بے جا خیالات اور اُن سے نجات - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Tuesday, 27 August 2019

بے جا خیالات اور اُن سے نجات

0 comments
اپنی بات

السّلام علیکم!

فکریں اور پریشانیاں گویا ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں۔ گھریلو اور کاروباری الجھنیں، حساباتی گھن چکر یا کاروباری پارٹنرز کی ہیراپھیریاں۔۔۔۔ دماغ چاٹ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ طرح طرح کے خیالات اور وسوسے گھیر لیتے ہیں اور دل بہت پریشان رہنے لگتا ہے۔ بے جا خیالات اور توہمات لوگوں کو جذباتی، چڑچڑا اور ذہنی مریض بھی بنا دیتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بعض اوقات نماز میں بھی غیرضروری خیالات ستانے لگتے ہیں۔ ایسے میں ہمیں اپنے عقائد اور دین کے بارے میں بھی شک ہونے لگتا ہے اور ہم سہم کے رہ جاتے ہیں۔ ہمیں اپنا ایمان خطرے میں پڑتا محسوس ہوتا ہے۔
عموماً دل میں آنے والے خیالات چار قسم کے ہوتے ہیں:
 1۔ اپنے عقائد کے بارے میں برے خیالات آنا۔ اس کا حل یہ ہے کہ جب تک انسان اپنے دل، زبان اور عمل سے مومن ہے، اسے مطمئن رہنا چاہیے۔ یہ خیالات اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے بلکہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی کے بقول، ان پر خوش ہونا چاہیے، کیوںکہ مومن کی خوشی شیطان کو ہرگز گوارا نہیں۔ جب شیطان دیکھے گا کہ جو وسوسے اس نے پریشان کرنے کے لیے ڈالے، وہ اس پر خوش ہو رہا ہے تو مایوس ہوکر اس کا پیچھا چھوڑ دے گا۔
2۔ گناہ اور فسق و فجور کرنے کا خیال دل میں آنا۔ اس کے حوالے سے علمائے کرام لکھتے ہیں: محض گناہ کا خیال پیدا ہونے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ چناںچہ ایسے موقعے پر اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے کسی اور کام میں مشغول ہوجانا چاہیے۔
3۔ تیسری قسم نماز میں آنے والے خیالات کی ہے۔ اگرچہ جائز چیزیں ہی سوچ رہا ہو، مگر نماز میں ہونے کی وجہ سے ان سے نجات پانا ضروری ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنا دھیان نماز میں ادا کیے جانے والے الفاظ پر رکھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے کسی نے پوچھا، نماز میں خیال کہیں اور چلاجاتا ہے، کیا کروں؟ مولانا تھانویؒ نے جواب دیا، ’’خیالات کا آنا گناہ نہیں، خیالات کا لانا گناہ ہے۔‘‘ لہٰذا نماز کے دوران خیال دوسری طرف چلا جائے تو فوراً اسے جھٹک کے نماز کی طرف متوجہ ہوجائے۔
4۔ چوتھی قسم کے خیالات وہ ہیں جنھیں کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ بس دل بے وجہ پریشان اور بوجھل بوجھل سا رہتا ہے۔ ایسا دراصل دل کو اس کی غذا نہ ملنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اور یہ  غذا اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔ اللہ کا نام لینے سے دل مطمئن ہوتا ہے، سکون نصیب ہوتا ہے۔ بے وجہ کی پریشانی ختم ہوجاتی ہے۔ لہٰذا، بندوں کے حقوق پورے پورے ادا کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی کامل طور پر ادا کرتے رہیں۔ فضول گپ شپ کرنے، فارغ بیٹھنے اور غیراخلاقی و غیراسلامی سرگرمیوں میں مصروف ہونے کی بجائے اللہ کے ذکر سے زبان تر رکھیں۔ دل کو تقویت ملے گی، راحت اور ٹھنڈک محسوس ہوگی۔

آپ کی خوشیوں اور کام یابیوں کے لیے دعا گو 
 باجی حمیرا اطہر

No comments:

Post a Comment