نظرے، خوش گزرے - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Friday, 5 April 2019

نظرے، خوش گزرے

0 comments
پروفیسر ریحانہ مغنی کے سفر نامے چین کل اور آج کا پیش لفظ
رشید بٹ


پروفیسر ریحانہ مغنی نے بیتے سال چین، ہانگ کانگ اور کوالا لمپور کی سیاحت کی لی۔ واپس آکر ایک مبسوط سفرنامہ بھی لکھ لیا اور پھر مسودہ بغل میں داب، یہ سچ کے بیٹھ گئیں کہ چھاپنے سے پہلے کسی ایسے ’’سفر گریدہ‘‘ کو دکھا لیں جو ان راہوں کی خاک چھان چکا ہو، جن سے وہ گزریں۔ جانے کہاں، کب کسی نے انہیں ہمارا پتا بتا دیا، کہ یہ شخص چودہ سال ’’چین باس‘‘ کاٹ کے آیا ہوا ہے۔ ان کی طمانیت دو چند ہو گئی، جب انہوں نے یہ جانا کہ ہم کتابوں کی طباعت و اشاعت کا کام بھی کرتے ہیں اور اس ’’کارِ ناسپاس‘‘ میں ہماری بیوی حمیرا اطہر بھی، جو اتفاق سے سر سید کالج میں ان کی شاگرد رہ چکی ہیں، ہمارے شانہ بشانہ ہیں۔
پروفیسر ریحانہ مغنی کا کام تو شاید نسبتاً ہلکا ہو گیا، مگر ہمارا بڑھ گیا۔ بظاہر پبلشر کا کام تو یہ ہے کہ جو مسودہ ملا، چھاپ دیا اور ’’سرخرو‘‘ ہو گئے۔ لیکن یہاں معاملات ذرا دِگر تھے۔ ہم کتنا بھی ’’صرف‘‘ پبلشر بننے کی کوشش کریں، اپنے طبعی ’’خنّاس‘‘ کو بروئے کار لائے بنا رہ نہیں سکتے، کہ میاں بیوی دونوں کا پیشہ برس ہا برس تک، خارزار صحافت سے کانٹے چننا رہا ہے۔ ایک مقولہ ہے کہ بگڑا شاعر، مرثیہ گوبن جاتا ہے۔ بگڑے صحافی جب پبلشر بنتے ہیں تو ان کا حشرنشر بھی کچھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بہرحال، جس حد تک ممکن ہوا، ہم نے فرضِ موعودہ نبھایا۔ ایک بات ہم معزز قارئین کی دلچسپی اور معلومات کے لیے واضح کرتے چلیں کہ عموماً چینی ناموں کے تلفظ اور ان کے انگریزی مترادفات میں بڑا فرق دیکھنے میں آتا ہے۔ مثال کے طور پر انگریزی کا حرف ’’B‘‘ چینی میں ’’P‘‘ یا اردو میں ’’پ‘‘ کی آواز کا حامل ہے۔ اسی طرح حرف ’’J‘‘ چینی میں ’’Ch‘‘ یا اردو میں ’’چ‘‘ کی آواز دیتا ہے۔ اسی حوالے سے چینی افراد و مقامات کے نام ان کے چینی تلفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے لکھے گئے ہیں۔ قارئین کو اگر کسی جگہ کچھ نامانوسیت کا احساس ہو تو اسے چینی زبان کا شاخسانہ سمجھ لیں۔
1949ء میں آزادی کے بعد چین نے، کچھ سیاسی اور معاشی اتار چڑھاؤ کے باوصف، جس تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں اور کر رہا ہے، اس کی مثال، جغرافیائی تناظر میں، کہیں نہیں ملتی۔ گراں خواب چینی سنبھلے ہین اور ہمالیہ سے جو چشمے ابلے تھے، آج وہ ترقی کے بے کنار دریاؤں کا روپ دھارتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اس ترقی میں، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی، غرض ہر نوع کی ترقی دیکھنے میں آرہی ہے۔ پروفیسر ریحانہ مغنی نے چین میں ہونے والے تغیرات کا جس گہری نظر سے جائزہ لیا ہے اور ماضی سے ان کا موازنہ کیا ہے، وہ انہی کا خاصہ ہے۔
چین تک، راہِ مسافت میں آنے والے مقامات مثلاً دبئی، کوالا لمپور اور ہانگ کانگ کے بارے میں ان تجرباتی تحریریں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ انہوں نے وہاں کے حالات و واقعات کا جس خوبصورتی کے ساتھ پاکستان کے حالات و واقعات سے موازنہ کیا ہے، وہ ان کی ژرف نگاہی، وسیع النظری، بلند خیالی اور سب سے بڑھ کر حب الوطنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ کوئی عام قسم کا سفرنامہ نہیں بلکہ سنجیدہ معلومات کا ایک خزانہ ہے۔ ہم ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے گزارش و سفارش کریں گے کہ وہ اس کتاب کو اپنے شعبہ ہائے سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے نصاب میں شامل کریں۔

No comments:

Post a Comment