فیچر
تحریر:رشید بٹ
4 اپریل 2019ء
(4اپریل 2012ء کوذوالفقار علی بھٹو کی 33 ویں برسی پر ریڈیو پاکستان کراچی کی خصوصی نشریات ’’عوام کی آواز........ شہید بھٹو‘‘ کے سلسلے میں نشر ہونے والا فیچر)
18 مارچ 1978ء لاہور ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ 6 فروری 1979ء سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی اور پھر 4 اپریل راول پنڈی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو کو تختۂ دار پر لے جایا گیا۔ فیض احمد فیض کا یہ شعر پہلی مرتبہ اپنے معنی سے آشنا ہوا۔
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
اس وقت پیشِ خدمت ہے فیچر........ سوئے دار چلے۔ تحریر ہے رشید بٹ کی۔ آوازیں، شہاب الدین شہاب، شہناز وسیم اور تنویر اقبال کی۔
.................. . میوزک ...................
تو سوئے دار چلے
.................. . میوزک ...................
دیا تھا صبحِ مسرت نے اِک چراغ ہمیں
اسی کو ہم نے سرِشام کھو دیا لوگو!
14 اگست 1947ء کو نقارۂ نیم شب بجتے ہی بر صغیر تقسیم ہو گیا اور انڈیا یعنی بھارت اور پاکستان وجود میں آگئے۔ بھارت نے اپنی یکجہتی کی ضمانت اور وفاق کے دوام کی خاطر 1951ء میں ارفع ترین قانون، آئینِ ہند تشکیل دیا۔ پانچ سال بعد پاکستان میں 1956ء کے آئین نے آزادئ ہند ایکٹ مجریہ 1947ء اور ترمیم شدہ حکومتِ ہند ایکٹ مجریہ 1935ء کی جگہ لی اور پاکستان کی یکجہتی کا نگہبان اساسی قانون بن گیا۔ نفاذِ مارشل لا کے بعد 1956ء کا آئین منسوخ کیا گیا تو پاکستان کی یک جہتی کی بنیادیں ہل کر رہ گئیں۔ 1969ء میں ایک اور مارشل نے 1962ء کے آئین کو تار تار کیا تو دو سال کے اندر اندر پاکستان دولخت ہو گیا۔ نہ تو 1956ء کا آئین حقیقی ارفع ترین قانون تھا اور نہ ہی یہ سعادت 1962ء کے آئین کو حاصل ہوئی۔ دونوں میں سے کوئی بھی آئین حقیقی معنوں میں مقتدر اور نمائندہ اسمبلی کی تخلیق نہ تھا۔ یوں وہ دونوں نیم آئین منسوخ ہوئے۔ اُن کی منسوخی تباہ کن تو تھی مگر وہ بجائے خود ایسے نہ تھے کہ ملک مکمل تباہی کی راہ پر چل نکلتا۔
صرف 1973ء کے آئین کو حقیقی ارفع ترین قانون بننے کا بے مثل اعزاز حاصل ہوا۔ یہ آئین ایک مقتدر اور نمائندہ اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کیا تھا۔ اس بد یہی سبب، جہاں ہم ماضی میں دو بار یہ دیکھتے ہیں کہ مارشل لا نافذ ہوتے ہی آئین منسوخ کر دیا گیا، وہاں موجودہ مارشل لا کو 1973ء کا آئین منسوخ کرنے کی جرأت نہ ہوئی اور وہ اسے صرف معطل ہی کر سکا۔ یہ ایک بالکل جدا گانہ موقف ہے کہ ماورائے قانون مارشل لا کا نفاذ آئین کو خس و خاشاک کی مانند بہالے جاتا ہے کیوں کہ وہ دونوں باہم وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ قیامِ پاکستان کے ٹھیک اکتیس سال ایک ماہ بعد ہونے والے اس اعلان میں کہا گیا ہے کہ چیف آف دی آرمی اسٹاف 16ستمبر 1978ء کو صدرِ پاکستان کا عہدہ سنبھالیں گے۔ انہوں نے یہ ثبوت دینے کا تہیہ کر رکھا ہے کہ آئین ہو یا نہ ہو، پاکستان میں سب سے زیادہ با اختیار کرسی چیف آف دی آرمی اسٹاف کی ہے۔ بہت خوب! مگر کون ہے جواب جان پہ کھیل کے یہ دعویٰ کرے کہ 1973ء کے آئین میں ہنوز کچھ سانسیں باقی ہیں؟
پاکستان کو ’’مویشی خانہ‘‘ اور اس کے بد نصیب اور خدائی خوار عوام کو مویشی بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ لیکن ایسا لمحہ آجاتا ہے جب مجبور جانور بھی جان لیتے ہیں کہ اُن کا مقام کیا ہے؟ افغانستان کا ’’عظیم کھیل‘‘ 28 اپریل 1978ء کو ختم ہوگیا۔ یہ سنجیدہ تاریخی فیصلہ دینا قبل از وقت ہو گا کہ کھیل عظیم تھا یا معمولی؟ بہرحال 16 ستمبر 1978ء کو یہ بھی اپنے اختتام کو پہنچا۔ اس روز ’’آخری چوکی‘‘ کی دھن بجی۔ ماضی میں جھانک کر دیکھیں تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ 1977ء کی فوجی کارروائی بہت بڑا جرم تھی ۔ لیکن 1973ء کے آئین کی تجہیزو تکفین کو تاریخ کی ایف آئی آر میں اس سے بھی بڑا جرم قرار دیا جائے گا۔ 16 ستمبر 1978ء کا دن، 10 مئی 1857ء یا 14اگست 1947ء سے کم اہمیت کا حامل نہ ہو گا۔ مجرم بلاشبہ تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ ’’تاریخِ انسانی میں ایک شے مکافاتِ عمل ہے اور تاریخی مکافاتِ عمل کا ایک ضابطہ یہ بھی رہا ہے کہ جابر کی تباہی کے لیے ہتھیار مجبور نہیں ڈھالتے بلکہ جابر خود ہی اپنی تباہی کا اہتمام کرتا ہے۔‘‘
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشّاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کر چلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
.................. . میوزک ...................
ذوالفقار علی بھٹو تاریخ کے حالیہ دور کا ایک نابغہ تھا۔ وہ صدیوں کا بیٹا تھااور رہے گا۔ وہ سندھ ساگر تھا اور رہے گا۔ سندھ ساگر جس کے کئی نام ہیں۔ وہ اباسین ہے۔ وہ شیر دریا ہے۔ گو اُس نے لاڑکانہ کی مٹی سے جنم لیا لیکن آج اس دریا کے دونوں کناروں پر آباد دیہات، قصبوں اور شہروں میں اس کا اور اس کی پاکستان پیپلز پارٹی کا نام روز ّ مرہ کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔ بھٹو کا نام، اس کی سیاسی بصیرت اور تدّبر، نقشِ دوام کا روپ دھار چکے ہیں۔ ’’اگر مجھے قتل کردیا گیا‘‘ عدالت میں ذوالفقار علی بھٹو کا محض آخری بیان ہی نہیں بلکہ ایک ادب پارہ ہے۔ اس میں سیاست بھی ہے، سیاسی پیش گوئیاں بھی ہیں۔ ایسی پیش گوئیاں جو سرِ مقتل کی جائیں، کسی شخص سے اس کی کم ہی توقع کی جاسکتی ہے۔ اس طویل تحریر سے اگر سیاست کو نکال دیا جائے تو بلاشبہ یہ ایک ایسا ادبی شہ پارہ ہے جو ایک بلند پایہ ادیب یا شاعر ہی تخلیق کرسکتا ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے Poet Laureate کا لفظ ہے جس کا اردو ترجمہ شاید ممکن ہی نہیں۔ اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ یہ تحریر ایک ایسا شخص تخلیق کررہا تھا جو سال بھر سے قیدِ تنہائی میں تھا، جس کے پاس حوالہ جاتی مواد نہ تھا۔ پڑھتے پڑھتے آدمی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا ذوالفقار علی بھٹو کے ذہن میں اللہ تعالیٰ نے الگ سے کوئی آلۂ یاد داشت لگا رکھا تھا۔۔۔ کیا یہ مبدء فیاض کا عطیہ تھا۔ یہ تحریر آنے والے ادوار کے مورّخوں کے لیے ایک انمٹ اور ناقابلِ تردید حوالہ جاتی دستاویز ہو گی ۔اپنی اس تحریر میں ایک جگہ ذوالفقار علی بھٹو کہتے ہیں:
.................. . میوزک ...................
’’ہم بادِ مخالف کے باوجود 1970ء میں سرخرو نکلے۔ تب بھی وہی ناقابلِ شکست جذبہ تھا جو 1977ء میں غالب نظر آیا۔ 1970ء میں بھی مَیں نے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا تھا۔ مَیں نے ملک کے گوشے گوشے کا دورہ کیا۔ مَیں خاکروبوں کی جھگیوں میں گیا۔ مَیں کچی آبادیوں میں گیا۔ مَیں نے ہر جا اپنے نقوشِ پا چھوڑے۔ میری آواز ہر گھر میں سنائی دی۔ مَیں ایک گاؤں میں تین بار گیا کیوں کہ مجھے خدشہ تھا کہ وہاں ایک پیر کا موروثی اثرور سوخ کام دکھا جائے گا۔ مَیں چوتھی بار اس گاؤں میں پہنچا تو مکھیا کہنے لگا، ’’سائیں ُ منھنجا، کیوں ہمیں شرمندہ کرتے ہو؟ ہمارے ووٹوں کا آپ سے بڑا حق دار کون ہوگا؟‘‘ آنسو میری ہی نہیں، بہت سی پلکوں پر جھلملا رہے تھے۔ یہ ایک گاؤں کی کہانی ہے جو صدیوں میں پہلی بار ایک گناہ گار سیاست دان۔۔۔ نہیں نہیں، سزائے موت یافتہ مجرم کے حق میں اپنے پیر سے دست کش ہوا تھا۔ ہماری جیپ چلی تو میرے کانوں میں ’’جئے بھٹو‘‘ کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ اور دھیرے دھیرے یہ صدائیں فاصلوں کی دھند میں کھو کررہ گئیں۔ شاید مَیں اس دھرتی کے باسی غریب دلوں میں اتنی گہرائی تک گھر کر چکا تھا کہ بہت سے لوگ تصوّر بھی نہیں کرسکتے۔ ممکن ہے اسے مجذوب کی گھِسی پِٹی بڑ تصوّرکیا جائے، اگر مَیں یہ کہوں کہ میرا نام برسات میں ٹپکنے والے گھر میں اور ہر چھت تلے روزمرّہ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ مَیں اس دھرتی کے دُکھ سُکھ کا ساتھی ہوں۔ میرا عوام سے ایسا ازلی اور ابدی بندھن ہے جسے توڑنا فوجوں کے بس کی بات نہیں۔‘‘
.................. . میوزک ...................
ذوالفقار علی بھٹو ایک اور موقع پر کہتے ہیں:
.................. . میوزک ...................
5جنوری 1948ء کو اپنی اکیسویں سالگرہ پر مَیں لاس اینجلس میں تھا۔ اس روز لاڑکانہ سے دو تحفے موصول ہوئے۔ ایک تحفہ تھا،سلونے کی پانچ جلدوں پر مشتمل نپولین بونا پارٹ کی سوانح۔ یہ بڑا قیمتی تحفہ تھا۔ اور دوسرا تحفہ تھا، سستا سا ایک پمفلٹ۔ نپولین سے مَیں نے سیاست کا درس لیا اور اس پمفلٹ کے ذریعے اِفلاس کی سیاست سے آشنا ہوا۔ یہ پمفلٹ ان الفاظ پر ختم ہوتا تھا۔ ’’دنیا بھر کے مزدورو!‘‘ متحد ہو جاؤ۔ تمہارے پاس کھونے کو کچھ نہیں ما سوائے اپنی زنجیروں کے اور جیتنے کو ساری دنیا تمہارے سامنے ہے۔‘‘
.................. . میوزک ...................
اِن ہی افکار کی رو تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کہہ اٹھے: ُ جنتانے ٹریبونل قائم کیا اور اُس کی طرف سے خود ہی فیصلہ بھی سنا دیا۔ ’’یہ پڑھتے ہوئے پیرزادہ قاسم صدیقی کا ایک شعر ذہن میں آن لپکتا ہے کہ وقت کے سیلِ رواں نے یہی ثابت کیا۔
اپنے خلاف فیصلہ خود ہی لکھا ہے آپ نے
ہاتھ بھی مَل رہے ہیں آپ، آپ بہت عجیب ہیں
لیکن ایک بات! اُس شخص کو تو شاید ہاتھ ملنے کا وقت یا موقع ہی نہ ملا!!
تاریخ اور احوال و واقعات پر اتنی گہری نظر انسان کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک جگہ پنڈت جواہر لعل نہرو کی کتاب’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں۔‘‘ ۔۔۔ جواہر لعل نہرو نے ایک آزاد اور جمہوری ہندوستان کی قیادت سنبھالنے سے قبل یہ آخری کتاب ایامِ اسیری میں لکھی تھی۔ اس میں انہوں نے اوسترووُسکی کی تصنیف ’’فولاد کیسے ڈھالا گیا تھا‘‘ سے ایک اقتباس دیا ہے:
’’انسان کے لیے سب سے پیاری شے اُس کی زندگی ہے۔ اور چونکہ یہ ایک بار ہی ملتی ہے لہٰذا انسان یوں نہ جئے کہ بزدلی اور اسفل عمل سے عبارت ماضی کا خوف ہر لمحہ دامن گیر رہے۔ یوں نہ جئے کہ برسوں تک بے مقصد ظلم کا شکار رہے، بلکہ دم واپسیں اُس کے ہونٹوں پر یہ الفاظ ہونے چاہئیں، ’’میری ساری زندگی اور تمام تر قوت دنیا میں بنی نوع انسان کی آزادی کے ارفع مقصدکے لیے وقف رہی۔‘‘
خود پاکستان کے ابتدائی زمانے کا ذکر کرتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے 5مارچ 1948ء کو دستور ساز اسمبلی میں خان عبدالغفار خان کی اوّلین تقریر کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان کے خطاب کا ذِکر کیا کہ ’’ہم نے کسی کو لیگ میں شامل ہونے پر مجبور نہیں کیا۔ ہر شخص اپنی پسند کی تنظیم کا انتخاب کرنے اور اس میں شامل ہونے کی آزادی رکھتا ہے بشرطیکہ وہ ریاست کے مفادات کو نقصان پہنچانے والی تنظیم نہ ہو۔ مسلمانوں نے عظیم جدوجہد اور ان گنت قربانیوں کے بعد پاکستان حاصل کیا ہے۔ میری دانست میں، اگر ہم نے کسی ایسی تحریک کو نہ کچلا جس کی غرض و غایت پاکستان کی تباہی ہو تو یہ بات فرض کی انجام دہی میں ناکامی کے مترادف ہو گی۔ مَیں اپنی تقریر ایک شعر پر ختم کرتا ہوں۔ خدا کرے یہ غلط ثابت ہو۔
نہ دل بدلا، نہ وہ بدلے، نہ دل کی آرزو بدلی
مَیں کیسے اعتبارِ انقلابِ آسماں کر لوں
.................. میوزک ...................
یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک ادیب، شاعر، صحافی اور کالم نگار بننا چاہتے تھے۔ انہوں نے 12جنوری 1967ء کو ڈھاکہ سے شائع ہونے والے انگریزی اخبار ’’پاکستان آبزرور‘‘ میں My Debut in Journalism کے عنوان سے مضمون یا کالم لکھا۔ اس کے علاوہ بھی انہوں نے، زیادہ تر زمانۂ طالب علمی میں، متعدد فکاہیہ کالم اور مبسوط مضامین لکھے مثلاً، ’’دنیا کا آفاقی تصوّر‘‘، ’’اسلامی میراث کے خدو خال‘‘، ’’نیویارک کے تاثرات‘‘ وغیرہ۔
آمرِ وقت ضیاالحق کے زمانے میں جب ادیبوں اور صحافیوں پر اِبتلا آئی تو ذوالفقار علی بھٹو ایسے نقش گر کی انگلیوں نے اُسے بھی نقشِ دوام کا حصہ بنا دیا ۔ اور انہوں نے کہا:
’’صحافیوں اور ادیبوں کو تھوک کے بھاؤ گرفتار کیا جارہا ہے ۔ انہیں الٹا لٹکانے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ مارشل لا ضابطوں کی آڑ میں پرنٹنگ پریس چوری کئے جار ہے ہیں۔ سرسری سماعت کی فوجی عدالتوں نے سرکاری کنٹرول میں چلنے والے ٹیلی ویژن اور ریڈیو ملازمین کو سخت سزائیں سنائی ہیں۔ جب میں کوٹ لکھپت جیل لاہور میں تھا تو جیل صحافیوں سے بھر چکی تھی۔ اب جو مَیں راولپنڈی ڈسٹرکٹ جیل میں ہوں تو یہاں بھی صحافی اور ٹیلی ویژن کے ملازمین ہی بند نظر آتے ہیں۔ دنیا میں کہیں بھی صحافیوں کو کوڑے نہیں لگائے جاتے۔ پاکستان میں فوجی حکومت کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اُس نے صحافیوں کو کوڑوں کی سزادی۔۔۔ اس حکومت نے تو صحافت کے معزز پیشے کو خود ذلیل و رسوا کیا ہے۔ وہ صحافیوں پر یوں سوار ہے گویا کوئی منگول گھوڑے کی پیٹھ پر بیٹھا ہو۔ منگول گھڑ سوار جس چابک کے زور پر گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا تھا، یہ حکومت صحافیوں کو چابک مار مار کر اسی طرح سرپٹ بھگانا چاہتی ہے۔۔۔
.................. . میوزک ...................
دست افشاں چلو مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
آج بازار میں پا بجولاں چلو
آج بازار میں پا بجولاں چلو
.................. . میوزک ...................
قوموں کا عروج وزوال سورج کے طلوع و غروب کی مثل ہوتا ہے۔ تہذیب و ثقافت کی بدولت کچھ قومیں عظمت کی بلندیوں پر جا پہنچتی ہیں اور فوجوں کے ذریعے حکومت کے تختے الٹنے اور سازشوں کا شکار ہونے کے سبب تاریخ کئی قوموں کو ملبے کے ڈھیر میں بدل کے رکھ دیتی ہے۔
.................. . میوزک ...................
یہ موقع ہے کہ میرے لیے جن عالمی رہنماؤں اور ملکوں نے اظہارِ تشویش کیا ہے، مَیں اُن کا شکریہ ادا کروں۔ میرے لیے یہ اظہارِ تشویش کرکے انہوں نے دراصل پاکستان کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ مَیں جہاں بھی ہوں اپنے مستقبل کے بارے میں اس سے زیادہ کچھ کہنا اپنے وقار اور خود داری کے منافی سمجھتا ہوں۔ تاہم اتنا ضرور چاہتا ہوں کہ نہاں خانۂ دل میں ُ چھپا ایک راز اپنے ہم وطنوں کی نذر کردوں۔
’’میں لڑکپن ہی سے جوش و خروش اور پامردی کے ساتھ برطانوی سامراج کے خلاف نبردآزما چلا آیا ہوں۔ مَیں نے بمبئی کے کتھیڈرل اینڈ جان کونن ہائی اسکول میں تعلیم پائی۔ اس کا شمار بر صغیر کے بہترین انگلش اسکولوں میں ہوتا تھا۔ تب اسکول کے طالب علم کی حیثیت سے مَیں بھی اپنی سیاسی سرگرمیوں کے سبب سخت مشکلات کا شکار ہوتا رہا، لیکن اس سے بھی پہلے 1935ء میں، جب میری عمر صرف سات سال تھی، ایک روز بمبئی کے گورنر لارڈ برابورن نے میرے والد کو جو اس وقت حکومتِ بمبئی میں وزیر تھے، تینوں بیٹوں سمیت چائے پر مدعو کیا۔ میرے سب سے بڑے بھائی امداد علی کو جن کی عمر اس وقت اکیس سال تھی متعارف کرایا گیا تو لارڈ برابورن نے کہا، ’’بڑا وجیہہ نوجوان ہے۔‘‘ امداد علی نے ایک مہذب اور با اخلاق ارسٹو کریٹ کے لہجے جواب دیا، ’’سر، مَیں پھولا نہیں سما رہا کہ یہ اعزاز مجھے اپنے وجیہہ گورنر کی طرف سے دیا گیا ہے۔‘‘
میری باری آئی تو مَیں نے مہین آواز میں کہا،‘‘ ہزایکسی لینسی گورنر اس لیے وجیہہ ہیں کہ وہ ہمارے خوبصورت وطن کے خون پر پل رہے ہیں۔‘‘ لارڈبرابورن دھک سے رہ گئے۔ انہوں نے لمحے بھر کو حیرت سے مجھے دیکھا اور پھر میری طرف انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے مسکرا کر میرے والد سے مخاطب ہوئے، ’’سرشاہنواز، آپ کے اس بیٹے میں ایک شاعر اور نقلابی چھپا ہوا ہے۔‘‘ اور اِن برسوں نے میری یہی پہچان کرائی ہے۔ ’’ایک شاعر اور انقلابی‘‘ اور مَیں دمِ واپسیں تک شاعر اور انقلابی ہی رہوں گا۔‘‘
.................. . میوزک ...................
بھٹو صاحب کی سُولی کے بارے میں بہت سے لوگوں نے اپنی مرضی سے بہت کچھ لکھا ہے۔ لیکن بیٹی اپنی آخری ملاقات میں بتاتی ہے کہ بھٹو صاحب نے کیا کہا:
’’آج رات میں آزاد ہو جاؤں گا۔‘‘ اُن کا چہرہ دمک رہا تھا۔ ’’مَیں اپنی اماں اور ابا سے ملوں گا۔ مَیں لاڑکانہ میں اپنے اجداد کے پاس لوٹ رہا ہوں۔ مَیں اس مٹی کا حصہ بن جاؤں گا۔ مہک اور ہوا بن کے پھیل جاؤں گا۔‘‘
رات ڈھلنے لگی ہے سینوں میں
آگ سلگاؤ آبگینوں میں
دلِ عشّاق کی خبر لینا
پھول کھلتے ہیں اِن مہینوں میں
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
بھٹو ہمارے لیے اور بہت سے لوگوں کے لیے آج بھی ’’زندہ‘‘ ہیں کہ شہید مرا نہیں کرتے۔
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو میں غرق مرے غم کدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
.................. . میوزک ...................
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
زز
پاک چین دوستی ایک ایسا رشتہ ہے جس کی مثالیں دی جاتی ہیں اور اس کے بانی شہید ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ انہوں نے ’’ون چائنا‘‘ پالیسی کی بنیاد رکھی۔تائیوان کو اس وقت دنیا کے تمام دیگر ممالک تسلیم کیا کرتے تھے۔ لیکن..... ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ چائنا ایک ہے۔
اس موقع پر ہم چینی نژاد اردو شاعر چانگ شی شوانگ جن کا اردو نام انتخاب عالم ہے، ان کے اس نوحے کے حوالے سے تنویر اقبال کی آواز میں سنوا رہے ہیں جوانہوں نے 4 اپریل 1979ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دئیے جانے کے بعد اردو میں کہا تھا اور ان کے مجموعۂ کلام ’’گل بانگِ وفا‘‘ میں شامل ہے۔ تو آئیے، سنتے ہیں:
تیرگی میں آسماں سے اِک ستارہ گر گیا
خطۂ آثار فردا ظلمتوں میں گھر گیا
گو صدا انصاف کی اٹھی ہے ہر سو بار بار
دامنِ امید آخر ہو گیا ہے تار تار
ہر طرف امواج ہیں خاموش اشکوں کی رواں
دہر کا ہر فرد ہے تیرے لئے نوحہ کناں
اپنی دھرتی کے لئے تو وقت کا انعام ہے
قوم کی ہر لوحِ دل پر نقش تیرا نام ہے
یہ سمجھ لے آج کی دنیا نہیں ہے بے شعور
لے گواہی وقت سے، توُ ہے سراسر بے قصور
---------------------------------------
ویڈیو لنک