاکستان تھے۔ آج صحافت کے پیشے سے وابستہ نسل ایم جے زاہدی ہی کیا، بہت سے پرانے صحافیوںسے بھی ناواقف ہے۔ زاہدی بنگالی تھے لیکن کراچی ہی میں رچ بس گئے تھے۔1971ء میں ’’سقوطِ ڈھاکا‘‘ کا پہاڑٹوٹا تو ایم جے زاہدی کو کِرچی کِرچی کرگیا۔ وہ ٹوٹ پھوٹ گئے لیکن اپنی ایک دھرتی کی جگہ، اپنی ہی دوسری دھرتی نہ اپنانے کا اعصاب شکن فیصلہ کرگزرے۔ اُن ہی دنوں کی بات ہے ،ریڈیو پیکنگ کو بنگالی شعبے کے لئے مترجم کی ضرورت تھی۔ ممتاز ادیب شوکت صدیقی مرحوم کے توسط سے ، جن کے چینیوں سے قریبی تعلقات تھے، ایم جے زاہدی پیکنگ چلے گئے۔ میرے، اُن سے رائٹرز گلڈ اور پھر اخباری دنیا کے حوالے سے تعلقات تو تھے لیکن قریبی ساتھ بلکہ قربت کا آغاز اُس وقت ہوا جب چینیوں نے 1972ء میں مجھے دوسری بار پیکنگ بلایا۔ میری آمدنی کا اچھا خاصا حصّہ پرانا کلاسیکی میوزک جمع کرنے میں خرچ ہوجاتا تھا۔ پیکنگ میں ایم جے زاہدی کا ایک نیا روپ سامنے آیا۔بنگالی ہونے کے ناتے موسیقی اُن کی ُگھٹی میں پڑی تھی۔ اُن کے پاس ریکارڈوںاور اسپول ٹیپس(Spool Tapes) کی صورت میں موسیقی کا نایاب خزانہ تھا۔ وہ خزانہ جتنا نایاب تھا، اتنے ہی وہ اُس کا کوئی ’’حصّہ‘‘ کسی اور کو دینے کے معاملے میں ’’کنجوس‘‘ تھے۔ مجھے اُن سے وہ موسیقی( ریکارڈنگ) حاصل کرنے کے حوالے سے ’’ پتھر کوموم‘‘کرنے میں خاصا وقت لگا، وہ بھی اِس شرط پہ کہ وہ کوئی ریکارڈ یا اسپول مجھے دیں گے نہیں بلکہ مَیں اُن کے ہاں جاکے ریکارڈ کروں گا۔ اُن کی رہائش خاصی دُور تھی۔ ایم جے زاہدی دو سال پیکنگ میں رہ کے کراچی لوٹ آئے اور یہاں سے ’’ خلیج ٹائمز‘‘ میں چلے گئے، جہاں نجم رضوی بھی اُن سے جامِلے۔ نجم رضوی پاکستان میں وزارتِ اطلاعات کی نوکری چھوڑ کے، ’’خلیج ٹائمز‘‘ پہنچے تھے۔ محبوب جمال زاہدی برسوں بعد کراچی لوٹے ،کچھ دن ڈان سے منسلک رہے اورپھر کئی برس کی ’’خاموشی‘‘ اور علالت کے بعد یہیں مٹی کے ساتھ مٹی ہوگئے__’’بنگلہ دیش‘‘ نہ گئے!
ایک یاد ختم نہیں ہوپاتی کہ دوسری اُمڈی چلی آتی ہے۔ ہم دونوں کے بہت سے مشترکہ دوست اور کلاس فیلو تھے۔ ایک کا نام تھا قاضی انتظار الدین احمد یا انتظار الدین احمد قاضی۔ جب ، جیسا جی چاہتا لکھ دیتا اورتعارف بھی کروادیتا۔ نام جتنا لمبا، قد اتنا ہی منحنی سا۔ جانے کب، کیسے، کس نے اُسے ’’ ٹوئیاں‘‘ کا نام دے دیا۔ شاید ’’ قبولیّت‘‘ کا وقت تھا۔ نام ایسا چپکا کہ چھڑائے نہ  ُچھٹا۔ ایک بات ہے۔ قاضی انتظار دوستوں پہ نثار ہونے کو ہر لمحہ تیار رہتا تھا، تو اُس کے غصّے کی بھی کوئی حد نہ تھی۔ پل میں تولہ، پل میں ماشہ۔ ہمارے ایک دوست مارننگ نیوز میں کام کرتے تھے۔ نام تھا اُن کا فرید اللہ حسینی، لیکن کہلاتے صرف ’’اُللہ‘‘ تھے۔ کسی نے بہت عزت و احترام سے مخاطب کرنا ہوتا تو ’’ اُللہ‘‘سے پہلے مسٹر یا آخر میں صاحب لگادیتا۔ قاضی انتظار ایک روز میرے پرچے ماہنامہ ’’ شوٹائم‘‘ میں بیٹھا اپنے مضمون کے بارے میں کچھ بتارہا تھا۔ یہ بتادوں کہ وہ پرچے میں ستاروں کا حال لکھا کرتا تھا۔ ستارہ شناسی میں دَرک رکھتا تھا۔ پہلے پہل اپنا ماہانہ منصوبۂ ستارہ نویسی یا ستارہ شناسی لے کے آیا تو مَیں نے شامتِ اعمال علامّہ اقبال کا ایک شعر سنا دیا:

ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخیٔ افلاک میں ہے خواروزبوں

بس تپ ہی تو گیا۔ بڑی مشکل سے ٹھنڈا کیا۔ اور اسے کھُلی چھوٹ دے دی کہ جو چاہے، جس کے ستاروں کے بارے میں چاہے، لکھے، اُن میں خوُرد بُرد کرے، اُن کا حشر نشر کرے۔اب کھنڈت یہ آن پڑی کہ اُس کی ’’جناتی‘‘ تحریر کو زبان و بیان کی حدودو قیودمیں لانا، جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ مَیں نے ’’ اُللہ‘‘ سے کہا کہ ’’ یار ذرا دیکھ لو۔‘‘ قاضی انتظار نے اپنے ’’بستے‘‘ سے جہازی سائزکا پلندہ نکال میرے سامنے رکھ دیا اور مَیں نے ’’ اُللہ‘‘ کی طرف بڑھا دیا۔ اِس ’’تنبیہہ‘‘ کے ساتھ کہ قاضی انتظار یونیورسٹی میں میرے کلاس فیلو تھے، لہٰذا کام ذمّہ داری سے کرے۔ مَیں جو بار بارقاضی انتظار، قاضی انتظار کررہا تھا تو صرف اِس وجہ سے کہ وہ سامنے بیٹھا تھا۔’’ٹوئیاں‘‘ وہ صیغہ واحد غائب میں تھا۔ سامنے کہہ دینے کا مطلب اپنا ہی زبانی تیاپا نچا کرانے کے مترادف تھا۔قاضی انتظار کسی کے ستاروں کا دھڑن تختہ کررہا تھا کہ ’’ اُللہ‘‘ نے بات جھپٹ لی اور قاضی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’بٹ صاحب، ایسے ایسے آپ کے کتنے کلاس فیلواور تھے؟‘‘ ساتھ ہی اُس نے قلم کا غذ سنبھالے اور دھڑ دھڑ سیڑھیاں اُترتا بھاگ لیا۔ اب قاضی انتظار کو کون سنبھالے؟ بڑی مشکل سے قابو میں آیا اور جاتے جاتے دھمکی دے گیا کہ اگلے روز وہ مارننگ نیوز کے دفتر میں جاکر ’’ اُللہ‘‘ کی پٹائی کرے گا۔ یہ ذہن میں رہے کہ ’’ اُللہ‘‘ اُس سے قد میں ڈیوڑھا اور جُثے میں بھی اُتنا ہی تھا۔ اگلے روزپتا چلا کہ قاضی واقعی دوپہر میں مارننگ نیوز کے دفتر پہنچا اور شام تک ’’ اُللہ‘‘ کا انتظار کرتا رہا تاکہ اُس کی ’’  ُٹھکائی‘‘ کرسکے۔ ’’اُللہ‘‘ نے بہر حال اتنی عقل مندی سے کام لیا کہ اُس روز دفتر ہی نہ گیا۔
قاضی انتظار، کچھ بھی ہو، دوستوں کا دوست تھا۔ اُس کے ابّاریلوے میں گارڈ تھے۔ برسوں پہلے جب ہم ابھی یونیورسٹی میں تھے، مجھے کسی کام سے راولپنڈی جانا پڑ گیا۔ قاضی کو معلوم ہوا توکہنے لگا کہ یوں ہی پیسے خرچ کرو گے۔ مَیں ابّا سے کہتا ہوں، وہ لے جائیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا جس روز انہیں راولپنڈی تک گاڑی لے جانا تھی، مجھے ساتھ لے لیا، سارا سفر ریلوے کی ڈائننگ کار میں کرایا کہ اُن دنوں پاکستان ریلوے ابھی ’’ نارتھ ویسٹرن ریلوے‘‘ تھی۔ ڈیڑھ دن رات کا سفر۔ نہ کھانے پر کچھ خرچ ہونے دیا نہ ٹکٹ پر، کہ ڈائننگ کار والوں کے لئے مَیں گارڈ صاحب کا ’’پاسنجر‘‘تھا! مَیں تو ملک چھوڑ گیا۔ اُسے پاکستان منرل ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں اچھی نوکری مِل گئی۔ کچھ دنوں بعد راولپنڈی ٹرانسفر ہوا تو نوکری سے استعفیٰ دے دیا کہ کراچی چھوڑ کے جانا مقصود نہ تھا۔اُسی دوران پان میں نہ جانے کیا کیاڈال کے کھانے کی جولت لگی تو جان کے ساتھ ہی  ُچھوٹی۔ شو ٹائم 1992ء تک چلا اور آخری شمارے تک قاضی انتظار ’’ستاروں کا حال‘‘ لکھتا اور انہیں خواروزبوںکرتارہا__ اور پھر خودبھی ستاروںکی اور چل دیا۔
نجم رضوی نے شوٹائم میں کافی دن دبئی کی ڈائری بھی لکھی۔
نجم رضوی کی بات ہو، 1966ء کا زمانہ اور شہر یار جلیس کا ذِکر نہ آئے،ممکن نہیں۔ شہریار جلیس معروف ادیب اور کالم نگار ابراہیم جلیس کا بیٹا ہے۔ گپ اڑانے کا ’’فن‘‘ ورثے میں پایا۔لیکن شرارت یا شرارتیں ’’ طبع زاد‘‘ کہ اُن کے لئے عمر کی کوئی حد یا قید نہیں۔ ِتھگلی لگانے میں بے بدل۔بات سے بات نکل آئی۔ اتنے برس بیت گئے، آج تک طے نہیں ہوپایا کہ ابراہیم جلیس صاحب نے اُس کا نام کاظم جلیس رکھا تھا یا شہریار جلیس؟ یونیورسٹی میں اُس کے داخلے پر نام کاظم جلیس ہی سننے کو مِلا۔ پھر کاظم جانے کِن دھند لکوں میں کھو گیا۔ صرف شہریار جلیس رہ گیااور وہ آج بھی شہریار ہے۔اخبارنویسی سے آغاز کیا۔ امریکا چلا گیا۔ لوٹ آیا اور آج ایک بڑی انشورنس کمپنی میں اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ مگر اِس طرح کہ امریکا کا کمبل اُسے نہیں چھوڑتا ۔ سال میں چارچھ مہینے وہاں رہتا ہے۔ وقت مِل جائے تو پاکستان آجاتا ہے۔ بالکل پاکستانی حکمرانوں کی طرح۔ یونیورسٹی کے زمانے کی بات ہے۔ پروفیسر شریف المجاہد صاحب کا پیریڈ تھا۔ اچانک ایک ڈیسک پہ کچھ کھٹرپٹر ہوئی۔دیکھا تو شہریار جلیس، دروازے کی سمت جانے کے بجائے، کھڑکی سے کود کے ’’ بھاگ‘‘ نکلا۔ شریف المجاہد صاحب لیکچر چھوڑ، اُس کے پیچھے لپکے۔ شہریار جلیس، لَم تڑنگا، لمبے لمبے ڈگ بھرتا، ایک بس میں سوار ہوگیا۔ مجاہد صاحب گویا چنگاریاں چھوڑنے لگے۔ اپنی کار میں سوار ہوئے اور بس کا پیچھا کرتے نیپا کے اسٹاپ پر اُسے جالیا۔ بس، اسٹاپ پر رُکی ہوئی تھی۔ مجاہد صاحب کار سے اُتر کے بس میں گھُسے، شہریار کو ُگدّی سے دبوچا، اپنی کار میں بٹھایا، شعبۂ صحافت (تب شعبے کانام یہی تھا) کے دروازے پہ گاڑی روکی، شہریار کو دوبارہ ُگدّی سے دبوچااور گاڑی سے باہر لے آئے۔تب تک پیریڈ ختم ہوچکا تھا اور سب برآمدے میں کھڑے تھے۔ نیپا بس اسٹاپ پہ لوگوں نے حیران نظروں سے دیکھا کہ میانے قد کے ایک صاحب، اپنے سے کہیں لمبے نوجوان کو ُگدّی سے دبوچے بس سے اُتر رہے ہیں۔اُن میں سے کسی کو پتا نہ تھا کہ ایک شاگرد ہے اور دوسرا استاد۔ علم کے ساتھ ساتھ   ّمحبتیں بانٹنے والا استاد! لوگ تو بس ہکّا بکّا سے تکے جارہے تھے کہ ایک لَم تڑنگا نوجوان، ’’بڑے ادب سے‘‘  ُگدّی دبوائے، سرجھکائے چلا جارہا ہے۔ اس واقعے کو اِتنی شہرت مِلی کہ لگ بھگ پچاس برس ہونے کو آئے، آج بھی کراچی یونیورسٹی کے برآمدوں میں اُس کی بازگشت سنائی دے جاتی ہے۔ کوئی پوچھے کہ ہوا کیا تو بات کچھ نہ تھی۔ بس معصوم سی شرارت کا ایک انداز تھا۔ یہ بیتے، اچھے زمانوں کا ذکر ہے۔ آج کل کی طرح نہیں کہ کوئی بات خلافِ مزاج ہوئی تو کلاس روم ہی میں ’’طمنچہ‘‘ نکال لیا۔
اساتذہ کی بات آگئی تویادنگر کا اِک نیادروا ہوگیا۔ مولانا سیّدحسن ریاض صاحب، پروفیسر شریف المجاہدصاحب، زکریا ساجد صاحب، انعام الرحمن صاحب، سعید احمد صاحب، محمد حسیِن خان صاحب کیسے کیسے استاد ہمیں نصیب ہوئے۔ مولاناسیّد حسن ریاض سراپا تحریک ِ پاکستان تھے۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں عملی حصّہ لیا۔ تحریکِ پاکستان کے موّرخ تھے۔ اُن کی کتاب، ’’ پاکستان ناگزیر تھا‘‘، اِس کا ثبوت ہے۔ وہ کسی شاگرد سے خوش ہوتے تو اُسے تحریکِ پاکستان پر مقالہ لکھنے کو کہہ دیتے تھے۔ مجھ سے بھی انہوں نے ایسا ہی ایک مقالہ لکھوایا تھا۔ زکریا ساجد صاحب! مَیں جب جب چین سے پاکستان واپس آتا، یہی مشورہ دیتے کہ تمہاری’’یونیورسٹی بدری‘‘ ختم ہوگئی، دوبارہ داخلہ لے لو اور مَیں مسکرادیتا۔ حال ہی میں انہیں تمغۂ امتیاز مِلا تو اُن کے ’’عشروں پہ پھیلے‘‘ شاگردوں نے کراچی پریس کلب میں تقریب ِ اعزازکا اہتمام کیا۔ اظہارِ خیال کے لئے مجھے پکارا گیا توکھچاکھچ بھرے ابراہیم جلیس ہال میں زکریا ساجد صاحب کا کوئی ایسا شاگرد نظرنہ آیا جو مجھ سے سینئر ہوتا۔ یہ میرے لئے افتخار کی بات تھی اور مَیں ابھی اپنی ’’بزرگی بگھار‘‘ رہاتھا کہ محترم نثار احمد زبیری نے میری ساری پھونک نکال دی۔ نثار احمد زبیری کے بال مجھ سے زیادہ سفید تھے۔ وہ زکریا ساجد صاحب کی شاگردی میں مجھ سے سینئر تھے۔ بات یہ بھی چلی کہ ساجد صاحب کے شاگردپاکستان ہی میں نہیں، دنیا کے جانے کون کون سے گوشوں میں بِکھرے ہوئے تھے۔
ساجد صاحب کی بینائی بالکل جواب دے چکی ہے، لہٰذا ہر وقت سیاہ چشمہ لگائے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کھیل بھی بڑے نیارے ہیں۔ ایک نعمت واپس لیتا ہے تو دوسری بڑھا دیتا ہے۔ مَیں پریس کلب پہنچا تو لان ہی میں کرسی پہ بیٹھے تھے۔ نئے پرانے شاگردوں، اور انہوں نے بھی جوشاگرد نہ تھے،   ّمحبتوں کے مارے تھے، گھیرا ڈال رکھا تھا۔ وہ مجھے اور میرے سفید بالوں کو دیکھ کے راہ چھوڑتے گئے۔ مَیں قریب پہنچ کے ذرا جھکا اور ابھی ’’مَیں…‘‘ کہا ہی تھا کہ کرسی سے اُٹھنے کی ناکام کوشش کی۔ ایک طرف سے مَیں نے اور دوسری جانب سے توصیف احمد خاں نے سہارا دے کر اُٹھایا تو یہ کہتے ہوئے مجھے گلے لگالیا، ’’ ارے تم تو میرے مائوزے تونگ ہو‘‘۔ اپنائیت کااِس سے زیادہ بار مَیں اُٹھانہ سکتا تھا۔ پلکیںبھیگ گئیں، یہ سوچتے ہوئے کہ، خدایا، ایسے استاد بھی ہوتے ہیں!
زکریا ساجد صاحب نے اپنے شاگردوں کی طرف سے عقیدتوں،   ّمحبتوں اورستائشوں کے ڈونگرے برستے دیکھے بلکہ سُنے تو بات بات پہ کہنے لگے، ’’ زیادہ جھوٹ نہ بولو۔ میری تعریف کرکرکے ، تم لوگ مجھے کہیں کا نہ چھوڑو گے۔‘‘ پھر جب اُن کے بولنے کی باری آئی تو کہنے لگے، ’’دیکھو، مَیں نے تم سب لوگوں کے لئے جو کچھ کیا وہ کوئی احسان تھا، نہ ہے۔ یہ تو میری فطرت ہے جو قدرت نے مجھے ودیعت کی ہے۔ میری اپنی کئی گزری پیڑھیوں کا طور طریقہ ہی تبلیغ رہا ہے۔ مَیں نے تم لوگوں کو جو کچھ علم کی صورت میں دیا، اُسے تبلیغ ہی جانا اور تم بھی اُسے یہی سمجھو۔ ابلاغ اِسی کا دوسرا نام ہے۔ تمہارے بعد جونوجوان آئے اور آئیں گے، جب تک سانس ہے، اُن سے بھی ایسا ہی ساتھ رہے گا۔ تم لوگوں میں سے اب بہت سوں کے تو بال بھی چاندی ہوچکے۔ جو کچھ تم سب نے میرے بارے میں کہا، اُسے مَیں اپنی تبلیغ کا معاوضہ سمجھ لوں تو بھی غلط نہ ہوگا۔‘‘ وہ بولے جارہے تھے اور آواز بھرّاتی جارہی تھی۔ پلکوں پہ آنسو بھی ہوں گے جنہیں شاید کالے چشمے نے  ُچھپا رکھا تھا۔ اب بھی حال احوال پوچھنے کے لئے کبھی فون کرتا ہوں تو اُن کے لہجے سے یہی لگتا ہے کہ بس چلے تو اُڑکے مِلنے آجائیں گے یا اپنے پاس بلالیں گے۔ مجھے آنے کا کہتے ہیں تو معذرت کردیتا ہوں کہ ’’ سَر یونیورسٹی تک کا’ لمبا سفر‘میرے بس میں نہیں رہا کہ اپنی بڑھاپے کی بیماری کے سبب زیادہ دیر باہر نہیں رہ سکتا۔ ہر پندرہ منٹ بعد واش روم جانا مجبوری بن جاتا ہے۔ یہی کیفیت شاید اُن کی بھی ہے۔ اللہ انہیں سلامت رکھے۔ اپنے شاگردوں بلکہ ہم جیسے ’’ بوڑھے شاگردوں‘‘ کے لئے بھی وہ روشنی اور حوصلے کا مینار ہیں۔
اور اِس کے ساتھ پروفیسر شریف المجاہد ایک بار پھر یادوں کے دوارے آنکلتے ہیں۔ اِس عمر میں بھی اُن کی یاد داشت بلا کی ہے۔ اُن سے برسوں ملاقات نہ ہو۔ جب ہو تو پہچاننے میں ایک لمحہ نہ لگائیںگے۔ مَیں1967ء میں پاکستان سے نکلا۔ برس ہا برس، شیخ سعدی کے انداز میں مسافتوں کی خواریاں جھَیلیں۔ وہ بھی دنیا کو مسلسل گول کرتے رہے، عالمی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے، کیفیت وہی رہی جومیرے اور نجم رضوی کے حوالے سے تھی کہ ’’ اپنے اپنے مقام پر کبھی ہم نہیں، کبھی تم نہیں‘‘۔ لگ بھگ 26برس بعد1991ء میں ، یہیں کراچی ہی کی ایک تقریب میں آمنا سامنا ہوا۔ لمحے بھر کو مجھے دیکھا اور پھر جس اپنائیت سے’’رشید‘‘ پکارا، وہ آ ج مزید کم و بیش 25برس بعد بھی دل کو بَلیّوں اُچھال کے رکھ دیتا ہے۔ اُن کی مدراسی لہجے میں اردو کی مِٹھاس کا عالم ہی کچھ اور ہے۔ یوں تومَیں بھی کشمیر کے پہاڑی لہجے میںاُردو بولتا ہوں لیکن شریف المجاہد صاحب کی سی بات کہاں؟ وہ بھی اپنے شاگردوں کو شاگرد کم اور دوست زیادہ مانتے ہیں۔ شاگردوں کی مالی مدد کرنا، اُس رقم کی واپسی کی تاکید کرنا اور پھر خود ہی بھول جانا، کبھی واپسی کاتقاضا نہ کرنا۔وہ عمر بھر اِسی دائرے میں گھومتے رہے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے۔ 1966ء میں، کراچی یونیورسٹی میں ہمارے شعبۂ صحافت کے پہلے سال کے امتحان ہونے والے تھے۔ (پہلے کہیں کہہ چکا ہوں کہ اُس امتحان میں مجھے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا تھا۔) تب امتحانی داخلہ فیس سو روپے کے لگ بھگ تھی۔ پیسے نہ میرے پاس تھے، نہ روشن اختر کے پاس۔ ایک دن ہم دونوں شریف المجاہد صاحب کے گھر چلے گئے۔ اس وقت وہ پاپوش نگر میں عباسی ہسپتال کے سامنے والی گلی کے سرکاری کوارٹروں میں رہتے تھے۔ ( شاید اب بھی وہیں رہتے ہیں۔ دَرویش صِفَتی شاید اِسی کو کہتے ہیں!) انہوں نے چائے والے پلوائی اور پھر آنے کا سبب پوچھا۔ ہم نے آئیں بائیں شائیں کرنے کے بجائے اصل صورتِ حال بتادی۔ انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دوسو روپے نکال کے ہمیں دیئے اور کہا، میرے پاس یہی پیسے ہیں۔ لوٹا ضرور دینا__پھر وہ بھول گئے اور ہمیں بھی ’’یاد‘‘ نہ رہا۔ آج پچاس برس ہو چکے۔ دونوں بلکہ تینوں فریق ’’ بھُولے‘‘ ہوئے ہیں۔
جب سے انٹر نیٹ کا دَور آیا ہے، کمپیوٹرائزڈ’’ فراڈ‘‘ بھی بڑھ گئے ہیں۔ ماہر ہیکر (Hackers) کسی کے بھی ای میل کے پتوں کی لسٹ چوری کرتے ہیں، اُس کے کسی ای میل والے دوست کے نام سے کہ ’’مَیں فلاں ملک میں لُٹ گیا، میری مدد کریں۔ ’’قسم کی ‘‘ دل سوز‘‘ ای میل ڈرافٹ کرتے ہیں اور سارے پتوں پر بھیج دیتے ہیں۔ کوئی معلومات کرتا ہے، کوئی نہیں کرتا اور دوست کو مشکل سے نکالنے کی خاطر ہیکر کے دیئے ہوئے پتے پر کچھ نہ کچھ ’’ امدادی رقم‘‘ یہ سوچ کر بھیج دیتا ہے کہ دوست مشکل سے نکل آئے۔ ستم ظریفی جانئے کہ دوست کے فرشتوں کو بھی اس ساری کارروائی کی خبر نہیں ہوتی اور ہیکرکے اکائونٹ میںمال آجاتا ہے۔ لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے یا جُرم اپنے نشان چھوڑ جاتا ہے، اکثر و بیشتر وہی ’’ دل سوز‘‘ ای میل اُس ’’ مظلوم‘‘ کے پتے پر بھی چلی جاتی ہے جِسے ہیکرنے نشانۂ مشق بنایا ہوتا ہے اور یوں کچھ دوست فراڈ کا شکار ہونے سے بچ جاتے ہیں۔ تقریباً دو سال ہوئے، ایک دن میرے In Box میں ایسی ہی ایک میل آئی۔ شریف المجاہد صاحب کی طرف سے کہ ’’ مَیں سویڈن میں لُٹ گیا ہوں…‘‘مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ ابھی پرسوں ہی میری اُن سے فون پر بات ہوئی تھی۔ انہوں نے سویڈن جانے کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔ اچانک وہاں کیسے اور کیوں چلے گئے؟ میری ایک اور خصوصیّت بھی ہے کہ مَیںاور میری بیوی حمیرا اطہر یونیورسٹی میں اُسی شعبے کا طالب علم اور اُن ہی اساتذہ کے شاگرد رہے ہیں۔ کبھی دوستوں سے بات ہوتی ہے تو مَیں کہا کرتا ہوں کہ کراچی میں میرا گھر شایدواحد گھر ہے جس کی چھت تلے، اس شعبے کے دو طالب علم اور اُن اساتذہ کے دو شاگرد ساتھ ساتھ زندگی گزاررہے ہیں۔ مَیں نے حمیرا اطہر سے کہا کہ میری تو دو دن پہلے شریف المجاہد صاحب سے بات ہوئی تھی۔ مناسب نہیںلگتا کہ اُن سے ، اس حوالے سے بات کروں۔ تم ذرا فون کرکے دیکھو کہ آیا وہ کراچی ہی میں ہیں؟ اُس نے فون کیا تو شریف المجاہد صاحب ہی نے اُٹھایا۔ تب مَیں نے فون لیا اور انہیں اُس ای میل کا بتایاتو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے کہ وہ میل میرے پاس بھی آچکی ہے، اور مَیں سب جاننے والوں کو اطلاع دے رہا ہوں کہ وہ میل جعلی ہے اور مَیں کراچی ہی میں ہوں۔ مَیں نے انہیں، بہر حال، اتنا مشورہ ضرور دیا کہ وہ اپنا موجودہ ای میل ایڈریس بلاک کرکے نیا ایڈریس بنائیں۔ کہنے لگے، ’’ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب مجھے نہیں معلوم کہ میرے کتنے دوست یا جاننے والے اِس ہلے میں لُٹ گئے۔‘‘
ہمارے انعام الرحمن صاحب گفتگو میں کتنے نرم گو اور نرم خوُتھے، یہ الفاظ میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں۔ پڑھانے میں بھی کبھی لہجے میں درشتی نہ آنے دیتے۔ انہوں نے اِس دنیا سے کنارہ کشی میں کچھ عجلت دکھادی۔اور بہت سے طلبا و طالبات اُن کے علم سے خوشہ چینی سے محروم رہ گئے۔ اِسی طرح ہمارے ایک استاد سعید احمد خاں تھے۔ اُن کی ایک خواہرِ نسبتی، نیّر عباسی،صحافتی تربیت کے لئے روزنامہ آزاد، لاہور میں آئیں۔پیشہ ورانہ موشگافیاںسیکھنے میں خاصی ہوشیار تھیں۔ ایک دن کہنے لگیں کہ ’’ آپ چین سے آئے ہوئے ہیں ناں۔ ایک صاحب آپ سے مِلناچاہتے ہیں۔‘‘مَیں نے پوچھا، ’’ کہاں ہیں؟‘‘ بولیں، ’’ میرے گھر چلناہو گا۔‘‘ مَیں نے نام پتاپوچھا تو گول کر گئیں۔ خیر اُن کے ساتھ گیا۔ لاہور کے اندرونِ شہر میں ایک گھر__ڈرائنگ روم میں پہنچا تو سعید خاں صاحب بیٹھے تھے۔ بڑے پیار سے مجھے گلے لگایا اور کراچی یونیورسٹی سے نکالے جانے کا قصّہ لے بیٹھے۔ کہنے لگے‘‘۔ تمہیں جب نکالا گیا تو ہمیں دُکھ ہوا تھا۔ اب جو نیّر نے بتایا کہ تم یہاں ہو تو مَیں نے اِس سے کہا کہ تمہیں ساتھ لے کے آئے۔ مَیں نے ہی اِسے کہا تھا کہ بتانا نہیں، کون بلا رہا ہے۔ یہاں میری سسرال ہے۔ تم سے مِل کے واقعی بڑی خوشی ہورہی ہے۔ مَیں تو چند دن میں کراچی لوٹ جائوں گا۔ وہاں آئو تو ضرور مِلنا۔‘‘ مَیں ایک ڈیڑھ سال بعد لاہور سے ہی چین واپس چلا گیا۔اور پھر وہاں کچھ عرصے بعد سنا کہ وہ ترکی یا اُردن چلے گئے تھے۔ وہیں ایک حادثے میں جاں بحق ہوگئے۔ کبھی سوچتا ہوں، کیسے کیسے اچھے لوگ ہم سے پہلے ہی چلے گئے۔ لوٹ کے نہ آنے کے لئے!نیّر، ریڈیو میں چلی گئیںانور محمود سے شادی کی۔ انور محمودوزارتِ اطلاعات میں سیکریٹری کے عہدے سے اور نیّرریڈیو سے بحیثیت ڈائریکٹر نیوز ریٹائر ہوئیں۔ آج کل غالباً اسلام آباد میں ہیں۔برسوں سے، دونوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ نیّر کا مَیں آج بھی شکر گزار ہوں کہ اُس نے مجھے لاہور میںسعید صاحب سے مِلوایا تھا، جو اُن سے زندگی میں آخری ملاقات تھی۔
 مَیں نے باتوں باتوں میں طالبات کا تذکرہ کیا۔ اِس پر خیال آیا کہ مَیں تنگ نظری کا مرتکب تو نہیں ہورہا؟ کراچی یونیورسٹی کی اُس کلاس میں ہمارے ساتھ لڑکیاں بھی تھیں۔ نوشابہ صدیقی، طاہرہ جلیل، رضیہ باندرے، زلیخا آدم، نور جہاں صدیقی، گیتی افروز، مہر احسان، روحی ذکا اللہ… اور کیا کیا نام گنوائوں۔ نوشابہ، ہم سے سینئر تھی، کہ پہلے ایک ایم اے کرچکی تھی،اور اپنی سنیارٹی کا پورا پورا فائدہ اٹھاتی تھی۔ ویسے تھی بنی بنائی امّاں۔ اِسی کتاب میں نجم رضوی سے متعلق اُس کا ایک مضمون بھی شامِل ہے، جس میں اُس کی شخصیّت کا یہ پہلو بول رہا ہے۔ آج پچاس برس گزرنے کے بعد بھی احترام بھری   ّمحبتیں زندہ ہیں۔ طاہرہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے آئی تھی، لہٰذا علی گڑھ کے اثرات اُس کی ذات میں نمایاں تھے۔ شادی کرکے طاہرہ جلیل سے طاہرہ حسین ہوگئی۔اب بچوں کو ساتھ لئے برسوں سے نیویارک میں مقیم ہے۔ ہر سال وہاں اولڈ علی گیرینز کے ساتھ مِل کے سرسیّد ڈے مناتی ہے۔ مواد وہاں سے بھیج کے سر پہ سوار ہوجاتی ہے۔مَیں سو سوا سو صفحے کا سووئینرتیار کرکے WEB سے بھیج دیتا ہوں اور وہاں سرسیّد ڈے پر چھپ جاتا ہے۔ یوں برِصغیرکے ایک نابغہ ماہرِ تعلیم اور مسلمانوں میں جدید تعلیم کے فروغ کے بانی سرسیّد احمدخاں کو خراجِ عقیدت پیش کرنے میں، مَیں بھی اپنا حصّہ ڈال دیتا ہوں کہ شاید، عالمِ برزخ میں اُن کی روح خوش ہوجائے__کہ میرے ہاتھ میں آج جو قلم ہے، اُس کا ناتا لگ بھگ ڈیڑھ سو برس پہلے سرسیّد ہی سے جامِلتا ہے،کہ برصغیر میں آباد مسلمانوں کو جدید تعلیم کے حصول کی طرف راغب کرنے کا اعزاز سرسیّدہی کو جاتا ہے۔1980ء کے عشرے میں طاہرہ جب پاکستان میں تھی تو میرے جریدے ماہنامہ ’’ شو ٹائم‘‘ میں بھی اُس نے ہاتھ بٹایا تھا۔ رضیہ بوندرے، کراچی یونیورسٹی سے نکلی تو، بلا مبالغہ، عرصے تک پاکستان سے شائع ہونے والے انگریزی جرائد پر چھائی رہی۔ اُس نے پہلے تو ماہنامہ ہیرالڈ پر اپنے صحافتی نقوش ثبت کئے، پھر کسی معاملے میں اَن بَن پر، ماہنامہ نیوز لائن کا ڈَول ڈالا اور ساکھ اعتبار سے اُسے بامِ عروج پر پہنچادیا۔ شادی کرکے بوندرے سے بھٹی ہوگئی اور پھر بزمِ جہاں سے رخصت مانگ لی۔تعلق بمبئی ( اب ممبئی) سے تھا۔ اُس کے کچھ عزیز اب بھی ڈیفنس اور جمشید روڈ پر کاروباری زندگی گزار رہے ہیں۔ کئی لڑکیوں نے،صحافت میں ایم اے کے بعد، گھر بسالیا اور ساری صحافت گھر بسانے پرخرچ کردی۔ چند ایک شاید بیرونِ ملک بھی چلی گئیں۔ لیکن ایک بات__ وہ سارادَور عزت اور احترام دامن میں لئے تھا __آج کا پتا نہیں۔ اُس زمانے کا تعلق، احترام، عزت اور وابستگیاں، آج پچاس برس بعد بھی زندہ اور توانا ہیں۔
مَیں نے شروع میں نجم رضوی کے دشمنوں کا بھی ذِکر کیا تھا۔ 
لیکن کیا لکھوں؟ کیا کہوں؟ 
اُس کاتو کوئی دشمن ہی نہیں!
اور آخر میں__یہ بیتے دنوں کی سنہری اور روپہلی یادیں ہیں۔ اظہارِ عیب وہنر نہیں۔ اور اگر کہیں ہے تو مَیں اُس میں برابر کا شریک ہوں۔
1

No comments:

Post a Comment