روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہوا اور آرٹس کونسل کراچی کے تعزیتی اجلاس میں پڑھا گیا۔
’’ہاں بھئی بستہ بردار کیسے ہو؟ ‘‘ صبیح الدین غوثی نے عقب سے پکارا۔ اور میں جانے کیوں بدک گیا حالانکہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہ تھی ۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب محمود علی اسد زندھ تھے اور حسب معمول بے روزگاری میں اس زمانے میں ماہنامہ شوٹائم نکالا کرتا تھا۔ محمود علی اسد ماشا اللہ منصوبے بنانے میںبڑے ماہر تھے ۔ انہیں سنک سوار ہوئی کہ سی این این کے وزن پر کوئی نام رکھ کے نیوز ایجنسی چلائی جائے ۔ شوٹائم کا حال خاصا پتلا تھا لہٰذا ان کی نظرعنایت مجھ پر پڑی۔اب کاغذات کے پلندوں(منصوبہ سازی کے لئے )سے لدے پھندے ہم دونوں پریس کلب کے کسی گوشے میں بیٹھ جاتے اور دھیمے لہجے میں گفتگو یون ہوتی گویا لاطینی امریکہ یا افریقہ کے کسی ملک میں حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار ہورہی ہو۔ ایک گوشے سے اٹھ کے ہم دونوں کسی دوسرے گوشے کی تلاش کرتے توظاہر ہے ’’برادرِ خوردمباش‘‘ کے ناتے کاغذوں کا پلندہ میری بغل میں ہوتا۔ یہ تھا غوثی کی پکار کا پس منظر۔ یہ پکار چوں کہ اکثر وبیشتر سننے میں آتی اس لئے میں طرح دے جاتا۔ لیکن اس روز جو میں بدکارتو اگلے کئی دن تک ہماری بات چیت تک بند رہی ۔اورنیوز ایجنسی کا ’’ہوائی‘‘ منصوبہ بقول شخصے‘‘ کُھوکھاتے ‘‘لگ گیا۔
آج جب میں غوثی کو ہمیشہ کے لئے خداحافظ کہنے نکلا تو گارڈن بس اسٹاپ سے غفاریہ عرف پاکولا مسجد کی تلاش میں جہاں اس کی نماز جنازہ پڑھائی جانے والی تھی، پیدل چلتے تیس پینتیس سال پر محیط ماضی گویا سر پا آن پڑا۔ وہ ایک نیوز ایجنسی اور میں اخبار میں کام کرتا تھا۔ یہ دوستی یا ساتھ جانے کتنی صدیوں پر پھیلا ہوا تھا کہ کسی بھی تعلق کو پیمانۂ امروز وافرداسے نہیں ناپا جاسکتا۔ اس کا نام بڑابھاری بھرکم تھا۔ صبیح الدین غوثی۔ اس کے بیشتر دوست صبیح الدین کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہوتے گئے اور وہ صرف غوثی ہوکے رہ گیا۔ بعد میں پتلا چلا کہ اس کے گھر والے ، رشتے دار وغیرہ بھی اس بوجھ سے کنی کتراتے تھے اوراس کا گھریلو نام ’’نعیم‘‘ تھا۔ برسوں بعد اور وہ ایک انگریزی اخبار سے منسلک ہوگیا اس کا پورا نام صرف اس کی کسی خصوصی رپورٹ پر یا الیکشن کے دنوں میں پینل کارڈ پر ہی دیکھنے میں آتا تھا۔ اورصحافت کے پیشے میں لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے تھے کہ صبیح الدین کون ہے؟
وہ صحافیوں کی سیاست اوریونین بازی میں گویا’’ملوث‘‘ ہوگیا تھا۔ میں برسوں ملک سے باہر رہا۔ جب بھی واپس آتا یوں محسوس ہوتا جیسے کبھی بچھڑے ہی نہ تھے ۔ اس کے بقول پریس کلب ہمارا’’اصطبل‘‘تھا کہ جب تک وہاں جاکے ہنہنانہ لیں، چین نہیں ملتا تھا۔
لسی پینے کا بڑاشوقین تھا۔ کہتا یا رتم کیسے پنجابی اورکشمیری ہوکہ لسی سے بھاگتے ہو اور مجھے مجبوراً اقرار کرنا پڑتا کہ میں دونمبر کا کشمیری یا پنجابی ہوں۔ پنجاب جاتا ہوں تووہاں لوگ مجھے تلیئر کہتے ہیں۔ اس نے برنس روڈ، ایمپریس مارکیٹ، صدر، اور لکھ پتی ہوٹل کے علاقوں میں لسی کی بہت سی دکانیں تاک رکھی تھیں۔ پریس کلب میں بیٹھے بیٹھے اچانک اٹھ کھڑا ہوتا۔ آ ؤ بٹ لسی پینے چلتے ہیں۔ میرااٹھنے کو جی نہ چاہتا اور منمنا دیتا’’ یار لسی تو یہاں بھی مل جائے گی ۔ ستار سے کہہ دو۔ وہ میرا بازوپکڑے ہوئے جھلا کر جواب دیتا، یار انہیں کیا معلوم لسی کسے کہتے ہیں، اٹھو۔‘‘اور میں اٹھ جاتا۔ پیدل چلنے میں ہم دونوں برابر کی چوٹ تھے ۔ ایک دن جو چلے تو رستے میں اس کی من پسن لسی کی کئی دکانیں آئیں اورگزر گئیں۔ جب اسے محسوس ہوا کہ میری برداشت جواب دینے والی ہے تو کہنے لگا ’’یار آج لکھ پتی ہوٹل کی طرف چلیں گے ۔ وہ ایک بڑااچھا لسی والا ہے۔ پریس کلب سے یہ فیصلہ کوئی پانچ کلو میٹر تھا۔ دکان پر بورڈ لگا تھا’’غوثیہ لسی ہاؤس‘‘ لسی پیتے پیتے بولا ’’ دیکھو یار دوسرے لوگوں کے ناموں پر کیا بڑے بڑے ادارے ہیں۔ موٹروں کے کارخانے ہیں۔ شوگر ملیں ہیں۔ سیمنٹ کے کارخانے اور جانے کیا کیا ہے اور ہمارے غوثیوں کے پاس لسی کی دکانیں ہیں، ریسٹوران ہیں یا موٹرڈرائیونگ کے ٹریننگ اسکول۔‘‘ اس پر میں نے جواب دیا’’غوثی‘‘ جی چھوٹا نہ کرو۔ ہمیں دیکھو۔ برنس روڈ پر کئی دلی والے ’’بٹ‘‘ پکا کے لوگوں کو کھلاتے ہیں۔ اور اپنی ریڑھیوں پر پروپرائٹر: ’’فلاں دلی والا‘‘‘‘لکھتے ہیں۔ شروع شروع میںتو مجھے بہت غصہ آیا کہ یہ کیسے لوگ ہیں جو کھلے بندوں بٹوں کو ہلکی تیز آنچ پر پکاتے ہیں اور دھڑلے سے بیچتے اورکھاتے ہیں۔ پھر تحقیق پر انکشاف ہوا کہ یہ تو جانوروں کے پیٹ سے نکلی اوجھڑی نما کوئی شے ہے جو دلی والے پکاتے اور شاید بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ اب تم ہی کہوں ایسے میں جی نہ چاہے گا کہ بٹ شرم سے اسی ریڑھی والے کے شوربے میں ڈوب مریں۔ تمہارے غوثی تو لسی بناتے ہیں۔ لوگوں کو ڈرائیونگ سکھاتے ہیں۔ کھانے پکاکے کھلاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ ہمیں کوکاٹ کے پکایا جاتا ہے ۔
ایک روز پریس کلب کے چوپال میں ایران توران کی ہانکی جارہی تھیں۔ اب تووہ زمانہ نہیں رہا۔ نئے نئے چہرے آگئے ہیں جو پرانے چہروں سے شناسا ہی نہیں۔ ہمارے محمد میاں جب مجمعے کو لے کے بیٹھتے تھے توکسی نہ کسی ملک کی حکومت (فوجی ہویا غیر فوجی ) کا تختہ الٹ کر اور وہاں اپنے کسی پسندیدہ لیڈر کو نئی حکومت کا سربراہ بناکے ہی اٹھتے تھے۔ اٹھتے کیا تھے، اٹھائے جاتے تھے کہ ان کا بیان ختم ہونے تک سارے سامعین ایک ایک کرکے غائب ہوچکے ہوتے تھے ۔ اورآج کل تو وہ خود بھی بستر سے لگے ہوئے ہیں۔ غوثی کہنے لگا چھوڑویار میںتمہیں ان مسلمانوں کے بارے میں بتاتا ہوںجو ہندوستان میں رہتے ہیں۔ ویسے تو وہ پکے ہندوستانی ہے لیکن جب ہندوستان اورپاکستان کے درمیان کرکٹ میچ کا معاملہ آجائے تو پھر وہ صرف پاکستان کے ہوکے رہ جاتے ہین۔ ایک بار میں احمد آباد گیا تو ان دنوں کرکٹ میچ ہورہا تھا۔ وہ زمانہ ریڈیو کمنٹری کا تھا۔ ٹی وی ابھی اپنے بچپنے میں تھا۔ اب مسلمانوں کے علاقوں میں جس دکان یا ہوٹل کے سامنے سے گزروایک بورڈ لگادکھائی دیتا تھا۔ درمیان میں لمبی لکیر ایک طرف موٹا موٹالکھا تھا ہوتا ’’ہندوستانی ٹیم‘‘اوردوسری جانب’’ ہماری ٹیم‘‘۔ یعنی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو وہ اپنی ٹیم قرار دے دیتے اور ہر چوکے چھکے پر لوگ یوں ہلا مچاتے جیسے چوکا یا چھکا انہوں نے ہی لگایا ہو۔
میں لگ بھگ6سال سے دل کا عارضہ بھگت رہا تھا۔ جوں جوں دواہوتی گئی ، درد بڑھتا رہا۔ کام کاج ٹھپ ہوتا گیا۔ جان پہچان والوں کے بقول میں ایک امراء کی بیماری پال لی تھی۔ 2006ء کا غالباً اپریل تھا۔ ایک دن غوثی ایسے وقت میرے دفتر آدھمکا کہ میں ANGISAD کی چیاں سی گولی زبان تلے رکھ کے درددل بھگانے کی کوشش کر رہا تھا اور ساتھ سوچے جارہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آخر انسان کو کیا شے بنایا ہے؟کیا سوچ کر بنایا ہے؟ یہی انسان ایسے ایسے ہتھیار اور بم ایجاد کر رہا ہے جو غاروں میں چھپے لوگوں کو ڈھونڈ کر ان کے پرخچے اڑادیتے ہیں اوردوسری طرف وہی انسان ANGISAD جیسی گولیاں بھی بنارہا ہے جو موت کے منہ میں لے جانے والے درد کا وقتی طور پر ہی سہی نشان تک مٹادیتی ہیں۔ زندگی کے ساتھ انسان کاموت وحیات کا یہ کھیل آخر کیا ہے؟ ڈاکٹر آکری فتویٰ جاری کرچکے تھے کہ اب تک ہم تمہیں جو گولیاں دے رہے تھے ، وہ اب اپنا اثر کھوتی جارہی ہیں۔ انجیوگرافی ہوچکی تھی اوراس کی روشنی میں فتویٰ یہی تھا کہ اوپن ہارٹ سرجری کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اور میں سوچتا رہتا تھا کہ غالب کی سوچ کے خلاف موت سے پہلے غم سے نجات پانے کا کوئی رستہ ہے کہ نہیں۔
غوثی نے بندمٹھی میری طرف بڑھائی اور بولا، ’’میں جانتا ہوں تم بڑے نک چڑھے ہو۔ پھر بھی یہ رکھ لو۔ اور جانے میرے جی میں کیا آئی کہ میں نے دوست کی بند مٹھی اپنی مٹھی میں بند کرلی ۔ پھر جولائی 2006ء میں میرا آپریشن ہوا۔ غوثی نہیں آیا۔ نہ آپریشن سے پہلے نہ بعد میں۔ میں جانتا تھا وہ کیوں نہیں آیا۔ کسی کو تکلیف میں دیکھنا اس کے بس کا روگ نہ تھا۔
اورپھر کوئی مہینہ بھر پہلے پتا چلا کہ خود اس کا آپریشن ہوا ہے ۔ شاید ہلکا برین ہمیرج تھا۔ اس کی بیوی نے بتاکے نہ دیا۔ ہم میاں بیوی ہسپتال میں اسے دیکھنے گئے ۔وہ اب ہوش میں آچکا تھا۔ اس کی بیوی نے باتوں باتوں میں کہا، بھائی جب آپ کا دل کا آپریشن ہونے والا تھا تو غوثی مجھے کہتے تھے ۔ اس کے لئے دعا کرو۔ ان دونوں میاں بیوی کا بھی ہماری طرح آگے پیچھے کوئی نہیں۔ اسے ابھی جینا چاہئے ۔ تب میں نے جانا کہ وہ ہسپتال میں مجھے دیکھنے کیوں نہیں آیا تھا!
چند دن اور بیت گئے ۔ میں نے فون کیا تو اس کی بیوی نے بڑی جذباتی لہجے میں کہا۔ اب غوثی بہت بہتر ہے۔ میں چیک اپ کے لئے اسے ہسپتال لے جارہی ہوں۔ آپ خود بھی اس سے بات کرلیں۔ ہماری فون پر بات ہوئی۔ میں نے کہا ان دنوں میں بھی ہسپتال والوں کی ایمرجنسی کا شکار ہوں۔ ذرا بہتر ہولوں تو تمہیں دیکھنے آؤنگا۔ اب جو اسے دیکھنے گیا تو وہ گھر سے نکل کے بہت دور جاچکا تھا۔ کبھی لوٹ کے نہ آنے کے لئے …