(فضا معین کی کتاب "عظیم پریم راگی، حالاتِ زندگی اور عارفانہ مجموعہ کلام" میں شامل جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد کے مضمون سے اقتباس۔ انتخاب : حمیرا اطہر)
پریم راگی نے سماع کا سلسلہ آخر وقت تک جاری رکھا۔ 12دسمبر 1964ء کو آخری محفلِ سماع کرنل عبدالعزیز خاں کی کوٹھی پر ہوئی، جو قائداعظم کے مزار کے مقابل ہے۔ کرنل عبدالعزیز خاں ایک بہت مشہور سرجن تھے۔ اُس وقت جناح ہسپتال میں ڈائریکٹر ہیلتھ کے عہدے پر فائز تھے۔ بعد میں اُسی کوٹھی میں انہوں نے ایک ہسپتال قائم کیا جہاں بڑی بڑی سرجری کیا کرتے تھے۔
12دسمبر کی محفلِ سماع کا تذکرہ ابھی مَیں نے کیا ہے۔ 19دسمبر1964، سنیچر کی رات تھی اور اگلا دن شب ِبرأت کا تھا۔ مسلمانوں میں یہ واحد تہوار ہے جو رات میں منایا جاتا ہے۔ جس سنیچر کو پریم راگی صاحب نے اِس دارِفانی کو الوداع کہا، وہ فجر کا وقت تھا اور شبِ برأت کا دن طلوع ہوچکا تھا۔ یوں اُن کی تدفین عین شب ِبرأت میں ہوئی۔ آپ کا انتقال سجدے میں ہوا تھا۔ واقعات کچھ اِس طرح بتائے جاتے ہیں کہ 12دسمبر کی شب محفلِ سماع کے لئے جو گئے تو وہاں نشست پر کوئی کیل تھی جو اُن کے کولھے میں چبھ گئی، جس کے نتیجے میں کئی روز تکلیف چھیلتے رہے لیکن وہ زخم تھا کہ بڑھتا ہی رہا۔
ِفضا معین صاحب کا کہنا ہے، شبِ برأت سے ایک شب پہلے تین بجے جب طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو وہ ٹیکسی لے کر کرنل عبدالعزیز خاں کی کوٹھی پر پہنچے۔ دروازے پر دستک دی تو کرنل صاحب خود باہر تشریف لائے۔ اُنہیں احوال سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے عندیہ دیا کہ وہ چل کر دیکھنا پسند کریں گے۔ چناںچہ اُسی ٹیکسی میں بیٹھ کر کرنل عبدالعزیز خاں رنچھوڑ لائن میں، جہاں عظیم پریم راگی کی رہائش تھی، مریض کو دیکھنے پہنچے۔ ِفضا معین صاحب اُس جگہ کا عجب حال بتاتے ہیں کہ عظیم پریم راگی صاحب نے وہ عمارت خرید لی تھی جس کا نام ”پریم راگی منزل“ رکھا۔ اُس کی چھت پر بنی لکڑی کی جھونپڑی میں وہ قیام پزیر تھے۔ باقی خاندان کے لوگ نیچے کی منزلوں میں رہتے تھے۔ کرنل عبدالعزیز نے وہیں اوپر جا کر اُن کو دیکھا، کچھ دوائیں تجویز کیں۔ نیچے واپس ٹیکسی تک پہنچ کے جب ِفضا معین نے مریض کی کیفیت پوچھی تو کرنل عبدالعزیز کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ڈاکٹری حساب سے تو اِنہیں تین دن پہلے ہی انتقال کرجانا تھا۔ یہ تو اِن کی قوّتِ ارادی اور اللہ کی مرضی ہے جو اب تک زندہ ہیں۔ بہرحال جب ِفضا معین اُنہیں واپس چھوڑ کر گھر پہنچے تو وہاں ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ معلوم ہوا کہ آخر وقت میں، جب کہ فجر کی اذان ہوچکی تھی، نماز کے لئے بیٹھے تو سجدے ہی میں مالک ِ حقیقی سے جا ملے۔
مکرّر کہنے کی ضرورت ہے کہ فجر کی اذان کے ساتھ ہی شبِ برأت کا دن شروع ہوچکا تھا اور تدفین رات میں ہوئی۔ اور کیا خبر کہ تین دن قبل وصال نہ ہونے کا سبب یہی ہوکہ اللہ تعالیٰ کو اُنہیں شبِ برأت نصیب فرمانی تھی۔
یہاں مَیں ایک واقعہ قلم بند کرنا چاہوں گا۔ پندرہ شعبان کو میٹھادر میں واقع قرار شاہ بابا کا عرس ہوا کرتا ہے، جس کے سلسلے میں آستانے کی مجاورہ حلیمہ بائی سماع کے لئے بیعانہ دے گئی تھیں، انتقال سے پہلے پریم راگی صاحب نے وہ بیعانہ واپس کرا دیا کہ ناسازیٔ طبع کی وجہ سے محفلِ سماع میں شرکت نہ کرپائیں گے۔
آخیر میں مَیں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ قوّالیوں کا وہ دَور اِس طرح کا تھا کہ مجھے آج بھی یاد ہے کہ طالب علمی کے زمانے میں جب ہم دوستوں کے ساتھ بوہرہ پیر جاتے تو ہوٹلوں میں زور زور سے ریکارڈ بج رہے ہوتے تھے، کچھ اِس طرح کے بول بھی ہوتے تھے:
جمعے سے جمعرات اچھی
اب دَور بدل چکا ہے۔ لوگوں کا مذہب سے لگاﺅ اُس طرح کا نہیں رہا جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔ شاید یہ سلسلہ اور بھی آگے جائے۔ تاہم، اچھائی اور برائی کا فرق تو ہمیشہ قائم رہے گا۔ نیک کاموں کی برتری کبھی کم نہیں ہوسکتی۔ اور یقیناً وہ وقت بھی آئے گا جب کُل عالمِ انسانیت اِس ایک نکتے پر مرتکز ہوجائے کہ کوئی تو ہے جو اِس سارے گورکھ دھندے کا محرک ہے۔ ایک ایٹم کا جائزہ لیں تو اُس میں بھی ایک کائنات ہے اور کائنات تو خود اپنی جگہ ایک مُسلّمہ حقیقت ہے اور کوئی بھی کام جو ہوا ہو یا ہو رہا ہو، کسی نہ کسی سے تو متعلق ہوتا ہی ہے۔ وہی اللہ ہے، وہی خدا ہے اور وہی ایشور ہے۔ لیکن جیسے شیکسپیئر کہتا ہے کہ نام میں کیا رکھا ہے؟ گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو، وہ تو مسحورکُن خوشبو ہی دے گا اور اُسی مسحورکُن خوشبو سے پہچانا جائے گا۔
عظیم پریم راگی کا رجحان یہی تھا۔ وہ ہندوستان اور پاکستان کے ہندو، مسلمانوں ودیگر کے درمیان یک جہتی کا ایک پُل قائم کرنا چاہتے تھے جس کا اظہار اُن کے کلام سے بھی ہوتا ہے۔ اور یہ من وعن وہی جذبہ ہے جس سے قائداعظم نے ابتدا کی تھی لیکن جب اُنہوں نے یہ محسوس کرلیا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ نہیں رہ سکتے تو مجبوراً قیام ِ پاکستان کا مطالبہ کیا۔ وہ تو یہ بھی چاہتے تھے کہ تقسیم کے بعد پاکستان وبھارت اِسی طرح کے بھائی چارے سے رہیں جیسے شمالی امریکا میں کینیڈا اور یونائٹیڈ اسٹیٹس۔ مگر ہوا اِس کے برعکس۔ کیوں؟ یہ ایک لمبی کہانی ہے جس سے ہم میں سے اکثر بخوبی واقف ہیں۔