دھوکا - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Tuesday, 27 August 2019

دھوکا

0 comments
اپنی بات


السّلام علیکم!

اردو کے معروف ادیب اور دانش ور اشفاق احمد کا کہنا ہے : ’’ایک بات زندگی بھر یاد رکھنا، کسی کو دھوکا دینا اپنے آپ کو دھوکا دینے کے برابر ہے۔ دھوکے میں بڑی جان ہوتی ہے۔ وہ مرتا نہیں ہے، گھوم پھر کر ایک روز واپس آپ کے پاس پہنچ جاتا ہے کیوںکہ اس کو اپنے ٹھکانے سے بڑی محبت ہے۔ وہ اپنی جائے پیدائش چھوڑ کر اور کہیں نہیں رہ سکتا۔‘‘
آپ نے یہ بھی سنا ہوگا کہ آزمائے ہوئے کو نہیں آزمانا چاہیے۔ یہ مکالمہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کوئی کسی سے دھوکا کھاتا ہے اور اسے نصیحت کے طور پر آئندہ احتیاط کرنے اور ایک ہی گڑھے میں بار بار نہ گرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ لیکن، سوال یہ ہے کہ آخر لوگ دھوکا دیتے ہی کیوں ہیں؟
 پچھلے اٹھارہ سال سے امریکا میں مجرموں کا نفسیاتی علاج کرنے والی پاکستانی ماہر نفسیات ڈاکٹر منیزہ شاہ کے نزدیک لوگ دوسروں کو دھوکا چار وجوہ کی بِناء پر دیتے ہیں۔ پہلی وجہ ہے زندہ رہنے کی خواہش، یعنی جب لوگ یہ سمجھ بیٹھیں کہ دھوکے بازی کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتے، کیوںکہ اْن کی دانست میں، یہ کام بغیر دھوکے کے چلنے والا نہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کو ان کا حق نہیں مل رہا۔ اور یوں، وہ روبن ہڈ کی طرح، دوسروں کو لوٹنے کی کوئی توجیہہ ڈھونڈ لیتے ہیں۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ جب اتنے سارے لوگ دھوکے بازی سے کام لے رہے ہوں، تو آخر وہ ایسا کیوں نہ کرے؟ یا یہ کہ، ایسا کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟ اور چوتھی وجہ یہ ہے کہ لوگ بے حس ہو چکے ہوں اور انھیں یہ پتا ہی نہ ہوکہ کیا غلط ہے اور کیا صحیح؟ اپنا جائزہ لیں، آپ کا شمار کن لوگوں میں ہوتا ہے۔ دھوکا کھانے والوں میں یا۔۔۔۔ دینے والوں میں؟
یاد رکھیں! دھوکے بازی ایک بیماری ہے جس پر اگر بروقت قابو نہ پایا جائے تو مزید پھیل جاتی ہے۔ تاہم، لوگوں کو غلط کام کرنے پر شرمندہ کیا جائے تو وہ ایسے کاموں سے دُور رہتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ، غلط کاموں پر سزا اور اچھے کاموں پر جزا کا رواج بھی مددگار ومعاون ثابت ہوتا ہے۔
آپ کی خوشیوں اور کام یابیوں کے لیے دعا گو
             باجی حمیرا اطہر

No comments:

Post a Comment