رشید بٹ
چین کی لگ بھگ پانچ ہزار سال پر پھیلی تاریخ میں گو ہمیں بہت سے ایسے افراد و واقعات ملتے ہیں جنہوں نے اپنے اپنے ادوار وحالات میں عوام دشمن حکمرانوں، جارح اور غاصب قوتوں، آزادیٔ وطن اور عوام کی خود مختاری و سربلندی کے لئے جدوجہد میں تاریخ کے دھارے کا رخ موڑ دیا، تاریخ میں نئے نئے باب رقم کیے اور انمٹ نقوش چھوڑے، لیکن 1934ء میں چین کی آزادی اور خود مختاری کے لئے، مائو زے تونگ اور ان کے ساتھیوں کی زیرِ قیادت جدوجہد کرنے والی مزدوروں اور کسانوں کی سرخ فوج نے چیانگ کائی شیک جیسے رجعت پسند حکمران کی فوجوں اور جاپانی سامراجی قوت کے شدید دبائو کے سبب ایک آزاد علاقے سے دوسرے آزاد علاقے تک جو 12,500کلو میٹرطویل تاریخ ساز لانگ مارچ کیا اس کی مثال ہمیں چین تو کیا، غالباً، دنیا کے کسی بھی خطے کی تاریخ میں نہیں ملتی۔
ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں اور کارکنوں پر مشتمل یہ فوجِ آزادی اکتوبر 1934ء میں جنوبی چین کے علاقے سے روانہ ہوئی اور گیارہ صوبوں سے گزرتی، دشمن فوجوں کا گھیرا توڑتی، لڑتی بھڑتی، فلک بوس برف پوش پہاڑ، دشوار گزار خوفناک درّے، ان گنت تندو تیز شوریدہ سر ندیاں اور دریا عبور کرتی، انجانے وقتوں سے، قدموں کی چاپ سے نامانوس بے آباد و بے کراں گیاہستانوں میں نقوشِ پاثبت کرتی جب بارہ ہزار کلو میٹر سے زیادہ کا سفر کرکے اکتوبر 1936ء میں شمالی چین کے آزاد علاقے میں پہنچی تو اس کی تعداد لگ بھگ بیس ہزار رہ گئی تھی۔ باقی آزادیٔ وطن پہ نثار ہو چکے تھے! اس سفر کا جغرافیائی نقشہ ملاحظہ کریں جسے دیکھ کر ہی جھرجھری سی آجاتی ہے۔
جاپان مستقبل کی ایک محوری طاقت بننے کا خواب دیکھتے ہوئے ایک طرف چین کے بڑے علاقے پر قابض ہو کر چینی عوام پرجبرواستبداد کا بازار گرم کر چکا تھا تو دوسری جانب امریکہ اپنے بڑھتے ہوئے اقتصادی مفادات کی خاطر ایک ایسے ’’آزاد چین‘‘ کو بر قرار رکھنے کے لئے وقت کی انتہائی رجعت پسند، عوام دشمن، نجی مفادات اور جائزناجائز ہتھکنڈوں سے مال بٹورنے اور جیبیں بھرنے والی نام نہاد قوم پرست پارٹی ’’کومنتانگ ‘‘ کے حکمران اور طوائف الملو کی کا رنگ لئے جنگی سرداروں (Warlords) کو ابھرتی ہوئی ترقی پسند، آزادی اور خود مختاری کے موقف کی علم بردار کمیونسٹ قوت کو کچلنے میں ہر طرح کی فوجی اور اقتصادی مدد دے رہا تھا۔ ان کمیونسٹ قوتوں نے دیہی علاقوں کے بے مایہ کسانو ں کو غیر ملکی تسلط اور ملکی حکمرانوں کے جبر کے خلاف لڑنے کا شعور دیا، جاگیرداروں کی بے رحمی، ظلم و ستم، ان گنت محاصل اور سفاکانہ لگان سے نجات دلائی، انہیں سُکھ کی سانس لینے اور عافیت سے جینے کا حوصلہ دیا تو ان کی ہمدردیاں اور محبتیں ان قوتوں کے گرد حصار بنانے لگیں۔ اور یوں انہوںنے چین کے مختلف حصوں میں آزاد علاقے قائم کرلئے۔ کتاب میں شامل نقشہ دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ آزاد علاقے ایک دوسرے سے بے حد طویل فاصلوں پر بھی تھے جن کا باہم کوئی رابطہ نہ تھا۔
لانگ مارچ چین کا ایک بے مثل رزمیہ ہے اور یہ آج سے کم وبیش 77برس قبل تاریخ کا حصہ بنا۔ آج ہم جدید ترین پیش رفتہ مواصلاتی دور میں ہیں جس نے دنیا تو دنیا، فضااور خلا تک کو ایک ’’عالمی گائوں‘‘ (Global Village) میں بدل کے رکھ دیا ہے، تب اس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔
شکسپئر نے 16ویں صدی میں کہا تھا، No Legacy is so rich as honesty(دیانت داری سے بڑھ کے کوئی میراث نہیں)۔ 1930ء کے عشرے ،بلکہ اس کے بعد آج تک کی تاریخ پر نگا ہ ڈالیں تو امریکی حکومت کے مجموعی روّیوں، ترقی پسند قوتوں کے خلاف اس کی لڑائیوں، سازشوں اور انہیں کچل دینے کی کوششوں کے باوصف عالمی شہرت یافتہ صحافیوں، ادیبوں، موّر خوں، سرکاری، خصوصاً امریکی خارجہ امور سے متعلق عہدیداروں میں ایسے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے نتائج کی پروا کئے بغیر شکسپئر کے اس قول کو سربلند رکھا۔ بعض تو ایسے تھے کہ جان جو کھم میں ڈال کر لانگ مارچ کے شرکاء سے بھی ملے اور پھر اپنی تحریروں کے بل پر اس عظیم رزمیے کو دنیا تک یوں پہنچایا کہ سننے اور پڑھنے والے ورطۂ حیرت میں پڑگئے۔ بارہ ہزار میل سے زائد کے اس طویل سفر کو، جس میں لوگوں نے جنگی اور دیگر سازو سامان ٹکڑوں کی شکل میں اور زادِ راہ ، کندھوں پر اور بہنگیوں میں اٹھارکھا تھا، نہ صرف دنیا بھر میں جنگل کی آگ کی مانند شہرت اور دوام حاصل ہوا بلکہ یہ ایک خودمختار اور آزاد عوامی چین کے وجود کا نقطۂ آغاز بھی ثابت ہوا۔
جن امریکی اور یورپی صحافیوں، ادیبوں، موّرخوں اور خود امریکی سفارت کاروںنے حق کا پرچم بلند رکھا اور اپنے اپنے ملکوں میں اس کا خمیازہ بھی بھگتا، ان میں سے چند ایک معروف نام یہ ہیں:
1. Edgar Snow_"Red Star Over China," and other very popular Books.
2. Anna Louise Strong. American woman journalist who interviewed
Chairman Mao Tse Tung at yen Aan after the
triumphant culmination of Long March.
3. Lucian Bianco. Translated in English by Hurid Ball.........
4. Harrison E. Salisbury
5. Han Suyen. The Morning Deluge.
6. Joseph W. Esherick. Lost Chance in China: Despatches of
American Diplomat John S. Service
7. Stuart Schram. Mao Tse Tung: Political Leaders of the Twentieth Century.
8. Felix Green.
9. Jack Belden.
China Shakes the World.
10. Hewlett Johnson
The Upsurge of China
اس کے باوجود امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ دنیا کے رجعت پسند حکمرانوں، آمروں یا فوجی آمروں کی حمایت سے عبارت رہی ہے۔ اس نے اپنے سفارت کاروں کی حقیقت پسندانہ رپورٹوں پر کبھی کان دھرنے کی زحمت نہیں کی، گو زبانی کلامی وہ ایسے حکمرانوں کی مخالفت کرتا رہا ہے۔ سینیٹرجوزف ریمنڈ میکارتھی کا سیاسی دور اگرچہ 1947ء سے 1957ء تک رہا لیکن اپنی کمیونسٹ دشمن پالیسی اور تقریروں کی وجہ سے وہ امریکہ کی تاریخ میں اپنے نام کے مدام نقوش چھوڑ گیا ہے۔ اس نے الزامات کی بوچھار میں امریکہ کے شایدہی کسی محکمے، سیاستدان یا عہدیدار کو بخشا ہو۔ اور پھر ایک وقت آیا کہ سینیٹ کو اس کے خلاف متفقہ’’ قرار دارِ مذمت‘‘منظور کرنا پڑی۔ لیکن تب تک پلوں تلے سے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ میکار تھی اپنے مخالفین کی نظر میں ایک نظریہ بن چکا تھا… میکار تھی ازم! اور یہ نظریہ ذرائع ابلاغ کے توسط سے سفر کرتا دنیا کے گوشے گوشے میں پھیل گیا۔ ایک امریکی رپورٹ کے مطابق کسی فرد کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانا ہو، مخالف کو بے عزت کرنا ہو، قومی سلامتی کے نام پر شہری حقوق کا غلط استعمال کرنا ہو، کسی کو فتنہ انگیز مقرر قرار دینا ہو تو بس اتنا کہہ دو کہ وہ میکارتھی ہے!
بات ذرا دور نکل گئی۔ پہلی جنگِ عظیم کے بعد کی تاریخِ امریکہ کا تجزیہ کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اصل میکارتھی سے پہلے کے پورے دور میں امریکی خارجہ پالیسی پر میکارتھی کا بھوت غالب رہا اور میکارتھی کے بعد آج تک امریکی پالیسیوں میں میکارتھی ہی کا بھوت کارفرما نظر آتا ہے۔ پوری دنیا پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالیے، برصغیر پاک و ہند، مشرقِ و سطیٰ، عرب سرزمین، مسلمان یا غیر مسلمان افریقی ممالک، یورپ اورخود امریکہ کا عقبی صحن (Backyard) لاطینی امریکہ … سب جگہ میکارتھی کا بھوت ہی ڈوریاں ہلارہا ہے۔
چین میں لانگ مارچ کے کامیاب اختتام، کومنتانگ حکومت کی کمزوریوں اور جاپانی قابض فوجوں کے بارے میں اس وقت کے ایک امریکی سفارت کارجان سروس نے جو حقائق پر مبنی رپورٹیں دفترِ خارجہ کو بھیجیں، ان کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑا۔ میکارتھی نے اسے نوکری سے برطرف کروایا اور اسے انکوئری کمیٹی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑا۔ وقت اور تاریخ کا دھارا، بہرطور آگے ہی بڑھ رہا ہے۔ لیکن امریکہ کوئی سبق سیکھنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ ستم ظریفی نہیں کہ جس کمیونسٹ چین کو امریکہ صفحۂ ہستی سے نابود کرنے کے درپے تھا، آج اسی چین کی اشیائے صرف سے امریکہ کی مارکیٹیں اٹی پڑی ہیں!
لانگ مارچ ہی کے حوالے سے ایک دلچسپ صورت حال 1972ء میں پیدا ہوئی۔ چین کے غیر ملکی زبانوں کے اشاعت گھر نے اواخرِ ستمبر 1972ء میں مجھے دوسری بار چین بلایا۔ ادارے نے طے کیا تھا کہ چیرمین مائو کی منتخب تحریروں کے ترجمے کے ساتھ ساتھ لانگ مارچ کے حوالے سے تحریر یں بھی شائع کی جائیں گی۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب ’’چیرمین مائو کے ساتھ لانگ مارچ‘‘ کا ترجمہ آخری مراحل میں تھا کہ اشاعت گھرنے پاکستان میں چینی سفارت خانے کے توسط سے ایک اچھے خطاط سے ٹائٹل کی سرخی کتابت کروا کے بیجنگ بھجوا دی۔ اب دیکھا تو اس میں مصنّف کا نام کتابت سے رہ گیا تھا۔ اب کیا کیا جائے؟ آخر طے پایا کہ یہ نام میں جلی قلم سے لکھ دوں ۔ میں نے کہا کہ بھائی میرا ہاتھ خوش خط نہیں۔ جواب آیا، کوئی بات نہیں۔ کوشش تو کرکے دیکھیں۔ میں نے ’’جی کڑاکر کے‘‘ مصنّف کا نام لکھ دیا۔ بہت واہ واہ ہوئی۔ اب پتا نہیں دل سے ہوئی یا محض میرا دل رکھنے کو۔ بہرحال ٹائٹل پہ میرا لکھا ہوا، مصنّف کا نام چھن چھانگ فنگ چھپ گیا اور کتاب 1973ء کے ابتدائی مہینوں میں شائع ہوئی۔
اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دنیا بھر میں ’’لانگ مارچ‘‘ ایک روزمرہ بن چکا ہے۔ لیکن ہم ایسے ملکوں میں لوگ اس عظیم رزمیے کی بھدا ڑاتے نظر آتے ہیں۔ کوئی پجیروپہ ’’لانگ مارچ‘‘ کرتا ہے تو کوئی گوجرانوالہ سے آگے نہیں بڑھ پاتا۔ میں نے یہی سوچ کر لانگ مارچ کے بارے میں اپنی ترجمہ کی ہوئی تین کتابوں کو یکجا کیا ہے۔ کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ پڑھئے اور سوچئے کہ لانگ مارچ کیا تھا؟ کن حالات میں ہوا؟ کیسی کیسی دشواریاں سدِ راہ ہوئیں؟ اور اس لانگ مارچ نے تاریخ کا دھارا کیسے موڑا؟