برنگِ تصویر ِخیال … - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Monday 13 January 2020

برنگِ تصویر ِخیال …

0 comments
رضیہ شعلہؔ آسیونی

سوچوں کا ایک سمندر ہے اور مَیں ہوں۔ چودھری احرار محمدعثمانی جو شعلہؔ آسیونی کے نام سے اقلیمِ شعروادب میں معروف وممتاز مقام رکھتے تھے، کی رفاقت میں زندگی کے 34 برس برنگِ تصویرِ خیال شوریدہ سرہیں، موجیں ہیں کہ ساحلی چٹانوں سے ٹکراتی ہیں اور پلٹتے سمے بار بار یہ بازگشت ساتھ لاتی ہیں۔ 

؎  ِکھلیں گے لاکھ ُگل نگہت بداماں ہم نہیں ہوں گے 
  بہاریں آئیں گی رقصاں، غزل خواں ہم نہیں ہوں گے

کسی شاعر کی بیوی ہوناگو کارِ دارد، مگر شعلہؔ آسیونی کے بارے میں مَیں کہہ سکتی ہوں کہ ’’توُچیزے دیگری‘‘۔ 34برس کی رفیقانہ جیون  َجیوتی میں نرم گرم، انبساط وکرب، معاشرتی اور مادّی مشکلات کے دائرے سرگرداں رہے۔ آج جب میرے شوہر شعلہؔآسیونی کامجموعۂ کلام ’’شعلہ رنگ‘‘ اشاعت کے مرحلے میں جارہا ہے تو ماضی بھی درّاتا چلا آرہا ہے ۔ اِسی ماضی کے ایک جھروکے میں ہمارا بیٹا چودھری شاہکار محمد بھی براجمان ہے کہ اپنے والد شعلہؔ آسیونی کے کلام کی تلاش ویکجائی اور پھر اُسے اشاعت کے مرحلے تک لانے کا سہرا اُسی کے سر بندھتا ہے۔ وہ یہاں سے ہزاروں کوس دُور امریکا میں جابسا ہے لیکن   َنسبی روایات کے احترام اورآدرش کو نہیں     ُبھولا۔ آج کے دور میں یہ بڑی بات ہے ۔ شعلہؔ آسیونی کی زندگی میں اُن کے مجموعۂ کلام کی اشاعت ممکن نہ ہوسکی ۔ اس کا سبب کچھ نامساعد حالات اور کچھ اُن کی عدم دلچسپی، بے نیازی اور لاپروائی تھے۔ اُن کے تعلقات اِتنے وسیع تھے کہ یہ کام مشکل نہ تھا۔ اُن کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے شعرأ کے مجموعے اور دیوان عرصہ ہوا   َچھپ چکے۔ شاہکار نے جب شعلہؔ آسیونی کے کلام کی تلاش کا آغاز کیا تو اُسے خاصی مشکلات پیش آئیں۔ یہ بڑاہی دشوار مرحلہ تھا۔ ریڈیو پاکستان کے پاس اُن کا جو کلام محفوظ تھا وہ کوششِ بسیار کے باوصف نہ مل سکا، گوجناب یاور مہدی صاحب نے بھی اپنی سی کر دیکھی۔ شعلہؔ آسیونی ریڈیو پاکستان کے مشاعروں اورنجی محفلوں میں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ہمارے گھر پہ بھی شعری نشستیں ہوتی تھیں جن میں اپنے وقت کے ممتاز شعرأ شاعرؔ لکھنوی، شبنمؔ رومانی، سحرؔ انصاری، جاذبؔ قریشی، احمدؔ ہمدانی اور اطہر نادرؔ وغیرہ شریک ہوتے اور کلام پیش کرتے تھے۔ رحمان کیانی، شعلہؔ آسیونی کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ بہزادؔ لکھنوی سے انہیں بے حد لگاؤ تھا۔ وہ اُن کے بزرگ دوست تھے۔ دونوں میں قدرِ مشترک یہ بھی تھی کہ بریلی شریف سے بیعت تھے۔ اللہ پرپختہ یقین تھا۔ اُن کا ایک مصرع ہے:

ع     میری بخشش کا بن جائیں گے وہ سبب مجھ کو شعلہؔ ابھی سے خبر ہو گئی

شعلہؔ آسیونی نے اپنے کلام پر قادر الکلام شاعر حضرت جگرؔ مراد آبادی سے اصلاح لی۔ اِسی شاگردی کی دَین سمجھئے کہ ایک طرف اُن کی شاعری میں جگرؔ صاحب کا رنگ نظر آتا ہے تو دوسری جانب بہزادؔ لکھنوی کی ہمہ وقت رفاقت نے شعلہؔ آسیونی کی نعتوں کو دوآتشہ بنادیا۔ 
شعلہؔ آسیونی نے تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا۔ مسلم لیگ سے وابستگی تھی۔ بحیثیت ایک کار ُکن،اُن کی تربیت میں رئیس الاحرارمولانا حسرتؔ موہانی، چودھری خلیق الزّماں، نوابزادہ لیاقت علی خاں اور نواب بہادر یار جنگ جیسی    ّشخصیتیں شامل تھیں۔ 
ہندوستان کے شاطر سیاست دانوں نے پاکستان کے خلاف سازش کی اور کشمیر کو ہندوستان کے نقشے میں دکھایا گیا جس پر شعلہؔ آسیونی نے احتجاج کرتے ہوئے 20ستمبر1955ء کو کراچی میں اقوامِ متحدہ کے دفتر کے سامنے 100گھنٹے کی بھوک ہڑتال کی جسے نہ صرف ڈان، ٹائمز آف کراچی اور انجام جیسے ممتاز انگریزی اور اردو اخبارات اور خبررساں ایجنسی اسٹینڈرڈ نیوز سروس نے کوریج دی بلکہ لکھنؤ کے روزنامہ ’’حق‘‘ نے بھی اُن کی خبر شائع کی۔ رفتہ رفتہ اِس ہڑتال میں دیگر محبانِ وطن بھی شامل ہوتے گئے۔ اس کا خاطر خواہ نتیجہ نکلا۔ اس معاملے میں آج تک کسی نے شعلہؔ آسیونی کو یاد نہیں کیا حالانکہ بعدازاں مختلف انجمنیں وجود میں آئیں۔ مفاد پرستوں نے فائدے اٹھائے لیکن کہیں بھی اِس بھوک ہڑتال کا تذکرہ نہیں کیا گیا۔ 
شعلہؔ آسیونی نے کبھی ذاتی مفاد کو پیشِ نظر نہیں رکھا بلکہ ہمیشہ فلاحی اور سماجی کاموں کو ترجیح دی۔ اگر اُن کی فطرت زرپسند ہوتی اورطبعاً خود منفعت ہوتے تو اپنی نسلوں کے لیے تعیشات کی راہیں ہموار کرجاتے لیکن قناعت پسندی نے اِس بدعت کی طرف راغب نہ ہونے دیا۔ ہندوستان میں صاحبِ جائیداد ہونے کے باوجود کبھی مڑکر نہیں دیکھا ۔ چاہتے تو پاکستان میں اُس کا بدل مل سکتا تھا لیکن وہی طبیعت کی بے نیازی آڑے آئی۔ تاہم، خدا کا شکر ہے کہ شعلہؔ آسیونی نے زندگی میں جو نیکیاں کمائیں اُن کا بدل سعادت مند اولاد کی صورت میں ملا۔ سارے بچے اپنے گھروں میں شاد آباد ہیں۔ 
شعلہؔ آسیونی انتہائی بے باک اور صاف گوانسان تھے ۔ بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے ۔ تقریر اور تحریر کے ماہر تھے۔ مطالعہ اتنا وسیع تھا کہ ہر موضوع پر انتہائی مدّلل بحث کرتے۔ مجلسی آدمی تھے۔ ہمارے گھر آنے والوں کا سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا اور جو میّسر ہوتا اُس سے خاطرتواضع کرتے۔ لوگوں کے کام آنا اُن کا شیوہ تھا۔ کبھی کسی کو مایوس نہ کرتے۔ اپنے خاندان سے بھی بہت محبت کرتے تھے اور ہروقت اُن کے دُکھ درد میں شریک رہتے تھے۔ 
انتہائی باذوق انسان تھے۔مشرقی لباس اُن کا پسندیدہ لباس تھا۔ آخر دم تک اپنی خاندانی روایات کو نبھایا۔ ہمیں افسوس اِس بات کا ہے کہ اُن کے بیشتر دوست اور چاہنے والے اب اِس دنیا میں نہیں جو اُن کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ 
شعلہؔآسیونی سال بھر ایک موذی مرض میں مبتلا رہے اور وہی مرض جان لیواثابت ہوا۔ بیماری کے زمانے میں کبھی شکوہ نہیں کیا۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے۔ اُن کی بیماری کے زمانے میں نہ تو کسی صاحبِ اقتدار نے عیادت کی اور نہ انتقال پر تعزیت ۔ ہم محترم محمود شام کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے روزنامہ جنگ میں شعلہؔ آسیونی کے انتقال کی خبرنمایاں طور پر شائع کی۔ 
ہم جناب سحرؔ انصاری صاحب کے بھی شکرگزار ہیں کہ انہوں نے شعلہؔ آسیونی کے متعلق تاثرّات لکھ کر ہماری عزت افزائی فرمائی۔ جناب یاور مہدی صاحب سے اظہارِ تشّکر نہ کرنا بھی ناسپاسی کے زُمرے میں جائے گا، کہ انہوں نے ’’ شعلہ رنگ‘‘ کا فلیپ لکھ کر اس کی قدرو منزلت میں اضافہ کیا۔
میرے لیے یہ بڑی طمانیت اور خوشی کی بات ہے کہ رشید بٹ اور اُن کی اہلیہ حمیرااطہر کی کاوشوں سے شعلہؔ صاحب کا یہ مجموعۂ کلام منظرِ عام پہ آسکا۔اگر شعلہؔ صاحب کے کلام کو یک جا کرنے کا ابتدائی کام ہماری کوششیں ہیں تو اِس کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا اِن دونوں کے سر ہے۔ جناب اطہر نادرؔ (مرحوم) چوں کہ شعلہؔ صاحب کے دوستوں میں سے تھے لہٰذا، اُن کی بیٹی حمیرا اطہر نے بھی اِس کام کو بڑے دل اور توجہ سے اپنا ہی کام سمجھ کر انجام دیا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ رشید بٹ اور حمیرااطہر کو زندہ سلامت اور خوش و خُرم رکھے اور اُن کی علمی و ادبی خدمات کے صلے میں انہیں مزید توقیر عطا فرمائے۔ آمین۔

No comments:

Post a Comment