رشید بٹ
مَیں جہاں کھڑا ہوں اس جگہ کا نام ہے ’’آسمان تلے پہلا دروازہ‘‘۔ بہت دیر سے کھڑا ہوں۔ اب تو تھکن کے آثار بھی ظاہر ہونے لگے ہیں ۔ مجھے یہاں کھڑے کھڑے شاید 23سو سال ہونے کو ہیں۔ آپ کی سوالیہ نظر یں مَیں سمجھ رہا ہوں ۔ بتائے دیتا ہوں کہ مجھ سے پہلے یہاں میرے پُرکھ کھڑے تھے۔ یہ سلسلہ، جیسا کہ مَیں نے کہا کوئی 23سو سال سے جاری ہے ۔ مَیں نے ماہرینِ عمرانیات سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ پُرکھوں میں ایک پیڑی، ُپشت یا نسل لگ بھگ 30سال کی ہوتی ہے ۔ یوں حساب کیا جائے تو مجھ سے پہلے 76 پیڑھیاں یہاں اپنا اپنا زمانہ ِبتا کے ِسدھار چکی ہیں۔
یہ شمالی چین کا شہر شان ہائے کو ان ہے۔ اس کے ایک ایک لفظ کو معانی کی شکل دی جائے تو یہ’’پہاڑ، سمندر اور درّہ‘‘بنے گا۔دیکھیں تو یہ سب کچھ یہاں موجود ہے۔ ایک سمت پہاڑوں کا سلسلہ چلا گیا ہے جن میں یہ درّہ ہے ۔ آسمان تلے پہلا ’’دروازہ‘‘تو بس نام ہے، چینی زبان میں جو الفاظ لکھے ہیں اُن میں دروازے کے بجائے درّے کا لفظ ہے۔ چینی میں ’’کوان‘‘ کا مطلب درّہ ہے جب کہ دروازے کے لیے ’’ َمن‘‘کا لفظ ہے ۔ دیوارِ چین یہاں پہاڑ سے دفعتاًبل کھاتی اترتی ہے اور غڑاپ سے سمندر میں ڈبکی لگا جاتی ہے۔ یہ سمندر چین کا بحیرۂ پوہائے ہے ۔ اسی جگہ ایک مندر کہہ لیں یا خانقاہ یا مقبرہ ہے ۔ یہ ایک قدیم چینی کہانی ’’وفا کی پتلی‘‘ کی مرکزی کردار ’’منگ چیانگ نوئی‘‘کا مقبرہ ہے ۔ صدیوں پہلے جب دیوار کا یہ حصہ تعمیر کیا جارہا تھا تو شاہی فوجی اس کے جواں سال شوہر کو بیگار میں پکڑ کر لے گئے۔ منگ چیانگ نوئی نے کچھ روز تو اس کی واپسی کا انتظار کیا لیکن جب وہ نہ پلٹا تو اُس کی تلاش میں پاپیادہ نکل کھڑی ہوئی۔ دیوار کے ساتھ ساتھ ہر ایسی جگہ اُسے ڈھونڈا جہاں مزدور، بیگاری اور غلام دیوار کے لیے بڑے بڑے پتھر ڈھو رہے تھے یا دیوار اٹھارہے تھے۔ وہ ہر طرف ڈھونڈتی پھری، پوچھتی پھری لیکن کہیں میاں کا پتا نہ چلا ۔ آخر ایک جگہ کسی نے شوہر کا حلیہ جان کر بتایا کہ وہ تو پتھر ڈھوتے ڈھوتے جان ہار چکا ہے ۔ یہ سنتے ہی منگ چیانگ اتنا روئی کہ اس کا گریہ سن کر دیوار بھی ایک جگہ سے بیٹھ گئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں دیوار سمندر میں ڈبکی لگاتی ہے ۔ منگ چیانگ نے بھی سمندر میں کود کر جان دے دی اور پھر اس کے جسم کی بوٹیوں نے ننھی منی خوبصورت مچھلیوں کا روپ دھار لیا ۔ صدیوں سے سمندر میں ڈوبے دیوار کے اس حصے کی شکست وریخت اور سمندری پانی کی رگڑ شاید یہی کہانی بیان کرتی ہے ۔ لوگوں نے میاں بیوی کی محبت اور ایک دوسرے پر جان نچھاور کرنے پر ان کی یاد میں یہاں مقبرہ بنادیا ۔ لوگ اب بھی دور دور سے یہ یاد گار دیکھنے آتے ہیںاور شاید َمنتیں بھی مانتے ہیں۔ لوگ سفر کرتے ہیں اور ان کے ساتھ دیو مالائی اور اساطیری کہانیاں بھی کچھ رنگ بدل کے ، کردار بدل کے، مقامات کا چولا بدل کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہیں ۔ اسی کہانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اصل’’واقعہ‘‘اس وقت پیش آیا جب 3سو سال قبل مسیح میں دیوارِ چین دارالحکومت پئی ِچنگ (پیکنگ) کے قریب تعمیر کی جارہی ہوتی ہے اور اس میں شہنشاہِ وقت بھی ایک ظالم کردار کے طور پر شامل ہو جاتا ہے ۔ محبت اور وفا کے مرکزی خیال کے ساتھ ایسی ہی کہانیاں مختلف ماحول میں دنیا کے سبھی ِ ّخطوںمیں ملتی ہیں۔
مَیں نہیں جانتا کہ کشمیر میں میرے ُپرکھ کہاں سے آئے تھے؟ لیکن تاریخ تو یہی کہتی ہے کہ وہ لوگ اپنے دورِو ُ حش اور خانہ بدوشی میں منگولیا کے دُور افتادہ ِ ّخطوںسے اُٹھے اور جدھر جدھر راہ ملتی گئی، فلک بوس پہاڑ ، گیاہستان ، جنگل ، صحرا،دریا پار کرتے ، اپنے ہی ایسے وحشی گھوڑوں کے سموں تلے راہ میں آنے والی یا والے ہر ہست کو بود بناتے، اور جو بچ جاتے انہیں بیگاری بناکے ساتھ لیے چلتے رہے۔ رستے میں بھوک لگتی تو ُخرجین سے سوکھا گوشت نکال کے کھاتے، گھوڑے کی گردن میں خنجر گھونپ کے بھل بھل اُبلتے خون سے پیاس بجھاتے۔ ان کے ایسے ہی سفر کئی راستوں سے ہورہے تھے ۔ کبھی وہ منگولیا سے چین میں داخل ہوتے، کبھی ترکستان کے بے کراں، سنگریزوں سے بھرے گوبی اور تاکلامکان ایسے صحراؤں کو پار کرتے، افغانستان کے کہیں سنگلاح تو کہیں ہرے بھرے، اوبڑ کھابڑ دشوار گزار پہاڑوں کو نیچا دکھاتے برِصغیر کے درّوں اور دروازوں پر دستک دیئے بغیر اندر آن دھمکتے اور کبھی ایران میں داخل ہوجاتے ۔ ایسا بھی ہوا کہ وہ منگولیا سے نکلے تو اُن کے گھوڑوں کا رخ سائبیریا کی طرف ہوگیا اور وہ اس خوابیدہ زمین کو دہلاتے، جگاتے، بے کنار، بے شجر، بے فصل بنجر زمینوں، لمبی گھاس والے شور میدانوں (Steppe)اورلق ودَق ِ ّ خطو ں میں اپنی آمد اور روانگی کے ّقصے کی ویرانیاں اور بربادیاں چھوڑتے، شورِ نشور ِجلو میں لیے روس اور یورپ کو تاراج کرتے کرتے وہیں بے نام ہوگئے۔ برِ صغیر کا رخ کرنے والے ایسے قبائل کے نام بھی ہم جانتے ہیںکہ مَیں بھی تو بہر حال ان کا ہم سفر ہوں۔
ہزاروں سال پر محیط ان قبائل اور نسلوں کی خانہ بدوشی، خانہ براندازی اور پھر خانہ سازی کا فطری یا عمرانی عمل بھی سامنے آتا ہے۔ صحرائے وحشت میں شکست وریخت پر مبنی مسافت کے دوران انہیں تہذیبی عمل میں ڈھلتے یا ڈھلے ہوئے جزیرے ملتے تو وہ انہیں تاراج کرنے کے ساتھ ساتھ، اکثر وہاں پڑاؤ بھی ڈال لیتے۔ پھر یہ پڑاؤ ، طویل مسافتوں کے سبب ان کے پاؤں میں پڑے آبلوں کے لیے مرہم بن جاتے، کچھ مقامی تہذیبی اور ثقافتی عمل رنگ دکھاتا اور وہ دھیرے دھیرے اسی میں سموجاتے۔ وہاں کی آب و ہوا، رہن سہن زہر ُمہرہ بن جاتے۔وہ اُسی رنگ میں رنگ جاتے۔ خاندانی نام ، لباس، رہن سہن سب کچھ اپنا لیتے اور چندپیڑھیوں کے بعد نہ کوئی بندہ رہتا نہ کوئی بندہ نواز۔
رچنے بسنے اور باہم ُ گھل ِمل جانے کا یہ عمل ہمیں چین میں زیادہ خاصیت کے ساتھ ملتا ہے ۔ جزئیات میں جانے سے پہلے ہم چین کی جغرافیائی کیفیت اور تخصیص پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔ چین کی جغرافیائی حدود جو آج ہیں، ایسی ہمیشہ سے نہ تھیں۔ ان میں ٹوٹ پھوٹ جاری رہتی تھی ۔ مختلف ادوار میں یہ کبھی سکڑتی تھیں، کبھی پھیلتی تھیں ۔ اس کا انحصار آنے والے یا حملہ آور قبائل پر ہوتا تھا ۔ کبھی سرحدوں کے اندر اندر طوائف الملوکی کا راج ہوتا تھا تو کبھی دو تین بڑی مچھلیاں ، چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کو ِنگل کر اپنی اپنی عمل داری بڑھالیتی تھیں اور پھر یہ چند ریاستیں یا مملکتیں زورِ عمل بڑھانے کے لیے آپس میں دست و گریباں ہو جاتی تھیں ۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ انہیں شمال سے خصوصاً منگول وحشی اور خانہ بدوش قبائل کے چڑھ آنے کا خطرہ رہتا تھا ۔ وہ کبھی تو سرحدوں پر آکر ڈیرے ڈال لیتے اور کبھی چڑھائی کردیتے۔ قتل و غارت اور خونریزی کا بازار گرم ہو جاتا۔ اور یہ چینی (مہذب) ریاستیں یا مملکتیں، وحشی قبائل سے بچاؤ کے لیے فاصل پہاڑوں، دروّںاور ارتفاعی علاقوں میں اپنی اپنی حفاظتی اور دفاعی دیواریں تعمیر کرنے لگتے۔ یہ گویا دیوارِ چین کا آغاز تھا۔ اور اس آغاز کا آغاز بھی کوئی 2سو سال پر پھیلا ہوا ہے جو چین کے اندر چھوٹی چھوٹی ریاستوں کا دور کہلاتا ہے۔ یوں اسے مجموعی طور پر 25سو سال کا سفر کہا جاسکتاہے۔اور یہ دو سو سال بھی شامل کروں تو میرے ُپرکھوںکی پیڑھیوں کی تعداد 83تک پہنچ جاتی ہے ۔ میرا وجود یہاں بھی ہے اور مَیں اِدھر اُدھر ، دائیں بائیں گھوم پھر کر، گھنی اور چھدری روئیدگی پر نگاہ ڈالتا چلوں گا۔ کبھی اکیلے اور کبھی آپ کے ساتھ۔
یہ 200قبل مسیح ہے اور چین میں 6جاگیری ریاستیں قائم ہیں ۔ محدود حفاظتی دیواروں کے باوجود شمال سے آنے والے خانہ بدوش وحشی مگر منگول اور دیگر قبیلوں کے اعلیٰ پائے کے گھڑ سوار تیر انداز برق رفتار ی سے آتے اور شہروں کو تہس نہس کرکے پلک جھپکتے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکرہے کہ تب تک وسطی چین کے میدانی علاقوں میں پھیلی ان ریاستوں میں متعدد بڑے شہر اور قصبے وجود میں آچکے تھے ۔
تیسری صدی قبل مسیح میں چِھن شی ہوانگ تی چھ کی چھ ریاستوں کو فتح کر کے متحدہ چین کا پہلا شہنشاہ بن جاتا ہے۔وہ اپنے لیے زرد رنگ کا انتخاب کرتا ہے۔ چین کی تاریخ میں آئندہ شہنشاہوں کے لیے زرد رنگ ، اژدہا اور فرزندِ آسمان کے القاب مخصوص ہوجاتے ہیں۔یہی زمانہ ہے جب چینی مصّوروں نے ایک خیالی اژد ہے کی تصویر بنائی،اس کے چار پنجے ہیں۔ دو سامنے ، دوپیچھے۔ وہ اُڑسکتا ہے۔اس کے سر پہ تاج ہے۔ ماورائی قوتوں کا مالک ہے۔ بعد ازاں، چینی اساطیری کہانیوں اور داستانوں میں بھی اژدہا ایک کردار کی حیثیت سے داخل ہوگیا۔ وہ اچھائی اور ُبرائی دونوں کی، حسبِ ضرورت نمائندگی کرتا ہے۔ ِچھن شی ہوانگ تی اپنے ایک جرنیل منگ تھیان کو حکم دیتا ہے کہ الگ الگ حفاظتی اور دفاعی دیواروں کو ملا کر ایک مربوط دیوار کی شکل میں توسیع دی جائے۔اس عظیم تعمیراتی کام میں فوج، کسان، اور بیگاری، جن کی مجموعی تعداد تین لاکھ تک پہنچتی ہے -- حصہ لیتے ہیں اور ایک مسلسل دیوار -- دیوارِ چین-- بالآخر وجود میں آجاتی ہے۔ بعد میں آنے والے شاہی خاندان اس دیوار میں مسلسل توسیع اور اس کی مرمت کرتے رہتے ہیں۔ وقت کا دھارا بہتا چلا جاتا ہے۔چینی حکومت طاقتور ہوتی ہے تو دیوار کے اُس پار، جہاں وحشی اور خانہ بدوش قبائل کا راج ہے، حملے کر کے قلمروئے چین کو وسعت دیتی ہے۔ وہاں پیچھے پیچھے عام چینی لوگ، دستکار، عالم اور دانشور بھی جاآباد ہوتے ہیں۔ اُدھر سے قبائلی اِدھر آکر وقت کی تہذیب کے کہیں چھدرے تو کہیں چھتنارپیڑوں تلے سائے تلاش کرتے ہیں۔ دونوں جانب ایک نئی دنیا آباد ہوتی جاتی ہے۔ ایک حصہ تہذیب و تمدن پھیلاتا ہے، دوسرا اسے اپناتا ہے۔ یوں کہیں کہیں دیوار اپنی افادیت پوری کرتے ہوئے دفاعی اہمیت کھوتی چلی جاتی ہے۔جب چینی حکومت کمزور ہوتی ہے تو شمال ہی کے دوسرے ِ ّ خطوں سے قبائل حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ دیوار اپنے تمام تر استحکام اور مضبوطی کے باوجود ان کا کچھ نہیں بگاڑ پاتی۔ وہ دیوار توڑتے، راستے بناتے، بلندو بالا پہاڑی راستوں پر گھوڑے دوڑاتے اِس جانب آکر پڑاؤ ڈال دیتے ہیں۔ گھیراؤ جلاؤ ہوتا ہے، شہر اجڑتے ہیں، آبادیاں صاف ہوجاتی ہیں، انخلا ہوتا ہے۔ لیکن اس کے بعد وقت کا موسم آنے والوں کو یوں اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے کہ’’من ُتو شدم، ُتومن شدی‘‘۔اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں،دیوارِ چین کا ایک منظر دیکھتے چلئے:
دیوارِ چین، شمالی چین کے دو پہاڑی سلسلوں یان شان اور ِ ین شان کی گھاٹیوں کے نشیب و فراز میں بل کھاتی شرقاً عزباً چلتی چلی جاتی ہے کیوں کہ ان ہی پہاڑی سلسلوں کے شمال میں رہنے والے وحشی اور خانہ بدوش،قبیلے چین کے شہروں میں گھس کہ لوٹ مار کرتے اور انہیں تاخت و تاراج کرنے کا کھیل رچاتے رہتے تھے۔دیکھنے میں یوں لگتا ہے کسی نے دیوار بنا کر اسے اِن پہاڑوں کی پھننگ پر یوں رکھ دیا ہے گویا دیومالائی اژدہا پنجے پسارے، سرٹکائے لیٹا ہو۔یہ دونوں پہاڑی سلسلے چین کے پانچ صوبوںکانسو، شانشی، شینشی،خہ پئے اور لیاؤیننگ اور دو خودمختار علاقوں نینگ شیا اور اندرونی منگولیا سے گزرتے ہیں۔ دلچسپ بات جانیے کہ مغربی سمت کا آخری صوبہ کانسو اور خودمختار علاقہ نینگ شیا مسلمان اکثریتی آبادی کے علاقے ہیں جب کہ مشرقی جانب کا اختتامی صوبہ لیاؤنینگ اور خودمختار علاقہ اندرونی منگولیا نسلی اعتبار سے منگول اکثریت کے علاقے ہیں۔ ان علاقوں کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے کہ دور ِوحشت میں خانہ بدوشوں کے طوفانِ بلا خیز یہیں سے اُٹھتے تھے اور جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، مختلف راستوں سے بگولوں کی مانند گزرتے ہوئے ایران اور برِصغیر کے دوردراز علاقوں کو کھدیڑ کے رکھ دیتے تھے۔ اور پھر فطری عمل کے تحت دھیرے دھیرے وہیں کے ہو رہتے تھے۔
چینی زبان اور محاورے میں تعداد و طوالت کا اندازے سے اظہار کرنا ہوتو’’وان‘‘ یعنی دس ہزار کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔اور پیمائش کا قدیم پیمانہ’’لی‘‘ہے۔ چین میں صدیوں سے اس دیوار کو ’’دس ہزار لی لمبی دیوار‘‘ کہا جاتا ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ استعارے میںیہی اس دیوار کا نام ہے۔جدید اعشاری نظامِ پیمائش کے مطابق ایک ’’لی‘‘ تقریباً نصف کلو میٹر کے برابر ہے۔چینیوں کی حالیہ تحقیق کے مطابق دیوارِ چین کی مجموعی طوالت 6 ہزار کلو میٹر بنتی ہے جس میں اس دیوارِ عظیم کے سارے اتار چڑھاؤ اور پیچ وخم شامل ہیں۔ دیوار جو کبھی شمال سے اٹھنے والے انسانی طوفانوں کے راستے کی رکاوٹ تھی ، اب چین ہی کا نہیں بلکہ ایک عالمی تاریخی ورثہ ہے۔ ہم سب کا تاریخی ورثہ ہے۔ایک سیر گاہِ جہاں ہے۔ صدہا سال قبل کے انسانی ہاتھوں کی تخلیق ہے۔ اس کے مشرقی سرے پر، شان ہائے کوان(آسمان تلے پہلا دروازہ یا درّہ)ہے تو مغربی سرے پر چیایوی کوان (آسمان تلے دروازہ ٔحکمتِ عملی) ہے۔ یہ بھی دراصل جغرافیائی اعتبار سے درّہ ہے۔
شان ہائے کوان یا آسمان تلے پہلا دروازہ کی جزئیات تو مَیں شروع میں بتا چکا ہوں۔ اب ذرا چیایوی کوان یا آسمان تلے دروازۂ حکمتِ عملی کا ذکر بھی کردوں۔ یوں تو دیوارِ چین کی پوری طوالت میں جنگی یا فوجی حکمتِ عملی کے لحاظ سے 14 اہم درّے آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ اہمیت شان ہائے کوان اور مغربی مقامِ اختتام پر چیایوی کوان کو حاصل تھی۔ چیایوی کوان کو ماضی کے عجائباتِ عالم میں دیوارِ چین کے مقامِ اختتام ہی کا اعزاز حاصل نہیں بلکہ قدیم شاہراہِ ریشم کے مقامِ آغاز کا افتخار بھی حاصل ہے۔ وہ شاہراہِ ریشم جو فلک بوس، برفپوش،سنگلاح پہاڑوں، ترکستان کے سنگریزوں والے صحرائے گوبی، صحرائے تکلا مکان، افغانستان، برِصغیر سے گزرتی، مغربی ایشیا سے ہوتی ہوئی یورپ تک جاتی تھی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ تب، آج کے پنجاب(پاکستان) کا شہر وزیر آباد بھی اس شاہراہِ ریشم کا ایک پڑاؤ تھا۔ اسی شاہراہ کے راستے، دوسری صدی قبل مسیح میں چینی شہنشاہ و ُ وتی کا ایلچی چانگ چھیئن ترکستان جو اس وقت چین کا حصہ نہ تھا، اور برِصغیر کی مملکتوں کے حکمرانوں کے پاس خیر سگالی کے پیغامات لے کر آیا تھا۔لیکن شاہراہِ ریشم کی کہانی تو بہت طویل ہے۔ یہ پھر کبھی سہی۔ہم واپس دیوارِ چین پر چلتے ہیں۔
بعد میں آنے والے شاہی خاندان اور حکمران گو مختلف مقامات پر ضرورت کے تحت مرمت اور دیوار کو مزید استحکام دینے کا کام کرتے رہے پھر بھی حملے ہوتے رہتے تھے۔ اسی عرصے میں یہ بھی ہوا کہ جو وحشی اور خانہ بدوش قبائل اِدھر آئے تھے انہوں نے چین پر حکومت بھی کی اور اپنے اپنے شاہی خانوادے بھی بنائے۔ترکستان بھی ان کی جولان گاہ بنا۔ بات ہورہی تھی دیوارِ چین کو مزید مستحکم کرنے کی۔ اس پر مخصوص فاصلوں پر دیدبان اور تیر اندازوں کے لیے کنگورے بنے ہوئے تھے۔دن کے وقت دشمن کی آمد کا خطرہ محسوس ہوتا تو دیدبانوں میں اس طرح آگ جلائی جاتی کہ دھویں کے بادل اٹھنے لگتے جب کہ رات کے وقت آگ سے روشنی کردی جاتی۔ یوں دور دراز دیدبانوں میں بیٹھے محافظوں اور نیچے چھاؤنیوں میں فوجیوں کو حملے کی اطلاع مل جاتی۔
ہم بڑھتے بڑھتے ترکستان اور مغربی چین میں آتے ہیں جہاں دسویں صدی عیسوی تک مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہوچکی ہیں۔ تب تک ترکستان’’روسی اور چینی ترکستان‘‘ میںتقسیم نہیں ہوا تھا۔ منگولیا اور ترکستان اور کچھ تبتی نسل کے قبائل مثلاً تانگوت وغیرہ سے آباد چینی علاقے اقتدار کی آویزشوں کا باہم جزوبنے ہوئے تھے۔منگول قبائل انہیں بھی تاراج کرتے ہیں، اسی راستے سے ایران اور برِصغیر تک بھی پہنچتے ہیں۔چین پر ان کے اثرات گہرے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ایسے میں بارہویں صدی عیسوی کے اوآخراور تیرھویں صدی عیسوی کے اوائل میں ایک اور طوفانِ تاراجی و قتل و غارت گری اٹھتا ہے -- صورت ِچنگیز خاں۔
وہ مشرقی سائبیریا کے علاقے چٹہ میں 1167ء میں پیدا ہوتا ہے، جوان ہوتا ہے، اپنے منگول قبیلے کی سرداری سنبھالتے ہی دوسرے منگول قبیلوں کو جن میں تاتار بھی شامل ہیں،بزورِشمشیر،مطیع کرتا ہے، کچھ کو نیست و نابود کرتا ہے اور پھر ایک لشکرِ جرار کے ساتھ راہ میں آنے والی ہر شے کو تہ تیغ کرتا 1211ء میں دیوارِ چین تلے آن کھڑا ہوتا ہے۔یہ دیوار عملی طور پر اس کے لیے سدِّراہ بن جاتی ہے لیکن وہ دو سال بعد اسے بھی سرکرلیتا ہے اور اس کی فوجیں، جو ہنوز وحشی پن اور بربر ّیت کا نشان ہیں، شمالی چین کے میدانی علاقوں میں پھیل جاتی ہیں۔ یہ چین کے مختلف علاقوں میں مختلف شاہی خانوادوں خصوصاً ِچنخانوادے (1115-1234ء) کی فرمانروائی کا دور ہے۔ چنگیز خاں کا دمِ واپسیں ہے۔ اس کے بیٹے اور پوتے نہ صرف چین کے دیگر شاہی خانوادوں کا خاتمہ کرتے ہیں بلکہ وسط ایشیا کے علاقوں، سمر قند، بخارا، ہرات وغیرہ میں فتح کے پھریرے لہراتے ہیں، کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کرتے ہیں۔ اور پھر دیوارِ چین کے اِس پار قبلائی خان 1271ء میں شہنشاہِ چین کی حیثیت سے یوان شاہی خاندان(1271-1386ء) کی بنیاد رکھتاہے ۔اسے خاقانِ چین، قاآنِ چین، فغفورِچین کے القاب بھی دیئے جاتے ہیں۔اسے چینی شاہی نام’’شی چو‘‘(دورِ فرمانروائی 1260ء تا 1294ء) اور دارالحکومت پیکنگ کو ’’خان بالیق‘‘ کانام دیا جاتا ہے۔دیکھا جائے تو یہاں سے ہی آنے والے اس دور کی ابتدا ہوتی ہے، جب دیوارِ چین اپنی دفاعی اہمیت سے محرومی کا آغاز کرتی ہے۔ لیکن نہیں رکیے ذرا۔ ابھی ایک دو ایسے زمانے آگے چل کے بھی آئیں گے۔ ہم اور آپ ساتھ ساتھ جو چل رہے ہیں۔
قبلائی خان کے دور میں سارا چین ایک بار پھر سیاسی طور پر متحد اور ایک ہی پرچم تلے آتا ہے۔ چین کی تاریخ میں پہلی بار تبت کو بھی براہِ راست مرکزی حکومت کے تحت ایک انتظامی یونٹ یا صوبے کا درجہ دیا جاتا ہے۔ آج کا سنکیانگ (شین چیانگ]نئی سرحد[) اور منگولیا میں بہنے والے دریائے ہئی لونگ(سیاہ اژدہا) کے شمال اور جنوب میں واقع علاقے قلمروئے یوان کا حصہ بن جاتے ہیں۔ چین میں آباد متنوع ثقافتوں کی حامل قومیتوں کے مابین روابط اور میل جول مستحکم کیا جاتا ہے اور سب مل کر مادرِ وطن کی یکجہتی اور معاشی اور ثقافتی پیش رفت کو ِجلادیتے ہیں۔ اس زمانے میں دارالحکومت پیکنگ کا ایک نام’’تا ُتو‘‘ بھی سامنے آتا ہے۔تقریباً تین ہزار سال کی تاریخ کا حامل یہ شہر (جہاں زندگی کے کم و بیش چودہ برس مَیں خود بھی گزارتاہوں)مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا رہا ہے۔کبھی اسے ئین چینگ کہا گیا، کبھی یہ پئی پھینگ کہلایا۔ مار کو پولو اور ابنِ بطوطہ قبلائی خان کے دور ہی میں چین کی سیاحت پر آتے ہیں اور مار کوپولو تو دربارِ شاہی میں با قاعدہ عہدیدار کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیتا ہے۔ مارکوپولو کہتا ہے کہ یہ متمول لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں بازار میں دیس بدیس کی چیزیں ملتی ہیں۔ دنیا کا کوئی شہر فراوانی میں تا ُتو کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے واپس جاکر یورپ والوں کو چین کی ترقی اور خوشحالی کے بارے میں بتایا تو اُسے دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا قرار دیا گیا۔ مار کو پولو نے حیرت ہے کہ دیوارِ چین کے بارے میں کچھ نہیں لکھا۔ لہٰذا، صدیاں بیتنے کے بعد بھی ّمحقق سوال اٹھاتے رہتے ہیں کہ مار کو پولو چین آیا بھی تھا یا نہیں؟ اور ابنِ بطوطہ نے تو چین کے ساحلی شہر چھوان چوکو’’زیتون‘‘ کا نام دیا، جھیلوں اور بیدِمجنوں کے شہر ہانگ چو کو(جسے چینی دیو مالا میں’’فردوس برروئے زمیں‘‘ کہا جاتا ہے)خنسا لکھا،وہاں کے قصّہ سراؤں کے انداز گویائی میں بے خود پیکن یا خان بالیق پہنچ کر دیوارِ چین کو ’’یا جوج ماجوج کی دیوار‘‘کہہ کے قصّہ ہی پاک کردیا۔
اب ہم 1386ء سے ایک ہی زغندبھرتے ہوئے1644ء میں پیکنگ سے واپس’’آسمان تلے پہلا دروازہ‘‘ یعنی شان ہائے کوان آتے ہیں۔ یہاں مینگ شاہی خاندان کا جرنیل دو سان کوئے کمان کررہا ہے۔ کسانوں پرمشتمل باغی فوج لی زی چھنگ کی زیرِقیادت پیکنگ میں داخل ہوچکی ہے۔ آخری مینگ شہنشاہ چھونگ ِچن پیکنگ کی چینگ شان(کوئلہ پہاڑی) پر پھندا لگا کر خودکُشی کرچکا ہے۔ شان ہائے کوان کا جرنیل کسانوں سے بچنے کے لیے ایک اور منگول قبیلے نیوچن کی شاخ مانچو قبیلے کی فوجوں کے لیے دیوارِ چین کے اس درّے کے دروازے کھول کر ہتھیار ڈال دیتا ہے ۔ وہ اور اس کے نئے آقا مل کر کسان بغاوت کو کچل دیتے ہیں اور مئی 1644ء میں مانچو قبیلے کا خانِ اعظم ہوانگ تھائے چی، شہنشاہ شون چی کا لقب اختیار کرکے پیکنگ کے شاہی محل(شہرِممنوعہ ) میں داخل ہو جاتا ہے۔ چین میں’’عظیم چھینگ شاہی خانوادے کی فرمانروائی کا آغاز ہو جاتا ہے جو 1911ء تک جاری رہتی ہے۔
یہاں دیوارِ چین کی دفاعی اہمیت اور حیثیت بالآخر اختتام کو پہنچتی ہے۔
شان ہائے کو ان…آسمان تلے پہلا دروازہ…سامنے ُپر سکون سمندر ہے۔ بحیرۂ پوہائے ُپر سکون ہے تو گہرا بھی ہوگا، کہ کہا تو یہی جاتا ہے کہ سمندر جتنا گہرا ہوگا اس کی سطح اتنی ہی ُپر سکون ہوگی۔ انسان کے لیے بھی یہی بات محاورتاً کہی جاتی ہے۔ تو پھر طوفان کیا ہے؟ طوفان تو اس میں کئی بار آیا۔ جب جب اس راہ سے وحشت، قتل و غارت گری، تاراجی کا گزرہوا، طوفان آیا۔ آخری طوفان تو شاید اس وقت اٹھا جب چینی محافظ جرنیل نے بیرونی فوجوں کے لیے درّے کے در کھولے۔ شان ہائے کو ان کی قلعہ بندی یان شان کی دو عمودی چٹانوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ ہمیشہ سے ایک کلیدی اسٹرٹیجک درّہ رہاہے جس پر مختلف ادوار میں نہ صرف قبضے کے لیے ماہرینِ جنگ کے درمیان مقابلہ ہوتا رہا بلکہ یہاں بہت سی جنگیں بھی لڑی گئیں۔ یہ ایک تنگ نائے ہے جو شمالی چین کو شمال مشرقی چین سے ملاتی ہے۔ چوکور قلعہ بندی کے چار دروازے ہیں اور دو منزلہ مشرقی دروازے کے اوپر ایک مستطیل تختے پر جہازی سائز کے چینی الفاظ میں لکھا ہے’’ آسمان تلے پہلا دروازہ۔‘‘یہی الفاظ نشاندہی کرتے ہیں کہ یہ دیوارِ چین کا نقطۂ آغاز ہے ۔ یہاں پہنچ کر مَیں پھر رک جاتا ہوں ۔ یہ نقطۂ آغاز ہے تو نقطۂ اختتام کون سا ہے؟ 6ہزار کلو میٹر دور چیایوی من دروازہ بھی دیوارِ چین کا نقطۂ آغاز ہے ۔ منطق کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ہرآغاز، اختتام بھی ہوتا ہے اور ہر اختتام ، آغاز بھی ۔لہٰذا ہم اس جھمیلے میں پڑتے ہی نہیں۔ یہ قلعہ بندی کے اوپر جو توپیں رکھی ہیں، اب سے کوئی تین سو برس پہلے مینگ عہد میں دشمن پر گولہ باری کے لیے نصب کی گئی تھیں لیکن اُسی عہد کے محافظ جرنیل نے، جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، ان توپوں کے رخ نیچے کرکے دشمن کے لیے دروازے کھول دیئے تھے -- ایسا ہوتا ہے اور ایسا ہوتا آیا ہے-- اب دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ یہ شکستہ دفاعی قلعہ بندیوں ، دیدبانوں اور فوجی بیرکوں کے نشان اور آثار ہیں ۔ یہ دراصل اگلے اور پچھلے دفاعی مورچے تھے۔ لیکن محافظ جرنیل نے شان ہائے کو ان کے دروازے دشمن پر کھول کے گویا پوری چینی قلمرو دشمن کے قدموں میں رکھ دی تھی۔
یہ دیکھئے۔ یہ پیکنگ سے کوئی 85کلو میٹر کے فاصلے پر گزرتی دیوارِ چین کا حصہ ہے ۔ اس جگہ کا نام پاتالینگ ہے۔ اسے موجودہ زمانے میں اس تاریخی ورثے کا بہترین طریقے پر محفوظ شدہ حصہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔ دنیا بھر سے، دیوارِ چین دیکھنے، اس کی بلندی پر کھڑے ہو کر اپنے آپ کو سر بلند سمجھنے، اسے محسوس کرنے، اس کے دونوں جانب عمودی اور ڈھلوان پہاڑی راستوں اور پگڈنڈیوں اور رفعتوں کو چھوتی اس کی سیڑھیوں پر چڑھنے، یہاں کھڑے ہو کر تصویریں بنانے اور بنوانے کے لیے دنیا بھر سے ہر رنگ و نسل کے سیاّح امڈے پڑتے ہیں ۔ پیکنگ سے ایک شاہراہ اونچی نیچی پہاڑیوں میں چکر اور بل کھاتی دیوار کے دامن تک پہنچتی ہے ۔ اب تو اس شاہراہ کو مزید کشادہ کیا جا چکا ہے۔ یہاں پہاڑ سر سبز و شاداب ہیں۔ دیوار کے دونوں جانب کنگوروں سے جھانک کے دیکھیں تو عمودی شکل میں گھنے درخت اور جھاڑ نظر کے ساتھ ساتھ گہرائی تک چلے جاتے ہیں ۔ یہاں پہاڑ کی پھننگ پر دیوار کی اونچائی ساڑھے آٹھ میٹر اور چوڑائی تقریباً چھ میٹر ہے یعنی پانچ افراد شانے سے شانہ ملائے چل سکتے ہیں۔ دیوار کے دونوں جانب منڈیریں، موکھے، جھرو کے، تیر اندازوں کے لیے کنگورے اور بارش کے پانی کی نکاسی تک کے لیے نالیاں بنائی گئی ہیں ۔ ہر 100 میٹر کے فاصلے پر دو منزلہ دیدبان ہیں۔ دید بانوں کی بالائی منزل دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لینے کے لیے بنائی جاتی تھی جب کہ پہلی منزل پر فوجی تعینات ہوتے تھے۔ پاتالینگ کے مقام پر سب سے بلند دیدبان ایک ایسی پہاڑی چوٹی پر بنا ہوا ہے جہاں انتہائی عمودی انداز میں چڑھ کر ہی پہنچا جاسکتا تھا۔ اسے’’سیڑھی لگا کر آسمان پہ چڑھنا‘‘ بھی کہا جاتا تھا۔ یہاں دیوارِ چین پہاڑی نشیب و فراز پر پینگ کی طرح ہلارے لیتی، دائیں بائیں گھومتی سی لگتی ہے اور آخر دور افق پر پھیلے بادلوں اور دھند میں کھو جاتی ہے ۔
1949ء میں آزادی کے بعد چیئر مین ماؤ زے تونگ نے شہرِ ممنوعہ کی پیشانی کے دروازے’’تھیان آن من‘‘ (دائمی امن کا دروازہ) سے یکم اکتوبر 1949ء کو نئے چین کے قیام کا اعلان کیا ۔ یہ عوام کا چین تھا۔ شاہی خانوادوں کا نہیں۔
پاکستان سے جن اوّلین لوگوں نے بطور ّسیاح دیوارِ چین پر قدم رکھا وہ پاکستانی صحافی تھے۔ یہ واقعہ 1956ء کا ہے ۔ پاکستان کے وزیر اعظم چوہدری محمد علی جون 1956ء میں حکومتِ چین کی دعوت پر چین کا سرکاری دورہ کرنے والے تھے۔ ان کے ساتھ پاکستانی اخبار نویسوں کا ایک وفد بھی آرہا تھا۔ اخبار نویس پہلے پہنچ گئے اور وزیر اعظم کا دورہ سیاسی یا حقیقی علالت کے سبب ملتوی ہوگیا۔ چینی حکومت اور صحافیوں نے پاکستانی صحافیوں کو سر آنکھوں پر بٹھایا ۔ انہیں پندرہ روز تک چین کی سیر کرائی اور حالات و واقعات سے آگاہ کیا ۔ اس وقت، اور بعد کے بھی ممتاز صحافی ارشاد حقانی نے اپنے اس سفر کی روداد لکھی۔ اس وفد میں روزنامہ پاکستان ٹائمز کے فیض احمد فیضؔ، روزنامہ زمیندار کے مولانا اختر علی خاں، روزنامہ امروز کے احمد ندیم قاسمی، روزنامہ تسنیم کے ارشاد حقانی(جو اس وقت صرف ارشاد احمد تھے )، روزنامہ ڈان کے اختر عادل رضوی، روزنامہ جنگ کے میر خلیل الرحمن، روزنامہ مارننگ نیوز کے ّسید محسن علی،ایسوشی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مختار زمن، روزنامہ پاکستان آبزرور کے رزاق علی، روزنامہ آزاد کے شہادت حسین، روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کے فضل محمود، روزنامہ انجام کے عمر فاروقی او ر ماہنامہ ّنقادکے ظفر نیازی شامل تھے۔
دیوارِ چین پر قدم رکھنے والے یہ اوّلین پاکستانی اپنی جگہ تاریخی اہمیت رکھتے ہیں ۔ اس کے بعد بہت سے لوگ آئے گئے۔ اور مجھے یہ اعزاز اکتوبر 1967ء میں اسی پاتالینگ کے مقام پر حاصل ہوا ۔
آئیے پھر دیوارِ چین کے مقامِ اختتام چیایوی من چلتے ہیں ۔ اس کے بارے میں ایک اور بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ صوبہ کانسو کے اس لق و دَق علاقے میں یہ قلعہ بندی 1372ء میں مینگ شہنشاہ چویوان چانگ کے عہدِ حکومت میں تعمیر ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ماہر نقشہ نویسوں نے جب اپنا کام پورا کرلیا تو کاریگروں اور معماروں نے اس عظیم ا ّلشان چوکور عمارت، آمنے سامنے کے رخ کھڑے مشرقی اورمغربی ٹاوروں کے لیے ناپ تول کے ساتھ پتھر تراشے اور اینٹیں پکالیں ۔ ان کے اندازے اتنے درست تھے کہ جب تعمیرات مکمل ہوئیں تو صرف ایک اینٹ بچی جو اضافی تھی۔ یہ اینٹ آج بھی قلعہ بندی کے ایک ٹاور میں نشانی کے طور پر رکھی ہے۔
دیوارِ چین کے ساتھ ساتھ چلیں تو یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بہت سے ایسے مقامات پر دیوار کا’’پیٹ ’’زمین‘‘یا پہاڑ کی پھننگ کے ساتھ لگ چکا ہے، جہاں کبھی وحشی گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے اور پھر دھیرے دھیرے وہاں کے تمدن نے انہیں اپنے دامن میں سمیٹ کر ان کی انفرادیت معدوم کردی۔ جب دیوار اور دفاع کی ضرورت ہی نہ رہی تو پھر مرمت اور اسے بر قرار رکھنے کا کیا کام؟ دیوار کی طوالت کے ساتھ ہمیں اب، خصوصاً شمال مغرب میں تیل کے چشمے اور تیل لیجانے والی عظیم ا ّلجثہ پائپ لائنیں ملتی ہیں، کہیں جوہری توانائی کے مراکز نظر آتے ہیں، کہیں صحراؤں کے کناروں پر اُڑتی ریت روکنے اور زمین کو قابلِ کاشت بنانے کے لیے پیڑوں کی آٹھ آٹھ دس دس رویہ قطاریں ملتی ہیں-- نتیجہ! انسان عظیم ہے!
اس رپورتاژ میںبعض مقامات پر یقینا تشنگی محسوس ہوگی۔ یہ موضوع شاید ایسا نہیں کہ بس کوزے میں بھر دیا جائے ۔ ماضیٔ بعید کے یہ وحشی لوگ انجانے راستوں سے گزرے اور ہمیں ان کی موجود ہ نسلیں بنگال کے دو رافتادہ علاقوں تک میں ملتی ہیں ۔ وہ خان تھے تو وہاں پہنچتے پہنچتے ’’کھان ‘‘ ہوگئے۔ یہ ادھوری کہانیاں، ادھورے تذکرے پھر سہی!