قدر دانیِ عالمِ بالا… - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Friday 10 January 2020

قدر دانیِ عالمِ بالا…

0 comments
(نوشابہ صدیقی کی کتاب کلامِ اشرف، کمالِ حسن کا پیش لفظ)

رشید بٹ

فون کی گھنٹی بجی۔نمبر کچھ نامانوس سا تھا۔ کون ہوسکتا ہے؟ مَیں سوچ رہا تھا اور گھنٹی تھی کہ بجے چلی جارہی تھی۔ مَیں نے فون اٹھالیا۔
’’میری نئی کتاب کا ٹائٹل بنا دو فوراً۔‘‘ نسوانی آواز میں کسی ’’تھانیدارنی‘‘ یا ہائی اسکول کی ’’ہیڈ ماسٹرنی‘‘ کا سا کھڑکا تھا۔ مَیں سمجھ گیایہ کون ہوسکتی ہے۔
’’سلام نہ دعا ۔ چھوٹتے ہی حکم لگادیا۔ تمہاری کئی کتابیں اب تک چھپ چکی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ مَیں بھی یہی گھاس کھودتا ہوں، مسوّدہ بغل میں دبا، مجھ ایسے گئے گزروں کی آنکھ بچا،پتلی گلی سے دَرشنی پبلشروں کی طرف نکل جاتی ہو۔ میرے حسابوں تو تمہاری نئی کتاب کوئی چھ مہینے پہلے چھپ جانی چاہیے تھی ۔اب کیا باڑھ بندھ گئی؟‘‘
’’دیکھو! بہت بول چکے۔ مَیں جو کہہ رہی ہوں بس وہ سنو۔سمجھے! بس میں کل آرہی ہوں تمہارے دفتر۔ سر پر سوار ہوکے بنوائوں گی ٹائٹل۔ اب اگر کچھ بولے تو ابھی آکے اتنا چیخوں گی کہ تمہارا ’’ماتحت عملہ‘‘ بھی گڑ بڑا جائے گا۔ مت بھولو کہ پینتالیس برس سے تم میرے جونیئر ہو، عمر میں بھی اور یونیورسٹی میں بھی۔‘‘
یہی تُرپ کا  ّپتا توہے تمہارے پاس کہ ڈھیر کرکے اپنے لیے ادب و احترام کا پھریرا لہرا دیتی ہو۔ ہاں بھئی ،  ُتوتڑاک کے باوصف تمہارا ادب اور احترام سر آنکھوں پر ۔دیکھو کل آنا تو لوڈ شیڈنگ کا شیڈول سامنے رکھ کر ۔ ہمارے ہاں سہ پہر میں بجلی ہوتی ہے۔ اگلے روز دونوں میاں بیوی آگئے۔ مَیں نے انہیں کمپیوٹر پر ڈیزائنر کے ساتھ بٹھادیا۔ گھنٹے بھر میں اُن کی مرضی کا ٹائٹل تیار ہوگیا۔ کلر پرنٹ کے ساتھ CD میں کاپی کردیا کہ اب لے جائو۔’’یہ تمہاری نئی زیر ِطبع کتاب‘‘ کا ’’ناخدا‘‘ ہے۔ اب تو کشتی کنارے لگ جانی چاہیے۔‘‘
یہ نوشابہ صدیقی تھیں (بلکہ ہیں) ۔نوشابہ میری سینئر یوں بنیں کہ جب مَیں نے 1966 ء میں کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ صحافت میں داخلہ لیا تو وہ ایک ایم اے کرچکی تھیں اور دوسرے کے لیے مجھ سے ’’چند روز‘‘پہلے شعبۂ صحافت میں داخلہ لے چکی تھیں۔ مَیں چوں کہ روزنامہ جنگ کراچی میں سٹی پیج کے انچارج کی حیثیت سے باقاعدہ ملازمت کررہا تھا لہٰذا کچھ دن اِس سوچ بچار میں گزر گئے کہ یونیورسٹی میں باقاعدہ داخلہ لوں یا ایکسٹرنل اسٹوڈنٹ کے طور پر۔ اس وقت پاکستان بھر میں کراچی یونیورسٹی ہی واحد یونیورسٹی تھی جہاں ایکسٹرنل داخلے کی سہولت موجود تھی اور اِسی سہولت سے فیض یاب ہونے کے لیے مَیں نے راولپنڈی سے کراچی ’’ہجرت‘‘ کی تھی۔ اِس سے قبل تین یا چار سال کی عمر میں، خواب کی مانند یاد ہے کہ   ّجموں سے سیالکوٹ تک لگ بھگ 27 میل کا ایک  ُپل صراط ، جس کے نیچے خون کا دریا بہہ رہا تھا، پار کرتے ہوئے پہلی ہجرت کی تھی۔ یہ طویل جملہ ٔ معترضہ بیچ میں کہاں سے آن ٹپکا؟ مَیں توبات کررہا تھا سنیارٹی کی۔ مَیں نے نوشابہ کو ہمیشہ سینئر اور محترم جانا اور اُس نے بھی اپنے بڑے پن کے دُلار میں کمی نہیں آنے دی۔ ویسے اس کے دُلار میں تیرے میرے کی کوئی تخصیص نہیں۔ وہ 45 سال پہلے بھی بنی بنائی ’’امّاں‘‘ تھی اور آج بھی ہے۔ کسی کا کوئی مسئلہ ہو، کوئی اُڑ چن ہو۔ اُس سے نمٹنے یا نمٹانے میں ہمیشہ آگے آگے۔ مَیں اُس زمانے میں پاکستان کے ’’دوست‘‘ کمیونسٹ ملک چین کے لیے یہاں ترجمے کا کام کرتا تھا۔ کسی کمیونسٹ ملک سے رابطہ رکھنے کے ’’جرم‘‘ کی ’’پاداش‘‘ میں نگراں امتحان نے کسی ’’بڑے ‘‘ کے بنے بنائے پلان کے تحت میری کاپی چھین لی۔ تب سارے ہی کلاس فیلو میری حمایت میں کھڑے ہوگئے۔ مَیں کیسے بھول سکتا ہوں کہ اُس وقت طاہرہ اور نوشابہ نے شیخ الجامعہ تک پہنچ کر میری بے گناہی کیسے کیسے نہ ثابت کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جو میری طالب علمی کے زمانے کا نہ بھولنے والا واقعہ بن گیا، آج تک اپنے پن کا یہ احساس مجھے سرشار رکھتا ہے۔ نوشابہ سے جلدی جلدی ملاقات نہ بھی ہو مگر جب بھی ہم ملتے ہیں وقت سمٹ جاتا ہے۔ قربت بڑھ جاتی ہے اور محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگتا ہے۔مجھے یونیورسٹی سے دو سال کے لیے نکال دیا گیا تو چینی یہاں سے اٹھا کے  پیکنگ(بیجنگ) لے گئے اور مَیں نے وہاں آتے جاتے لگ بھگ 16 سال بِتا دیئے۔
دوسرا فون مہینہ بھر پہلے آیا۔ اُسی چیخ پکار کے ساتھ۔
’’اب کیا ہوا۔‘‘ مَیں نے ہمیشہ کی طرح دھیرج سے پوچھا۔اور وہ ہمیشہ کی طرح نامہربانی کے سے انداز میں بولی۔’’تم پر احسان کرنے آرہی ہوں۔ اپنی نئی پرانی ساری کتابیں تمہیں دوں گی۔ تمہیں بھی کیا؟ بھاوج کو دینی ہیں۔پڑھنا لکھنا آتا تب تمہیں بھی دے دیتی۔ ‘‘
اِس سے پہلے کہ مَیں احتجاج کرتا، اُس نے فون بند کردیا۔
ایک بات کہوں۔ نوشابہ رشتوں اور دوستیوں کی پیاسی ہے۔ میری بیوی حمیرا اطہر خود ایک معروف صحافی ہے۔ اور دونوں میں پرانی شناسائی بھی ہے۔ لیکن نوشابہ اُسے کبھی نام سے نہیں پکارتی۔ ہمیشہ بھاوج کہتی ہے۔ اُسے یہ رشتہ اچھا لگتا ہے۔ اُس کی تحریریں دیکھیں تو ایسی بات بھی نہیں ملتی کہ اُسے ددھیالی ننھیالی رشتوں سے کوئی زک پہنچی ہو۔ بس یوں لگتا ہے اِس ناتے سے اُس کی پیاس گویا چھلنی کی پیاس ہے۔ حمیرا اطہر کے فکاہیہ کالموں کی کتاب ’’بات سے بات‘‘ چھپی۔ اُس کی تقریبِ پذیرائی ہوئی۔ کچھ عرصے بعد اکادمی ادبیاتِ پاکستان کے آغا نور محمد پٹھان کی طرف سے فکاہیہ نثری اور شعری تخلیقات پر انعامی مقابلے کا اعلان ہوگیا۔ حمیرا نے بھی اپنی کتاب بھیج دی۔ مہینوں بیت گئے۔ سب بھول بھال گئے تھے کہ اکادمی کی طرف سے نتائج کے حوالے سے تقریب کی تاریخ کا اعلان کردیا گیا۔ یہ باسی کڑھی میں گویا اُبال تھا۔ بہت  َہڑک اٹھی نتائج جاننے کی لیکن ناکامی ہوئی۔ تقریب میں گئے تو اعلان ہوا کہ ’’بات سے بات‘‘ کو بہترین تخلیق قرار دیا گیا ہے۔ ججوں میں ذاکر علی خان، کلیم چغتائی اور نوشابہ صدیقی شامل تھے! اوّل تو اُن ناموں تک ہماری پہنچ ہی نہ تھی، دوسرے ، یہ گمان تک نہ تھا کہ نوشابہ بھی ایک جج ہوں گی۔ یہ اُس کی فرض شناسی ، رازداری اور راست بازی کا منہ بولتا ثبوت تھا ورنہ ، اعزاز تو دُور  کی بات ۔ ملتا نہ ملتا مگر احسان لاد لاد کر اَدھ موا کردیاجاتا۔ اور شہر میں ڈھنڈورا الگ پیٹا جاتا۔ اِرد گرد تو ہم نے ایسا ہی ہوتا دیکھا ہے۔ مگر یہاں تو نہ پہلے نہ آج تک ایسا ہوا کہ اس واقعے کو کسی ملاقات میں بھی اُس نے دہرایا ہو۔ یہ بھی نوشابہ کے مزاج کا بڑا مثبت پہلو ہے۔

اگلے روز بھاری بھرکم ’’جہازی‘‘ سائز کا ایک لفافہ اٹھائے نوشابہ واقعی میرے دفتر آگئی۔ اُس کے ہمزاد نثار اختر بھی ساتھ تھے اور اُنہوں نے دوسرا لفافہ سنبھال رکھا تھا۔ پہلے تواُس نے اپنی چاروں کتابیں میرے اور حمیرا کے نام آٹو گراف کے ساتھ دیں اور پھر بھاری بھرکم لفافے سامنے رکھ دیے۔ اُن میں نوشابہ کی دادی اشرف النّساء کا کلام تھا۔ دو ڈھائی سو صفحات پر پھیلا حمد و نعت اور منقبتوں کا مجموعہ ، جسے بڑے اہتمام کے ساتھ صاف ستھری تحریر میں نقل کیا گیا تھا۔مَیں مسوّدے کی ورق گردانی کررہا تھا اور وہ تھی کہ کسی کامے، فل اسٹاپ کے بغیر مسلسل بولے جارہی تھی۔ ہدایات اور احکامات کا دریائے  ُپرشور، جھاگ اُڑاتا بہہ رہا تھا۔ ’’کوئی کاغذ اِدھر اُدھر نہیں ہونا چاہیے۔ کچھ کھو نہ جائے۔ کمپوزنگ میں اُلٹ پھیر ہوا تو سمجھو پٹ جائو گے میرے ہاتھ سے … ‘‘ایک تو اُسے پیٹنے کا بہت شوق ہے۔ ماسٹر نی جو ٹھہری۔
مَیں نے ڈرتے ڈرتے پوچھ لیا،’’پَر یہ تو بتائو کہ اب تک جن سے یہ کتابیں چھپوائی ہیں ، اُن ہی کے ہاں یہ نیا مسوّدہ کیوں نہ لے کے گئیں؟
 ’’ایک تو تم غیر ضروری بات ضرور کرتے ہو۔ ‘‘وہ غرّائی۔ ’’مَیں جو کہہ رہی ہوں وہ سنو اور جو کہہ رہی ہوں وہ کرو ورنہ…‘‘
اُس کے آگے بولنے سے پہلے ہی مَیں بول پڑا۔’’ ورنہ پٹو گے میرے ہاتھوں ۔‘‘
وہ ہنستے ہوئے بولی۔ ’’کچھ کچھ سمجھ دار ہوگئے ہو۔‘‘
’’ اس کی کمپوزنگ کب تک ہوجائے گی۔ کچھ اور میٹر بھی ہے۔‘‘اب سوال میں مبہم سا گریز بھی تھا۔
’’مَیں پہلے مسوّدہ اچھی طرح دیکھ تو لوں۔ جب کمپوزنگ ہوجائے گی تو تمہیں فون کردوں گا۔ پیٹنے کی  َتڑی اتنی بار لگا چکی ہو کہ  ُپھونک  ُپھونک کر قدم اٹھانا پڑیں گے ورنہ لوگ تو یہی دیکھیں گے ناں کہ ایک بوڑھا آگے آگے دوڑے جارہا ہے اور ایک بڑی امّاں لٹھیا لیے پیچھے پیچھے ہے۔ہاں دوڑنے پہ یاد آیا کہ جب سے سرجنوں نے میری بائیں ٹانگ سے جسم کا ایک ’’فاضل پرزہ‘‘ یعنی نس نکال کے دل کی نسوں کو ’’رفو‘‘ کیا ہے، مَیں اچھی طرح دوڑ بھی نہیںلگا سکتا۔ اس سارے مکالمے کے دوران نثار اختر مسکراتے جارہے تھے اور حسب ِ ضرورت اور حسب ِ توفیق ’’آگ لگاتے نہ چلو‘‘ ایسیکیفیت میں لقمے دیتے جارہے تھے۔
’’اچھا بہت ہوگیا۔ اب مجھے کام کرنے دو۔ اگر دادی کی کتاب چاہیے تو۔‘‘اور وہ چل دیئے کہ اب میں فون کروں گا۔میرے ساتھ سب سے بڑی مصیبت تو یہ ہے کہ کوئی کتاب چھپنے کو آجائے تو مَیں فوراً کرسی بدل لیتا ہوں۔ ’’خالص‘‘ پر نٹر پبلشر کی کینچلی جھاڑ ’’ایڈیٹری‘‘ کا چولا پہن لیتا ہوں کہ یہ فطرت ِ ثانیہ بن چکی ہے۔ یہیں سے تاخیر کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک مہینے میں ہونے والی ’’آمدنی یا بچت‘‘ جب تین مہینے پر پھیل جاتی ہے تو آخر آخر اپنے ساتھ ہی یہ ہاتھ ہوجاتا ہے کہ کچھ پلے سے لگانا پڑ جاتا ہے اور دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ بہت کھاکما گیا۔ مشتاق احمد یوسفی کے عبرت نشان مضمون’’صبغے اینڈ سنز‘‘ میں کتب فروش کی جگہ پرنٹر پبلشر کو رکھ کے بلکہ کاغذ پہ لکھ کے ہزار بار پڑھا ہوگا کہ شاید’’تبدیلیٔ آب و ہوا‘‘ کی طرح ’’طور اطوار‘‘ میں کایا کلپ ہوجائے۔ لیکن بڑھاپے میں عادتیں کہیں  ُچھٹتی ہیں؟ ہمارے پاس تو دفتر کا بورڈ بھی نہیں کہ سات روپے مزدوری دے کر گھر لائیں اور اگلے روز سوا روپے میں کباڑیے کے ہاتھ بیچ دیں۔
مسوّدہ خواہ کتنے ہی بڑے لکھاری کا ہو۔ ہر مشکوک لفظ پر اٹک کر لغت کھنگالنا شروع کردیتا ہوں۔ دیر تو پھر ہوگی ہی۔ نوشابہ میری اِس عادت سے خوب واقف ہے۔ جب ہی تو اُس نے میرا نام ’’کیڑا‘‘ رکھا ہوا ہے۔ محفل ہو یا محض آمنے سامنے والی ملاقات مجھے بس یوں ہی پکارتی ہے۔ ’’کیڑے‘‘ میں جارہی ہوں۔ وہ ایک دم سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ساری لغت کو آگ لگادینا۔ اور جو مسوّدہ مَیں نے دیا ہے جوں کا توں چھاپ دینا۔ دیر ہوئی تو دیکھ لوں گی۔ وہ یہ جا اور وہ جا۔مَیں پھر بھی حسب ِ عادت مسوّدہ لے کر بیٹھ گیا اور اب تک بس اُسے ہی لیے بیٹھا ہوں۔ لغت بھی سامنے ہے۔ ہاں جب وہ آتی ہے لغت   ُچھپادیتا ہوں۔
مَیںنے دادی اشرف النساء کا کلام جو کھنگالنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ اشرف النساء تو ’’چیزے دیگری‘‘ ۔ یہ کلام کی زبان ، اُردو ، پوربیابولی، آج متروک اور قدیم سمجھے جانے والے الفاظ کا بے دریغ استعمال، رواں بحریں،مترنّم ردیف قافیے ، اسالیب، صنعت ِ لفظی اور رعایتِ لفظی، ضرورت ِ شعری سب کے ڈانڈے بیسویں صدی کے زمانۂ اوائل سے جا ملاتے ہیں۔ اُس دور کی ایک نیم پڑھی لکھی گھریلو خاتون کا ذخیرۂ الفاظ، صنائع بدائع ، اُردو کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی الفاظ کا برمحل، باموقع اور بامعنی استعمال ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ انگریزی میں اِتنی شُد بُد تھی کہ حروف ملا کر تار پڑھ لیتی تھیں کہ اُس زمانے کا یہی تیز ترین وسیلہ ٔ   اظہار تھا۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیاکہ بسا اوقات جذب وارادت کے تصّرف نے اُنہیں بحر، وزن اور الفاظ کی جکڑ بندیوں سے ماوراء کرکے پٹری سے اتار دیا۔ کہیں تو یوں لگتا ہے گویا کوئی پٹھانی یا پٹھان اُردو میں نعت کہہ رہی یا کہہ رہا ہے۔ مثلاً



بخت خوابیدہ میرا سوتا تھا
آج بگڑی بنا دیا کس نے؟

بگڑی بات بنادینا میں تو مذ  ّکر بندھتا ہے۔لیکن لفظ بگڑی لغت کے حوالے سے مو  ّنث ہے۔ تاہم یہاں اُسے مذ  ّکر باندھا گیا ہے۔ کچھ اور آگے بڑھے۔ جسٹس ایم آر کیانی نے بھی کہ کوہاٹ کے باسی (پٹھان) تھے، ’’پٹھانوی‘‘ اور اُردو شاعری کے کچھ حوالے دیئے ہیں۔ ایک شاعر نے دوسرے سے کہا تم لفظ ’’سڑک‘‘ پر ایک مصرع کہو مَیں اُس پر گرہ لگائوں گا ۔ پہلے نے کہا :

ع   سڑک جو کہ جاتی ہے مکّے تڑک

دوسرے نے اعتراض جڑ دیا کہ یہ تو بہت لمبا مصرع ہوگیا اور پھر تڑک غلط ہے ۔یہ تو کوئی لفظ ہی نہیں۔
پہلے نے جواب دیا، ’’جو سڑک   ّمکے تلک جائے گی وہ لمبی ہی ہوگی۔ اور ضرورتِ شعری سے تلک کو تڑک کردینا جائز ہے‘‘۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی کتاب ’’لکھنؤ کا دبستانِ شاعری‘‘ کو کھنگالا تو اندازہ ہوا کہ بعض شعراء نے تذکیر و تانیث کی تخصیص نہیں رکھی۔ یہی بات مولانا محمد حسین آزاد نے آبِ حیات میں بھی کہی ہے۔ 1864ء میں پھرتے پھراتے لاہور پہنچے تو بڑی کوششوں کے بعد اُنہیں سرشتہ ٔ تعلیم میں پندرہ روپے ماہوار مشاہرے کی نوکری مل گئی۔ انگریز میجر فلر محکمے کے ڈائریکٹر اور علوم السنہ شرقیہ سے کمال ذوق رکھتے تھے۔ ایک دن اُنہوں نے لفظ ’’ایجاد‘‘ کو مونث لکھا جس کی تذکیر و تانیث کے متعلق اُنہیں کچھ شبہ تھا۔ اپنے ایک ماتحت پیارے لال آشوب سے اُس کی سنَد تلاش کرنے کو کہا۔وہ مولانا محمد حسین آزاد کے پاس آگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مولانا شہرت ِ عام اور بقائے دوام کا دربار سجانے اور اُس کے ساتھ ساتھ اپنے سر پر بقائے دوام کا تاج سجوانے کا شاید خواب ہی دیکھ رہے تھے۔ اُنہوں نے ’’ایجاد‘‘ کو مذکر کہا اور سنَد میں سوداؔ کا یہ شعر بڑھادیا۔

ہائے یہ کس بھڑوے کا ایجاد ہے
نسخے میں معجون زرنباد ہے

میجر فلر نے مولانا کی علمی، ادبی اور شاعرانہ استعداد سے متاثر ہوکر اُنہیں ترقی دی اور مشاہرے میں بھی اضافہ کردیا۔ اِن حوالوں کی روشنی میں ہمیں اشرف النساء کے کلام میں بھی ایسے شعروں کی سنَد مل جاتی ہے۔
لکھنؤ کے قدیم رنگ تغزل کی آخری یادگار کے طور پر اُس دور کے ممتاز شاعر عزیز لکھنؤی (پیدائش1882ء) کا نام آتا ہے۔ اُن سے قبل میرؔ و غالبؔ کے پیرو کار ثاقبؔ لکھنؤی اپنی جوت جگا چکے تھے۔ اُس دور اور ماقبل کے شعرا کا شہرہ پورے برِصغیر میں سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ 1878ء میں گراموفون ایجاد ہوچکا تھا اور بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں بر ِصغیر میں بھی آچکا تھا۔لوک دھنیں بھی جغرافیائی حدود و قیود سے ماوراء ہوکر کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ مذاہب و مسالک میں یگانگی بھی نو بہ نو شاعرانہ تشبیہات، استعارات،   ّتخیلات اور تشبیب کو ہم رنگ و ہم کنار کررہی تھی۔ ایسے میں حمد و نعت اور منقبت کو جو فروغ حاصل ہوا ،اُس میں قصیدہ معراجیہ در نعت ، نویدِ بعثت، سرجوش ِ حرا، نور ِ ہدایت، شمعِ  رسالت، شارع الاسلام، شافعِ روزِ جزا، گنبد ِ خضرا، مناجات، برق ِ  ّتجلی، تصوّرِکعبہ، قطعات اور سلام، حضرت فاطمہ الزہرا  ؓ، درمدحِ حضرت علی ؓ، شہیدان ِکربلا، قافلۂ شہداء، کرب و بلا ، شام ِغریباں ایسی اصناف ِ سخن در آئیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ تصوّف کو بھی ایک نیا آہنگ ملا۔ اسلامی تصوّف اور ہندی  ّتخیل کہ ہندوستان میں رہ کر بھی ہمارے شاعروں کا   ّتخیل عرب کے   بے برگ و گیاہ صحرائوں میں بھٹکتا پھرتا ہے۔ تشبیب میں متھرا، گوکل، کنہیا، گوپیاں،شام اور شیام شاملات میں آگئے ۔ کشمیر کے پہاڑی علاقے کے ایک صوفی شاعر میاں محمد بخش اپنی کتاب ’’سیف الملوک‘‘ میں کہتے ہیں:

لوئے لوئے بھر لَے  ُکڑیے جے تدھ بھانڈا بھرنا
شام پئے بن شام محمد گھر جاندی نیں ڈرنا


(اے لڑکی تجھے پانی بھرنا ہے تو دن دن کی روشنی میں بھر لے۔ شام ہوگئی تو اپنے شام (محبوب) بنا جاتے ہوئے ڈرے گی۔ یہاں اُنہوں نے عالمِ تصوّف کے محبوب کی جگہ شیام یاکرشن مہاراج کو دے دی ہے۔)
اُدھر محسنؔ کا کوروی کی نعتیہ شاعری گو بڑی جاندار ہے، لیکن تشبیب میں کاشی اور متھرا سے وہ بھی دامن نہیں چھڑا سکے۔ یہ شعر گو اُن کی کسی نعت سے نہیں مگر ہندی دیو مالا سے لدا پھندا ہے۔

سمتِ کاشی سے چلا جانبِ متھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے صبا گنگا جل

مولانا سیّد ابوالحسن ندوی ایک مضمون ’’محبوبِ رب العالمین، عقیدت و محبت کے احساسات‘‘میں لکھتے ہیں کہ ’’ہندی مسلمانوں کا سرزمین ِ حجاز اور خاکِ یثرب سے خصوصاً ایسا گہرا تعلق اور روحانی عشق ہے کہ اُن کو وہاں مرنے کی آرزو اور وہاں کی زمین میں دفن ہونے کی تمنّا رہتی ہے۔ا ّنیسویںصدی عیسوی کے ایک مشہور اُردو شاعر کرامت علی شہیدی (انتقال1256 ھ /1835 ء) نے یہاں تک تمنّا کی ہے کہ اگر اُن کی میّت وہاں کی پاک سرزمین میں دفن ہونے کے قابل نہ ہو تو اُس صحرا کے جانوروں ہی کا لقمہ بن جائے۔ اُن کے قصیدے کا ایک شعر ہے۔

مدینے کی زمین کے گر نہ لائق ہو مرا لاشہ
کسی صحرا میں واں کے طمعہ ہوں مَیں دام و دو کا٭

اور شہیدی کی یہ تمنّا پوری ہوئی۔ اُن کا انتقال مدینہ منوّرہ کے قریب ہوا۔
اور سب سے بڑھ کر تو یہ کہ علامہ اقبال بھی اِس (غالباً) نفسیاتی اور جذباتی کیفیت سے دامن نہ بچاسکے۔کہتے ہیں۔

ہوا ہو ایسی کہ ہندوستاں سے اے اقبال
اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہِ حجاز کر دے

٭  جانوراور درندوں کی خوراک
 قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی سوانح ’’شہاب نامہ‘‘ میں بیتی صدی کے چھٹے عشرے کے اوائل میں اپنے پہلے حج کی روداد و کیفیات بیان کرتے ہوئے ایک شعر کا حوالہ دیا ہے۔

اوروں کو دیں حضور یہ پیغامِ زندگی
مَیں موت ڈھونڈتا ہوں زمینِ حجاز میں

اوراِسی حوالے سے اشرف النّساء کہتی ہیں۔

ہند میں رہ نہیں سکتی شہا
اَب بلا لو گھر پرُانا ہو گیا

اشرف النّساء کے حمدیہ، نعتیہ اور مدحیہ مجموعۂ کلام پر ایک نظر ڈالنے کے لیے مذکورہ طولانی تمہید
اٹھانا ضروری محسوس ہوا کہ اُن کے کلام میں جا بجا یہی کیفیات ملتی ہیں، لیکن اِک گو نہ ندرت کے ساتھ ۔ہاں ایک بات اور ذہن میں رکھنا پڑے گی کہ اُن کا کلام، اُن کی زندگی میں یا اس کے بعد کبھی بھی کہیں چھپایا شائع نہیں ہوا کہ کوئی پڑھ کے اُس پر اظہار رائے کرتا۔ اُن کی بیاضیں بند ہوئیں تو بس بند ہی رہیں۔ ہاں سننے میں یہ آیا ہے کہ وہ محافل میں پڑھتی ضرور تھیں۔ ان کے میاں مولوی ابوالحسن اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انڈین ایجوکیشن سروس (IES) کے رکن تھے۔ اس حیثیت میں نہ صرف محکمہ تعلیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے بلکہ کچھ عرصہ ریاست جموں و کشمیر میں ڈیپوٹیشن پر ڈائریکٹر تعلیمات کے طور پربھی گزارا۔ ریاست کشمیر میں وہ زمانہ مہاراجہ ہری سنگھ کے اقتدار کا تھا۔ اور وہی اہم دور تھا جس کے دوران ریاست جموں و کشمیر میں حرّیت کا شعلہ بھڑکا۔ لیکن اس حوالے سے یا جس زمانے میں مولوی ابوالحسن وہاں تعینات رہے، اُن کی کوئی یادداشتیں نہیں ملتیں۔ پاکستان ہجرت کے بعد بھی اُنہوں نے کوئی ایسی تحریر نہیں چھوڑی جس کا تعلق اُن کے قیامِ کشمیر سے ہو۔ یا چھوڑی بھی ہو اور نوشابہ تک نہ پہنچ سکی ہو۔حالانکہ اُنہوں نے یہیں (کراچی میں ہی)1965ء میں انتقال کیا۔ مَیں نے اُن کے قیامِ کشمیر کے حوالے سے اُس دور کی کچھ کتابیں بھی کھنگالیں۔ یہاں تک کہ شیخ محمد عبداللہ کی سوانح ’’آتش ِ چنار‘‘تک (اس مخصوص حوالے سے لگ بھگ دسویں بار) دیکھ ڈالی لیکن کوئی حوالہ نہ ملا۔واضح رہے کہ شیخ عبداللہ کو اپنے تعلیمی مدارج طے کرنے میں بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور دُھن کے پکے اِس فرزندِ کشمیر کو علی گڑھ تک جانا پڑا، جہاں سے ایم ایس سی کیا۔اور اشرف النّساء اور مولوی ابوالحسن کا کنبہ بھی تعلیمی اور علمی حوالے سے علی گڑھ ہی کے گرد گھومتا ہے۔
بہر حال اندازہ یہی لگایا جاسکتا ہے کہ اشرف النّساء اپنا مجموعۂ کلام چھپوانے سے از خود احتراز کرتی رہیں۔ اِس میں اُن کے شوہر مولوی ابوالحسن کا کوئی دوش نظر نہیں آتا۔ اُنہوں نے تو خود اپنے ابّا یعنی اشرف النّساء کے سسر حافظ محمد علی قاری ؔ کا فارسی مجموعۂ کلام ’’کلیاتِ قاری‘‘اُن کے انتقال کے بعد 1931ء میں مسلم یونیورسٹی پریس، علی گڑھ سے چھپوا کر شائع کیا۔ اپنی بیوی کا کلام چھاپنے اور شائع کرنے میں انہیں ’’عار‘‘ کیا تھی؟ نوشابہ کی زبانی مجھے جو معلومات حاصل ہوئیں، اُن کے مطابق تو اشرف النّساء جو شِ آمد میں اکثر ایسے الفاظ بھی استعمال کر جاتی تھیں جن کا مطلب خود انہیں معلوم نہیں ہوتا تھا اور اصلاح اور مسوّدہ صاف کرتے وقت ایسے الفاظ کا مطلب اپنے شوہر مولوی ابوالحسن سے پوچھا کرتی تھیں ۔شاید اِس لیے بھی کہ وہ ایک بڑے علمی گھرانے کی فرد تھیں اور اپنے تئیں اپنی کسی غلطی پر شرمندہ نہیں ہونا چاہتی تھیں۔
اشرف النّساء کے زمانہ ٔ حیات کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اُن کے کلام میں قدماء، اُن دنوں بلکہ دورِ حاضرہ کے بھی حیرت انگیز حد تک مانوس، معروف اور قبولِ عام کا درجہ رکھنے والے مترنّم شعری بول ،ردیفیں اور قافیے ملتے ہیں۔ اُن میں بعض جگہ تو لوک دھنوں کی بازگشت بھی سنائی دیتی ہے۔ اُس کا تجزیاتی نتیجہ تو یہ بھی نکلتا ہے کہ اُنہوں نے ماقبل کے معروف شعرا کا کلام نہ صرف پڑھا بلکہ سنا بھی۔ علاوہ ازیں ، اُس وقت جن بولوں کی گونج سنائی دیتی تھی، اشرف النّساء کے کان اُن سے بھی آشنا ہوتے رہے۔ اُنہوں نے حمد و نعت اور منقبت وغیرہ میں جو بول استعمال کیے، آپ اگر حمد، نعت، مناجات، نذرِ علی، شہیدانِ کربلا یا متفرقات کے عنوانات کے تحت فہرست پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اُن میں بہت سے بول ایسے ہیں جو پچاس ساٹھ برس گزرنے کے باوصف آج بھی مانوس اور کانوں کو بھلے لگتے ہیں۔ اب سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا اُن کا مطالعہ واقعی اتنا وسیع تھا؟ اگر نہیں تو پھر یہ سربسر آمد اور جوشِ حُبّ ِ رب العالمین اور نبیٔ مکرم ﷺ کا پَر تو تھا جو اُن سے اتنا کچھ کہلوا گئے۔اشرف النّساء کے کلام کے مطالعے میںجوں جوں آگے بڑھتے جائیں، وہ ربّ ِجلیل کے معاملے میں’’من  ُتوشدم  ُتو من شدی‘‘ کے مراحل سے گزرتی دکھائی دیتی ہیں۔  اور پھر ایک دور ایسا بھی ملتا ہے جس میں اُن کا کلام آیاتِ قرآنی کے منظوم ترجمے یا مفہوم کے سوا کچھ نہیں !
ایک حمد میں اشرف النّساء جب کہتی ہیں ’’  ُتو میرا ہے مَیں تیری ہوں‘‘تو سورۂ البقرہ کی آیت 138 سامنے آجاتی ہے جس کا ترجمہ ہے ’’اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اُس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہوگا۔‘‘ اسی طرح اُن کے کلام میں قرآن پاک کی سورۂ تحریم، سورۂ ھود، سورہ ٔ الحدید، سورۂ ا  ّلزخرف،سورۂ المنافقون، سورۂ الرّعد، سورۂ التوّبہ، سورۂ یوسف، سورۂ ابراہیم، سورۂ النوّر، سورۂ النّمل ، سورۂ المؤمن،سورۂ الشّوریٰ، سورۂ الممتحنہ ، سورۂ الفجر، سورۂ الاعراف، سورۂ ا   ّلنحل ، سورۂ آلِ عمران،سورۂ یونس ، سورۂ الانبیاء اور سورۂ محمد کی آیات کا واضح یا متشابہات کی صورت میں منظوم اظہار و مفہوم ملتا ہے۔ یہ مَیں اِس سنَد کے ساتھ کہہ رہاہوں کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے اِس  ِکبر سِنی میں مجھے یہ توفیق دی کہ پچھلے تین چار برس سے قرآن پاک کی آیات ِمبارکہ کا اُردو اور انگریزی ترجمہ ہی میرا سرمایہ ٔ حیات بنا ہوا ہے۔ اور اِسی سرمائے کی بدولت مجھے احساس ہوا کہ اشرف النّساء کا مدحیہ کلام قرآنی آیات کے مفاہیم دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔
اشرف النّساء کے کلام میں ایک اور اہم کیفیت سامنے آتی ہے کہ وہ حمد ِباری تعالیٰ سے آغاز کرتی ہیں اور   ّتصوف کے پائیدان پھلانگتی ہوئی وحدت الوجود، وصلِ شہود اور یہ کہتی ہوئی کہ



ع       ہراِک رنگ میں رنگ تیرا ہے پنہاں

’’ہمہ اوست‘‘ کے درجے پر فائز نظر آتی ہیں۔ واعظوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرتی ہیں۔ خود مولویوں کے گھرانے سے ناتا ہونے کے باوصف اپنے اشعار میں مولویوں اور واعظوں کو جھاڑ پلادیتی ہیں۔ حضرت علیؓ، حضرت فاطمہ الزہرا ؓ، اہل ِبیت، قافلۂ کربلا اور شہدائے کربلا کے مرثیے کہتی ہیں تو کہیں تفاوتِ مسلک کا شائبہ تک نہیں ملتا کہ ہر تان بہر حال ذاتِ باری تعالیٰ کی الوہیت پر جاکر ٹوٹتی ہے اور ’’ہمہ اوست‘‘ کا رنگ سر چڑھ کے بولتا ہے۔ مولویوں کو جھاڑ پلانے پر یاد آیا کہ تاریخ ِ حکمرانی یا اقتدار ہمیں بتاتی ہے کہ ایک دور تھا جب مولوی یا ملاّ علمائے دین کا ایک معززعہدہ، لقب یا خطاب ہوتا تھا اور موروثیت میں چلتا تھا۔ بعد کے زمانوں میں جب مسلمانوں پہ اپنے کیے کی سزا میں زوال آیا تو مقتدر قوتوں نے اِس یا اِس جیسے دوسرے باوقار القابات کی بھداڑا کے رکھ دی۔ مولوی اور ملاّ ، ِ بھک منگے اور ملوّٹے بن کر رہ گئے۔ مثال کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انگریزوں نے جب سازشیوں کی مدد سے شیرِ میسور ٹیپو سلطان پر فتح پائی تو اُس فتح کی ’’خوشی‘‘ میں جشن کا اہتمام کیا گیا ۔ رقص و سرود کی محفل سجائی گئی جس میں بیروں، خانسامائوں اور خدمت گاروں کو بالا لتزام ، ٹیپو سلطان کے شاہی لبادے سے مماثل وردیاں پہنائی گئیں۔ مقصد ٹیپو سلطان شہید کو ایک طرح سے بعد از مرگ بے عزت کرنا تھا۔ ایسا ہی گھٹیا برتائو محترم اور معزز عہدوں اور القابات کے ساتھ کیا جاتا رہا۔ اور جو آج تک جاری ہے۔
جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے،وہ ہندوستان سے نکلنے کی ہَڑک،  ّمکہ و یثرب میں رہنے کی حسرت اور حجِ بیت اللہ کی َللک کاواشگاف الفاظ میں اظہار کرتی تھیں۔ساتھ ہی وہاں کے حکمراں خانوادے کے بارے میں تحفظات کا برملا ذکر کہ اُنہوں نے    ّجنت البقیع میں قبروں کے نشان تک مٹا دیئے تھے۔ حضرت فاطمہ الزہرا ؓ کی قبر کے ساتھ ایسا سلوک انہیں شاق گزرا ۔کہا:

جس کو عزت خود خدا نے دی وہ مٹنے کی نہیں
جو مٹانا چاہے گا خود اُس پر آئے گا وبال

جس سال حجِ بیت اللہ سے سرافراز ہوئیں ، کہتی ہیں کہ 9 لاکھ حاجی تھے۔ حاجیوں کی حالت ِ زار پر ایک نظم میں آنسو بہاتی نظر آتی ہیں۔ حکمراں خانوادے کے بارے میں بہت کچھ لکھا۔ ملاحیاں سنائیں۔ ایسا بیشتر کلام بقول نوشابہ ’’خوفِ فسادِ خلق‘‘ کے سبب تدوین کی زد میں آگیا۔
 اشرف النّساء کے ذخیرہ ٔالفاظ کا پہلے بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہاں ایک بات اور ذہن میں آتی ہے کہ یہ علم ایک گھریلو، خانہ دار خاتون کے لیے وہبی، مبدء فیاض سے ودیعت اور عطائے ر  ّبی ہی ہوسکتا ہے۔ کوئی دوسرا پہلو سجھائی نہیں دیتا۔ اِس پر یہ مثل بھی صادق آتی ہے:

قبول ِ خاطر و لطف ِ سخن خداداد است

اشرف النّساء کے ہاں ہندی، پوربی اور لوک الفاظ کا ذخیرہ بھی ہے اور کلام میں ایسا رنگ بھی ملتا ہے جو بظاہر میرا بائی کے بھجنوں کااثر لیے ہوئے ہے۔
اُن کے’’ جذبہ ٔ دل‘‘ اور ’’ہر چیز مقابل آجائے‘‘ کی ارفع کیفیت میں ایسا زمانہ بھی ملتا ہے جب وہ رات میں سوتے سوتے اچانک اٹھ جاتیں اور آمد کا آغاز ہوجاتا۔ ایسے میں لکھتا کون جائے؟ یہ ذمہ داری اُن کی ایک ’’خاتون غنچہ‘‘ پر عاید ہوئی۔ یہ خاتون غنچہ کون تھیں؟غنچہ کون تھا؟
سوداؔ کا مشہور و ممتاز کردار غنچہ … وہ بے چارہ تو سوداؔ کی ہجوگوئی کے حوالے سے بدنام ہو کے رہ گیا تھا۔
سوداؔ کے سوانح نگار لکھتے ہیں کہ سوداؔ کو جب کسی کی ہجو کہنا ہوتی تھی تو وہ آواز لگاتے تھے،’’ارے غنچے! لا تو میرا قلمدان ذرا مَیں اِس کی خبر لوں۔ یہ مجھے سمجھا کیا ہے۔‘‘ستم ظریفی تو یہ ٹھہری کہ غنچہ سوداؔ کا بڑا چہیتا ملازم تھا اور ہر وقت قلمدان اٹھائے رہتا تھا۔ سوچنے کی بات ہے کہ سوداؔ نے جب بھی کچھ کہنا ہوتا، لکھنا ہوتا یا آمد ہوتی تو غنچہ ہی کو آواز دیتے ہوں گے۔ ’’شہر آشوب‘‘ ایسا شاہکار اُنہوں نے جب قلمبند کیا ہوگا تو قلمدان غنچہ ہی لائے ہوں گے۔مگر غنچہ بیچارے بس سوداؔ کی ہجو گوئی کے تعلق سے ’’بدنام‘‘ ہوگئے۔
اشرف النّساء کے دورِ تخلیق ِ کلام میں بھی، اچھائی کا پہلو لیے،ایک ’’خاتون غنچہ‘‘ کا سراغ ملتا ہے۔ غالباً اُن کے ’’ہمہ اُوست‘‘والے دور میں عموماً رات گئے یا جب بھی اُن پر آمد کا جلال طاری ہوتا تھا تو ورودِ شعر اور آب ِ رواں میں کوئی فرق نہ رہتا تھا۔ ایسے میں اُنہیں قلمبند کون کرے؟ یہ قرعۂ فال اُن کی بہو(نوشابہ کی امّاں) کے نام نکلا۔ وہ اسکول کی پڑھی ہوئی تھیں۔ اِملا لے لیتی تھیں۔ اشرف النّساء نے اُن پر یہ پابندی لگادی کہ وہ کاغذ قلم تکیے تلے رکھ کے اُن کے ساتھ والے بستر پر سوئیں۔ اور جب بھی آمد کا آغاز ہو وہ کاغذ قلم نکال، لکھنا شروع کردیں۔ اور عرصے تک یہی ہوتا رہا۔ اگلے روز صبح وہ کاغذ لیتیں اور اپنے کہے ہوئے اشعار کی حسب ِ ضرورت اصلاح کرتیں ۔ تحقیق کی حد تک یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اُنہوں نے کبھی کسی مستند شاعر یا استاد سے اصلاح نہیں لی۔ اردو کے قدیم اور متروک الفاظ کا جابجا برمحل استعمال مثلاً’’ہووے گا‘‘ ، ’’کبھو‘‘ اُن کے اشعار میں ملتے ہیں۔ لفظ ’’چرَیا‘‘ کے بارے میں جو پاگل یا سودائی کے معانی دیتا ہے، عام تاثر یہی ہے کہ زبانوں اور تہذیبوں کے ملاپ یا پچھاڑکے نتیجے میں یہ ایک حالیہ اختراع ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، یہ لفظ اخبار میں پہلے پہل معروف صحافی انعام عزیز نے 1965 ء کی پاک بھارت جنگ کے زمانے میں استعمال کیا۔ اُس وقت لال بہادر شاستری بھارت کے وزیراعظم تھے۔ انعام عزیز صاحب نے یہ کھوج نکالا کہ شاستری جی بچپن میں ’’ننکو‘‘ کہلاتے تھے۔ اُنہوں نے ایک کردار ’’ننکو‘‘ گھڑا اور پاک بھارت جنگ، شاستری اور بعد از جنگ کے حوالے سے روزانہ ایک دلچسپ خبر Box Item کے طور پر لگا دیتے۔ مَیں تب جنگ کے ڈسٹرکٹ پیج پر ہوتا تھا۔ یوں مجھے یاد ہے کہ انعام عزیز صاحب نے ایک روزBox میں سرخی لگائی ’’ننکو  َچریا ہوگیا‘‘۔یہ لفظ ’’  َچریا‘‘سے میرا پہلا واسطہ تھا۔لیکن اشرف النّساء کے کلام میں ہمیں دو جگہ  َچریاکا لفظ ملتا ہے۔ اور زمانہ 1930ء سے 1940ء تک کا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ لفظ ’’ َ چریا‘‘بھی استعمال کے لحاظ سے خاصا پرانا ہے۔بعض لوگ اس لفظ کو یوپی کے قصبے ’’چرّیاکوٹ‘‘سے بھی نسبت دیتے ہیں۔
اشرف النّساء کا یہ گم گشتہ مدحیہ کلام پہلی بار منظر ِ عام پر لانے کا اعزاز اُن کی پوتی نوشابہ صدیقی کو حاصل ہورہا ہے۔ یہ کلام افتاد ِ وقت کے ہاتھوں شاید تلف ہوجاتا لیکن نوشابہ نے اُسے جریدہ ٔ وقت پر ثبت بخش دیا ہے کہ آنے والی نسلوں میں سے کوئی اگر اپنے آباء کے فن و فکر کے بارے میں جاننا چاہے تو شیلف پہ رکھی یہ کتاب اٹھالے۔کوئی مانے یا نہ مانے مگر نوشابہ نے اپنی دادی کے منتشراور برسوں سے گُم کلام کو ڈھونڈ کر اتنا بڑا کام کر ڈالا جو کسی بھی خاندان کے کسی بھی فرد کا سب سے بڑا کارنامہ ہوسکتا ہے۔ پھر جن حالات کا سامنا نوشابہ کو رہا وہ بھی گویا ’’بادِمخالف‘‘ کی ذیل میں آتے ہیں۔ جب وہ اُن کے ساتھ ہندوستان میں رہی تب بہت چھوٹی تھی۔ اور جب ہجرت کرکے پاکستان آگئی تب اُس کی دادی اشرف النّساء عالم ِ بالا کو ’’ہجرت‘‘کرچکی تھیں۔یہاں بھی اُن کی عمر آڑے آئی۔اور جب بہت سا پانی پلوں تلے سے گزر چکا تھا اور اُن سے متعلق تمام رشتے بھی دنیا چھوڑ چکے تھے، یہ کام نہ صرف یہ کہ مشکل بلکہ ناممکن تھا۔ جب نوشابہ نے عزم کیا تب اُس سے چھوٹی عمر کے لوگ خاندان میں باقی رہ گئے تھے۔ اُس نے اُن بچوں سے رجوع کیا۔ اظہارِ تشکّرپڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ نوشابہ کی خاندان میں کچھ نہ کچھ وقعت ضرور ہے کہ ہر ایک نے اُس سے تعاون کیا اور وہ کچھ فراہم کیا جو خود اُن کی نظروں میں بھی بے وقعت بنا، کہیں اِدھر اُدھر پڑا تھا یا مارے عقیدت کے وہ تعویذ کی صورت کسی صندوق یا الماری کے خانے میں بس تبرکاً رکھا ہوا تھا۔
نوشابہ اپنی ذات میں کسی کباڑن سے کم نہیں۔  ُپرانی تحریریں ،  ُپرانی چیزیں ،  ُپرانے دوست،  ُپرانی محفلیں،  ُپرانی یادیں اُس کی پسندیدہ ہوتی ہیں۔ اُس نے اپنے ابّا ،دادا، دادی کے علاوہ  َپردادا تک کے  ُپرزے  ُپرزے سنبھال رکھے ہیں۔ فی زمانہ یہ عادت متروک ہوچکی ہے اور قابل ِ تحسین سمجھی بھی نہیں جاتی۔ مگر جو لوگ روایات کی قدر کرتے ہیں اور شجرۂ نسب سے منسلک رہنا پسند کرتے ہیں، وہ نوشابہ جیسے ہی ہوتے ہیں۔
اب بات آتی ہے مولوی محمد علی قاریؔ کی ۔ نوشابہ صدیقی کے  َپر دادا اپنے زمانے کے نامی وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی کے صاحب ِ دیوان شاعر تھے۔ قدیم فارسی میں دستگار رکھتے تھے۔ سچ پوچھیں تو ہماری فارسی’’گائو آمد و خر رفت‘‘ پر بقول شخصے’’  ُمک ‘‘جاتی ہے۔ اور اُتنی ہی فارسی سمجھ سکتے ہیں جتنی آج سے پینتالیس پچاس برس پہلے بی اے تک کے نصاب (لازمی) میں شامل تھی اور اساتذہ کرام ہم جیسے غبی شاگردوں کے مغز میں ٹھونس سکتے تھے۔ آج اگر کچھ تھوڑی بہت حروف شناسی ہے تو اِس کا اعزاز بھی ہمارے اُن اساتذہ ہی کو جاتا ہے جو اپنے علم میں یکتا تھے۔ بقول مشتاق احمد یوسفی ، اپنے شاگردوں میں علم کی جوت ’’بھنگ کی طرح ایک ہی ہلے میں نہیں بلکہ افیون کے اثر کی مانند دھیرے دھیرے جگاتے تھے۔‘‘ اور ہمارے یہی اساتذہ رہی سہی کسر دو انگلیوں کے درمیان سرکنڈے کا قلم توڑ کر پوری کردیتے تھے۔ ایک بار جو مغز میں بٹھادیا پھر اُسے نکلنے کے لائق نہ چھوڑا۔
مولوی محمد علی قاری کا فارسی دیوان 1931ء میں شائع ہوا۔ اُس میں سے چنیدہ حصے اِس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں تاکہ آغاز اور تسلسل میں رخنہ نہ آنے پائے۔
حاجی مولوی ابوالحسن کا تذکرہ بھی گاہے گاہے آتا رہا ہے۔ اُن کی کچھ علمی، سرکاری اور غیر سرکاری سرگرمیوں کی روداد شاملِ کتاب ہے۔ اُن کے حوالے سے دستاویزات کی عکسی نقول اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ہندوستان میں سیاسی ابتلا کے سبب مسلمان تعلیم کے میدان میں پچھڑ چکے تھے۔ مسلمان زعماء نے اس صورت ِ حال کی سنجیدگی کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس کا ڈول ڈالا جس میں حاجی مولوی ابوالحسن پیش پیش رہے اور ’’کمال یار جنگ کی تعلیمی رپورٹ‘‘ منظرِ عام پر آئی۔ جو مسلمانوں کی تعلیمی پیش رفت میں ایک سنگ ِ میل ثابت ہوئی۔ اِس رپورٹ کی مختصر روداد بھی ریکارڈ کے لیے کتاب میں شامل کی گئی ہے ۔
اشرف النّساء کے بعد دوسرا اہم تر حصہ نوشابہ صدیقی کے والد حسن عبداللہ حَسنؔ کے مزید افکار اور سرگرمیوں کا احاطہ کرتا ہے۔ مزید یوں کہ نوشابہ صدیقی2007ء میں ’’افکارِ حَسن‘‘ کے نام سے ، منجملہ اسناد و مراسلت کی عکسی نقول، اُن کا مجموعۂ کلام شائع کرچکی ہیں۔ اُس وقت جو چیزیں رہ گئیں یا بعد میں نوشابہ کی دسترس میں آئیں، اُنہیں اِس کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ ’’افکارِ حَسن‘‘ میں مطبوعہ تحریروں میں جو خامیاں یا غلطیاں رہ گئی تھیں، اُنہیں بھی اصلاح کے بعد زیر ِنظر کتاب میں دوبارہ شامل کیا گیا ہے۔
حسن عبداللہ حسن ؔ کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا ، نابغۂ وقت رشید احمد صدیقی کا تحریر کردہ خاکہ ’’حسن عبداللہ‘‘ سب پہ بھاری ہے ۔گویا ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں آگیا ہے۔ لیکن نوشابہ نے وہ خاکہ غالباً کسی ایسی کتاب سے اٹھایا جس میں نہ صرف پروف کی بہت سی غلطیاں رہ گئی تھیں بلکہ بعض جگہوں پر پورے پورے فقرے یوں چھوڑ دیئے گئے تھے کہ مفہوم و مطلب خبط ہو گیا تھا۔ وہی خاکہ اب رشید احمد صدیقی کی کتاب ’’گنج ہائے گراں مایہ‘‘ کے 1967ء کے اُس ایڈیشن سے لیا گیا ہے جو آئینہ ٔادب، لاہور نے شائع کیا تھا۔ پوری کوشش کی گئی ہے کہ اِس میں کوئی غلطی یا بے ربطی نہ رہ جائے۔ حسن عبداللہ تاریخ کہنے میں مہارت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے جتنی بھی تاریخیں کہیں یا مادّۂ تاریخ نکالا ، سب اِس کتاب میں یکجا کردی گئی ہیں۔

ایک تاریخی نوعیت کا تعارفی خط جو علی گڑھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد اور پرووائس چانسلر اے بی اے حلیم نے حسن عبداللہ کی ایک درخواست کے ساتھ منسلک کرکے سندھ مدرسہ کالج ، کراچی کے سیکریٹری بورڈ قاضی خدا بخش کے نام بھیجا تھا، نوشابہ صدیقی نے اس کی تاریخی اہمیت پر غور کیے بغیر ’’افکارِ حسن‘‘میں چھاپ دیا۔ اس پر تاریخ ہے نہ کوئی وضاحتی نوٹ جو شاید طویل وقت گزرجانے کی وجہ سے ماند بھی پڑ گیا ہو۔یہ خط اور درخواست جو سندھ مدرسہ کالج میں اُردو لیکچرار کے لیے تھی، اپنے اندر ایک تاریخ سمیٹے ہوئے ہے۔ سندھ مدرسہ کراچی میں لگ بھگ جون 1943ء میں قائد اعظم محمد علی جناح کی ہدایت پر کالج قائم کیا گیا، کیوں کہ قائد اعظم نے اُن ہی دنوں اپنی اس مادرِ علمی کا دورہ کیا تھا ۔مَیں نے سندھ مدرسہ کے آر کائیوز میں اس عرصے کا ریکارڈ چھاننے اورجاننے کی کوشش کی کہ آیا یہ خطوط اور درخواست سندھ مدرسہ میں پہنچے بھی تھے یا نہیں۔ لیکن ایسا کوئی ریکارڈ دستیاب نہ ہوسکا۔ اس سعیٔ لا حاصل کے دوران قاضی خدا بخش کے بارے میں کچھ دلچسپ معلومات ضرور ہاتھ لگ گئیں۔ اور یہ اندازہ لگانا مشکل نہ رہا کہ آخر ڈاکٹر ضیاء الدین احمد اور ’’ابا‘‘ (ABA) حلیم نے کس  ِبرتے پر تعارفی اور سفارشی خطوط قاضی خدا بخش کو لکھے تھے۔
قاضی خدا بخش سندھ کے ایک نامور سپوت تھے۔ انہوں نے 1908ء میں سندھ مدرسہ میں داخلہ لیا اور ثانوی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ اور پھرجہاں رہے، جہاں جہاں بھی گئے، اپنی مادرِ علمی کی ترقی کا خیال رکھا۔ میٹرک کے بعد وہ مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ وہاں اپنی ذہانت اور فطانت کے بل پر بحیثیت طالب علم ناموری پائی اور اسٹوڈنٹس یونین کے صدر منتخب ہوئے۔اپنی تمام ترسیاسی ،قانونی اور عدالتی سرگرمیوں کے باوصف اپنی مادرِ علمی سندھ مدرسہ کراچی سے ناتا قائم رکھا ۔کراچی کے پہلے مسلمان میئر منتخب ہوئے اور سندھ مدرسہ بورڈ کے سیکریٹری رہے۔
یہی زمانہ تھا جب ڈاکٹر ضیاء الدین احمد اور اے بی اے حلیم نے قاضی خدا بخش کے نام تعارفی خطوط بھیجے تھے۔ اب یہ اللہ تعالیٰ کی مصلحت تھی کہ تقسیمِ برِصغیر سے پہلے حسن عبداللہ ملازمت پر کراچی نہ آسکے۔ اللہ تعالیٰ نے تو اُس سے پہلے ہی اُنہیں اپنے پاس بلالینے کا فیصلہ کررکھا تھا۔ وہ تقسیم سے قبل ہی 1946ء میں علی گڑھ میں پیوند ِ خاک ہوگئے۔ اور اُن کی اولادیں مہاجربن کر اس شہر میں آگئیں جہاں وہ ملازمت کے سلسلے میں آنے والے تھے۔ مَیں نے نوشابہ سے کہا بھی کہ اگر ایسا ہوجاتا تو تم لوگ فرزند و دختر ِ سرزمین ہوتے۔’’مہاجر ‘‘نہ کہلاتے!
نوشابہ نے اس کتاب کی ترتیب میں اپنی  ُپھوپھیوں اور  ُپھوپھائوں کو بھی جگہ دی ہے۔ اُن کا کلام اُن کے جذبات و احساسات کا اظہار ہے۔ اور سب سے بڑھ کر نوشابہ نے اپنی امّاں کا حق ادا کیا ہے۔ اِس کے بعد تو اُسے چاہیے کہ اپنا قلم توڑ دے۔
اِس وقت میرے سامنے کم و بیش (بیتے) 120 سال رکھے ہیں۔ ایک ہی خاندان کی چار پیڑھیاں ۔ اپنا اپنا رنگ لیے ۔ یہ لوگ کہاں کہاں رہے۔ کہاں کہاں اُن کا خمیر اٹھا۔ اور وقت کے دھارے نے اُنہیں کہاں کہاں پہنچادیا۔ اپنے اپنے وقت اور طلبی پر بہت سے ابدی مسافر ہوگئے۔ وہ ہوں یا رخت ِ سفر باندھنے والے ، ہر کسی کی ہتھیلی پہ علم و ادب کی روشن شمع رکھی ہے۔ پانچویں پیڑھی کے بارے میں نوشابہ خود لکھتی ہیں کہ وہ اس سارے علمی اور ادبی اثاثے سے نابلد ہے۔ اور شاید نابلد رہے گی کہ اکثریت اپنی زبان سے ، اپنی تہذیب سے ناتا ختم کرچکی ہے۔ پھر بھی اُسے ایک اُمیدِ موہوم آسرا دیے ہوئے ہے کہ اس پانچویں یا بعد کی کسی پیڑھی سے اِس ’’دادی‘‘ کا کوئی پوتی پوتا اُٹھے گا۔ بک شیلف سے یہ کتاب نکالے گا اور پڑھنا شروع کردے گا۔ شاید!
اور یہ سب کچھ کہتے لکھتے ہوئے مَیں سوچ رہا ہوں کہ مَیں کون ہوں؟اور کیا ہوں؟ نوشابہ نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’’سرسیّد نے حالیؔ سے ’’مدّو جزر ِ اسلام ‘‘لکھوا کر   ّجنتمیں جانے کی سنَد حاصل کرلی۔ مَیں نے اپنی تمام تدریسی زندگی میں طالب علموں کو طالب علم بنانے کی جدوجہد کی،لہٰذا اللہ سے اِس کا صلہ   ّجنت سے کم نہیں مانگوں گی۔‘‘
اور اِس کتاب کی ترتیب و تدوین میں ہاتھ بٹانے کے بعد …مَیں ؟ اِس پر مجھے اپنی ذات کے حوالے سے ایک قصّہ یاد آگیا۔
فیضی بہت بڑا عالم ، شاعر اور دربارِ اکبری کے نورتنوں میں سے تھا۔ اُس نے سنا تھا کہ جب سعدی نے یہ شعر کہا،

برگِ درختاں سبز در نظر ہوشیار
ہر ورقے دفتریست معرفتِ کِردگار

                      (سبز درختوں کا ہر  ّپتا خدا کی معرفت کا دفتر ہے)
تو آسمان سے فرشتے اُس کے لیے خلعت لے کر اُترے۔تب فیضی نے بھی ایک شعر کہا،

ہر گیاہے کہ از زمیں روید
وحدہٗ لا شریک لہٗ گوید

(گھاس کا ہر تنکا جو زمین سے پھوٹتا ہے ، خدا کے ایک ہونے کی تصدیق کرتا ہے)
یہ شعر کہہ کر وہ آسمان کی طرف دیکھنے اور فرشتوں کا انتظار کرنے لگا۔ فرشتہ تو کوئی نہ آیا۔ البتہ ایک پرندے کا اُدھر سے گزر ہوا اور وہ ایک پیغام دے کر چلا گیا۔ پیغام بیٹ کی صورت میں تھا جو فیضی کی داڑھی پر گری۔ فیضی نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا،
’’قدر دانی ِ عالم ِ بالا معلوم شد‘‘
اورمیرے تو داڑھی بھی نہیں!
پسنوشت:

نوشابہ نے جو پیش لفظ لکھا اُس کے آخری صفحے کی  ُپشت پر ایک نوٹ میرے لیے لکھاہے۔
 ’’کیڑے‘‘ مَیں اِس کتاب کو مر  ّتبکرتے کرتے اب تھک گئی ہوں۔ مہینوں سے میں 120 سال پہلے کی دنیا میں رہ رہی ہوں۔ میرا آج اب مجھے بلارہا ہے۔ کیونکہ اب تو آنے والے کل میں بھی کچھ ساعتیں ہی باقی ہیں۔ جلدی سے اِسے چھاپ دو۔ اِس کتاب کے لیے یہ میری آخری تحریر ہے۔ اب مجھ سے کچھ اور نہ لکھوانا … سمجھے!
اور ہاں کیا یاد کرو گے ۔ تمہارا جی چاہے تو اِس کتاب سے متعلق جو چاہو لکھ دو اور یاد رکھو مجنوں گورکھپوری کے بعد یہ اعزاز تمہارے     ّحصے میں آرہا ہے۔ ورنہ مَیں روایت شکن ہوں۔ اپنی تحریر یا تدوین پر کسی سے تحسین آمیز تحریر لکھواتے شرم سی آتی ہے۔ پڑھنے والا خود پڑھ کر اُسے احتیاط سے بک شیلف پر رکھے گا یا ردّی میں بیچ کر چار آنے وصول کرلے گا۔ مجھے معلوم ہے تمہارے پاس میرے لیے صرف جلے کٹے جملے ہی ہوں گے۔ اور وہ جملے مجھے بہت عزیز ہوں گے۔
اور مَیں یہ ’’اعزاز‘‘ پاکر سوچنے لگا کہ اب کیا لکھوں؟ قدر دانی ِ عالم ِبالا تو آشکار ہوچکی!
٭٭٭

No comments:

Post a Comment