اپنی بات
السّلام علیکم!
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں درختوں، جھاڑیوں، پودوں، باغات، کھیتوں اور پھل کی مختلف اقسام کا ذکر کرتے ہوئے ان کے نظام کو اپنی نعمت قرار دیا ہے۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمیں آکسیجن فراہم کرتے ہیں، جو سانس لینے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے علاوہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے ماحول خوش گوار بناتے ہیں۔ انسانوں کو لکڑیاں، کاغذ اور جنگلی حیات کو رہائش فراہم کرتے ہیں۔ درختوں کے سائے سے گاؤں کے لوگ اور مسافر فائدے اٹھاتے ہیں۔ جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت ہوتے ہیں، وہاں سیلاب کا خطرہ بے حد کم ہوتا ہے۔ درخت کی جڑیں نہ صرف خود اضافی پانی جذب کرتی ہیں بلکہ مٹی کو بھی پانی جذب کرنے میں مدد دیتی ہیں، جس کے باعث پانی جمع ہوکر سیلاب کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ پھر یہ درخت اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو پتوں اور شاخوں کے ذریعے ہوا میں خارج کرتے ہیں، جو بارش کا سبب بنتے ہیں۔ درخت کی جڑیں مٹی کو روک کر رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے زمین کا کٹاؤ یا لینڈ سلائیڈنگ نہیں ہونے پاتی۔ درخت، مٹی اور زمین کو مسلسل پانی فراہم کرتے رہتے ہیں جس سے وہ بنجر نہیں ہونے پاتی اور اس کی زرخیزی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اس طرح یہ قحط اور خشک سالی سے بھی بچاتے ہیں۔ درخت، شور کی آلودگی میں بھی کمی کرتے ہیں۔ یہ اپنے اندر پُرشور آوازوں کو جذب کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر تعلیمی اداروں کے اردگرد اور پُرشور مقامات، جیسے فیکٹریوں اور کارخانوں کے قریب زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں تو ان مقامات کو بھی پُرسکون بنایا جا سکتا ہے۔
اسلام میں درختوں کو کاٹنے سے منع کیا گیا ہے، حتیٰ کہ جنگ جیتنے کے بعد مفتوحہ علاقے میں بھی درختوں کی کٹائی سے منع اور ان کی حفاظت کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ درخت ہمیشہ وہ لگانے چاہئیں جن کا کوئی فائدہ ہو مثلاً پھل دار درخت درخت روئے ارض کی زندگی اور شادابی کی علامت ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس مقام پر زیادہ درخت ہوتے ہیں وہاں کے لوگ ذہنی اور جسمانی طور پر زیادہ صحت مند ہوتے ہیں اور ان کی تخلیقی کارکردگی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
زمین کے کسی بھی حصے کے پچیس فی صد رقبے پر شجرکاری ضروری ہے جب کہ ہمارے ہاں اس کا تناسب محض صرف چار فی صد ہے۔ بطور شہری یہ ہم سب کی ذمے داری ہے کہ ماحولیاتی آلودگی سے نجات کے لیے اپنے گھروں میں گملوں، باغیچوں، دالانوں، اسکولوں اور سڑک کنارے پودے یا درخت لگائیں۔ ہر شہری کو چاہیے کہ وہ اپنے حصے کا ایک پودا ضرور لگائے، اس طرح کروڑوں پودے چند برسوں بعد تناور درخت بن سکتے ہیں۔ ہم سب کو بطور قوم اس میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہے تاکہ آنے والے وقت میں:
امن ہو خوش حالی ہو، ہر سو ہریالی ہو
سرسبز و شاداب گلشن کی ہر ڈالی ہو
آپ کی خوشیوں اور کام یابیوں کے لیے دعا گو
باجی حمیرا اطہر
Nice!blog!Thanks for sharing wonderful blog & good post.Its really helpful for me,waiting for a more new post keep blogging
ReplyDeleteRent a car Islamabad to Naran