حمیرا اطہر
مولانا محمد علی جوہر ؔنے ہجری حساب سے اپنی عمر کے پچاس برس مکمل ہونے پر 17جون 1927ء کو اپنے اخبار’’ہمدرد‘‘ میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا ابتدائیہ کچھ یوں تھا:
’’جس خالق نے مجھے15 ذی الحجہ1295ھ (10دسمبر1878ء ) کو پیدا فرمایا تھا، اُس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آج بتاریخ 15ذی الحجہ1345ھ کو مَیں نے اپنی عمر کے پچاس سال پورے کیے۔ اس پوری مدت پر نظر ڈالتا ہوں تو عجیب خیالات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔17رمضان المبارک 1297ھ کو میرے والد (عبدالعلی خان )نے بعارضۂ ہیضہ کوئی تیس بتیس سال کی عمر میں وفات پائی۔ اُس وقت میری والدہ مرحومہ کی عمر محض ستائیس اٹھائیس سال کی تھی ۔ انہوں نے سوائے قرآن پاک کے کچھ نہ پڑھا تھا۔ اُسی کی مدد سے خود اردو کا بین ا ّلسطور ترجمہ پڑھنے کی استعداد پیدا کرلی تھی۔ والد نے تیس بتیس ہزار روپے کا قرضہ اور پانچ لڑکے اور ایک لڑکی چھوڑی تھی۔ جس میں سب سے بڑے کی عمر تیرہ سال کی تھی جو تین برس ہی کی عمر میں مرگی کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئے۔ سب سے چھوٹا مَیں خود تھا جس کی عمر اس وقت پونے دوسال کی تھی۔ مجھے والد مرحوم بالکل یاد نہیں، مگر والدہ مرحومہ کو کبھی نہیں بھول سکتا۔ علاوہ اِس فیضِ گراں مایہ کے جو شوکت صاحب کی محبت، نگرانی اور ترغیب وتحریص کی بدولت مجھے نصیب ہوا ہے۔ مَیں جو کچھ ہوں اور جو کچھ میرے پاس ہے ، وہ خداوند ِ کریم نے مجھے اُسی مرحومہ کے ذریعے سے عطافرمایا ہے۔ والد مرحوم کی وفات کے دن سے خود گھر کی بوڑھی ماماؤں کا سا سادہ اور سستا لباس پہنا، اوران ہی کی طرح روکھی سوکھی کھا کر گزر کی، مگر ہمارا کوئی سوال رد نہیں کیا اور ہمین اُسی عیش وآرام میں رکھا، پالا اور بڑا کیا، جو ہمارے اُن چچاؤں کی اولاد کے عیش وآرا م سے کسی طرح کم نہ تھا بلکہ کچھ زائد ہی تھا جو بفضلِ تعالیٰ والد مرحوم کی وفات کے وقت زندہ اور سلامت تھے، جن کی جائیدادوں پر قرضے کا وہ بوجھ نہ تھا جو ہمارے ترکے پر تھا اور جو ریاست رام پور میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز تھے۔ والدہ مرحومہ نے ہی اُن سب سے پہلے ہمیں گھر سے نکال کر بریلی اسکول میں تعلیم کے لیے بھیجا۔ اور سب تو اسکول چھوڑ چھوڑ کر گھر چلے گئے مگر ہماری تعلیم جاری رہی۔‘‘
بلاشبہ یہ اُن کی والدہ ’’بی امّاں‘‘ ہی تھیں جن کی صحیح تعلیم وتربیت نے محمد علی کو تحریک ِ آزادی کا ایک عظیم مجاہد اور مسلمانانِ ہند کی ایک عظیم شخصیت بنادیا۔ اُنہوں نے بریلی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ کالج سے بی اے کا امتحان اوّل درجے میں پاس کیا۔ پھر تاریخ میں آنرز بھی کیا۔ یہ تعلیمی ادارہ سرسیّد احمد خان کی گویا زنبیلِ علم تھی، جس نے جوہرؔ کو اور بھی تاب دار کیا۔ انہیں اپنے خاندان میں آکسفورڈ کا پہلا گریجویٹ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ وہ انگریزی کے بہت بڑے ادیب، اردو کے بے باک صحافی،اعلیٰ مبصر، ماہر نقاد، انشا پرداز، بے لوث سیاست داں اور شعلہ بیاں مقرر تھے۔ وہ مخالفت اورمقابلے میں بے باک اور بے پناہ تھے۔ چھوٹوں پر شفقت کرتے۔ اُن کی دل داری اور دل آسائی کرتے۔ اس بلا کے بولنے والے تھے کہ بولتے تو معلوم ہوتا، بوالہول کی آواز اہرام ِ مصر سے ٹکرا رہی ہے۔ لکھتے تو لگتا کہ کرَپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج محل کا نقشہ مرتب ہو رہا ہے۔
محمد علی نے علی گڑھ میں زمانۂ طالب علمی ہی سے لکھنا شروع کردیا تھا۔ رسالہ ’’علی گڑھ منتھلی‘‘ میں ایک مضمون لکھا تو دھوم مچ گئی۔ ان کے اساتذہ نے بھی بہت تعریف کی ۔ علی گڑھ کالج کے مشہور انگریز پرنسپل ماریسن نے محمد علی سے کہا: ’’تم ایک زمانے میں انگریزی کے بے مثل ادیب ہوگے۔‘‘ مشہور اور عظیم انگریزی ادیب ایچ۔ جی۔ ویلز(H.G.Wells) نے محمد علی جوہرؔ کی قابلیت کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے:
’’محمد علی کا دل نپولین کا دل تھا، اس کا قلم میکالے کا قلم تھا اور اس کی زبان برک کی زبان تھی۔‘‘
محمد علی نے ’’ٹائمز آف انڈیا‘‘ اور ’’آبزرور‘‘ میں سیاسی مضامین لکھ کر صحافت کا آغاز کیا۔ لندن سے واپسی پر کچھ عرصہ ملازمتیں کیں لیکن یہ شاید ان کا مزاج نہیں تھا۔ 1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تواس کے بانیوں میں مولانا محمد علی بھی شامل تھے۔ 1910ء کے ختم ہوتے ہوتے انہوں نے میر محفوظ علی کے مشورے اور تعاون سے انگریزی کا ایک ہفتہ وار نکالنے کا منصوبہ بنایا اورملازمت چھوڑ کر 14جنوری 1911ء کو کلکتہ سے انگریزی ہفت روزہ کا مریڈ(Comrade) نکالا۔ اسے برصغیر کے ہندو اورمسلمان عوام وخواص نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ انگریز بھی اسے شوق سے پڑھتے تھے۔ حکومت کے بڑے بڑے افسر بھی کامریڈ میں لکھی گئی انگریزی کے قائل تھے۔ وائسرائے لارڈ ہارڈنگ کی بیوی کو کامریڈ اتنا پسند تھا کہ وہ اکثر ٹیلی فون کرکے پوچھتیں کہ کامریڈ کب شائع ہوگا؟ وائسرائے کو کامریڈ کی ایک کاپی بھیجی جاتی تھی جسے وہ خود ہفتے بھر تک نہ چھوڑتے تھے۔ لہٰذا لیڈی ہارڈنگ کو ایک اور کاپی اپنے نام قیمت دے کر جاری کرانا پڑی کیونکہ وہ اتنا انتظار برداشت نہیں کرسکتی تھیں کہ شوہر کے پڑھنے کے بعد انہیں کامریڈ ملے۔
غرض کامریڈ نے اخباری دنیا میں ایک تہلکہ مچادیا۔ اس اخبار کی حق گوئی، بے باکی اور عوام دوستی بہت جلد اس کی عالم گیر شہرت کا سبب بن گئی۔ اس میں دنیائے اسلام کے واقعات پر مبنی مضامین بھی شائع ہوتے تھے ۔ یوں اس اخبار نے نہ صرف مسلمانوں کی حمایت کا پورا پورا حق ادا کیا بلکہ دوسرے ممالک کے مسلمانوں کی حمایت میں بھی بہت کچھ لکھا۔
انہوں نے جنوبی ایشیا کو مختلف النّوع اقوام کا وطن ثابت کرتے ہوئے لکھا کہ:
’’ہندوستان کے مسائل کی نوعیت اتنی قومی نہیں جتنی بین الاقوامی ہے اور بین الاقوامی قانون میں کسی ملک کی عددی طاقت پیشِ نظر نہیں ہوتی۔ اس قانون کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ اس میں آباد سب قومیں برابر کی حیثیت رکھتی ہیں اور مسلمان ان تمام اقوام میں کامل برابری کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔
(کامریڈ، 14 جنوری 1911ء )
محمد علی جوہرؔ کا کہنا یہ تھا کہ جنوبی ایشیا میں کینیڈا کے انداز کا اتحاد بھی ممکن نہیں۔ اس بارے میں اُن کے یہ جملے بھی قابل غور ہیں:
’’ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان اگر کینیڈا کے انداز کے اتحاد کا روپ دھارا گیا تو یہ اتحاد شاعری اور امید کی تخلیق کی ہوئی محبت کی شادی نہیں ہوگی۔ کیوں کہ اس قسم کی شادی کا محرک جذبہ محض فریقین کی سہولت پر نہیں ہوگا۔ یہ نکاح اگر عزت کے ساتھ کیا جائے اور احترام کے ساتھ قائم رکھا جائے تو اس صورت میں اسے بُرا نہیں سمجھنا چاہیے۔‘‘
(کامریڈ، 14 جنوری 1911ء)
اِن اقتباسات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی کے نزدیک متحد ہندوستان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا اور ہندوستان میں اُن کے نزدیک ایک نہیں دو قومیں آباد تھیں جن کی حیثیت ایک دوسرے کے مساوی تھی اوراگر ان کے بارے میں ملاپ اورمیل کا کوئی تصوّر پیدا بھی کیا جائے تو یہ کوئی قدرتی نہیں بلکہ مصنوعی اورمصلحتی ہوگا۔
کامریڈ کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہندوستان کے وزیر ِمالیات سرفلیٹ وڈ ولش جب انگلستان واپس جانے لگے تو محمد علی ان سے ملنے گئے ۔ باتیں کرتے کرتے وہ محمد علی کو اس کمرے میں لے گئے جہاںان کا سامانِ سفر بندھ رہا تھا اور ایک بنڈل کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ دیکھو یہ کیا ہے؟ محمد علی نے دیکھا کہ وہ ’’کامریڈ‘‘ کے پرچے ہیں۔ سر فلیٹ نے کہا کہ یہ مَیں ’’لندن پنچ‘‘ کے ایڈیٹر کے لیے تحفہ لے جارہا ہوں۔ محمد علی نے بتایا کہ ان کو تو کامریڈ پابندی سے بھیجا جاتا ہے، تو کہنے لگے کہ ’’وہ اور بات ہے ، مَیں اپنے دوست سراون سیمن کے لیے ہندوستان سے اس سے بہتر تحفہ نہیں لے جاسکتا۔‘‘
1912ء میں جب دارالحکومت کلکتہ سے دہلی منتقل ہوگیا تو مولانا محمد علی نے بھی دہلی کو اپنا مسکن بنایا اور کامریڈ بھی 12 اکتوبر1912ء سے دہلی سے نکلنے لگا۔ تاہم وہ آزادی اور اتحاد کی آواز عوام تک پہنچانے کے لیے انگریزی ہفت روزہ کامریڈکو کافی نہ سمجھتے تھے، اسی لیے 13فروری 1913ء کو ایک ورقی اردو اخبار’’ہمدرد‘‘ جاری کیا جو اس سال 13مئی سے چار صفحات یعنی دو ورق کا کردیا گیا۔ پھر یکم جون 1913ء سے باقاعدگی سے آٹھ صفحات کا ہوگیا۔ اب محمد علی جوہرؔ صرف ایڈیٹر ہی نہ تھے بلکہ صحیح معنوں میں لیڈر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں وہ تمام صلاحیتیں اور کمالات بہ درجۂ اَتم عطا فرمائے تھے جو ایک قومی درجے کے بلندپایہ رہنما کے لیے لازمی ہوتے ہیں۔ خطابت کی جادوگری ہو یا صحافت کی سحرآفرینی، وہ ہر جگہ مردِ میدان تھے۔ ان کی شخصیت میں خلوص کی دلآویزی کے ساتھ پارے کی سیمابی اوربجلی کی تڑپ بھی تھی۔ وہ ایک منفرد قلندرانہ شان رکھتے تھے۔ سچائی اُن کا اصل جوہر تھا۔ مایۂ ناز دانشور مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے اپنی کتاب’’ذاتی ڈائری‘‘ میں محمد علی جوہرؔ کا تعارف یوں تحریر کیا ہے۔
’’ایک ایسا شخص جو ایک طرف وزیرِ ہند مسٹر مان ٹیگو اور وزیرِاعظم برطانیہ لائیڈ جارج کے سامنے لندن میں گھنٹوں مسئلۂ خلافت پر آزادانہ تقریر کرسکتا ہو، جو عین ہیجان ِمخالفت میں لندن اور پیرس کی بڑی بڑی مجلسوں میں تُرکوں کی حمایت میں مدلل اور شگفتہ وبرجستہ خطاب کرسکتا ہو، جو وائسرائے اور گورنروں کے سامنے قوانین کے سلسلے میں مخالفانہ بحثیں کرکے انہیں قائل کرسکتا ہو۔ اخبار کامریڈ میں سیاستِ حاضرہ اور مذہب پر دس دس اور بیس بیس کالم کے مضامین بہترین ادب وانشاء کے ساتھ سپردِقلم کر سکتا ہو، انگریزوں کی کلب لائف میں ایسا گھل مل جائے کہ انہی میں سے معلوم ہواور دوسری طرف مسجد کے منبر پر وعظ کہنے کھڑا ہوتو روتے روتے اپنی داڑھی بھگولے اور سننے والوں کی ہچکیاں بندھ جائیں۔ محفلِ سماع میں بیٹھے تو اس کا وجد وحال دیکھ کر دوسروں کو وجد آجائے۔ مسئلۂ قتلِ مُرتد پر جب فقہی استدلال شروع کرے تو اچھے اچھے اہلِ علم اَش اَش کر اُٹھیں۔ آزاد خیال اتنا کہ ہر کلمہ گو کواپنا حقیقی بھائی سمجھ لے، نماز کا پابند اتنا کہ برطانوی پارلیمنٹ کے برآمدے میں بھی مصلیٰ بچھا کر کھڑا ہوجائے۔ دلیر اتنا کہ سلطان ابنِ مسعود والئی نجد وحجاز کے منہ پر بھرے مجمع میں سب کچھ کہہ سن کر رکھ دے۔ ادیبوں کی محفل میں ادیب، شاعروں کی مجلس میں غزل گو، اہلِ سیاست کی صف میں ممتاز اور عوام وخواص دونوں کے اعتماد وعقیدت سے سرفراز۔‘‘
کامریڈ روز بہ روز مقبولیت کی منازل طے کر رہا تھا کہ 1914ء میں ’’لندن ٹائمز‘‘ نے ایک مضمون ’’دی چوائس آف ٹرکس‘‘ شائع کیا۔ اس اشتعال انگیز مضمون میں ترکوں کو دھمکیاں دے کر کہا گیا تھا کہ وہ اتحادیوں کے خلاف جنگ نہ کریں ورنہ ان کے حق میں اچھا نہ ہوگا۔ اُس زمانے میں بیگم محمد علی شدید بیمار تھیں اور انہیں رات رات بھر جاگ کر ان کی تیمار داری کرنی پڑتی تھی۔ مسیح الملک حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر مختار احمد انصاری بار بار آکر مریضہ کو دیکھتے تھے۔ ان ہی حالات میں محمد علی نے اس مضمون کے جواب میں اسی عنوان سے وہ مضمون لکھا جس نے ان کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ انہوں نے وہ مضمون چالیس گھنٹے لگاتار بغیر کچھ کھائے پیئے محنتِ شاقہ کے بعد سپردِ قلم کیا جس میں برطانوی حکومت کی ترکوں کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کو بیان کیا گیا تھا۔ محمد علی کے اسٹینوگرافر نے کامریڈ کے سب ایڈیٹر راجا غلام حسین کو چپکے سے خبر کردی کہ محمد علی صاحب ایک بہت سخت اور تلخ مضمون لکھوا رہے ہیں۔ راجا غلام حسین نے حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر انصاری سے اس کا ذکر کیا اورکہا کہ میری رائے تو نہیں ہے کہ اس وقت ایسا مضمون لکھا جائے۔ ان دونوں نے بھی محمد علی کو یہی رائے دی کہ اس وقت یہ مضمون شائع نہ کیا جائے مگر محمد علی نہ مانے۔ راجا غلام حسین نے گھبرا کر سیّدمحفوظ علی کو تار دے کر بدایوں سے بلوایا۔ انہوں نے بھی محمد علی کو سمجھانا چاہا مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور جواب دیا:
’’مَیں جانتا ہوں کہ مَیں نے اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کیے ہیں، مگر اب میں رائے قائم کرچکا۔ جو ہونا تھا وہ ہوچکا، اب کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘
آخر مضمون شائع ہوا تو اس کا نتیجہ بھی وہی نکلا جس کا اندیشہ تھا۔ کامریڈ کا پریس ضبط کرلیا گیا۔ یوں ستمبر1914ء میں کامریڈ بند ہوگیا۔
محمد علی نے ضمانت کی ضبطی کے فیصلے کے خلاف اپیل کی اور خود ہی پیروی کی۔ جب وہ عدالت میں بحث اور جرح کر رہے تھے تو وکیلوں اوربیرسٹروں کی بھیڑ جمع تھی۔ ہر شخص حیرت سے سن رہا تھا۔ باہر نکلے تو ہندو، مسلمان بیرسٹر اوروکیل سب کے منہ سے بیک وقت یہ جملہ نکلا:
’’مسٹر محمد علی ! کاش آپ بیرسٹر ہوتے۔‘‘
محمد علی نے جواب دیا: ’’اب بھی جو کچھ ہوں اس کی کون سی قدر ہو رہی ہے جو بیرسٹری میں ہوتی۔‘‘
15 مئی 1915ء کو محمد علی اوران کے بھائی شوکت علی کو پانچ سال کے لیے نظربند کردیا گیا اور ہمدرد بھی بند ہوگیا۔ دونوں بھائیوں کو پہلے دہلی کے قریب مہر ولی میں نظر بند کیا گیا بعدازاں انہیں لینسڈائون بھیج دیا گیا۔ وہاں سے کچھ عرصے بعد چھنڈواڑہ پہنچا دیا گیا جو صوبہ سی پی کا ایک شہر ہے۔ کئی سال وہاں نظر بند رکھنے کے بعد علی برادران کو بیتول جیل بھیج دیا گیا۔ گویا اب تک ایک گھر میں نظر بند تھے لیکن اب باقاعدہ جیل میں بند کردیے گئے۔
زمانۂ قید کا ایک واقعہ ہے کہ بی اماّں نے اپنے دونوں بیٹوں سے ملنے کے لیے حکومت کو درخواست دی۔ انہیں محمد علی سے ملنے کی اجازت تو مل گئی مگر شوکت علی سے ملنے کی اجازت نہیں ملی کیوں کہ جیل میں ان کی بعض ’’حرکتوں‘‘ کی وجہ سے ان سے یہ رعایت چھین لی گئی تھی۔ اُس وقت مولانا محمد علی نے نہایت ایثار سے کام لے کر پُرلطف مگر محبت آمیز پیرائے میں بی امّاں کو لکھا:
’’میری جنّت یا تلواروں کی چھاؤں میں ہے یا آپ کے قدموں کے نیچے ہے۔ تاہم، مجھے یہ قبول ہے کہ آپ کو دیکھے بغیر آپ سے ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں، مگر یہ ہرگز قبول نہیں کہ مَیں آپ کے دیدار سے سعادت اندوز ہوا کروں اور شوکت کی آنکھیں اس نظارے کو ترساکریں۔ وہ ہر حالت میں مجھ سے کہیں زیادہ آپ کی محبت اور اس انعام کے مستحق ہیں۔‘‘
یہ عبارت دنیا کے ہر ادب کے لیے باعثِ فخر ہے کیوں کہ اس میں نہ صرف ماں کے احترام کو نہایت خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے بلکہ بڑے بھائی کی عزت کو بھی خوب صورتی سے نباہا گیا ہے۔
تقریباً ساڑھے چار برس کی نظر بندی اور قید کے بعد 28 دسمبر 1919ء کو اُنہیں رہائی ملی تو علی برادران گھر جانے، اہل وعیال سے ملنے اور آرام کرنے کے بجائے سی پی سے بارہ سو میل دور سیدھے امرتسر پہنچے۔ امرتسر میں اس وقت کانگریس، مسلم لیگ اور خلافت کے اجلاس ہورہے تھے۔ راستے میں اُن کا جس اسٹیشن سے بھی گزرہوا، ہندوؤں اور مسلمانوں نے پُرجوش استقبال کیا۔ امرتسر اسٹیشن پہنچے تو وہاں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ زبردست نعروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا۔ جلوس کی شکل میں آل انڈیانیشنل کانگریس کے اجلاس میں لے جایا گیا۔ پنڈال کے دروازے پر گاندھی جی، پنڈت مدن موہن مالویہ اور دوسرے بڑے بڑے لیڈروں نے خیرمقدم کیا۔
محمد علی نے روزنامہ ہمدرد کے 4جنوری 1927ء کے شمارے میں لکھا تھا: 1919ء کی کانگریس سے جو مظلوم پنجاب کے مظلوم ترین شہر امرتسر میں منعقد ہوئی تھی، ہندوستان کی سیاسیات کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ پانچ برس کی نظر بندی اور قید کے بعد جب مَیں بیتول جیل سے نکل کر سیدھا امرتسر آیا اور پہلی بار کانگریس کا ممبر بنا تھا تو اس تبدیلی کو دیکھ کر مَیں نے اپنے ایک ہم وطن کا شعر کانگریس کے اجلاس میں اپنی تقریر کے دوران پڑھا تھا۔
صد سالہ دور ِ چرخ تھا ساغر کا ایک دور
نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی
(یہ شعر گستاخ رام پوری کا ہے جو خود تو زیادہ مشہور نہیں ہوئے البتہ یہ شعر ضرب المثل بن گیا۔)
سیاست اور صحافت کے ساتھ محمد علی جوہرؔ تعلیم خصوصاً اپنی مادر علمی، علی گڑھ کالج کی جانب سے بھی غافل نہ تھے۔ انہوں نے نہ صرف اینگلو اورینٹل کالج کو جو سرسیّد احمد خان کا دیر ینہ خواب تھا، اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کرانے کے لیے بھی کافی جدوجہد کی۔
محمد علی جوہرؔ نے 1924ء میں ایک مرتبہ پھر کامریڈ جاری کرنے کا ارادہ کیا لیکن حالات موافق نہ تھے، سرمایہ پاس نہ تھا، پرانے ساتھی بچھڑ چکے تھے۔ محمد علی کی سیاسی مصروفیات بہت بڑھ گئی تھیں۔ سب سے زیادہ یہ کہ وہ بیمار اورکمزور ہوگئے تھے۔ لیکن چوںکہ وہ صحافت کو عبادت سمجھتے تھے اس لیے تمام رکاوٹوں کے باوجود 31اکتوبر1924ء کو دہلی سے کامریڈ کا دوبارہ اجراء ہوا۔ اسے جاری رکھنے کے لیے محمد علی کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے تھے اور صحت کی خرابی کے باوجود کتنی محنت کرنی پڑتی تھی، اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ کبھی کبھی انہیں پوری رات جاگ کر کامریڈ کے لیے مضامین لکھنے پڑتے تھے۔ وہ اکثر مضامین بول کر سیکریٹری سے لکھوایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ محمد علی کو بلگام (ممبئی ) جانا تھا جہاں انہیں کانگریس کی صدارت کا چارج گاندھی جی کو دینا تھا اور خود خلافت کانفرنس کا چارج لینا تھا۔ وہ کامریڈ کے آخری پروف خود دیکھا کرتے تھے۔ وہ پروف دیکھ رہے تھے کہ ریل کا وقت ہوگیا اور کچھ پروف باقی تھے۔ موٹر میں بیٹھے تو ریلوے اسٹیشن تک پروف پڑھتے گئے۔ ریل گاڑی میں سوار ہونے کے بعد بھی پروف پڑھتے رہے۔ سیٹی بجی اورگاڑی چلنے لگی۔ محمد علی چلتی گاڑی میں سے پروف پڑھ پڑھ کر صفحات پھینکتے رہے اور کامریڈ کے دفتر کے لوگ گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہوئے انہیں اٹھاتے رہے۔ کامریڈ کے مضامین کا مرحلہ تو طے ہوگیا۔ تاہم، اداریہ لکھنا باقی تھا۔ محمد علی کا خیال تھا کہ وہ بلگام میں اداریہ لکھ کر ڈاک سے بھیج دیں گے لیکن وہاں کے سیاسی ہنگاموں اور جلسوں نے انہیں اس کی مہلت ہی نہ دی۔ یہاں تک کہ اخبار شائع ہونے کا وقت آگیا۔ آخر انہوں نے کسی نہ کسی طرح ایک طویل کوئی سات سوا سات کالم کا اداریہ لکھ ہی لیا۔ اب مرحلہ تھا اسے بھیجنے کا، کیوںکہ بلگام دہلی سے بہت دور ہے۔ ہوائی ڈاک کی آسانی بھی نہ تھی۔ چناںچہ انہوں نے پورا اداریہ تار کے ذریعے بھیجا۔ اس میں بھی قباحت یہ ہوئی کہ تقریباً دوڈھائی کالم کا اداریہ روانگی سے رہ گیا۔ دوسرے دن چھٹی تھی لہٰذا تار گھر بھی بند تھا، مگر انہوں نے دُگنی قیمت دے کر باقی اداریہ بھیجا۔ اگرچہ اس سارے عمل میں بہت پیسہ خرچ ہوا، اور اُن کے پاس پیسوں کی فراوانی بھی نہ تھی۔ تاہم، انہوں نے اس وقت پیسوں کی بجائے کام کی اہمیت کو فوقیت دی۔
مالی مشکلات کے ساتھ چوںکہ اُنہیں کوئی اچھا معاون مدیر بھی نہ مل سکا۔ لہٰذا کامریڈ کو تقریباً سوا سال بعد ہی 22 جنوری 1926ء کو بند کرنا پڑا۔ اسی طرح ’’ہمدرد‘‘ بھی 9نومبر 1924ء کو دوبارہ نکالا لیکن پھر نامساعد حالات کی وجہ سے 12 اپریل 1929ء کو اسے بھی بند کردیا۔
ہمدرد کی اشاعت کے دوران سینسر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ہمدرد کو سینسر کے لیے بھیجا گیا تو اس میں محمد علی جوہرؔ نے چڑے چڑیا کی ایک کہانی شامل کی تھی۔ سینسر کرنے پر جو صاحب مقرر تھے انہوں نے یہ کہانی خارج کردی۔ جب اُن سے پوچھا گیا کہ اس کہانی میں کیا بات قابلِ اعتراض تھی تو جواب ملا، بھائی! ہے تو یہ چڑیا چڑے کی کہانی اور مطلب بھی صاف معلوم ہوتا ہے مگر ہمدرد والوں سے ڈر ہی لگتا ہے۔ میری روزی کا معاملہ ہے۔ نہ معلوم اس میں بھی کچھ زہر بھر دیا گیا ہو اور جواب دہی میرے سر آپڑے۔‘‘
اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی جوہرؔ کی حسِ لطیف اور حسِ مزاح کتنی زبردست تھی۔ اسی مناسبت سے کچھ لطیفوں کا تذکرہ بھی بے محل نہ ہوگا۔
وہ رام پور کے رہنے والے تھے۔ ایک دفعہ سیتاپور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟ کیوںکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔ مولانا بولے: ’’بھئی کیوں نہیں لوں گا، آخر میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟‘‘
یہ سن کر سب حیران ہوگئے اور پوچھا کہ سیتاپور میں آپ کا سسرال کیسے ہوا؟ تو مولانا بولے، سیدھی سی بات ہے، مَیں رام پور کا رہنے والا ہوں تو ظاہر ہے کہ سیتاپور میرا سسرال ہوا۔‘‘
ایک زمانے میں حکومتِ ہند میںسرڈینس بَرے ہوم ممبر تھے ۔ مولانا نے اپنے اخبار میں لکھا: ’’کون کہتا ہے کہ اسمبلی میں گدھے نہیں ہوتے۔ وہاں بھی ایک گدھا ہے۔ کیا تم نے اسے رینکتے (baryکرتے) ہوئے نہیں سنا؟‘‘یہ چٹکلا ’’لندن ٹائمز‘‘ میں بھی نقل ہوا تھا۔
محمد علی چاہتے تھے کہ عدم تعاون کرنے کے بعد ہندوستانی دوبارہ اسمبلیوں میں نہ جائیں۔ انہی دنوں کا قصہ ہے کہ ایک روز وہ اسمبلی کی کارروائی دیکھنے پریس گیلری میں جاکر بیٹھ گئے۔ پنڈت شام لال نہرو نے انہیں دیکھتے ہی کہا: ’’مولانا! جب آپ یہاں تک تشریف لے آئے ہیں تو نیچے بھی آجائیے۔‘‘ مولانا نے برجستہ جواب دیا: ’’مَیں اس بلندی سے آپ کی پستی دیکھنے آیا ہوں۔‘‘
("I have come here to look down upon you.")
پنڈت شام لال کے ساتھ تمام اراکینِ اسمبلی بھی کھسیانے ہوکر رہ گئے۔
مولانا محمد علی جوہر ؔ نے پہلی عالمی جنگ کے بعد1919ء میں انگلستان کا دورہ کیا تاکہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کو برقرار رکھا جاسکے لیکن انگلستانی حکومت نے مولانا کے اس مطالبے کو مسترد کردیا۔ چناںچہ اُنہوںنے واپس آکر برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے 1920ء میں ’’خلافت کمیٹی‘‘ تشکیل دی جس کے تحت’’خلافت تحریک‘‘ شروع کی گئی جو بعدازاں ’’تحریکِ موالات ‘‘یا ’’تحریک ِعدم تعاون‘‘میں تبدیل ہوگئی۔
مولانا نے برطانوی حکومت کی طرف سے عطا کیے گئے اعزازات اور ’’سر‘‘ کا خطاب لوٹا دیا۔ ہندوستان کے کئی مسلم رہنماؤں نے اس تحریک ِ عدم تعاون کی قولی اور عملی تائید کی جن میں مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری شامل ہیں۔ بعد میں مہاتما گاندھی اور کانگریس پارٹی بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔ تحریک ِ خلافت کے سلسلے میں محمد علی جوہرؔ کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت ہندوستان کے بچّے بچّے کی زبان پر یہ شعر تھا:
بولی اماّں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو
1921ء میں کراچی میں خلافت کمیٹی کااجلاس منعقد ہوا جس میں محمد علی جوہرؔ نے ایک تاریخ ساز اور پُرجوش تقریر کی اور قانون ِ الٰہی کی برتری کا اعتراف کرتے ہوئے انگریزوں کا قانون ماننے سے انکار کردیا۔ جس کی پاداش میں انگریز حکومت نے انہیں باغی قرار دے کر تاریخی مقدمہ چلایا۔ اس کے لیے اُنہیں اور اُن کے ساتھ مولانا شوکت علی، مولانا حسین احمد مدنی، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، مولانا نثار احمد کانپوری، پیر غلام مجدد سندھی اور سوامی شنکر اچاریاجی بھی پکڑ کر کراچی لائے گئے۔ کراچی میں سب سے پہلے ان تمام محترم رہنماؤں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔ پھر 26 دسمبر1921ء کو کراچی کے خالق دینا ہال میں مقدمہ شروع ہوا۔
حفاظتی اقدامات کے تحت ہال کے احاطے کے اردگرد خار دار تار لگائے گئے تھے اور چاروں طرف مسلح پولیس اورفوج ایستادہ تھی۔ اس طرح بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) پر بھی پولیس کا پہرہ تھا۔ احاطے کے اندر150 ہندوستانی اور250 انگریز فوجی تھے۔ ہال کے شمال میں ایک مشین گن بھی نصب کی گئی۔ صبح سویرے ہی سے سڑک پر لوگوں کا اجتماع شروع ہوگیا تھا۔ تاہم، ہال کے اندر جانے والے کم تھے کیوںکہ تارکینِ موالات نے عدالت کا بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ جو لوگ ہال کے اندر تماشا دیکھنے گئے ان میں اکثر وکلا وبیرسٹر صاحبان، طلباء و دیگر موالاتی شامل تھے۔ تارکینِ موالات میں سوائے رپورٹروں اور مشیرانِ قانون کے کوئی نہ تھا۔ لیڈر صاحبان ایک بند موٹرلاری میں لائے گئے۔ ان کی موٹر سے آگے ایک موٹرلاری میں مسلح ہندوستانی پولیس تھی اور پیچھے دو موٹرلاریوں میں مسلح گورے فوجی بھرے ہوئے تھے۔ جب ’’ملزمان‘‘ وہاں پہنچے تو سڑک پر کھڑے ہوئے لوگوں نے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے بلند کیے۔ آخر مقدمے کی کارروائی کے بعد عدالت نے انہیں ’’باغی‘‘ قرار دے کر دو سال کے لیے قید کی سزا سنا دی۔ دوسرے ملزمان کو بھی محمد علی کے جرم میں معاون قرار دیتے ہوئے دو سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ صرف ملزم نمبر6 (شنکر اچاریا) کو بَری قرار دیا۔ رہا ہونے کے بعد محمد علی نے دوبارہ مسلمانوں کے حقوق کی جدوجہد شروع کردی۔ اُن کا انگریزوں سے مطالبہ تھا کہ مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں کو خودمختاری دی جائے۔ چناںچہ انہوں نے قائدِاعظم کے ساتھ مل کر سائمن کمیشن کا بائیکاٹ کیا اور مسلم لیگ کی سرگرمیوں میں دلچسپی لینی شروع کردی۔
محمد علی نے خرابیٔ صحت کے باوجود13نومبر1930ء کو لندن میں ہونے والی پہلی گول میز کانفرنس میں شمولیت کے لیے لندن کا سفر اختیار کیا۔ اس سفر میں اُن کی بیگم بھی ساتھ تھیں۔ وہ کانفرنس میں شریک ہوئے تو اس حالت میں کہ کھڑے بھی نہیں ہوسکتے تھے۔ ذیابیطس کے پرانے مریض، دل کا عارضہ، بلڈپریشر بھی بڑھا ہوا، سانس اُکھڑی ہوئی، جسم پر سوجن اور بینائی بھی کمزور۔۔۔۔۔ پھر بھی گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے جو لاجواب تقریر کی وہ دنیا کی سیاسی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گی۔ وہ حکومت ِ برطانیہ کے بڑے بڑے ارکان کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت بے باکی سے گرجے:
’’ہمیں تجاویز کی ضرورت نہیں اور نہ اس بات کی پروا ہے کہ آپ ہمارے لیے کس قسم کا آئین تیار کرتے ہیں۔ ہمیں انسانوں کی ضرورت ہے، کاش سارے انگلستان میں ایک فرد بھی ایسا ہوتا جو انسان کہلانے کا مستحق ہوتا۔ مَیں ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے لندن آیا ہوں اور آزادی کا پروانہ لے کر ہی واپس جاؤں گا۔ اگر تم مجھے آزادی نہیں دوگے تو یہاں ایک قبر کی جگہ دینی ہوگی۔ مَیں ایک آزاد ملک میں تو مرنا پسند کروں گا لیکن غلام ملک میں واپس نہیں جاؤں گا۔‘‘
اُن کا یہ قول سچا ثابت ہوا اور4جنوری 1931ء کو گول میز کانفرنس کی ایک کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے اُن کے دل کی دھڑکن بند ہوگئی۔ مفتیٔ اعظم فلسطین الحاج سیّد امین الحسینی کی تحریک پر اُن کی نعش فلسطین لے جائی گئی جہاں اُن کے جسدِخاکی کو سرزمینِ انبیاء بیت المقدس کے گوشے میں جگہ ملی۔ جہاں آج بھی ان کی قبر موجود ہے۔ انتقال کے وقت ان کی عمر محض 52 برس تھی۔
ہے رشک ایک خلق کو جوہرؔ کی موت پر
یہ اُس کی دین ہے جسے پروردگار دے
اتفاق سے یہ شعر بھی خود محمد علی جوہرؔ کا ہے۔
اُن کی تدفین پر مصر کے شاعر احمد شوقیؔ نے ایک چھوٹی سی نظم لکھی جس میں اُن کے پورے سیاسی کردار کو سمودیا۔
اے بیت المقدس کی سرزمین!
تجھے مبارک ہو
کہ تیری آغوش میں ایک نیا مہمان آیا ہے
وہ تیرے لیے اجنبی نہیں
کہ اُس نے تیرے فرزندوں کی اعانت کی ہے
وہ مشرق کے عوام کے لیے ہر طاقت سے برسرِ پیکار رہا
اور اسلام اس کا اوڑھنا بچھونا تھا
نیل کی لہریں اسے یاد کریں گی
اور تُرک اس کی سچی تڑپ کو کبھی نہیں بھولیں گے
ہندوستان اُسے ہمیشہ یاد رکھے گا
کہ وہ اس کے لیے موت تک بے قرار رہا
_______
حمیرا اطہر پاکستان کی ایک معروف صحافی ہیں۔ ان کا تعلق، اگرچہ علی گڑھ کے تعلیمی ماحول سے نہیں رہا تاہم، وہ بھی اسی سورج بنتے چراغ کی َلو ہیں جو سرسیّد احمد خان نے بر ِصغیر کے مسلمانوں کے لیے روشن کیا تھا۔ حمیرا اطہر نے 1976ء میں کراچی یونیورسٹی سے شعبۂ صحافت میں ایم اے کیا۔ اور کراچی یونیورسٹی کی تاریخ کو کھنگالا جائے تو وہاں کے اساتذہ میں بھی سرسیّد اور علی گڑھ کے روشن چراغ اپنی تابانیاں اُجالتے نظر آتے ہیں۔ حمیرا کا ایک اعزاز یہ بھی ہے کہ 1981ء میں بھارت کی سیاحت کے دوران نہ صرف اس وقت کی وزیرِ اعظم ہند آنجہانی اندرا گاندھی کا انٹر ویو کیا بلکہ علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے افسر محمد احمد کی خصوصی دعوت پر علی گڑھ یونیورسٹی کا دورہ بھی کیا۔