مُناجاتِ ناشر
قیصر مسعود جعفری کی کتاب ’’چاند چہرے‘‘ کا پیش لفظ
رشید بٹ
پری شان (پرے شان) خٹک عمر بھر اپنے نام کی وضاحتیں دیتے پھرے کہ بھائی (یا بہن) میں پریشان نہیں ، پری شان ہوں۔ کوئی مان کے دیا ، کوئی نہ مان کے دیا۔ اسی طرح بہت سے لوگ پریشان رہتے ہیں۔ پریشان اور پری شان کا ’’بکھیڑا‘‘ خیرآباد کے اُس پار سے شروع ہوتا ہے اور افغانستان تک چلتا ہی چلاجاتا ہے۔ ہم خود بھی اکثر پریشان رہتے ہیں لیکن خیرآباد سے اِدھر والے ۔ اُدھر والے نہیں۔ پریشانی کا سبب کبھی تو ’’کچھ‘‘ ہوتا ہے لیکن اکثر یہ بے سبب ہوتی ہے۔ بے مثل مزاح نگار شفیق الرحمن نے علی بابا کے بارے میں لکھا کہ ’’یوں تو وہاں اور بھی بہت سے علی بابے رہتے تھے لیکن یہ علی بابا سب میں نمایاں اور ممتاز تھا۔‘‘ یہاں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت ہے کہ اتنے سارے ’’پریشانوں‘‘ میں ہمیں قیصر مسعود جعفری ہی ہمیشہ سب سے ’’ممتاز ونمایاں‘‘پریشان نظر آئے۔ عمر میں وہ ہم سے چھوٹے لیکن ’’پریشانوں‘‘ میں’’ بڑے‘‘ ہیں۔ ان سے قربت کا دعویٰ ضرور ہے لیکن کب سے ۔۔۔یہ اب یاد نہیں!
کچھ کام وہ بڑی باقاعدگی سے کرتے ہیں ، مثلاً نماز باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔ اخبار میں اپنا ہفتہ وار کالم باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ اپنی اماّں کی خدمت باقاعدگی سے کرتے ہیں اور اسی تناسب سے باقاعدگی کے ساتھ دعائیں سمیٹ اور جنت کما رہے ہیں۔ موبائل فون یا کسی اور حوالے سے رابطہ نہ رکھنے کے عزم پر باقاعدگی سے قائم ہیں۔ کہیں آئیں جائیں، پیدل ہوں یا بس ویگن میں، کم سے کم پانچ کلو گرام وزنی ’’بستہ‘‘ بغل میں باقاعدگی سے دابے رکھتے ہیں۔ (بستہ الف یا ب کی بات نہیں ہورہی۔)یہ بستہ عموماً جہازی بلکہ’’ نسیم جہازی‘‘ سائز کا لفافہ ہوتا ہے جو ’’صندوق میں بندوق‘‘ کی طرح متفرق سائز اور حجم کے بہت سے’’مزید‘‘ لفافوں سے منہامنہ ٹھنسا ہوتا ہے۔ ان لفافوں میں بھی کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی ہے۔ کالموں کے مسودے، پرانے اور نئے اخبار، گفتگو میں بھی ’’غم کے بادل‘‘ باقاعدگی سے برساتے ہیں۔
ہم نے جو کچھ کہا اس سے یہ مطلب ہرگز نہ لیجئے گا کہ قیصر مسعود جعفری کی پریشانیاں کلہّم اس کی اپنی ہیں۔ اپنی ذات میں تو وہ سچ پوچھئے تو ایک بے داغ ہیرے سے کم نہیں۔ اس شہرِ بے قرار اور بیاکُل میں اس کے دوستوں، شناساؤں اور اپنوں کا کوئی شمار نہیں۔ وہ ہر کسی کا دوست ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے گویا جب قدرت اس کی مٹی سان رہی تھی، خمیر اٹھا رہی تھی تو اس میں خاص طور پر یہ بھی گوندھ دیا کہ ’کسی کے ہو جاؤ یا اپنا بنا لو‘۔اس کا مسلکِ حیات، ’ من توشدم تو من شدی‘سے کم کہیں ٹھہرتا ہی نہیں۔ کسی کو دکھ، تکلیف، مشکل اور پریشانی میں دیکھنا اس کے بس میں نہیں۔ اپنے دس کام لے کے گھر سے نکلا ہو، کوئی شناسا مشکل میں نظر آجائے تو اپنے سارے کام بھول بھال، اس کے ساتھ ہولے گا اور جب تک اسے مشکل یا پریشانی سے نجات نہ دلادے ، چین سے نہیں بیٹھے گا۔ اور پھر اسے یاد آئے گا کہ بیٹی کو نانی کے ہاں سے لے کر گھر پہنچانا تھا! تب تک وہ بے چاری وہاں سوکھتی رہے گی۔ ذاتی علم اور تجربے کی بات ہے کہ اس کی اسّی(80) فیصد پریشانیاں اس کے دوستوں کا ’’عطایا‘‘ ہیں۔ ان دوستوں میں ہم بھی شامل ہیں!
جعفری کی تحریر یں جابجا بکھری پڑی تھیں۔ دو تین سال ہوئے ہم نے اس کا گھیراؤ شروع کیا کہ وہ شوبز کی شخصیتوں کے انٹرویو یکجا کردے۔ ہم انہیں کتابی شکل میں چھاپ دیں گے اور یوں وہ بھی ’’صاحبِ کتاب‘‘ ہو جائے گا۔
’’ہاں ، ہاں، نکالتا ہوں۔ یہ تو اچھی بات ہے۔ بس میں کل ہی لے کے آرہا ہوں۔‘‘ کل پہ یاد آیا، جعفری میں ایک اور خوبی ہے۔ اور وہ بھی ’’باقاعدگی‘‘ کے’’کھاتے‘‘ میں آتی ہے۔ دن بتائے گا۔ ہفتہ بتائے گا، لیکن یہ کبھی بتا کے نہ دے گا کہ سال کون سا ہوگا؟ اور ہو بھی تو عیسوی ہو گا یا ہجری۔ مثلاً کہے گا،’’بس میں سوموارکو آرہا ہوں تمہاری طرف۔‘‘ اوریہ سوموار 2009ء کا کوئی سوموار ہوسکتا ہے اور 2010ء کا بھی ۔ ’’دو مہینے‘‘ بعد خراماں خراماں (معمول کا بستہ بغل میں دبائے) چلے آرہے ہیں۔ پوچھو تو جواب میں کہے گا،’’ہاں تو آج سوموار ہی ہے ناں۔‘‘ کبھی چھ چھ مہینے لاپتارہے گا اور آئے گا تو جیسا ہم نے پہلے کہا، جانے کس کس کے’’ غم کے بادل ‘‘برسانا شروع کردے گا۔
بہت ڈانٹ ڈپٹ کے بعد ایک دن حواس باختہ، ہانپتا کانپتا آیا۔ بستے کے ساتھ ساتھ ایک بورا سا کرسی پہ Dump کیا اور اڑتے سانسوں کہنے لگا۔ ’’یار اتنے دن جو نہ آسکا تو و جہ یہ تھی کہ فوٹو کاپیاں کروا کے مسوّدے ترتیب دے رہا تھا۔‘‘ بڑے سائز کی مہنگی والی فوٹو کاپیاں تھیں۔ ہم تو سرپیٹ کے رہ گئے کہ بھائی عام سائز کی فوٹو کاپیاں کرواتے۔ کیا ضرورت تھی اتنے زیادہ پیسے خرچ کرنے کی۔ خیر، کام تو بہت بڑا کر لائے ہو۔ اس کے بعد چل سو چل، کبھی ہماری طرف سے تاخیر ہوئی، کبھی وہ پروف ریڈنگ کے چکر میں لاپتا ہوگیا۔ مسوّدے دھیرے دھیرے کتابی شکل اختیار کررہے تھے۔ ایک دن ہم نے حمیرا اطہر سے کہا کہ اخبار، رسالے میں تو غلطی کسی حد تک قابلِ معافی ہو جاتی ہے لیکن کتاب میں تو یہ قابلِ گردن زدنی سمجھو۔ لہٰذا ایک نظر دیکھ لو۔ اس نے مسوّدہ لے لیا اور دو تین دن بعد اِدھر اُدھر سے ’’سونگھ‘‘ کر کہنے لگی۔ ’’اس میں پروف کی غلطیاں تو الگ ہیں، کام بہت’’ رفو‘‘ کا دکھائی دے رہا ہے۔‘‘ اور ہم نے کتاب کی ایڈیٹنگ بھی اس کے متّھے مار دی۔ اس نے بہت آئیں بائیں شائیں کیا لیکن ہم نے (پنجابی میں )یہ کہہ کے بات ختم کر دی کہ ’’اونٹ اڑاندے ای لددے نیں‘‘ (اونٹ بلبلاتے ہوئے ہی لدتے ہیں)۔
بہرحال، ’’رفوگری‘‘ کا دریا بھی ،بقول منیرؔ نیازی، پار ہوا تو ’’پیش لفظ‘‘ اور دیگر تاثرات وغیرہ لکھوانے کا ’’دریا‘‘ سامنے تھا۔ اس دریا میں جو جعفری نے شناوری کے جوہر دکھانے شروع کئے تو ہمیں گویا بوکھلا کے رکھ دیا۔ پلندے کے پلندے لئے چلا آرہا ہے کہ یہ فلاں صاحب کے تاثرات ہیں، یہ فلاں صاحب نے لکھا ہے۔۔۔ ہم نے زچ ہوکے کہا، ’’یار لگتا ہے تمہاری کتاب دو جلدوں میں چھاپنی پڑے گی۔ ایک ضخیم جلد صرف تاثرات کی ہوگی اور دوسری مجھ ایسے ’’ٹوئیاں‘‘ کی طرح اصل انٹرویوز کی۔ ‘‘جواب آیا۔ ’’تم ہی نے تو کہا تھا کہ تاثرات وغیرہ بھی ہونے چاہئیں۔‘‘ اور ہم کھسیاسے گئے، ’’ہاں، کہا تو تھا ! اور تم نام بھی ایسے ایسے جغادری لے آئے ہوکہ ۔۔۔‘‘ تب یہ اندازہ بھی خوب ہوا کہ جعفری کی دوستیوں کے تانے بانے کہاں کہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اسی دوران میں، حسن ظہیر چل بسے اور کتاب کا کام کسی حد تک کھٹائی میں جا پڑا ۔ مگر تابکے۔۔۔ دنیا کے کاروبار تو چلتے ہی رہتے ہیں۔کسی کو رستگاری نہیں۔کل ہماری باری بھی آجائے گی۔۔۔شیلف پر رکھی کتاب جانے کتنی یادیں اپنے اندر سمیٹے ہوگی!