شعلہ آسیونی کچھ یادیں ، کچھ باتیں - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Friday, 5 April 2019

شعلہ آسیونی کچھ یادیں ، کچھ باتیں

1 comments
تحریر:چودھری شاہکارمحمد 
نظرِ ثانی: رشید بٹ


اپنے والدشعلہؔ آسیونی کے مجموعۂ کلام ’’ شعلہ رنگ‘‘ کے لیے کچھ لکھنے کی نہ تو مجھ میں ہمت تھی اور نہ ہی جرأت کیونکہ مَیں خود کو اِس قابل نہیں سمجھتا۔ مگر محترم رشید بٹ صاحب جنہوں نے ہمارے ساتھ اِس کتاب کو شائع کرنے کا بِیڑا اُٹھایا ہے ، مجھ سے کہا کہ ’’ اپنے والد کے جو واقعات مجھے سناتے رہتے ہو وہ تاریخ کا حصّہ اور تمہارے پاس امانت کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔ شاید یہ کبھی آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ بن جائیں۔‘‘ بس اِسی جذبے کے تحت چند واقعات جنہوں نے میرے والد کی زندگی پر بہت گہرا اثر ڈالا اور جن سے مجھے بھی رہنمائی ملی، یہاں نذرِ قارئین کررہا ہوں۔
اگر مَیں کہوں کہ میرے والد میرے آئیڈیل تھے تو یہ کوئی نئی بات نہ ہوگی ۔ ہر اولاد کے لیے اُس کے والدین ہی آئیڈیل ہوتے ہیں۔ لیکن مَیں یہ بات اِس لیے کہہ رہا ہوں کہ میرے والد جس قدر مضبوط کردار اور ہمہ گیر ّ شخصیت کے مالک تھے ، اور مَیں نے اُن کی پوری زندگی میں جو قناعت پسندی دیکھی، اُس کی مثال اِس دور میں مشکل ہی سے مِلے گی۔ وہ ایک طرف شاعر تھے تو دوسری جانب بہترین ریاضی داں۔ ایک طرف وہ سیاست داں اور شعلہ بیاں مقرّر تھے تو دوسری جانب بہت ہی پکے، سچیّ، باعمل مذہبی آدمی اور سراپا عاشقِ رسول ؐ۔ مجھے نہیں یاد کہ اُن کے سامنے نبیﷺ کا ذِکر ہوا ہواور اُن کی آنکھ نَم نہ ہوئی ہو۔
اُن کی زندگی میں بار ہا ایسے مواقع آئے کہ ضمیر کا معمولی سا سودا اُن کے لیے بہت بڑے مالی فوائد لاسکتا تھا مگر وہ ہمیشہ راہِ حق کے مسافر رہے اور کبھی بھی اُن کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔گو انہیں کبھی اُن کی قومی خدمات کا جائز حق نہیں مِلالیکن جب کبھی پاکستان کو ضرورت پڑی وہ ہمیشہ صفِ اوّل میں رہے اور کوئی منفعت حاصل کرنے کی بات ہوئی، خواہ وہ تحریکِ پاکستان کے تاریخی نغمے:

پاکستان کا مطلب کیا

 کے خالق ہونے کا اعزاز ہو یا کشمیر کے لیے بھوک ہڑتال اور اسے اقوامِ متحدہ تک لے جانے کا معاملہ ہو،توانہیں کبھی آخری صف میں بھی جگہ نہ مِل پائی ۔بہر حال انہوں نے کبھی پاکستان سے شکوہ نہ کیا۔ کوئی اِس سلسلے میں کچھ کہتا تو جواب دیتے کہ ’’ مَیں نے اپنا فرض پورا کیا، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے ۔‘‘
اپنے ملک و قوم سے شدید ّ محبت جو اُن کے رگ وپَے میں بستی تھی، وہ بھی آج کے دور میں نظر نہیں آتی۔ ملک و قوم سے اِس ّ محبتکی ایک وجہ تو تحریکِ حصولِ پاکستان کے عظیم رہنماؤں کی صحبت تھی جو انہیں حاصل رہی ، دوسرا سبب وہ چوٹیں جو قومی آزادی کی جدوجہد میں انگریز پولیس کی لاٹھیوں کی دَین تھیں اور جن کا درد اُن کی ہڈیوں تک میں سرایت کرچکا تھا اور انہیں اُس عظیم جدوجہد کی یاد دلاتا رہتا تھا۔ اِس کی ایک مثال یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد صرف اس لیے پان کھانا چھوڑ دیا کہ اب پاکستان سے پان نہیں آتا اور برسوں تک نہ کھایا۔ بعد میں جب دوسرے ممالک سے پان آنے لگا تو پھر کھالیا کرتے تھے۔
بچپن میں میرے والد کا ایک بار بمبئی (اب ممبئی) جانا ہوا تو وہاں سے سوٹ سلوا کر لائے اور پہن کر بہت ٹھاٹ سے نکلے ۔ اُن کے والد یعنی میرے دادا کی نظر جب اُن پر پڑی تو پاس بلایا ، ’’چودھری صاحب ! ذرا یہاں آیئے۔ ‘‘ یہ ہمارے دادا کا خاص انداز تھا۔ جب انہیں کوئی بات ناگوار گزرتی اور تنبیہہ مقصود ہوتی تو انتہائی وضعدارانہ رُکھائی کے ساتھ گفتگو کرتے اور یہ عادت میرے والد میں بھی آئی تھی۔ میرے دادا نے اُن سے کہا ، ’’ سوٹ تو آپ کا بہت اچھا ہے اور آپ پر اچھا لگ بھی رہا ہے مگر ایک بات بتایئے کہ کبھی کسی انگریز کو کُرتا، پاجامہ، شیروانی، ٹوپی پہنے دیکھا ہے؟‘‘ والد نے جواب دیا، ’’ جی نہیں ۔‘‘ تو دادا نے کہا ، ’’ اچھا تو آپ اپنے آقاؤں کی تقلید کررہے ہیں۔‘‘ باپ کی نصیحت دل کو ایسی لگی کہ پھر زندگی کے آخری دن تک اپنا لباس ہی اپنا ئے رکھا۔
ابتدا میں مَیں نے اُن کے ریاضی داں ہونے کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھی بڑا دلچسپ اور سبق آموز واقعہ ہے۔ ہوا کچھ یوں کہ وہ ریاضی میں بہت کم زور جب کہ باقی مضامین میں بہت اچھے تھے۔ ایک بار امتحان کا نتیجہ آیا تو اُن کا ہم جماعت جو ہندو تھا، پہلی پوزیشن تو حاصل کرگیا مگر اُس کے مجموعی نمبر میرے والد سے کم تھے۔ وجہ؟ چونکہ وہ ریاضی میں فیل ہوگئے تھے، لہٰذا باقی مضامین کے نمبروں سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ بات یہیں تک رہتی تو شاید کوئی فرق نہ پڑتا مگر اُس ہندو بچے نے میرے والد پر طنز کیا کہ ’’ ہو، ناں ۔۔۔بھیئے، حساب کتاب میں صِفر ہی رہوگے۔‘‘ یہ بات اُن کے دل کو لگی کہ میری وجہ سے پوری قوم کو گالی پڑ گئی۔ اُس دن سے انہوں نے ایسا پلٹا کھایا کہ ازسرِ نو جمع تفریق سے ریاضی پڑھنا شروع کردی اور سیدھے پہاڑے، اُلٹے پہاڑے، آدھے، پونے اورڈیوڑھے کے پہاڑے تک یاد کر ڈالے۔ ریاضی کی جتنی کتابیں دستیاب تھیں، سب پڑھ اور حل کر ڈالیں یہاں تک کہ اس وقت کی ریاضی کی مشکل ترین کتاب چکرورتی تک حل کرلی۔انہیں ہاکی کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ لیکن گراؤنڈ تک تو جاتے مگر میدان میں اُترنے کے بجائے، باہر ہی بیٹھ کر ریاضی کے سوال اور مسئلے حل کرنے میں محو ہوجاتے۔اُن کا یہی جنون دیکھ کے دوستوں نے انہیںَ سنکی کہنا شروع کردیا۔ اب اگلا امتحان آیا تو اُن کے ریاضی میں50میں49 نمبر آئے۔ انہیں بڑا بُرا لگا اوراستاد سے سوال کردیا کہ میرے49 نمبر کیوں آئے ؟اُس زمانے میں کسی استاد سے ایسا سوال پوچھنا بڑی گستاخی تھی کہ ہماری اقدار آج کے دور کی طرح پامال نہیں ہوئی تھیں۔ استاد انہیں کان سے پکڑ کر ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے میں لے گئے اور شکایت کردی۔ ہیڈماسٹر صاحب نے بھی بید نکال لی۔ تب والد نے اُن سے ڈیڑھ گھنٹے کی مہلت مانگی اور کہا کہ اس کے بعد آپ جو سزا دینا چاہیں دے دیں۔ اجازت ملنے پر وہ وہاں سے نکلے، کاغذات کا ایک پلندہ اٹھا کر لائے اور پھر سارا واقعہ ہیڈ ماسٹر صاحب کو سنادیا۔ اُس زمانے کے استاد بھی بڑے لوگ ہوا کرتے تھے۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے نہ صرف اُن کو شاباش دی بلکہ ریاضی کے استاد کے ساتھ مشاورت کے بعد انہیں ایک اضافی نمبر دے کر 50 نمبر پورے کردیئے۔ اور یہ واقعہ سارے اسکول میں مشہور ہوگیا۔
اپنے والد کی شاعری کے بارے میں کچھ کہنا چھوٹا منہ بڑی بات ہوگی لیکن اُن کی دو غزلیں ایسی ہیں جن سے اُن کی زندگی کے دو بہت اہم واقعات وابستہ ہیں۔ اُن میں سے ایک غزل کی تکمیل میں تو تقریباً 33 برس لگے ۔



نہ غمِ حیات ہے مستقل، نہ ّ مسرتوں کو دوام ہے
یہی زندگی ہے تو زندگی، تجھے دُور ہی سے سلام ہے



اُن کی بیاض سے پتا چلتا ہے کہ اس غزل کے پہلے تین شعراُنہوں نے علی گڑھ میں کہے۔ اِس کے بعد پاکستان ہجرت کر آئے۔ کم و بیش33برس بعد1980ء میں ہندوستان جانا ہوا، جہاں سے وہ اپنی خاندانی شان و شوکت اور بزرگوں کو خیرباد کہہ کر پاکستان آگئے تھے، تو وہاں نہ کوئی بزرگ رہا تھا، نہ ہی وہ شان و شوکت۔ اِس دل شکستہ کیفیت میں اُن کے جذبات و احساسات نے یوں اشعار کا روپ دھارا۔



جہاں گھٹنوں چل کے کھڑے ہوئے، جہاں ہم کھڑے سے بڑے ہوئے
اُسی سرزمین پہ ہُوں اجنبی، وہ جو گھر تھا جائے قیام ہے



نہ وہ دھڑکنیں، نہ وہ آہٹیں، نہ وہ سلسلے، نہ وہ واسطے
نہ ّ محبتیں، نہ رفاقتیں، نہ سلام ہے، نہ پیام ہے



مِرے ساقیا، مِرے ساقیا، تِرے میکدے کو یہ کیا ہوا
کہ خمار گیں نہ تو ہے فضا، نہ کھنک رہا کوئی جام ہے



اِسی عرصے میں یوپی کے شہر اُناّؤ میں بین الصّوبائی مشاعرہ منعقد ہوا ۔انہوں نے 8دسمبر1980ء کو بقیہ شعر کہہ کر یہ غزل مکمل کی اور 11دسمبر 1980ء کو اُس مشاعرے میں پڑھی تو سامعین میں سے ہر ایک کی آنکھیں اشک بار ہوگئیں۔
ایک صبح اپنے کمرے سے نکلے ، سیدھے میری والدہ کے پاس آئے اور کہنے لگے، ’’ میرا وقت پورا ہوگیا ہے ۔ ‘‘ میری والدہ نے پوچھا، ’’ صبح صبح یہ خیال کیسے آگیا؟‘‘ کہنے لگے ،’’ غزل ہوگئی ہے اور انسان ایسا بغیر کسی وجہ کے نہیں کہہ سکتا۔‘‘ پھر یہ غزل سنائی۔



کہنے بیٹھا ہوں وہ کہانی اب
لوٹ آئے گی کیا جوانی اب
ختم ہونے کو ہے کہانی اب
دیکھنا میری بے زبانی اب
دیر سےُ سن رہا ہوں اے شعلہؔ 
ایک آوازِ آسمانی اب



ایک شاعر کی رفاقت نے میری والدہ کو بھی اَسرار ورموز سمجھا دیے تھے مگر انہوں نے والد کی بات کو قبول نہ کیا اور کہا کہ اس کی رَدمیں ایک اور غزل کہہ دو۔ چنانچہ غالبؔ کی زمین میں ایک غزل کہی:



شمعِ ہستی جگمگانی اور ہے
کچھ دنوں تو زندگانی اور ہے



تاہم اِس غزل کے اشعار میں بھی وہ اپنی اُس کیفیت سے نہ نکل سکے۔ اُن کی رحلت کے بعد،اُن کی بیاض دیکھنے کا موقع ملاتو اس غزل کے حاشیے میں ایک نوٹ لکھا تھا:
’’ یہ غزل14 جولائی1995ء بمطابق 15 صفر1416ء بوقت صبح8بج کر5منٹ 
بروز جمعہ کہی گئی۔ اِس غزل سے تا ّ ثر یہ قائم ہوا کہ اِس دنیا میں اب میرا قیام مختصر ہے۔‘‘
کہتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو واپس بلانے سے پہلے اشارے دے دیتا ہے اور شاید اُن کے لیے بھی یہ ایک اشارہ ہی تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکرہے کہ اِس کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی 20 جولائی1996ء کو وہ اپنے خالقِحقیقی سے جا ملے۔
مجھ سے اکثر لوگ کہا کرتے تھے کہ تمہارے والد نے اتنی سیاست کی لیکن ایک مکان تک نہ بنایا۔ مجھے اور میرے گھر والوں کو تو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ ہم یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ جو کچھ میرے والد نے کیا ،وہی حق تھا۔ یہاں یہ بات اُن معترض حضرات کے لیے بتاتا چلوں کہ دورانِ علاج ایک رات اُن کی طبیعت قدرے بہتر تھی اور انہیں اپنی بیماری کا بھی پتا چل چکا تھا، مجھ سے کہنے لگے،’’ لوگ کہتے ہیں مَیں نے سیاست سے پیسہ نہیں کمایا۔ ذرا سوچو بیٹا کہ اگر مَیں نے وہ سب کیا ہوتا تو اب جبکہ جانتا ہوں کہ مجھے کیا بیماری لاحق ہے اور اِس کا نتیجہ بھی ڈھکا ُ چھپا نہیں تو اِس کیفیت میں مَیں اِتنے سکون سے مرنے کے لیے تیار ہوتا؟آج میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔‘‘
مَیں اپنے تمام بزرگوں اور کرم فرماؤں کا تہہ دل سے شکر گزار اور احسان مند ہوں جنہوں نے میرے والد شعلہؔ آسیونی کے اِس مجموعۂ کلام کی اشاعت میں ہماری مدد فرمائی۔ جناب سحرؔ انصاری صاحب نے انتہائی مصروفیت اور ناسازئ طبع کے باوجود نہ صرف اپنے تا ّ ثرات قلم بند کیے بلکہ مجموعۂ کلام کا بامعنی عنوان ’’ شعلہ رنگ‘‘ بھی تجویز کیا۔ محترم یاور مہدی نے اس کتاب کا فلیپ لکھا جو میرے والد کے بارے میں اُن کی یادداشتوں پر مبنی ہے۔ محترم شمس وارثی صاحب(مرحوم ومغفور) نے میرے والد کے انتقال کے بعد اُن پر مضمون لکھا اور محترم محمود شام صاحب نے اُسے روزنامہ جنگ کے ادبی صفحے پر شائع کیا۔ محترم محمود شام صاحب نے روزنامہ جنگ میں میرے والد کی بیماری سے لے کر اُن کے انتقال تک ،اور اُس کے بعد کی تمام رسوم کی خبریں متواتر شائع کیں۔ اور تمام احباب کو میرے والد کے بارے میں مطلع کیا۔ اور یوں میرے والد کے ایک مخلص دوست ہونے کا ثبوت دیا۔ مَیں خاص طور پر محترمہ روبینہ صدیقی (روبی خالہ) اور اُن کے اہلِ خانہ کا بھی تہہ دل سے شکر گزار اور احسان مند ہوں۔ میرے والد کے علاج کے دوران ہمارا پورا کنبہ اسلام آباد میں اُن کے ہاں مقیم رہا۔ روبی خالہ اور ان کے اہلِ خانہ نے ہر ہر طرح سے میرے والد کا خیال رکھا، بلکہ روبی خالہ نے تو میرے والد کے آرام کی خاطر اپنا کمرہ تک خالی کردیا اور خود تقریباً ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک اپنے ٹی وی لاؤنج کی سیٹی پر سوتی رہیں۔ مَیں اللہ تعالیٰ سے دست بہ دُعا ہوں کہ وہ انہیں اور اور اُن کے اہلِ خانہ کو دنیا اور آخرت میں اِس کا بھرپور اجر عطا فرمائے۔ آمین!
جناب رشید بٹ صاحب نے ذاتی طور پر اس کتاب کی اشاعت میں دلچسپی لی اور ہر قدم پر اپنے تجربے سے نہ صرف ہماری رہنمائی کی بلکہ اپنے مضمون میں میرے والد کی زندگی کے وہ گوشے اُجاگر کئے جو دیگر مضامین میں نہ تھے۔ یقیناًیہ کام رشید بٹ صاحب کے بغیر مکمل ہونا ناممکن تھا۔ محترم اسد واحدی صاحب جن کے توسط سے رشید بٹ صاحب سے ملاقات ہوئی، مرحلہ بہ مرحلہ اِس کتاب کی اشاعت میں ذاتی دلچسپی لیتے رہے۔ اپنی آرٹسٹ بہن شازیہ سلمان کا جنہوں نے اس کتاب کوخوبصورت پُر معنی سرورق سے مزّین کیا۔
میری والدہ اور سینئر صحافی اور ادیب محترم رشید بٹ صاحب نے اپنے مضامین میں جابجا ذِکر کیا ہے کہ اس کتاب کی اشاعت میں میرا بڑا ہاتھ ہے۔ در حقیقت اس کا سہرا صرف میری والدہ ، رشید بٹ صاحب اور اُن کی شریکِ حیات معروف صحافی اور ادیبہ محترمہ حمیرا اطہر صاحبہ کے سر ہے ۔ میری والدہ نے، میرے والد کے ہاتھ سے لکھے ایک ایک ورق کو سنبھال کے رکھا اور اِسی کا ثمرہ تھا کہ یہ مجموعۂ کلام ترتیب واشاعت کے سارے مراحل طے کرپایا۔ رشید بٹ صاحب اور محترمہ حمیرا اطہر صاحبہ نے ذاتی دلچسپی لے کر اِس کا م کو یوں پایۂ تکمیل تک پہنچایا گویا یہ اُن کے اپنے گھر کاکام ہو۔ مَیں تو یہاں امریکہ میں بیٹھا صرف اعتراضات اُٹھاتا رہا اور رشید بٹ صاحب انتہائی خندہ پیشانی اور ّ تحمل کے ساتھ میری بات سنتے اور اعتراضات دُور کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ یہ یقیناًاُن کا مجھ پر ایک بہت بڑا احسان ہے جو شاید مَیں کبھی نہ چُکا سکوں ۔
کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر مضمون میں غیر ضروری طوالت سے گریز کرتے ہوئے اپنی بات اپنے والد کی ایک غزل کے اِن اشعار پر ختم کرتا ہوں۔



زندگی اُس کی صدا ہو جیسے
بس وہی بول رہا ہو جیسے



یوں خیالوں میںُ چھپا بیٹھا ہے
مرنے والا نہ مرا ہو جیسے

1 comment: