ہر چند کہیں کہ ہے... رشیدبٹ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Monday 13 January 2020

ہر چند کہیں کہ ہے... رشیدبٹ

0 comments




تسنیم منیر علوی بنیادی طور پر ڈائجسٹوں کے دورِ عروج کی تخلیق ہیں لیکن اُن کے بارے میں بآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپنی تحریروں کے حوالے سے وہ:
ع ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے
کی مثال ہیں۔
ابتداً تو جب یہ منتخب کہانیاں، افسانے اور ناولٹ میری نظر سے گزرے تو مَیں نے انہیں یونہی سا سمجھ کے چھوڑ دیا۔ اس میں شاید کچھ میری تنگ نظری یا تُنک مزاجی کا بھی ہاتھ تھا کہ ڈائجسٹ یا اُن کے مندرجات اور تحریریں کبھی میرے پسندیدہ ودل خواہ موضوعات نہیں رہے۔ دلچسپ بات جانیے کہ کوئی افسانہ یا کہانی خصوصاً جس میں کسی تاریخ کو اجاگر کیا گیا ہو، مَیں بڑی دل جمعی سے پڑھتا ہوں۔ اِس ذوق وجمال کی حِس یوں تو میری طبعی کیفیت کی غماز ہے لیکن اِسے درحقیقت رنگ ِ دوآتشہ شوکت صدیقی صاحب نے بخشا۔ اب آپ پوچھیں گے کہ یہ شوکت صدیقی کون ہیں؟ یا (تھے) تو مَیں سرِراہ اُن کا تذکرہ کرکے آگے نکل جاتا ہوں۔ وہ میرے استاد اور معنوی باپ (godfather) ہی نہیں بلکہ برِصغیر کے نام ور، ممتاز افسانہ وناول نگار تھے۔ انہوں نے ”ڈھپالی“ ایسے افسانے اور ”خدا کی بستی“ و ”جانگلوس“ جیسے ناول لکھ کر ادب پر گویا اَمٹ نشانات ثبت کئے۔ انسان اپنے قدموں کے نشان کہاں کہاں چھوڑتا ہے اور کہاں کہاں سے اُن کا آغاز کرتا ہے۔ 1934ءمیں چینی سرخ فوج سے متعلق لوگوں نے جب اپنے تاریخی سفر کا آغاز کیا تو چیئرمین ماﺅزے تونگ نے چینی زبان میں لگ بھگ 25 سو برس سے مستعمل ایک محاورے کو نیا جنم دے کر لافانی بنا دیا کہ:



”دس ہزار میل چلنے کے لئے ہمیں پہلا قدم تو اُٹھانا ہی ہوگا۔ اپنے بڑھتے قدموں کے نشان تو چھوڑنے ہی ہوں گے!“
شوکت صدیقی صاحب اتنے عرصے میں میرے استاد ہی نہیں گویا ”گوڈ فادر“ بھی بن چکے تھے۔ میری کوئی بات اُن سے چھُپی نہ رہتی تھی۔ ایک دن کہنے لگے، ”اگلے اتوار کو میری چھٹی ہے۔ مَیں نارتھ ناظم آباد کے ایل (L) بلاک میں رہتا ہوں۔ یہ میرے گھر کا پتا ہے۔ تم دوپہر میں وہاں آجانا اور کھانا ہمارے ساتھ ہی کھانا۔“ میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ وہ میرے لئے ایسا جال بِچھا رہے ہیں جو دورانِ پرواز دکھائی نہیں دیتا۔ مَیں اُن کے ہاں چلا گیا تو باتوں باتوں میں کہنے لگے، ”میرے چھ بچے ہیں۔ تین بیٹے، تین بیٹیاں! تمہیں ملا کے سات ہوگئے۔ تم عمر کے اعتبار سے دیکھو تو میرے سب سے بڑے بیٹے ہو۔ اب تم یہیں رہو گے، میرے بڑے بیٹے بن کے۔“ مَیں نے شاید کچھ کہنے کو منہ کھولا تو اُن کی بیگم آپا ثریا بول پڑیں۔ ”بس! اب کہہ دیا تو کہہ دیا۔ اپنا سامان، اگر کوئی ہے تو، لے کر یہاں چلے آﺅ۔“ مَیں سوچتا رہ گیا کہ اِن لوگوں سے میرا کیا رشتہ ہے؟ اپنے اپنے آبائی شہروں کا فاصلہ دیکھا جائے تو وہ کوئی پندرہ سو میل بنتا ہے۔ کیا بلھے شاہ نے اپنی عارفانہ شاعری میں ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا ہے:


ع بھُلیا کیہ جاناں مَیں کون؟
یا پھر بقول سلطان باہو:
ع دلِ دریا سمندروں ڈھونگے تے کون دلاں دیاں جانے
اُن کے دل اِتنے بڑے اور گہرے ہیں کہ کوئی دریا یا سمندر اُن کی گہرائی کو نہیں پہنچ سکتا۔ پچپن برس بیت گئے اس واقعے کو، اُن کی محبتوں میں فرق نہ آیا۔ انہوں نے مجھے اپنا بیٹا اور بچوں نے بڑا بھائی جانا۔ افسوس اب وہ دونوں نہیں رہے۔
اِس کتاب میں میری بیوی حمیرا اطہر کے توسط سے ممتاز افسانہ نگاررفعت علوی کا بھی ایک مضمون شامل ہے۔ گئے برس کراچی میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی تو باتوں باتوں میں کہیں میرا تذکرہ بھی آگیا۔ چونک کے پوچھا: ”یہ وہی رشید بٹ تو نہیں جو نارتھ ناظم آباد میں شوکت صدیقی صاحب کے ہاں رہتے تھے؟“ گویا یوں میری شہرتِ عامہ اُن کے گھر تک بھی پہنچی جن کی بہن تسنیم منیر علوی اپنی کتاب ”بونسائی پلانٹ“ پر مجھ سے یہ مضمون لکھوا رہی ہیں۔ ایک دلچسپ بات پر آپ نے غور کیا ہوگا کہ مبصّرانہ حالات واقعات کا انداز تو مَیں نے ابتداً اُن کی کہانیوں سے کیا تھا لیکن پھر اُن میں میری اپنی کہانی نامکمل ہوتے ہوئے بھی ”گڈمڈ ہوگئی اور امیر خسرو کی زبان میں:

من تو شدم تو من شدی....
تاکس نہ گوید بعد ازیں من دیگرم تو دیگری



تسنیم منیر علوی کی کہانیاں اپنی جگہ ایک الگ ہی مقام رکھتی ہیں۔ شروع میں، مَیں نے کہیں لکھا ہے کہ ڈائجسٹوں میں چھَپنے والی کہانیاںکبھی میرے تشنگیٔ ذوق کو پورا نہیں کر سکیں۔ تاہم، یہ کہانیاں پڑھ کریوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کبھی کسی ڈائجسٹ کا حِصّہ نہیں رہیں بلکہ اپنا ایک جدا گانہ انداز رکھتی ہیں۔ ہر کہانی، افسانہ یا ناولٹ مرکزی خیال کے حوالے سے دیکھا جائے تو بوقلموں نظر آتے ہیں۔ اِن میں کہیں تکرار واعادہ نہیں ملتے اور کہیں ملتے بھی ہیں تو کہانی کی مجموعی بندش میں دَب کر رہ جاتے ہیں۔ ہاں! مرکزی کرداروں میں عورت کی بے بسی، لجاجت اور اس پر روا مردانہ شاونّیت کا بوجھ نمایاں نظر آتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کسی ڈائجسٹ کا اثر نہیں بلکہ تسنیم منیر علوی کی اپنی ذہنی اُپج کا سایہ کچھ زیادہ گہرا دکھائی دیتا ہے۔ اِن چوبیس کہانیوں، افسانوں اور ناولٹوں میں اختراع اور جدّت تسنیم منیر علوی کی طبعی یا جبّلی انا کی غمازی کرتی ہیں۔
”بونسائی پلانٹ“ کا عنوان، جو اتفاق سے اس کتاب کا بھی عنوان ہے، گو جاپانی زبان سے مستعار لیا گیا ہے لیکن پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے سارے کردار ہمارے اپنے بلکہ ہم ”خود“ ہیں۔ میرا ایک مضمون ”کولاژ“ کے حوالے سے شائع ہوا تو بلوچستان کے معروف اردو افسانہ نگار آغا گل نے اُس پر تبصرہ کرتے ہوئے کوئٹہ سے فون کیا کہ ”بٹ صاحب! ہمارے معتمد فن کاروں اور لکھاریوں نے ہمیں توہم پرست، تنگ نظر، خودپسند اور نہ جانے کیا کیا بنا کے رکھ دیا ہے۔ ہم ہر شے کو اپنی اور صرف اپنی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہم اپنی تحریروں کے حوالے سے خود ہی دولے شاہ کے چوہے بن چکے ہیں۔ اس سے آگے ہمیں بڑھنا ہی نہیں آتا۔“
بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ ”بونسائی“ جاپانی زبان میں ”پستہ قد“ یا ”بالشتئے“ کو کہتے ہیں۔ لیکن تسنیم منیر علوی نے اِس عنوان کو اس کے لفظی معانی میں نہیں بلکہ ہمارے معاشرے اور سماج میں پھیلے اوہام کی نظر سے دیکھا ہے۔ بونسائی پلانٹ آج جاپانی قدرتی اور انسانی صناّعی کے رنگ میں رنگا دیکھا جاتا ہے حالاںکہ اس کا مبدا ¿ ومنبع ایک ہزار برس پہلے کے چین تک جاتا ہے۔ یعنی اِس کی ابتدا چین کے تھانگ شاہی خاندان سے ہوتی ہے۔ تب چین کے بودھ بھکشو جاپانی طلبا کو پڑھانے کے لئے اور خانقاہوں میں جاتے تھے اور وہاں کے طلبا چین آتے تھے۔ اِسی آمد ورفت میں نہ صرف بونسائی کے بالشتئے پیڑ بلکہ دیگر قدرتی اشیاء کو بھی چین سے جاپان تک سفر کا موقع ملا۔
جاپان میں اُن کی آﺅ بھگت خوب ہوئی اور انہیں پروان چڑھانے اور اُن کی نگہداشت کرنے میں جاپانیوں نے بڑی دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اِس پر انگریزی میں خوب لکھا گیا جس کی تاریخ ہمیں صدیوں پر محیط ملتی ہے۔

No comments:

Post a Comment