ادبی کتابی سلسلے ”اجمال“ کی ”وفات“ - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Tuesday 27 August 2019

ادبی کتابی سلسلے ”اجمال“ کی ”وفات“

1 comments


حمیرا اطہر
Image may contain: 1 person

یادش بخیر.... مارچ 2011 میں کتابی سلسلے ”اجمال“ کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ اس کے مدیران یا مجلس ادارت میں جناب فہیم اسلام انصاری، جناب احمد صغیر صدیقی اور جناب عباس رضوی شامل تھے۔ تاہم، اداریہ نویس کا قرعہ فہیم اسلام انصاری کے نام نکلا۔ انہوں نے پہلے شمارے کے اداریے میں ”اجمال“ نکالنے کی غرض وغایت بتاتے ہوئے لکھا:
”کتابی سلسلوں کی بھرمار کے اس دَور میں ایک اور کتابی سلسلے ”اجمال“ کے اجرا کا فیصلہ کیوں؟ دراصل ہمیں ”اجمال“ کے اجرا پر ان کتابی سلسلوں ہی نے مجبور کیا۔ ہم کوئی حکم نہیں لگا رہے لیکن ان کتابی سلسلوں نے بوجوہ مختلف مفادات کے فروغ اور ادبی کساد بازاری کو جنم دیا ہے۔ مثال کے طور پر آج بھی ان کتابی سلسلوں میں مشہور ادبی شخصیات کی ثناءگوئی، ان سے اختلاف کرنے والے مضامین اور تخلیقات پر پابندی، حکومتی دانش وروں کی کاسہ لیسی کے علاوہ کچھ اور مشکل ہی سے نظر آتا ہے۔ اس ساری صورت حال میں سب سے زیادہ پامالی جس کی ہو رہی ہے، وہ ادب اور اس کا فروغ ہے۔ اگر صورت حال کا سرسری تجزیہ بھی کیا جائے تو عہدِ حاضر میں اِس کے سوا ممکن بھی کیا ہے؟ جب ہر ادبی تحریک اور صنفِ ادب پر ”مجاوروں“ کا قبضہ ہو تو وہ لا یعنی قوالی کے ذریعے مفادات کے حصول کی کوشش کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔“
”اجمال“ کے ذریعے ہماری کوشش ہو گی کہ ہم روشن خیال، ترقی پسند ادب کے فروغ کے لیے کام کریں۔ ہم کسی قسم کے گرو ہی مفادات کے بکھیڑوں میں پڑنا نہیں چاہتے اور ہماری کوشش ہوگی کہ بہترین ادبی تخلیقات کی اشاعت کریں۔ ہم ادب میں نئے زایوں سے ادبی مباحث کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم نے ایک اور معیار بھی اپنے لئے طے کر رکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایسی شخصیات، جو اچھی ادبی تخلیقات اور ماحول کی راہ میں حائل ہیں۔ ان کی تحریریں ”اجمال“ میں شائع نہ ہونے پائیں۔ تاوقتیکہ وہ اپنی منفی روش سے باز آجائیں۔ آپ یقینا اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ادب کے فروغ کے لئے اس قسم کی منفی سرگرمیوں کی روک تھام بہت ضروری ہے۔“
اِس پہلے شمارے میں دیگر نگارشات کے ساتھ معروف خاکہ نگار، ادیب اور شاعر ممتاز رفیق کا لکھا ہوا ایک خاکہ ”ربڑ کا مگرمچھ۔ احفاظ الرحمن“ بھی شائع ہوا۔ بس پھر کیا تھا۔ گویا پنڈورا باکس کھل گیا۔ احفاظ الرحمن نے مدیران پر دو مقدمے دائر کر دیے۔ یہ مقدمات چار سال دس ماہ تک چلے اور معراج محمد خاں کی کوششوں سے سمجھوتا بالآخر عدالت سے باہر ہی ہوا۔ تاہم، بقول یکے از مدیران فہیم اسلام انصاری، جو انہوں نے اجمال کے چودھویں اور آخری شمارے کے اداریے میں لکھا:
”ہماری کوشش یہ تھی کہ ادبی سطح پر مکالمے کو فروغ دیا جائے اور ادبی سرگرمیوں میں مثبت رجحان اور اقدار کو فروغ دیا جائے۔ لیکن جیسا کہ آپ سب کے علم میں ہے، اجمال کی پہلی کتاب پر ہی دو مقدمات قائم کر دیئے گئے۔ اور اس بات نے ہماری درج بالا کوشش کو بری طرح متاثر کیا۔“
”جن ادبی مقاصد کے حصول کے لئے ہم نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا، اس میں فکری اور ادبی نتائج کے حصول میں ہم تقریباً ناکام رہے۔ گزشتہ ایک سال سے ابلاغ عامہ کے ذرائع میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جس انداز میں اس پر قدغنیں عائد کی جا رہی ہیں، اس کی روشنی میں ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اجمال کی اشاعت کو جاری رکھنا کارِ لا حاصل ہی رہے گا۔ ویسے بھی ملک میں گزشتہ ایک سال کے حالات و واقعات کے نتیجے میں جو تبدیلی آئی ہے، ہمارے خیال میں ہمیں اِسے وقت دینا چاہئے۔ لہٰذا، اجمال کے چودھویں سلسلے کے ساتھ ہی ہم اس کی اشاعت بند کررہے ہیں۔ یہاں پر یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اجمال کی بندش کی وجہ مالی وسائل/مسائل ہرگز نہیں۔“
ادبی رسائل و جرائد کی بندش میں عموماً مالی وسائل/مسائل ہی کار فرما ہوتے ہیں۔ تاہم، یہاں مدیر کی وضاحت پر یقین کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اجمال وہ واحد کتابی سلسلہ تھا جس کے صفحہ 2 پر نمایاں طور پر ایک نوٹ لکھا ہوتا :
”ہم فروغ علم و ادب کے لئے کی جانے والی تمام کوششوں کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ تاہم، اجمال کے اندرونی صفحات پر تجارتی یا کاروباری اشتہارات قابل قبول نہیں۔“
ایسے میں اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک اچھا اور معیاری ادبی سلسلہ اپنے آغاز کے محض آٹھ برس بعد بند کر دیا جائے؟ اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آخری شمارہ اب تک جن ادبی شخصیات کے پاس پہنچا، ان میں سے کسی نے بھی اس کے بارے میں افسوس کا اظہار نہیں کیا۔ ذاتی طور پر کسی نے مدیر یا مدیران سے ”تعزیت“ کی ہو تو کی ہو، اِس کا یقینا ہمیں علم نہیں۔ تاہم ابلاغ کے کسی بھی ذریعے حتیٰ کہ سوشل میڈیا تک میں اس کے بارے میں افسوس بلکہ ”تعزیت“ کا ایک لفظ بھی نہیں لکھا گیا۔ معاشرے اور خود ادب سے وابستہ لوگوں کے اس رویے کے بارے میں بس اتنا ہی کہہ سکتی ہوں:
حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں، حادثہ دیکھ کر
اِس صورت ِ حال میں معروف شاعرہ شبنم شکیل مرحومہ کی بات رہ رہ کے یاد آجاتی ہے جو وہ ایک معیاری ادبی جریدے یا کتابی سلسلے کی پہلی ہی اشاعت دیکھ کر بے ساختہ کہہ اٹھی تھیں:
”ادبی رسالے تو شائع ہی بند ہونے کے لئے ہوتے ہیں۔“
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

1 comment:

  1. یہ بہت افسوسناک صورتحال ھے ادبی جریدوں کو اول تو پزیرائ نہیں ملتی ادب کے فروغ کے لیے صورتحال بہت ناسازگار ھےاور گنے چنے پرچوں کو بھی بند کر دیا جاے توعلم ودانش کےلیے کوئ حوصلہ افزا حالات بننے کا امکان کم سے گ کم ہوتا جاے گا

    ReplyDelete