رشید بٹ
دیر تلک سوچا کیا کہ کولاژ Collage کا تانا کہاں سے تانا جائے اور بانے کا رخ کیا ہو؟ بظاہر تو تانے بانے کا رخ لمبان اور چوڑان ہی ہوتا ہے لیکن مصوّری، نقاّشی، خطاطی، چوب کاری، کاغذ تراشی، شجرکاری،گل کاری، شعر و سخن، آرائش و زیبائش، سکے اور مہر کے نقوش اور اُن کی ڈھلائی، ّمنبت کاری، ابھرواں نقش گری، مینا کاری، سادہ کاری غرض ہر ِصنف میں کولاژ کا عمل کار فرما نظر آتا ہے۔ اس کے لیے کولاژ کا لفظ مخصوص نہیں۔ یہ لفظ تو 20 ویں صدی کے اوائل میں یورپ میں اس ِصنف کے احیاء سے وجود میں آیا بلکہ فرانسیسی زبان کے لفظ Coller سے اخذ کیا گیا جس کا مطلب ’’چپکانے یا چسپاں کرنے‘‘ تک محدود ہے۔ ہاں ، یہ بات اپنی جگہ اہم سمجھئے کہ لفظ ’’کولاژ‘‘ کو قبولِ عام کا وہ درجہ ملا کہ دنیا کی ہر زبان اسے اپنے ہاں جگہ دینے پر مجبور ہوگئی۔ اور اردو اس سے ماوراء نہ تھی کہ یہ ایک زندہ زبان ہے۔اب اس سے پہلے کہ ہم کولاژ کی تفصیل میں جائیں، ایک سخن گسترانہ معاملہ، مقطع تو دور کی بات ، مطلع ہی میں آن ِٹکا ہے۔
ہمارا ایک بڑا ا ّلمیہ یہ ہے کہ صدیوں سے مسلط نو آبادیاتی، نیم آبادیاتی اور پھر اپنے ہی ہم رنگ و نسل مقتدر طبقوں کی ذ ہنی اور فکری غلامی ہماری فطرت ِ ثانیہ بن چکی ہے۔ ہم اپنے خیال و افکار اور اُن سے متعلق بیش بہا اثاثوں کو قابلِ اعتناء نہیں گردانتے۔ ہاں، مغرب کی نام نہاد ترقی یافتہ اقوام کی طرف سے سنہری ورقوں میں لپٹی کوئی چیزیا ِصنف آجائے تو واہ واہ کے ڈونگرے برسانے اور کاتا اور لے دوڑنے کی راہ پر چل نکلتے ہیں۔ یہ سوچے بغیر کہ ہزاروں سال پر محیط ہمارے اپنے ِ ّخطوں میں پروان چڑھنے والی تہذیبوں، افکار و خیالات اور ُحسن کاروں اور صناّ عوں کے چھوڑے ہوئے نقوشِ پارینہ جن میں قدم قدم پر کولاژ بھی ملتے ہیں،کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ہم زیادہ دور نہیں، یہی کوئی 8 ہزار سال پہلے کے مشرقِ وسطیٰ میں جیریکو،4 سے 3 ہزار سال پہلے کے ایرانی سطح مرتفع،اہرامِ مصر، حنوط شدہ ممیوں، دجلہ و فرات کی وادی، با ِبل کے ّمعلق باغ اور ہمالہ کے چشموں اور جھیلوں سے جنم لینے والے سندھ ساگر کے کناروں پر آباد بستیوں تک چلتے ہیں! ذرا چشمِ تصوّر کھولیے اور مصوّر کی نظر سے دیکھئے۔ انسان اناج اُگانے کے فن سے آشنا ہوتا ہے۔ آلاتِ کشاورزی’’ایجاد‘‘ کرتا ہے۔ اناج گھروں کی حفاظت کے لیے ٹھوس بنیادوں والی دیواریں اُٹھاتا ہے۔ کمہار یا کمہارن کا چاک گھومتا ہے اور اُس کی انگلیاں گیلی مٹی کو نوع بنوع ظروف کی صورت دیتی جاتی ہیں۔ اُن پر کندہ حروف کچھ تو ایسے ہیں جنہیں ہزاروں برس گزرنے کے بعد بھی آج کا انسان، اپنی تمام تر سائنسی ترقی کے باوصف مطالب و معانی نہیں دے پایا۔ اِن میں ہنڈیا، مرتبان، بادیہ، پیالہ، گملا، صراحی، گھڑا سب کچھ تو شامل ہیں۔ ان ہی چیزوں اور ّصنا عی سرگرمیوں کو پردۂ مصوّری پر چپکاتے جائیے ،ٹکاتے جائیے اور چسپاں کرتے جائیے۔کولاژ بنتے چلے جائیں گے۔بلوچستان کے 6 ہزار سال قدیم آثار میں وادیٔ ژوب کی دیہی بستیاں، سندھ میں موئن جو دڑو کے ٹیلے۔ بلوچستان اور سندھ کی ایسی ہی ٹیلا نما بستیوں کے بارے میں اپنے وقت کے ممتاز پاکستانی ماہرِ آثارِ قدیمہ ڈاکٹر ایف اے خان کی رائے ہے کہ ایک انسانی بستی، وقت کے بہائو کے ساتھ اُجڑتی ، معدوم ہوتی تھی تو صدیوں بعد آنے والا انسان اِسی پر دوسری بستی بسالیتا تھا۔ یوں یہ بستیاں ابھرواں ہوتی چلی جاتی تھیں اور ان ہی کے آثار آج ہمیں ٹیلوںکی صورت ملتے ہیں۔ یہاں اچانک یہ سوچ بھی در آتی ہے کہ … اوّل فنا… آخر فنا - جرسِ وقت کے اسی اصول کی پیروی میں صدیوں بعد، جب ہم نہ ہوں گے، ہماری اِن بلند و بالا عمارتوں والی بستیوں کے خوابیدہ آثار پر ہی، اُس دور کا انسان اپنی نئی بستیاں آباد کرلے گا اور ہماری یہ بستیاں ٹیلے بن چکی ہوں گی! اس ساری تلاشِ کولاژمیں مَیں نے ماضی کی میراث ڈھونڈتے وقت تاریخ اور آثارِ قدیمہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور پاکستانی نابغہ پروفیسر احمد حسن دانی کا دامن بھی تھامے رکھا۔
مَیں کدھر نکل گیا۔ یہاں کچھ کھوسا گیا ہے۔ ہاں ، ہم اب ’’دوبہنوں‘‘ تاریخ اور ماقبل تاریخ کی انگلیاں تھامے وادیٔ سواں میں داخل ہوتے ہیں۔ راولپنڈی کے دامن سے چپکی یہ وادی عجائباتِ سنگ کا ایک عجیب سا سماں اور کیفیت رکھتی ہے۔ راولپنڈی کی سمت سے آتی ریل گاڑی، عمودی چٹانوں میں گُتھے آہنی پل پر گڑگڑاتی ہوئی چڑھتی ہے تو سوچوں کے دھارے ہمیں لگ بھگ پانچ لاکھ سال پہلے کی وادیٔ سواں میں لے جاتے ہیں۔ یہ تہذیبِ انسانی کا ’’حجری دور‘‘ہے۔ ڈاکٹر ایف اے خان کی سنَد کے مطابق جغرافیائی اعتبار سے مغرب میں دریائے سندھ، مشرق میں دریائے جہلم اور دریائے پونچھ، مشرق میں پیر پنجال کا دامنِ کوہ اور جنوب میں کوہستانِ نمک، ِ ّخطۂ پوٹھوہار کے اس حصے یعنی وادیٔ سواں کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ میرے سامنے ایک خیالی تصویر یا کولاژ (Diorama) ہے جو 1969ء تک قومی عجائب گھر، کراچی میں الیکٹرونک عکس و نور کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے بنائی جاتی تھی۔ مسطح زمین، گھنے درخت، پہاڑ اور پہاڑوں کے عقب سے ابھرتے سورج کی نمود سے پہلے کرنوں کی جھالر! اب یہ کولاژوہاں ہے یا نہیں، مَیں نہیں جانتا۔
اس وادی سے کھدائی کے دوران تاحال کسی جاندار کا ّمحجر ڈھانچہ تو دریافت نہیں ہوا لیکن پتھر سے بنے ہوئے خام اوزار اور آلات ضرور برآمد ہوئے ہیں۔ دریائے سواں کے کناروں پر مدوّر چھوٹے چھوٹے چکنے سنگ ریزے ان گنت تعداد میں ملتے ہیں، جو نہ جانے کب سے پانی کی ’’رگڑ‘‘ کھاتے کھاتے اپنا کھردرا پن کھو بیٹھے۔ ذرا پھر اپنی مصوّرانہ نگاہ اٹھائیے۔ ہمالیائی گلیشیر ٹوٹتے ہیں، پگھلتے ہیں، اُن کے ساتھ سنگلاخ چٹانیں بھی ریزہ ریزہ ہوتی ہیں۔ پانی بپھرتا ہے اور پھر ایسی وادیاں وجود میں آجاتی ہیں!
ہم تھوڑا اور آگے بڑھتے ہیں تو ہمیں ایسے ہی ارضی ّتغیرات اور کیفیات مردان، بونیر اور ان کے پہاڑوں کے دامن میں پھیلے سوات میں لے آتے ہیں جہاں سطح سمندر سے لگ بھگ دو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع گپھائوں میں راکھ کی موٹی موٹی تہیں موجود ہیں۔ اِسی علاقے میں تاریخ اپنے َپر پھڑپھڑاتی تیزی سے اڑان بھرتی ہے تو لاکھوں برس کا فاصلہ طے کرکے چند ہزار سال پہلے کے دورِ قبل مسیح میں داخل ہوجاتی ہے اور ہماری نظروں کے سامنے گندھارا کا مخملیں اور مرمریں فرش بچھادیتی ہے کہ یہ وہ دور ہے جب مقامی، ایرانی اور یونانی فنِ صناّعی ہم آہنگ و ہم جاں ہوئے۔ قریب ہی ٹیکسلا ہے جو قدیم ورثے کے اعتبار سے شاید ہی کوئی ثانی رکھتا ہو۔ مہاتما بودھ کے مجسموں میں ، چٹانوں پر کندہ تصویروں اور نقوش میں یونانی ناک ، لب و رخسار، چشم و ابرو، گھونگھریالے بال چشمِ مصوّر کو انگشت بدنداں کردیتے ہیں۔ یہاں سے وقت کا رخ موڑتے ہوئے ٹیکسلا کی سمت قدم بڑھائیں تو ایک چٹانی ٹکڑا ملتا ہے جس پر قدیم اور اب مردہ عبرانی زبان میں کھدی ہوئی تحریر ملتی ہے۔ نقش گر جو زرد، سیاہ اور ارغوانی رنگ استعمال کرتے تھے، ہزاروں سال بعد آثار کی کھدائی کے وقت بھی وہی رنگ چمکتے دمکتے ملے۔ آج کا انسان سوچ سکتا ہے کہ وہ لوگ رنگ سازی میں آخر کون سی تکنیک اپناتے تھے ؟آج کے رنگ تو دیکھتے ہی دیکھتے رنگ چھوڑ جاتے ہیں۔
اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کی سرحدوں سے باہر نکلیں، ڈاکٹر ایف اے خان کی ایک تحقیق بہت توجہ طلب ہے۔ یہ کہ آج کے پاکستان اورکچھ ملحقہ علاقوں پر مشتمل مجموعی ِ ّخطہ بیتے ہزاروں برس کے دوران آریائی، ایرانی ،خامنشی (Achaemenid)، یونانی، شاکا، پارتھی اور کشان تہذیبوں اور ثقافتوں کا سنگم رہا۔ ان میں سے ہر تہذیب اور ثقافت امتیازی نقوش کی حامل تھی لہٰذا اُن سب کے ملاپ سے جو تہذیب و ثقافت اس ِ ّخطے میں ابھری اور پروان چڑھی وہ اپنی منفرد خصوصیات لیے ہوئے تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں غلبۂ اسلام کے بعد اس تہذیب و ثقافت نے مصوّری اور ّمنبت کاری پر مبنی کولاژ میں اسلامی اندازِ فکر کو بھی سمیٹ لیا۔
ان ہی ثقافتوں اور تہذیبوں کے پس منظر اور پیش منظر میں ہم ماضی کے ایودھیانا اور آج کے سوات کے ساتھ ساتھ برِ صغیر کے دیگر علاقوں میں رنگ برنگ ،متنوع آثارِ قدیمہ سمیت اسلامی رنگ لیے نقوش اور فنِ تعمیر کے انوکھے نمونے دیکھتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے۔برگدکا پیڑ ،اشوکِ اعظم کی لاٹ، ایران کے لرزاں ستون، پرسی پو ِلس (تختِ جمشید) میں دارا کے محل کے آثار پر نظریں دوڑایئے۔ کیا یہ سب اپنی اپنی جگہ کولاژ نہیں؟ قلعے اور مسجدیں دیکھئے۔ چار ّسدہ جو کبھی ُپش کلاوتی یا پیو کے لائوٹس (کنول پور یا کنول آباد کہہ لیجئے!) کہلاتا تھا، حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے لگ بھگ سواتین سوسال یعنی آج سے کوئی 24 سو سال پہلے کا ایک جنگی رومانس دامن میں سمیٹے بیٹھا ہے۔ یہاں ایک چھوٹی سی کہانی آجاتی ہے۔ شمال مغربی پاکستان کا یہی چار ّسدہ اور اس کا قلعہ بالا حصار اُس دور میں گندھارا کا دارالحکومت تھا۔ اور ہاں! اس َ ّخطے اور تہذیب و ثقافت کے لیے ’’گدھارا یا گندھارا‘‘ کا نام یا لفظ ہمیں پہلی بار کم و بیش 518 قبل مسیح کے اس کتبے میں ملتا ہے جو ایران کے شہنشاہ دارا اوّل نے مغربی ایران میں واقع کوہِ بے ستون پر کندہ کروایا تھا۔ تب گندھارا، قلمر وئے ایران کا ایک مشرقی صوبہ تھا، جو کوہ ہندو کش کے راستے پشاور تک پھیلی ہوئی تھی۔ پرسی پو ِلس (تختِ جمشید) اور نقشِ رستم میں، جو 486 قبل مسیح میں دارااوّل کا مدفن بنا، ہمیں ایسے کتبے ملتے ہیں جن میں دریائے سندھ کے کناروں تک پھیلی اُس کی قلمرو اور محدود معنوں میں ’’ہند‘‘ کا تذکرہ موجود ہے۔
مَیں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ اپنی چشمِ تصوّر کھلی رکھیئے، منظر نگاری کرتے اپنے پسندیدہ کولاژ بناتے جایئے کہ یہ ماضیٔ بعید کے سیربیں دریچے ہیں۔ ساتھ ساتھ چلتے آئیے۔ برِ صغیر کے ان ِ ّخطوں میں تاریخ کی پگڈنڈی کچھ زیادہ ہی طویل ہو رہی ہے۔ لیکن کیا کِیا جائے؟ یہاں تو ابھی بہت کچھ ہے۔ ہم ُپش کلاوتی یا چار ّسدہ کی گلیوں میں گھوم رہے ہیں۔ گھومتے گھماتے، پھرتے پھراتے ہم ڈیڑھ سو سال اور ِبتا دیتے ہیں۔ قلمروئے ایران ناتواں ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن اسی عرصے کے دوران یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ برِ صغیر سے افغانستان کے رستے ایران تک، شہنشاہِ ایران کے زیرِانتظام، ایک شاہراہ وجود میں آچکی ہے جس پر تجارتی قافلے اور عام کارواں آرہے ہیں، جارہے ہیں۔ اس شاہراہ کے ساتھ ساتھ شہر، قصبے اور گائوں آباد ہو رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ نئے ہیں اور بعض پرانی بنیادوں پر استوار ہورہے ہیں… ان ہی میں سے ایک ٹیکسلا ہے اور دوسرا چارسدّہ… 1958ء میں کھدائی کے دوران یہ کیفیت سامنے آئی کہ یہ دونوں شہر دوبار اپنی اصل جائے وقوع سے ہٹا کر بسائے گئے۔ یہ کیفیت، مشرق کے اس خطے کی پرانی عادت لگتی ہے کہ د ّلی شہر بھی پچھلے ہزار سال کے دوران کم و بیش آٹھ بار اُجڑا اور اپنے اصل مقام سے ہٹ کر بسا۔نئے شہروں اور قصبوں کی آبادی، مکانات،سڑکیں ،لوگوں کی آمدو رفت یہ سب کینوس پر چسپاں کریں تو کولاژ بن جاتے ہیں۔
327 قبل مسیح آجاتا ہے۔ سکندر یونانی کی فوجیں، کمزور پڑتی قلمروئے ایران کو روندتی پش کلاوتی کا محاصرہ کرلیتی ہیں۔ لیکن انہیں شہر فتح کرنے میں ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔ 1958ء ہی کی کھدائی اور تحقیق کے دوران یہ ثابت ہوا کہ ُپش کلاوتی قلعہ بند شہر تھا۔ اس کے گرد آبی خندق اور گارے سے بنی اینٹوں کی فصیل تھی۔ سکندر دنیا سے گزر گیا۔ اس کے کچھ ہمراہی ان ہی علاقوں میں بس گئے اور باختر میں حکومت قائم کی۔ برسوں بعد وہاں سے نکالے گئے تو آج کے پاکستان کے شمال مغربی سرحدی علاقے اور پنجاب کا رخ کیا۔ تب ُپش کلاوتی کا شہر انہوں نے اصل جائے وقوع سے تین فرلانگ ہٹ کے شطرنجی نقشے پر بنایا۔ یہ بلاشبہ یونانی طرزِ تعمیر تھا۔ شیخان ڈھیری کے نام سے معروف یہ آثار 1958ء میں فضائی تصویر کشی کے دوران بڑے ڈرامائی انداز میں سامنے آئے۔ اس میں ہر چالیس گز کے فاصلے پر بڑی گلی اور منصوبہ بندی کے ساتھ مکانات کی تعمیر ہے۔ مندر یا خانقاہ کے لیے خصوصی جگہ بھی رکھی گئی ہے۔ خاص بات یہ جانئے کہ فنِ تعمیر میں مشرقی اور مغربی خصوصیات نمایاں ہیں۔ شطرنجی نقشے کو بھی کولاژ کا نام دیا جاسکتا ہے۔
سندھ ساگر کے اِس پار ُپش کلاوتی سے 125 میل کے فاصلے پر دوسری اہم کارواں سرائے (شہر) ٹیکسلا آتا ہے۔ اپنے زمانے کی یہ چھوٹی سی شہری ریاست گمان غالب ہے کہ قلمروئے ایران میں رہتے ہوئے کسی قدر خود مختاری کی بھی حامل تھی۔ اور کہا جاتا ہے کہ 326 قبل مسیح سکندر فاتح کی حیثیت سے یہاں پہنچا تو بادشاہ سلامت نے بڑی عاجزی کے ساتھ اطاعت قبول کرلی۔ دوسری جانب مقامی برہمنوں نے بھی کوئی ہاہا کار نہیں مچائی۔ بعدازاں یہ شہر بھی شطرنجی نقشے پر سرکپ کے نام سے پارتھیوں نے دوبارہ بسایا۔ اس میں زیادہ تر عمارتیں کشادہ سڑک کے دونوں طرف تعمیرکی گئی ہیں۔ سامنے چوکی اُٹھاکے دکانیں اور پیچھے گول صحنوں والے مکان۔ اس نوع کی تعمیرات آج کے دور میں بھی اس ِ ّخطے ہی میں نہیں بلکہ دوسرے علاقوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا انہیں ’’ماڈرن‘‘ بازار بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان حوالوں سے دیکھا جائے تو سرکپ اور ُپش کلاوتی (بالاحصار- شیخان ڈھیری) باہم ہمسری کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ رامائن میں، جو تاریخ نہیں، محض ایک رزمیہ ہے، ٹیکسلا اور ُپش کلاوتی، بھرت کے دونوں بیٹوں نے بسائے تھے۔ آثار یہ بھی بتاتے ہیں کہ اِس ِ ّخطے میں چھٹی صدی قبل مسیح سے لوہے کا استعمال شروع ہو چکا تھا۔ چار ّسدہ ( ُپش کلاوتی) سے ایک صدی قبل مسیح کی ایک مہر بھی ملی ہے جس پر ایتھنا دیوی کی شبیہہ کندہ ہے۔یہ سب بھی منظر کشی کے اعتبار سے کولاژ ہیں ۔ بابائے تاریخ، یونانی مورّخ ہیروڈوٹس نے اس ِ ّخطے کے حالات بڑے جاندار انداز میں لکھے ہیں۔ اور یہاں بھی اسی کے ریکارڈ سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔
اب ہم اپنی مرضی سے تاریخ کی انگلی پکڑ کر ذرا دوسری سمت لیے چلتے ہیں۔ آپ نے قلعۂ آگرہ کے بائیں جانب والے جھروکوں سے سترھویں صدی کے تاج محل کا عقبی منظر دیکھا ہے؟ جمنا کا پانی کبھی اس کی دیواروں سے سر ٹکراتا گزرتاتھا۔ وقت کے بہائو نے جمنا کے بہائو کو بھی کچھ دور دھکیل دیا ہے۔ میری نگاہوں میں 1983ء کا منظر بسا ہوا ہے۔ سورج کی کرنوں اور چاند کی روشنی میں نہایا مرمریں حسن! ایک حسین کولاژ !قلعے سے نکلیں تو سامنے رخ کا نظارہ کہیں زیادہ مسحور کن۔ نادرفنِ تعمیر کا یہ نمونہ جس میں ایرانی خصوصیات بھی جھلکتی ہیں۔ اس کے لیے خطِ ثلث میں قرآنی آیات امانت علی شیرازی کی لکھی ہوئی ہیں جو فنِ خطاطی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
مہاراشٹر میں ایک صدی قبل مسیح سے ساتویں صدی عیسوی تک کے دور کی اجنتا بودھ گپھائیں۔ ان گپھائوں میں خانقا ہیں ہیں، اوتار ہیں، راکشس ہیں۔ دیواری تصویروں میں اس دور کے رہن سہن کی عکاسی اور منظر کشی ہے۔ اور یہ دیکھئے۔ ایلوراکی گپھائیں تو ساتویں سے دسویں صدی عیسوی کا منظرنامہ ہیں۔ سیرِ جہاں ہیں۔ ہندو، بودھ اور جین سب یکجا ہو گئے ہیں۔ یہاں شیوا کا مندر شیوا ناتھ ہے۔ پھر کھجراؤ ہے۔ یہاں آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے اسے کوئی صدیوں کے تجربے کا مالک داستان گوہی بیان کر سکتا ہے۔ یہ گپھائیں بھی اپنی اپنی جگہ، اپنے اپنے نقش و نگار کے ساتھ کولاژ کا سماں باندھتی ہیں۔
چلتے چلتے اکبرِ اعظم کے نئے دارالحکومت فتح پور سیکری کی بات بھی ہو جائے۔ اس کے کتبوں اور طغروں کی خطاطی کے لیے سندھ کے نامور مورّخ اور خطاط میر معصوم علی بکھری کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ پنجاب میں جابجا پھیلے آثار، نطق سے محروم مگر بولتے ہوئے!
وسط ایشیا کے ِ ّخطے ترکستان اور بڑھتے بڑھتے منگولیا کے اُن دورافتادہ علاقوں پر نظر دوڑایئے جہاں تاریخ بھی اپنی معدومی کا اعلان کردیتی ہے، وحشی اور خونخوار قبائل نے بھی ایسے آثار چھوڑے ہیں کہ آج کا انسان، جو خود بھی خاصا خونخوارہے، ششدررہ جاتا ہے۔ ترکستانی صحرائوں میں ریت تلے دبے آثار کھدائی کے بعد اپنی اپنی کہانیاں سناتے ہیں۔ مکان، بازار، آلات، اوزار، قابلِ کاشت زمینوں پر انگور کی بیلیں۔ پانی کے جھرنے، صحراؤںکے کناروں پر سراٹھائے فلک بوس پہاڑوں سے نکلنے والے دریا جو بہتے بہتے صحرائوں میں ہی گم ہو جاتے ہیں… آبِ گم بن جاتے ہیں اور پھر کہیں اور جاسر نکالتے ہیں۔ بدلے ہوئے ناموں سے! ایسا ایک منظر یا کولاژ سوات میں بھی ہے۔ اور ساتھ ہی ساتھ صدیوں پہلے کے نقش گروں کی بنائی ہوئی چٹانی تصویریں جو پہاڑی گزر گاہوں میں بنائی گئیں اور گزشتہ اور اس سے پیوستہ صدی کے دوران یورپی ماہرینِ آثارِ قدیمہ نہایت مہارت سے کاٹ کاٹ کر چُرالے گئے۔
ذرا رخ بدل کے ہم چین کے شمالی ِ ّخطے کی طرف بڑھتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں دس لاکھ سال قبل وجودِ انسانی کے آثار ملتے ہیں اور تہذیبی نقوش کے لیے ہمیں پلٹ کر کم وبیش 6 ہزار سال قبل مسیح کے زمانے میں کھیتی باڑی کرتے، ’’پھان پوگائوں‘‘ جانا پڑتا ہے، علاج معالجے کے لیے جڑی بوٹیاں تلاش کرنے والی دیو مالائی ہستی ’’شین نونگ‘‘ کو ڈھونڈنا پڑتا ہے اور پہیہ دیکھنے اور ہڈیوں پر کندہ تحریریں’’پڑھنے‘‘ کے لیے ’’آن یانگ‘‘ گائوں جانا پڑتا ہے۔ یہ سامنے ایک تصویر رکھی ہے۔ رتھ کے دُھرے میں لگے پہیے، رتھ کا ڈھانچہ اور رتھ میں رتھ بان اور گھوڑے کے ڈھانچے۔ان چیزوں کو بھی پردے پر چپکاتے جائیے۔کولاژ وجود میں آتے چلے جائیں گے۔ دلچسپ بات جانیے کہ یہی پہیہ اور رتھ ہمیں موئن جو ڈرو میں بیل گاڑی کی صورت ملتا ہے۔ ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے چینی رتھ پر جو تحقیق کی، اس کے ڈانڈے بالواسطہ طور پر میسو پوٹیمیا (دجلہ اور فرات کی وادی) سے جا ملتے ہیں۔
اب تاریخ ہمیں رامائن کے َپون ہنڈولے یا ویمان پربٹھاتی ہے اور اٹلی کی اپیئن شاہراہ (Appian Way)کی سیر کراتی ہے۔ یہ سڑک زیادہ پرانی نہیں۔ یہی کوئی تئیس سو سال پہلے رومنوں نے غلاموں سے مشقت لیتے ہوئے بنائی تھی اور سڑکوں کی ملکہ کہلاتی تھی۔
اس کے دونوں جانب چائے خانے ہیں، دلکش قدرتی مناظر اور اُن امراء کے مقبرے اور مدفن ہیں جنہوں نے اس شاہراہ کو امرلوک تصوّر کرتے ہوئے خود بھی ، مرنے کے بعد یہاں’’سرِراہ‘‘ دفن ہونا پسند کیا تھا۔ یہ اپنے وقت کی بڑی مصروف فوجی اور تجارتی شاہراہ تھی۔ لگ بھگ تین سو سال بعد،37قبل مسیح میں عظیم رومن شاعر ہو ریس (Horace)یہاں سے گزرتا ہے اور ایک مسافر کی نظر سے دیکھتے ہوئے طنزیہ لہجے میں کہہ اٹھتا ہے:
’’اس سڑک پر مچھر، مسافر کو بے دھڑک کاٹتے ہیں، سرائے والے ایک سے ایک بڑھ کے کائیاں ،سڑک ٹوٹی پھوٹی، راہ گیر کٹ کھنے، چشم آشوب دھول مٹی، آتے جاتے افسروں اور حا ِ کموںکا طمطراق ، بادِ سموم سے سوختہ پہاڑیاں ، سڑا ہوا پانی، گھٹیا روٹی ، بارش کا عذاب اور مقامی لوگوں کی چکر بازیاں۔‘‘
لوجی، ہم تو یہاں کسی چائے خانے میں بیٹھ کے چائے وائے پینے کا سوچ رہے تھے کہ بہت تھک چکے، لیکن ہوریس نے ہمیں ڈرادیا ۔ چلتے ہیں اب روم …سولہویں صدی عیسوی۔1515ء …وقت کا ایک نابغہ مجسمہ ساز مائیکل اینجلو ابھی ابھی حضرت موسیٰ ؑکے گھٹنے پہ ہتھوڑی مار کے کہہ رہا تھا، ’’بولتے کیوں نہیں۔ تم ہی تو موسیٰ ہو۔‘‘ حضرت موسیٰ ؑتو بول نہ پائے لیکن مجسمے کے گھٹنے میں عیب آگیا ۔ یہ بھی ایک بنا بنایا کولاژ ہے۔
دنیا کی اوّلین تہذیبوں اور ثقافتوں نے چار بڑے دریاؤں کی وادیوں میں جنم لیا، پروان چڑھیں اور پھلی پھولیں۔ مصر میں دریائے نیل کی وادی، مغربی ایشیاء یا میسوپوٹیمیا میں دجلہ و فرات کی وادی، برِ صغیر میں سندھ ساگر کی وادی اور چین میں دریائے زرد کی وادی ۔ اِن ہی وادیوں میں انسان نے اپنے وحشی پن اور خانہ بدوشی سے بتدریج کنارہ کشی کرکے تہذیبی عمل میں ڈھلنے کا آغاز کیا۔ اس کا آغاز بھی فنِزراعت کو رواج دینے، حروف سازی ، رسم الحظ اور اندازِ تحریر ایجاد کرنے سے ہوتا ہے جس میں مصری اور چینی پیش پیش رہے۔ مصراور آشور میں اس کی ابتدا کم و بیش دو ہزار سال قبل مسیح اور چین میں پندرہ سو سال قبل مسیح میں ہوئی ۔ باقی تہذیبوں اور ثقافتوں نے ان تہذیبوں سے میل جول کے نتیجے میں اپنے ہاں حروف اور رسم الخط ایجاد کیے۔ ابتدا بہر حال تصویری نقوش سے ہوتی ہے ۔
ابھی ہم نے افریقہ کے صحرائے اعظم سے اٹھنے والی بادِ سموم اور لاطینی امریکہ میں دریافت شدہ آثار کو نہیں چھیڑا۔ یہ پھر کبھی سہی۔ یہ سب تو مخلوق (انسان) کی تخلیق ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ اِس مخلوق کے خالق اللہ تعالیٰ نے جو المصوّر، قسامِ ازل، خیاّطِ ازل، خدائے لم یزل ایسے کتنے ہی صفاتی ناموں سے موصوف ہے، کیا کچھ نہ تخلیق ِکیا ہوگا ۔ یہ کائنات جس میں جانے کتنی کائناتیں چھپی ہوئی ہیں اور انسان اپنی تمام تر سائنسی اور فنی ترقی کے باوصف ان کا سراغ نہیں لگا سکا ۔ آسمان ، ستارے، اجرامِ فلکی، بلیک ہول ، کہکشائیں ، شہابِ ثاقب ،ان سب کو مصوّرِکائنات کی مصوّری نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟اس کے بنائے ہوئے کولاژ نہیں کہیں گے تو کیا کہیں گے؟ ہم نے تہذیبوں کے جو نقوش اور مناظر پیش کیے ہیں، انہیں ایک ایک کرکے کینوس پر چسپاں کرتے جائیں تو تصویریں بنتی چلی جاتی ہیں ۔ یہی کولاژ ہے! انہیں سامنے رکھا جائے تو انسان کہہ سکتا ہے کہ کولاژ مصوّری کی ایک ِصنف نہیں بلکہ یہی بحیثیتِ مجموعی مصوّری اور باقی سب اس کی اصناف ہیں ۔
ہم تاریخ کے صفحات پھر سے پلٹتے ہیں تو ہمیں بائیس سو سال پہلے کے چینی ادب وفن اور منظر کشی میں کولاژ کا تصوّر ملتا ہے ۔ اس کے بعد ہم دسویں صدی عیسوی میں آتے ہیں تو جاپانی خطاّط اسے اپناتے ہوئے دِکھائی دیتے ہیں ۔ ایک دور ایسا بھی ملتا ہے جب کو لاژ کا فن دنیا کی خوابیدہ سرزمین سائبریا میں پروان چڑھتا نظر آتا ہے۔ اور پھر بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں جارج باروک اور پکاسو اس فن کو نشاطِ ثانیہ دیتے ہیں ۔
جہاں تک علم و ادب ، نثر اور شاعری کا تعلق ہے تو لکھاری یا شاعر کا ّتخیلکیا ہے ؟ وہ کچھ چیزیں، کچھ باتیں سوچتا ہے اور پھر انہیں الفاظ کا جامہ پہنا دیتا ہے ۔ غالبؔنے ہوش اُڑنے، بے خودی طاری ہونے اور ہوا کے سر سرانے کے خیال کو یوں باندھا ہے ۔
مجھ سے کہا جو یار نے جاتے ہیں ہوش کس طرح
دیکھ کے میری بے خودی چلنے لگی ہوا کہ یوں
غالبؔ کے اس شعر کی روشنی میں،اور اب تک جو تو جیہات پیش کی گئی ہیں انہیں سامنے رکھیئے تو اندازہ ہوپائے گا کہ اس جریدے کے لیے کولاژ سے اچھا کوئی نام نہ تھا ۔ اس میں شعرونثر میں ادیبوں اورشاعروں نے اپنے جن ّتخیلات کو پرِپرواز دیئے وہ کولاژ کی تمام خصوصیات کا مر ّقع ہیں ۔ افسانوں کے کردار۔ شاعری میں منفرد خیالات و افکار، تاریخ کی شاہراہیں اور پگ ڈنڈیاں، افراد کی خصوصیت اور اہمیت ، ’’دیکھتا چلا گیا‘‘ اور’’ نظر ے خوش گزرے‘‘کی کیفیات و ّحسیات ، گلیوں، سڑکوں پر مسائل کے بارے میں آواز اٹھانے والے کردار، طرب و یاس دامن میں لیے شاعری ، اس میں سب ہی کچھ تو ہے ۔
چلتے چلتے یہ بھی بتاتا چلوں کہ کولاژ کی لوح ممتاز آرٹسٹ انجم ایاز کے ذہنِ رسا کی تخلیق ہے۔ اور شاید یہی تخلیق اس مضمون کا محرک بنی۔