اَسرار الحق مجازؔ__ایک آہنگ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Thursday 2 January 2020

اَسرار الحق مجازؔ__ایک آہنگ

0 comments
یہ مضمون علیگ میگ نیویارک، امریکا میں نومبر 2019ء کو شائع ہوا

کتاب :’’ علی گڑھ سے علی گڑھ تک‘‘ ،
  تحریر : اطہر پرویزسے ایک اقتباس-تدوین و تالیف: رشید بٹ


مجازؔ __ایک آہنگ 
___________

اِس کو بے مہریٔ عالم کا صِلہ کہتے ہیں
مَر گئے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
__________________________


ممتاز ادیب و مدیر’’ افکار‘‘ کراچی، صہبا لکھنوی( مرحوم) کا کہنا تھا کہ یہ شعر حفیظ جون پوری کا ہے جو مجازؔ کے نام کا جُز بن گیا۔
اَسرار الحق مجازؔ آخر کیا تھے؟ اُن کے بارے میں اگر مختصراً کچھ کہا جائے تو بات کوئی24سو برس پہلے تک کے سکندر اعظم تک جا پہنچتی ہے۔ ویسے تو کہا جاتا ہے کہ انگریزوں نے برِصغیر پر اپنے غاصبانہ دورِحکومت میں سکندر کو ، بحیثیت یورپیئن، تاریخ کا ایک بڑا کردار ثابت کرنے اور تاریخ میں ایک بڑا مقام دینے کے لئے اُس کے بارے میں مورخیّن سے اُس کے بڑے پن کے بارے میں بہت کچھ لکھوایا جن میں سے ایک فقرہ تو شہرت کے حوالے سے روزمّرہ کی شکل اختیار کرگیا کہ:
’’وہ آیا، اُس نے دیکھا اور چَھا گیا۔‘‘



لیکن تاریخ ہی اُسے غلط اور مبالغے پر مبنی ثابت کرتی ہے۔ سکندر گویورپی تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ ایک فوجی فاتح بھی تھا۔ اِس کے برعکس اَسرار الحق مجازؔ ، بقول فیضؔ ایک ایسا غنائی شاعر تھا جو گرچہ کم عمری ہی میں راہیٔ مُلکِ عدم ہوا، مگر اپنی غنائی شاعری کے ایسے نقوش برِصغیر کے اَن گنت شاعروں پر ثبت کرگیا کہ وہ اَمِٹ ہوگئے۔ ہر سُو اُس کی شاعری کا طوطی نہ صرف بولا بلکہ بولتا چلا گیا۔ مسلسل بولے جارہا ہے اور اُسے اور اُس کی شاعری کو اَمر بیل بناتا چلا جارہا ہے۔ اُس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو وہ ترانہ دیا جو، علی گڑھ کے طلبا و طالبات، یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہوں یا ’’سابق‘‘ ہوچکے ہوں، وہ دنیا کے کسِی بھی گوشے میں ہوں اُن کی کوئی تقریب اُس وقت تک شروع یا اختتام پزیر نہیں ہوتی جب تک مجازؔ کا ترانہ اُس کا جُزنہ بن جائے۔ مجازؔ، یوُپی ہی کے کسِی گائوں کا وہ بوڑھا ہندو سنیاسی لگتا ہے جس کا تذکرہ سندھ کے ممتاز ادیب پیر علی راشدی نے کیا ہے۔ یہ غالباً1920ء کے عشرے کا تذکرہ ہے جب وہ بوڑھا ہندوسنیاسی بہتا بہاتا، چلتا چلاتا کراچی آگیا۔ یہاں وہ دِن بھر محنت مزدوری کرتا، بوریاں ڈھو کر بحری جہازوں پر لادتا اور شام کو نیٹی جیٹی(NATIVE JETTY) پر جڑی بوُٹیاں لے کر بیٹھ جاتا اور بیماروں کا مفت علاج کرتا۔ اُن بیماروں میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائیوں کی کوئی تخصیص نہ ہوتی۔ وہ سب کا علاج کرتا۔ کوئی پوچھتا تو جواب دیتا:

’’اُوپر والا تو جَل برساتا ہے ۔ یہ نہیں دیکھتا کہ نیچے سرسبز میدان ہیں یا چٹیل پہاڑ۔‘‘
اور یہی بات، یہی انداز مجازؔ نے اپنے ترانے ’’ نذرِ علی گڑھ ، میں اپناتے ہوئے کہا:
یہ میرا چمن ہے ، میرا چمن، مَیں اپنے چمن کا بُلبُل ہوں

جو ابریہاں سے اُٹھے گا، وہ سارے جہاں پر بَرسے گا
ہر جوئے رواں پر بَرسے گا، ہر کوہِ گراں پر بَرسے گا
ہر سروسمن پر بَرسے گا ، ہر دشت و دَمن پر بَرسے گا
خود اپنے چمن پر بَرسے گا، غیروں کے چمن پر بَرسے گا
ہر شہرِ طرب پر گرجے گا، ہر قصرِ طرب پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ بَرسے گا، یہ ابر ہمیشہ بَرسے گا

اندازِ فکر و اندازِ بیان میں کوئی فرق نظر آتا ہے؟ نہیں! پاکستان بنا تو برِصغیر سے بہت سے مسلمان ادیب اور شاعر یا غنائی شاعر ہجرت کرکے اِدھر آگئے۔ دلچسپ بات یہ کہ اَسرار الحق مجازؔبھی آئے مگر یہاں ٹِک نہ سکے۔ انہیں اپنا وطن یاد آتا تھا۔ سال سوا سال بعد ہی بارہ بنکی لوٹ گئے۔ ذہن خوش مزاج اور دماغ حاضر جواب پایا تھا۔ اُن کے بڑے بڑے لطیفے اِتنے مشہور و مقبول ہوئے کہ انہیں لطیفے کے بجائے ’’ مجازیئے‘‘ کہا جانے لگا۔ مجازؔکے مجموعۂ کلام ’’ آہنگ‘‘ کا اوّلین ایڈیشن 1947ء میں نوزائیدہ پاکستان کے شہر لاہور سے ’’ نیا ادارہ‘‘ نے شائع کیا تو اُس کا دیباچہ فیض احمد فیضؔ نے لکھا تھا۔ اُن ہی دنوں کسِی گفتگو میں فیضؔ صاحب نے مجازؔسے پوچھ لیا، ’’مجازؔتم لاہور میں ہو۔ کہو کیسا لگا یہ شہر؟‘‘
اِس پر مجازؔنے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’فیضؔ صاحب شہر تو اچھا خوبصورت ہے مگر یہاںپنجابی بہت ہیں۔‘‘
 پاکستان میں مختصر سے قیام کے بعد مجازؔہندوستان لوٹ گئے۔ اِس دوران میں کراچی میں اُن کی ملاقاتیں ڈاکٹر ابوالخیر کشفی سے بھی رہیں۔ کشفی صاحب سے مَیں نے گوپڑھا تو نہیں لیکن وہ دمِ واپسیں تک، مَیں پاکستان میں رہا یا پاکستان سے باہر، مجھے اپنا شاگردیا دوست ہی سمجھتے اور لکھتے رہے۔ اُن کی دوستی میں بھی بزرگانہ   ّمحبت جھلکتی تھی۔ اُدھر مجازؔاپنے پاگل پن اور دیگر تکلیف دہ امراض سے گزرتے ہوئے بالآخر سفرِ عدم آباد پَرروانہ ہوئے تو پاکستان، خصوصاً کراچی میں ماہنامہ ’’افکار‘‘ کے مدیر صہبا لکھنوی نے جان توڑ محنت کرکے ’’مجازؔ-ایک آہنگ‘‘ کے عنوان سے 1958ء میں750صفحات پر مشتمل ضخیم کتاب شائع کی جس میں مجازؔکی زندگی کے ہر پہلو کااحاطہ کیا گیا تھا۔ یہ کام دیکھا جائے تو کسِی ادارے کے کرنے کا تھا جو ایک منحنی سے ادیب نے کردکھایا۔ ہندوستان میں مجازؔپر کیا کچھ کہا یا لکھا گیا، یہ نہیں معلوم،اِس لئے کہ دونوں ملکوں کے درمیان، بدقسمتی سے، تعلقات ’’ڈاکیانہ ‘‘ رہے ہوں یا ’’بالمشافہ‘‘، خراب ہی رہے۔


ابوالخیر کشفی صاحب زندگی بھر اپنے آپ کو ’’ خانقاہی صوفیانہ فَضا‘‘ میں رہنے والا ادیب کہتے اور کہلاتے رہے ( اِس عرصے میں اُن کا انتقال ہوچکا ہے۔) اُن کے بقول مجازؔکی شخصیّت اِس قدر دلچسپ ، منفرد، چٹیلی اور بھرپور رہے کہ اُس کا ذِکر کہیں سے بھی شروع کیا جاسکتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے:
اقبالؔ نے اپنے ایک شعر میں اللہ میاں سے تَمنّا کی:

ع کبھی اے حقیقتِ منتظر نظر آ لباسِ مجاز میں

اور اللہ میاں نے اَسرار الحق مجازؔکوپیدا کردیا۔ مجازؔکی شاعری نے اردو ادب کوکیا دیا؟ … یہ ایک لمبی کہانی ہے جس کے مختلف ٹکڑے سجاّد ظہیر،فیضؔ ، عزیز احمد اور دوسرے نقاّد کہیں کہیں سے ہمیں سُنا چکے ہیں… اب کچھ حصّہ ہندوستان میں شائع شدہ کتاب ’’ علی گڑھ سے علی گڑھ تک‘‘…
ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ فانیؔ کی طرح مجازؔنے بھی اپنے لوحِ مزار کے کتبے کے لئے اپنا ہی ایک شعر منتخب کیا ہوا تھا:
فانیؔ نے کہا تھا، جو اُن کی زندگی پر مکمل ترین تبصرے کے مصداق ہے:

؎ اِک عمر پرستارِ شبِ ہِجر رہا تھا
  اے زلفِ سَیہ! ماتمِ فانیؔ میں بِکھر جا

اور مجازؔکہہ اُٹھے تھے:

؎   اب اِس کے بعد صبح ہے اور صبحِ نو مجازؔ
  ہم پر ہے ختم شامِ غریبانِ لکھنؤ

آیئے ذراسی دیر کے لئے پھر مجازؔمرحوم کی باتیں کرلیں کہ اُن کا نام علی گڑھ سے چِپکا ہوا ہے۔ اُسے الگ کرنا آسان نہیں۔ بات ’’علی گڑھ سے علی گڑھ تک ‘‘ کی ہورہی ہے۔

مجازؔمرحوم علی گڑھ کے پڑھے ہوئے تھے اور بقول شخصے علی گڑھ کی رگ رگ سے واقف تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی نظم ’ میرا چمن‘ میں علی گڑھ کی صحیح تصویر کو پیش کردیا ہے۔ وہ چاہے ’ناہید‘ سے سرگوشی کریں یا ’پروین‘ سے رشتے جوڑیں۔ یا قبائیں نوچیں یا ذرّات کے بوسے کے لئے آکاش کو زمین سے اُتاریں، وہ اُن سب میں علی گڑھ کے کردار کو نمایاں کرتے ہیں۔ یہ سب استعارے ہیں۔ علی گڑھ والوں کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی کمزوریوں پر بھی ناز کرتے ہیں چنانچہ یہ یونیورسٹی کا ترانہ بن گیا۔ اشتیاق محمد خاں بھی علی گڑھ کے دیوانے تھے۔ انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی لیکن ترانے کی وہ دُھن بنادی کہ نوشاد اور خیّام بھی چاہیں تو نہیں بناسکتے اِس لئے کہ یہاں موسیقی کافن جاننا اِتنا ضروری نہیں جتنا علی گڑھ کو جاننا ضروری ہے۔ اور اشتیاق صاحب نے تو علی گڑھ میں پڑھابھی اور پڑھایا بھی۔
بات مجازؔمرحوم کی تھی کہ وہ علی گڑھ کے عاشق بھی تھے اور معشوق بھی۔ کتب پبلشرز نے نئے ادیبوں پر کتابچوں کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا نام تھا ’’نئے ادیبوں کا معمار۔‘‘ اِس سلسلے میں عصمت چغتائی نے مجازؔکاخاکہ لکھا تھا جس میںانہوں نے اِس واقعہ کا ذِکر کیا تھا کہ گرلز کالج کی لڑکیاں مجازؔپرجان چھڑکتی تھیں اور اُن کے نام کا قرعہ ڈالا کرتی تھیں کہ کس کی شادی مجازؔسے ہوگی۔ یہ اُن لڑکیوں کا محبوب مشغلہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علی گڑھ کے کمرے کمرے سے مجازؔمرحوم کی نظم ’آوارہ‘ کے مصرعے سُنائی دیتے تھے۔ یہ غالباً1946ء کی بات ہے۔ مجازؔنے بھی یہ کتابچہ پڑھا اور اُس کے بعد اُن سے میری ملاقات الہ آباد ریلوے اسٹیشن پر ہوئی۔ وہ بمبئی سے آرہے تھے۔ مجھ سے دریافت کیا، ’’ تم نے عصمت کا مضمون پڑا؟ ‘‘ مَیں نے کہا،’’ہاں…بہت اچھا ہے۔‘‘
کہنے لگے، ’’ ارے میاں! اِس المیہ پر نظر نہیں پڑی کہ ’’ میرے نام گرلز کالج کی لڑکیاں قرعے ڈالا کرتی تھیں اور سُنو عصمت بھی اُن قرعوں میں شریک ہوتی تھیں… لیکن ٹریجڈی یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے نام کے قرعے پڑتے تھے اور دوسری طرف ہم لڑکی کی شکل دیکھنے کو تَرستے تھے۔ یہ لڑکیاں واقعی ظالم ہوتی ہیں۔ عشق ہم سے کرتی ہیں اور شادی شاہد لطیف سے۔‘‘
اردو شاعری میں غالبؔ کے بعد مجازؔہی تھے جن کے لطائف زبان زدِ عام ہیں۔ مجازؔحاضرجواب تھے۔ زبان سے بات نکلی اور انہوں نے جملہ چُست کیا۔ ایک روز مَیں اُن کے ساتھ چاندنی چوک سے گزررہا تھا۔ اتوار کا دن تھا۔ چاندنی چوک کی دکانیں بند تھیں۔ ایک دکان پر بہت ہی بڑا تالا لگا ہوا تھا۔ مَیں نے کہا ، ’’ مجازؔصاحب یہ تالا دیکھئے۔‘‘
مجازؔمرحوم نے مڑ کر دیکھا اور بولے، ’’ میاں یہ تالا ہے… یا اللہ تعالیٰ؟‘‘
مجازؔچوکتے نہ تھے زبان پر آیا ہوا لفظ کبھی واپس نہ لیتے تھے اور جہاں تک مجھے معلوم ہے کسِی کو مجازؔسے شکایت بھی نہیں ہوئی۔ جن لوگوں نے مجازؔکوقریب سے دیکھا ہے، وہ جانتے ہیں کہ اُن کا منھ بہت چھوٹا تھا۔ مجازؔکہا کرتے تھے کہ ، ’’ بھائی یہی تو بات ہے کہ مَیں بڑی بات کرتا ہوں۔‘‘
مجازؔمرحوم الہ آباد آئے ہوئے تھے۔ یہ زمانہ وہ تھا جب بقول خود مجازؔکے:

الہ آباد میں ہر سُو ہیں چرچے
کہ دِلّی کا شرابی آ گیا ہے

ایک روز ہمارے دوست محمد علی اور اُن کے بھائی محمد عمر کی شادی تھی۔ محمد عمراب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اکائونٹس آفس میں کام کررہے ہیں۔ انہوں نے مجازؔکو بھی دعوت دی تھی۔ اُس وقت محمود احمد ہنر، ڈاکٹر سیّد اعجاز حسین، مظفر شاہ جہانپوری، مسعود اختر جمال، کتابستان کے انور اللہ خاں اور الہ آباد کے بہت سے ادیب و شاعر جمع تھے۔ چنانچہ ہم لوگ نکاح کے بعد دستر خوان پر بیٹھے تو مجازؔنے اشارے سے محمد عمر کو بلایا اور بولے۔

’’یہ اللہ میاں کی ذمّہ داری آپ نے کب سے سنبھال لی ہے؟‘‘

محمد عمر بھونچکارہ گئے۔ کہنے لگے ، ’’ مَیں نہیں سمجھا۔‘‘
مجازؔبڑی سنجیدگی سے بولے، ’’ اِس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ یہ تو آپ کو بھی معلوم ہے کہ رِزق کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آپ کیوں ’دخل درما کولات‘ کررہے ہیں، اُس نے پلانے کا وعدہ نہیں کیا ہے۔ اپنے بندوں پر چھوڑ دیا ہے۔ آپ اُس کا انتظام کریں تو بات ہے۔‘‘ 
محمد عمر کے یہ بات سمجھ میں آگئی اور انہوں نے اپنا فرض پورا کیا۔
ہاںتو مَیں کہہ رہا تھا کہ مجازؔمرحوم برابر علی گڑھ آتے رہا کرتے تھے۔ خورشیدالاسلام صاحب کے کمرے میں90نمبر آفتاب ہوسٹل میں اُن کی محفلیں جمتیں۔ وہاں سے جب وہ شام کو اُٹھتے تو میکڈانلڈ کی پُلیا کے پاس سڑک کے اُس پار آکر بیٹھ جاتے، جہاں اب سائیکل والے کی دکان ہے۔ امپلائمنٹ ایکس چینج کے پھاٹک کے سامنے۔ یہاں ایک بوڑھے کی جھونپڑی تھی۔ یہ بوڑھا جاڑے میں کباب بناتا اور گرمی میں آئس کریم۔ کبھی کبھار وہ چائے بھی بنالیتا۔ مجازؔمرحوم یہاں پابندی سے آتے اور اُس کی ٹوُٹی ہوئی کرسی پر بیٹھ کر آئس کریم کھاتے اور چائے پیتے اور حُقّے کے کَش لگاتے۔ ہم لوگ بھی اُن کے ساتھ ہوتے۔ مجاز گرمی کی شام میں وہاں بیٹھ کر وہ لطف لیتے جو شاید اشو کاہوٹل میں بھی لوگوں کو لینا نہ آتا ہوگا۔ کوئی اگر پوچھتا کہ ، ’’مجازؔصاحب کیا ہورہا ہے۔؟ ‘‘تو وہ برجستہ کہتے:

’’بھئی کیفے ڈی پھوس میں بیٹھے محقّق ہورہے ہیں۔‘‘ اِس میں کئی رعایتیں تھیں۔ مجاز حُقّے کی رعایت سے اپنے کو محقّق کہا کرتے تھے۔ اور کیفے ڈی پھُوس اِس لئے کہ بڈھے کی جھونپڑی پر پھُوس پڑا ہوتا تھا۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ نام مجازؔمرحوم کا دیا ہوا ہے۔ دراصل اُس زمانے میں شمشاد کی اسماعیلیہ بلڈنگ میں کیفے ڈی جمیل تھا جس میں ابھی چند روز پہلے نواب صاحب کا سیون اسٹار تھا جواب دوائوں کی دکان میں تبدیل ہوگیا ہے۔ تو بھئی اُس زمانے میں علی گڑھ میں کیفے ڈی جمیل کی دھوم تھی لیکن مجازؔمرحوم نے کیفے ڈی پھُوس کو بھی چلا دیا تھا۔ پھر1947ء میں جب آزادی کا زمانہ آیا، سارے ہندوستان میں اُتھل پُتھل ہوگئی اور جب اُس کے بعد یہ محفل پھر جمی تو کیفے ڈی پھُوس کی مارکیٹ ویلیو بھی بڑھ گئی تھی اور ممتاز ہائوس کے داہنی طرف ڈاکخانے کے پیچھے ایک پکی عمارت نے یہ نام لے لیا اور اب تو اس نام کی خاصی قیمت ہے۔
****




No comments:

Post a Comment