امینؔ حزیں سیالکوٹی ……نیم تاب سے تاب دار تک - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Friday, 29 November 2019

امینؔ حزیں سیالکوٹی ……نیم تاب سے تاب دار تک

0 comments
تحریر: رشید بٹ




خواجہ محمد مسیح پال امینؔ حزیں … 

بے جُبّہ و عمّامہ اَم
دُرویشِ کافرِ جامہ اَم


میری حیات زیرِ فلک بلبلہ سہی
لیکن خود اِس فلک سے بھی پایندہ تر ہوں مَیں

امینؔ حزیں


ماضی کے دھندلکوں میں نیم تاب، شعرو ادب کے پُر خیال ذخیرے اور اس کے خالق امینؔ حزیں سیالکوٹی کی داستان ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط ہے۔ امینؔ حزیں سیالکوٹی کا اصل نام خواجہ محمد مسیح پال تھا اور وہ ایک دین دار اور علم دوست کشمیری خانوادے سے تعلق رکھتے تھے کہ پال ایک کشمیری برادری ہے۔ 24اگست 1884ء کو پیدا ہوئے۔ والد مولوی احمد دین پال ایک بزرگ ہستی کے طور پر معروف تھے۔ امینؔ حزیں نے گونسبی خوبیوں کو دمِ واپسیںتک دامن میں سمیٹے رکھا، لیکن شعرو سخن کے حوالے سے بقول خود، بزرگوں پر واضح کردیا کہ وہ فطرتاً’’چچاغالب ٹائپ‘‘ ہیں۔ ابتدائی تعلیم کا مرحلہ آیا تو حالات یاور ہوئے اور کشاں کشاں شمس العلماء مولوی میر حسن ایسے نابغہ کے پاس لے گئے جو اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں عربی فارسی کے استاد تھے اور قبل ازیں علامہ اقبال ایسی گہربارہستی پر اپنے علم و ادب کا خزانہ لٹا چکے تھے… لیکن سینوں میں دفن علمی خزینے لٹانے سے ختم تو نہیں ہوتے! یہ تو دیے کی مانند ہوتے ہیں۔ کتنے بھی دیے روشن کرلو، اصل دیا تو فروزاں تر ہوتا جاتا ہے۔ سو خواجہ محمد مسیح پال نے اپنی فطری دلچسپی اور لگن کی بدولت، مولوی میر حسن کے علم و فضل سے اپنے علمی تجسّس کا دیا خوب خوب روشن کیا۔ تب تک وہ دور شاید جاری وساری تھا کہ شاگرد محاورتاً ہی نہیں بلکہ عملاً اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرتے تھے۔ آج کے دور میں شاید ہی کوئی شاگرد اس زاویۂ نظر سے سوچتا ہو! ’’تاریخِ سیالکوٹ‘‘ کے مؤلف اشفاق نیاز لکھتے ہیں کہ ’’میر حسن صاحب کو اسکول کے قریب واقع ’برمے والی کھوئی‘ کا پانی بہت پسند تھا۔ خواجہ محمد مسیح پال نے یہ معمول پلّے باندھ لیا کہ بلاناغہ اس کنویں پہ جاتے اور پانی بھر کے میر صاحب کی خدمت میں پیش کردیتے۔ اُدھر مولوی میر حسن نے بھی عربی، فارسی اور اردو کا علم ان کے لئے پانی کردیا اور وہ اسے رگِ جاں بناتے چلے گئے۔ اپنے ’’تعارفِ ذاتی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ کالج میں ایف اے کا مرحلہ ادھورا چھوڑ کر میڈیکل کا سودا سر میں سمایا۔ ابتداء ادب کے حوالے سے تحصیلِ علم سے ہوئی تھی، میڈیکل کی ٹیکنکل زبان سے لگائو تو پیدا نہ ہوا، البتہ تھوڑے سے رومانی اور دہریہ خیالات درآئے۔ نتیجتاً تعلیمی مدارج ادھورے رہ گئے۔

مولوی میر حسن نے علم و ادب اور لسانیات کی جو فکری اور ذہنی جوت جگائی تھی شاید وہی انہیں شاعری کی طرف لے گئی۔ آمد اور آورد اپنی جگہ…1904ء میں ایک غزل کہی اور امینؔ حزیں سیالکوٹی کے تخلص یا قلمی نام سے لکھنؤ کے معروف جریدے ’’پیامِ یار ‘‘کو بھیج دی۔ غزل چھپی اور اسے علمی، ادبی اور شعری حلقوں میں قبولیتِ عام حاصل ہوئی… پھر کیا تھا… کرن کو کرن سے آگ لگی ، شاعری کا جادو سر چڑھ کے بولا اور فکر و ذہن کے کسی گوشۂ نہاں سے پُرگوئی کا چشمہ پھوٹ نکلا۔ یہی دن تھے جب جی میں سمایا کہ اصلاحِ سخن کے لئے علامہ اقبال کی شاگردی اختیار کی جائے۔ علامہ اقبال کے خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے فرمایا، ’’بھائی شاعری خدا داد چیز ہے۔ اگر شعر گوئی کا جذبہ سچا ہے تو مشقِ سخن کئے جائیں اور اساتذہ کا کلام پڑھتے رہیں تاکہ کان بحروں سے مانوس ہوجائیں۔ اور زبان میں کوئی سُقم نہ رہے۔‘‘امینؔحزیں سیالکوٹی کا مجموعۂ کلام دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زندگی بھر علامہ اقبال کی اس نصیحت پر عمل پیرا رہے۔
امینؔ حزیں کا پہلا مجموعۂ کلام ’’گلبانگِ حیات‘‘ 1940ء میں شائع ہوا جس کا پیش لفظ ادیبِ شہیر اور جریدہ ’’مخزن ‘‘ کے ایڈیٹر سرشیخ عبدالقادر نے لکھا۔ اس مجموعۂ کلام کا انتساب امینؔ حزیں نے ان الفاظ میں کیا ’’پیرِ ہندی حضرت علامہ اقبال ؒ کی حیات پروریاد سے۔‘‘گلبانگ حیات کی اشاعت پر انہیں رضامند کرنے والے بھی، اس وقت کے ایک ممتاز ماہرِ اقبالیات سیّد نذیر نیازی تھے۔ بیس ویں صدی کے ان تین عشروں پر ہم نگاہ ڈالیں، تو یہ دلچسپ کیفیت دیکھتے میں آتی ہے کہ شعراء کی اکثریت علامہ اقبال کے افکار اور اندازِ شعر گوئی سے متاثر تھی دوسری جانب، امینؔ حزیں نے ناموری سے بے نیاز، اپنی دھن میں مگن، ہم عصر اہلِ علم اور شعراء کو سنجیدگی سے پڑھا اور اپنے مخصوص اندازمیں اساتذہ کا اثر قبول کیا۔ 1950ء کے عشرے کے اوائل میں فیروز سنز نے اپنی معروف کتاب ’’تذکرۂ جدید شعرائے اردو‘‘ شائع کی تو امینؔ حزیں کے حوالے سے لکھا کہ’’ ابتدا میں وہ مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہرؔ کے رنگ سے متاثر تھے۔ بعدازاں اقبال کو پسند کرنے لگے اور یہ رنگ کچھ ایسا بھایا کہ پھر کسی اور کا نقشہ نہ جم سکا۔ دہ ایک مشّاق اور قادر الکلام سخن ور ہیں۔ انہوں نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ نظم میں اقبالؔ اور غزل میں غالبؔ کے پیرو ہیں۔
عمرا ور تجربہ کے اعتبار سے جو گنے چنے سینئر ادیب اور نقاد رہ گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر انور سدید کا کہنا ہے کہ’’ امینؔ حزیں سیالکوٹی، علامہ اقبال کے اسلوب میں شاعری کرنے والے منفرد دانشور تھے۔ میرا بچپن ان کی شاعری کے سائے میں گزرا ہے لیکن اب ان کے ملنے والے شاید دنیا میں موجود نہیں۔ میں ان کا قدیم ترین قاری ہوں۔ محترمہ جہاں آرا پال اور شکیل پال صاحب سے میرا سلام عرض کریں۔ گزشتہ دوسال سے شیاٹیکا درد میں مبتلا ہو کر خانہ نشین ہوگیا ہوںاورعمرِ عزیز کا 82واں سال گزار رہا ہوں۔‘‘
ظاہر ہے صرف شاعری سے پیٹ نہیں بھرتا۔امینؔ حزیں نے زندگی کے لگ بھگ 33 سال گلگت جیسے دور افتادہ خطے میں حکومت ِبرطانیہ کی ملازمت میں گزارے۔ اس کے باوصف لاہور اور دہلی وغیرہ سے شائع ہونے والے ادبی جرائد سے رابطہ استوار رکھا۔ ان کا کلام باقاعدگی کے ساتھ ساقی، کارواں، عالمگیر اور ہمایوں جیسے معروف و مقبول جریدوں اور مولانا ظفر علی خان کے اخبار روزنامہ زمیندار کی زینت بنتا رہا۔جہاں تک امینؔ حزیں کی طویل ملازمت کا تعلق ہے، اس زمانے کو بھی انہوں نے دفتری معاملات یا اپنی شاعری تک محدود نہیں رکھا بلکہ یہاں ہم پر ان کی زندگی اور مصروفیات کا ایک بہت اہم گوشہ عیاں ہوتاہے۔ وہ یہ کہ مشرقی ہندوکش اور قراقرم کے خطوں میں آباد مختلف النسل قبائل اور قومیتوں کی زبانوں پر تحقیق۔ برطانوی ماہرینِ تاریخ، آثارِ قدیمہ اور ایشیا کے مختلف خطوں میں بولی جانے والی چھوٹی بڑی زبانوں پر تحقیق کرنے والوں میں ڈیوڈلاک ہارٹ رابرٹسن لوریمر (David Lockhart Robertson Lorimer) ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں۔ وہ 1876ء میں برطانیہ میں پیدا ہوئے اور 1962ء میں انتقال کیا۔ طبعاً وہ ماہر لسانیات تھے۔ لیکن ملازمت کے حوالے سے برطانوی فوج اور پولیٹکل ڈپارٹمنٹ سے بھی وابستہ رہے۔ مختلف ملکوں میں برطانوی پولیٹکل ایجنٹ کی حیثیت سے کام کرتے کرتے 1920ء اور 1930ء کے عشروں میں گلگت میں برطانوی پولیٹکل ایجنٹ کے طور پر تعینات رہے۔ امینؔ حزیں بھی اس دوران گلگت میں تھے۔ اور یہیں لسانیات پر تحقیق کی، جن میں کھواڑ، شینا، بختیاری، واکھی اور بروشسکی زبانیں شامل ہیں۔
دیوڈ لوریمر کو 1953ء میں اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز میں اعزازی پروفیسر کا عہدہ دیا گیا تھا۔ امینؔ حزیں نے یہ لسانی تحقیق 1930ء کے عشرے میں مکمل کی۔ ان کا تحقیقی مواد اب بھی لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے شعبۂ دستاویزات (Archives) میں لوریمر کے ان کاغذات کے ساتھ رکھا ہوا ہے جن میں سے کچھ ہنوز غیر مطبو عہ ہیں۔ ہمیں ان دستاویزات کے حوالے سے ایک تحریر پر 24جولائی 1937ء کی تاریخ ملتی ہے۔ اس کامسوّدہ (Manuscript) نمبر MS181247 ہے۔
ڈیوڈ لوریمر نے امینؔ حزیں کے تعاون سے مقامی زبانوں پر جو تحقیقی کام کیا، غالب امکان یہ ہے کہ اسی تحقیق پر امینؔ حزیں کو جن کا نام سرکاری اور دفتری کاغذات میںہر جگہ خواجہ محمد مسیح پال درج ہے، حکومتِ برطانوی ہند نے خان بہادر کا خطاب دیا جو انہوں نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے حکم کی تعمیل میں 14 اگست 1946ء کو لوٹا دیا۔
زبانوں پر تحقیق کبھی ختم نہیں ہوتی۔ ڈیوڈ لوریمر اور امینؔ حزیں کی لسانیات پر تحقیق میں پیش رفت کے لئے برلن فری یونیورسٹی کے سنیٹر فار ڈویلپمنٹ اسٹڈیز کے تحت ممتاز جرمن ماہرِ لسانیات ہرمن کرٹسمن نے 1990ء کے عشرے میں تحقیق کو آگے بڑھایا، جس میں شمالی افغانستان (بدخشاں)، تاجکستان اور چین کے صوبہ شین چیانگ کے کچھ علاقے بھی شامل کئے جہاں وقتاً فوقتاً آبادیوں کی نقل مکانی کے سبب یہ زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ کرٹسمن کی اس رپورٹ میں جگہ جگہ امینؔ حزیں کے تحقیقی حوالوں سے استفادہ کیا گیا ہے اور سند کے طور پرحوالہ جات(Biblography) میں ان کا نام شامل ہے۔ اس تحقیقی کام کے شرکاء نے پاکستان کے شمالی علاقوں میں اِس وقت بولی جانے والی زبانوں کے بارے میں تفصیل سے تحقیق کی ہے اور ہر علاقے میں آباد مختلف النسل افراد کی تعداد کو بھی موضوعِ تحقیق بنایا ہے۔ انہوں نے 1995ء میں اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرئہ قومی زبان کے اہل کاروں سے مشاورت بھی کی اور انہیں بعض لسانی خطوط پر کام کرنے کے مشورے بھی دیئے۔ یہ ادارے اس ضمن میں کتنا کام کررہے ہیں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کرٹسمن نے اس ضمن میں ’’زمان و مکاں کے تناظر میں لسانی تنوع … مشرقی ہندوکش اور قراقرم کے خطے میں ایک سروے ‘‘کے عنوان سے رپورٹ مرتب کی۔
اس کے علاوہ ہمیں قیامِ پاکستان کے بعد بھارت میں چھپنے والی ایک کتاب ’’منتخب شعراء کا منتخب کلام‘‘ (Anthology of Urdu Poetry) کا حوالہ بھی ملتا ہے۔ بھارت کی نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز یا ساہتیہ اکیڈمی دہلی میں 12 مارچ 1954ء کو قائم کی گئی۔ اس کے پہلے صدر پنڈت جواہر لال نہرو، نائب صدر ایس رادھا کرشن اور سکریٹری کرشنا کرپلانی تھے۔ تب برِصغیر کی تقسیم کو 7سال بیت چکے تھے۔ کرپلانی کا ایک خط مورخہ 10دسمبر 1958ء ہمیں ملتا ہے جس میں امینؔ حزیں کو مطلع کیا گیا ہے کہ ان کا کچھ کلام کتاب ’’منتخب شعراء کا منتخب کلام‘‘ میں شامل کیا جارہا ہے جس کا انہیں ایک سو روپے معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ ساہتیہ اکیڈمی نے یہ کتاب اپریل 1960ء میں شائع کی اور حسبِ وعدہ امینؔ حزیں کے نام اسٹیٹ بینک آف انڈیا، دہلی کا جاری کردہ سو روپے کا ڈرافٹ انہیں بھیجا۔ جس کی رسید بھی موجود ہے۔ رسید دیکھ کر آج آدمی یہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ وہ بھی کیا زمانہ تھا جب سوروپے، واقعی سوروپے ہوتے تھے…

امینؔ حزیں کا کلام بوجوہ دھیرے دھیرے کلامِ گم گشتہ کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔ اس پُر گو، قادر الکلام شاعر کا مجموعۂ کلام شاید طاقِ نسیاں کے حوالے ہو جاتا، لیکن دنیاوی نفسانفسی کے اس عالم میں بھی ان کی بہو ڈاکٹر جہاں آرا پال اور پوتے شکیل پال نے بے لوث جستجو کی اور تنکا تنکا چننے کی مانند اسے یکجا کیا۔ یہ درحقیقت ایک باز یافت تھی۔ انہوں نے سارے کلام سے انتخاب کیا اور ازحد تگ و دو کے بعد ’’انتخابِ کلامِ امینؔ حزیں‘‘ کی صورت ،دلکش انداز میں شائع کیا ہے۔ان دونوں ماں بیٹے نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ نیم تاب کو تاب دار کردیا ہے۔

No comments:

Post a Comment