حمیرا اطہر
اگرچہ اردو کے افسانوی ادب میں داستانوں سے جدید افسانوی ادب تک، عمدہ تخلیقات کا ایک بیش بہا اور کثیر سرمایہ موجود ہے۔ منشی پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم سے لے کر غلام عباس، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، عصمت چغتائی، ممتاز مفتی اور عبداﷲ حسین تک، افسانوی ادب ارتقاء کے مختلف مراحل سے گزرا، تاہم، شوکت صدیقی کا نام جدید افسانوی ادب میں نہایت نمایاں نظر آتا ہے۔ خصوصاً ان کے دو ناولوں ’’خدا کی بستی‘‘ اور ’’جانگلوس‘‘ (تین جلدوں پر مشتمل) کو جو شہرت ِ عام حاصل ہوئی وہ کسی اور ادیب یا کتاب کے حصے میں نہیں آئی۔ (آگے چل کرانہی دونوں ناولوں کا تفصیلی جائزہ لیا جائے گا۔) شوکت صدیقی نے ڈرامے بھی لکھے۔ اگرچہ ان کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔ تاہم، وہ لاہور کے ہفت روزہ ’’خیام‘‘ اور ماہنامہ ’’شاعر‘‘ آگرہ میں شائع ہوئے جن کی تعداد آٹھ ہے۔
شوکت صدیقی 20 مارچ 1923ء کو لکھنٔو کے ایک علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام شوکت حسین رکھا گیا۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول اینڈ انٹرمیڈیٹ کالج لکھنٔو میں حاصل کی۔ 1935ء میں جب نواب گنج میونسپل ہائی اسکول کان پور میں آٹھویں جماعت میں داخلہ لینے کا وقت آیا اور لکھنٔو سے’’اسکول لیونگ سرٹیفکیٹ‘‘ ملنے میں غیرضروری تاخیر ہوئی تو ان کے بڑے بھائی حامد حسین صدیقی نے ان کا نام شوکت علی صدیقی تجویز کیا اور اسی نام سے داخلہ دلادیا۔ بعد ازآں جب 1940ء میں ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا تو صرف شوکت صدیقی نام ہی ان کی شناخت بنا۔ چنانچہ تمام ضروری دستاویزات، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ وغیرہ پر یہی نام درج رہا۔
شوکت صدیقی کے ددھیال کا تعلق روہیل کھنڈ (یوپی) کے مشہور شہر بریلی سے تھا، ان کے دادا مولوی عبدالعزیز کی ایک بیٹی اور اٹھارہ بیٹے تھے۔ برطانوی عہدِ حکومت سے پہلے ان کے آباء واجداد محکمۂ قضاۃ سے وابستہ تھے اور انہیں احتراماً ’’مولوی‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ خانوادہ اپنے علم وفضل کے اعتبار سے خاصا معروف تھا اور عزت وتوقیر کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا۔ جب محکمہ قضاۃ ختم کیا گیا تو بعد کی نسلوں نے وکالت کا پیشہ اختیارکیا۔ مولوی عبدالعزیز کا شمار بھی اس زمانے کے مشہور وکلاء میں ہوتا تھا۔ وہ مقدمات کی تیاری کے سلسلے میں قانونی کتابوں کے مطالعے میں اس طرح غرق رہتے کہ ان کی اولاد مناسب تعلیم سے محروم رہی۔
شوکت صدیقی کے والد کا نام الطاف حسین صدیقی تھا ، جو اپنے والد کی سب سے چھوٹی اولاد تھے۔ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ کبھی ’’مولوی‘‘ کا سابقہ استعمال نہیں کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جس علم وفضل کی رعایت سے ان کے بزرگ مولوی کہلاتے تھے جب وہی نہ رہا تو پھر کہاں کے مولوی؟…شوکت صدیقی کے دادا مولوی عبدالعزیز کے صرف ایک ہی بھائی مولوی عبدالحسیب تھے جو اجمیر میں محکمۂ پولیس میں تھانے دار تھے۔ وہ لاولد تھے۔ جب مولوی عبدالعزیز کا انتقال ہوگیا تو وہ اپنے نوعمر بھتیجے الطاف حسین کو اپنے ساتھ اجمیر لے گئے۔ پولیس کی ملازمت کی وجہ سے مولوی عبدالحسیب کا تبادلہ ایسے پس ماندہ علاقوں میں ہوتا رہا جہاں تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ لہٰذا، الطاف حسین صرف آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کرسکے۔ تاہم، ان کی عربی اور فارسی کی قابلیت بہت اچھی تھی۔
شوکت صدیقی کے ننھیال کا تعلق اجمیر سے تھا۔ ان کے نانا عبدالرحیم خان پی ڈبلیو ڈی میں نقشہ نویس اور بسلسلۂ ملازمت آگرہ میں مقیم تھے۔ شوکت صدیقی کی حقیقی نانی کے انتقال کے بعد ان کے نانا نے دوسری شادی آگرہ میں ہی کی اور آخر دم تک وہیں رہے۔ شوکت صدیقی کی والدہ کا نام ننھی بیگم تھا جو اجمیر میں پیدا ہوئیں۔ ان کے ننھیال میں کسی کو بھی علم وادب سے دل چسپی نہیں تھی۔
شوکت صدیقی کے والد نے ہمیشہ نہایت دیانت داری سے پیشہ ورانہ خدمات انجام دیں مگر کوکین کے ناجائز کاروبار کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث ہونے کے باعث معطل کر دیے گئے۔ محکمہ جاتی تحقیقات کے بعد جب ملازمت پر بحال کیے گئے تو اس قدر دل برداشتہ ہوچکے تھے کہ اپنے چچا کی مخالفت کے باوجود استعفیٰ دے دیا۔ اس بات پر چچا اتنے ناراض ہوئے کہ الطاف حسین اجمیر کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ کر بیوی بچوں سمیت لکھنٔوچلے گئے۔ لکھنٔو جانے کا بنیادی سبب ان کی اکلوتی بہن تھیں، جن سے وہ بہت محبت کرتے تھے۔ ان کے بہنوئی سردار ولی خان جنگلات کی ٹھیکے داری کا کام کرتے تھے۔ لکھنٔو میں ان کی عمارتی اور سوختنی لکڑی کا بہت بڑا کاروبار تھا۔ لکھنٔو آنے کے بعد شوکت صدیقی کے والد بھی ان کے کاروبار میں شریک ہوگئے لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصے جاری نہ رہ سکا۔ چند برسوں بعد سردار ولی خان حرکت ِ قلب بند ہونے سے انتقال کر گئے اور الطاف حسین نے اپنا علیحدہ کاروبار شروع کر دیا۔ پھر 1952ء میں وہ ہجرت کرکے کراچی آگئے جہاں 4 اگست 1960ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔
شوکت صدیقی کے آٹھ بھائی بہن تھے، پانچ بھائی اور تین بہنیں۔ ان کے بڑے بھائی حامد حسین صدیقی کان پور ڈیویلپمنٹ بورڈ میں انجینئر تھے۔ ان کا انتقال 1977ء میں کان پور ہی میں ہوا۔ دیگر بھائیوں، دل دار حسین صدیقی، فاروق حسین صدیقی اور ممتاز حسین صدیقی میں اب کوئی بھی حیات نہیں ہے۔ ان کی تینوں بہنیں افسری بیگم، زبیدہ خاتون اور شاہ جہاں بیگم بھی وفات پاچکی ہیں۔ خود شوکت صدیقی کی وفات 18 دسمبر 2006ء کو کراچی میں ہوئی۔ اس لحاظ سے انہوں نے اپنے بہن بھائیوں میں سب سے طویل عمر پائی۔
تعلیم:
شوکت صدیقی کا بچپن جس مکان میں گزرا وہ ایک مسجد سے متصل تھا جس کے پیش امام حافظ عبدالکریم تھے اور وہی اُن کے پہلے استاد ہوئے۔ اُن کی تعلیم کا آغاز بغدادی قاعدے سے ہوا پھر انہوں نے قرآن ناظرہ مکمل کیا۔ مولوی عبدالکریم مدرسہ فرقانیہ لکھنٔو کے فارغ التحصیل تھے۔ اُن کی تحریک پر شوکت صدیقی کو مدرسۂ فرقانیہ میں قرآن پاک حفظ کرنے کے لیے داخل کردیا گیا۔ ابھی انہوں نے صرف تیرہ پارے حفظ کیے تھے کہ یحییٰ گنج پرائمری اسکول میں داخل کردیے گئے۔ اس طرح حفظِ قرآن کا یہ سلسلہ منقطع ہوگیا۔ 1930ء میں انہوں نے گورنمنٹ جوبلی ہائی اسکول اینڈ انٹرمیڈیٹ کالج لکھنٔو میں تیسری جماعت میں داخلہ لیا اور ساتویں تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ پھر اپنے بڑے بھائی حامد حسین کے ہاں کان پور منتقلی کے باعث کان پور ہی میں نواب گنج ہائی اسکول میں آٹھویں جماعت میں داخل کر دیے گئے لیکن سال بھر بعد لکھنٔو واپس آگئے جہاں امیرا ّلدولہ ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور 1938ء میں میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔ 1940ء میں ایف اے اور 1944ء میں بی اے کا امتحان پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے دیا اور 1946ء میں لکھنٔو یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔
اساتذہ اور احباب:
شوکت صدیقی کے اسکول کے اساتذہ میں اردو کے استاد عبدالوحید عرشی اور تاریخ کے استاد انوار احمد علوی ادبی ذوق رکھتے تھے۔ عبدالوحید عرشی شاعر تھے لیکن زیادہ معروف نہ تھے۔ وہ ہر برس اسلامیہ اسکول میں نہایت اہتمام سے مشاعرے کا انعقاد کرتے تھے۔ انوار احمد علوی اسکول میگزین کے ایڈیٹر اور کھیلوں کے انچارج بھی تھے۔ اسکول کی تعلیم کے دور میں شوکت صدیقی کو ادب سے کوئی خاص لگائو نہیں تھا اور نہ ہی اس وقت تک ان کی نظر سے انوار احمد علوی کی کوئی تحریر گزری تھی۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب علوی صاحب لکھنٔو سے ہجرت کرکے کراچی آگئے تو اُن کے کئی مضامین ’’نیا دور‘‘ میں شائع ہوئے لیکن کراچی میں اُن کی ملاقات شوکت صدیقی سے نہ ہوسکی۔
شوکت صدیقی کے اساتذہ میں کچھ ادبی شہرت کے بھی حامل تھے۔ علی عباس حسینی مشہور افسانہ نگار، علی اختر تلہری شاعروتنقید نگار اور حامد اﷲ افسر میرٹھی شاعر تھے۔ افسر میرٹھی کی نظمیں تو اُس وقت نصاب میں بھی شامل تھیں۔ شوکت صدیقی کے ادبی ذوق کی تربیت میں خواجہ عبدالرئوف عشرت اور حیات اﷲ انصاری بھی خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ حیات اﷲ انصاری کٹر کانگریسی اور افسانہ نگار تھے جب کہ خواجہ عبدالرئوف عشرت بھی ا پنے زمانے کی بڑی مشہور ادبی شخصیت تھے۔ ان کا گھر شوکت صدیقی کے پڑوس میں تھا۔ لکھنٔو کے چوک میں ان کی کتابوں کی دکان تھی جہاں شام کو عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار، ریاض خیرآبادی اور اس دور کے دوسرے ادبا ء وشعرا جمع ہوتے تھے۔ جب شوکت صدیقی کی ملاقات خواجہ عبدالرئوف سے ہوئی تو اُن پر فالج کا حملہ ہوچکا تھا اور وہ صاحب ِ فراش تھے۔ کتابوں کی دکان بند ہوکر اسٹاک اُن کے گھر منتقل ہوچکا تھا۔ شوکت صدیقی جب ان کے گھر جاتے تو وہ گھنٹوں علم وادب کی مختلف اصناف پر گفتگو کرتے۔ اُن کے ذوق ِ شاعری سے متاثر ہوکر شوکت صدیقی نے شعرگوئی کی کوشش بھی کی لیکن اُن کا طبعی رجحان افسانہ نگاری کی طرف تھا چنانچہ چند نظموں اور غزلوں کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا۔
شوکت صدیقی کے بچپن کے احباب میں چند ہی ایسے ہی تھے جنہیں علم وادب اور شعروشاعری سے دل چسپی تھی۔ منظور عالم انصاری مطالعے کا شوق رکھتے تھے مگر لکھنے کی جانب کبھی توجہ نہیںکی۔ سید صابر علی شاعر تھے، مطربؔ تخلص کرتے تھے اور مطربؔ لکھنٔوی کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ بھی چھپ چکا ہے۔ صہبا لکھنٔوی اور ڈاکٹر اطہر نادرؔ البتہ زمانۂ طالب علمی ہی سے شعر کہتے تھے اور اُن کا کلام ادبی رسائل میں شائع بھی ہوتا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا لکھنٔوی ماہنامہ ’’افکار‘‘ کراچی کے بانی مدیر اور کئی کتابوں کے مصنف رہے جب کہ ڈاکٹر اطہر نادر دو شعری مجموعوں ’’درماں‘‘ اور ’’شاعری‘‘ کے خالق ہونے کے باوجود عام مشاعروں سے گریز کرتے تھے اور صرف منتخب شعری نشستوں اور مشاعروں میں شریک ہوتے تھے۔ اُن کا انتقال یکم مارچ 2005ء کو کراچی میں ہوا۔ ڈاکٹرعبدالعلیم اور پروفیسر احتشام حسین سے اُن کا نیازمندی کا رشتہ تھا۔ اسرارالحق مجاز، سلام مچھلی شہری، حنیف فوق، کمال احمد صدیقی، منظر سلیم اور لکھنٔو کے دوسرے نوجوان ادیب وشاعر ان کے حلقۂ احباب میں شامل تھے۔
مطالعہ:
شوکت صدیقی کے والد مطالعے کا اچھا ذوق رکھتے تھے اور اُن کی ایک چھوٹی سی لائبریری بھی تھی لہٰذا، شوکت صدیقی نے بھی کم عمری میں ہی ڈپٹی نذیر احمد، علامہ راشدالخیری، منشی پریم چند، عبدالحلیم شرر، رتن ناتھ سرشار، مرزا فدا علی خنجر، مرزا محمد ہادی رسواؔ سمیت اس دور کے تقریباً سب ہی اہم مصنفین کی تخلیقات کا مطالعہ کیا۔ انہیں انگریزی کے ساتھ دیگر زبانوں کے ادب سے بھی دل چسپی رہی۔ چارلس ڈکنز، ٹامس ہارڈی، برناڈشا، بائرن، شیلے، ورڈس ورتھ، ٹینی سن، ٹالسٹائی، میکسم گورکی، چیخوف، موپساں اور ٹیگور کا مطالعہ بھی کیا۔
ترقی پسند تحریک سے تعلق:
ترقی پسندتحریک سے ان کا تعلق 1943ء میں قائم ہوا۔ لکھنٔو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی ادبی نشستوں میں شریک ہوتے تھے۔ 1944ء کے اوائل میں، اپنے دوست علی مظہر رضوی کے اشتراک سے ایک ادبی ماہنامہ ’’ترکش‘‘ لکھنٔو سے جاری کیا۔ اس رسالے کے توسط سے لکھنٔو اور بیرون لکھنٔو کے اہلِ قلم، خصوصیت سے ترقی پسند ادیبوں کے ساتھ، رابطہ ہوا۔ ماہنامہ ترکش کے صرف دو ہی شمارے شائع ہوئے لیکن اُسی برس وہ ’’جدید ادب‘‘ فیض آباد کی مجلس ادارت میں شامل ہوگئے۔ اِس میں حیرت گورکھپوری، کاوش انصاری اور یعقوب علی شورش صدیقی بھی شامل تھے۔ ’’جدید ادب‘‘ اگرچہ فیض آباد سے شائع ہوتا تھا لیکن اس کی ترتیب وتدوین کا بیشتر کام لکھنٔو میں شوکت صدیقی کی نگرانی میں ہوتا تھا۔ جدید ادب بھی ترقی پسند رسالہ تھا، چنانچہ ان دونوں رسائل کے ذریعہ بھی انہیں ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔ ’’جدید ادب‘‘ برسوں جاری رہا لیکن شوکت صدیقی 1945ء میں اِس سے کنارہ کش ہوگئے۔
ملازمتیں:
شوکت صدیقی نے دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں فوج میںکمیشن حاصل کیا اور سیکنڈ لیفٹیننٹ کی حیثیت سے آرمی کے سگنل کور سے ملازمت کا آغاز کیا۔ فوج کی ملازمت کا یہ عرصہ تقریباً دوبرس (جنوری 1942ء تا نومبر1943 ء) پر مشتمل تھا۔ بعدازاں انہوں نے فوج سے استعفیٰ دے کر لیبر ویلفیئر آفیسر کی حیثیت سے ملازمت اختیارکی۔ (اس ملازمت کے دوران انہیں بھوپال میں جنگی قیدیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا جس سے متاثر ہو کر انہوں نے افسانہ ’’مردہ گھر‘‘ لکھا جو اُن کے افسانوں کے دوسرے مجموعے ’’اندھیرا اور اندھیرا‘‘ میںشامل ہے۔ والدین کے اصرار پر چند ماہ بعد یہ ملازمت ترک کرکے واپس لکھنٔو آگئے اور اپنے بڑے بھائی دلدار حسین صدیقی کے کاروبار میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگے۔
کراچی آنے کے بعد انہوںنے ذریعۂ معاش کے طور پر صحافت کا پیشہ اپنایا۔ 1952ء سے 1954ء تک ’’پاکستان اسٹینڈرڈ‘‘ میں سب ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔ 1954ء سے 1960ء تک روزنامہ ٹائمز آف کراچی، 1960ء سے 1963ء تک روزنامہ مارننگ نیوز کراچی میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر کام کیا۔ بعدازآں 1963ء سے 1969ء تک روزنامہ انجام کراچی سے بحیثیت چیف ایڈیٹر وابستہ رہے۔ 1969ء سے 1973ء تک ہفت روزہ الفتح کے نگران اعلیٰ کی حیثیت سے کام کیا۔ 1973ء میں کراچی سے پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار ’’مساوات‘‘ کا اجرا ہوا تو 1973ء سے 1976ء تک اس کے ایڈیٹر اور پھر چیف ایڈیٹر رہے۔ 1976ء میں وہاں سے استعفیٰ تو دے دیا تاہم، 1980ء تک اُسی اخبار میں کالم نگاری کا سلسلہ جاری رکھا۔ پھر فوجی آمریت کی سنسرشپ سے دل برداشتہ ہوکر 1984ء میں صحافت کے کوچے کو ہی خیرباد کہہ دیا۔
افسانہ وناول نگاری:
شوکت صدیقی کی افسانہ نگاری کا آغاز 1940ء میں ہوا۔ ان کا پہلا افسانہ ’’کون، کسی کا‘‘ جنگ کے پس منظر میں لکھا ہوا رومانی افسانہ تھا جو ہفت روزہ ’’خیام‘‘ لاہور میں شائع ہوا اور بہت پسند کیا گیا۔ اس پزیرائی نے ان کے حوصلے بلند کیے اور پھر وہ متواتر خیام، عالم گیر، شاعر، ادب لطیف اور سویرا جیسے ادبی رسائل میں لکھتے رہے۔ مارچ 1950ء میں وہ بھارت سے ہجرت کرکے پہلے لاہور اور پھر کراچی آگئے۔ یہاں آنے کے بعد ان کی زندگی اور افسانوی ادب کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ انہوں نے لکھنٔو میں قدرے فراغت اور اطمینان کی زندگی گزاری تھی جب کہ کراچی آنے کے بعد انہیں عام مہاجروں کی طرح مصائب اور آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ سب سے اہم مسئلہ معاش اور رہائش کا تھا۔ شروع میں جہاں سر چھپانے کو جگہ ملتی وہیں گزر بسر کرتے۔ اسی دوران انہیں کچھ دنوں تک جیکب لائنز کے ایک کواٹر میں بدقماش اور جرائم پیشہ لوگوں کے ساتھ رہنے کا موقع بھی ملا اور انہوں نے اپنا مشہور افسانہ ’’تیسرا آدمی‘‘ جو ان کے فنی ارتقا اور سماجی تصوّر میں اہم کڑی کی حیثیت رکھتا ہے، اسی ماحول میں لکھا جہاں لوگ تاش کے پتوں سے جوا کھیلتے تھے اور ساتھ ساتھ فحش مذاق کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ چرس کے دھوئیں سے کمرے میں گھٹن رہتی تھی۔ ’’تیسرا آدمی‘‘ کو ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل ہوئی۔ اس زمانے میں ان کی کل کائنات ایک چارپائی تھی۔ وہ تکیے کے سہارے بیٹھے افسانہ لکھنے میں مصروف رہتے۔ اس طرح انہیں جرائم کی دنیا سے تعلق رکھنے والوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بعد میں لاشعوری طور پر یہ تمام لوگ ان کے افسانوی ادب میں اس طرح درآئے کہ ان کا مخصوص موضوع بن گئے۔
خدا کی بستی:
شوکت صدیقی کا پہلا ناول ’’خدا کی بستی‘‘ پہلی مرتبہ 1958ء میں مکتبہ ’’نیاراہی‘‘ کراچی سے شائع ہوا۔ اس ناول کی مقبولیت کی بناء پر کچھ اشاعتی اداروں نے اس کے جعلی ایڈیشن بھی چھاپے۔ خود مکتبہ نیا راہی نے ’’پہلا ایڈیشن‘‘ اجازت سے اور بعد میں بارہ ایڈیشن جعلی چھاپے جس کا انکشاف کاپی رائٹ کے مقدمے کے دوران ہوا۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کا ایک ایڈیشن الفتح مطبوعات کراچی سے بھی شائع ہوا جب کہ دس گیارہ جعلی ایڈیشن چھاپے گئے۔ بھارت میں لکھنٔو، الہ آباد، حیدرآباد دکن اور دہلی سے پندرہ ایڈیشن بغیر اجازت چھاپے گئے۔ اس ناول کے اب تک پچاس سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ یہ غالباً اردو کا واحد ناول ہے جس کا دنیا کی 26 زبانوں میں ترجمہ ہوا۔ انگریزی میں اس کا ترجمہ ڈیوڈ میتھوز نے God's own land کے نام سے یونیسکو کے تعاون سے کیا۔ ڈرامے کی صورت میں پاکستان ٹیلی ویژن سے چھ مرتبہ اور ایک نجی چینل سے ایک مرتبہ پیش کیا گیا۔ خدا کی بستی کا تیسرا نظر ثانی ایڈیشن جون 1988 ء میں طفیل آرٹ پرنٹرز، لاہور نے شائع کیا جس میں شوکت صدیقی نے ’’برسبیل تذکرہ‘‘ کے عنوان سے لکھا؛
’’جون 1957 ء کی ایک گرم اور بوجھل سہ پہر تھی، جب میں نے اس ناول کا آغاز کیا تھا اور پہلی ہی نشست میں پندرہ سے زائد صفحات لکھ کر اٹھا تھا۔ وہ دن بھی کیا دن تھے۔ بدن میں جان تھی، ذہن زرخیز تھا۔۔۔۔۔ خیالات لاوے کی مانند اُبلتے تھے۔ الفاظ کے پیکر میں ڈھلتے تھے۔قلم گویا فراٹے بھرتا تھا۔دن میں لکھتا تھا، اور رات میں بھی۔ایک انگریزی اخبار میں کام بھی کرتا تھا۔ پابندی سے دفتر جاتا تھا۔ خوش اسلوبی سے اپنے پیشہ ورانہ فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ اکتوبر کا مہینہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ناول اختتام کو پہنچا۔ یہ لگ بھگ چار ماہ کی شب وروز محنت کا ثمر تھا۔ ناول مکمل ہوا تو مَیں نے اطمینان کی سانس لی۔ مسوّدہ اٹھا کر ایک طرف رکھا۔ سوچا، ذہن کا بوجھ ذرا ہلکا ہوجائے تو یکسوئی سے اس پر نظر ثانی کروں گا، پلاٹ مربوط کروں گا، واقعات میں ہم آہنگی پیدا کروں گا۔ حقائق کی چھان پھٹک کروں گا۔ الفاظ کی نشست وبرخاست اور جملوں کی تراش خراش پر مزید توجہ صرف کروں گا۔ نوک پلک درست کروں گا۔ بقول شخصے، گیسوئے تاب دار کو اور بھی تابدار کروں گا۔
مگر اِس کی نوبت نہ آئی۔ حالات ایسے پیدا ہوئے کہ ناول مکمل ہوتے ہی ناشر کی تحویل میں چلا گیا۔ کتابت شدہ مسوّدے کی پروف ریڈنگ نہ خود کرسکا اور نہ ہی اپنی نگرانی میں کراسکا۔ 1958 ء میں ناول چھپ کر آیا۔ دیکھا تو دھچکا لگا، ذہن نے جگہ جگہ ٹھوکر کھائی۔ پروف ریڈنگ کی غلطیاں سب سے زیادہ شاق گزریں۔ الفاظ کا کیا ذکر، جملے کے جملے غائب تھے۔ بہرحال یہی اڈیشن چھپتا رہا اور بار بار چھپتا رہا۔ پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی۔ اِس ستم ظریفی کو کیا کہیے کہ اردو کے اِسی ایڈیشن کے ترجمے اب تک اٹھارہ غیرملکی زبانوں میں شائع ہوچکے ہیں۔
خدا خدا کر کے ایک طویل اور صبرآزما مقدمہ بازی کے بعد 1970 ء میں ’’خدا کی بستی‘‘ کے جملہ حقوق، کاپی رائٹ ایکٹ کے تحت مجھے واپس ملے۔ 1971 ء ختم بھی نہ ہوا تھاکہ آخری ایڈیشن ختم ہوگیا۔ بازار میں ناول ڈھونڈے سے بھی نہ ملتا تھا۔ ایسا عنقا ہوا کہ قارئین بے قرار ہوکر بار بار مجھ سے رجوع کرتے۔ میں کبھی معذرت کرتا اور کبھی خاموشی اختیار کرنے میں عافیت سمجھتا۔اس عرصے میں کئی ناشرین نے ناول کی اشاعت میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ مگر بات بن نہ سکی۔ کوتاہی مجھ سے ہی ہوئی۔ سوچتا تھا کہ ’’خدا کی بستی‘‘ کا نیا اڈیشن نظرثانی کے بعد ہی چھپوائوںگا، لیکن اتنی یکسوئی نصیب نہ ہوئی کہ دل جمعی کے ساتھ نظرثانی کرسکوں۔ گوناگوں صحافتی مصروفیات نے مہلت ہی نہ دی۔ اور جب کوچۂ صحافت سے نکل کر کوئے ادب میں واپس آیا تو ایک نئے ناول پر کام کرنا شروع کردیا۔ بارے، کسی نہ کسی طور وقت نکالا۔ نظرثانی کی، اغلاط کی حتیٰ الوسع اصلاح کی۔زبان وبیان میںکہیں کہیں جھول تھا، ابہام تھا، اسے درست کیا۔ بنایا، سنوارا اور اشاعت کے لیے دے دیا۔ دیکھا جائے تو اس حیثیت سے ’’خدا کی بستی‘‘ کا موجودہ ایڈیشن، پچھلے ایڈیشنوں سے قدرے مختلف ہے۔
یہ پہلا نظرثانی شدہ ایڈیشن تھا اور جون 1982 ء میں شائع ہوا تھا۔ اب تیسرا نظرثانی شدہ ایڈیشن پیش کیا جارہا ہے۔‘‘
جن دنوں ’’خدا کی بستی‘‘ لکھا جا رہا تھا، شوکت صدیقی کی رہائش ناظم آباد کراچی کی ایک عقبی بستی عثمانیہ کالونی میں تھی۔ مالی فراغت بھی نہ تھی۔ لہٰذا، گھر میں لکھنے پڑھنے کا کمرہ یا اسٹڈی روم کجا، میزکرسی تک نہ تھے۔ ان کے گھر میں تین ٹرنک تھے۔ ایک ٹرنک کو وہ بطور ’’کرسی‘‘ استعمال کرتے اور سامنے دوٹرنک اوپر تلے رکھ کر ’’میز‘‘ کا کام لیتے۔ لالٹین کی روشنی میں رات رات بھر لکھتے۔ اس ناول میں انہوں نے طبقاتی زنجیروںمیں جکڑی ہوئی زندگی، سماجی ناانصافی اور استحصال کو موضوع بنایا ہے جو معاشرے میں جراثیم کی طرح پھیل چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستانی معاشرہ تشکیل کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ پاکستان کو وجود میں آئے ایک عشرہ ہی گزرا تھا۔ اس نئے معاشرے میں لاتعداد سماجی مسائل موجود تھے۔ مہاجرین کی آبادکاری بھی ایک سنگین مسئلہ تھی۔ ہجرت کرکے آنے والوں کے تہذیبی اور اقتصادی مسائل، کلیم اور الاٹمنٹوں کا مسئلہ، نودولتیا طبقہ اور اس کی مفاد پرستی، ایک نوتشکیل معاشرے میں انتشار، مطلب پرستی اور خودغرضی کے عناصر، افسرشاہی کی خودغرضی اور مفاد پرست ٹولے کی پشت پناہی، ایسی حقیقتیں ہیں کہ معاشرے پہ نظر رکھنے والا کوئی مصنّف ان سے بے نیاز نہیں رہ سکتا تھا۔ معاشرہ جس تیزی سے تبدیل ہورہا تھا، ’’خدا کی بستی‘‘ میں ان تبدیلیوں کو بھی اسی تیزرفتاری اور سماجی بصیرت کے ساتھ سمیٹا گیا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا ناول ہے جس میں پاکستان کی شہری اور صنعتی زندگی، اس کی زیریں دنیا اور اس دنیا کے جرائم اور اندھیرے کو تین بچوں راجہ، شانی اور نوشا کے توسط سے پیش کیا گیا۔ اس ناول کا موضوع ایک ایسا اُکھڑا ہوا پاکستانی معاشرہ ہے جہاں دھکم پیل کا عالم ہے۔ ہندوستان کے گوشے گوشے سے ہجرت کرکے آنے والوں نے کراچی کو ایک گنجان آباد شہر بنادیا تھا۔ ان مہاجروں میں ادیب، شاعر، مصوّر، موسیقار اور دانشور بھی شامل تھے۔ اس ہجرت نے صدیوں کے جمے جمائے سماجی نظام اور معاشرتی واخلاقی اقدار کی جڑیں ہلا دی تھیں۔ ان کے لیے پاکستان کی زمین ہی نہیں، سب کچھ نیا تھا۔ ’’خدا کی بستی‘‘ میں ان تمام خرابیوں اور خامیوں کا احاطہ کیا گیا ہے جو اس نئے بنتے ہوئے معاشرتی ڈھانچے میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی تھیں۔
’’خدا کی بستی‘‘ میں معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی اقدار کی تنزلی کے جو آثار ملتے ہیں وہ حقائق پر مبنی ہیں۔در اصل شوکت صدیقی نے کراچی آنے کے بعد ان لوگوں کے ساتھ بہت وقت گزارا جو اس نئی سرزمین پر اپنے قدم جمانے کے لیے سخت محنت اور جدوجہد میںمصروف تھے۔ ان کا ایسے لوگوں سے بھی واسطہ رہا جو جرائم کی دنیا سے تعلق رکھتے تھے۔ اس ناول میں جرائم کی جو زیریں دنیا ہے وہ ایک گہرے تجربے اور مشاہدے کا نتیجہ ہے۔ استاد پیڈرو، چکرم اور جیب کتَرے لڑکے، اُن کی آپس کی پیشہ ورانہ گفتگو، اُن کی چال ڈھال، اُن کے پیشے کے آداب اور اُن کا ضابطۂ اخلاق جس صورت حال کا پتا دیتے ہیں، شوکت صدیقی اس کے چشم دید گواہ رہے ہیں۔ وہ بتاتے تھے:
’’میرا تعلق اگرچہ جرائم پیشہ طبقے سے نہیں رہا لیکن مَیں نے ان کا مشاہدہ ضرور کیا ہے۔ ہندوستان سے آنے کے بعد مجھے رہائش کا مسئلہ درپیش ہوا۔ جہاں بھی سر چھپانے کو جگہ ملتی وہیں ٹھہر جاتا۔ ان حالات میں مجھے ان جرائم پیشہ لوگوں کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن کی گفتگو سنی، اُن کے حوالے سے لوگوں نے واقعات بتائے۔ ’’خدا کی بستی‘‘ میں بردہ فروش شاہ جی، خلیفہ گرہ کٹ اور اِن جیسے دوسرے کردار حقیقی ہیں۔ میں نے اِن لوگوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ اِن سے ملا ہوں، ڈیڑھ سال اِن لوگوں کے درمیان گزارا ہے۔‘‘
شوکت صدیقی کا یہی ذاتی مشاہدہ اُن کے جرائم پیشہ کرداروں کی داخلی اور خارجی زندگی اور اُن کے اعمال وافعال میں حقیقت کا رنگ بھرتا ہے۔ حقیقت نگاری کے اعتبار سے ’’خدا کی بستی‘‘ کا بڑا درجہ ہے۔ اس میں اُنہوں نے معاشرتی زندگی اور اُس کی بدلتی صورتوں کا مطالعہ کیا ہے۔ مہاجرین کی زندگی اور ان کے مسائل کے علاوہ صنعتی نظام کی خرابیوں، طبقاتی کشمکش اور انسانی زندگی کی محرومیوں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ وہ سماجی زندگی کے حقائق پیش کرتے ہوئے اجتماعی زندگی کی خرابیوں اور بُرائی کی طاقت کو ظاہر کرتے ہیں۔نیز اس کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے کہ بُرائی کی قوتیں کس طرح انسان کو مجرم بنادیتی ہیں۔ اِس کے ساتھ ساتھ اُن کی سماجی حقیقت نگاری ایک پہلو اور تلاش کرلیتی ہے، جس سے تصویر کے دونوں رخ سامنے آجاتے ہیں۔ یعنی معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بُرائی کی قوتوں کے خلاف عملی کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ ’’خدا کی بستی‘‘ میں بظاہر سلطانہ اور اس کے خاندان کی تباہی مرکزی نکتہ ہے لیکن درحقیقت شوکت صدیقی نے نوشا، راجہ اور شامی کے ذریعے معاشرے کی مجموعی صورت حال کی منظرکشی کی ہے۔ اس ناول کے ذریعے یہ بات بھی کھل کر سامنے آئی کہ اس نئی مملکت، پاکستان کے وجود میں آنے کے فوراً بعد ہی کچھ لوگوں نے اِسے کس طرح تعمیر کی جگہ تخریبی کارروائیوں کی آماجگاہ بنادیا۔ اس نئی سرزمین میں جرائم کے پھلنے پھولنے کا ماحول نہایت سازگار تھا۔ جہاں مفاد پرست اور خودغرض لوگ موجود تھے، وہیں ایسے لوگ بھی تھے جو ان حالات کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اور جن کے دلوں میں انسانیت اور اخلاقی اقدار کا احترام باقی تھا۔ مثلاً ’’فلک پیما‘‘ تنظیم کے اسکائی لارک، صفدر بشیر اور احمد علی وغیرہ جو ذاتی قربانیوں اور ایثار سے کام لے کر بھٹکی ہوئی انسانیت کو راستہ دکھاتے ہیں۔فرزند علی جیسے اقتدار پرستوں اور استحصال پسندوںکی ہوسِ زر اور ظالمانہ روّیوں کے نتیجے میں اسکائی لارکوں کو طرح طرح کی اذیتوں اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے لیکن اُن کی انسانیت ناکردہ کاموں کی سزائیں بھگتنے کے بعد بھی برقرار رہتی ہے۔
ناول ’’خدا کی بستی‘‘ تین نوعمر لڑکوں نوشا، راجہ اور شامی کی کہانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ راجہ عمر میں دونوں سے بڑا، تجربہ کار اور بلند حوصلہ ہے جو ایک کوڑھی گداگر کی گاڑی گھسیٹ کر روزی کماتا ہے۔ نوشا، عبداﷲ مستری کے موٹر گیراج میں کام کرتا ہے جب کہ شامی ایک ایسے مفلوک الحال گھر کا بچہ ہے جس کا باپ دائمی مریض ہے اور بات بات پر اسے پیٹتا اور گالیاں دیتا ہے۔ یہ خاندان معاشی تباہ حالی کا شکار ہے۔ شوکت صدیقی نے کہانی کو آگے بڑھانے اور جرائم کی دنیا سے پردہ اٹھانے کے لیے یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات کا سہارا لیا ہے۔ نیاز کباڑیہ ایک ایسا کردار ہے جس سے نوشا کی ملاقات واقعات کو آگے بڑھانے میں مددگار ہی ثابت نہیں ہوتی بلکہ یہ ملاقات اس چھوٹے اور مفلوک الحال گھرانے کی مکمل تباہی کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ نیاز نے اپنا آلۂ کار بنانے کی خاطر اسے ترغیب دی کہ وہ عبداﷲ مستری کے گیراج سے پرزے چرا کر اس تک پہنچائے۔ یوں نوشا ایک معصوم بچے سے گھاگ جرائم پیشہ بن جاتا ہے۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کے یہ کردار صرف ناول کے صفحات ہی میں نہیں بلکہ ان سے باہر معاشرے کے پورے پس منظر میں بھی زندہ ہیں اور یہی شوکت صدیقی کی کردار نگاری کا حقیقت آمیز پہلو ہے جو ’’خدا کی بستی‘‘ کی مقبولیت اور اثرپذیری کی صورت میں ظاہر ہوا۔ انہوں نے ’’خدا کی بستی‘‘ کے کرداروں کے ذریعے اس دور کی زندگی کی کشمکش اور تضادات کو پیش کیا ہے۔ یہ پہلا ناول ہے جو قیام پاکستان کے بعد اپنے عہد کی زندگی اور معاشرتی خرابیوں کا آئینہ ہے۔ اس کی مقبولیت کی بڑی وجہ اس کی کردارنگاری کا مضبوط اور جان دار تانابانا ہے۔یہ اردو کا پہلا ناول ہے جس میں خالص پاکستانی معاشرت پیش کی گئی ہے اور جو بُنت اور واقعاتی دل چسپی کے علاوہ سماج کے نچلے طبقے کی سفاکانہ حد تک حقیقی عکاسی کے لحاظ سے اردو کے افسانوی ادب میں ایک ممتاز مقام بھی رکھتا ہے۔
شوکت صدیقی کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ اس حوالے سے اُن کی سوچ کے ڈانڈے سولہویں صدی سے اُنیسویں صدی تک کے ان یورپی ادیبوں خصوصاً ’تھامس مور‘ کی سوچ سے جا ملتے ہیں جنہوں نے اپنے وقت کے بدترین جاگیردارانہ اور نوآبادیاتی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی تصوّراتی (UTOPIAN) فلاحی ریاست کا پرچم بلند کیا۔ اسکائی لارک اور اس کے کردار اسی تصوّر کی بازگشت ہیں۔ ’’خدا کی بستی‘‘ کی مقبولیت کی وجہ محض یہ نہیں کہ یہ سلطانہ، نوشا، راجہ اور شامی کی تباہی کی داستان ہے یا چودھری فرزند علی جیسے خودغرض اور ذاتی منفعت پر نظر رکھنے والوں کی کہانی ہے بلکہ یہ پورے پاکستانی معاشرے کی مجموعی کہانی ہے۔ اس کے کردار نہ صرف زندہ بلکہ آج بھی واقعتاہمارے درمیان موجود ہیں۔
شوکت صدیقی کی مضبوط اور حقیقت سے قریب تر کردارنگاری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب یہ ناول پہلی مرتبہ پاکستان ٹیلی ویژن سے ڈرامائی شکل میں دکھایا گیا تو اس کے کرداروں کے ساتھ دیکھنے والوں کی محبت یا نفرت کا عالم یہ تھا کہ شوکت صدیقی کے پاس، بڑی تعداد میں سیریل دیکھنے والوں کے روزانہ فون آتے تھے جو کہتے تھے کہ ’’نوشا کی ماں سخت بیمار ہے، اسے مرنے نہ دیں۔ نوشا کو جیل نہ بھجوائیں۔ آپ کے ہاتھ میں قلم ہے، آپ اسے بچا بھی سکتے ہیں۔‘‘
ظفر صدیقی، جنہوں نے ڈاکٹر موٹو کا کردار ادا کیا تھا، وہ لوگوں میں اس قدر نامقبول اور ناپسندیدہ ہوئے کہ راہ چلتے لوگ ان کے گھر پر پتھر برساتے۔ ظہور احمد، جنہوں نے اس ڈرامے میں ایک گھٹیا درجے کے شوہر ’’نیازکباڑیے‘‘ کا کردار ادا کیا تھا اور جو زہرخورانی کے ذریعہ اپنی بیوی کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہتا تھا، جب وہ شہرمیں نکلتے تو لوگ ہوٹنگ کرتے اور ایک مرتبہ تو مجمع نے انہیں زدوکوب بھی کیا۔
اِس ضمن میں ایک دل چسپ واقعہ بھی ہوا۔ ایک بار ظفر صدیقی سے ایک عورت نے سوال کیا کہ کیا آپ ا ب بھی ڈاکٹر موٹو کا کردار ادا کر رہے ہیں؟ ظفر صدیقی یہ سمجھ کرکہ عورت ایک بُرے کردار کو اتنی مہارت سے ادا کرنے پر انہیں خراج ِتحسین پیش کرے گی، جلدی سے بولے۔ ہاں! ہاں! یہ سن کر عورت نے بغیرکسی ہچکچاہٹ کے اُن کے منہ پر تھوک دیا۔
جانگلوس:
شوکت صدیقی کا دوسرا مقبول ناول جانگلوس ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ ضخیم ناول جون 1977ء میں لکھنا شروع کیا گیا اور 19 ستمبر 1984ء کو مکمل ہوا۔ اس کی پہلی جلد کا پہلا ایڈیشن فروری 1987ء میں شائع ہوا۔
جانگلوس پنجاب کی دیہی زندگی کے بارے میں لکھا گیا بڑے کینوس اور وسیع پس منظر کا حامل ناول ہے۔ یہ ناول شروع کرنے سے پہلے شوکت صدیقی اُن تمام علاقوں میںگئے اور معلومات جمع کیں جہاں کی زندگی کی وہ عکاسی کرنا چاہتے تھے۔ اس سلسلے میں کتابوں کا مطالعہ کیا، ڈکشنریاں، علاقائی ادب، سوشل سروے اکٹھا کیے، پنجابی اور سرائیکی زبان سیکھی۔ اس ناول کے ذریعے انہوں نے باور کرایا ہے کہ زمین دار، جاگیردار زبردست استحصالی قوتیں ہیں۔ شوکت صدیقی ان کے اور مزارعوں کے درمیان رشتے کو سامنے لاتے ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ایک کھیت پر مزدور کتنی محنت کرتاہے اور کس طرح زندگی گزارتا ہے اور اس کے بدلے میں اسے کیا معاوضہ ملتا ہے۔ نیز اس کی محرومیاںکیا ہیں۔ انہوں نے پنجابی عوام کے رہن سہن، عادات واطوار، رسم ورواج اور اقدار کے بارے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مواد اکٹھا کیا۔ جہاں سے جو مواد ملا، اسے حاصل کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان کا لکھنے پڑھنے کا کمرہ اسٹڈی ورکشاپ بن گیا۔ درودیوار پر جگہ جگہ اضلاع اور تحصیلوں کے نقشے لگ گئے۔ کہیں کہیں ایسے چارٹ بھی آویزاں تھے جو انہوں نے اپنی سہولت کے لیے اس خیال سے تیار کیے تھے کہ لکھنے کے دوران قلم کی رفتار میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ میز پر اور اردگرد ایسی کتابیں نظر آنے لگیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طور پر پنجاب سے تھا۔ اردو پنجابی لغت، پنجابی نامہ، پنجاب کی عورت، لغاتِ سرائیکی، گروگرنتھ، کلامِ فرید، ہسٹر ی آف دی پنجاب، پمفلٹ اورکتابچے اس کے علاوہ تھے۔ اس بارے میں شوکت صدیقی کا کہنا تھا:
’’میرا ہر ناول تخلیق کے بے کراں اکتسابی عمل کا نتیجہ ہے۔ اس عمل میں کسی حد تک کوشش کا بھی دخل ہوتا ہے۔ تاہم، جذبۂ تخلیق کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ہمارے چاروں طرف زندگی ہی زندگی ہے۔ جب ایک حسّاس ادیب ان کا مشاہدہ کرتا ہے تو ان کی حقیقتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے۔ پھر وہی حقیقتیں بعد میں فن اور تخلیق کا روپ دھار کر ادب کے سانچوں میں ڈھل جاتی ہیں۔ میرے نزدیک یہی حقیقت نگاری ہے۔‘‘
جانگلوس میں جاگیردارانہ یا فیوڈل نظام کی خرابیوں اور استحصال کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔ شوکت صدیقی جاگیردارانہ یا فیوڈل نظام کو تمام خرابیوں کی جڑ اور بنیاد سمجھتے تھے۔ ان کے بقول:
’’اس استحصالی نظام کے خاتمے کے بغیر سماجی بنیادوں کی تبدیلی کا عمل کامیاب نہیں ہوسکتا۔‘‘
وہ اسے انسانی فلاح اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔ یہ ناول کسی ایک گائوں کی کہانی نہیں، اس میں وسطی پنجاب کے وسیع علاقے کے علاوہ سندھ اور بلوچستان کی زندگی کی منظرکشی بھی کی گئی ہے۔ جاگیرداروں کی نجی زندگی، ان کی جاگیروں پر بسنے والے لاکھوں مزارعوں، کمّیوں کے علاوہ متروکہ املاک کی لوٹ کھسوٹ، بیوروکریسی اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ، مغویہ عورتوں کے مسائل، مختلف علاقائی، تہذیبی رسم ورواج اور ثقافتی زندگی کی جھلکیوں کو واقعات کے دروبست میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا تانا بانا منٹگمری جیل کے دو مفرور قیدیوں ’رحیم داد اور لالی‘ کے گرد بُنا گیا ہے جنہیں شوکت صدیقی نے میڈیا کی طرح استعمال کیا ہے۔ اس ناول میں داستانوں جیسی وسعت ہی نہیں، واقعیت نگاری اور مرقع نگاری بھی ہے۔ جب یہ ناول شروع کیا گیا، اس وقت عام رجحان یہ تھا کہ افسانوں اور ناولوں میں کردار کی اہمیت ختم ہوگئی ہے۔ یعنی اینٹی ہیرو ناول لکھے جانے لگے اور پھر یہ رجحان اور بڑھا تو اینٹی اسٹوری کا بھی رجحان آگیا۔ یعنی ناول اور افسانے کے مزاج اور اس کی ساخت کے خلاف بغاوت ہوگئی اور کہا جانے لگا کہ کرداروں اور واقعات کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔لیکن جانگلوس کی مقبولیت میں اس کے کرداروں کی ساخت اور پرداخت کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب یہ ناول لکھا جارہا تھا اور ساتھ ہی ایک ڈائجسٹ میں شائع بھی ہورہا تھا تو اس کے کرداروں کے بارے میں لوگوں کی دل چسپی کا یہ عالم تھا کہ راہ چلتے بھی لوگ انہیں روک کر پوچھتے تھے کہ اب لالی اور رحیم داد کیا کرنے والے ہیں؟قاری کے دل میں تجسس کا یہ جذبہ اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب کردار اس پہ حاوی ہوجاتا ہے اور ایک دیرپا نقش مرتب کرتا ہے۔
شوکت صدیقی نے پاکستان ٹیلیویژن پر بار بار کے اعلان کے باوجود اسے ٹیلی کاسٹ نہ کرنے کا سبب بتاتے ہوئے کہا تھا۔
’’پی ٹی وی والوں نے 1983ء میںمجھ سے رابطہ کیا تھا۔ مَیں نے اس کی تین قسطیں لکھیں۔ پائلٹ پروگرام بنا، منظور بھی ہوا۔ اس پر کام ہو رہا تھا کہ ’ایم آر ڈی‘ کی تحریک شروع ہوگئی اور سندھ میںبڑا ظلم وتشدد ہوا۔ بہت سے لوگ مارے گئے۔ سوچا گیا کہ سندھ میں ادیب کچھ نہیں کررہے ہیں تو ایم آر ڈی کی حمایت میں ایک بیان ہی جاری ہونا چاہیے۔ کراچی سے اس سلسلے میں جسٹس فخرالدین جی ابراہیم، پروفیسر کرار حسین، ہاجرہ مسرور اور مجھ سمیت سات آٹھ لوگوں کے نام شائع ہوگئے۔ ایسا ہی ایک بیان لاہور میں شائع ہوا جس پر باون ادیبوں اور صحافیوں نے دستخط کیے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو لوگ نیشنل پریس ٹرسٹ کے ملازم تھے، ان کی ملازمتیں ختم کردی گئیں اور باقی کو بلیک لسٹ کردیا گیا۔ مجھ پر بھی قدغن لگ گئی۔ اس وقت بھی جانگلوس کے پروڈیوسر کاظم پاشا ہی تھے۔ وہ میرے پاس یہ پیغام لائے کہ پاکستان ٹیلی ویژن کے چیئرمین جنرل مجیب الرحمن کی خواہش ہے کہ آپ اس بیان پر دستخطوں کی تردید کردیں تو یہ سیریز شروع کی جائے۔ مَیں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوںکہ مَیں نے وہ دستخط اپنی مرضی سے کیے تھے اور مَیں اس بیان کو جائز سمجھتا ہوں۔ چناںچہ سیریز لپیٹ دی گئی۔ اس کے بعد اکثر یہ ہوتا رہا کہ ٹی وی والے اسے شروع کرنے کی باتیں کرتے مگر میری طبیعت راغب نہیں ہوتی تھی۔ جب انتخابات ہوئے اور جمہوری دور آیا تو انہوں نے جنوری 1989ء کے شروع میں پھر رابطہ کیا۔اس وقت میں نے ہامی بھر لی۔‘‘ تاہم، یہ سلسلہ بھی چند قسطوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔‘‘
’’خدا کی بستی‘‘ کی ڈرامہ سیریل پاکستان ٹیلیویژن سے تین مرتبہ دکھائی جاچکی ہے۔ اس میں بھی جانگلوس کی طرح کرداروں کی بھرمار تھی۔ جیل سے بھاگے ہوئے قیدی، پولیس سے چُھپنے کی کوشش میں جرائم پیشہ لوگوں سے ملتے ہیں۔ تاہم، خود شوکت صاحب کے نزدیک ’خدا کی بستی‘ اور ’جانگلوس‘ کی کہانی میںبہت بڑا فرق ہے۔ ان کا کہنا تھا۔
’’خدا کی بستی کا موضوع اور ہے، اس کا تعلق شہری زندگی اور بیشتر کراچی سے ہے۔ یہاں جب ہجرت کرکے لوگ آئے اور یہاں کے مقامی لوگوں سے ملے تو ان کے امتزاج سے ایک نیا معاشرہ وجود میں آیا۔ اس میں ان کی زندگی کی عکاسی ہے۔ اس کا بنیادی مقصد معاشرے کا یہ المیہ بتانا تھا کہ انسان جو بننا چاہتا ہے وہ نہیں بن پاتا، معاشرہ اور حالات اسے جرائم پیشہ بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اس میں جن تین بچوں کے کردار ہیں وہ یہی جدوجہد کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے برعکس جانگلوس دیہی زندگی کے پس منظر میں ہے۔ مَیں چاہتا تھا کہ تمام صوبوں کے دیہات کو اس میںشامل کروں مگر یہ ناول پنجاب میں ہی اتنا پھیل گیا کہ تین جلدیں بنانی پڑیں۔ یہ لگ بھگ آٹھ سال میںمکمل ہوا۔ اس کی تکنیک بھی ’’خدا کی بستی‘ ‘سے مختلف ہے۔ مَیں چاہتا تو یہ تھا کہ جب مَیںدیہی معاشرے پر لکھ رہا ہوں تو اس کے ہر گوشے اور شعبے کی عکاسی ہو۔ مَیں اپنے ذہن میں ناول کا تانا بانا بن رہا تھا اور تکنیک کی تلاش میں تھا۔ مَیں مروجہ تکنیک پر زیادہ زور نہیںدیتا، جو کرداروں کا تقاضا ہو، وہی تکنیک اپناتا ہوں۔ جانگلوس کے مرکزی کردار’ ’رحیم داد اور لالی‘ ‘ مفرور قیدی ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ ایسی جگہ بھی پہنچ سکتے ہیں جہاں عام آدمی نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ میں نے مطالعہ کیا، مشاہدہ کیا۔ ان علاقوں کو دیکھا، پڑھا، اور جاگیردارانہ نظام کی استحصالی نوعیت کے سلسلے میں لکھا اور بتایا کہ کس طرح ’کَمّی‘ کا سماجی اور اقتصادی استحصال ہوتا ہے۔ ان کی محنت کس طرح چوری کی جاتی ہے۔ میرے نزدیک محنت کے استحصال سے جرائم کی آبیاری ہوتی ہے۔‘‘
توکیا آپ کے نزدیک معاشرے میں صرف جرائم اور برائیاں ہی ہیں؟ خدا کی بستی میں بھی یہی کچھ دکھایا تھا اور اب جانگلوس بھی ایسے ہی واقعات سے بھرا ہوا ہے؟
اس کے جواب میں شوکت صاحب نے وضاحت کی۔
’’ایسے جرائم تو نہیں، جیسے ڈائجسٹوں میں بیان ہوتے ہیں مگر معاشرے میںجرائم اور بُرائیاں موجود ہیں۔ میرے نزدیک کسی کو ایذا پہنچانا جرم ہے۔ جرم اور دہشت گردی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو مملکت عوام پر کرتی ہے اور دوسرا عوام کا ردعمل۔ مثلاً ایم آر ڈی کی تحریک حکومتی دہشت گردی کا ردعمل تھا۔ ایک جرم تو یہ ہے کہ کوئی آدمی چوری کرتا ہے، قتل کرتا ہے یا ڈاکہ ڈالتا ہے۔ میرا فلسفہ یہ ہے کہ چوری بنیادی طور پر محنت کی ہوتی ہے۔ مثلاً کوئی میرا لائٹر چوری کر کے لے جائے، فرض کیجیے اسے میں نے دوسو روپے میں خریدا ہے، تو وہ کیا چوری کر کے لے گیا؟ میرے دوسو روپے، یعنی میری پانچ روز کی محنت۔ دراصل محنت ہی پہلے کرنسی میں اور پھر چیز میں بدلتی ہے۔ جاگیردار جب اپنے مزارعوں کی وہ محنت جو مزارعے ایک فصل پر کرتے ہیں، نصف سے زیادہ لے جاتا ہے تو وہ بھی چوری کرتا ہے۔ میرے نزدیک وہ بھی مجرم ہے۔ لیکن چوںکہ ہمارے معاشرے پر جاگیرداروں کا قبضہ ہے لہٰذا، قوانین ایسے بنائے جاتے ہیںکہ وہ ان کی زد میں نہیں آتے۔ یہاں آٹھ گرام ہیروئن اسمگل کرنے والے کو پکڑ کر سخت سزا دی جاتی ہے لیکن منوں کی مقدار میں اسمگل کرنے والے کو کچھ نہیں کہا جاتا۔ ایسے لوگ قانون کی گرفت میں نہیں آتے اور عام آدمی کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ ضیاء الحق کے گیارہ برسوں میں جتنی پھانسیاں دی گئیں، برصغیر کی تاریخ میں شاید1857ء کے سوا کبھی نہیں دی گئیں۔ یہ چھوٹے اور بڑے چورکا فرق ہے۔ دراصل یہی اس ناول کا مرکزی خیال ہے کہ جرم دونوںسے سرزد ہوتا ہے مگر سزا صرف غریب کے لیے مخصوص کر دی گئی ہے۔ کبھی کوئی بڑا افسر نہیں پکڑا جاتا، یہ غلط ہے۔ میرا کہنا ہے کہ مجرم کسی بھی شکل میں ہو، کسی رتبے کا ہو، اسے قانون کی گرفت میں لانا چاہیے۔‘‘
پاکستان کی بیوروکریسی بھی جاگیرداری کی طرح ایک مضبوط طاقت ہے۔شوکت صدیقی نے لالی کے ذریعے ان کی اخلاقی پستی کو پیش کیا ہے۔ڈپٹی کمشنر کی سرکردگی میں کلب اور نائٹ آف دی گریٹ سسپنس کا شاخسانہ بھی اسی حقیقت کا ایک رخ ہے۔حکومت کے اعلیٰ افسران جن کے ہاتھوں میں قانون اور انصاف کی باگ ڈور ہوتی ہے، کھلے بندوں بے راہ روی کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔ ’’پلیزر نائٹ‘‘ Pleasure Night مناتے ہیں اور اس رات اپنی جنسی بھوک مٹانے کے لیے آپس میں ایک دوسرے سے بیویاں بدل لیتے ہیں۔
شوکت صدیقی نے جانگلوس میں نہ صرف جرائم کو ان کے صحیح تناظر میں پیش کیا ہے بلکہ ُان عوامل کی نشان دہی بھی کی ہے جو جرائم کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے اندوہناک اختتام کے ذریعے اپنے قاری کے دل میں اُس ظالمانہ نظام کے خلاف نفرت اور احتجاج کے جذبات بھڑکانے میں کامیاب بھی رہے ہیں۔ اس سے پہلے کسی ناول میں اتنی سچائی اور گہرائی کے ساتھ پاکستانی معاشرے کا مطالعہ نہیں ملتا۔ اُنہوں نے جاگیردارانہ نظام میں پیدا ہونے والی مخصوص صورت حال کی ترجمانی کرتے ہوئے خاص طور پر جاگیرداروں کی بے رحمی، سنگ دلی اور طاقت کے بہیمانہ استعمال کو نمایاں کیا ہے۔ اِس ناول میں انہوں نے ایک ایسی سماجی بُرائی کا انکشاف بھی کیا ہے جس کی وجہ سے عورت معاشرے میں اپنا وہ حق بھی استعمال نہیں کرسکتی جو اسے مذہب اور قانون نے دیا ہے۔ جاگیردار صرف جاگیردار ہوتا ہے، وہ نہ کسی کا باپ ہوتا ہے اور نہ کسی کا شوہر۔ شوکت صدیقی نے گائوں کی عورت کے مقابلے میں شہر کی عورت کی کم ہمتی اور بزدلی کو بھی نمایاں کیا ہے۔ انہوں نے بتایا ہے کہ شہر کی عورت،گائوں کی عورت سے زیادہ مظلوم ہے۔
انہوں نے جانگلوس میں جس معاشرے کی خرابیوں کو پیش کیا ہے وہ طبقات میں بٹا ہوا ہے اور شوکت صدیقی نے اس کی طبقہ واری نوعیتیں بھی واضح کی ہیں۔ دراصل وہ جس فلسفۂ حیات کے قائل تھے اُس میں بنیادی بات یہ ہے کہ طبقاتی معاشرے میں ہر سماجی مظہر طبقاتی ہوتا ہے۔حتیٰ کہ سیاست اور جمہوریت بھی۔
رائٹرزگلڈ اور انجمن ترقی پسند مصنفین:
کراچی میں جنوری 1959ء میں رائٹرز گلڈ کا قیام عمل میں آیا۔ شوکت صدیقی کئی مرتبہ اس کی مرکزی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوئے۔ اس کے مرکزی اعزازی معتمد انتظامیہ اور قائم مقام جنرل سیکریٹری کے فرائض بھی انجام دیے۔ 1973ء میں روزنامہ مساوات کی صحافتی مصروفیات کے باعث گلڈ سے کنارہ کشی اختیارکی۔
9مارچ 1986ء کو کراچی میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی گولڈن جوبلی کا انعقاد ہوا جس میں ہندوستان کے ترقی پسند ادیبوں نے بھی شرکت کی۔ شوکت صدیقی اس کی کنویننگ کمیٹی کے چیئرمین اور مجلس استقبالیہ کے صدر منتخب ہوئے۔ ایک طویل مارشل لا کے بعد یہ ادیبوں کا پہلا بڑا اجتماع تھا۔ اِس میںوہ لوگ بھی شریک ہوئے جو ترقی پسند تحریک کے بانیوں میں سے تھے۔ غلام ربانی تاباںؔ، مجنوں گورکھپوری، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور سیّد سبطِ حسن نے بھی اس کانفرنس سے خطاب کیا۔ یہ کانفرنس ادیبوں اور شاعروں کا ایسا اجتماع تھا جہاں تین نسلوں سے تعلق رکھنے والے اہل قلم کا رابطہ ہوا تھا۔ وہ معمر ادیب اور دانشور بھی موجود تھے جو ترقی پسند تحریک کے ہراول دستے میں شامل تھے۔ وہ بھی جنہوں نے اس تحریک کو آگے بڑھایا تھا اور جبرواستحصال کے باوجود اسے مختلف زمانوں میں جاری رکھا، اور وہ جواں سال اور جواں ہمت اہلِ قلم بھی جنہوں نے مارشل لائی دور میں آنکھ کھولی اور جواں ہوئے۔ اس کانفرنس میں مجلسِ استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے شوکت صدیقی نے کہا۔
’’ترقی پسند تحریک کسی اتفاقی واقعے یا حادثے کی پیداوار نہیں۔ یہ انسانی تاریخ کے جدلیاتی عمل کے نتیجے میں ابھرکرسامنے آئی ہے۔ اس کا ایک روشن مستقبل ہے اور تابناک ماضی بھی۔ اُسے ورثے میں روشن خیالی کی اعلیٰ صحت مند روایات ملیں جنہوں نے پاپائیت اور جاگیرداری کے خلاف مورچہ لگایا، نئے خیالات اور افکار سے لیس ہوکر فرسودہ اخلاقیات، کہنہ رسم ورواج، استحصالی سیاست، معیشت، ثقافت اور طرزِحیات کو بدلنے کے لیے جدوجہد کی۔ آزادیٔ عمل اور مساوات کا نعرہ لگایا۔‘‘
شوکت صدیقی مرتے دم تک اس تحریک کے بارے میں پُرامید رہے۔ ان کا کہنا تھا:
’’کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تحریک ختم ہوگئی۔ کچھ اسے سیاسی تحریک کہتے ہیںکہ یہ ایک نعرے کے بل پر زندہ رہنے والی تحریک ہے۔ مَیں اُن سے متفق نہیں ۔ اسے کسی ایک زمانے تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ یہ ایک معاشرے کی بہتری اور ارتقاء کا عمل ہے جو ہمیشہ جاری رہے گا۔‘‘
شادی:
شوکت صدیقی کی شادی 29 اگست 1952ء کو ڈاکٹر محمد سعید خان کی صاحب زادی ثریا بیگم سے کراچی میں ہوئی جن کے والدین کا تعلق پنجاب کے ضلع روہتک میں واقع ریاست جھجھر سے تھا۔ ڈاکٹر سعید خان برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے جس کی بناء پر اُن کے تبادلے پنجاب، سرحد، بلوچستان اور دہلی وغیرہ میں ہوتے رہے۔ تاہم، زیادہ عرصہ دہلی میں گزرا۔ برطانوی حکومت نے اُن کی فوجی خدمات کے صلے میں خان بہادر اور او۔ بی۔ اے کے خطابات عطا کیے۔
اعزازات :
٭ 1960ء میں ’’خدا کی بستی‘‘ پر آدم جی ادبی ایوارڈ ملا۔
٭ 1986ء میں کراچی میں ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنّفین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر کنویننگ کمیٹی کے چیئرمین اور
مجلسِاستقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے خطبۂ صدارت پیش کیا۔
٭ مارچ 1990ء میں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی کانفرنس دہلی میں منعقد ہوئی جس میں انہوں نے پاکستانی اہلِ قلم کے سربراہ کی
حیثیت سے شرکت اور اختتامی اجلاس کی صدارت کی۔
٭ 1991ء میں حیدرآباد (سندھ) کے قریب ’’خدا کی بستی‘‘ کے نام سے ایک شہر آباد ہوا۔ اُس کی تعمیروترقی کا کام 1984ء میں
شروع ہوا تھا، اس وقت اس کا نام ’’گلشن شہباز‘‘ رکھا گیا تھا مگر پھر اُس کے مکینوں کے مطالبے پر اس کا نام بدل کر ’’خدا کی بستی‘‘
رکھ دیا گیا۔
٭ 1997ء میں حکومت ِپاکستان نے تمغۂ حسن کارکردگی دیا۔
٭ 2000ء میں آرٹس کونسل کراچی نے انہیں تاحیات اعزازی رکنیت عطا کی۔
2004ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ’’کمالِ فن‘‘ ایوارڈ دیا گیا۔
٭ میرے شوہر رشید بٹ، شوکت صدیقی کے منہ بولے بیٹے ہیں، اس ناتے ہمارے اُن کے گھرانے سے گھریلو روابط ہیں۔
چنانچہ ہم میاں بیوی جب بھی ان کے گھر جاتے، اکثر مختلف ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی۔ خصوصاً مَیں اُن سے ان دونوں
ناولوں کے حوالے سے بہت سوال کرتی تھی۔ اس مضمون کا بیشتر حصہ انہی مشاہدات اور گفتگو پر مبنی ہے۔ اِسی لیے اِس میں
براہِ راست گفتگو اور سوال و جواب کا رنگ نمایاں ہے۔
³³³