نجم الحسن رضوی__ادیب ہے۔بنیادی طور پر افسانہ نگار۔ لیکن ناول، خاکے وغیرہ کا کوئی موضوع ذہن میں کلبلانے لگے تو اُسے بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ُ طرّہ یہ کہ فکاہت اور طنزو مزاح میں بھی اُس کا ’’مُوقلم ‘‘رواں رہا ہے ۔وہ الفاظ میں مصوّری کرتا رہا ہے۔ بچپن میں اسکول آتے جاتے رستے میں لکڑی کی ٹالیں مِلتی تھیں جن میں بڑی سی ترازو پہ ’’ ایمان کانٹا‘‘ لکھا ہوتا تھا۔ اب اُس کانٹے میں کتنا ’’ایمان‘‘ ہوتا تھا اور وزن والے پلڑے تلے کتنا ’’اضافی‘‘ لوہا، یہ تو ٹال والے ہی جانیں، مَیں نے تو دوسرے پلڑے میں ہمیشہ باٹ ہی رکھے دیکھے۔ نجم الحسن رضوی کی تخلیقات کو مَیں نے جس تجزیاتی ترازو میں تولا وہ ، بہر حال، ٹال والی ترازو نہ تھی۔ مجھے اِس ترازو میں افسانوں اور کہانیوں پر مشتمل تخلیقات کا پلڑا بھاری نظر آیا۔ مَیں نے اُن تحریروں پر اِک نگاہ ڈالی تو نجم کی وہ کہانیاں ذہن میں گھوم گئیں جن کا مطبوعہ مجموعوں میں ذِکر نہ تھا۔ وہ کہانیاں برسوں پہلے مختلف پرچوں میں شائع ہوئی تھیں۔ ایک دن یونہی پوچھ لیا تو بولا ’’یار کچھ افسانے، کہانیاں اور فکاہیہ مضمون مَیں نے اپنے مجموعوں میں شامِل نہیں کیے۔ دوسروں کے لئے چھوڑ دیے۔ وہ بھی تو کچھ کا م کریں۔‘‘ اور دوسرے کب اور کیا کام کریں گے۔۔۔ نہیں معلوم!
نجم رضوی کی تحریریں دیکھتے جائیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ دل کی بات اور اپنی سوچ کو الفاظ کا روپ دینا خوب جانتا ہے۔ صورتِ احوال سے خوفزدہ نہیں ہوتا۔ اس کی ایک کہانی ’’بوری میں بند آدمی‘‘ دہلا کے رکھ دیتی ہے۔ یہی بات شاید اُسے فن کی بلندیوں کی جانب دھکیلتی ہے۔ اور وہ اپنی بات کہنے میں کامیاب بھی رہا ہے۔ یہ بھی احساس جاگزیں ہوتا ہے کہ کہانی اُس کی ہم سفر رہی ہے۔ اُس نے دنیا دیکھی، خانہ بدوش بھی رہا لیکن بنجاروں اور جپسیوں کی مانند کہانیوں کے تانے بانے بنتا رہا۔ اُس کی ’’اب تک‘‘ کی آخری کتاب ’آوازِ پا‘‘ اختصار کے باوجود کسی بنجارے یا جپسی کی داستان لگتی ہے۔ بنجاروں یا جپسیوں سے اُس کا تعلق یوں بھی بنتا ہے کہ جپسی جو اپنی بنجاروں اور خانہ بدوشوں والی روایات کے ساتھ آج بھی دنیا کے ہر گوشے میں نظر آتے ہیں، اُن کا خمیر، تاریخ آمیز روایات کے مطابق 15ویں اور 16ویں صدی میں برِ صغیر کے خطے یوپی (اُترپردیش) سے اُٹھا جہاں نجم رضوی کی بھی نال گڑی ہے۔ پٹیوفی ہنگری کا ایک شاعر تھا۔ جوانی میں روسیوں اور آسٹرویوں کے خلاف لڑتا ہوا لاپتا ہوگیا۔ ڈیڑھ سو برس سے زیادہ بِیت گئے، کوئی نہ جان سکا کہ وہ لڑائی کی نذر ہوا یا__ بس اُسے ’’لاپتا‘‘ کہاجاتا ہے۔ شاید وہ بھی نسلاً جپسی تھا۔ اُس کا ایک گیت ہے:
کاش مَیں کوئی خرابہ ہوتا
اور میری محبوبہ
عشقِ پیچاں کی بیل بن کر
مجھ سے لپٹ رہتی
ایسا ہی ایک پوربیا گیت ہے:
جو مَیں ہوتی راجہ
بیلا چنبیلیا
لپٹ رہتی راجہ تورے بنگلے سے
نجم رضوی کی کئی کہانیوں میں بھی گرچہ کچھ ایسی ہی کیفیت مِلتی ہے لیکن وہ حال سے ناتا نہیں ٹوٹنے دیتا۔ اس کی کہانیوں، ’جنگل‘، ’بارہ سنگھا، کھاد کاکارخانہ، وغیرہ میں ماضی، حال اور مستقبل باہم گُتھے دکھائی دیتے ہیں۔ نجم کی یہ کہانیاں اُس کے کسی مجموعے میں تاحال شامِل نہیں کی گئیں۔ میری رائے میں اُس کی ایسی کئی کہانیاں ایک نئے مجموعے کی راہ دیکھ رہی ہیں۔ مَیں نے نجم رضوی کی اب تک شائع ہونے والی تخلیقات کا تذکرہ کیا ہے۔ تعداد اچھی خاصی ہوچکی ہے۔ اور نجم ہے کہ لکھے جارہا ہے۔ خوشی کی بات ہے کہ اُس کا قلم ابھی تھکا نہیں۔
مَیں نے آغاز میں بھی نجم رضوی کی تخلیقات کا حوالہ دیا ہے۔ اُس کی تحریروں پر رائے دینے اور تنقیدی مضامین لکھنے والوں میں پاکستان اور ہندوستان کے بڑے بڑے لکھاریوں کے نام مِلتے ہیں جن کا آغاز تابش دہلوی اورجمیل الدین عالی ایسے جغادری لکھاریوں سے ہوتا ہے۔اب اُن تمام تحریروں کو یکجا کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ مستقبل میں اہلِ نظر کے کام آئیں اور اِس کے لئے مَیں نے اور میری بیوی حمیرا اطہر نے نجم رضوی کے فن و ّ شخصیت کے حوالے سے اِس کتاب کی ترتیب و تدوین کا بِیڑا اُٹھایاہے۔ حمیرا اطہر معروف صحافی اور ادبی ّ مبصر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب ہم نے نجم رضوی کے ادبی شب و روز کا جائزہ لینے کے لئے مواد اور مسوّدوں کے حصول کا ڈَول ڈالا تو، مبالغہ نہ جانئے، دانتوں پسینہ آگیا۔ بہر حال، پتھر گو بھاری تھا، چوم کے چھوڑنا اچھا نہ لگا۔ نجم رضوی کی کم و بیش پچاس برس پر محیط ادبی کاوشیں سامنے رکھی تھیں، اُس کا حق بنتا تھا کہ جو کچھ نیم تاب ہوچکا ، اُسے تاب داری کے رنگ میں رنگا جائے۔ سو، ہم نے اپنی سی کوشش کی۔ کیا کھویا ، کیا پایا؟ پسند، ناپسند، رائے کااستحقاق تو صرف قاری کے ذہنِ رسا کوحاصل ہے۔