اپریل 1970ء -- عامل صحافیوں کی اوّلین تحریک اور ہڑتال - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Saturday, 17 August 2019

اپریل 1970ء -- عامل صحافیوں کی اوّلین تحریک اور ہڑتال

0 comments
11اپریل 2009ء کو لکھی گئی
یہ طویل رپورٹ 
جو روزنامہ ایکسپریس میں تین قسطوں میں شائع ہوئي

اپریل 1970ء میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے 
زیرِ اہتمام عامل صحافیوں کی اوّلین تحریک اور ہڑتال

رشیدبٹ


کراچی کے سندھ مسلم لا کالج کی سمت سے چلتے ہوئے برنس روڈ سے دائیں ہاتھ مڑیں تو فریئر روڈ آجاتا ہے۔ برسوں سے اس کا نام ’’مشرف بہ اسلام‘‘ کرکے شاہراہِ لیاقت رکھا چکا ہے لیکن لوگ بھی بڑے پگلے ہیں۔ یہ نام اُن کی زبان پہ چڑھ کے ہی نہیںدیتا۔ خود برنس روڈ کو ’’محمد بن قاسم روڈ‘‘ ہوئے دسیوں برس بیت گئے لیکن وہ اب بھی برنس روڈ ہی ہے اور شاید رہے گا !فرئیر روڈ یا شاہراہِ لیاقت پر چند قدم آگے بڑھیں تو ایک پرانی سی بلڈنگ کے کونے میں ایک دکان دکھائی دیتی ہے۔ اُس کا نام ’’بَرنا اسپورٹس‘‘ ہے۔ مَیں یہ دکان 1964ء سے اِسی جگہ دیکھ رہا ہوں۔ وہ تو بدستور موجود ہے لیکن منہاج بَرنا اپنی ’’دنیاوی دکان‘‘ بڑھاگئے۔
اس سے یہ تاثر ہر گز نہ لیں کہ یہ اسپورٹس کی دکان منہاج بَرنا کی ملکیت تھی یا اُن کا اس سے کوئی واسطہ تھا۔ انہوں نے تو شاید یہ دکان دیکھی بھی نہ تھی۔ لیکن ان کی زندگی، جہاں تک مَیں جانتا ہوں، ایک اسپورٹس مین کی زندگی سے کم نہ تھی۔ میدانِ صحافت میں منہاج بَرنا نے جو اننگ کھیلی، اُس کی مثال، اوّل و آخر، وہ خود ہی تھے۔ گو فہرست مرتّب کی جائے تو اُس میں نثار عثمانی وغیرہ جیسے نام بھی آتے ہیں، جو اس پیشے کی حرمت پہ نثار ہوئے، مگر منہاج بَرنا… فارسی لفظ بَرنا کا مطلب ہے ’’جواں سال‘‘ اور منہاج بَرنا پچاسی برس کی عمر میں سفرِ آخرت پر روانگی کے وقت تک ’’بَرنا‘‘ ہی رہے۔
بات گھوم پھر کے ’’بَرنا اسپورٹس‘‘ پہ آگئی۔ اس سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک مقام ’’مولدینا مسافر خانہ‘‘ عید گاہ میدان کے سامنے تھا جو بگڑتے بگڑتے ’’مولوی مسافر خانہ‘‘ بن گیا تھا اور اب جامع کلاتھ مارکیٹ کہلاتا ہے۔ اور اب تو بہت سے لوگ اس کے نام سے ہی واقف نہیں حالانکہ ریونیو کے محکمے میں یہ علاقہ آج بھی اِسی نام سے زندہ ہے۔ ہاں اِس کے ایک گوشے میں غور سے دیکھا جائے تو ایک بڑے بینک کی برانچ پر ’’خفی‘‘ حروف میں اب بھی ’’مولوی مسافر خانہ برانچ‘‘ لکھا دکھائی دے جاتا ہے… سوچ کا دھارا بار بار بھٹک رہا ہے، صبح، سُنا کہ منہاج بَرنارختِ سفر باندھ عدم آباد روانہ ہوگئے تو خیالات کا ہنڈولا جو لگ بھگ چالیس برس سے ہلورے لے رہا تھا، یک لخت ساکت ہوگیا اور یہ سکوت… بے چین کئے دے رہا ہے! آشوبِ خیال شاید اِسی کو کہتے ہیں!
تو مَیں بات کر رہا تھا ’’مولوی مسافر خانہ‘‘ کی۔ 1964ء مَیںجب میں کراچی آیا تو روزنامہ جنگ کا دفتر اِسی علاقے میں تھا وہی اخبار جو مَیں راولپنڈی میں چھوڑ کر آیا تھا۔ ایک دن کی ’’ بے روزگاری‘‘ کے بعد کان پہ رکھا قلم یہاں چلنے لگا۔ پھر یہ دفتر میکلوڈ روڈ (آئی آئی چندریگر روڈ )پر اپنی نئی بلڈنگ میں منتقل ہوا۔ عمر کا وہ دور تھا جب ناک پہ مکھی کا بیٹھنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ انجام، حریت (پرانا دور) اور پھر جنگ میںواپسی، کراچی یونیورسٹی میں داخلہ اور چینی قونصلیٹ کے لئے چیئرمین مائو کی تحریروں کے ترجمے کے جُرم کی ’’پاداش‘‘ میں یونیورسٹی بدری… اور 1967ء میں حکومتِ چین کے بلاوے پر پیکنگ (بیجنگ) روانگی۔ یہ سار دور… تب مَیں منہاج بَرنا کو نہیں جانتا تھا… نہ وہ مجھے جانتے تھے… مَیںتو پیشۂ صحافت میں محض ایک بونا تھا۔ اور وہ  صحافتی ’’  ُگلی ور‘‘ بننے کے مدارج طے کر رہے تھے۔
نومبر 1969ء میں چین سے معاہدے کے اختتام پر مَیں نے کراچی کے بجائے راولپنڈی ہی کو ’’دارالقرار‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا، جسے چند ماہ بعد ہی ’’دارالفرار‘‘ قرار دینے کی نوبت آگئی۔ بہرحال یہی دن تھے جب منہاج بَرنا سے میری پہلی ملاقات ہوئی اور پھر یہ ملاقات چالیس برس کے تعلق، دوستی، پیشہ ورانہ شاگردی اور استادی، جونیئر سینئر، قربتوں، فاصلوں، دیدو بازدید میں برسوں کا خلل (جس میں میری گوشہ نشینی کا دخل زیادہ رہا۔) کی داستان بن گئی۔
اُدھر چین میں عظیم ثقافتی انقلاب کا طوفان بپا تھا۔ لگ بھگ 1966ء سے مَیں نے چیئرمین مائو کی منتخب تحریروں کے جو ترجمے کیے تھے وہ کتابچوں کی صورت اردو میں چھپ کر پاکستان آرہے تھے۔ مَیںروزنامہ جنگ میں کام کرتا تھا۔ چینی قونصلیٹ کے متعلقہ لوگوں سے مجھے ممتاز ادیب، ناول و افسانہ نگار اور میرے گاڈ فادر ’’خدا کی بستی‘‘ کے مصنّف جناب شوکت صدیقی (مرحوم) نے متعارف کرایا تھا۔ چینی قونصلیٹ سے رابطوں کی سزا کا ذِکر مَیں کر چکا ہوں۔ پھر بیجنگ میں رہتے ہوئے جو تراجم کیے وہ مِلا کر کتابی شکل میں آچکے تھے۔ جلد اوّل، جلد دوم…
اور یہاں پاکستان میں یحییٰ خان کی فوجی حکومت کے خلاف پیپلز پارٹی کے جھنڈے تلے ذوالفقار علی بھٹو کی تحریک اپنے عروج پر تھی۔ مجھے اپنے پرانے اخبار جنگ میں لے لیا گیا۔ سیاسی حالات کی تیز روی میں صحافیوں پر بائیں بازو، ترقی پسندی اور بھٹو کی حمایت غالب آتی جا رہی تھی۔ ایسے میں مجھ پر تازہ تازہ ’’چین پلٹ‘‘ کا ٹھپّا کچھ انوکھی بات نہ تھی۔ اور دیکھتے دیکھتے اخباری کارکنوں کی اوّلین تحریک میں وہ موڑ آیا جو پاکستان کی تاریخِ صحافت پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) نے اپنے مطالبات کے حق میں ملک گیر اخباری ہڑتال کا اعلان کردیا۔
اور اس کے بعد 15 اپریل سے 24 اپریل 1970ء تک کے اُبھرتے ڈوبتے سورج نے یہ بھی دیکھا کہ پشاور سے ڈھاکا تک پاکستان (تب مشرق مغرب ایک تھے۔ یکجہتی تھی۔ اب بھی وہ دن یاد آتے ہیں تو دل لہو ہوتا ہے۔) کے کسِی چھوٹے بڑے شہر، قصبے سے کوئی اخبار سویرانہ دیکھ پایا۔ اُن میں حکومتی ادارے نیشنل پریس ٹرسٹ کے تحت نکلنے والے پاکستان ٹائمز، امروز اور مشرق ایسے نامی اخبارات بھی تھے۔ منہاج بَرنا اُس ملک گیر اخباری تحریک اور ہڑتال کے سرکردہ رہنمائوں میں سے تھے۔ میری ان سے تب بھی ملاقات نہ ہو پائی تھی۔ 
ہڑتال کے دوسرے یا تیسرے روز ہم راولپنڈی پریس کلب میں بیٹھے ہڑتال کے نیوز بلیٹن پر کام کر رہے تھے۔ میرے ساتھیوں میں کوئی مجھ سے دو سال سینئر تھا تو کوئی تین سال۔ احمد حسن علوی (مرحوم) مجھ پر اپنی دو سالہ سینیارٹی کا ’’رعب‘‘ جھاڑ رہے تھے۔ مَیں’’برادرِ خورد مباش‘‘ کی تسبیح گرادنتے ہوئے ایک رپورٹ لکھ رہا تھا۔ مُنو بھائی ساتھ میں بیٹھے جلتی پر ہلکے پھلکے چھینٹے دے رہے تھے کہ اتنے میں ایک سرخ و سفید، دراز قامت، ابھرواں کندھوں والے صاحب اندر داخل ہوئے۔ ان کے آتے ہی کچھ ہلچل سی مچی اور احمد حسن علوی نے اُن سے میرا متعارف کرایا۔’’یہ رشید بٹ ہیں۔ حال ہی میں چین سے واپسی ہوئی ہے۔ ہمارے ہی اخبار میں ہیں۔ ’’کراچی بُرد‘‘ ہونے سے پہلے بھی یہیں تھے۔ چینیوں کے لئے ترجمے کے جُرم کی ’’پاداش‘‘ میں کراچی یونیورسٹی سے نکالے گئے تو چینیوں نے اپنے ہاں بلوالیا۔ دو تین سال بعد پاکستان لوٹے تو میر صاحب نے یہاں نیوز میں بھیج دیا۔ ہم تو ہڑتال سے پہلے انہیں میر صاحب کا ’’بندہ‘‘ ہی سمجھتے رہے لیکن یہ تو ہم سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔‘‘ اور پھر میری جانب رخ کرتے ہوئے کہا۔ ’’اور یہ منہاج بَرنا صاحب ہیں۔‘‘ تعارف اور میرے حوالے سے بانس کچھ زیادہ ہی لمبا ہوگیا تو بَرنا صاحب بولے۔ ’’بھئی اِن کے تعارف کی ضرورت نہیں۔ غائبانہ طور پر انہیں چین کے حوالے سے ہی جانتا ہوں۔
یہ میری منہاج بَرنا سے پہلی ملاقات تھی جو راولپنڈی، لاہور، کراچی اور چین کا احاطہ کرتی چالیسویں سال پہ آکر بالآخر تھم گئی… ہمیشہ کے لئے۔ وہ مجھ سے عمر میں بڑے تھے، ہر لحاظ سے بڑے تھے۔ ابدی روانگی میںبھی پہل کرکے بڑا پن دکھا گئے۔ 
11 اپریل 2009ء کو صبیح الدین غوثی کا سوئم تھا۔ مَیں، حمیرا اطہر اور فرہاد زیدی صاحب شرکت کے لئے گئے۔ حمیرا کو تو ہم نے غوثی کے گھر اُس کی بیوی کے پاس چھوڑا اور خود مسجد میں آگئے۔ ابھی فاتحہ کی تیاری ہو رہی تھی۔ مَیںاور زیدی صاحب صحن میں کھڑے تھے۔ اتنے میں دیکھا کہ دو ہم شکل ’’خوبصورت بوڑھے‘‘ چلے آرہے ہیں۔ ’’ارے یہ تو بَرنا صاحب اور معراج محمد خاں ہیں۔‘‘ وقت بڑا ہی بے رحم ہے۔ مَیںنے بَرنا صاحب کو دس بارہ برس بعد دیکھا تھا۔ اور معراج محمد خاں سے میری واقفیت صرف اِس حد تک تھی کہ مَیںتو انہیں جانتا تھا، وہ مجھے نہیں پہچانتے تھے۔ وقت اور عمر کے تھپیڑے بَرنا صاحب کے کندھے جھکا گئے تھے! یوں محسوس ہوتا تھا گویا ریگزارِ حیات کے طویل سفر نے انہیں کمان بنا کرکھ دیا ہو۔ مجھے دیکھا تو بولے۔ ’’ارے رشید بٹ تم تو بالکل ہی بوڑھے ہوگئے ہو، اتنے برسوں بعد مِلے ہو۔ کہاں رہے؟ مَیںمعراج کے ہاں ٹھہرا ہوا ہوں۔ کسِی وقت آئو۔ ملو۔ اتنے عرصے بعد تمہیں دیکھ کے جی خوش ہو رہا ہے۔‘‘ اور مَیں نہ جاسکا!غوثی، بہرحال کامرس کے معروف رپورٹر تھے۔ ایک ٹی وی چینل کے رپورٹر اور کیمرہ مین غوثی کے سوئم کی Coverage کے لئے تاک لگائے کھڑے تھے۔ آج کل ٹی وی چینلوں کی بھر مار ہے، بالکل برساتی مینڈکوں کی طرح۔ رپورٹر اپنی بے خبری کو بھی خبر کا رنگ دینے کے چکر میں رہتے ہیں۔ وہ رپورٹر کم انشورنس ایجنٹ زیادہ لگتے ہیں۔ انہوں نے دیکھا کہ تین چار ’’بڈھے‘‘ فاتحہ خوانی کے انتظار میں کھڑے گپ لگا رہے ہیں تو ’’حاضرین وناظرینِ باتمکین‘‘ سمجھتے ہوئے کیمرہ سب سے پہلے فرہاد زیدی صاحب پر ’’تان‘‘ دیا۔ معاملہ سخن گسترا نہ تھا۔ انہوں نے اور مَیںنے شور مچا دیا۔ رُکو، رُکو۔ پہلے انہیں فوکس کرو اور اِن سے بات چیت کرو۔‘‘ ہم نے منہاج بَرنا صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’انہیں جانتے ہو؟ یہ منہاج بَرنا صاحب ہیں۔‘‘ نہیں ہم تو نہیں جانتے۔ ہم نے تو یہ نام بھی پہلی بار سُنا ہے۔ یہ غوثی صاحب کے کیا ہیں؟ فرہاد زیدی صاحب عام طورپر دھیمے مزاج کی شہرت رکھتے ہیں لیکن اُس وقت اچانک گویا چنگاریاں چھوڑتے ہوئے، اُس ٹی وی چینل والے ’’صحافی ‘‘ کو کھڑے کھڑے پاکستان میں صحافت کی تاریخ پر لیکچر دینے لگے جو یقینا اُس کے اوپر سے گزر گیا۔ ہم بَرنا صاحب کو اور وہ ہمیں دیکھ رہے تھے ۔ پشتو میں ایسی خاموشی کاتوڑ یہی کہاوت ہے کہ:
 ’’مَیں توتمہارے پاس رونے کو آیا تھا مگر تمہاری آنکھیں تو پہلے ہی سرخ ہیں۔‘‘
بات بہت دُور نکل گئی ۔ بات سے بات تو نکلتی ہے ۔ چلئے اپریل 1970ء میں لوٹ چلتے ہیں۔ ہڑتال کی کامیابی دیکھ کر یحییٰ خان کے مشیرِ خاص جنرل نوابزادہ شیر علی خان جو اُس وقت کے وزیرِا طلاعات تھے، ہڑتال تڑوانے یا ناکام بنانے کے لئے اپنے پورے لاؤلشکر کے ساتھ میدان میں اُتر آئے۔ ظاہر ہے ،کسِی بڑی تحریک کے اسباب وعلل ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اس کے رہنماؤں اور شرکاء کا یہ معیّن کرلینا ہوتا ہے کہ تحریک کچھ نذرانہ بھی لے گی۔ یہ نذرانہ مالی، مادی ، فکری ، جسمانی (جیسا کہ صحافیوں کے ساتھ ضیاء الحق کے سیاہ دور میں ہوا) غرض ہر نوع پر محیط ہوسکتا ہے ۔ ہڑتال کے تیسرے یا چوتھے روز بَرناصاحب اور دیگر رہنماؤں کو اطلاع مِلی کہ جنگ راولپنڈی اورمشرق لاہور وغیرہ سے کچھ کارکنوں کو توڑا گیا ہے اور اگلے روز ایک ایک صفحے کے ہی سہی ، چند اخبار نکالنے کا’’اہتمام‘‘ ہورہا ہے تاکہ ہڑتال کو ’’ناکام ‘‘قرار دیا جاسکے ۔ منہاج بَرنا کے ساتھ جینے مرنے کا عہد کرنے والوں نے 
(یہ بعد میں نعرہ بھی بن گیا۔’’تیرے ساتھ جینا، تیرے ساتھ مرنا۔ منہاج بَرنا‘‘ اور برسوں تک صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی ہر تحریک میں گونجتا رہا۔)
 ایسے مشکوک افراد(مَیں اُن کے نام نہیں لوں گا کہ اب برسوں بیت چکے ۔ اُن میں سے کچھ اِس دارِ فانی سے کوچ کرگئے، کچھ ہنوز بقیدِ حیات ہیں)کو بہانے بہانے سے پریس کلبوں میں بٹھالیا گیا۔ ان پر ایک غیر مرئی سا پہرہ تھا۔ اخبارات تیار کرنے اور چھاپنے کا وقت جب نکل گیا تو انہیں بھی اُس جال سے نکال دیا گیا۔ 
یہاں ایک دوباتیں واضح کردی جائیں تو بہتر ہوگا۔ 1970ء کی اس اوّلین تاریخی ہڑتال میں صرف صحافی ہی شریک نہ تھے بلکہ دیگر اخباری کارکنوں یعنی ملازمین، کاتبوں اور اخبارات کے غیر صحافتی شعبوں میں خدمات انجام دینے والوں نے بھی بھرپور شرکت کی اور شاید یہی ایک سبب ہڑتال کی کامیابی کا تھا۔ اور اُن کے اِس کردار نے آل پاکستان نیوز پیپرز ایمپلائز کنفیڈریشن (APNEC) کو جنم دیا۔ اس کے بانی مبانی بھی منہاج بَرنا تھے، جسے آنے والے برسوں میں ممتاز صحافی، کارکن اور رہنما عبدالحمید چھاپرا نے پروان چڑھایا۔ چھاپرا1966ء (غالباً) میں جب بحیثیت رپورٹر نئے نئے روزنامہ جنگ کراچی میں آئے تو انہیں’’اصلاحِ احوال ‘‘ کے لئے ’’میرے ‘‘سپرد کیا گیا یا وہ خود ہی میری ’’سپرداری ‘‘ میں آگئے۔ اب اس پیشے میں گنے چنے لوگ رہ گئے ہیں اور چھاپرا ان میں سے ایک ہیں جو مجھے اپنا ’’استاد‘‘ مانتے اور ہر ملاقات میں دوسروں کے سامنے ، اجنبی ہوں یا شناسا، اِس کا بالالتزام ’’اعلان‘‘ کرتے ہیں۔ مَیں چھاپرا کی بہت عزت کرتا ہوں۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں جو اسپیئر پارٹس رکھے ہیں، چھاپرا اُن میں سے کسِی ایک کے بغیر بھی زندہ رہنے کا حوصلہ رکھتا ہے ۔ ضرورت پڑی تو اُس نے اپنا ایک گردہ 31جنوری 1993ء کوبرضاورغبت نکال کر اپنے چھوٹے بھائی ابوبکر کو دے دیا جو بسترِ مرگ پر تھا۔ آج دونوں زندہ ہیں اور اللہ کی دی ہوئی زندگی خوش وخرم  ِبتار ہے ہیں۔ 
دوسری اہم بات تھی صحافیوں کی فیڈریشن (PFUJ) میں شکست وریخت۔ یہ حکومتِ وقت جنرل یحییٰ خان اور جنرل نوابزادہ شیر علی خان کے تاریک دور کا ایک اہم واقعہ تھا ۔ ہڑتال کے دوران حکومتی کارندوں کے جوڑ توڑ، دھونس اور لالچ جیسے حربوں سے یہ عمل شروع ہوا۔ گواخباری کارکنوں کی تنظیم پر فکری اعتبار سے بائیں بازو کے اثرات غالب تھے ۔ لیکن یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ دیگر فکری رجحانات کی کمی تھی ۔ اس ہڑتال کے دوران ان مخالف فکری عوامل خصوصاً مالکانِ اخبارات کے مفادات سے بھرپور کام لیا گیا۔ صحافیوں کی تحریک اور ہڑتال کے رہنماؤں کی ہمہ گیری، یکجہتی اور سرعتِ عمل ایک طرف، منہاج بَرنا بلامبالغہ ’’پھرکی‘‘ کی مانند مختلف شہروں میں گھوم رہے تھے ۔ آج سے چالیس سال قبل اُن ذرائع مواصلات وروابط کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا تھا جو آج کے دور میں دستیاب ہیں۔ ٹیلی فون پر رابطے کے انتظار میںصبح سے رات ہوجاتی تھی ۔ اخباروں اور نیوز ایجنسیوں کے ٹیلی پرنٹربند پڑے تھے ۔ ایسے میں یہ مہم بھاری پتھر اُٹھا کے چلنے کے مترادف تھی۔ اس سارے عرصے میں بھٹوصاحب اور پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما اخباری کارکنوں کے مطالبات کی بھرپورحمایت کرتے رہے تھے ، جس پر صاحبانِ اقتدار اور مالکانِ اخبارات تلملاتے رہتے تھے ۔ آج اگر کوئی تحقیقی کام کرنے کی ٹھان لے اور پاکستان میں صحافت کی تاریخ مرّتب کرنا چاہے تو اُس دور کے اخبارات اورجرائد بہت معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اُدھر حکومت اور مالکانِ اخبارات سے مذاکرات بھی جاری تھے ۔ اور بالآخر15سے 24اپریل 1970ء کی ہڑتال ختم ہوئی۔ ملک گیر ہڑتال کے دوران ہر اخبار کے دفتر کے باہر ہڑتالی کیمپ لگائے گئے تھے ۔ اگلے روز اخباری کارکن حسبِ معمول جب دفاتر میں داخل ہونے لگے تو انہیں ایک عجیب صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ معروضی حالات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ صورتِ حال کچھ ایسی عجیب بھی نہ تھی ۔ یہ تو مالی، مادی، فکری نذرانے دینے کا مرحلہ تھا۔ ہر دفتر کے گیٹ یادروازے پر مالکِ اخبار کا نمائندہ ایک فہرست ہاتھ میں لئے کھڑا تھا۔ اس میں ان کارکنوں کے نام تھے جنہیں دفتر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی ۔ جنگ راولپنڈی کا دفتر اُن دنوں گوالمنڈی میں تھا۔ فہرست لئے مالکان کے جگت ماموں عبدالرّب کھڑے تھے ۔ وہ ہمیشہ پنجابی میں بات کرتے اور بول چال کا انداز ناشائستگی کی حدود کو چھوتا رہتا تھا۔ وہ بڑے اہانت آمیز انداز میں ہمارے ان ساتھیوں کو اندر جانے سے روک رہے تھے جن کے نام فہرست میں درج تھے اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ’’سرخوں‘‘ کی ’’شہرت، بدنامی یا نیک نامی‘‘ کے حامِل تھے ۔ دلچسپ بات یہ جانئے کہ اس فہرست میں میرا نام شامل نہیں تھا۔ گیٹ پر جگت ماموں عبدالرّب کھڑے تھے تو سیڑھیاں جو فرسٹ فلور پر واقع نیوز روم کو جاتی تھیں، وہاں چند قدم اوپر میرجاوید رحمن کھڑے مسلسل یہ سارے مناظر دیکھ رہے تھے ۔ وہ ابھی نوجوان تھے لیکن بہر حال مالک تھے۔ بڑے میر صاحب جنگ کراچی کے ’’معاملات‘‘نمٹا رہے تھے ۔ مَیں سمجھ گیا کہ فہرست میں میرا نام شامِل کیوں نہیں ۔ وہ بڑے میرصاحب کے حوالے سے مجھے ہنوز’’اپنا بندہ‘‘ سمجھتے تھے ۔ (مجھے احمد حسن علوی مرحوم کا تبصرہ یاد آگیا)۔ میر جاوید رحمن نے مجھے قریب بلایا اور کہا۔ ’’بٹ صاحب آپ کو تو ہم نے نہیں روکا۔ آپ کیوں اندر نہیں آرہے؟‘‘ اِس پر مَیںنے جواب دیا۔’’جاویدصاحب، جس اہانت آمیز انداز میں میرے ساتھیوں کو روکا گیا، اُسے دیکھتے ہوئے مَیںتو اندرآنا مناسب نہیں سمجھتا۔‘‘یہ جواب شاید انہیں بہت کڑوا لگا اوریہ کہتے ہوئے رخ دوسری طرف پھیر لیا کہ ’’ٹھیک ہے۔ آپ کی مرضی۔ اب جائیں یہاں سے ۔ ‘‘ شاید ڈیڑھ دوسال بعد چین واپس جاتے ہوئے مَیںکراچی سے گزراتو سوچاچلو یہاں جنگ میں اپنے پرانے دوستوں، ساتھیوں سے مِل لوں۔ تب اتنی سیکیورٹی ، سختی کا نشان تک نہ تھا۔ گیٹ پہ بھی پرانے شناسا چہرے تھے۔ ایک ’’پرانا چہرہ‘‘بڑے اپنائیت بھرے لہجے میں کہنے لگا۔ ’’بٹ صاحب آپ کا تو داخلہ یہاں بند ہے ۔ دوسال پہلے جاوید صاحب نے خاص طور پر حکم دیا تھا ۔اور آپ جانتے ہیں جاوید صاحب کے حکم کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ ‘‘
شام کو راولپنڈی پریس کلب میں بَرنا صاحب نے پوچھا تو مَیںنے ساری کہانی سُنادی ۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ آج سے چالیس سال پہلے ٹھیک اپریل کے مہینے میں ملک بھر کے اخبارات کے لگ بھگ ڈیڑھ سو (150) اخباری کارکنوں کے گھروں کے چولہے، بیک جنبشِ قلم، سرد کردیئے گئے ۔ یہ ایک طرف تاریک دورِ حکومت اورمالکانِ اخبارات کی مِلی بھگت کا شاخسانہ تھا تو دوسری جانب منہاج بَرنا کے لئے ایک دمکتا تمغہ تھا جو اُن کے پیروکاروں نے بہتر حالاتِ کار اوردیگر مطالبات کے حق میں کامیاب ہڑتال کی صورت اُن کے سینے پر سجایا تھا۔ 



دوسرا ہم واقعہ اس تحریک کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ حکومتی اور غیر حکومتی کارپردازوں نے صحافیوں کی وفاقی سطح(PFUJ) میں بھر پور نقب لگائی۔ سرکاری انتظام(NPT) کے تحت چلنے والے اخبار روزنامہ مشرق سے ایک صاحب رشید صدیقی کے نام سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (رشید صدیقی گروپ) کھڑا کردیا گیا۔ یہاں فکری تفاوت رنگ لایا۔ تقریباًڈیڑھ سو افراد کے نکالے جانے سے اخبارات میں جو خلا پیدا ہوا تھا اُسے اُس بَرنا مخالف گروپ نے ’’اپنے بندوں‘‘ سے پُر کرنے کی بھرپور کوشش کی ۔ یہ گروپ تو دھیر ے دھیرے مفلوج ہوتا چلا گیا لیکن اُس کے لگائے ہوئے پودے بڑھتے بڑھتے جنگل کی صورت اختیار کرگئے ۔ ان ہی دنوں لاہور کے جریدے ہفت روزہ ’’زندگی ‘‘ نے اپنے سرورق پر PFUJ کے صدر جناب اسراراحمد کی تصویر شائع کی جس میں ناک کی جگہ سونڈ لگائی گئی تھی ۔ اوراسے ’’سفید ہاتھی‘‘ کا عنوان دیا گیا تھا۔ ممکن ہے جریدے کی وہ کاپی آج بھی کسِی کے ریکارڈ میں موجود ہو۔ منہاج بَرنا صاحب جب تک سرگرم رہے ، انہوں نے کئی معرکے مارے۔ سیکنڈ لائن قیادت میں انہیں بہت سے سرگرم اورفعال ساتھی بھی مِلے۔انہوں نے ضیاء الحق کے سیاہ دور میں بھی اپنے ساتھیوں کے لئے روشنی کی کرنیں بکھیرنے کی خاطر بھرپور جدوجہد کی ۔ اس سارے عرصے میں یعنی 1977ء سے 1983ء تک مَیں چین میں رہا۔ لہٰذا اُس جدوجہد میں شریک نہیں تھا۔ اتنا ضرور کہوں گا کہ رشید صدیقی دھڑے نے جو فکری جنگل اُگایا، اس کے اثرات آج پورے ملک کے اخبارات، پریس کلبوں اور صحافیوں کی یونینوں میں نمایاں نظرآتے ہیں۔ 
اخبارات سے اتنی بڑی تعداد میں کارکنوں کی برطرفی نے بھٹو صاحب کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔ انہوں نے اپنی تقریروں اورجلسوں میں پالیسی میٹر کے طور پر کہنا شروع کردیا کہ ہم اقتدار میں آگئے تو سارے برطرف اخباری کارکنوں کو بحال کرائیں گے۔ پیپلزپارٹی اپنا اخبار بھی نکال رہی ہے جس میں اخبارات سے نکالے گئے کارکنوں کو ملازمتوں میں ترجیح دیں گے۔ پھر اپریل 1970ء میں اعلان ہوا کہ پیپلز پارٹی لاہور سے روزنامہ مساوات نکال رہی ہے جس کے منیجنگ ایڈیٹر حنیف رامے (مرحوم) ہوں گے۔ راولپنڈی سے قرعۂ فال بشیر الاسلام عثمانی، احمد حسن علوی اور میرے نام نکلا۔ طے یہ پایا کہ دو راولپنڈی بیورو آفس میںکام کریں گے جب کہ ایک لاہور نیوز روم میں آئے گا۔ یہاں پھر جونیئر سینئر کے مسئلے نے سر اٹھایا اور مجھے بوریا بستر سمیٹ کر لاہور آنا پڑا۔ تقرر نامے جون 70ء میں جاری ہوئے اور (غالباً) اگست 1970ء میں روزنامہ مساوات لاہور کی باقاعدہ اشاعت کا آغاز ہوا۔
یوں مجھے روزنامہ مساوات لاہور کا ایک بانی رکن ہونے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہوا۔ اگلے دو سال جو مَیںنے لاہور میں پہلے روزنامہ مساوات اور پھر روزنامہ آزاد میں گزارے وہ شاید میری پیشہ ورانہ زندگی کا اصل اثاثہ ہیں۔ یہاں بَرنا صاحب سے قربتوں میں اور اضافہ ہوا۔ اُن کی شہرۂ آفاق پرانی فیٹ کار کو اکثر و بیشتر دھکا لگانے کا ’’اعزاز‘‘ بھی حاصل ہوتا تھا۔ 1972ء میں ان سے تعلق میں خلل آگیا کہ مجھے چینیوں نے بیجنگ واپس بلالیا تھا۔ یہ خلل 1975ء کے او آخر تک برقرار رہا۔ کبھی کبھی رابطہ ہو جاتا تھا۔ یہی دور تھا جب انہوں نے اپنی لے پالک بیٹی افشاں کو اعلیٰ تعلیم کے لئے چین بھجوایا اور مجھے پیغام بھیجا کہ اس کا خیال رکھوں۔ یہ گول مٹول سی (تب) لڑکی ہماری بہنوں ایسی تھی۔ بَرنا صاحب کی بیٹی تھی۔ ہمارے لئے قابلِ احترام تھی۔ تاہم وہاں کے حالات سے مانوس نہ ہو پائی اور غالباً کورس مکمل کیے بغیر ہی لوٹ آئی۔ میری در بدری کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے کہ ملاقات نہ ہو تو برسوں نہیں ہوتی بلکہ اکثر تو ہو ہی نہیں پاتی۔ کہیں مَیں بھول جاتا ہوں، کہیں دوسرے بھول جاتے ہیں۔ چینی ادیبات میں قدم قدم پر گوشہ نشینوں اور عزلت گزینوں کا تذکرہ مِلتا ہے۔ میری ذات میں بھی شاید یہی کیفیت در آئی ہے۔ اب منہاج بَرنا سے مِلنے تو اُن کے پیچھے پیچھے ہی جانا ہوگا…



1973: Pakistan Federal Union of Journalists bi-annual delegates meeting in Karachi. This photo was taken at the main entrance of the Karachi Press Club after the meeting and elections of the PFUJ. I am on the top left and the youngest delegate at the meeting. Sadly, there are many of the senior leaders and activists of the PFUJ who are no longer with us. That includes Minhaj Barna, Nisar Usmani, Bashir ul Islam Usmani, Chacha F.E. Chaudhry, Ahmad Hasan Alvi. Aziz Mazhar, and Aslam Sheikh.
*****

No comments:

Post a Comment