شعلہؔ آسیونی ... وقت کے دریچے سے ایک نظر - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Wednesday 8 January 2020

شعلہؔ آسیونی ... وقت کے دریچے سے ایک نظر

0 comments
رشید بٹ




ماضی کریدنے اور حضرتِ شعلہؔ آسیونی تک پہنچنے سے پہلے ایک جملۂ معترضہ لازم ہو جاتا ہے کہ اِس کے بِنا کوئی چارہ نہیں۔ ممتاز افسانہ و ناول نگار اسد واحدی جانے کب سے… شاید صدیوں سے… ہزاروں کوس دُور امریکا میں جا بسے ہوئے ہیں۔ لگ بھگ ڈیڑھ برس پہلے ایک دن میرے ایک شناسا کے ساتھ آئے اور سامنے کرسی پر بیٹھ گئے۔ اِدھر اُدھر کی دو چار باتوں کے بعد گویا ہوئے، ’’میرا ناول ایک صاحب چھاپ رہے ہیں۔ صفحات بنے ہوئے ہیں ،بس ٹریسنگ نکال دیں۔‘‘ ساتھ ہی مسوّدے کی ہارڈکاپی سامنے رکھ دی۔ مَیں نے سرسری نظر سے مسوّدے کے اوراق پلٹے، ایک نظر دیکھے اور پھر اسد واحدی کو دیکھنے لگا۔ وہ کچھ بھانپ گئے اور بولے،’’کیوں؟ کچھ مسئلہ ہے کیا؟‘‘ مَیں نے کہا،’’ آپ تو ٹریسنگ نکالنے کا کہہ رہے ہیں۔ مجھے تو اِس میں کچھ ’رفو‘ کچھ’بخیہ گری‘ کا کام بھی نکلتا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ 
’’تو پھر سوچ کیا رہے ہیں؟‘‘ وہ تو اتنا کہہ کے چائے میں مگن ہوگئے اور ’’شامتِ اعمالِ ما‘‘، رفو اور بخیہ گری کا کام پھیلتا چلا گیا۔ وہ آئے تو اُن کی چھٹیاں ختم ہو رہی تھیں۔ اب یہ عالم کہ روز منرل واٹر کی ایک بڑی بوتل لیے چلے آتے۔ میرا چائے کا ’’لنگر‘‘ پہلے سے جاری ہو تا، وہ موبائل فون پر امریکا میں اپنی چھٹیاں بڑھواتے، اور وہیں مقیم اپنے گھر والوں سے، جلد واپس نہ آنے کے جواز میں لمبی لمبی تاویلیں پیش کرتے رہتے۔ 
کتاب کا کام اختتام کو پہنچ رہا تھا کہ ایک دن، ایک نوجوان کوساتھ لیے آگئے اور بتایا کہ یہ چودھری شاہکار محمد ہیں۔ برسوں سے اُسی ’’شہرِ  ُپرساں‘‘ یا ’’ملکِ  ُپرساں‘‘ کے باسی ہیں جہاں وہ خود آباد ہیں۔ ایک مہینے کی چھٹی پہ آئے تھے اور اب دو دن بعد واپس جا رہے ہیں۔ مَیں نے پوچھ لیا، ’’آپ لوگ اپنے وطن کیوں نہیں لوٹ آتے؟ مَیں نے بھی پندرہ سولہ برس باہر گزارے ، پھر لوٹ آیا!‘‘ ترُنت جواب ملا، ’’ہم برسوں پہلے یہاںسے نکلے تھے۔ تب وطن ایسا نہ تھا۔ آپ ہمیں وہی دن لوٹا دیں۔ ہم لوٹ آئیں گے! ‘‘ اور مَیں نے چپ سادھ لی۔ مجھے خاموش دیکھ کے، چودھری شاہکار نے اپنی داستان کا آغاز کیا، بالکل ’’قصّہ چہار درویش‘‘ کی طرح۔ ایک سی ڈی (CD) میرے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’اِس میں میرے والد مرحوم کا کلام ہے۔ مَیں نے پاکستان آتے ہی ایک صاحب کو یہ سی ڈی دی کہ کھول کر پرنٹ نکالیں، کمپوز کریں اور میری امریکا واپسی تک کتاب چھاپ کے دے دیں۔ دو دن ہوئے مَیں کتاب لینے اُن کے ہاں گیا تو انہوں نے سی ڈی، جوں کی توں،مجھے تھما دی کہ یہ ہم سے ُکھل ہی نہیں سکی۔ کتاب کیا چھاپتے؟‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘ مَیں پوچھ بیٹھا۔
’’ہونا کیا تھا۔ مَیں نے واحدی صاحب کو سارا قصّہ سنایا تو یہ مجھے یہاں لے آئے کہ آئو تمہیں ایک صاحب سے ملواتا ہوں۔ شاید وہ سی ڈی کھولنے میں کامیاب ہوجائیں۔‘‘ 
شاہکار نے امریکا میں Scanning کرکے کسی خاص Software میں سی ڈی بنائی تھی جو یہاں دستیاب نہ تھا۔ ہم نے اپنے کمپیوٹر سسٹم پر کوشش کی تو کوئی پندرہ منٹ میں سی ڈی  ُکھل گئی اور لیزرپرنٹر نے دھڑادھڑ صفحات پرنٹ کرنے شروع کردیئے۔ چودھری شاہکار حیرت زدہ سے میرا چہرہ دیکھ رہے تھے۔ مَیں نے پہلا ہی پرنٹ اُٹھایا توصاحبِ کلام کا نام دیکھ کر کچھ ٹھٹکا۔
 ’’شعلہؔ آسیونی! آپ کے والد تھے؟‘‘
’’جی ۔ آپ انہیں جانتے ہیں؟‘‘
’’بالمشافہ تو نہیں۔ پَر، جانے والے اپنی خوشبو تو چھوڑ جاتے ہیں۔ اُن کے بارے میں سنا تو ہے لیکن تم جانومیاں ،زمانہ ہمیشہ سے پبلک ریلیشننگ کا رہا ہے۔ بڑے بڑے نامی جب دنیا سے رختِ سفر باندھتے ہیں تو گردو پیش بھنبھنانے والوں میں سے پھر کوئی پلٹ کے نہیں دیکھتا۔ بس  ُبھولتے چلے جاتے ہیں۔مَیں عمر کے اعتبار سے اُن کے بعد آنے والوں میں سے ہوں۔‘‘
’’ مَیں تو کل رات امریکا چلا جائوں گا۔ اب آپ ہی میرے ابّاکا مجموعۂ کلام مرتّبکردیں۔ میرا مطلب ہے، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ اور فائنل کاپی ۔پرنٹنگ بعد میں دیکھیں گے۔‘‘
 چودھری شاہکار تو یہ کہہ کے رخصت ہوئے اور مَیں مسوّدے کا پرنٹ نکلوایا کیا۔ خطِ شکستہ میں کیا خوبصورت تحریر تھی گویا موتی جَڑے ہوں۔ ایسا خط تو اُن ہی لوگوں کا ہوسکتا ہے جنہوں نے بچپن میں  ِکلک سے تختی لکھی ہو ، حروف کی ساخت اور نشست و برخاست پر اساتذہ سے اصلاح لی ہو، ڈانٹ ڈپٹ اور ماریں سہی ہوں۔ مسوّدہ دیکھنے کے ساتھ ساتھ مَیں نے شعلہؔ آسیونی کے بارے میں تحقیق اور حصولِ معلومات کے ڈَول ڈالے تو پتا چلا کہ وہ تو تحریکِ حصولِ پاکستان کی صفِ اوّل کے مجاہدوں میں سے تھے۔ وطنِ مالوف یوپی ( اُتر پردیش) تھا اوراُن کی قومی نظمیں اور گیت زبان زدِ عام تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہجرتِ مامورہ انہیں پاکستان لے آئی۔ شعلہؔ آسیونی، بہرحال، بحیثیت ایک شعلہ نوا شاعر، کوئی ُگم نام ، نام نہ تھا۔ اور تب کراچی بھی تو بڑا غریب پرور شہر  ُپرساںتھا۔ آج کی طرح مار دھاڑ اور منافرتوں میں ’’ہرچہ بادا باد‘‘ کا شکار نہ تھا۔ ہندوستان میں جا بجا   ِبکھرے علم و ادب کے گہواروں سے ادیب اور شاعر ہجرتوں کی پُرخار مسافتیں اَلانگتے پھلانگتے اِسی شہر کو دارالقرار بنا چکے تھے یا بنا رہے تھے۔ شعلہؔ آسیونی کو یہاں کئی ’’ہمراہی‘‘ مل گئے۔ تاہم شعلہؔآسیونی کی   ّگھٹی میں شاعری کے ساتھ ساتھ سیاست بھی پڑی تھی۔ انہوں نے سیاست کی ابجد سیکھنے میں مولانا حسرتؔ موہانی کا دامن تھاما تھا، لہٰذا اُن کی سیاست میں ایک طرف عوامی رنگ جھلکا تو دوسری جانب تحریکِ پاکستان کی سرگرمیوں نے اُسے ’’شعلہ رنگ‘‘ کر دیا جس کا خمیازہ، پاکستان کی سیاسی اور حکومتی اُکھاڑ پچھاڑ میں، انہیں زندگی کے آخری زمانے میں بھگتنا پڑا۔ قید و بند کی صعوبتیں بھی اُن کی جھولی میں آئیں۔
ہاں، ایک بات تو رہی جاتی ہے۔ اسد واحدی کی تاویلیں رنگ لائیں۔ اُن کا ناول ’’جہاں اندر جہاں‘‘ بالآخر اِس انداز سے مکمل ہوا کہ ہماری’’ بڑھاپے ‘‘کی ملاقاتیں گویا جنم جنم کی دوستی کا روپ دھار گئیں۔ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں تبدیلی کرتے ہوئے لکھا، ’’کمپوزنگ، لے آئوٹ اور مسوّدے کی نوک پلک سنوارنے کا کام رشید بٹ صاحب نے کیا۔ اُن کے ساتھ کام کرنا بہت خوش گوار تھا۔ جب مَیں نے واپس امریکا جانے کا سوچا تو میرے دوستوں کی فہرست میں بٹ صاحب کا اضافہ ہوچکا تھا۔‘‘ کتاب چھپ گئی اور وہ بھی امریکا چل دیئے۔ اب کبھی اُن کی ای میل آجاتی ہے۔ کبھی مَیں بھیج دیتا ہوں۔ بہت ہَڑک اُٹھے تو دونوں میں سے کوئی ایک فون اٹھالیتا ہے اور    ّجموں سے بنارس تک کے فاصلے، فاصلے نہیں رہتے۔
ارے، مَیں بھی باتوں باتوں میں کہاں سے کدھر نکل گیا۔ بات شعلہؔ آسیونی کی ہو رہی تھی۔ شعلہؔ آسیونی کی شاعری، خصوصاً اُن کے گیتوں میں مزدوروں، کسانوں، مچھیروں، غرض، عام لوگوں کے حقوق، خوش آئند زندگی، روزگار، آزادیٔ اظہار کی خواہش ملتی ہے۔ اور شاید یہی بات مقتدر حلقوں کو ناگوار گزرتی تھی۔ پھر ایک وقت آیا جب ذوالفقار علی بھٹو نے عام آدمی کے حق میں آواز اٹھائی تو شعلہؔ آسیونی کو اپنے خوابوں کی تعبیر کا گمان گزرا اور وہ اُن کے ساتھ ہولیے۔ چند ماہ گزرے، چودھری شاہکار نے امریکا سے فون پہ بات کرتے کرتے بتایا کہ 70 ۔کلفٹن میں ایک بار بھٹو صاحب کو کسی بیان کا ترجمہ کرانے کی ضرورت پڑگئی۔ شعلہؔ صاحب اُس روز وہاں گئے ہوئے تھے۔ بھٹو صاحب نے انہیں اپنا قلم دیا کہ ترجمہ کردیں۔ ترجمہ پڑھ کے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ اپنا وہ قلم شعلہؔ آسیونی ہی کی نذر کردیاجو آج بھی اُن کے گھر پہ بطور ’’سوونیئر‘‘  موجود ہے۔ پھر آنے والے وقتوں میں انہیں اِس پارٹی سے بھی مایوسی کا بار اُٹھانا پڑا۔ حالات اور وقت کے ایسے ہی اُتار چڑھائو میں اکثر و بیشتر روشنیٔ طبع اُن کے لیے بَلا ثابت ہوتی رہی۔مَیں نے ادبی تحقیق کے حوالے سے کئی کتابیں کھنگال ڈالیں لیکن شعلہؔ آسیونی کے بارے میں کچھ نہ مِلا۔ کچھ مِلا توممتاز   ّمحقق بلکہ چلتے پھرتے ’’ اِنسائیکلوپیڈیا‘‘ عقیل عباس جعفری کی اِنسائیکلو پیڈیانُما کتاب ’’پاکستان کرونیکل‘‘میں۔ اور اِس میں بھی شعلہؔ آسیونی کو تحریکِ پاکستان کے کار ُکن کی حیثیت سے یاد کیا گیا ہے۔ عقیل عباس جعفری لکھتے ہیں، ’’ شعلہؔ آسیونی 20 جولائی 1996ء کو انتقال کرگئے۔ وہ تحریکِ پاکستان کے ایک کار ُکن تھے۔‘‘ اِس معتبر کتاب میں گو،انہیں قابلِ ذکر شخصیت گردانا گیا،تاہم بحیثیت شاعر اُن کے قدوقامت پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔حالانکہ وہ 1960ء کے عشرے کے دوران کراچی کے اخبار روزنامہ ’’نوروز‘‘ میں قطعات بھی لکھتے رہے جن میں سے کچھ اِس ’’ مجموعۂ کلام‘‘ میں شامل ہیں۔
شعلہؔ آسیونی نے حضرتِ جگرؔ مراد آبادی سے اصلاح لی تھی تو بہزادؔ لکھنوی سے اُن کی گہری دوستی تھی۔ نتیجتاً اُن کی شاعری میں اگر جگرؔ کا رنگ جھلکتا ہے تو حمدیہ اور نعتیہ کلام، بہزادؔلکھنوی سے دوستی کے خمار میں بھیگا ملتا ہے۔ پاکستان آمد کے بعد اُن کا تعلق ریڈیو پاکستان سے بنا اور پھر یہ سلسلہ برسوں چلا۔ یہاں کچھ ذِکر شعلہؔ آسیونی کی شاعری کے حوالے سے بھی ہو جائے۔ کوئی شاعر اپنا مجموعۂ کلام ترتیب دیتا ہے تو روایتاً آغاز ایک حمدِ باری تعالیٰ اور ایک نعتِ رسولِ مقبولؐ سے کرتا ہے۔ چند برس گزرے آرٹس کونسل ،کراچی میں ممتاز شاعرہ سعدیہ حریمؔ کے مجموعۂ کلام ’’دَردِ ُمشترک‘‘ کی تقریبِ پزیرائی میں رضوان صدیقی نے اِس بات پر قدرے حیرت کا اظہار کیا کہ سعدیہ حریمؔ نے اپنی کتاب میں سات نعتیں شامل کی ہیں۔ مَیں نے شعلہؔ آسیونی کا مجموعۂ کلام دیکھا تو اُس میں 6 حمدِ باری تعالیٰ اور 33 نعتیں شامل تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ سب کچھ روایتاً شامل نہیں کیا گیا بلکہ شعلہؔ آسیونی کے اِیقانِ توحیدِ ربّ ِ جلیل اور حُبِّ رسول ـﷺ کی عکاسی کرتا ہے۔انہوں نے اپنے حمدیہ اور نعتیہ کلام کو ’’دیارِ حرم سے دیارِ نبیؐ تک‘‘ کا عنوان دیا۔ اُن کے کلام میں شاعری کی متنوع اصناف اور جہات ملتی ہیں۔ سب سے بڑھ کر تو مَیں یہ کہوں گا کہ ایک شخص جو دو آبِ گنگ و جمن، خصوصاً شرقِ گنگاکا ہو، شاعر ہواور پوربی بولی میں گیت نہ کہے، یہ ممکن نہیں۔ ہمیں شعلہؔ آسیونی کے ہاں بہت سے خوبصورت گیت ملتے ہیں، لیکن اُن میں کہیںکہیں سیاستِ دَوراں بھی دَر آئی ہے۔
نیرنگیٔ حالات، اُکھاڑ پچھاڑ، بے نیازی، کلام کو محفوظ و یکجا رکھنے میں بے پروائی کا ایک انت یہ بھی رہا کہ اپنی زندگی میں کوئی مجموعۂ کلام شائع نہ کر سکے ، گو محفل آرائی، یارباشی اور شعری نشستیں جزوِ جاں تھیں۔ گھر پہ سرِ شب محفلِ شعر گوئی کا اہتمام کرتے تو صبح دَم بھی دَم لینے پہ تیار نہ ہوتے۔ وقت بھیگتا، بیتتا چلا گیا اور پھر رخشِ عمر انہیں لیے لیے، جولائی 1996ء میں سفرِ ابد پہ چل دیا۔ ایک ترکستانی گیت ہے۔ ’’چل میرے گھوڑے آہستہ‘‘۔ اِسی خیال کو ادیب سہارنپوری نے،
ع   اے میری عمرِ رواں اورذرا، آہستہ
کے رنگ میں باندھا۔ پھر ایک لوک گیت’’ اے سارباں آہستہ رَو‘‘ کی بندش میں بھی منظر پہ آتا ہے۔ 
مگر شعلہؔ آسیونی کا رخشِ عمر آہستہ رَونہ تھا۔ اپنی تمام تر بے نیازیوں کے باوصف، اندازہ یہ ہوتا ہے کہ زندگی کے دورِ آخرِ شب انہوں نے اپنا کلام یکجا کرنے کی کوشش ضرور کی تھی کہ مسوّدے کا کچھ حصہ، جس کا قبل ازیں ذکر آچکا، اُن کے اپنے خطِ شکستہ میں ہے۔ انہوں نے اسے ردیف سنج انداز میں حروفِ تہجی کے تحت ترتیب دینے کی سعی کی جو بقول پروفیسر سحر ؔ انصاری، اساتذہ کا رنگ ہے ۔ آج کا شاعر یہ رنگِ شاعری اپنانے سے کتراتا ہے ۔ پروفیسر سحر ؔ انصاری کا ذِکر آگیا تو ایک دلچسپ بات کا تذکرہ کیے بِنا مَفر نہیں۔ انہیں شعلہؔ آسیونی کا مجموعۂ کلام رائے لکھنے کے لیے دیا گیا۔ انہوں نے، ازرہِ کرم،رائے لکھ کے دے دی تو اچانک خیال گزرا کہ ابھی تک مجموعۂ کلام کے عنوان کا قطعی تعیّن تو ہوا ہی نہیں۔ لہٰذا یہ فریضہ بھی سحرؔ انصاری صاحب ہی کو سونپ دیا گیا اور انہوں نے کلامِ شعلہؔ کو ’’ شعلہ رنگ‘‘ کا عنوان دے دیا۔ایک دلچسپ اتفاق اور جانئے کہ شعلہؔ آسیونی ہی کی ایک غزل کا مقطع ہے:
  ؎ جس کو رنگ نہیں کہتے ہم 
وہ بھی تو ہے شعلہؔ رنگ 
اِس مقطع میں بھی انہوں نے ’’شعلہ رنگ ‘‘باندھا ہے ۔
مسوّدے کا بڑا حصہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ شعلہؔ آسیونی کے کلام کی تلاش اور یکجائی میںاُن کی اہلیہ محترمہ رضیہ شعلہؔ آسیونی اور صاحبزادے چودھری شاہکار محمد نے، ایک انگریزی محاورے Burning the midnight oil  کے مصداق جانے کتنی راتیں کالی کیں۔ اور اب اُسے مرتّب کرکے چھپوانے اور منظرِ عام پر لانے کا اہتمام کیا۔ یہ سب ، رہِ وفا کے مسافرکے لیے، اُن کی محبت، عقیدت اور احترام کا، بہر طور ، اظہار ہے۔ 
شعلہؔ آسیونی کے ہاں شعری محفلوں میں شریک ہونے والے شعرأ میں سے کئی تو اُن ہی کی راہ پہ چل دیئے۔ گو آنے جانے کا معیّن وقت صرف عالم الغیب ہی کے علم میں ہے، پھر بھی کچھ کمر باندھے بیٹھے ہیں اور بہت سوں نے وقت کے گورکھ دھندوں میں کھوکر انہیں شاید طاقِ نسیاں کی نذر کردیا۔ 
شعلہؔ آسیونی کی حیاتِ مستعار، بھرپور سیاسی سرگرمیوں، اُتار چڑھائو، دنیاوی سود و زیاںسے بے پروائی اور اُن کی تمام تر قربانیوں کے باوصف اہلِ اقتدار کی عدم توجہی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو ہندوستان کے ایک شاعر نعیم اختر کا شعر اُن کے حسبِ حال محسوس ہوتا ہے۔
  ؎   جہاں تک مجھ سے مطلب سے جہاں کو 
ویہیں تک مجھ کو پوچھا جا رہا ہے
مَیں نے مسوّدے کی کمپوزنگ کا پہلا پروف نکالا، پڑھا اور دوسری بار پڑھنے کے لیے حمیرا اطہر کو دے دیا۔ حمیرا اطہر سینئر صحافی اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ میری شریکِ سفرِ حیات بھی ہیں۔ انہوں نے نام دیکھا تو سوچ میں پڑگئیں۔ پھر کہنے لگیں۔’’ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شعلہؔ آسیونی ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ میرے ابّا سے اُن کی دوستی تھی۔ وہ بھی اُن کے ہاں جایا کرتے تھے۔ ہاں ! اُن کے ہاں ہفتہ وار شعری نشست بھی ہوا کرتی تھی۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ حمیرا اطہر ممتاز شاعر اطہر نادرؔ (مرحوم) کی بیٹی ہیں۔ مسوّدہ مکمل ہوا ۔ مَیں نے شعلہؔ آسیونی کی اہلیہ کو فون کیا کہ مسوّدہ پڑھنے کے لیے منگوالیں۔ باتوں باتوں میں حمیرااطہر کا تذکرہ بھی آگیا تو مَیں نے بتایا کہ وہ کانپور کی ہیں۔ اِتنا سننا تھا کہ کچھ جذباتی ہوگئیں۔ کہنے لگیں، ’’مَیںمسوّدہلینے خود آجائوں گی، آپ حمیرا اطہر صاحبہ کو بھی اپنے دفتر ہی میں بلالیں۔ مَیں اُن سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ یوں دونوں میں ملاقات ہوئی۔ حمیرا اطہر نے جب انہیں بتایا کہ وہ ڈاکٹر اطہر نادرؔ( مرحوم) کی بیٹی ہیں تو اُن کے چہرے پہ جو اپنایت بھری چمک آئی اُس کا اظہار الفاظ میں شاید ممکن نہیں۔ جھپ سے اٹھیں، ایک بار پھر حمیرا سے ہاتھ ملایا اور بولیں ’’ارے وہ بھی تو شعلہؔ صاحب کے بڑے اچھے دوست تھے۔ شعری نشستوں میں باقاعدگی سے آتے تھے۔‘‘ پھر آسیون، اُنّائو، لکھنؤ، کانپور کی یادیں تازہ ہوئیں۔ اور گویا ’’ ڈاک خانہ‘‘ مل گیا۔ اِک دبستاں ُکھل گیا۔ اب فون پر یا بالمشافہ ملاقاتیں ہوتی ہیں تو دونوںبیتے دنوں کی یادوں کے  َپٹ کھول کے باہر آنے سے انکاری ہوجاتی ہیں۔
اُن کے تکلّفات و مکلّفات دیکھیں تو یہاں سلسلۂ نقش گرِ حادثات ذرا دراز ہوجاتا ہے۔ہمارے ایک دوست ہیں۔ سیّد اِسلام عماد۔ وطنِ مالوف لکھنؤ۔ چھ علمی اور ادبی تخلیقات کے مصنّف ہیں۔ تین کتابیں چھپوا کر اپنے پبلشروں سے خاصے آزردہ خاطر ہو چکے تھے۔چند برس بیتے چوتھی کتاب کا مسوّدہ بغل میں دبائے، نئے پبلشریا پرنٹر کی تلاش میں پَت جھڑ کا پتاّ بنے اِدھر اُدھر ڈَول رہے تھے کہ کسی شناسا نے (حاشیہ آرائی کے سے انداز میں تذکرہ کرتے ہوئے ) میرا پتا دے دیا۔ آگئے! اب تک اُن کی تین کتابیں، ’’شہرِ ادب‘‘، ’’  ُجھرمٹ‘‘ اور ’’دھوپ چھائوں‘‘ چھاپ چکا ہوں۔ آج تک یہ جان نہ پایا کہ سابقہ پبلشروں کی طرح مجھ سے بھی کبیدہ خاطر ہیں یا نہیں۔ کبھی باتوں باتوں میں گریز کا عالم آجائے تو موقع شناسی سے کام لیتے ہوئے بڑے خوبصورت انداز میں ’’طرح‘‘ دے جاتے ہیں۔ خفگی کا اظہار مقصود ہو تو ’’تڑی‘‘ لگا دیتے ہیں کہ نئی کتاب کا مسوّدہ لے کے آرہا ہوں۔ حال اُن کا بھی یہ ہے کہ چھ کتابوں کے مصنّف ہونے کے باوصف، حصول وو صولِشہرت کی راہداریوں سے ناواقف و نابلد ہیں۔ بالکل میری طرح پچھواڑے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ مَیں نے برسوں چین میں رہ کے کام کیا۔ اور چین کا بھی وہ دور جب چین، آج کا چین نہ تھا۔ بدترین سیاسی بد نظمی، اُکھاڑ پچھاڑ، توڑ پھوڑ والا چین تھا۔ پھر سیاسی صورتِ حال میں ذرا تبدیلی آئی تو چینیوں کے کہنے پر ہی مَیں نے وہ حالات چشم دید انداز میں قلم بند کئے۔ حکومتِ چین نے سرکاری سطح پر انہیں "Living in China" کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع کیا۔ اور گزشتہ لگ بھگ تیس سال سے میری وہ تحریریں، یورپ اور امریکا کے ماہرین اور   ّمحققینِ چین اپنی کتابوں اور مقالوں میں حوالہ جاتی مواد کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ جب تاریخ اور احوالِ چین کے معاملے میں بیسویں صدی کے ساتویں، آٹھویں اور نویں عشروں میں داخل ہوتے ہیں تو میری تحریروں سے پہلو بچا کے نکل جانا اُن کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔اب تک اِس حوالے سے متعدد کتابیں اور مقالہ جات شائع اورکئی بین الاقوامی سمپوزیم منعقد ہوچکے ہیں ۔تازہ ترین تجزیاتی کتاب"Translation Zones in Modern China" سڈنی یونیورسٹی، آسٹریلیا کی پروفیسر بونی میکڈوگل نے لکھی اور "Cambria Press, New York" نے شائع کی ۔اور مَیں ہوں کہ یہاں ایک گمنا م سے گوشے میں، انگریزی محاورے کے مطابق ’’پچھلی بنچوں‘‘ پہ بیٹھا ہوں۔ سیّد اِسلام عماد کے حوالے سے ہی بات کی جائے تو وہ چھ کتابوں کے مصنف ہو کر بھی پتلی گلی میں چل رہے ہیں۔ اُن کے محلے میں بھی چوتھے سے پانچویں گھر والے انہیں نہ پہچانتے ہوں گے۔ وگرنہ، ایسے لوگ بھی ملتے ہیں کہ ’’لطیفوں کی کتاب‘‘ مرتّب کرکے، اقتدار کی راہداریوں میں بارسوخ، صاحبانِ اقتدار کے آگے پیچھے گھومتے، دامن گیر ہوتے، گورنروں اور وزرائے اعظم تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ اپنی ’’کتاب‘‘ پیش کرتے ہیں، تصویریں بنواتے ہیں اور پھر ہدفِ     ّمتعینہ تک پہنچ کر مفاداتِ مطلوبہ سے جھولیاں بھر لیتے ہیں ۔ نام ہو جاتا ہے اور بے رسوخ لوگوں کے لیے خود ’’بارسوخ‘‘ بن جاتے ہیں۔ ایک روز دورانِ ملاقات مَیں نے اِسلام عماد صاحب سے،جان پہچان اور چوتھے پانچویں گھر والی بات کی تو بولے، ’’عالی جاہ، آپ نے تو ہماری جان پہچان یا ملاقاتوں کا پھیلان بڑھا کر ہماری عزت افزائی کر دی۔ سچ تو یہ ہے کہ تیسرے گھر تک پہنچتے پہنچتے ا    ّجنبیت کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔‘‘ بات کہاں سے کہاںجانکلی۔ ہمارے سیّداِسلام عماد قیامِ پاکستان کے نتیجے میں لکھنؤ سے ٹرین میں بیٹھے اور ہجرتی صعوبتیں سر کرتے لاہور کے میاں میر اسٹیشن پر اُتر تو آئے لیکن 66 برس سے زیادہ کا عرصہ بیت جانے کے باوصف وہ لکھنؤ کے تکلّفاتِ باردہ،’’ آیئے گا، جائیے گا‘‘کی ٹرین سے اُتر نہیں پائے۔ یہی کیفیت مجھے شعلہؔ آسیونی کی اہلیہ میں نظر آتی ہے۔وہ بھی،برسوں بیت جانے کے باوصف، ابھی تک یوپی کی ٹرین سے نہیں اُتر پائیں۔ حمیرا سے ملنے آئیں گی تو پہلے فون کریں گی۔ ’’ہم آرہے ہیں۔‘‘ مَیں حمیرا سے مذاقاًکہتا ہوں کہ پوچھ لو کتنے لوگ آئیں گے ۔وہ اُسی انداز میں بات آگے بڑھادیتی ہیں تو جواب ملتا ہے ، ’’ بھئی، ہم ٹھہرے یوپی کے۔ ہم ایک بھی ہیں تو بس ’’ہم‘‘ ہیں۔ اب پیڑھیوں سے رگوں میں  َبسی پالنے کی رِیت  ُچھٹنے سے تو رہی ۔ اور پھر  ُچھٹے بھی کس لیے ؟ زبان کے ساتھ یہاں جو سلوک ہورہا ہے، وہ دیکھتے ہوئے اِس رِیت کو نہ چھوڑنا ہی اچھا ہے۔‘‘کچھ نہ کچھ لے کے آئیں گی۔اِسی پہ بس نہیں بلکہ ’ نوبت بہ ایں جا رسید‘ کہ مسوّدہ منگوانا ہو، کوئی میٹر بھیجنا ہو یا کتاب کے بارے میں کوئی ہدایت یا مشورہ دینا ہو تو گھر پہ حمیرا سے رابطہ کریں گی اور گھرہی کو بطور’’ ڈاکخانہ‘‘ استعمال کریں گی تاکہ حمیرا سے رابطہ رہے۔ دفتر کا تو جیسے رستہ ہی بھول گئی ہیں۔ دونوں میں یہ اپنایت دیکھ کے خوشی ہوتی ہے۔آ،ناں پائیں تو کچھ بھجوا دیں گی۔ آرٹس کونسل، کراچی میں کوئی ادبی تقریب ہو تو حمیرا کو فون کرکے، یا اُس کے فون کرنے پر ساتھ چلنے میں خوشی محسوس کرتی ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں کراچی یونیورسٹی کے سابق اور ضیاالدین یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر اور معروف شاعر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم سے اُن کی ملاقات ہو گئی کہ وہ بھی شعلہؔ آسیونی کی شعری محفلوں میں شریک رہے ہیں۔مَیں نے سنا تو اُن سے کہا کہ موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پیرزادہ صاحب سے شعلہؔ آسیونی یا اُن کی شاعری پر ایک مضمون لکھوا لیں تاکہ کتاب ’’مزید معتبر‘‘ ہو جائے۔ بیگم شعلہؔ آسیونی نے پیرزادہ صاحب سے بات کی توانہوںنے اپنی ’’گونا گوں‘‘ مصروفیات کی بِنا پر کچھ اِتنا وقت مانگ لیا جو شاید کسی پنج سالہ منصوبے کے لیے ہوتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ریڈیو’’ چیزے دیگری‘‘ تو نہیں ہاں’’ دنیائے دیگری‘‘ ضرور تھا۔ اُسے ہم اِک عالمِ فسانہ  بھی کہہ سکتے ہیں۔تقسیمِ ہند سے پہلے اور بعد میں بھی بڑے بڑے فلمی اداکار، آواز کے معاملے میں اِسی راہ سے ہو کر نکلے۔ مثال کے طور پر بھارتی اداکار اوم پرکاش اور کامنی کوشل اور پاکستانی اداکار محمد علی۔ ریڈیو میں میرا پہلا داخلہ راولپنڈی سے ہوا، پھر لاہور اور اس کے بعد کراچی ۔ گو زیادہ وابستگی خبروں کے شعبے سے رہی تاہم وقتاً فوقتاً دوسرے شعبے بھی ’’ زد‘‘ میں آتے رہے۔ پھر برسوں بیرونِ ملک رہنے کے سبب رابطے معدوم ہوتے چلے گئے۔ کچھ دن ہوئے محترم یاور مہدی سے ملاقات ہوگئی۔ کبھی اِس ’’دنیائے آہنگ اور حرف وصوت‘‘ میں اُن کا  ُطوطی بولتا تھا۔ آج سے ایک ڈیڑھ نسل پہلے تک کی بات ہے۔ تب نوجوان، طلبا اور طالبات کی غیرنصابی سرگرمیاں بھی علمی ادبی لحاظ سے تعمیری ہوتی تھیں۔ لکھنے پڑھنے اور صدا کاری میں اُن کی دلچسپی کچھ زیادہ ہی رہتی تھی۔ یہی زمانہ تھا جب ہمارے ملک میں تقریری مقابلے ہوتے تھے۔ جیت کا جذبہ سر چڑھ کے بولتا تھا۔ یاور مہدی نے جانے کتنے نوجوانوں کو لکھناپڑھنا سکھایا۔ اُن پر آواز کی جادوگری کے دَر کھولے۔ ریڈیو کی عمارتوں کے بڑے بڑے، اونچی اونچی چھتوں والے کمرے اور برآمدے، سائونڈ پروف اسٹوڈیوز…ایک عجیب سا خیال آفریں اور وسعتِ فکر و نظر  کا حامل ماحول ہوتا تھا۔ ابھی ٹیلی ویژن کا ’’ڈبہ‘‘ عام نہ ہوا تھا لہٰذا ریڈیو ہی آتشِ شوق کو ہوا دیتا تھا۔ یاورمہدی جانے انجانے، کوئی بھی ہو، سب کے دوست تھے اور ہیں۔وہ ریڈیو پاکستان ،کراچی سے بحیثیت اسٹیشن ڈائریکٹر ریٹائرہوئے ۔مَیں نے باتوں باتوں میں پوچھ لیا،’’یاور بھائی، شعلہؔ آسیونی سے کوئی نسبت رہی؟‘‘ یک دم گویا جھٹکا سا لگا۔ آنکھوں میںاِک تاب دکھائی دی۔ بولے، ’’ارے وہ تو ہمارے بڑے پیارے دوستوں میں سے تھے اور آخری زمانے میں تو میرے ہی کمرے میں آبیٹھتے تھے۔ اُن کا ذِکر تم نے کیسے چھیڑ دیا؟ ‘‘ آنکھوں میں ہنوز چمک تھی۔’’مَیں اُن کا ’’ مجموعۂ کلام‘‘ چھاپ رہا ہوں۔ سنا ہے کہ اُن کا جو کلام ریڈیو ’’ بُرد‘‘ ہوگیا تھا، اُس کی تلاش اور حصول میں آپ نے بہت ہاتھ بٹایا تھا۔ ‘‘وِس پہ بس مسکرا کے رہ گئے۔ میری بات ابھی ختم نہ ہوئی تھی،’’ کیا یہ ممکن ہے آپ اُن کے بارے میں اپنی کچھ یادیں قلم بند کردیں اور مَیں انہیں کتاب کا حصّہ بنالوں؟‘‘ انہوں نے وعدہ کرلیا۔ اور پھر وفا بھی کردیا۔ ’’شعلہ رنگ‘‘ کا فلیپ اُن ہی کا عطایاہے ۔
غبارِ وقت کی چھایا تلے آیا، شعلہ ؔ آسیونی کا کلام ایک بار پھر فروزاں ہوا۔ یہ اُن کی اہلیہ اور بیٹے کی   محنتوں کا ثمر ہے۔
_________________

مجموعۂ کلام ’’شعلہ رنگ‘‘ سے منتخب اشعار

زندگی کے فسانے سناتے رہو
آدمی اب کہاں آدمی مر چکا 

پرندے مستقل پرواز میں ہیں
تو کیا اب کی چمن پورا جلے گا

تیرتا پھرتا ہے پھر آنکھوں میں عکسِ بے وجود
کیا کوئی صحرا میرے شوریدہ سر میں آگیا 

آدمی اپنی فطرت سے مجبور ہے
بوجھ کانٹوں کا بھی مجھ کو سہنا پڑا

حادثہ ہے جو ابھی آج کے بعد 
واقعہ کل یہ خبر سا ہو گا

دل کہہ رہا تھا روک دوں اٹھ کر سحر کو مَیں 
جی چاہتا تھا کوئی نہ جائے تمام رات

اُن کی محفل سے مَیں بھی اُٹھا
جیسے میرا بھی ہے کوئی گھر

احساسِ غم سب ہی کو ہے بات شعورِ غم کی ہے
کتنے ذہنِ رسا پہنچیں گے لفظوں کی گہرائی تک

چمن کے پھول بھی سب کو کبھی نہیں ملتے
کسی کسی کے لیے ہے بہار کا موسم

طوفان بھی پُر زور بہت ہے دریا بھی پایاب نہیں
لوگ تو کب کے ڈوب چکے ہیں نائونہ ڈوبے کم سے کم

میری تحریروں کی سچائی سے افسردہ نہ ہو
دل کو ویرانہ لکھا ہے اور آگے کیا کہوں

ہم کہہ رہے ہیں ہم سے تو بہتر تھا پچھلا دور
تم کیا کہو گے کیسا زمانا ملا ہمیں

پھول آپ کا نصیب ہیں پتھر مِرا نصیب
لیکن حضور گردشِ دوراں کہاں نہیں

ہیں اُلجھے ہوئے ذہن میں اُلجھائو اَنا کے
اِک عمرِ خضر پائوں تو کھولوں گرہوں کو

کیوں پکارا جا رہا ہوں بار بار
کیا یہاں تخلیقِ انساں ہوگئی

تیرے غم نے سنوارا مِرا سوزِ غم
سائے کے ساتھ دیوار چلتی رہی

سوکھے ندی نالے شاید میرے درد کو جان سکیں
ریت اُراتی اِن آنکھوں نے مینہ بہت برسایا ہے

تم چلے بھی تو چل پائے ہو دو قدم
ہم بڑھے جب کبھی کارواں ہوگئے

وقت کی لَو سے لوہا پگھل جائے ہے
کب مگر جل کے رسّی کا بل جائے ہے

بس ایک لمحہ گزارا تھا اُس کے ساتھ مگر
تمام عمر گزاری ہے دل رفو کرتے

نہ وہ دھڑکنیں، نہ وہ آہٹیں، نہ وہ سلسلے، نہ واسطے
نہ محبتیں، نہ رفاقتیں، نہ سلام ہے، نہ پیام ہے

سائے گھٹتے رہے سائے بڑھتے رہے
زندگی کی یہی داستاں لکھ سکا

آگ شعلہؔ کِرن سے کِرن میں لگی
اور جلتا رہا پھر دیے سے دیا

ڈوبتے سورج کو کیا دکھلائیں اپنے دل کے داغ
دھوپ کی شدت سے اُس کا اپنا چہرہ جل گیا

جس میں بسے ہوئے ہیں کئی شہرِ آرزو
اُس دل کو جانتے ہو، بیاباں کہاگیا

آسماں جہاں پر تھا آسماں وہیں پر ہے
ہم نے ذرّے ذرّے کو لاکھ آسماں جانا

شہر ہوں کہ صحرا ہوں سب ہی ایک سے نکلے
گھر ہی ٹھیک ہے شعلہؔ کیا یہاں وہاں جانا

تمام عمر اندھیروں میں کٹ گئی شعلہؔ
تمام عمر اُجالوں کی آرزو کرتے

جس کو رنگ نہیں کہتے ہم
وہ بھی تو ہے شعلہؔ رنگ

کِھلیں گے لاکھ گُل نگہت بداماں ہم نہیں ہوں گے
بہاریں آئیں گی رقصاں غزل خواں ہم نہیں ہوں گے

یہ شہر مِرا ہے کہ نہیں مجھ کو بتائو
یا کہہ دو مجھے گھر کا پتا یاد نہیں ہے

No comments:

Post a Comment