نوحہ سرگزشتِ افتاب مصنف: حُسن بانو قزلباش - Rashid Butt
چملہ حقوق محفوظ ہیں. Powered by Blogger.

Thursday, 29 August 2019

نوحہ سرگزشتِ افتاب مصنف: حُسن بانو قزلباش

0 comments

تحریر: رشید بٹ 
11نومبر2003ء

رنگ روپ ، چہرے مہرے، ایک ان کہی دمک سے ، جو کبھی شہابی لگتی تو کبھی مہتابی ۔ وہ اس دنیا کی مخلوق نہیں لگتے تھے ، بہر حال تھے اسی دنیا کے باسی، کہ یہیں رہتے بستے عمر بِتاچکے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کے ایک استاد نے ان کی ہندومجبوبہ کو دیکھ کر اسے گولڈن گرل (Golden Girl) کا نام دے دیا تھا۔ آفتاب عالم قزلباش نہ تو میری ’’میری محبوبہ‘‘ تھے اور نہ گولڈن گرل ۔ ہاں وہ گولڈن بوائے ضرور تھے اور وہ بھی ۔ گولڈن اولڈبوائے۔ حقیقی معنوں میں دیکھا جائے تو ’’محبوبہ ‘‘ وہ اپنی بیوی حُسن بانو کے تھے ۔ برسوں پہ پھیلی رفاقتوں کے باوصف، میں تو کیا ،کوئی بھی بلکہ خود میاں بیوی بھی شاید نہ جان پائے ہوں کہ دونوں میں سے محبوب کون تھا اور محبوبہ کون؟
میری اُن کی پہلی ملاقات اُن ہی کے ہاں کھانے کے میز پر ہوئی ۔ کب؟ وقت کے پیمانے سے ناپناچاہوں تو شاید ممکن نہ ہو کہ بعض اوقات لمحاتی وابستگی صدیوں کے تعلق پر بھاری پڑجاتی ہے ۔ چائے آئی تو پیالی قدرے چھوٹی تھی ۔ کسی تمہید کے بِنا ہی کہنے لگے۔ ایک لطیفہ سنو’’لکھنؤ کی ایک تقریب میں خاصی تاخیر سے مہمانوں کو چائے پیش کی گئی ۔ چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں۔ میری پیالی سامنے پڑی رہی۔ میزبان سے رہا نہ گیا تو بولے ، جناب! چائے لیجئے نا۔ میں نے گردن ایک طرف جھکادی اور جواب دیا، ہاں ، یہ چائے میرے کان میں ڈال دیجئے۔ ‘‘ تب تک میں چائے ختم کرچکا تھا۔ 
وہ میرے دوست تھے یا میں ان کا دوست تھا، یہ تعین کرنا بھی شاید اب میرے بس میں نہیں۔ ہم جب بھی ملتے دوستوں کی طرح ہی ملتے تھے ۔ بسااوقات ملاقاتوں میں طویل وقفے حائل ہوجاتے ، مگر اتنا ضرور ہے کہ ایک ملاقات کی خوشبو، اگلی ملاقات تک قائم رہتی تھی۔ وہ دوڈھائی برس قبل بائی پاس کرواچکے تھے۔ ڈاکٹروں نے سیڑھیاں چڑھنے سے منع کر رکھا تھا مگر میں نے دیکھا کہ کہیں ایسی نوبت آجاتی تو کوشش یہی کرتے کہ بچوں کی طرح سیڑھیاں پھلانگتے ہوئے سب سے آگے آگے چلیں۔ ڈوبتے سورج والی عمر کے اس حصے میں بھی ان میں ایک بچے، ایک لڑکے، ایک جواں سال جیسی توانائیاں تھیں۔ جسمانی طور پر نہ سہی ، ذہنی طور پریہ توانائیاں ضرور تھیں۔ بلند حوصلہ ‘پُر عزم ، ایک بوڑھا بچہ، جسے لوگ آفتابِ عالم قزِلباش کے نام سے جانتے تھے ۔ 
میری بڑی خواہش تھی کہ ان کے دائمی رخت سفر باندھنے سے پہلے یہ کتاب، ان کی سرگزشت، جو ان کی بیوی محترمہ حُسن بانو قزِ لباش نے داستان گوئی کے خوبصورت انداز میں لکھی، چھَپ کر ان کے ہاتھوں میں آجائے، مگر قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا ۔ 5اکتوبر2003ء کو یہ گولڈن بوائے سونے کی ابدی کان میں واپس چلا گیا۔ 
اور بحیثیت پبلشر، میرے یہ تاثراتی الفاظ، پبلشر کا نوحہ بن کر رہ گئے۔ 

بشکریہ سرگزشتِ افتاب

No comments:

Post a Comment