تحریر: پھُوسونگ لینگ
ترجمہ: رشید بٹ
رشید بٹ کی ترجمہ کردہ چینی کہانی ’’گلِ دائودی‘‘چودھویں صدی عیسوی کے چینی ادب کی دیو مالائی پرُ اسراریّت لئے ہوئے ہے۔ کہانی کی بُنَت اور اُس کا بیانیہ آخر تک اپنے طلسم سے آزاد نہیں ہونے دیتا، محسوس ہوتا ہے گویا ہم بھی وادیٔ’’گلِ دائودی‘‘ کے ابدی اسیر ہیں۔
__________
ما زی چھائی پئی چِنگ کا باشندہ تھا۔ اُس کا خاندان گو کئی نسلوں سے گلِ دائودی کا پرستار چلا آرہا تھا، مگر اُس نے تو اُن پھولوں کی چاہت میں سب کو مات کر دیا تھا۔ اُس کے کان میں بھنک پڑتی کہ ہزار کوس پر گلِ دائودی کا کوئی نایاب پودا موجود ہے، تو وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑکر اُسے خریدنے وہاں پہنچ جاتا۔ ایک دن نانچنگ سے ایک مہمان آیا اور بتایا کہ اُس کے عم زاد کے پاس گلِ دائودی کی ایک دو ایسی قسمیں ہیں، جو شمال میں کہیں نہیں پائی جاتیں۔ بس پھر کیا تھا۔ ما زی سامان ِسفر باندھ نانچنگ جا پہنچا اور بڑی منّتوں سماجتوں کے بعد دو قلمیں لے کر ہی ٹلا۔ اُس نے قلمیں بڑی حفاظت سے لپیٹیں اور واپسی کے سفر پر ہولیا۔
راہ میں اُسے ایک خوبصورت نوجوان مِلا جو گدھے پر سوار تھا اور ایک منقّش چھکڑے کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ دونوں میں گفتگو شروع ہوگئی۔ نوجوان نے اپنا نام تھائو بتایا۔ اُس کے انداز سے بڑی شائستگی ٹپکتی تھی۔ مازی نے اپنے مشغلے کا ذِکر کیا تو وہ کہنے لگا، ’’گلِ دائودی بذاتِ خود تو بڑا معمولی پھول ہے۔ اصل چیز تو باغباں ہے جو اُسے بناتا سنوارتا ہے۔‘‘ یوں گلِ دائودی اُگانے کے طریقے بھی موضوع ِ سخن رہے۔ ما زی اُس کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتا رہا اور باتوں باتوں میں پوچھنے لگا، ’’ آپ لوگ کدھر جارہے ہیں؟‘‘
’’ میری بہن نانچنگ سے اُکتا گئی تھی۔ اب ہم شمال میں کہیں آباد ہونا چاہتے ہیں۔‘‘ نوجوان نے جواب دیا۔
’’ مَیں گو تہی دست آدمی ہوں، پھر بھی، برُا نہ مانیں تو میرا غریب خانہ حاضر ہے۔مَیں مکان کا ایک حصّہ آپ لوگوں کے لئے الگ کردوں گا۔‘‘ مازی نے تجویز پیش کی۔
نوجوان بہن سے مشورہ لینے چھکڑے کے پاس گیا اور اُس نے پردہ ہٹایا تو مازی نے دیکھا کہ وہ بیس بائیس سال کی من موہنی سی لڑکی تھی۔ وہ بھائی کو مخاطب کرتے ہوئے بولی، ’’ کمرے بے شک معمولی ہوں، پرَ صحن بڑا ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‘‘ چنانچہ وہ مازی کے ہمراہ پئی چِنگ آگئے۔
مازی کے گھر کی جنوبی سمت ایک مکان اور بڑا سا احاطہ تھا۔ تھائو کو جگہ بھا گئی اور بہن بھائی نے وہاں ڈیرا ڈال لیا۔ تھائو روزانہ مازی کے صحن میں آکر اُس کے پودوں کی دیکھ بھال کرتا۔ وہ سوکھے پودوں کو جڑ سے اُکھاڑ کے دوبارہ لگاتا تو وہ دنوںمیں پھر سے ہرے بھرے ہو جاتے۔ بہن بھائی بہت ہاتھ کھینچ کے گزر اوقات کرتے، اپنے گھر میں پکانے کے بجائے مازی کے ہاں ہی دونوں وقت کھانا کھاتے۔ ما زی کی بیوی کو لڑکی بڑی اچھی لگی اور دونوں میں خوب گاڑی چھننے لگی۔ وہ اکثر کھانے پینے کی چیزیں اُن کے ہاں بھجوا دیتی۔ لڑکی کا نام ہوانگ ینگ تھا۔ بڑی ہنس مکھ اور چلبلی۔ وہ اکثر مازی کی بیوی کے ہاں جاتی اور سلائی کے کام میں اُس کی مدد کرتی۔
ایک دن تھائو نے مازی سے کہا، ’’ دوست، آپ کا کنبہ بھی کچھ زیادہ خوشحال نہیں۔ اُدھر ہمارا بوجھ بھی آن پڑا ہے۔ یوں سلسلہ کب تک چلے گا۔ سوچتا ہوں گزر اوقات کے لئے گلِ دائودی بیچنا شروع کردوں۔‘‘
مازی کی خودداری کو سخت ٹھیس پہنچی اُس نے کہا ، ’’مَیں تو تمہیں غریبی میں خوش رہنے والا آزادمنش عالم سمجھا تھا۔ گلِ دائودی کو کاروبار کا وسیلہ بنانا مَیں اِس پھول کی توہین سمجھتا ہوں۔‘‘ مازی نے جواب دیا۔
’’ روزی کمانے کی خاطر کوئی کام کرنا اور دولت کی حرص رکھنا، دو بالکل مختلف باتیں ہیں۔‘‘ تھائو مسکراتے ہوئے بولا، ’’ گل فروشی میں کوئی اہانت کی بات نہیں۔ مانا کہ انسان کو حریص نہیں ہونا چاہئے، مگر مفلسی کو ذریعۂ عزت سمجھنا بھی کوئی دانائی کی بات نہیں۔‘‘
مازی نے کوئی جواب نہ دیا اور تھائو اُٹھ کر چلا گیا۔ مازی نے جو قلمیںاور پودے بیکار سمجھ کر پھینک دیئے تھے، تھائو بعد میں وہ سب اٹھا لے گیا لیکن بِن بلائے آنے جانے سے احتراز کرنے لگا۔
گلِ دائودی کھِلنے کا موسم آپہنچا۔ ایک دن مازی تھائو کے دروازے پر شور شرابا سُن کر باہر نکلا اور وہاں پھول خریدنے والوں کا ہجوم دیکھ کر حیرت سے دم بخود رہ گیا۔ لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ وہ ایسے ایسے نایاب پھول اور پودے خرید کر لے جارہے تھے جو مازی نے کبھی دیکھے تک نہ تھے۔تھائو کا کاروباری انداز دیکھ کر مازی سخت دل برداشتہ ہوا اور اُس سے قطعِ تعلق کا سوچنے لگا، مگر ساتھ ہی دل میں یہ خواہش بھی چٹکیاں لے رہی تھی کہ کسی صورت کچھ نایاب پھول اور پودے حاصل کرلے۔ وہ کچھ جلی کٹی سُنانے کے خیال سے تھائو کے دروازے پر پہنچا تو تھائو اُس کا ہاتھ پکڑ کر اندر لے گیا۔ عجیب منظر تھا، سارا صحن پھولوں اور گملوں سے اَٹا پڑا تھا، تِل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ رنگ رنگ کے پھول عجب بہار دِکھا رہے تھے۔ ما زی نے غور سے دیکھا تو اُن میں سے بیشتر وہی قلمیں اور پودے تھے جو اُس نے بیکار سمجھ کر اُکھاڑ پھینکے تھے۔
اتنے میں تھائو اندر سے شراب اور کھانے پینے کی چیزیں اُٹھا لایا اور پھولوں کے قریب میز بچھاتے ہوئے از رہِ تفنّن بولا، ’’مفلسی نے سارے کَس بل نکال دیئے تھے۔ اب دیکھئے آج مَیں بھی آپ کی تواضع کے قابل ہوگیا۔ پچھلے چند دنوں میں کچھ آمدنی ہوگئی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر نہ گزری تھی کہ بہن نے اُسے پکار لیا۔ وہ اندر گیا اور لپک جھپک چند نفیس اور سلیقے سے پکی ہوئی چیزیں اُٹھا لایا۔
مازی اُس سے پوچھنے لگا، ’’ تمہاری بہن نے ابھی تک شادی کیوں نہیں کی؟‘‘
’’ ابھی وقت نہیں آیا۔‘‘ تھائو نے جواب دیا۔
’’ وہ وقت کب آئے گا؟‘‘
’’آج سے ٹھیک تینتالیس مہینے بعد۔‘‘
’’ یہ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ رہے ہو؟‘‘
تھائو مسکراکر چپکا ہورہا اور ہنسی خوشی کچھ وقت بتانے کے بعد مازی گھر لوٹ آیا۔
اگلے روز مازی پھر آگیا اور یہ دیکھ کر مبہوت رہ گیا کہ تھائو نے پچھلے روز جو قلمیں لگائی تھیں، وہ کوئی بالِشت بالِشت بھر لمبی ہوچکی ہیں۔ اُس نے سبب جاننا چاہا تو تھائو نے جواب دیا:
’’ یہ ایک راز ہے۔ یوں بھی آپ پھولوں کو وسیلۂ روزگار تو بنائیں گے نہیں۔ پوچھنے یا بتانے سے کیا حاصل؟‘‘
چند دن بعد تھائو نے پھول چٹائیوں میں لپیٹے اور چھکڑے بھر کے سفر پر نکل گیا اور اگلے سال وسطِ بہارمیں جنوب سے عجیب و غریب پھول لئے لوٹ آیا۔ اُس نے دارالحکومت میں پھولوں کی دکان کھولی اور دس روز میں سارے پھول بیچ کر پھر سے پھول اُگانے میں مشغول ہوگیا۔ اُس کے دروازے پرپھر خریداروں کا ہجوم رہنے لگا۔ جن لوگوں نے پچھلے سال پودے خریدے تھے، وہ پھر سے پھول خریدنے آئے کیونکہ موسم بیتتے ہی پودے سوکھ گئے تھے۔ تھائو خوب مال کمانے لگا۔ سال بھر بعد انہوں نے مکان میں کچھ توسیع کرائی اور اُس سے اگلے ہی سال ایک حویلی بنوالی۔ اب انہیں مازی کے سہارے کی ضرورت نہیں رہی تھی۔ صحن میں پھولوں کے تختوں سے جگہ رکنے لگی تو انہوں نے ایک اور قطعہ خرید کر اردگرد دیوار چنوائی اور اُسے بھی چمن زار بنادیا۔ پت جھڑ میں تھائو نے پھر پودے چھکڑوں پر لادے اور جنوب کو چلا گیا۔ اوائل بہار میں، جب وہ ہنوز جنوب ہی میں تھا، مازی کی بیوی بیمار ہوئی اور انتقال کرگئی۔ مازی تھائو کی بہن سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے مشاطہ کو بھیجا تو لڑکی یوں مسکرائی، گویا اُسے انکار نہ تھا، تاہم جواباً کہلوا بھیجا کہ وہ بھائی کی واپسی تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکتی۔
سال بھر سے زیادہ عرصہ بیت گیا لیکن تھائو واپس نہ آیا۔ ہوانگ ینگ نوکروں کی مدد سے حسبِ معمول پھول اُگاتی رہی اور ہن برستا رہا۔ اُس نے سات سو ایکڑ زمین بھی خریدی اور حویلی کی ٹیپ ٹاپ کروا کے اُسے اور زیادہ خوبصورت بنادیا۔ انہی دنوں کی بات ہے، مازی کا ایک دوست مشرقی کوانگ تونگ سے تھائو کا خط لے کر آیا۔ خط میں اُس نے مازی کو تاکید کی تھی کہ ہوانگ ینگ سے شادی کرلے۔ خط پر تاریخ وہی تھی جس روز مازی کی بیوی کا انتقال ہوا تھا۔ ٹھیک تینتالیس مہینے! تھائو نے باغ میں کھانا کھاتے ہوئے تینتالیس مہینے ہی بتائے تھے! اُس نے کچھ حیرانی کی کیفیت میں خط ہوانگ ینگ کو دکھایا اور پوچھا، ’’ برَی کہاں بھیجوں؟‘‘ ’’برَی کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ لڑکی نے انکارکرتے ہوئے کہا اور چونکہ ما زی کا مکان بھی یونہی سا تھا، لہٰذا اصرار کرنے لگی کہ وہ اُس کی حویلی میں منتقل ہوجائے۔ یہ بات مازی کو گوارا نہ تھی۔
شادی کے بعد ہوانگ ینگ نے یہ کیا کہ اپنی حویلی اور مازی کے مکان کی سانجھی دیوار میں ایک دروازہ نکلوالیا۔ مازی کو بیوی کے ٹکڑوں پر پڑے رہنا بہت کَھلتا تھا، چنانچہ بیوی پر زور دینے لگا کہ وہ دونوں گھروں کا حساب کتاب الگ الگ رکھے۔ لیکن وہ جب چاہتی اور جو چاہتی حویلی سے لے آتی، یوں کوئی چھ مہینے بھی نہ ہوئے تھے کہ مازی کا سارا گھر تھائو کی چیزوں سے بھر گیا۔ اُس نے اپنے نوکروں سے کہا کہ ساری چیزیں اُٹھا کر واپس حویلی میں رکھ آئیں اور خیال رکھیں کہ ایک بھی شے دوبارہ اِدھر نہ آنے پائے۔ مگر دس دن کے اندر اندر ہی پھر وہی کیفیت ہو گئی۔ جب کئی بار ایسا ہوچکا تو مازی جھِلّا اٹھا۔
ہوانگ ینگ کھِلکھِلا کر ہنس دی اور چھیڑتے ہوئے بولی، ’’ تم ابھی تک اپنی غریبی اور ایمانداری سے اُوبے نہیں؟‘‘
مازی آخر راضی برضا ہوگیا اور سارے معاملات بیوی پر چھوڑ دیئے۔ ہوانگ ینگ نے کاریگر بلوائے اور ما زی کا مکان ازسرِ نو بنوانا شروع کردیا اور چند ماہ کے اندر اندر حویلی اور مکان ایک ہوگئے۔ گو مازی کے کہنے پر اُس نے گُل فروشی ترک کردی، مگر وہ ہنوزامرا کی طرح زندگی بسر کرتے تھے۔ زندگی کا یہ آرام و آسائش دیکھ کر مازی جھلا اٹھتا، ’’ مَیں نے تیس برس فروتنی میں گزاردیئے لیکن اب، اب مَیں تمہارا محتاج ہو کر رہ گیا ہوں۔ یہ زندگی مرد کے شایانِ شان نہیں! لوگ تو دولت مند بننے کے خواب دیکھتے رہتے ہیں، لیکن مَیں پھر سے مفلسی کے اُسی عالم میں جانا چاہتا ہوں!‘‘
’’ تم ایسی باتیں نہ سوچا کرو۔‘‘ ہوانگ ینگ جواب دیتی۔ ’’ مَیں کچھ پیسہ جمع کرنا چاہتی ہوں، ورنہ لوگ ٹھٹھا اڑاتے رہیں گے کہ تھائو یوان مینگ*کی اولاد، سو پیڑھیوں کے بعد بھی غریب کی غریب ہی رہی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ لوگ ہمارے خاندان کے اِس شاعر کا مذاق اُڑائیں۔ غریب کے لئے امیر بننا مشکل ہوتا ہے لیکن امیر کے لئے مفلسی کے گڑھے میں گرنا بے حد آسان ہوتا ہے۔ چاہو تو ہماری ساری دولت اللّے تللّوں میں اڑا دو۔مَیں حرفِ شکایت زبان پر نہ لائوں گی۔‘‘
’’ اِس سے زیادہ ذِلت کی بات اور کیا ہوگی کہ آدمی دوسرے کے پیسوں پر عیاشی کرے۔‘‘
’’ تم دولت نہیں چاہتے اور مجھے مفلسی کی خواہش نہیں۔ تو پھر کیوں نہ ہم الگ ہوجائیں؟ تم اپنے اصولوں کے ساتھ سادہ زندگی گزارو اور یہ گھٹیا عیش وآرام میرے لئے چھوڑ دو…کیا خیال ہے؟‘‘
اب مازی کے لئے باغ میں ایک جھونپڑا بنایا گیا اور ہوانگ ینگ نے کچھ حسین و جمیل باندیاں اُس کی خدمت پر مامورکردیں۔ شروع شروع میں تو وہ خاصا خوش رہا، لیکن چند ہی دنوں بعد تنہائی اُسے ڈسنے لگی۔ بیوی کو بلواتا تو وہ اِدھر اُدھر کے بہانے کردیتی اور مجبوراً اُسے خود بیوی کے پاس جانا پڑتا اور ہوتے ہوتے اُس نے ہر دوسرے دن حویلی میں جانا شروع کردیا۔
ایک دن بیوی نے اُسے چھیڑتے ہوئے کہا، ’’ یہ کہاں کی شرافت ہے کہ آدمی کھائے تو ایک گھر میں اور رہے دوسرے میں۔‘‘
مازی کھسیانا سا ہوگیا اور دونوں پھر اکٹھے رہنے لگے۔
پت جھڑ میں جب گلِ دائودی کے شگوفے کھِل رہے تھے، مازی کسی کام سے نانچنگ گیا۔ ایک صبح وہ بازار سے گزرا تو پھولوں کی ایک دکان دکھائی دی۔ دکان میں پھول اِس نفاست سے سجے تھے کہ مازی کے خیال کی رو تھائو کی طرف بہہ نکلی۔ اگلے ہی لمحے مالک باہر آگیا۔ وہ تھائو ہی تھا! دونوں کے چہرے خوشی سے کھِل اٹھے۔ دونوں بیٹھے دیر تک باتیں کرتے رہے۔ مازی نے رات اُسی کے ہاں گزاری اور اصرار کرتا رہا کہ وہ پئی چِنگ چلا چلے۔ تھائو نے جواب دیا، ’’ نانچنگ میرا وطن ہے۔مَیں یہیں شادی کرکے گھر بسائوں گا۔مَیں نے کچھ رقم پس اندا ز کررکھی ہے، وہ آپ لے جائیں اور میری بہن کو دے دیں۔ سال بعدآکر اُس سے مِلوں گا۔‘‘
لیکن مازی نے اُس کی ایک نہ سنی اور یہی کہتا رہا، ’’ ہمارا کنبہ اب کافی خوشحال ہے۔ زندگی کے باقی دن بڑے چین سے گزر جائیں گے ۔ تمہیں یہ دکانداری کرنے کی بالکل ضرورت نہیں۔‘‘ اُس نے نوکروں کو پھولوں کے دام گرانے کا حکم دیا اور دو تین دن میں ہی سارے پھول بک گئے۔ پھر تھائو کا اسباب بندھوایا اور وہ کشتی سے شمال کو چل دیئے۔ گھر پہنچے تو ہوانگ ینگ نے کمرے، بچھونا، غرض ہر شے تیار کررکھی تھی، گویا اُسے تھائو کی آمد کا پہلے ہی سے علم تھا۔
تھائو نے آتے ہی باغ کو اور زیادہ خوبصورت بنایا اور پھر سارا وقت مازی کے ساتھ شطرنج اور مے نوشی میںبِتانے لگا۔ مازی نے شادی پر زور دیا تو اُس نے انکار کردیا۔ چنانچہ بہن نے دو باندیاں بھجوا دیں اور تین چار سال بعد اُس کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی۔
تھائو شراب کا رسیا تھا، ایک بار مازی کا ایک دوست زنگ جو بلا کا شرابی تھا، ملاقات کو آیا، تو مازی نے دونوں کو مقابلے پر اُکسایا۔ صبح سے رات ڈھلے تک دونوں میں سے کسی نے ہار نہ مانی۔ آخر زنگ پیتے پیتے میز پر ہی سوگیا اور تھائو مدہوشی کے عالم میں لڑکھڑاتا ہوا اپنے کمرے کو چل دیا، لیکن باہر نکلتے ہی پائوں رپٹا اور وہ گلِ دائودی کے ایک تختے پر گر پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے گل دائودی کے قدِ آدم پیڑ کا روپ دھار گیا، جس پر دس بارہ پھول کھلے ہوئے تھے۔ ہر پھول انسانی مٹھی جتنا بڑا تھا! یہ سارا منظر دیکھ کر مازی کے اوسان خطا ہوگئے اور ہوانگ ینگ کو بلا لایا۔ ہوانگ ینگ بھاگم بھاگ آئی اور درخت کو اکھاڑ کر زمین پر لٹاتے ہوئے بولی، ’’ تم اِس قدر نشے میں کیسے آگئے؟‘‘اُس نے درخت کو کپڑے سے ڈھانپا اور مازی کو ساتھ لئے وہاں سے ہٹ گئی۔ صبح مازی نے آکر دیکھا تو تھائو پھولوں کے تختے کے پاس ہی زمین پر چت لیٹا تھا۔ اُسے جب یہ علم ہوا کہ بہن بھائی گلِ دائودی کی روحیں ہیں تو وہ انہیں اور بھی پیار اور احترام کی نظروں سے دیکھنے لگا۔
تھائو کا بھید جو کھلا، تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ بے احتیاطی سے شراب پینے لگا۔ وہ اکثر زنگ کو بلوا بھیجتا اور دونوں کی دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ ’’ فصلِ گل‘‘ کے تہوار**پر زنگ شراب کا بڑا سا مٹکا لئے آپہنچا، جس میں جڑی بوٹیاں بھی کشیدکی ہوئی تھیں۔ دونوں میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ مٹکا خالی ہونے لگا مگر اُن کی پیاس بڑھتی گئی۔ مازی نے مٹکے میں مزید شراب ڈال دی اور دونوں وہ بھی چڑھا گئے۔ آخر زنگ مدہوش ہو گیا اور اُس کے نوکر اُسے اُٹھا کر لے گئے۔ اُدھر تھائو زمین پر گرا اور ایک بار پھر گلِ دائودی کے پیڑکا روپ دھار گیا۔ مازی کو اب کے کوئی حیرت نہ ہوئی۔ اُس نے ہوانگ ینگ کی طرح درخت کو جڑ سے اُکھاڑا اور قریب ہی بیٹھ گیا۔ وہ آواگون کا یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ پتّے مرجھانے لگے تو وہ گھبرا گیا اور ہوانگ ینگ کو بلانے چلاگیا۔ ہوانگ ینگ سارا واقعہ سُن کر شدتِ غم سے رو دی،’’تم نے میرے بھائی کو مار ڈالا!‘‘ وہ بھاگم بھاگ باہر آئی تو جڑیں چرُمرانی شروع ہوچکی تھیں۔ اُس نے تنے کو کاٹا اور جڑ گملے میں دبا کر اپنے کمرے میں لے آئی۔ وہ ہر روز اُسے پانی دینے لگی۔ ادھر ما زی اپنے کئے پر سخت پچھتارہا تھا۔ اُسے زنگ پر بھی سخت غصّہ تھا، لیکن چند دن بعد ہی اطلاع مِلی کہ وہ کثرتِ شراب نوشی کے سبب مر گیا تھا۔ تھوڑے دنوں میں گملے سے کونپلیں پھوٹ نکلیں اور نویں مہینے کلیاں کھِل اٹھیں۔ اُس کا تنا چھوٹا سا تھا اور پھولوں میں شراب کی سی مہک تھی۔ لہٰذا انہوں نے پودے کا نام ’’ شرابی تھائو‘‘ رکھ دیا۔ اُسے پانی کے بجائے شراب دی جاتی تو خوشبو اور بھی مستانی ہوجاتی۔ وقت بیتتا گیا۔ تھائو کی بیٹی بیاہ کر ایک اعلیٰ نسب خاندان میں چلی گئی۔ ہوانگ ینگ نے بڑی لمبی عمر پائی۔ تاہم اُس کے بعد کوئی غیر معمولی واقعہ دیکھنے میں نہ آیا۔
داستان گو لکھتا ہے: کوئی انسان جس کا اصل مقام شاداب پہاڑوں اور سفید اَبرپاروں میں ہو، شراب نوشی میں جان دے دے تو دنیااُس کے لئے نوحہ گر ہو جاتی ہے، مگر کیا یہ ممکن نہیں کہ خود اُس شخص نے ایسی موت میں لذّت پائی ہو؟ کسی کے صحن میں ایسے پھول کا وجود اچھے دوست یا کومل حسینہ کے قرُب سے کم نہیں۔ مجھے ایسے ہی پھول کی جستجو ہے!
_______________
*چوتھی صدی عیسویں کا مشہور چینی شاعر جسے گلِ دائودی سے عشق تھا۔
** قمری سال کے دوسرے مہینے کے وسط میں ایک چینی تہوار۔